محمد خلیل الرحمٰن بھائی نے محفل پر دس سال میں اپنا رنگ خوب جمایا ہے۔ اور بلاشبہ ہر فن مولا کہلانے کے لائق ہیں۔
طنز و مزاح کا میدان ہو تو کیا شاعری اور کیا نثر، ہر دو میدان کے شہسوار ہیں۔ سفر نامے اس انداز سے تحریر کرتے ہیں کہ پڑھنے والا ساتھ سفر کر رہا ہو۔ زیادہ رجحان طنز و مزاح کی طرف ہونے کے باوجود سنجیدہ مضامین بھی قاری کو اپنی جانب متوجہ رکھتے ہیں۔
مزید کسی تاخیر کے، خلیل بھائی کا اردو محفل پر نثری سفر پیشِ خدمت ہے:

فسانہ آزاد: اباجان کی داستانِ حیات
دیباچہ بانگِ درا: ایک ایکٹ کا کھیل
ہیری پوٹر اِن ٹربل: ایک کھیل( فارس)
علم الصرف ایک مبتدی کی نظر سے
علم النحو ایک مبتدی کی نظر سے
علم النحو ایک مبتدی کی نظر سے (۲)
جیون میں ایک بار آنا سنگا پور
المانیہ او المانیہ۔ ۔جرمنی کی سیر
سنگاپور کا تصویری سفر نام۔ ۲۰۱۰ء
ہوا کے دوش پر۔ سائبر ادب
شہر آشوب
ہیلن آف ٹرائے
پرنس۔ نکولو میکیاولی۔(ترمیم و اضافے کے ساتھ)
کفارہ ۔ایک جائزہ
شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ
شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ- 2 | اردو محفل فورم (urduweb.org)
دیباچہ: غالب کے اڑیں گے پرزے::از: محمد خلیل الرحمٰن
ریاضی سیکھنے کا بنیادی قاعدہ
ڈرامہ: ہمارے خان صاحب:از: محمد خلیل الرحمٰن
گاندھی گارڈن ایک طنزیہ:از: محمد خلیل الرحمٰن
ولندیزیوں کے دیس میں
تبدیلی آگئی ہے
ایک بیکل گزاری ہوئی اتوار کی صبح
اردو محفل پر مشینوں کا قبضہ: دوسرے ملینیم کی ڈی کلاسئی فائی کی گئی کچھ فائلیں
ہماری شاعری اور اصلاح کا احوالِ واقعی ( ذیشان بھائی کے عروضی انجن پر بے لاگ تبصرہ)
وزل: ایک نئی صنفِ سخن کا تعارف
پاکستان اور امریکہ
طاہرہ دیوی شیرازی کون؟
سفر منطقہ غربیہ کے از محمد خلیل الر حمٰن
وہ جسے چاہا گیا:: ایک نئے انداز میں
ہمارے انوکھے مہمان
اردو محفلینِ کراچی کی ملاقات کا آنکھوں دیکھا حال ، کچھ اپنی کچھ دیگر شرکا کی زبانی
ہماری پانچ دن کی بادشاہت:: محمد خلیل الرحمٰن
ایک یادگار ملاقات
روداد محفلین کراچی چیپٹر کی تیسری ملاقات منعقدہ سولہ مارچ سنہ دو ہزار انیس کی
آئی ٹی کے ساتھ ہمارا ہنی مون
اسلامی سائنسی جمہوریہ پاکستان کا مدینے کی ریاست کی جانب پہلا بڑا قدم
امیدِ بہار : ایک کھیل از : محمد خلیل الرحمٰن
"محکمۂ زراعت کی جانب سے ھائیبرڈ بیج کا کامیاب تجربہ"
کراچی اور اسپرانتو
تبصرہ کتب - محمد حفیظ الرحمٰن کا پہلا شعری مجموعہ اعجاز عبید صاحب نے شائع کردیا

کالم:
ذاتی کتب خانہ - زمیں ظالم ہے از محمد خلیل الرحمٰن | اردو محفل فورم (urduweb.org)
ذاتی کتب خانہ - ادبی اصطلاحات از پروفیسر انور جمال | اردو محفل فورم (urduweb.org)
ذاتی کتب خانہ - شرلاکینز کے لیے ایک خوشخبری: شرلاک ہومز: قاتل نظم اور دیگر کہانیاں | اردو محفل فورم (urduweb.org)
ذاتی کتب خانہ - مجموعہ ممتاز شیریں | اردو محفل فورم (urduweb.org)
ذاتی کتب خانہ - رسم الخط اور انتظار حسین | اردو محفل فورم (urduweb.org)کتابوں کا اتوار بازار اور ہماری اوڈیسی :: از: محمد خلیل الرحمٰن
فالٹ لائینز کو پہچانیے


تو جناب شام کی چائے پیجیے اور خلیل بھائی کی نثر کا مزا لیجیے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
محمد خلیل الرحمٰن بھائی نے محفل پر دس سال میں اپنا رنگ خوب جمایا ہے۔ اور بلاشبہ ہر فن مولا کہلانے کے لائق ہیں۔
طنز و مزاح کا میدان ہو تو کیا شاعری اور کیا نثر، ہر دو میدان کے شہسوار ہیں۔ سفر نامے اس انداز سے تحریر کرتے ہیں کہ پڑھنے والا ساتھ سفر کر رہا ہو۔ زیادہ رجحان طنز و مزاح کی طرف ہونے کے باوجود سنجیدہ مضامین بھی قاری کو اپنی جانب متوجہ رکھتے ہیں۔
مزید کسی تاخیر کے، خلیل بھائی کا اردو محفل پر نثری سفر پیشِ خدمت ہے:

