احادیث کی کثرتِ تعداد کے اسباب

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

عموماً محدثین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کو اتنے لاکھ احادیث یاد تھیں ۔۔۔ مثلاً :
  • امام بخاری رحمة اللہ کو چھ لاکھ احادیث یاد تھیں
  • امام احمد بن حنبل رحمة اللہ کو پانچ لاکھ حدیثیں یاد تھیں
  • وغیرہ
تو سننے والے یا عام افراد جن کو علمِ حدیث یا محدثین کی اصطلاحات کا علم نہیں ہوتا وہ اس بات کی اصل حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں
بلکہ بعض اوقات تو پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں رکھنے والے اہل علم حضرات بھی ایسا ہی کچھ عرض فرماتے ہیں کہ :
23 سالہ عہدِ نبوت میں محال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر باتیں کی ہوں گی لہذا یہ تعداد ہی غلط ہے۔

دراصل معترضین مرفوع القلم ہیں اور اپنی کم علمی کی بنا پر اعتراض کرنے میں حق بجانب ہیں۔
ضروری ہے کہ اس عقدہ کو حل کیا جائے کہ کثرتِ احادیث کی کیا وجوہات ہیں؟ لہذا ذیل میں چند اہم وجوہات درج کی جا رہی ہیں۔

1۔ بلحاظ معانی "سنن" اور "احادیث" میں ایک فرق ہے۔
"سنن" کا تعلق صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واحد ذات سے ہے۔ جبکہ احادیث کا تعلق بےشمار صحابہ اور تابعین کے اقوال و افعال سے بھی ہے۔ لہذا احادیث کی تعداد سنن رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کئی گنا زیادہ ہونا لازمی امر ہے۔

2۔ بلحاظ "اسناد" اور "طرق" بھی ایک واضح وجہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معروف قول ہے : انما الاعمال بالنیات
یعنی یہ سنتِ قولی ہے۔
یہی سنتِ قولی سات سو طریقوں سے جب علیحدہ علیحدہ طور پر روایت کی گئی تو احادیث کے لحاظ سے اس ایک سنت کا شمار "700 احادیث" کے طور پر کیا جاتا ہے۔
اسی قولِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (انما الاعمال بالنیات) کی مثال صحیح بخاری سے لیجئے۔ صحیح بخاری میں یہ قولِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) 7 طرق سے مروی ہے لہذا اسے "7 احادیث" کی حیثیت سے تعبیر کر دیا گیا حالانکہ متن یعنی الفاظِ حدیث و معانی کے اعتبار سے وہ ایک ہی حدیث ہے۔

3۔ دورِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سنت کا مدار کتابت و روایت سے زیادہ تعامل پر تھا۔ مثلاً :
صحابہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جیسے نماز پڑھتے دیکھتے ویسے ہی پڑھ لیتے۔ یا جو وفود باہر سے مدینہ آتے ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں چند دن اپنے پاس ٹھہرا کر جاتے وقت یہ وصیت کرتے کہ : صلوا کما رایتمونی اصلی
یا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا : خذوا عنی مناسککم
پھر جب صحابہ نے نماز ، حج ، روزہ و زکوٰة اور دوسرے احکام کے کوائف و تفصیلات کو روایت و کتابت کرنا شروع کیا انہی چھوٹے چھوٹے ارشادات سے دفتر کے دفتر تیار ہو گئے۔

