اداس شامیں اجاڑ رستے کبھی بلائیں تو لوٹ آنا ،،،،،،،،،،،،،،، فرحت عباس شاہ

خوشی

محفلین
اداس شامیں ، اجاڑ رستے کبھی بلائیں تو لوٹ آنا
کسی کی آنکھوں میں رتجگوں کے عذاب آئیں تو لوٹ آنا

ابھی نئی وادیوں ، نئے منظروں میں رہ لو مگر مری جاں
یہ سارے ایک ایک کرکے جب تم کو چھوڑ جائیں تو لوٹ آنا

جو شام ڈھلتے ہی اپنی اپنی پناہ گاہوں کو لوٹتے ھیں
اگر وہ پنچھی کبھی کوئی داستاں سنائیں تو لوٹ آنا

نئے زمانوں کا کرب اوڑھے ضعیف لمحے نڈھال یادیں
تمہارے خوابوں کے بند کمروں میں لوٹ آئیں تو لوٹ آنا

میں روز یونہی ہوا پہ لکھ لکھ کے اس کی جانب یہ بھیجتا ہوں
کہ اچھے موسم اگر پہاڑوں پہ مسکرائیں تو لوٹ آنا

اگر اندھیروں میں چھوڑ کر تم کو بھول جائیں تمہارے ساتھی
اور اپنی خاطر ہی اپنے اپنے دیئے جلائیں تو لوٹ آنا

مری وہ باتیں تو جن پہ بے اختیار ہنستا تھا کھلکھلا کے
بچھڑنے والے مری وہ باتیں کبھی رلائیں تو لوٹ آنا




 
Top