فسانہ آزاد: اباجان کی داستانِ حیات
دیباچہ بانگِ درا: ایک ایکٹ کا کھیل
ہیری پوٹر اِن ٹربل: ایک کھیل( فارس)
علم الصرف ایک مبتدی کی نظر سے
علم النحو ایک مبتدی کی نظر سے
علم النحو ایک مبتدی کی نظر سے (۲)
جیون میں ایک بار آنا سنگا پور
المانیہ او المانیہ۔ ۔جرمنی کی سیر
سنگاپور کا تصویری سفر نام۔ ۲۰۱۰ء
ہوا کے دوش پر۔ سائبر ادب
شہر آشوب
ہیلن آف ٹرائے
پرنس۔ نکولو میکیاولی۔(ترمیم و اضافے کے ساتھ)
کفارہ ۔ایک جائزہ
شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ
کتابوں کا اتوار بازار اور ہماری اوڈیسی :: از: محمد خلیل الرحمٰن
دیباچہ: غالب کے اڑیں گے پرزے::از: محمد خلیل الرحمٰن
ریاضی سیکھنے کا بنیادی قاعدہ
ڈرامہ: ہمارے خان صاحب:از: محمد خلیل الرحمٰن
گاندھی گارڈن ایک طنزیہ:از: محمد خلیل الرحمٰن
ولندیزیوں کے دیس میں
تبدیلی آگئی ہے
ایک بیکل گزاری ہوئی اتوار کی صبح
اردو محفل پر مشینوں کا قبضہ: دوسرے ملینیم کی ڈی کلاسئی فائی کی گئی کچھ فائلیں
ہماری شاعری اور اصلاح کا احوالِ واقعی ( ذیشان بھائی کے عروضی انجن پر بے لاگ تبصرہ)
وزل: ایک نئی صنفِ سخن کا تعارف
پاکستان اور امریکہ
طاہرہ دیوی شیرازی کون؟
سفر منطقہ غربیہ کے از محمد خلیل الر حمٰن
وہ جسے چاہا گیا:: ایک نئے انداز میں
ہمارے انوکھے مہمان
اردو محفلینِ کراچی کی ملاقات کا آنکھوں دیکھا حال ، کچھ اپنی کچھ دیگر شرکا کی زبانی
ہماری پانچ دن کی بادشاہت:: محمد خلیل الرحمٰن
ایک یادگار ملاقات
روداد محفلین کراچی چیپٹر کی تیسری ملاقات منعقدہ سولہ مارچ سنہ دو ہزار انیس کی
آئی ٹی کے ساتھ ہمارا ہنی مون
اسلامی سائنسی جمہوریہ پاکستان کا مدینے کی ریاست کی جانب پہلا بڑا قدم
امیدِ بہار : ایک کھیل از : محمد خلیل الرحمٰن
"محکمۂ زراعت کی جانب سے ھائیبرڈ بیج کا کامیاب تجربہ"

تو جناب شام کی چائے پیجیے اور خلیل بھائی کی نثر کا مزا لیجیے۔
جزاک اللہ ۔ خوش رہیے تابش بھائی
 
جی ضرور شکایت کیجیے۔
تو پھر خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لیں :)

حالیہ عرصہ میں آپ کا پلڑا سیاسی موضوعات کی جانب ضرورت سے زيادہ جھکا ہوا معلوم ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے کچھ ایسا لگا کہ دیگر موضوعات پر تخلیقی کام میں کافی کمی ہے۔
خیر یہ میرا تاثر ہے، شاید غلط ہو۔ :)
 
تو پھر خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لیں :)

حالیہ عرصہ میں آپ کا پلڑا سیاسی موضوعات کی جانب ضرورت سے زيادہ جھکا ہوا معلوم ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے کچھ ایسا لگا کہ دیگر موضوعات پر تخلیقی کام میں کافی کمی ہے۔
خیر یہ میرا تاثر ہے، شاید غلط ہو۔ :)
آپ کی شکایت اس حد تک تو درست ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے ذہن کام نہیں کررہا اور کچھ تخلیقی کام نہیں ہوپارہا۔ شاید آخری نظم پریم کتھا: براڈوے کے ایک مشہور کھیل کے گیت کا اردو قالب | اردو محفل فورم (urduweb.org) تھی۔اس عرصے میں سیاسی خبروں کی جانب زیادہ توجہ ہورہی ہے کیونکہ کچھ نہ لکھ پانے کی بے چینی ہمیں یونہی محفل پر مختلف مراسلوں پر کلک کرتے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ کوشش کریں گے کہ سیاست کی جانب توجہ کم رہے ۔
 

