احمدی اقلیت اور ہمارے علما کا رویہ

یاقوت

محفلین
میری ایک گزارش ہے جاسم صاحب کہ آپ کو جن معاملات کی حقیقت کا ادراک نہیں خدارا آپ انہیں موضوع بحث نہ بنایا کریں کیونکہ ایک کلرک (جو سائنس کی ابجد تک سے واقف نہ ہو) فلسفے پر لیکچر دینے آئے گا تو افلاطون بھی پانی بھرتا نظر آئے گا
 
معزز محفلین سے گزارش ہے کہ دوسرے معزز محفلین کی ذات کو موضوعِ گفتگو نہ بنائیں۔ دوسرے کی رائے سے اختلاف آپ کا حق ہے، سو وہ ضرور کیجیے۔

غلط اور اخلاقی معیار سے گرے ہوئے تبصروں کو منتظمین کے نوٹس کے لیے رپورٹ کریں لیکن براہِ راست کسی محفلین کی ذات کو نشانہ بنانے سے گریز فرمائیے۔
 

آورکزئی

محفلین
آئین پاکستان کے مطابق غیرمسلم اقلیت۔

ہاہاا۔۔۔ اپ آئین پاکستان نہیں ہیں ۔۔۔ اپکے اس نیم سیاسی بلکہ سیاسی جواب کا مطلب ہوا کہ اپ ان کو کافر نہیں مانتے۔۔۔۔۔ رہی بات اقلیت کی تو اپکے یہ حواری خود کو اقلیت نہیں سمجھتے ۔۔۔
 

وجی

لائبریرین
کافر انکار کرنے والے کو کہتے ہیں۔ قادیانی رسول اللہﷺ کو نبی و رسول مانتے ہیں لیکن آخری نہیں۔ یوں وہ عقیدہ ختم نبوت کے منکر ہیں، رسول کریمﷺ کے منکر نہیں ہیں۔

لَا إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ ٱللَّٰهِ
بات صرف کلمہ کی کر لیتے ہیں اگر آپ کلمہ کو سمجھیں تو۔
میرے نذدیک اللہ نے انبیاء ، رسول اور پیغمبر اتنے سارے اس لیئے بھیجے کہ ہر بار لوگ اس پیغام کو تبدیل کردیتے تھے ۔
مگر آپ ﷺ کو بھیجنے کے بعد قرآن محفوظ کردیا و ہ پیغام محفوظ ہوگیاتو پھر کسی نئے نبی ، رسول یا پیغمبر کی کیا ضرورت رہ گئی۔
اب کوئی کلمہ ہی صحیح سے نہیں سمجھ رہا تو کیا مسلمان کہلائے؟؟
ہم بھی آپ ﷺ سے پہلے تمام انبیاء ، رسول اور پیغمبروں کو مانتے ہیں مگر عمل ، اقتداء صرف آپ ﷺ کی کرتے ہیں
کیونکہ وہ الہامی پیغام و کتب ہوا کرتی تھی ہیں نہیں کیونکہ ان میں لوگوں نے تبدیلیاں کردیں۔ ابھی صرف ایک الہامی کتاب ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
میرے نذدیک اللہ نے انبیاء ، رسول اور پیغمبر اتنے سارے اس لیئے بھیجے کہ ہر بار لوگ اس پیغام کو تبدیل کردیتے تھے ۔
مگر آپ ﷺ کو بھیجنے کے بعد قرآن محفوظ کردیا و ہ پیغام محفوظ ہوگیاتو پھر کسی نئے نبی ، رسول یا پیغمبر کی کیا ضرورت رہ گئی۔
اب کوئی کلمہ ہی صحیح سے نہیں سمجھ رہا تو کیا مسلمان کہلائے؟؟
یہ عقیدہ ختم نبوت کی تعریف ہے اسلام کی نہیں ۔ قادیانی اسے تسلیم نہیں کرتے۔ قادیانی رسول اللہﷺ کو نبی و رسول مانتے ہیں اور اس بنیاد پر خود کو مسلمان تصور کرتے ہیں۔ دیگر مسلمان ان کو عقیدہ ختم نبوت رد کرنے پر کافر گردانتے ہیں۔ اسے عقیدہ کا اختلاف تو کہا جا سکتا ہے، کافر کی تعریف کے تحت کفر نہیں۔ قادیانی اگر یہود و نصاریٰ اور دیگر غیرمسلمین کی طرح رسول کریم ﷺ پر سرے سے ایمان ہی نہ لاتے تو بائی ڈیفینیشن کافر کہلاتے۔
 

