اردو اور ہندی

بھارت کی انگریزی کا اچھی طرح پتہ ہے
ان کی انگریزی کو انڈین انگریزی کہتے ہیں۔ کوئی کچھ سمجھ نہیں سکتا جب انڈینز انگلش بول رہے ہوں۔

قوم کو بہرحال ایک زبان کی ضرورت ہوتی ہے جو دیسی ہو۔ انگریزی کبھی یہاں دیسی نہیں رہی۔ البتہ ہندی میں انگریزی کے الفاظ بڑھتے جاویں گے۔ یہ کوئی برائی نہیں ہے۔ انگریزی کو ہند کی قوم اہستہ اہستہ کم کرتی جائے گی ۔ البتہ انگریزی اپنی جگہ اہم ہے۔ اسرائیل میں جیسے عبرانی زندہ ہوی ہے ویسے ہی ہندی زندہ ہوتی جاوےگی۔
ایسے ہندیوں سے میرا بھی واسطہ پڑا ہے جو بہت اعتماد کے ساتھ غلط انگریزی بولتے ہیں۔ لیکن سب ایسے نہیں ہیں۔ :)
 
ایسے ہندیوں سے میرا بھی واسطہ پڑا ہے جو بہت اعتماد کے ساتھ غلط انگریزی بولتے ہیں۔ لیکن سب ایسے نہیں ہیں۔ :)

اکثریت ایسی ہی ہے
بالخصوص تامل والے
ایک مرتبہ ایک ساوتھ انڈین ریسرچر میرے کمرے میں میرے ساتھ افس میں ہوتا تھا۔ میں نے کہا یار ہندی میں بات کرتے ہیں۔ کہنے لگا ہندی نہیں اتی۔ایک دن اچانک میں اپنے کمرے میں ایا تو دیکھا اور سنا کہ مزے سے ہندی گانے سن رہا ہے۔ میں نے کہا تمہیں تو ہندی نہِیں اتی۔ کہنے لگا گانے کی اور فلموں کی سمجھ اتی ہے
 
اکثریت ایسی ہی ہے
بالخصوص تامل والے
ایک مرتبہ ایک ساوتھ انڈین ریسرچر میرے کمرے میں میرے ساتھ افس میں ہوتا تھا۔ میں نے کہا یار ہندی میں بات کرتے ہیں۔ کہنے لگا ہندی نہیں اتی۔ایک دن اچانک میں اپنے کمرے میں ایا تو دیکھا اور سنا کہ مزے سے ہندی گانے سن رہا ہے۔ میں نے کہا تمہیں تو ہندی نہِیں اتی۔ کہنے لگا گانے کی اور فلموں کی سمجھ اتی ہے
تامل لوگوں کے بارے میں یہ بات بالکل درست لگتی ہے تاملوں کی اکثریت ایسی ہی ہے۔ :)
 

سعادت

تکنیکی معاون
تقریباً سال پہلے ڈاکٹر طارق رحمٰن کی کتاب ’ہندی سے اردو تک: ایک سماجی اور سیاسی تاریخ‘ (From Hindi to Urdu: A Social and Political History) خریدی تھی، لیکن ابھی تک اسے مکمل طور پر پڑھنے کا موقع نہیں مل سکا۔ البتہ، جب بھی اس لڑی جیسی ابحاث نظر سے گزرتی ہیں تو میں یہ کتاب کھول کر متعلقہ حصوں پر ایک نظر مار لیا کرتا ہوں۔ :) (لگتا ہے کہ اس لڑی کے نتیجے میں کتاب کا جم کر مطالعہ کرنا ہی پڑے گا!)