لاریب مرزا

محفلین
خلیل بھائی ایک منجھے ہوئے لکھاری ہیں. ان کا تجربہ ان کی تحاریر سے نمایاں ہوتا ہے. چاہے وہ تراجم ہوں، سفر نامہ ہو، کوئی ادبی تحریر ہو یا کسی محفلین سے ملاقات کا احوال. تابش بھائی نے بالکل درست کہا کہ ان کو ہر فن مولا کہنا بے جا نہ ہو گا. بلاشبہ ان کا شمار اردو محفل فورم کے بہترین نثر نگاروں میں ہوتا ہے.
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
خلیل بھائی کا تذکرہ تو آخر میں ہونا چاہیے تھا۔۔۔ جس طرح مشاعروں کی تقدیم و تاخیر ہوا کرتی ہے۔ اس کو نثر میں بھی ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے۔۔۔۔ اور خلیل بھائی کا تعارف لکھنے کا میں نے سوچ رکھا تھا۔۔۔۔ اب یہ دوسرا ظلم کیا آپ نے۔۔۔۔ بہرحال حافظ قرآں سمجھ کر چھوڑ رہا ہوں کہ جیسے آپ نے مراسلے شامل کیے۔ میں شاید ایسے شامل نہ کر پاتا۔۔۔۔۔

خلیل بھائی کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ کیوں کہ جتنی بھی کی جائے محسوس یہی ہوتا ہے کہ کمی ہنوز قائم ہے۔ محفل سے باہر جھانک کر باقی کی دنیا میں بھی دیکھیں تو ایسا لکھنے والے آپ کو خال ہی نظر آئیں گے۔ اور میرے لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ ایسا لکھنے والوں کو ہم سلام کر لیتے ہیں اور وہ جواب بھی دے دیتے ہیں۔ اللہ خلیل بھائی کو شاد آباد رکھے۔ آمین
 
خلیل بھائی ایک منجھے ہوئے لکھاری ہیں. ان کا تجربہ ان کی تحاریر سے نمایاں ہوتا ہے. چاہے وہ تراجم ہوں، سفر نامہ ہو، کوئی ادبی تحریر ہو یا کسی محفلین سے ملاقات کا احوال. تابش بھائی نے بالکل درست کہا کہ ان کو ہر فن مولا کہنا بے جا نہ ہو گا.
آداب!

جزاک اللہ بٹیا!

بلاشبہ ان کا شمار اردو محفل فورم کے بہترین نثر نگاروں میں ہوتا ہے.

بلاشبہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ اردو محفل کے نثر نگاروں میں ہمارا بھی شمار ہوتا ہے!
 
اور خلیل بھائی کا تعارف لکھنے کا میں نے سوچ رکھا تھا۔۔۔۔

اس سوچ پر عملدرآمد کرنے میں اب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ :)

تابش بھائی نے نہ صرف کمال مہربانی سے ہماری تحریروں کے لنک ڈھونڈکر شامل کیے ہیں کہ ان ہی کا کارنامہ ہے بلکہ ہماری تعریفوں کے کئی کلومیٹر لمبے پل بھی باندھ دئیے ہیں ۔ ادھر نین بھائی کے ارادوں کا تو سوچ کر ہی منہ میں پانی بھر آیا۔ کیا مزیدار اور چلبلی تحریر ہوگی۔ ضرور باضرور لکھیے لیکن اس میں ہمارا تعارف ہو تعریف نہ ہو۔ جزاک اللہ !

خوش رہیے صاحبان!
 
آخری تدوین:
تبصرہ ادھار۔
جب تک خلیل بھائی کوچۂ سیاست کو چھوڑ کر کوئی نئی ادبی تحریر نہیں لکھیں گے ، تب تک اس لڑی میں تبصرہ ادھار ۔
اب تو اے کوچۂ سیاست تیری آوارہ گردی کو چھوڑنا ہی پڑے گا!

پھرتے تھے مارے مارے
تیری گلی میں پیارے
لے آنا جانا ہم نے چھوڑ دیا چھوڑ دیا

 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اب تو اے کوچۂ سیاست تیری آوارہ گردی کو چھوڑنا ہی پڑے گا!

پھرتے تھے مارے مارے
تیری گلی میں پیارے
لے آنا جانا ہم نے چھوڑ دیا چھوڑ دیا

اب دل کو جلانا بھی چھوڑ دیجئے :) اور جلدی سے کوئی ترجمہ ، کوئی ہزل وزل ہی لکھ ڈالئے ۔
مارٹن گرین برگ کی کتاب 100Dastardly Little Detective Stories میری پسندیدہ کتابوں میں سے ہے ۔ اگر آنلائن مل جائے تو اس کی کہانیوں کا ترجمہ کیا جاسکتا ہے ۔ مختصر کہانیاں ہیں ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ادھر نین بھائی کے ارادوں کا تو سوچ کر ہی منہ میں پانی بھر آیا۔ کیا مزیدار اور چلبلی تحریر ہوگی۔ ضرور باضرور لکھیے لیکن اس میں ہمارا تعارف ہو تعریف نہ ہو۔ جزاک اللہ !
ان شاء اللہ جلد ہی ۔۔۔۔ تعریف تو میں کروں گا ہی۔۔۔ بلکہ میں صرف تعریف ہی کرتا ہوں۔۔۔ کچھ اور مجھ سے ممکن نہ ہو سکے گا۔۔۔۔ اپنے محمداحمد بھائی اور ظہیراحمدظہیر بھائی تصدیق کر سکتے ہیں۔
 
شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ -2

محمد خلیل الرحمٰن​


قاعدہ کا پہلا حصہ( شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ | اردو محفل فورم (urduweb.org)) لکھے کچھ عرصہ ہوا۔ مڑ کر دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لطیف پیرائے میں لکھی تحریر اردو محفل پر خاصی مقبول ہوئی۔ پہلے حصے میں مطمحِ نظر یہ تھا کہ شاعری سے نابلد اصحاب بحر سے کچھ واقفیت حاصل کرلیں۔ اب اگلے حصے میں کوشش یہ ہوگی کہ اردو تدریس سے وابستہ اصحاب جو شاعری کی نزاکتوں اور اور اس میں بیان کیے گیے مضامین کی لطافتیوں سے تو یقیناً واقف ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات انہیں شاعری کی تکنیکی باریکیوں سے کماحقہٗ واقفیت نہیں ہوتی، ( گویا وہ شعر کی بلاغت سے تو واقف ہوتے ہیں لیکن فصاحت کے بارے میں کم جانتے ہیں) ان کی معلومات میں کچھ اضافہ کیا جائے۔


ہم جانتے ہیں کہ شعر میں کہی گئی بات میں لطافت و نزاکت اور شاعرانہ تعلی کے ساتھ ساتھ صوتی آہنگ اور موسیقیت کو بھی لازمی دخل ہوتا ہے، جسے ہم شاعری کی زبان میں وزن کہتے ہیں۔ یہ آہنگ شعر سے نکال دیا جائے تو نری نثر بچتی ہے۔ لاکھ کوشش کرکے اسے شعری انداز میں ادا کیا جائے ، شعر کا حق ادا نہیں ہوتا۔


پہلے حصے میں اسی صوتی آہنگ کو سمجھانے کے لیے گا کر شعر پڑھنے پر زور دیا گیا تھا کہ اس سے وزن پورا ہونے کا اندازہ ہو جائے۔ شعر کے وزن کا دار و مدار الفاظ کے املا کے بجائے اس کی صوتی ادائیگی پر ہوتا ہے۔ پہلے حصے ہی سے دو اشعار اس سلسلے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ پہلا حفیظ جالندھری کی نظم کا شعر

تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم
دُڑم دُم، دُڑم دُم، دُڑم دُم، دُڑم​

اور کسی نامعلوم شاعر کا شعر


فاعلاتُن فاعلاتُن، فاعلات
ایک تھپڑ، ایک گھونسہ، ایک لات​


استعمال کیے جاسکتے ہیں۔


اب اگر پہلی نظم کے اس شعر کو دیکھا جائے؛

بیاباں میں اونٹوں کا اِک قافلہ
چلا جارہا تھا دُڑم دُم دڑم​


اور اس کے ہر مصرع کو

تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم تُم، تُڑم​

کے مد مقابل رکھا جائے تو آوازوں کو برابر کرنے سے مندرجہ ذیل صورتِ حال ہوگی؛

بیابا تُڑم تُم

مے اوٹو تُڑم تُم

کا اِک قا تُڑم تُم

فلہ تُڑم


چلا جا تُڑم تُم

رہا تھا تُڑم تُم

دُڑم دُم تُڑم تُم

دُڑم تُڑم


گویا آوازوں یعنی صوتی آہنگ کے اعتبار سے یہ دونوں مصرعے برابر یا ہم وزن ہیں۔


اردو شاعری میں اس طرح مصرعوں کو توڑ کر وزن نکالنے کو تقطیع کہتے ہیں۔ البتہ وزن کے لیے جو باٹ یا اوزان (weight) استعمال کیے جاتے ہیں وہ کچھ اور ہیں۔


اردو شاعری کی کئی اصناف ہیں، جن میں غزل، نظم ، رباعی ، قطعہ وغیرہ شامل ہیں۔


سرِ دست مضمون میں ہم صرف غزل کی ہیئت کو استعمال کرتے ہوئے شاعری کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔


اردو غزل کا سانچہ کچھ اس قسم کا ہے کہ اس کا ہر شعر اپنے مضمون کے اعتبار سے مکمل ہوتا ہے۔ غزل کے ہر ایک شعر میں دو حصے ہوتے ہیں۔ ہر حصہ ایک مصرع کہلاتا ہے۔ دونوں مصرعوں کا وزن برابر ہوتا ہے۔


غزل میں کم از کم پانچ اشعار ہوتے ہیں۔ تمام اشعار کا وزن برابر ہوتا ہے۔ قدما ء نے غزل کے لیے کچھ مخصوص بحریں ہی استعمال کی ہیں۔


غزل کے اوزان یا باٹ:

صوتی اعتبار سے اردو شاعری کے اوزان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔

فعولن، فاعلن، فعلاتن، فاعلاتن، مفاعیلن، مفعولات وغیرہ

گھبرائیے نہیں۔ یہ اوپر حفیظ جالندھری کی نظم میں استعمال کیے گئے باٹوں کی طرح ہی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ انہیں ہر شاعر استعمال کرتا ہے۔ ان ہی اوزان اور ان جیسے کچھ مزید اوزان یا باٹوں سے ملا کر غزل کی کچھ مخصوص بحریں ترتیب دی گئی ہیں۔ شعرائے کرام عام طور پر انہی بحروں کو استعمال کرتے ہیں۔


