اردو محفل کے نام - منیب احمد فاتحؔ

مثنوئ مفلسی
(در بیانِ احوالِ خستہ)​

لب آزاد ہوں تا ہر اِک بند سے​
شروعات نامِ خداوند سے​
کہ جس کی عنایت سے تکوین ہے​
وہی لائقِ حمد و تحسین ہے​
پس از ذکرِ باری کہوں حال دل​
نہیں گفتنی گرچہ احوالِ دل​
میاں! بات اتنی ہے سہ روز سے​
نگاہِ متین و جگر سوز سے​
یہ اعلان تکتا ہوں میں بار بار​
تعاون میں کچھ دیویں احبابِ کار​
ہدف ہے روپوں میں ستاون ہزار​
جسے جمع بھی کر چکے نصف، یار​
مبادا کہ میں تشنہ لب رہ چلوں​
یہ بہتر ہے احوالِ دل کہ چلوں​
نہیں کوئی دن جو گزرتا ہو شاد​
مجھے مرزا غالب کی آتی ہے یاد​
جو کہتے تھے اندوہ سے پست ہوں​
نہیں تنگ دستی، تہی دست ہوں​
جگر چاک، ظاہر میں ہے سینہ بند​
مہینوں سے ہے میرا روزینہ بند​
کہ ہیں اہل خانہ حریف سخن​
کہے ہیں تری شاعری ہے کفن​
ترے پیکرِ ناز بردار کا​
ترے فکرِ بے مغز و بے کار کا​
سو اے اہل محفل کرم کی اپیل​
مری شاعری پیش بہرِ دلیل​
وظیفہ مقرر ہو کچھ ماہوار​
چکا پاؤں سر پر چڑھے کچھ ادھار​
اگر استطاعت نہیں اِس قدر​
تو پھر بھیجئے چاہیئے جس قدر​
کہ شاعر تمہارا ہی بے کار ہے​
جسے دیکھ لو بر سرِ کار ہے​
میاں! عرضِ احوال مقدور ہے​
کرو آگے جو تم کو منظور ہے​
یہاں روک رکھتا ہوں خود کو زبس​
ہے اللہ بس اور باقی ہوس​
 
آئے ہائے۔۔۔ حضور شاعری سے روکنے کے لئے آپ کے اہل خانہ کا آپ کا روزینہ بند کر دینا، افسوس ناک ہے۔ لیکن آپ کو ایک ایسی محفل سے داد رسی کی امید بھی ہے؟
خیر، جو مثنوی آپ نے لکھی، کیا کہنے! لگتا ہے دل سے نکلی آہ ہے کہ میرے دل کو بھی غم ناک کر گئی۔
 

شوکت پرویز

محفلین
بہت اچھی مثنوی ہے منیب بھائی !
اس میں آپ کے جذبات عیاں ہیں۔ اللہ آپ کو آزمائشوں میں پورا اترنے میں کامیاب فرمائے اور آپ کی مشکلوں کو دور فرمائے۔ آمین۔

شاعری اچھی چیز ہے لیکن چونکہ دنیا بہت کامپیٹیٹیو ہو چکی ہے، اس لئے اگر کوئی مکمل فوکس "صرف" شاعری پر رکھتا ہے تو یہ بات اچھی نہیں۔
ہماری فیملی ہماری خیر خواہ ہی ہوتی ہے، وہ ہمارے بارے میں کبھی برا نہیں چاہتی؛ اگر انہیں آپ سے کچھ شکایت ہو تو آپ بیٹھ کر اچھی سے انہیں دور کرنے کی کوشش کریں !

اور صاحب !! فیملی شاعری سے کیوں نہ ڈرے، جب کہ ہم اپنے معاشرے کا حال جانتے ہیں۔ یہاں سلیمان خطیب کے کچھ اشعار شامل کرنا چاہوں گا۔۔۔
پیاسے شاعر کو تو پانی نہیں دیتی دنیا​
نہریں گھی دودھ کی تربت پہ بہا دیتی ہے​
سر چھپانے کو تو ملتا نہیں چھپّر کوئی​
سنگِ مرمر کی مزاریں تو بنا دیتی ہے​
پھولاں کِھلتے ہیں تو ماٹھی میں مِلا دیتی ہے​
وئیچ ماٹھی پھر آنکھوں سے لگا لیتی ہے​
سلیمان خطیب دکن زبان کے شاعر تھے اور کلام میں اکثر لفظوں کا دکنی تلفظ استعمال کیا ہے۔۔
 
قصہ کوتاہ کرئیے تو اس مثنوی کے پیچھے بہت سے محرکات ہیں۔ اصل یہ ہے کہ میں محسوس کرنا چاہتا تھا ان شعراء کی کیفیت کہ جو مالی استعانت کو شاعری استعمال کرتے تھے۔ اس مثنوی کے بعد واقعی میری کیفیت خاصی سنجیدہ ہو گئی ہے۔ اور حیران ہوں کہ وہ کیسے لوگ تھے کہ جو شعراء کو نوازتے تھے۔ کیا وہ ہمارے ہی اسلاف تھے؟ کیا ہماری تہذیب کبھی یوں بھی رہی ہے؟ یہ وہی برصغیر کے لوگ ہیں جہاں سے میر و غالب کا خمیر اٹھا؟
اب وہ آزاد منشی اور آزاد نظری کہاں ہے؟ وہ فراخ دلی؟ وہ با ذوقی؟
اب یہ مجبوری و پا بستی کیوں؟ اب زباندان کدھر ہیں؟ کیا اردو انگریزی سے اپنا دامن وسیع کر رہی ہے؟ یا اپنی شناخت کھو رہی ہے؟
خیر، وقت رکتا نہیں۔ دیکھئے کیا ہو۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ماشاءاللہ !

آپ کی قادر الکلامی لائقِ صد تحسین ہے۔ بہت خوب لکھا آپ نے۔

حضور مالی اعانت تو بہت دور کی بات ہے، یہاں تو اکثر شعراء کرام کو یہ گلہ بھی ہوتا ہے کہ اُنہیں سراہنے والے نہیں ملے۔ مجید امجد کی نظم "آٹوگراف" میں شاعر نے ایسا ہی کچھ شکوہ کیا ہے۔
 
Top