ابولکلام آزاد کی نظر میں مسٹرجناح بحیثیت ایک فرقہ پرست

سید رافع

محفلین
جناح کی یہ تعریف آپ سے سن کر بہت اچھا لگا۔ 👍
ملک کے سربراہ کو ریاست کے ہر فرد کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوتا ہے چاہے اسکے ذاتی رجحانات سیکیولر ہوں یا مذہبی ہوں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ سر ظفر اللہ قادیانی اور احمدی گروپ نے قرار داد مقاصد کیسے پاس ہونے دی جبکہ یہ ملک کو سیکیولر کے بجائے مذہبی بنانے کے مترادف تھا۔
 

سید رافع

محفلین
جاسم صاحب نے بھی اس حوالے سے احمدیوں کا حوالہ دیا ہے جو کہ بہرحال اس وقت غیر مسلموں میں شمار نہ کیے جاتے تھے گو کہ ان کے عقائد واضح تر ہو چکے تھے۔
١٩٠٦ میں بریلوی مکتب فکر قادیانیوں کو کافر قرار دے چکا تھا۔
 

سید رافع

محفلین
قائد اعظم اگر قیام پاکستان کے بعد کچھ سال زندہ رہتے تو پاکستان ایک اچھا سیکولر ملک بن سکتا تھا۔ کم از کم اس طرح بغض احمدیت میں مبتلا علما کرام کے ہاتھوں میں تو نہ جاتا۔۔۔
یہ کیسے ممکن ہوتا جبکہ بقول ڈاکٹر اشتیاق احمد ملک کی اکثریت اہلسنت بریلوی ہے؟ مسٹر جناح جمہوری طریقوں پر چلتے تو اسمبلی میں اکثریت مسلمانوں کی ہی ہوتی جو اگر سیکیولر نہ ہوتے تو کسی نہ کسی عالم دین کے مرید ہوتے۔
 

علی وقار

محفلین
ملک کے سربراہ کو ریاست کے ہر فرد کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوتا ہے چاہے اسکے ذاتی رجحانات سیکیولر ہوں یا مذہبی ہوں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ سر ظفر اللہ قادیانی اور احمدی گروپ نے قرار داد مقاصد کیسے پاس ہونے دی جبکہ یہ ملک کو سیکیولر کے بجائے مذہبی بنانے کے مترادف تھا۔
آپ کو یہ کیوں لگتا ہے کہ احمدی گروپ غیر مذہبی ہے؟
 

سید رافع

محفلین
آپ کو یہ کیوں لگتا ہے کہ احمدی گروپ غیر مذہبی ہے؟
غیر اہلسنت تو ہے۔ سیدھا سا حساب ہے کہ ایسی ریاست جہاں اہلسنت بریلوی کی تعداد زیادہ ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ قادیانی مذہب کی بنیاد پر حکومت اور برتری حاصل کر سکیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ملک کے سربراہ کو ریاست کے ہر فرد کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوتا ہے چاہے اسکے ذاتی رجحانات سیکیولر ہوں یا مذہبی ہوں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ سر ظفر اللہ قادیانی اور احمدی گروپ نے قرار داد مقاصد کیسے پاس ہونے دی جبکہ یہ ملک کو سیکیولر کے بجائے مذہبی بنانے کے مترادف تھا۔
کیونکہ احمدی احباب شدید بغض احمدیت کے باوجود آج بھی خود کو پکا مسلمان مانتے ہیں۔ وہ کیونکر ایک اسلامی قرارداد مقاصد کو مسترد کر دیتے؟ حالانکہ اس وقت کے غیرمسلم ممبران اسمبلی نے یہ قرارداد مقاصد شدید الفاظ میں مسترد کر دی تھی۔ اگر احمدی خود کو غیر مسلم مانتے تو وہ بھی اسے مسترد کر دیتے۔
 

سید رافع

محفلین
کیونکہ احمدی احباب شدید بغض احمدیت کے باوجود آج بھی خود کو پکا مسلمان مانتے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر اس انسان سے بغض رکھتے ہیں جو کسی دوسرے سے بغض رکھتا ہو۔ یوں تو آپکا بغض محدود اور متعین نہیں رہے گا جبکہ بغض کی بھی حدود ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
مسٹر جناح کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ کی تقریر جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک عام انسانیت دوست ریاست کا قیام چاہتے تھے ناکہ اہلسنت یا کسی دوسرے عقیدے کی شرعی ریاست۔ میرے نزدیک بھی یہی ہر مسلمان کا مقصد ہونا چاہیے کہ ریاست میں انسانیت اور انسان دوستی پیدا ہو۔ مسٹر جناح نے اپنی تقریر میں کہا:

جناب صدر (جوگندرناتھ منڈل) اور خواتین و حضرات۔۔!