مثال کے طور پرایک بحر کچھ یوں ہے

مفعول فاعلاتُن، مفعول فاعلاتُن​

یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ پچھلے حصے میں ہم نے اسی بحر کے کئی اشعار گنگنائے تھے۔ یعنی


یارب رہے سلامت، اردو زُباں ہماری
ہر لفظ پر ہے جسکے قربان جاں ہماری​

اس کے حصے بخرے یعنی تقطیع کی جائے تو کچھ یوں ہوگی؛

یارب ر مفعول

ہے سلامت فاعلاتُن

اردو زُ مفعول

باں ہماری فاعلاتُن


ہر لفظ مفعول

پر ہے جسکے فاعلاتُن

قربان مفعول

جاں ہماری فاعلاتُن


اسی کلیے کے تحت ہم اس بحر کے بقیہ اشعار کی تقطیع بھی بآ سانی کر سکتے ہیں۔

اب تذکرہ کرتے ہیں حفیظ جالندھری کی نظم

دُڑم دُم، دُڑم دُم، دُڑم دُم ، دُڑم​

کا کہ جس کی اصل بحر

فعولن، فعولن فعولن فعو​

ہے۔ یعنی؛

دُڑم دُم فعولن

دُڑم دُم فعولن

دُڑم دُم فعولن

دُڑم فعو


اسی بحر میں محمد حسین آزاد کی نظم کا شعر کچھ یوں تھا؛

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی​

اب اس شعر کے بھی حصے بحرے یعنی تکنیکی طور پر ’تقطیع‘ کرنے سے مندرجہ ذیل ٹکڑے ملتے ہیں؛

سویرے فعولن

جو کل آ فعولن

کھ میری فعولن

کھُلی فعو


عجب تھی فعولن

بہار رُر فعولن

عجب سے فعولن

ر تھی فعو


یاد کیجیے کبھی آپ نے کسی محفل میں شرارت سے یه شعر ضرور پڑھا ہوگا


اکہتر بہتر تہتر چوہتر
پچھتر، چھہترستتر اٹھتر​


اسے فعولن فعولن فعولن فعولن کے ساتھ مربوط کرکے دیکھیں تو پتا چلے گا کہ یه دونوں ہم آہنگ ہیں

اکہتر فعولن

بہتر فعولن

تہتر فعولن

چوہتر فعولن


پچھتر فعولن

چھہتر فعولن

ستتر فعولن

اٹھہتر فعولن


گویا یه یونہی تکا نہیں تھا بلکہ باقاعدہ

فعولن فعولن فعولن فعولن​

کی بحر میں تھا


اسی طرح ایک اور شعر


اکسٹھ باسٹھ تریسٹھ چونسٹھ
پینسٹھ چھیاسٹھ سڑسٹھ اڑسٹھ​


کا بغور مطالعہ اسے

فعلن فعلن فعلن فعلن​

کا ہم آہنگ بتلاتا ہے۔ گویا یه ایک ہی بحر ہے۔ اس کے حصے بخرے یعنی شعری اصطلاح میں تقطیع کچھ یوں ہوگی؛

اکسٹھ فعلن

باسٹھ فعلن

تریسٹھ فعلن

چوسٹھ فعلن


اب ذرا ڈھول کی مندرجہ ذیل تال دیکھیے

ڈما ڈم ڈم، ڈما ڈم ڈم،ڈما ڈم ڈم، ڈما ڈم ڈم​

اگر آپ غالب کی مشہور غزل کو اسی تال پر ڈما ڈم ڈم کرنا چاہیں تو بآسانی کرسکتے ہیں

ہزاروں خوا ڈما ڈم ڈم

ہشیں ایسی ڈما ڈم ڈم

کہ ہر خواہش ڈما ڈم ڈم

پہ دم نکلے ڈما ڈم ڈم

اب اسی ڈما ڈم ڈم کو
مفاعیلن مفاعیلن مفاعلین مفاعیلن​

سے تبدیل کردیں تو اردو شاعری کی ایک اور بحر تیار ہے۔


گویا اب تک ہم نے جن پانچ بحروں کا مطالعہ کیا ہے وہ درج ذیل ہیں

1) مفعول فاعلاتُن، مفعول فاعلاتُن

2) فعولن، فعولن فعولن فعو

اسی بحر میں مندرجہ ذیل غزلوں، نظموں کا مطالعہ اور تقطیع کیجیے؛

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی​

(محمد حسین آزاد)

میں سوئی جو اِک شب تو دیکھا یه خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب​

(ماں کا خواب از علامہ اقبال)


3) فعولن فعولن فعولن فعولن

اسی بحر میں مندرجہ ذیل غزلوں کا مطالعہ اور تقطیع کیجیے؛

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

(مرزا غالب)​

نہ آتے ہمیں اِس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

(علامہ اقبال)

محبت میں یه کیا مقام آرہے ہیں
کہ منزل پہ ہیں اور چلے جارہے ہیں

(جگر مرادآبادی)​

سراپا حقیقت، مجسم فسانہ
محبت کا عالم، جنوں کا فسانہ

(جگر مراد آبادی)​

ترے عشق کی انتہاء چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

(علامہ اقبال)