کتاب کے کچھ حصے جو میں نے پڑھے ہیں، وہ کافی دلچسپ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس نظریے کے قطعاً مخالف ہیں کہ اردو ایک ’لشکری‘ زبان ہے۔ گیارہویں صدی میں ترک حملہ آوروں کی آمد سے قبل، پشاور سے لے کر بنگال تک برِّصغیر میں مختلف لہجوں میں بولی جانے والی ایک زبان موجود تھی، جسے مسلمانوں نے ’ہندی‘ یعنی ’ہند کی زبان‘ کا نام دیا۔ ہندی کے ان تمام لہجوں نے دوسرے علاقوں کے لوگوں (جن میں صرف سپاہی ہی نہیں بلکہ تاجر، مذہبی رہنما، صوفیاء، اور خانہ بدوش وغیرہ بھی شامل تھے) کی زبانوں سے الفاظ اخذ کرنے شروع کیے، لیکن دہلی میں استعمال ہونے والا لہجہ (’کھڑی بولی‘) نے سب سے زیادہ الفاظ درآمد کیے۔ چودھویں صدی کی صوفی تحریروں میں اسی زبان کا ذکر بطور ہندی یا ہندوی ملتا ہے۔ اس زبان کو دہلوی بھی کہا گیا، اور جب یہ زبان گجرات اور دکن تک پہنچی تو ’گجراتی‘ اور ’دکنی‘ کہلائی جانے لگی۔ اٹھارویں صدی میں اسے ’ریختہ‘ کہا جانے لگا۔ اٹھارویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں دہلی اور آگرہ کی اشرافیہ نے اس زبان کے فارسی شدہ لہجے کو اپنا لیا اور اسے ’زبانِ اردوئے معلّٰی‘ (’عالی مقام شہر—یعنی دہلی—کی زبان‘) کا نام دیا، جو بعد میں مختصر ہو کر ’اردو‘ رہ گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق اس تمام تاریخ کا مطلب یہ ہے کہ اردو کی ابتدا افواج کے لشکر میں نہیں ہوئی تھی (اگرچہ ترک زبان میں اردو کا مطلب ’لشکر‘ ہی ہے)، بلکہ جب اس زبان کو ’اردو‘ کا نام دیا گیا تو اسے رائج ہوئے از کم پانچ صدیاں گزر چکی تھیں۔

اٹھارویں صدی کے اختتام کے دوران جب اردو اشرافیہ کی زبان بنی، اور جب اشرافیہ اور شعراء نے اس میں سے دکنی الفاظ اور گرامر کو ختم کر کے فارسی اور عربی الفاظ استعمال کرنا شروع کیے، تو اردو محض اشرافیہ ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی بھی نمائندگی کرنے لگی۔ جدید اردو اسی اردو کا تسلسل ہے۔ جدید ہندی کی ایجاد بھی کچھ ہی عرصے کے بعد انیسویں صدی کے آغاز میں اِسی طرح ہوئی جب فارسی اور عربی کے الفاظ کی جگہ سنسکرت کے الفاظ نے لے لی، اور اسے لکھنے کے لیے فارسی-عربی خط کی بجائے دیوناگری خط کا استعمال شروع کیا گیا۔ یوں سنسکرت شدہ یہ زبان ہندوؤں کی نمائندگی کرنے لگی، اور جدید ہندی اسی سنسکرت/دیوناگری زبان کا تسلسل ہے۔

مجموعی طور پر ڈاکٹر صاحب ان ماہرین میں شامل ہیں جو اردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کے دو رجسٹرز (یا دو معیاری اشکال) سمجھتے ہیں۔ کتاب کے اختتامی باب میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے:


It is, after all, only the truth to say that even now—after about two hundred years of separation and drifting apart—spoken Urdu and Hindi are the same language.

اس اقتباس کو پڑھتے ہوئے ایک بات جو ذہن میں رکھنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان روایتی غیر دوستانہ فضا کو ختم کرنے کے لیے سیاسی معاملات تو حل طلب ہیں ہی، لیکن علمی سطح پر یہی ہندی-اردو زبان بھی ایک حد تک اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔

دوسری جانب ایسے ماہرین بھی ہیں جو اردو اور ہندی کو، ان کے مشترکہ آغاز سے قطع نظر، دو مختلف زبانیں قرار دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اردو کے برطانوی سکالر، رالف رسل۔ سالنامہ مطالعۂ اردو (Annual of Urdu Studies) کے ۱۹۹۶ء کے ایشو میں رالف رسل کا ایک مضمون،Some Notes on Hindi and Urdu، شائع ہوا تھا، جو خاصا دلچسپ ہے۔ ایک اقتباس:


I do not know enough to date [Hindi’s] achievement of [the status of a fully-fledged language], but it is certain that this was the position by the outbreak of the First World War in 1914. And here it becomes relevant to say something about Prem Chand, who at about this time decided that he should, without abandoning Urdu, start to write in Hindi. The fact that he took this decision is in itself conclusive proof that Hindi was now a living, flourishing language. And if at this point anyone jumps in to say, “Oh, but Prem Chand’s Hindi is simply Urdu in Devanagari script,” let me say at once, “No, it isn’t.” Prem Chand’s Urdu is standard literary Urdu and his Hindi standard literary Hindi.