4۔ موضوع احادیث کا وجود بھی کثرتِ تعداد کی ایک وجہ ہے۔
بعض محدثین نے صرف صحیح احادیث جمع کیں ، بعض نے ضعیف احادیث بھی شامل کیں لیکن ان کے ضعف کی وضاحت بھی کر دی اور بعض نے تو جو کچھ ان کو ملا وہ سب کچھ درج کر دیا اور بعض نے موضوعات اور ضعیف احادیث کے بالکل الگ الگ مجموعے تیار کئے۔
اس تمام قسم کی مساعی سے یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ محدثین نے کسی بھی بات کو جو منسوب الی الرسول تھی ، ضائع نہیں کیا۔
سوال کیا جا سکتا ہے کہ ضعیف و موضوع روایات کا وجود کیونکر برقرار رکھا گیا اور کیوں انہیں ضائع نہ کر دیا گیا؟
تو اس کا صاف جواب یہ ہے کہ : اگرچہ ان کا یہ فعل بظاہر اچھا معلوم نہیں ہوتا مگر یہ محدثین کی دیانتداری کا کمال بھی ہے۔ فرض کیجئے کہ اگر کوئی موضوع یا ضعیف حدیث ضائع کر دی جاتی تو ۔۔۔۔
تو ہمارے طبقۂ صوفیاء کو یہ کہنے کا موقع میسر آ جاتا کہ :
ہماری طریقت اور خانقاہوں کے جملہ افعال و رسوم ، احادیث ہی سے لئے گئے ہیں ، مگر محدثین نے ایسی احادیث ضائع کر دی ہیں !!
یہی معاملہ دیگر باطل فرقوں کے دلائل کی صورت میں پیش آ سکتا تھا۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت ہے کہ اس نے محدثین کے ذریعے اپنے دین کو کمال تحفظ عطا فرمایا کہ : روایات میں مقبول اور مردود کو الگ الگ کر دیا مگر وجود سب کا برقرار رکھا۔

5۔ موضوع احادیث کے "اسناد" اور "طرق" بھی ایک اہم وجہ ہے۔
محدثین کا کام یہ تھا کہ موضوع احادیث کے متن کے ساتھ ساتھ ان کی اسناد کو بھی یاد رکھنا پڑتا تھا تاکہ ان سے عوام کو متنبہ رکھ سکیں۔ جس طرح سننِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) جب طرق کے لحاظ سے بیان کی جاتی ہیں تو احادیث بیسوں گنا بڑھ جاتی ہیں ، اسی طرح موضوع احادیث بھی طرق کے لحاظ سے کئی گنا زیادہ شمار ہونے لگیں۔

درج بالا تمام وجوہات پر اگر انصاف سے غور و فکر کیا جائے تو ہزاروں لاکھوں احادیث کی کثرت کی اصل حقیقت سے واقف ہونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنا چاہئے !!
یعنی چھ لاکھ ، پانچ لاکھ ، دس بیس لاکھ وغیرہ کی تعداد باصطلاح محدثین ہے اور وہ اپنی جگہ برحق ہے۔ وما توفیقی الا باللہ۔
 
اچھی منطق ہے۔ اس طرح ہم بیس لاکھ کو پچاس لاکھ اور پچاس لاکھ کو 1یک لاکھ اور ستر لاکھ کو 2 لاکھ ثابت کرسکتے ہیں، 1970 دراصل 120 ہے 150 دراصل 25010 ہے۔ ایک حساب ہی رہ گیا تھا وہ بھی گیا کام سے ۔ کیا شماریات ہیں۔ سب کچھ غلط ہی بس ان اصحاب کی پیش کردہ احادیث درست ہیں۔ بھائی ۔ شکوہ بے بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔ جو الفاظ رسول صلعم کی زبان سے ادا ہوئے ہیں اور اپنی جگہ یکتا ہیں‌، یعنی کوئی جملہ دہرایا نہیں‌گیا، کیا اس کا کوئی حساب ہے؟ میں‌نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ "یہ بھی ہمارے نبی کا معجزہ ہے کہ 120 سال کی احادیث صرف 23 سال میں‌کہہ دی تھیں۔" قرآن اس کے علاوہ ہے۔ جنگیں اس کے علاوہ ہیں۔

[ayah]2:9[/ayah] وہ اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے
[ayah]2:10[/ayah] ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے
 

صرف علی

محفلین
السلام علیکم
باذوق کیا آپ بتائے گئے کے حدیث کی پہلی کتاب کب لکھی گئی تھی رسول اللہ (ص) کے وفات کے بعد ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

نایاب

لائبریرین
اچھی منطق ہے۔ اس طرح ہم بیس لاکھ کو پچاس لاکھ اور پچاس لاکھ کو 1یک لاکھ اور ستر لاکھ کو 2 لاکھ ثابت کرسکتے ہیں، 1970 دراصل 120 ہے 150 دراصل 25010 ہے۔ ایک حساب ہی رہ گیا تھا وہ بھی گیا کام سے ۔ کیا شماریات ہیں۔ سب کچھ غلط ہی بس ان اصحاب کی پیش کردہ احادیث درست ہیں۔ بھائی ۔ شکوہ بے بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔ جو الفاظ رسول صلعم کی زبان سے ادا ہوئے ہیں اور اپنی جگہ یکتا ہیں‌، یعنی کوئی جملہ دہرایا نہیں‌گیا، کیا اس کا کوئی حساب ہے؟ میں‌نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ "یہ بھی ہمارے نبی کا معجزہ ہے کہ 120 سال کی احادیث صرف 23 سال میں‌کہہ دی تھیں۔" قرآن اس کے علاوہ ہے۔ جنگیں اس کے علاوہ ہیں۔