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

(علامہ اقبال)​


4) فعلن فعلن فعلن فعلن

اسی بحر میں مندرجہ ذیل غزلوں، نظموں کا مطالعہ اور تقطیع کیجیے؛

کوئی یه کہہ دے گلشن گلشن
لاکھ بلائیں ایک نشیمن

( جگر مراد آبادی)

ڈھلکے ڈھلکے آنسو ڈھلکے
چھلکے چھلکے ساغر چھلکے

( ادا جعفری)​



5) مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

اسی بحر میں مندرجہ ذیل غزلوں، نظموں کا مطالعہ اور تقطیع کیجیے؛

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

(مرزا غالب)

چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویداچاند میں، سورج میں، تارے میں

(علامہ اقبال)​


مرزا غالب نے جن معروف بحروں کو اپنی غزلوں میں استعمال کیا ان کی فہرست اردو محفل پر موجود ہے۔ نیز کسی بھی معروف و مستند شاعر کی غزل کی بحر معلوم کرنی ہو تو اس فہرست سے دیکھ لیں یا علم عروض کی کسی کتاب یا اس علم کے کسی بھی ویب صفحے پر موجود معروف بحور کی فہرست کے ساتھ موازنہ کرکے معلوم کی جاسکتی ہے۔ ممکن ہو تو عروض ڈاٹ کام سے بحر معلوم کی جاسکتی ہے۔


غزل کے تمام اشعار ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں۔ پہلے شعر میں شاعر قافیہ اور ردیف کا تعین کرتا ہے۔ ردیف پہلے شعر کے دونوں مصرعوں میں دہرائے جانے والے ایک سے حرف، لفظ یا الفاظ کے مجموعے کو کہا جاتا ہے جبکہ ردیف سے فوراً پہلے ہم آواز الفاظ کو قافیہ کہا جاتا ہے۔ اس پہلے شعر کو غزل کا مطلع کہتے ہیں۔ کسی بھی غزل میں کم از کم ایک مطلع ضرور ہوتا ہے۔


بعد کے اشعار میں یه تکلف برتا جاتا ہے کہ پہلا مصرع اسی بحر کا ہوتا ہے جس میں ردیف و قافیہ کی پابندی نہیں کی جاتی البتہ ہر دوسرے مصرع میں ردیف و قافیہ کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔ آخری شعر جس میں شاعر عموماً اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہتے ہیں۔


پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ غزل میں عام طور پر ہر شعر میں شاعر ایک مکمل مضمون بیان کرتا ہے۔ البتہ اگر کوئی مضمون دو اشعار میں مکمل کوریا ہوتو اسے قطع بند کرنے کے لیے شاعر ان دونوں اشعار سے پہلے "ق" لکھ دیتا ہے۔


امید ہے اس مختصر بیانیے سے قارئین شاعری کے چیدہ چیدہ اہم نکات سے آگاہ ہوچکے ہوں گے۔ ان باتوں کی تفصیل درکار ہو تو ذیل میں علم عَروض کی چند اہم کتابوں اور ویب سائیٹ کے نام دئیے جارہے ہیں جن سے خاطر خواہ استفادہ کیا جاسکتا ہے۔


۱۔ شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ
۲۔ غالب کی استعمال کردہ مانوس بحریں از محمد ریحان قریشی | اردو محفل فورم (urduweb.org)
۳۔ عروضی اصطلاحات | اردو محفل فورم (urduweb.org)
۴۔ علم عروض اور شعری اصطلاحات سے متعلقہ لڑیاں | اردو محفل فورم (urduweb.org)
۵۔ اصلاح کے متمنی اس لڑی کا مطالعہ ضرور کریں | اردو محفل فورم (urduweb.org)
۶۔ شعریت، تغزل، مصرعہ سازی سے متعلق معلومات | اردو محفل فورم (urduweb.org)

۷۔ تقطیع، شاعری اور بلاگ - عروض (aruuz.com)
۸۔ (2) اساسیاتِ اُردُو | Facebook
۹۔ صریرِ خامۂ وارث (muhammad-waris.blogspot.com)
۱۰۔ آؤ شاعری سیکھیں از محمد اسامہ سرسری || Australian Islamic Library : Free Download, Borrow, and Streaming : Internet Archive