رالف رسل کا یہ مضمون محض چھ صفحات کا ہے، اور پڑھنے کے لائق ہے۔ ذاتی طور پر بھی رسل کے دلائل میرے دل کو زیادہ لگتے ہیں۔ :)
 

سعادت

تکنیکی معاون
[…]
پنجابی اردو کی چند ماؤں میں سے ایک ہے :)
مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ کہ اردو زبان کی بنیاد پنجاب میں پڑی جہاں زیادہ مسلمان لشکروں کا پڑاؤ ہوتا تھا اور اور مقامی زبان لشکری زبان میں شامل ہوتی گئی۔

حافظ محمود شیرانی نے ۱۹۲۸ء میں ایک کتاب، ’پنجاب میں اردو‘ لکھی تھی، اور اس کتاب میں یہ hypothesis پہلی مرتبہ پیش ہوا تھا کہ اردو کی پیدائش پاکستانی پنجاب میں ہوئی تھی۔برطانوی سکالر گراہم بیلی نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے، جبکہ سید سلیمان ندوی (معروف مذہبی سکالر) نے ایک نظریہ یہ پیش کیا تھا کہ اردو کا آغاز سندھ میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوا تھا۔

اپنی پچھلی پوسٹ میں مَیں نے ڈاکٹر طارق رحمٰن کی جس کتاب کا ذکر کیا ہے، اس میں انہوں نے ایسی کسی تھیوری سے اتفاق نہیں کیا۔ :) وہ حافظ شیرانی کی تحقیق کو متاثر کن تو ضرور قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حافظ صاحب کا استدلال کچھ زیادہ مضبوط نہیں، اور اس ضمن میں مسعود حسین خان اور شوکت سبزواری کے کام کا حوالہ دیتے ہیں۔ ایک مثال: حافظ صاحب پنجابی کے کچھ الفاظ (مثلاً دیہاڑے) کی نشاندہی کرتے ہیں جو پرانی اردو، خصوصاً دکنی، اور جدید اردو میں بھی مستعمل ہیں۔ لیکن مسعود حسین خان اور شوکت سبزواری صاحبان اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے حافظ صاحب دکنی اور پنجابی میں موجود فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں (جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اردو کا ورثہ کھڑی بولی سے آیا ہے، پنجابی سے نہیں)۔ ڈاکٹر صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ مشترکہ الفاظ کی ایک آسان وضاحت یہ بھی ہے کہ اردو، ہندی، پنجابی، سرائیکی، ہندکو، وغیرہ اس ایک زبان ہی کی نسلیں ہیں جو پشاور سے بنارس تک بولی جاتی تھی، اور اس زبان کی مختلف اشکال میں مشترکہ ذخیرۂ الفاظ کا ہونا لیکن ان اشکال کا وقت کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں میں تبدیل ہونا کچھ ایسے اچنبھے کی بات نہیں، لیکن حافظ صاحب نے اس وضاحت کو سرے سے قابلِ توجہ گردانا ہی نہیں۔
 
حافظ محمود شیرانی نے ۱۹۲۸ء میں ایک کتاب، ’پنجاب میں اردو‘ لکھی تھی، اور اس کتاب میں یہ hypothesis پہلی مرتبہ پیش ہوا تھا کہ اردو کی پیدائش پاکستانی پنجاب میں ہوئی تھی۔برطانوی سکالر گراہم بیلی نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے، جبکہ سید سلیمان ندوی (معروف مذہبی سکالر) نے ایک نظریہ یہ پیش کیا تھا کہ اردو کا آغاز سندھ میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوا تھا۔