آورکزئی

محفلین
کسی کے زخموں پر نمک بالکل بھی نہیں چڑک رہا۔۔۔۔۔

ERW165_WoAAC0wx
 

ابو ہاشم

محفلین
  1. جب پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم ہو رہی تھی، پنجاب کی تقسیم کے لیے ریڈکلف کمیشن بنا تھا، پنجاب کو اس بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان میں شامل ہوں گے اور جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں وہ بھارت کا حصہ ہوں گے۔ گورداسپور کا علاقہ جہاں قادیان واقع ہے، اس علاقہ کی صورتحال یہ تھی کہ اگر قادیانی آبادی خود کو مسلمانوں میں شامل کراتی تو یہ خطہ زمین پاکستان کے حصہ میں آتا، اور اگر قادیانی گروہ مسلمانوں سے الگ شمار ہوتا تو گورداسپور کا علاقہ بھارت کے پاس چلا جاتا۔ اس وقت قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے، جو مرزا غلام احمد قادیانی کا فرزند اور مرزا طاہر احمد کا باپ تھا، اپنا کیس مسلمانوں سے الگ پیش کر کے یہ فیصلہ تاریخ میں ریکارڈ کروایا کہ قادیانی خود کو مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ چودھری ظفر اللہ خان نے مرزا بشیر الدین محمود کی ہدایت پر قادیانیوں کی فائل مسلمانوں سے الگ ریڈکلف کمیشن کے سامنے پیش کی جس کی بنیاد پر گورداسپور غیر مسلم اکثریت کا علاقہ قرار پایا اور بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں بھارت کو کشمیر کے لیے راستہ ملا اور اس نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور آج بھی لاکھوں کشمیری عوام بھارت کے تسلط اور وحشت و درندگی کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
واقعی؟
اگر یہ بات درست ہے تو یقیناًاحمدی ایک الگ امت ہیں یعنی غیر مسلم ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
واقعی؟
اگر یہ بات درست ہے تو یقیناًاحمدی ایک الگ امت ہیں یعنی غیر مسلم ہیں
یہ واقعہ بالکل غلط ہے اور بغض قادیانیت میں لکھا گیا ہے۔ قادیانی لیڈر مرزا بشیر الدین محمود دیگر لیڈران تحریک پاکستان کی طرح یہی سمجھتے تھے کہ پورا پنجاب پاکستان کا حصہ بنے گا۔ اسی لئے انہوں نے پاکستان ہجرت کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔ اور جب پارٹیشن سے قبل معلوم ہوا کہ قادیان بھارت کا حصہ بننے جا رہا ہے تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی اوّل دن سے حمایت پر پاکستان ہجرت کی۔ اور پھر وہاں جا کر نئے سرے سے قادیانیوں کا شہر چناب نگر بسایا۔
اگر مرزا بشیر کو قادیان میں ہی رہنا ہوتا تو پاکستان ہجرت کی تکالیف ہی نہ اٹھاتے۔ بھارتی سیکولر آئین میں تو آج بھی قادیانی مسلمان تصور کیے جاتے ہیں۔ بھارت و قادیان سے اتنی محبت تھی تو واپس چلے جاتے۔ مگر وہ مرتے دم تک پاکستانی رہے اور آج بھی چناب نگر میں ہی دفن ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
واقعی؟
اگر یہ بات درست ہے تو یقیناًاحمدی ایک الگ امت ہیں یعنی غیر مسلم ہیں
یہ بات درست ہو تب بھی، اور غلط ہو تب بھی، قادیانی غیر مسلم ہیں۔ کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا تعلق اس کے عقیدے سے ہے۔
یہ واقعہ تو اس تناظر میں بیان کیا گیا تھا کہ کن کن مواقع پر قادیانیوں نے خود تسلیم کیا کہ وہ غیر مسلم ہیں۔ خیر آج وہ نہ بھی مانیں تب بھی ان کا کفر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
امت میں جھوٹے مدعیانِ نبوت کی آمد کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں۔ پہلا کذاب، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک میں آیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر اسے جہنم واصل کیا گیا تھا۔ انھی کذابین میں سے ایک مرزا قادیانی ہے۔
ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ آئندہ کوئی کذاب مدعی نبوت نہیں آئے گا۔ اس قسم کے اور دیگر فتنوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم علمائے کرام سے جڑ کر رہیں۔ جنت میں جانے کا رستہ ایک ہی ہے لیکن جہنم میں جانے کے ان گنت راستے ہیں جہاں ہزاروں ایمان کے شکاری دامِ ہمِ رنگِ زمیں بچھائے بیٹھے ہیں۔
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
ہ واقعہ تو اس تناظر میں بیان کیا گیا تھا کہ کن کن مواقع پر قادیانیوں نے خود تسلیم کیا کہ وہ غیر مسلم ہیں۔ خیر آج وہ نہ بھی مانیں تب بھی ان کا کفر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
وضاحت کے لیے پوچھ رہا ہوں کہ غیر مسلم اور کافر کا ایک ہی معنی ہے یا دونوں میں کوئی فرق ہو گا؟
 