ٹیگ:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خلیل بھائی کی ادبی تخلیقات کے بارے میں لکھنے کے لئے تو ایک پورا دفتر چاہئے لیکن مختصراً یہ کہوں گا کہ وہ میرے پسندیدہ نثر نگاروں میں سے ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ان کی نثر میں ان کی شخصیت جھلکتی ہے ۔ میرے پسندیدہ نثر پارے ان کی وہ تحریریں ہیں کہ جن میں وہ کراچی اور کراچی کی زندگی کا حال بیان کرتے ہیں ۔ ان میں ایک روایتی رکھ رکھاؤ اورتہذیب و ثقافت کی خوشبو میں رچا بسا انداز ہوتا ہے ۔ رواداری اور وسیع القلبی ، نفاست اور نرمی یہ سب اقدار منہ بولتی نظر آتی ہیں ۔ ان کے فسانۂ آزاد میں مجھے اپنی زندگی کی کچھ جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔ انکے کراچی میں مجھے اپنا شہر دکھائی دیتا ہے ۔ ایک بات جو خلیل الرحمٰن کو دیگر نثر نگاروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ وہ فلسفے ، تصوف ، روحانیات، مابعدالطبیعات اور اسی قبیل کی دیگر خرافات میں پڑے بغیر ایک عام آدمی کی زندگی کے عام سے پہلوؤں پر بات کرتے ہیں ، ان میں چھپی خوبصورتی سے نہ صرف خود لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ اپنے قاری کو بھی اس میں شریک کرتے ہیں ۔ "ایک بیکل گزاری ہوئی اتوار کی صبح " ہو یا "ہمارے انوکھے مہمان" ان کی ایسی تحریروں کو بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔ ان کا اندازِ بیان تصور میں ایک ایسا دریچہ وا کردیتا ہے کہ جس کے پار ماضی کی بے فکر اور خوش باش دنیا کا منظر صاف نظر آتا ہے ۔ میرا جی چاہتا ہے کہ وہ اس طرح کی اور تحریریں لکھتے رہیں ۔
خلیل بھائی کی ادبی تخلیقات کا ایک بڑا حصہ انگریزی ادب کے اردو ترجمے پر مشتمل ہے ۔ یہ اہم موضوع ایک مستقل تحریر کا متقاضی ہے ۔ یہ ادھار رہا ۔
 
ہمارا پیش لفظ ذیل میں پڑھیے!

پیش لفظ
محمد خلیل الرحمٰن
حفیظ نے اب تک بہت کم غزلیں کہی ہیں، لیکن کسی بھی صاحبِ طرز شاعر کی طرح اس کی غزلوں پر اس کی چھاپ موجود ہے۔ یہ خود ایک ناسٹالجیا کا مارا شاعر ہے۔ اس نے اپنی یوٹوپیا الگ بنا لی ہے جِس میں ناسٹالجیا اور سریلزم کے حسین امتزاج نے ایک عجیب خوابناک سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ناسٹالجیا ایک لا علاج مرض کی طرح اس سے چمٹا ہوا ہے اور سُریلزم اس کے پسندیدہ افسانہ نگاروں انتظار حسین، نیر مسعود اور گیبرئیل گارشیا مارکیز کے افسانوں سے اس کی شاعری میں در آیا ہے۔ حال کی عشقیہ و دیگر خارجی وارداتیں اس کے ذہن پر کوئی تاثر نہیں چھوڑتیں۔ یہ گزشتہ داخلی وارداتوں کی افسردہ یادوں کے گرد سُریلزم کے تانے بانے بن کر غزل کہتا ہے۔

نجانے کِس کو دو عالم میں ڈھونڈتی ہے نظر
نجانے کون یہاں چھپ گیا بُلا کے مجھے


ہمراہ مرے رہا ہے تُو بھی
خوابوں کے طویل سلسلے میں


ممکن ہے لوٹ آئے گیا وقت ایک دن
دیتا ہے دھیان کون اِس اِمکان کی طرف

حفیظ کی انٹروورٹ طبیعت کے پس منظر میں یہ بات قطعاً عجیب نہیں لگتی کہ حفیظ کی شاعری میں روایتی محبوب کے عشوہ و غمزہ و ادا کے قصے یا اس کے عارض و لب کے تذکرے خال ہی ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ روایتی شاعری کا جانا پہچانا رقیبِ رو سیاہ بھی نہیں نظر آتا۔ بس محبوب کے بچھڑنے کا دکھ اور اس سے ملاقات کا شوق شاعر کی داخلی واردات کے طور پر ضرور نظر آتا ہے۔ وہ جب بھی اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے ماحول پر اِک نظرِ غلط ڈالتا ہے اسے لوگوں کے دلوں کا کھوٹ، ان کے برے روئیے لیکن ساتھ ساتھ کائنات میں پھیلی ہوئی فطری مناظر کی سچائی نظر آتی ہے۔


جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
رنگ و بو کے جہاں سے اٹھتا ہے


منزلیں اس غبار میں گم ہیں
جو ترے کارواں سے اٹھتا ہے


طلب کے واسطے حسنِ طلب بھی ہے درکار
طریقے آئیں گے کب عرض مُدّعا کے مجھے


تھپیڑے لو کے بھی جھونکے لگے صبا کے مجھے
جو اُس نے یاد کیا مدتوں، بھلا کے مجھے


جو اُس کے ساتھ نہ گزریں وہ پل سزا ہی تو ہیں
گزارنے ہیں مہ و سال اِس سزا کے مجھے


افسردہ ماحول اس کے اشعار میں رچا بسا ہے

چاندنی بہہ رہی ہے ہر جانِب
چاند شاید پِگھل رہا ہو گا

آنکھوں کو طراوٹ بھی ملے گی تو انہی سے
سایہ بھی ہمیں یہ گھنے اشجار ہی دیں گے


پھر چلنے لگی ہوائے صحرا
دل ڈوب رہا ہے وسوسے میں


اے ابرِ بہار اب نہ ترسا
برداشت کہاں ہے دل جلے میں​


محفوظ ہے تیری ہر نشانی
برگد کے اُسی کھوکھلے تنے میں​


پانی ہمیشہ بہتا ہے ڈھلوان کی طرف
کوہِ بلند و بالا سے میدان کی طرف


یوں رات کے سناٹے میں اگر جاگ اٹھا دل کا درد تو کیا
تم نامِ خدا کا ورد کرو آ جائے گا آرام میاں