مجھے اپنا پہلا صدر منتخب کرکے آپ نے جس اعزاز سے نوازا ہے ، اس کے لیے تہہ دل اور پورے خلوص کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ وہ عظیم اعزاز ہے جس سے یہ خود مختار مجلس کسی کو نواز سکتی ہے۔ میں ان رہنماؤں کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے اپنی تقاریر میں میری خدمات کو سراہا اور میرے بارے میں ذاتی حوالے دیئے۔ مجھے امید واثق ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ہم اس اسمبلی کو دنیا کے لیے ایک مثال بنادیں گے۔

مجلس دستور ساز کو دو بڑے فریضے سر انجام دینے ہیں:

پہلا فرض تو بڑا کٹھن اور ذمہ داری کا کام ہے یعنی پاکستان کا مستقل دستور مرتب کرنا۔ ہمیں اپنی بہترین مساعی اس امر کے لیے صرف کرنا ہوں گی کہ ہم وفاقی مجلس قانون ساز پاکستان کے لیے ایک عبوری آئین تیار کریں۔
دوسرا ایک کامل خود مختار اور پاکستان کے وفاقی قانون ساز ادارے کا کردار ادا کرنا۔
پاکستان کا قیام ، ایک پرامن جدوجہد
آپ جانتے ہیں کہ جس بے مثل طوفانی انقلاب کے ذریعہ اس برصغیر میں دو آزاد اور خود مختار مملکتیں معرض وجود میں آئیں۔ اس پر نہ صرف ہم حیرت زدہ ہیں بلکہ ساری دنیا متحیر ہے۔ فی الواقع یہ صورت حال منفرد ہے اور تاریخ عالم میں بھی اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔ اس عظیم برصغیر میں کہ جس میں ہر قسم کے لوگ آباد ہیں ، ایک ایسا منصوبہ لایا گیا ہے کہ جو انتہائی نایاب و بے مثل ہے اور اس ضمن میں جو بات سب سے زیادہ اہم ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ پر امن طریقے سے اور عظیم تر تدریجی ارتقاء سے حاصل کیا ہے۔

اس مجلس کے پہلے فریضہ کے بارے میں اس وقت کسی سوچی سمجھی بات کا تو اعلان نہیں کرسکتا لیکن ایک دو چیزیں جو میرے ذہن میں آئیں گی ، وہ آپ کے سامنے پیش کردوں گا۔ پہلی اور سب سے زیادہ اہم بات جو میں زور دے کر کہوں گا وہ یہ ہے کہ یاد رکھیے کہ آپ خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو جملہ اختیارات حاصل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یعنی آپ فیصلے کس طرح کرتے ہیں۔۔؟

پہلا فرض : امن و امان
پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا ، وہ یہ ہے اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایک حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان ومال اور ان کے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے۔

سب سے بڑا مسئلہ : کرپشن
دوسری بات جو اس وقت میرے ذہن میں آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کے دوسرے ممالک اس سے پاک ہیں ، لیکن میں یہ کہوں گا کہ ہماری حالت بہت ہی خراب ہے ، وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ دراصل یہ ایک زہر ہے۔ ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کردینا چاہیے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلہ میں مناسب اقدامات کریں گے ، جتنی جلد اس اسمبلی کے لیے ایسا کرنا ممکن ہو۔

دوسرا مسئلہ : چوربازاری یا ذخیرہ اندوزی
چور بازاری (یا ذخیرہ اندوزی) دوسری لعنت ہے۔ مجھے علم ہے کہ چور بازاری کرنے والے اکثر پکڑے جاتے ہیں اور سزا بھی پاتے ہیں۔ عدالتیں ان کے لیے قید کی سزائیں تجویز کرتی ہیں یا بعض اوقات ان پر صرف جرمانے ہی عائد کیے جاتے ہیں۔ اب آپ کو اس لعنت کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔ موجودہ تکلیف دہ حالات میں جب ہمیں مسلسل خوراک کی قلت یا دیگر ضروری اشیائے صرف کی کمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ چور بازاری ، معاشرے کے خلاف ایک بہت بڑا جرم ہے۔ جب کوئی شہری چور بازاری کرتا ہے تو میرے خیال میں وہ بڑے سے بڑے جرم سے بھی زیادہ گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ چور بازاری کرنے والے لوگ باخبر ، ذہین اور عام طور سے ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں اور جب یہ چور بازاری کرتے ہیں تو میرے خیال میں انہیں بہت کڑی سزا ملنی چاہیے کیونکہ یہ لوگ خوراک اور دیگر ضروری اشیائے صرف کی باقاعدہ تقسیم کے نظام کو تہہ و بالا کردیتے ہیں اور اس طرح فاقہ کشی ، احتیاج اور موت تک کا باعث بن جاتے ہیں۔