عدنان عمر

محفلین
وضاحت کے لیے پوچھ رہا ہوں کہ غیر مسلم اور کافر کا ایک ہی معنی ہے یا دونوں میں کوئی فرق ہو گا؟
دونوں کا ایک ہی مطلب ہے۔
پھر بھی آپ کہتے ہیں تو میں کسی عالمِ دین سے پوچھ لوں گا تاکہ شک کی کوئی گنجائش نہ رہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
دونوں کا ایک ہی مطلب ہے۔
پھر بھی آپ کہتے ہیں تو میں کسی عالمِ دین سے پوچھ لوں گا تاکہ شک کی کوئی گنجائش نہ رہے۔
عقلِ عام کی روشنی میں دیکھا جائے تو مثال کے طور پر ایک شخص پر خدا کا پیغام مکمل واضح ہو گیا اور اب وہ جانتے بوجھتے اس کا انکار کر رہا ہے تو اسے قرآن کی اصطلاح میں کافر ہی کہا جائے گا۔
لیکن ایک شخص تک پیغام پہنچا ہی نہیں یا واضح ہی نہیں ہوا تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ اسے اسی درجہ میں نہ رکھا جائے۔
اس لیے پوچھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
عقلِ عام کی روشنی میں دیکھا جائے تو مثال کے طور پر ایک شخص پر خدا کا پیغام مکمل واضح ہو گیا اور اب وہ جانتے بوجھتے اس کا انکار کر رہا ہے تو اسے قرآن کی اصطلاح میں کافر ہی کہا جائے گا۔
لیکن ایک شخص تک پیغام پہنچا ہی نہیں یا واضح ہی نہیں ہوا تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ اسے اسی درجہ میں نہ رکھا جائے۔
اس لیے پوچھا۔
بات آپ کی درست ہے عرفان صاحب فرق موجود ہے۔ جہاں تک میرا مطالعہ ہے علمائے کرام بھی یہ فرق تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اللہ نے ہدایت کا بندوبست نہ کیا ہو اور تمام گذشتگان و آئندگان تک خدا کا پیغام پہنچا ہے اور پہنچے گا۔
 

عرفان سعید

محفلین
جہاں تک میرا مطالعہ ہے علمائے کرام بھی یہ فرق تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اللہ نے ہدایت کا بندوبست نہ کیا ہو اور تمام گذشتگان و آئندگان تک خدا کا پیغام پہنچا ہے اور پہنچے گا۔
یہاں ذہن میں کچھ تحفظات موجود ہیں۔
پیغام پہنچنے اور اس پر شرحِ صدر ہو کر ایمان لانے میں فرق ہے۔ پیغمبروں کا بھی معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے صرف پیغام پہنچایا ہی نہیں بلکہ اسے آخری درجے میں واضح کر دیا۔ اور ہر قوم کے لیے اس کی مدت بھی مختلف رہی ہے۔ اس کے بعد پیغمبروں کی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے فیصلے کے تحت انہیں دنیا میں ہی عذاب کی سزا دی گئی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حق آخری درجے میں واضح ہوا ہے یا نہیں اس کا علم صرف اور صرف اللہ ہی کو ہے۔
اب خدا کا آخری پیغام پہنچ چکا ہے، اس پر تو اتفاق کیا جا سکتا ہے، لیکن دنیا کے ہر انسان پر حق آخری درجے میں واضح ہوا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ اور اگر یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا تو ہر غیر مسلم کو کافر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
(اس مراسلے کو محض طالب علمانہ گزارشات پر ہی محمول کیا جائے۔)
 