اپنی پچھلی پوسٹ میں مَیں نے ڈاکٹر طارق رحمٰن کی جس کتاب کا ذکر کیا ہے، اس میں انہوں نے ایسی کسی تھیوری سے اتفاق نہیں کیا۔ :) وہ حافظ شیرانی کی تحقیق کو متاثر کن تو ضرور قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حافظ صاحب کا استدلال کچھ زیادہ مضبوط نہیں، اور اس ضمن میں مسعود حسین خان اور شوکت سبزواری کے کام کا حوالہ دیتے ہیں۔ ایک مثال: حافظ صاحب پنجابی کے کچھ الفاظ (مثلاً دیہاڑے) کی نشاندہی کرتے ہیں جو پرانی اردو، خصوصاً دکنی، اور جدید اردو میں بھی مستعمل ہیں۔ لیکن مسعود حسین خان اور شوکت سبزواری صاحبان اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے حافظ صاحب دکنی اور پنجابی میں موجود فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں (جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اردو کا ورثہ کھڑی بولی سے آیا ہے، پنجابی سے نہیں)۔ ڈاکٹر صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ مشترکہ الفاظ کی ایک آسان وضاحت یہ بھی ہے کہ اردو، ہندی، پنجابی، سرائیکی، ہندکو، وغیرہ اس ایک زبان ہی کی نسلیں ہیں جو پشاور سے بنارس تک بولی جاتی تھی، اور اس زبان کی مختلف اشکال میں مشترکہ ذخیرۂ الفاظ کا ہونا لیکن ان اشکال کا وقت کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں میں تبدیل ہونا کچھ ایسے اچنبھے کی بات نہیں، لیکن حافظ صاحب نے اس وضاحت کو سرے سے قابلِ توجہ گردانا ہی نہیں۔

سچی بات ہے کہ مجھے تو سندھی، سرائیکی، پنجابی، اور اردو میں کوئی زیادہ فرق نہیں نظر ایا۔ یہ میرا خیال ہے کہ میں دنیا کی کم ازکم 4 مختلف خطوں میں بولی جانے والی زبانوں کو کچھ کچھ سمجھتا ہوں۔ یعنی انگلش، اردو، پنجابی، سندھی، عربی، اور کورین۔ کبھی کھبار مجھے تو کورین اور اردو میں کئی الفاظ بھی ایک جیسے ہی ملے
ہندی اور اردو تو جڑواں بہنیں ہیں۔ مگر اب بہرحال الگ زبانیں ہی ہیں اور ان کے ترقی کے مدراج دوسرے ہیں۔ اردو اپنی ترقی کے عروج میں انگریزوں کے دور پر تھی کہ انھوں نے فارسی سے جان چھڑانی تھی جو حکومتی زبان تھی۔ اب ہندی عروج کی طرف گامزن ہے کہ اس کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے
 

سعادت

تکنیکی معاون
لیجیے: کل ہی اپنی ٹویٹر فیڈ کی بدولت اس تحقیقی مضمون کا علم ہوا ہے جو قطر یونیورسٹی کے ایک فیکلٹی ممبر نے لکھا ہے:
Urdu in Devanagari: Shifting orthographic practices and Muslim identity in Delhi

اس مضمون کے خلاصے میں سے ایک (قدرے طویل) اقتباس:



In this article, I have demonstrated that the adoption of the Devanagari script by Muslims for writing Urdu, which has been written in the Arabic script for several centuries, challenges the traditional view that the choice of script is critical in differentiating Urdu and Hindi. Analyzing the recent orthographic practices of writing Urdu in Devanagari, I show that Muslims in India no longer view the Arabic script as a necessary, let alone defining, element of Urdu, nor do they believe that Devanagari is completely antithetical to Urdu and their Muslim identity. In addition, while Muslims have adopted Devanagari, they have not suspended the difference between Urdu and Hindi. Using the strategies of phonetic and orthographic transliterations, Muslims are making Urdu-in-Devanagari different from Hindi, although the difference is much more subtle and nuanced.