تیسرا مسئلہ : اقرباء پروری
ایک بات جو فوری طور پر میرے سامنے آتی ہے ، وہ ہے اقربا پروری اور احباب نوازی ، یہ بھی ہمیں ورثے میں ملی ہے اور بہت سی اچھی بری چیزوں کے ساتھ یہ لعنت بھی ہمارے حصہ میں آئی۔ اس برائی کو بھی سختی سے کچل دینا ہوگا۔ یہ واضح کردوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربا نوازی کو برداشت کروں گا اور نہ ہی کسی اثر و رسوخ کو جو مجھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی ، قبول کروں گا۔ جہاں کہیں مجھے معلوم ہوا کہ یہ طریقہ کار رائج ہے خواہ یہ اعلیٰ سطح پر ہو یا ادنیٰ سطح پر یقینی طور پر میں اس کو گوارا نہیں کروں گا۔

تقسیم ہند ناگزیر تھی
مجھے علم ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں ہند کی تقسیم اور پنجاب اور بنگال کے بٹوارے سے اتفاق نہیں۔ تقسیم کے خلاف بہت کچھ کہا جاچکا ہے لیکن اب جبکہ اسے تسلیم کیا جاچکا ہے ، ہم سب کا فرض ہے کہ ہم سب اس کی پابندی کریں۔ عزت مندانہ طریقے سے اس پر عملدرآمد کریں کیوں کہ سمجھوتے کے مطابق اب یہ تقسیم قطعی ہے اور اس کا سب پر اطلاق ہوگا۔ لیکن آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے اور جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ یہ جو زبردست انقلاب رونما ہوا ہے اس کی کوئی اور نظیر نہیں ملتی۔ جہاں کہیں بھی ایک فرقہ اکثریت میں ہے اور دوسرا اقلیت میں ان دونوں کے مابین جذبات اور محسوسات میں افہام و تفہیم موجود ہوتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ کیا گیا اس کے علاوہ کوئی اور اقدام ممکن اور قابل عمل تھا۔۔؟

تقسیم عمل میں آچکی ہے۔ سرحد کے دونوں جانب ، ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جو اس سے اتفاق نہ کریں اور اسے پسند نہ کریں لیکن میری رائے میں اس مسئلہ کا اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں تھا اور مجھے یقین ہے کہ تاریخ اس کے حق میں فیصلہ صادر کرے گی۔ مزید برآں ، جوں جوں وقت گزرتا جائے گا ، تجربے سے یہ بات ثابت ہوتی جائے گی کہ ہند کے دستوری مسئلہ کا صرف یہی واحد حل تھا۔ متحدہ ہند کا تخیل قابل عمل نہیں تھا اور میری رائے میں یہ ہمیں خوفناک تباہی کے دھانے پر لے جاتا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ رائے درست ہو اور یہ بھی کہ درست نہ ہو لیکن اس کا فیصلہ بھی وقت ہی کرے گا۔ بایں ہمہ ، اس تقسیم میں کسی ایک مملکت میں یا دوسری مملکت میں اقلیتوں کا وجود ناگزیر تھا۔ اس سے مفر نہیں تھا۔ اس کا بھی کوئی اور حل نہیں تھا۔

اب ہمیں کیا کرنا ہے؟

اگر ہم مملکت پاکستان کو خوش و خرم اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ لوگوں کی فلاح و بہبود پر مرکوز کر دینی چاہیے۔ بالخصوص عامتہ الناس کی اور غریبوں کی جانب ، اگر آپ ماضی اور باہمی تنازعات کو نظر انداز کرتے ہوئے باہمی تعاون کے ساتھ کام کریں گے تو کامیابی یقینا آپ کے قدم چومے گی۔ اگر آپ اپنا رویہ تبدیل کرلیں اور مل جل کر اس جذبہ سے کام کریں کہ آپ میں سے ہر شخض خواہ وہ اس ملک کا پہلا شہری ہے یا دوسرا یا آخری سب کے حقوق و مراعات اور فرائض مساوی ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ کس کا کس فرقہ سے تعلق ہے اور ماضی میں اس کے آپ کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات تھے اور اس کا رنگ و نسل یا عقیدہ کیا ہے تو آپ جس قدر ترقی کریں گے اس کی کوئی انتہا نہ ہوگی۔