محمد وارث

لائبریرین
یہاں ذہن میں کچھ تحفظات موجود ہیں۔
پیغام پہنچنے اور اس پر شرحِ صدر ہو کر ایمان لانے میں فرق ہے۔ پیغمبروں کا بھی معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے صرف پیغام پہنچایا ہی نہیں بلکہ اسے آخری درجے میں واضح کر دیا۔ اور ہر قوم کے لیے اس کی مدت بھی مختلف رہی ہے۔ اس کے بعد پیغمبروں کی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے فیصلے کے تحت انہیں دنیا میں ہی عذاب کی سزا دی گئی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حق آخری درجے میں واضح ہوا ہے یا نہیں اس کا علم صرف اور صرف اللہ ہی کو ہے۔
اب خدا کا آخری پیغام پہنچ چکا ہے، اس پر تو اتفاق کیا جا سکتا ہے، لیکن دنیا کے ہر انسان پر حق آخری درجے میں واضح ہوا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ اور اگر یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا تو ہر غیر مسلم کو کافر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
(اس مراسلے کو محض طالب علمانہ گزارشات پر ہی محمول کیا جائے۔)
واضح پیغام پہنچانا اور چیز ہے، کسی پر پیغام واضح ہونا دوسری چیز ہے۔ جہاں تک پیغام پہنچانے کی بات ہے تو پیغمبروں کی طرف سے اس کا جواب سورۃ یٰسین میں ہے کہ

وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ
اور نہیں ہے ہم پر (کوئی ذمہ داری) مگر (اللہ کا پیغام) صاف صاف اور واضح پہنچا دینا۔

سو صاف صاف اور واضح پہنچا دیا گیا، اب اگر کسی پر واضح نہیں ہے تو ہدایت اللہ کی طرف سے ہے۔
 

عدنان عمر

محفلین
عقلِ عام کی روشنی میں دیکھا جائے تو مثال کے طور پر ایک شخص پر خدا کا پیغام مکمل واضح ہو گیا اور اب وہ جانتے بوجھتے اس کا انکار کر رہا ہے تو اسے قرآن کی اصطلاح میں کافر ہی کہا جائے گا۔
لیکن ایک شخص تک پیغام پہنچا ہی نہیں یا واضح ہی نہیں ہوا تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ اسے اسی درجہ میں نہ رکھا جائے۔
اس لیے پوچھا۔
جیسا کہ روایات میں ہے کہ ہر قوم پر پیغمبر بھیجے گئے تھے۔ اور انھوں نے اللہ کا پیغام اپنی قوم تک پہنچایا تھا۔ اہلِ کتاب کی ہی مثال لیں۔ یہودی اپنے وقت کے مسلمان تھے۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے بعد یہودیوں نے جب انھیں نبی ماننے سے انکار کیا تو وہ اسی وقت سے غیر مسلم یا کافر ہوگئے۔ اب مسلم صرف وہ تھا جس کا ایمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی شریعت پر تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت صحیح العقیدہ نصاریٰ حق پر تھے۔ لیکن جب انھوں نے خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا نبی اور رسول ماننے سے انکار کیا تو دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے۔ اب صرف وہ مسلمان ٹھہرا جو شریعتِ محمدی کا پیروکار ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد دین کی تبلیغ کی ذمہ داری علماء و مبلغین کے کاندھوں پر ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر دور میں اسلام کا پرچار رہا ہے۔
باقی اس حوالے سے میں نے کوئی خاص تحقیق نہیں کی۔ جو تھوڑا بہت جانتا تھا، عرض کر دیا۔
 

زیک

مسافر
میری رائے میں اس تاریخی قضیے کی بِنا دراصل یہی ہے۔

ایک شخص نبی ہونے کا دعوی کرے، رسول ہونے کا دعوی کرے یا خدا ہونے کا دعوی کر ڈالے، تو عام طور پر یہی ہوتا آیا ہے کہ لوگ لعن طعن کریں گے اور اگر ممکن ہو تو قانون حرکت میں آجائے گا، اور کچھ عرصے بعد معاملے کی محض تاریخی حیثیت ہی رہ جائے گی۔
لیکن اگر ایک شخص یہ دعوی کرے کہ میں رسول ہوں اور لوگوں سے اصرار کرے کہ مجھے رسول مانو بھی، تو یہاں معاملہ شدت اختیار کرے گا۔ اور بات یہی تک نہ رہے بلکہ اسے رسول نہ ماننے والوں کی تکفیر بھی کی جائے تو پھر معاملے کا انتہائی شدت اختیار کرنا بدیہی ہے۔
مسلمانوں میں آج قادیانیوں کے بارے میں جو شدید نفرت پائی جاتی ہے وہ دراصل اس ردِ عمل کا نتیجہ ہے جو قادیانیوں کی جانب سے تمام مسلمانوں کو مرزا غلام احمد کو رسول نہ ماننے پر کافر قرار دینے پر ہوا۔ اس کے اثرات دہائیاں گزرنے کے باوجود کم نہیں ہوئے۔
یہ کونسا ان تک مخصوص ہے ہر مذہبی طبقہ دوسروں کو ایسا ہی کہتا آیا ہے۔ مجھے تو (اس بات میں) تمام ہی سچے معلوم ہوتے ہیں
 
Top