The adoption of Devanagari for writing Urdu clearly demonstrates that the ideologies about the Urdu language and its traditional Arabic script are also undergoing a major transformation. The Arabic script, which hitherto was believed to be THE differentiating element between Urdu and Hindi on the written level, is no longer ideologized as such. The changed socio-political contexts of postcolonial India have contributed to a re-evaluation and revision of what defines the Urdu language. The innovations introduced by Muslims into Urdu-in-Devanagari allow them to rationalize that the text written in Devanagari still remains sufficiently distinct from Hindi. I show that the consistent use of the bindi diacritic and the novel use of the schwa-grapheme as a symbol for the Urdu consonant letter ain make Urdu-in-Devanagari distinct from Hindi.


جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں: ہندوستان میں کچھ مسلمانوں کی جانب سے اردو کو دیوناگری میں لکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے، اور ایسا کرتے ہوئے وہ دیوناگری خط میں تبدیلیاں بھی کر رہے ہیں تاکہ عربی سے دیوناگری خط میں اردو کو transliterate کرتے ہوئے دقت بھی نہ ہو اور اردو، ہندی سے مختلف بھی رہے۔ مضمون کے مصنف کا کہنا ہے کہ عربی خط کو اردو اور ہندی کے درمیان تحریری سطح پر ایک انتہائی امتیازی عنصر سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن اب اس رجحان کی وجہ سے ایسا نہیں ہے۔ (میرے خیال میں تو اردو اور ہندی کے درمیان ایک اور امتیازی عنصر، چاہے تحریری ہو یا زبانی، دونوں زبانوں کا ذخیرۂ الفاظ بھی ہے—میرے پچھلے ایک مراسلے میں رالف رسل کے مضمون کا حوالہ دیکھیے—لیکن یہاں یہ بات کافی دلچسپ ہے کہ اردو کو دیوناگری میں لکھتے ہوئے اردو کے الفاظ کو نہیں چھیڑا جا رہا، بلکہ دیوناگری خط میں تبدیلی کی جارہی ہے۔)

ذاتی طور پر تو میں اس رجحان کے حق میں نہیں ہوں، :) البتہ الف عین صاحب اس پر زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ غالباً دوست کے لیے بھی یہ مضمون دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔
 

دوست

محفلین
یہ ان پائین کو کوئی محدود سی آبزرویشن ہوئی ہے۔ ایسی لٹ پڑتی تو ہمیں تو پتا چلتا۔
 

الف عین

لائبریرین
اس قسم کی کچھ لکھاوٹ میں نے بھی اپنے ’قرآن درپن‘ میں استعمال کی تھی لیکن صرف پرنٹ کے لئے۔ یعنی عین کے لئے، अ़اور بڑی ح کے لئے ह़ یعنی ان حروف کے لئے دیوناگری میں حروف ایجاد کئے تھے۔ ویسے مع بندی کے غ، ز، ف وغیرہ حروف تو عام استعمال میں ہیں۔ دینی کتب ہندی میں اسی طرح چھپتی ہیں کہ ان کو صرف مسلمان ہی سمجھ سکتے ہیں، کہ زبان فارسی عربی آمیز اردو ہوتی ہے۔ اسی لئے میں نے ہندی مادری زبان والوں کے لئے قرآن درپن میں آخری پارے کی تفسیر لکھی تھی۔
بہت سے یو پی، راجستھان والے ایسے لوگ بھی اردو رسم الخط سے واقف نہیں جو اپنی مادری زبان اردو لکھواتے ہیں، وہ یہی زبان سمجھ سکتے ہیں۔ دیو ناگری میں لکھی ہوئی خالص ہندی بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی
 