پھر جوں ہی وہ اس ماحول میں آنکھیں کھول کر اپنی سُریلزم کی عینک لگاتا ہے ہمیں فوراً احساس دلاتا ہے،


بکھرے ہیں دھنک کے رنگ سارے
صابن کے ذرا سے بُلبلے میں


جنگل میں بس ایک ہی رستہ جس پر بیٹھا کالا ناگ
پاؤں تو ہو گئے من من بھر کے، چھیڑو بین پہ کوئی راگ


تمام رات تو ہمراہ تھیں تری یادیں
گُزر گئی جو شبِ غم، میں ہو گیا تنہا


فلک پر چاندنی ہے اور ستارے رقص کرتے ہیں
کسی کے حکم پر سارے کے سارے رقص کرتے ہیں


نہ جانے آج کیسی لہر اس کے دل میں اٹھی ہے
سمندر جھومتا ہے اور کنارے رقص کرتے ہیں


یقیں ہے بزمِ انجم کا کوئی تو ایسا محور ہے
زمین و آسماں جس کے سہارے رقص کرتے ہیں


یہ ہجر کی رات یہ سناٹا، یہ بھیگی بھیگی چشمِ فلک
تارے بھی ہیں سارے مہر بہ لب اور گم سم ماہِ تمام میاں

جیسے عرض کیا، حفیظ کو نثر میں افسانہ جس انداز سے متاثر کرتا ہے کوئی اور صنف نہیں کر پاتی۔ اس کے ہمہ جہت وسیع مطالعے کے باوجود افسانے کی صنف سے بری طرح گھائل ہے۔ اردو افسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ وہ انتظار حسین کی تحریروں سے متاثر ہے۔ منٹو، نیر مسعود، خالدہ حسین اس کے دیگر پسندیدہ لکھاریوں میں سے ہیں۔ گو حفیظ نے بہت سے غزل گو شعراء کی غزلوں کا بھی بغور اور ناقدانہ مطالعہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ گفتگو میں اس کے نثر و نظم کے اس وسیع مطالعے کا احساس اس خواہش کو شدت کے ساتھ سننے والوں کے دل میں جگہ دیتا ہے کہ کاش حفیظ نثر بھی لکھے تاکہ اردو تنقید کا قاری اس کے وسیع مطالعے کا حظ اٹھا سکے۔


قدرت اور ناسٹالجیا کے بعد حفیظ کا پسندیدہ ترین موضوع آنکھیں ہے جو اس کی کھوئی ہوئی بصارت کے غم کو شدت کے ساتھ محسوس کرواتا ہے، ساتھ ہی یہ خیال بھی سر اٹھاتا ہے کہ شاید اس نے بصارت کے بدلے بصیرت مول لے لی ہے۔​


رو، رو کے جو بہہ گئی ہیں آنکھیں
سنتے تو کہ کیا کہہ گئی ہیں آنکھیں
دیکھا تھا جو اِک اُداس منظر
اپنی تو وہیں رہ گئی ہیں آنکھیں


نجانے کِس کو دو عالم میں ڈھونڈتی ہے نظر
نجانے کون یہاں چھپ گیا بُلا کے مجھے


یہ کِس کی نیم نگاہی کا ہے فسوں طاری
یہ کون دیکھ رہا ہے نظر بچا کے مجھے


حفیظؔ جس کے لیے محوِ انتظار تھا میں
گزر گیا ہے ابھی اِک جھلک دِکھا کے مجھے


دیکھ کر اُس کو سامنے پھر سے
دِلِ ناداں مچل رہا ہو گا


آنکھوں کو طراوٹ بھی ملے گی تو انہی سے
سایہ بھی ہمیں یہ گھنے اشجار ہی دیں گے


خود میرے لیے وہ اجنبی تھا
چہرہ جو مرا تھا آئینے میں


رکھیے ذرا تو مجلسی آداب کا خیال
یوں ٹکٹکی نہ باندھیے مہمان کی طرف


جاتا ہوں جو اُس بزم میں دُکھ اپنا سُنانے
ہمراہ مرے، دیدۂ تر کیوں نہیں جاتا


رکھتا ہے ترے عشق کے دھوکے میں جو مجھ کو
یہ پردہ بھی آنکھوں سے اُتر کیوں نہیں جاتا


بہت عرصہ ہوا دیکھی تھی میں نے اک حسیں وادی
مری آنکھوں میں اب تک وہ نظارے رقص کرتے ہیں


وہ وعدہ کر کے بھول گیا تم کب تک رستہ دیکھو گے
اب دِن تو سارا بِیت چکا اور ہونے آئی شام میاں


دیدنی تھا افقِ دل پہ ستاروں کا ہجوم
ہم وہ منظر بھی لبِ بام اٹھا کر لے آئے

ملاحظہ فرمائیے حفیظ کی غزلیں، نظمیں اور قطعات۔

 
Top