[ayah]2:9[/ayah] وہ اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے
[ayah]2:10[/ayah] ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے

السلام علیکم
محترم جناب فاروق سرور بھائی
سدا خوش رہیں آمین
آپ کی مندرجہ بالا تحریر نے مجھے الجھا دیا ہے ۔
ان پڑھ سا انسان ہوں سمجھ نہیں پا رہا کہ
آپ کی تحریر محترم بازوق بھائی کی تحریر کی
تائید میں ہے یا تردید میں ۔
اگر کچھ توجہ سے نواز دیں تو مہربانی ۔
نایاب
 

فرخ منظور

لائبریرین
باذوق صاحب جتنا ذور آپ حدیثوں کی تشریح پر لگاتے ہیں اگر اس سے نصف بھی قرآن کے احکامات کی تشریح پر لگاتے تو زیادہ خوبصورت بات ہوتی۔
 
السلام علیکم
باذوق کیا آپ بتائے گئے کے حدیث کی پہلی کتاب کب لکھی گئی تھی رسول اللہ (ص) کے وفات کے بعد ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے احادیث کو لکھنا شروع کر دیا تھا ۔ کچھ نے احادیث صرف حفظ کر لی تھیں۔
 

میر انیس

لائبریرین
معاف کیجیئے گا باذوق آپ نے کوئی پختہ دلیل نہیں دی۔ جو باتیں آپ نے کی ان سے تو یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ہر وہ بات جو آنحضرت کا نام لے کر کہدی گئی اسکو حدیث کی کتابوں میں جمع کرلیا گیا اور انہی احادیث کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور ہر فرقے نے اپنے نظریات کے مطابق احادیث سے استدلال کیا۔ یہ بھی تو ہوسکتاہے کہ جسکی حکومت رہی چاہے وہ عادل حکمران تھا یا غاصب اسکی خوشنودی کیلیئے موضوع احادیث کا سہارا لیا گیا ۔ اب اسکی کیا سند ہے کہ جن احادیث کو ایک فرقہ صحیح حدیث گردانے وہ دوسرے کے نزدیک موضوع نا ہو۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا نا کے محدثین صرف صحیح احادیث ہی نقل کرتے ۔
 

طالوت

محفلین
کوئی تیس لاکھ سے اوپر ادھر کی احادیث ہیں اور نصف یا پاؤ بھر شاید ادھر بھی ہوں ۔ اللہ ہی حافظ ہے ان شماریات کا اور ان بے تکی دلیلوں کا ۔ ایک صاحب تحقیق تو یہاں تک لکھ گئے کہ یہ سارا مواد اندرون خانہ تیار ہوتا رہا اور جب ہلاکو کو بغداد کی دعوت اڑوائی گئی جس میں‌لائیبریوں کی لائبریریاں نیست و نابود کی گئیں پھر یہ ساری گٹھریاں کھولی گئیں ۔
وسلام
 

ظفری

لائبریرین
محترم باذوق صاحب کے اس موضوع پر تو خیر میں بعد میں لکھوں گا ۔ مگر اس پہلے کہ لوگ اتنی وافر حدیثوں کی تاویلیوں میں پڑیں ۔ حدیث کی حیثیت کے بارے میں ہم یہ تعین کرلیں کہ احادیث کیا ہیں ۔ ؟