کاشفی

محفلین
اُردو اُردو آئی لو اُردو ۔۔

یکتائے زماں ہے فخرِ لساں
شیریں و شگفتہ اور شایاں


فردوس گوشِ سخن وراں
غزلوں کا فسوں عالم پہ عیاں


نظموں کی عجب ہے موجِ جواں
اور نثر مثالی کاہکشاں


یہ علم و ادب میں زر افشاں
ہر سمت اسی کی تاب و تواں


ہر جانب اِس کا زورِ بیاں
یہ اُردو زباں ہے اُردو زباں


ہے اس کی خوشبو چمن چمن
ہر شاخ سے پھوٹے اس کی پھبن


یہ ہندی کی ہے جڑواں بہن
عربی سے سیکھا چال چلن

انگریزی زباں کا تازہ پن
ہے اس میں‌ ہر دل کی دھڑکن


سب رس سے بنا ہے شہ پارہ
سب رنگ سے روشن ہے تارہ


یہ فارسی لئے کی مہ پارہ
اسپینی ادا کا اجیارا


دلّی و دکن میں‌ گہوارا
پنجاب میں اس کا لشکارا


کراچی و لاہور کا اس میں نطارہ
بمبئی کی زباں کا چٹخارا


بنگال کا جادو دل دارا
اور سندھ میں‌اس کو معمورا


یہ شان اودھ کی مدھ ماتی
یہ پشتو اُڑیہ کی ساتھی


کشمیری سرائیکی لہجہ
رکھتا ہے اس سے خلا ملا


گجرات و بہار و راجھستاں
دم بھرنے میں‌ ہیں سب یکساں


ہر روپ میں‌ ہے یہ عالی شاں
یہ اُردو زباں ہے اُردو زباں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمثیل و صحافت، فلم و ادب
اُردو کی محاذ آرائی عجب


بازاروں سے درباروں تک
اور لشکر، دفتر والوں تک


کمپیوٹر اس کا ہم منصب
اور ہوا کی لہریں ہم مکتب


کھل جائے کوئی بھی راہ طلب
بن جائیگی وہ عظمت کا سبب


کیا غضب کی ہے یہ روح رواں
یہ اُردو زباں ہے اُردو زباں


کچھ لکھنے والے آجائیں
چند ایک زباں داں آ جائیں


دو ایک سخن داں مل جائیں
گل شعر و ادب کے کھل جائیں


پھر سنّے والے کشاں کشاں
اور پڑھنے والے یہاں وہاں


آباد کریں گے اک بستی
پایاب کریں گے ہر پستی


اعجاز خلوصِ ہم نفساں
یہ اُردو زباں ہے اُردو زباں


یہ عجم و عرب کا گلدستہ
یہ بڑی زبانوں کا تحفہ


یہ مشرق و مغرب کا عنواں
شہکار جنونِ زندہ دلاں


تصویر جمالِ ہندوستاں
تنویرِ فضائے پاکستاں


یہ اُردو زباں ہے اُردو زباں
یہ اُردو زباں ہے اُردو زباں

آئی لو اُردو
 

کاشفی

محفلین
پاکستان بننے تک ان دونوں کو ایک ہی زبان مانا جاتا تھا۔ جو دو رسوم الخط میں لکھی جاتی تھی، دیو ناگری اور فارسی میں۔ اور دیو ناگری میں محض پنڈت قسم کے لوگ ہی لکھتے تھے، ہما شما تو سبھی فارسی رسم الخط میں لکھتے تھے۔ اور یہی زبان تھی جسے مہاتما گاندھی ہندوستانی کہتے تھے اور جو ہندوستان کی سرکاری زبان بنتے بنتے رہ گئی۔جب زبردستی والا دو قومی نظریہ پیدا کیا انگریزوں نے، تو ہندو مسلمانوں کو اپنی زبان کی شناخت کا احساس ہوا، اس کے بعد، اور پاکستان بننے کے بعد یہ دونوں زبانیں بالکل الگ الگ ہو گئی ہیں۔ پہلے ہندی بھی مصنوعی ہندی نہیں تھی، اب اس میں بھی سنسکرت کے الفاظ زبر دستی گھسا دئے گئے ہیں۔
جزاك الله خيرا
 

arifkarim

معطل
زبانیں ایک ہیں یا دو، species ایک ہے یا دو، یہ دونوں سوال کئی دفعہ مشکل ہو جاتے ہیں۔ بہرحال میرا یہ خیال ہے کہ اب اردو اور ہندی دو مختلف زبانیں ہیں۔
اگر دو زبانوں کی بنیادی بناوٹ، گرامر وغیرہ ایک ہی ہے تو یہ دو مختلف زبانیں کیسے ہوئیں؟

جن زبانوں کا رسم الخط الگ ہوجائے وہ بلکل الگ ہوجاتیں ہیں۔
مطلب اگر اردو کو رومن رسم الخط میں لکھیں تو وہ الگ زبان بن جاتی ہے؟ :)
 

تہذیب

محفلین
उर्द्य और हिन्दि ऐक हि सिकेय के दो रुख हे
اردو اور ہندی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔
 
Top