  • میں اس بات پر بہت زیادہ زور نہیں دے سکتا۔ ہمیں اس جذبہ کے ساتھ کام شروع کر دینا چاہیے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اکثریت اور اقلیت ، ہندو فرقہ اور مسلمان فرقہ کے یہ چند در چند زاویے معدوم ہوجائیں گے۔ کیوں کہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان میں بھی تو پٹھان ، پنجابی ، شیعہ اور سنی وغیرہ موجود ہیں اس طرح ہندوؤں میں بھی برہمن، ویش ، کھتری ہیں اور بنگالی اور مدراسی ہیں۔ سچ پوچھیں تو یہی چیزیں ہندوستان کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہوگئے ہوتے۔ کوئی طاقت دوسری قوم کو اپنا غلام نہیں بناسکتی بالخصوص اس قوم کو جو چالیس کروڑ انسانوں پر مشتمل ہو۔ اگر یہ کمزوری نہ ہوتی کوئی اس کو زیر نہیں کرسکتا تھا اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تو کوئی آپ پر طویل عرصہ تک حکمرانی نہیں کرسکتا تھا۔ لہٰذا ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔

    پاکستان میں آپ آزاد ہیں ، اپنے مندروں میں جائیں ، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب ، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو ، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔۔!​

    جیسا کہ آپ کو تاریخ کے حوالے سے یہ علم ہوگا کہ انگلستان میں کچھ عرصہ قبل حالات اس سے بھی زیادہ ابتر تھے جیسے کہ آج ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے پر ظلم ڈھائے۔ آج بھی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں ایک مخصوص فرقے سے امتیاز برتا جاتا ہے اور ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم نے ایسے حالات میں سفر کا آغاز نہیں کیا ہے۔ ہم اس زمانے میں یہ ابتدا کررہے ہیں جب اس طرح کی تفریق روا نہیں رکھی جاتی۔ دو فرقوں کے مابین کوئی امتیاز نہیں۔ مختلف ذاتوں اور عقائد میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کررہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں۔ انگلستان کے باشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ آنے والے حقائق کا احساس کرنا پڑا اور ان ذمہ داریوں اور اس بارگراں سے سبکدوش ہونا پڑا جو ان کی حکومت نے ان پر ڈال دیا تھا اور وہ آگ کے اس مرحلے سے بتدریج گزر گئے۔ آپ بجاطور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ۔ اب جو چیز موجود ہے وہ یہ کہ ہر فرد ایک شہری ہے اور سب برطانیہ عظمیٰ کے یکساں شہری ہیں۔ سب کے سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔

    مذہب ، ذاتی مسئلہ ہے !​

    میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو ، ہندو رہے گا ، نہ مسلمان ، مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے نہیں ، کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے ، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔ پس حضرات میں آپ کا مزید وقت لینا نہیں چاہتا اور ایک بار پھر اس اعزاز کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے آپ نے مجھے نوازا۔ میں ہمیشہ عدل اور انصاف کو مشعل راہ بناؤں گا اور جیسا کہ سیاسی زبان میں کہا جاتا ہے تعصب یا بدنیتی دوسرے لفظوں میں جانبداری اور اقربا پروری کو راہ نہ پانے دوں گا۔ عدل اور مکمل غیر جانبداری میرے رہنما اصول ہوں گے اور میں یقینا آپ کی حمایت اور تعاون سے دنیا کی عظیم قوموں کی صف میں پاکستان کو دیکھنے کی امید کرسکتا ہوں۔
    میں ، آپ کو مجلس دستور ساز پاکستان کے صدر کی حیثیت سے ایک پیغام پہنچانے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔ مجھے یہ پیغام ابھی ابھی وزیر خارجہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے موصول ہوا ہے:
    "مجلس دستور ساز پاکستان کے پہلے اجلاس کے موقع پر میں آپ کی اور مجلس کے اراکین کی خدمت میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت اور اس کے عوام کی جانب سے کار عظیم کی کامیابی کے ساتھ تکمیل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں جس کا آپ آغاز کرنے والے ہیں۔۔"
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان میں آپ آزاد ہیں ، اپنے مندروں میں جائیں ، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب ، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو ، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے
پاکستانیوں نے آج تک بانی پاکستان کے اس قول پر کتنا عمل کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے تو باقاعدہ ملک کے آئین و قانون میں بغض احمدیت شامل کر دی ہے۔ تو پھر پیچھے باقی کیا رہ جاتا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
دعوی نبوت بھی تو شدید نوعیت کا ہے۔
اس کا یہ مطلب پھر بھی نہیں بنتا کہ پورے ملک کے آئین و قانون میں ایک خاص مذہبی گروپ جیسے احمدیوں کو نشان عبرت بنا دیا جائے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کو اگر احمدیوں سے کوئی مسئلہ ہوتا وہ ان کو اسی وقت تحریک پاکستان سے نکال باہر کرتے۔
پاکستانیوں نے اپنا پورا ملک بنانے والے قائد اعظم اور ان کے احمدی ساتھیوں سے آج تک کچھ نہیں سیکھا تو پھر پیچھے باقی کیا رہ جاتا ہے؟
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اس کا یہ مطلب پھر بھی نہیں بنتا کہ پورے ملک کے آئین و قانون میں ایک خاص مذہبی گروپ جیسے احمدیوں کو نشان عبرت بنا دیا جائے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کو اگر احمدیوں سے کوئی مسئلہ ہوتا وہ ان کو اسی وقت تحریک پاکستان سے نکال باہر کرتے۔
پاکستانیوں نے اپنا پورا ملک بنانے والے سے آج تک کچھ نہیں سیکھا تو پھر پیچھے باقی کیا رہ جاتا ہے؟
ماشاءاللہ کیا عالمانہ باتیں چل رہی ہیں۔ قائد اعظم کی باتوں کو کھینچ کھانچ کر قادیانیت کی وکالت میں پیش کیا جا رہا ہے وہ بھی محض اس لیے کہ ان بے چاروں کو کسی طور مسلمان بنایا جائے۔
"عقلمندو!" کیا کفر اور ایمان کی وضاحت کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان تمہارے لیے قابل قبول نہیں ہیں؟؟؟؟
 

سید رافع

محفلین
اسٹینلے ولپرٹ اپنی کتاب جناح آف پاکستان میں لکھتے ہیں کہ ١٩٠٧ تک کانگریس دو دھڑوں میں بٹ چکی تھی۔ ایک ڈھڑ اعتدال پسند تھا جبکہ دوسرا انقلاب پسند۔ انقلاب پسند گروہ کے سرکردہ لیڈر تلک کی انقلابی تحریریں اسکے اخبار کیسری میں شایع ہوتیں۔ انہیں تحریروں کی وجہ سے ١٩٠٨ میں اسے گرفتار کیا گیا۔ تلک نے اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے وکیل کے طور پر مسٹر جناح سے درخواست کی۔ مسٹر جناح یہ مقدمہ تو ہار گئے لیکن تلک کو اپنا ممنون بنا گئے۔

اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسٹر جناح کی کانگریس چھوڑنے کی وجہ انقلابی گروہ سے بیزاری نہیں بلکہ کچھ اور تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
وہ بھی محض اس لیے کہ ان بے چاروں کو کسی طور مسلمان بنایا جائے۔
تو آپ نہ مانیں مسلمان۔ کون مجبور کر رہا ہے؟ البتہ ریاست یا حکومت کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک مخصوص مذہبی گروپ جیسے احمدیوں کو آئین و قانون میں عبرت کا نشان بنا دے۔ ایسا کرنا انصاف کے بنیادی اصولوں کیخلاف ہے۔ اسی لئے بانی پاکستان نے کہا تھا کہ امور مملکت کو اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ کسی شہری کا مذہب کیا ہے۔
 

سید رافع

محفلین
قائد اعظم کی باتوں کو کھینچ کھانچ کر قادیانیت کی وکالت میں پیش کیا جا رہا ہے
مسٹر جناح نے ساری زندگی ایک سیکیولر مرد کی حیثیت سے گزاری۔ ظاہر ہے وہ دیوبندی یا بریلوی ریاست تو بنانے سے رہے! مسٹر جناح نہ ہی ٹی ایل پی یا دعوت اسلامی جیسی سیاست کرتے رہے نہ ہی انکا محور زندگی تحریک طالبان پاکستان یا تبلیغی جماعت جیسا تھا۔ انکے نزدیک ان گروہوں پر مشتمل ایسی ریاست کا قیام درپیش تھا جہاں یہ گروہ امن و امان کے ساتھ رہیں اور لوگوں کو میرٹ پر معاشرے میں ترقی ملے۔