سب سے پہلے تو یہ بات واضع ہونی جانی چاہیئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رہنمائی کا منبع اور ماخذ ہیں ۔ تو حدیث کیا ہیں ۔ احادیث حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل کا ایک عظیم ریکارڈ ہیں ۔ یعنی جب حدیث کی حیثیت کا تعین کیا جاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ ہمارے پیغمبرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ہیں ۔ اور پیغمبر کی حیثیت قرآن میں بیان ہوئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حیثیت قرآن میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ کا دین دیا ہے ۔ آپ اللہ کی نمائندگی کررہے ہیں ۔ آپ کو ایک مقام بخشا گیا ہے ۔ اللہ کی طرف سے مخاطب ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے کہ " وما أرسلنا من رسول إلا ليطاع باذن اللہ " ۔۔۔۔ اللہ کے پیغبر کی غیر مشروط اطاعت کی جاتی ہے ۔ یعنی اس معاملے میں آپ چوں و چرا نہیں کرسکتے ۔ جب آپ نے ان کو اللہ کا پیغمبر مان لیا ہے تو ان کا ہر قول و فعل اوران کی ہر وہ چیز جس کو دین کی حیثیت پیش کریں اس کے سامنے سرِ خم تسلیم کرنا ہوگا ۔ وہ دین دے رہے ہوں ۔ دین کی وضاحت کر رہے ہوں یا پھر وہ کوئی فقہہ اجتہاد کررہے ہوں ۔ ان کی بات ہر حال میں ماننا ہوگی ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ ہے ۔ قرآن میں واضع بتا دیا گیا ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیاوی معاملے میں‌ کوئی فیصلہ کررہے ہیں ۔ مثلاً کسی کے جھگڑے کے درمیان کوئی فیصلہ کردیں اورکوئی سمجھتا ہے کہ وہ فیصلہ اس کے خلاف ہے یا وہ اس کو صحیح نہیں سمجھتا اور اس سلسلے میں دل میں تھوڑی سی بھی تنگی پیدا ہوجائے تو وہ ایمان سے خارج ہوگیا ۔ اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مرتبہ اور مقام بیان فرمایا ہے ۔ حتیٰ کہ آواز اونچی ہوجائے تو خطرہ ہے کہ ایمان ضائع ہوجائے گا ۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بات کی تصوید و تصدیق کردی ہے ۔ کسی بات کی وضاحت کردی ہے وہ بلکل اسی طرح واجب الاطاعت ہے جس طرح کا باقی دین واجب الاطاعت ہے ۔

اب رہ گئی یہ بات کہ یہ ہمارے پاس پہنچا کس طرح سے تو ظاہر ہے کہ یہ احادیثوں کے ذریعے پہنچا ہے ۔ دین سارا قرآن و سنت میں ہے ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ ، آپ کی تفہیم ، آپ نے اس پر کیسے عمل کیا ، آپ کے اجتہادات ۔ سب اسی ذریعے سے ہمارے تک پہنچے ہیں ۔ اسی لیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " دین میں میری حیثیت کیا ہے " ۔ اور اس حیثیت کو قرآن نے بھی بیان کردیا ہے ۔ چنانچہ احادیث سے ہماری دلچسپی ، نسبت اور عقیدت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حیثیت کی وجہ سے ہے ۔ احادیث میں ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل ہیں ۔ اور اسی وجہ سے ہم احادیث کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لہذا جو آدمی ان احادیث سے بے اعتنائی برتتا ہے اصل میں وہ ذاتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے اعتنائی برتتا ہے ۔ اور کوئی مسلمان ایمان کیساتھ اس کا تصور بھی کیسے کرسکتا ہے ۔ چلیں ایمان کا معاملہ ایک طرف رکھ دیں ۔ کوئی علمی ذوق رکھنے والا بھی اس سے کیسے بے اعتنائی برت سکتا ہے ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہاں سے جانے گا ۔ آپ کی سیرت مبارک کی تفصیلات کہاں سے مہیا ہونگیں ۔

اب موضوع کے اعتبار سے محترم باذوق صاحب نے ایک علمی بحث کا آغاز چھیڑ دیا ہے ۔ چنانچہ اس پر اگر علمی بحث کا آغاز کیا جائے تو ڈر ہے کچھ احباب فتوؤں کی پوٹلیوں سمیت یہاں آدھمکیں گے ۔ اور علمی بحث ایک بے مقصد اور لاحاصل تکرار میں تبدیل ہوجائے گی ۔ فاروق سرور صاحب اور طالوت اور مجھ کو بھی پہلے کچھ اسی قسم کے فتوؤں سے نوازا گیا ہے ۔ مگر جب محدثین سر جوڑ کر مسلسل تحقیق کرکے " صحیح‌ " اور " ضیعف " احادیث کو آج تک الگ کر رہے ہیں ۔ تو پھر ہم ان پر علمی بحث کیوں نہیں کرسکتے ۔ مگر ستم یہ ہے کہ کچھ خاص مکتب فکر کے حامل حضرات ہمیں بھی ایک خاص مکتب ِ فکر سے جوڑ کر فتوؤں سے نواز دیتے ہیں ۔ :)
 

