اداسی ۔ اشعار

جیہ

لائبریرین
بلا عنوان

حسن علوی نے کہا:
ّعلوی سینئیر کے لیئے!!!!

دل تو میرا اداس ھے غالب
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ھے

یہ کونسے غالب ہیں بھئ؟ مرزا غالب نے صرف ایک شعر لکھا تھا زندگی میں جسے شمشاد بھائ نے اوپر لکھا ہے
 

جیہ

لائبریرین
جہاں تک مجھے علم ہے مرزا غالب کے علاوہ صرف ایک اسداللہ غالب ہیں جو اخبار میں کالم لکھتے ہیں، شاعری نہیں کرتے۔
 

حسن علوی

محفلین
اقرار جرم

ارےےےےے یے کیا ھو رہا ھے۔ ۔ ۔ ۔

مجھے لگتا ھے کے کچھ غلط ھو گیا شاید میں‌ اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں (ایک طفل مکتب کی حیثیت سے :roll: ) مگر خدارا جیہ اور شمشاد بھائی آپس میں مت الجھیئے۔ ۔ ۔ ۔ :(
 

حسن علوی

محفلین
سزا

اب کے یوں دل کو سزا دی ہم نے
اس کی ہر بات بھلا دی ہم نے

ایک اک پھول بہت یاد آیا
شاخ گل جب وہ جلا دی ہم نے

آج تک جس پے وہ شرماتے ہیں
بات وہ کب کی بھلا دی ہم نے

شہر جہاں راکھ سے آباد ہوا
آگ جب دل کی بجھا دی ہم نے

آج پھر یاد بہت آیا وہ
آج پھر اس کو دعا دی ہم نے

کوئی تو بات ہے اس میں “علوی“
ہر خوشی جس پے لٹا دی ہم نے
 

عیشل

محفلین
کبھی وہ عنایت کہ سو گماں گذریں
کبھی وہ طرزِ تغافل کہ محرمانہ لگے
بجھا نہ دیں یہ مسلسل اداسیاں دل کو
وہ بات کر کہ طبیعت کو تازیانہ لگے
 

شمشاد

لائبریرین
اقرار جرم

حسن علوی نے کہا:
ارےےےےے یے کیا ھو رہا ھے۔ ۔ ۔ ۔

مجھے لگتا ھے کے کچھ غلط ھو گیا شاید میں‌ اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں (ایک طفل مکتب کی حیثیت سے :roll: ) مگر خدارا جیہ اور شمشاد بھائی آپس میں مت الجھیئے۔ ۔ ۔ ۔ :(

گھبرائیے نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سزا

حسن علوی نے کہا:
اب کے یوں دل کو سزا دی ہم نے
اس کی ہر بات بھلا دی ہم نے

ایک اک پھول بہت یاد آیا
شاخ گل جب وہ جلا دی ہم نے

آج تک جس پے وہ شرماتے ہیں
بات وہ کب کی بھلا دی ہم نے

شہر جہاں راکھ سے آباد ہوا
آگ جب دل کی بجھا دی ہم نے

آج پھر یاد بہت آیا وہ
آج پھر اس کو دعا دی ہم نے

کوئی تو بات ہے اس میں “علوی“
ہر خوشی جس پے لٹا دی ہم نے

اچھی غزل ہے لیکن عنوان کے تحت اس میں لفظ “ اداس یا اداسی“ کہاں ہے؟
 

عیشل

محفلین
سیرتیں بے قیاس ہوتیں ہیں
صورتیں غم شناس ہوتی ہیں
جن کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ ہو
انکی آنکھیں اداس ہوتی ہیں
 

حسن علوی

محفلین
ایک شخص

پتھر تھا مگر برف کے گالوں کی طرح تھا
اک شخص اندھیروں میں اجالوں کی طرح تھا

خوابوں کی طرح تھا نہ خیالوں کی طرح تھا
وہ علم ریاضی کے سوالوں کی طرح تھا

الجھا ہوا ایسا کہ کبھی حل ہو نہیں پایا
سلجھا ہوا ایسا کہ مثالوں کی طرح تھا
 

حجاب

محفلین
اداس موسم کے رتجگوں میں
ہر ایک لمحہ بکھر گیا ہے
ہر ایک راستہ بدل گیا ہے
پھر ایسے موسم میں کون آئے
کوئی تو جائے
تیرے نگر کی مسافتوں کو سمیٹ لائے
تیری گلی میں ہماری سوچیں بکھیر آئے
تجھے بتائے کہ کون کیسے
اُچھالتا ہے وفا کے موتی
تمہاری جانب
کوئی تو جائے
میری زبان میں تجھے بلائے
ہماری حالت تجھے بتائے
تو اپنے دل کو بھی چین آئے۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪​
 

عیشل

محفلین
بچھڑ کے مجھ سے اگرچہ اداس وہ بھی تھا
پتا چلا کہ زمانہ شناس وہ بھی تھا
میرے زوال سے پہلے ہی مجھ کو چھوڑ گیا
غضب کا ستارہ شناس وہ بھی تھا
 

شمشاد

لائبریرین
یہ اداسیوں کا جمال ہے کہ ہمارا اوجِ کمال ہے
کبھی ذات سے بھی چھپا لیا ، کبھی شہر بھر کو بتا دیا
 

راجہ صاحب

محفلین
گل کو محبوب ہم قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا

دل نے ہم کو مثالِ آئینہ
ایک عالم کا روشناس کیا

کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اُس بن
شوق نے ہم کو بے حواس کیا

عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے
قیس کی آبرو کا پاس کیا

صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی
کیا پتنگے نے التماس کیا

ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں!
میرؔ کو تم عبث اداس کیا
 
Top