ویسے قادیانی تین طرح کے ہیں۔ ایک تو مرزا غلام احمد قادیانی جو اپنے نبوت کے دعوی کی وجہ سے مسلم نہیں ہے۔ دوسرے وہ افراد جو کسی بھی دور میں مسلمان تھے لیکن نظریاتی تبدیلی یا پیسے کی لالچ میں مرتدہو کر غیر مسلم قادیانی ہو گئے۔ تیسرے وہ بچے جن کو بووقت پیدائش قادیانی گھرانے اور والدین ملے۔ ان سب کے لیے اللہ کا یہ حکم ہے:

اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو ،بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔ سورہ النحل آیت ١٢۵

اکثر اہلسنت کے علماء پچھلی صدی میں خوارج سے ٹکرائے جو تکفیر کرنے میں جلد باز بلکہ بے حد بے باک تھے۔ ان ہی کی عادتیں امت کے صالح طبقے کو منتقل ہوئیں۔
 

سید رافع

محفلین
مسٹر جناح آغاخانی خوجہ تھے جو سات اماموں کو مانتے تھے۔ بعد میں وہ اثنا عشری شیعہ ہو گئے تھے۔ ابتدائی تعلیم اور لندن نے انکو سیکیولر بنا دیا۔ اب وہ ایک خوارج زدہ مسلمان قوم سے سیاست کیسے کرتے اس کی کچھ مثالیں یہ ہیں:

جمہوریت 1300 سال قبل سیکھ لی تھی، کوئی ان سے پوچھے کیسے؟
قائداعظم نے پاکستان کا گورنر جنرل نامزد ہونے کے بعد 14 جولائی 1947ء کو نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی۔ پریس کانفرنس میں اقلیتوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں قائد نے کہا تھا ''پاکستان میں ہر اقلیت کو تحفظ دیا جائے گا۔ اُن کی مذہبی رسومات میں دخل نہیں دیا جائے گا اور اُن کے مذہب، اعتقاد، جان و مال اور کلچر کی پوری حفاظت کی جائے گی۔ وہ ہر لحاظ سے پاکستان کے برابر کے شہری ہوں گے‘‘۔ اسی پریس کانفرنس میں قائداعظم نے کہا تھا ''آپ مجھ سے بار بار ایک فضول سوال پوچھ رہے ہیں۔ آپ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت 1300 سال قبل سیکھ لی تھی‘‘۔

پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا، کوئی ان سے پوچھے کتاب کی تشریح کون کرے گا؟
نومبر 1945ء میں قائداعظم نے پشاور میں کہا تھا ''آپ نے سپاسنامے میں مجھ سے پوچھا ہے کہ کون سا قانون ہوگا۔ مجھے آپ کے سوال پر سخت افسوس ہے۔ مسلمانوں کا ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب ہے۔ یہی مسلمانوں کا قانون ہے اور بس۔ اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا‘‘۔

قرآن سے رہنمائی حاصل کریں، کوئی ان سے پوچھے کہ سب خود ہی قرآن سے رہنمائی حاصل کریں؟
30 اکتوبر 1947ء کو لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے فرمایا ''اگر ہم قرآن سے رہنمائی حاصل کریں تو بالآخر فتح ہماری ہوگی‘‘۔

ہماری زندگی پراسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح 1300 سال پہلے ہوتا تھا، کوئی ان سے پوچھے کہ ۱۳۰۰ سال قبل تو رسول ﷺ تھے، اب اطلاق کس کے حکم سے ہو گا؟
25 جنوری 1948ء کو عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن کے استقبالیے میں تقریر کرتے ہوئے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم محمدعلی جناح نے کہا تھا ''میں اُن لوگوں کے عزائم کو نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ ہماری زندگی پر اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح 1300 سال پہلے ہوتا تھا‘‘۔

جو شخص سیکیولر اصولوں کا پابند ہو، اور ایک خوارج زدہ مسلم قوم کی رہنمائی کر رہا ہو وہ ایسی ہی باتیں کرتا ہے۔
 
Top