طالوت

محفلین
ویسے میں ان معاملات میں، میں بڑی ناقص معلومات رکھتا ہوں مگر کل ایک کتاب کے مطالعہ کے دوران مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ آخری خطبہ جو رسول اللہ نے اپنے پہلے اور آخری حج کے موقع پر فرمایا اور جسے "انسانیت کا منشور" کہا جاتا ہے جسے قریبا سوا لاکھ صحابہ و صحابیات نے سنا وہ کسی بھی قدیم کتاب میں ایک مجموعے کی شکل میں نہیں ملتا ۔ کچھ جملے یا لفظ کسی کتاب سے ملتے ہیں اور کچھ کسی اور کتاب سے ۔ جبکہ اس خطبے کے آخر میں بنام رسول اللہ یہ پیغام موجود ہے کہ جو لوگ یہاں موجود نہیں میرا یہ پیغام ان تک بھی پہنچایا جائے ۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ اگر اس کتاب کے مصنف نے یہ غلط بیانی کی تو کس قدر برا کام کیا اور اگر یہ درست ہے تو کیا وجہ ہے کہ سوا لاکھ کے مجمعے میں کوئی بھی فرد ایسا نہ تھا جو اس خطبے کو مکمل شکل میں محفوظ کرتا اور آگے پھیلاتا اور رسول اللہ کی اس خاص تاکید کے باوجود یہ مجرمانہ غفلت برتی گئی ؟
-----------------------------------------------------
جی ظفری حال ہی میں چند ایک ایسے احباب سے ملاقات ہوئی جنھوں نے درس نظامی مکمل کیا اور اسی تحقیق میں "سچائی اور ڈھٹائی" کے ساتھ جُٹ گئے ہیں اور انھیں اسی جرم کی پاداش میں کئی مسجدوں سے نکالا گیا اور فتوؤں سے نوازا گیا ۔ ان میں سے شاید ایک دو صاحب اسلام آباد کی اسلامی یونیورسٹی میں مزید تحقیق اور حصول علم کے لئے ہجرت کر گئے ہیں کوشش میں ہوں کہ ان سے رابطہ ہو تاکہ ان کے تجربات و علم سے بھی فائدہ اٹھایا جائے ۔
وسلام
وسلام
 
اگر یہ درست ہے تو کیا وجہ ہے کہ سوا لاکھ کے مجمعے میں کوئی بھی فرد ایسا نہ تھا جو اس خطبے کو مکمل شکل میں محفوظ کرتا اور آگے پھیلاتا اور رسول اللہ کی اس خاص تاکید کے باوجود یہ مجرمانہ غفلت برتی گئی ؟
آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟
1-یعنی اگر یہ درست ہے تو آپ کے نزدیک یہ ایک مجرمانہ غفلت تھی جسکے مرتکب میں یا آپ نہیں بلکہ صحابہءِ کرام ہوئے۔ ۔ ۔؟؟؟؟کیا یہ اندازِ بیان صحابہ کیلئے استعمال کرنا کسی طرح سے بھی مناسب ہے؟
2-اور اگر یہ بات غلط ہے تو پھر آپ کا کیا پوائنٹ ہے؟ غالباّ یہی کہ پھر وہ خطبہ لکھا گیا ہوگا لیکن ہے کدھر؟ ضائع ہوگیا یا کردیا گیا؟ یا کروادیا گیا؟ آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں بھائی صاحب:worried:
 

طالوت

محفلین
آپ مراسلہ پھر سے پڑھیں ۔ شروع سے آخر تک نہ کہ آخری دو سطروں پر محض غور فرمائیں ۔ (اطلاعا یہ ایک سوالیہ مراسلہ ہے ۔:rolleyes:)
وسلام
 

