مصطفیٰ زیدی اب جی حدودِ سود و زیاں سے گزر گیا مصطفی زیدی

علی فاروقی

محفلین
اب جی حدودِ سود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا

پلکوں پہ آکے رک سی گئ تھی ہر ایک موج
کل رو لیے تو آنکھ سے دریا اتر گیا

شامِ وطن کچھ اپنے شہیدوں کا ذکر کر
جن کے لہو سے صبح کا چہرہ نکھر گیا

آکر بہار کو تو جو کرنا تھا کر گئ
الزام احتیاطِ گریباں کے سر گیا

زنجیرِ ماتمی ہے تم اے عاقلانِ شہر
اب کس کو پوچھتے ہو دِوانہ تو مر گیا
 

علی فاروقی

محفلین
کیا یہ صاحب مرثیہ گوئی بھی کرتے ہیں۔ میری مراد ان شاعر یعنی مصطفی زیدی سے ہے۔س
جی یوں ہے کہ سانحہ کربلا پر ایک آدھ نظم تو موجود ہے ان کی ،اور ان کی شاعری میں کربلا کے استعارے بھی مل جاتے ہیں،لیکن کوئ مکمل مرثیہ میرے ناقص علم میں نہیں ہے،کہیں غیر مطبوعہ کلام میں ہوں تو کچھ کہہ نہیں سکتا۔
 

مغزل

محفلین
اب جی حدودِ سود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا

پلکوں پہ آکے رک سی گئ تھی ہر ایک موج
کل رو لیے تو آنکھ سے دریا اتر گیا

شامِ وطن کچھ اپنے شہیدوں کا ذکر کر
جن کے لہو سے صبح کا چہرہ نکھر گیا

آکر بہار کو تو جو کرنا تھا کر گئ
الزام احتیاطِ گریباں کے سر گیا

زنجیرِ ماتمی ہے تم اے عاقلانِ شہر
اب کس کو پوچھتے ہو دِوانہ تو مر گیا


بہت خوب کیا کہنے علی فاروق صاحب ، سبحان اللہ کیا کہنے ماشا اللہ کیا خوب ذوق پایا ہے ،۔

کیا یہ صاحب مرثیہ گوئی بھی کرتے ہیں۔ میری مراد ان شاعر یعنی مصطفی زیدی سے ہے۔س

عمران قادری صاحب میری ناقص معلومات کے تحت ایک مرثیہ ’’ تسلیم و رضا ‘‘ کے نام سے جناب ( مصطفی زیدی) سے منسوب ہے ، سند بہرحال کوئی نہیں۔ ہاں ان کی نظموں میں رثائی اشعار ضرور ملتے ہیں جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ جناب ِزیدی مرثیہ گو بھی رہے ہوں گے ۔ بہت شکریہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
غزل
اب جی حدودِ سود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا

پلکوں پہ آکے رک سی گئی تھی ہر ایک موج
کل رو لیے تو آنکھ سے دریا اتر گیا


تجھ سے تو دل کے پاس ملاقات ہو گئی
میں خود کو ڈھونڈنے کے لیے در بہ در گیا


شامِ وطن کچھ اپنے شہیدوں کا ذکر کر
جن کے لہو سے صبح کا چہرہ نکھر گیا

آ کر، بہار کو تو جو کرنا تھا، کر گئی
الزام، احتیاطِ گریباں کے سر گیا

زنجیر ماتمی ہے، تم، اے عاقلانِ شہر
اب کس کو پوچھتے ہو، دِوانہ تو مر گیا

(مصطفیٰ زیدی)
 
Top