سویدا

محفلین
صحابہ کرام کے بارے میں‌اس قسم کا سوال کہ وہ مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے
کسی صاحب ایمان کو زیب نہیں‌دیتا
آپ ڈاکٹر نثار احمد صاحب کی کتاب خطبہ حجۃ الوداع کا مطالعہ فرمالیں‌اس میں‌انہوں‌نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا خطبہ حوالوں‌کے ساتھ نقل فرمایا ہےکتاب سرائے لاہور سے شائع ہوچکی ہے
اس کتاب پر مصنف کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے بہت علمی اور تحقیقی کتاب ہے کراچی میں‌فضلی سنز سے مل جائے گی
صحابہ کرام کو سوالیہ انداز میں‌بھی الزام مت ٹھہرائیں آپ کی جستجواور تحقیق میں‌کمی ہے نہ کہ صحابہ کی محنت اور دین کی حفاظت میں
 
آہپ نے جو سوال پیش کیا ہے اسکے دو ہی جوابات بنتے ہیں ۔کتاب کا مصنف یا تودرست کہہ رہا ہے یا غلط -
اس کے درست ہونے کی صورت میں آپ نے گوہر افشانی فرمائی ہے یہ ایک مجرمانہ غفلت تھی جو صحابہ سے سرزد ہوئی۔
اور اس کا غلط ہونا بھی ممکن نظر نہیں آرہا کیونکہ اگر واقعی اس خطبے کو تحریری طور پر اسی وقت محفوظ کیا گیا ہوتا تو ضرور اسکے شواہد منظر عام پر آتے۔
لہذا اگر پہلی بات درست ہے تو آپ کا صحابہ کے بارے میں یا ارشادسراسر سوءالظن پر مبنی ہے۔ انّ کثیر الظّن من الاثم۔
ذرا غور فرمائیے گا۔
 
حدیث کی کثرت ہو یا قلت، ایک بات جو بے حد اہم ہے اور دو ذریعوں ---- قرآن حکیم اور قول نبوی ----- سے ثابت ہے وہ یہ کہ قرآن بنیاد ہے ہمارے ایمان کی۔

اگر قرآن کے واضح اصولوں پر کوئی روایت پوری نہیں‌اترتی تو پھر اس روایت کی کیا اہمیت ہے۔

اللہ تعالی ، کا حکم ہے رسول اللہ صلعم کو کہ قرآن کی پیروی فرمائیں اور تمام تر فیصلے اسی کتاب سے کیجئے۔

کیا رسول اللہ صلعم نے یہ فریضہ درستگی سے سرانجام دیا؟
یقیناً ، اس لئے کہ آخری خطبہ میں رسول اکرم صلعم نے یہ سوال کیا اور لوگوں نے گواہی دی کہ رسول اکرم نے زبانی ، اور اپنے قول و فعل سے یہ فریضہ سر انجام دیا۔ کیا ہم کو یہ بھی توقع کرنی چاہئیے کہ رسول اکرم صلعم کے اقوال و اعمال خلاف قرآن رہے ہونگے؟

تو جہاں‌ہم کو رسول اللہ کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا گیا، رسول اللہ صلعم کو قرآن کی پیروی کرنے اور اس کے مطابق فیصلے کرنے کاحکم دیا گیا۔

اس معلومات کی روشنی میں ، اللہ تعالی کے فرمان کی روشنی میں اور رسول اللہ صلعم کے قول مبارک کی روشنی میں ہم یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر منسوب شدہ روایت میں سنت رسول اکرم صلعم قرآن کے موافق ہو تو قابل قبول ورنہ اس کو رد کردینا چاہئیے۔۔۔

جہاں‌تک کثرت تعداد کی بات ہے تو اس میں ایک ہی حدیث ایک سے زائید حضرات نے دہرائی ہے۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب موطا امام مالک میں‌ صرف ہزار کے لگ بھگ روایات ہیں تو پھر صرف 100 سال میں یہ تعداد بڑھ کر تیس لاکھ کیسے ہوگئی۔ کیا امام مالک کے دور میں (جو صرف رسول اکرم صلعم کی وفات کے سو سال بعد تھا) لوگوں کی یادواشت خراب تھی اور دو سو سال بعد بہتر ہوگئی؟

30 لاکھ روایات کو اگر کوئی اللہ کا بندہ صرف ایک منٹ فی روایت کے حساب سے حاصل کرے، چاہے ایک ہی روایت مختلف لوگوں نے بیان کیوں نہ کی ہو ، بیان تو کی جانی ضروری ے تاکہ بخاری صاحب ان کو ایک بار تو سنیں۔ یہ بخارا سے مدینہ گئے تھے تو تیس لاکھ منٹ کے 57 سال سے زائید بنتے ہیں۔ وہ بھی اگر دن اور رات کام کیا جائے۔ اس پر غور کرنے کے لئے اگر ایک منٹ فی روایت لگا دیا جائے کہ کس کی اسناد درست ہیں تو پھر مزید 57 سال بنا سوئے، بنا کھائے ، بنا حوائج ضروریہ کے چاہئیے ہیں۔ اور اگر ان روایات کو ایک منٹ فی روایت کے حساب سے لکھا گیا تو بھائی پھر 57 سال لگالیجئے۔ یہ ہوئے کل 171 سال ، فرض کیجئے کہ جناتی رفتار سے کام کیا گیا اور اس کا ایک تہائی لگا یا پھر روایات صرف 10 لاکھ تھیں‌ تو بھی بھائی 57 سال تو چاہئیے ہی ہیں۔ وہ بھی بناء سوئے ، بناء کھائے پئیے۔

میرا خیال ہے کہ ایک اچھا منظر بن گیا ہے ذہنوں میں۔ کود اہلسنت کی کتب میں دیکھ لیجئے۔ روایت فیکٹریوں کا بے تحاشا رونا ہے۔ سارے فرقوں کی بنیاد ہی روایات ہیں :)

ایک محفوظ پوزیشن یہ ہے کہ ہر روایت کو دیکھئے اگر قرآن کے موافق و مطاق ہے اس کو قبول کیجئے اور اگر قرآن کے خلاف ہے اس کو رد کردیجئے۔

بہت سے لوگ درج ذیل سوال کرتے ہیں۔

1۔ نماز کا طریقہ قرآن میں کہاں تعلیم کیا گیا ہے۔
جواب: نماز کا طریقہ کسی ایک حدیث میں کس حدیث کی کتاب میں تعلیم کیا گیا ہے۔ فراہم کردیجئے تاکہ سب فرقوں‌کو دکھا کر نماز پڑھنے کے درجنوں‌ طریقوں سے نجات ملے۔
مزید یہ کہ مسجدوں‌میں ناچنے ، ہول ڈالنے، دائروں میں‌گھومنے والے لوگوں کے بارے میں جو احادیث ہیں وہ بھی لگے ہاتھوں فراہم کردیجئے۔

2۔ کہتے ہیں کہ گدھا اور کوا کھانے کے قرآن میں کہاں‌ درج ہے؟ تو حدیث نہیں دیکھیں گے تو کیا دیکھیں گے؟
زرافہ ، گینڈا، ہاتھی بھی تو کھاس خور ہیں ۔ ان کا کوئی حکم ہے احادیث میں؟ ٹرکی ایک پرندہ ہے، اس کا حکم ہے احادیث میں؟ بھائی پاک اور ناپاک کا حکم کافی نہیں کیا۔

کہنے کا مقصد ہے کہ قرآن کے بعد آنے والی کسی بھی کتاب پر ایمان رکھنا ، آرٹیکل آف فیتھ نہیں ہے۔ تمام آرٹیکل آف فیتھ یعنی ایمان کے ارکان مفصل سورۃ البقرہ 177 میں درج ہیں۔ ان ارکان میں‌ کہیں بھی بعد میں آنے والی کتب پر ایمان کا حکم نہیں ہے۔ لیکن قرآن کی پیروی کرنے کا صاف و واضح حکم موجود ہے۔

اس لئے فرمان رسول اللہ صلعم کے مطابق، جو روایت قرآن کے اصولوں‌ کے موافق ہو اس کو قبول کرلیجئے اور جو اس کے مخالف ہو اس کو رد کردیجئے۔ جن روایات کو قبول کرلیا ہے ان کو اب آپ اسناد کی مدد سے صحیح و ضعیف میں‌ تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو بخوشی کیجئے۔

والسلام
 

طالوت

محفلین
اور آپ دونوں سے بھی گزارش ہے کہ آپ بھی ذرا جذباتیت سے نکل کر مراسلہ پڑھ لیا کریں ۔ صحابہ کی عظمت کا میں کتنا قائل ہوں محفلین خوب جانتے ہیں ۔ موضوع اور میرے مراسلے کا تال میل سمجھنے کی کوشش کریں ، خیر وہ اگر آپ سمجھتے تو اس سب کی نوبت ہی کیوں آتی ۔ میری گوہر افشانی یہ تھی کہ بقول مذکوربالا مصنف کے اس خطبے کا کوئی سرے سے وجود ہی نہیں وگرنہ اس قدر تاکید کے بعد یہ ممکن ہی نہ تھا کہ اس خطبے کی حفاظت نہ کی جاتی بلکہ ایسی باتیں جو رسول اللہ سے منسوب کر دی جاتی ہیں ان کے اندر بالاآخر کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے جو نا صرف تبرائیت میں شمار ہوتا ہے بلکہ اس کی حقیقت کا پول بھی کھول دیتا ہے ۔ اسی طرح کے سینکڑوں معاملات روایتوں میں بھی ہیں۔ وگرنہ جس بات کی رسول اللہ نے خصوصی تاکید بھی فرمائی ہو وہ دو دو چار چار لفظوں/جملوں میں یوں نہ ہوتا کہ کسی صاحب علم کو اس پر تحقیق کر کے کتاب لکھنا پڑتی اور شاباشیوں سے نوازا جاتاکیونکہ اگر کربلائی داستانیں یا ڈوبتی تیرتی کشتیوں کی داستانیں حرف بحرف باقاعدہ کتابی صورتوں میں محفوظ ہو سکتی ہیں تو خطبہ رسول کے لئے تو اس سے کہیں زیادہ اہتمام کیا جاتا جبکہ اس کے لئے رسول اللہ کی تاکید بھی ہو ۔اور ان تمام روایتوں کی کثرت بھی اسی وجہ سے ہے کہ لوگوں کی ذہنی اختراع ہے جو نہ صرف شان صحابہ کو دھندلاتی ہے بلکہ قران اور صاحب قران تک کو متنازعہ بناتی ہیں ۔
وسلام
 
صحابہ کرام کے بارے میں‌اس قسم کا سوال کہ وہ مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے
کسی صاحب ایمان کو زیب نہیں‌دیتا
آپ ڈاکٹر نثار احمد صاحب کی کتاب خطبہ حجۃ الوداع کا مطالعہ فرمالیں‌اس میں‌انہوں‌نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا خطبہ حوالوں‌کے ساتھ نقل فرمایا ہےکتاب سرائے لاہور سے شائع ہوچکی ہے
اس کتاب پر مصنف کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے بہت علمی اور تحقیقی کتاب ہے کراچی میں‌فضلی سنز سے مل جائے گی
صحابہ کرام کو سوالیہ انداز میں‌بھی الزام مت ٹھہرائیں آپ کی جستجواور تحقیق میں‌کمی ہے نہ کہ صحابہ کی محنت اور دین کی حفاظت میں

شکریہ
صحابہ کرام پر ہم انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ اس لئے کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوا۔ یہ سرٹیفیکیٹ قرآن حکیم میں درج ہے۔

لیکن اگر دشمناں اسلام نے اس میں گمراہ کن اضافہ کئے ہوں تو اس میں ان صحابہ کرام کا کیا قصور۔

آپ آج ملنے والے کسی بھی خطبے کے مندرجات کو قرآن حکیم کی مدد سے پرکھیں ، اگر اس میں کوئی نکتہ خلاف قرآن ہے تو پھر بہت مشکل ہے کہ اس کو رسول اللہ صلعم نے فرمایا ہو۔ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت اس لئے نہیں کہ صحابہ کرام نے اپنا کام نہیں کیا بلکہ اس لئے کہ یہودی ، اس میں اسرائیلی روایات شامل کرتے رہے، عیسائی اس کو اپنے لئے موزوں کرتے رہے اور دشمناں اسلام اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے رہے۔ لہذا تحقیق اور سوال کا راستہ کھلا رکھئے۔

اندیکھے پر ہمارا ایمان ضرور ہے لیکن اندھے ایمان کا تقاضا نہیں‌کیا اللہ تعالی نے۔ کہ جو بھی پیش کیا جائے اس پر اندھا ایمان لے آؤ۔

والسلام
 
Top