ابلیس شاپ از ایس ایس ساگر

یہ تو اپنے لیے فرماگئے ہیں۔۔۔
دوسرا خود پر لاگو کرنے کی کوششیں نہ کرے!!!
جی آپ نے درست فرمایا- ذوق صاحب کے علاوہ تو باقیوں پر جوانی آکے ٹھہر گئی ہے- جانے کا نام ہی نہیں لیتی-
ویسے ہماری گپ شپ پہ ساگر صاحب ناراض نہ ہو جائیں اس لیے آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے- آپ سے بات کرکے اچھا لگا-
 

محمداحمد

لائبریرین
ساگر بھائی!

آپ کا افسانہ خوب ہے۔ پہلے بھی ایک دن پڑھا تھا لیکن آج دوبارہ پڑھا۔

پہلے تو ہم بھی یہی سمجھے تھے کہ یہ افسانہ ہے لیکن باقی تبصروں سے پتہ چلا کہ یہ تو حقیقی واقعہ ہے۔

ع - سنتے آئے تھے قصہء مجنوں، اب جو دیکھا تو واقعہ نکلا

پہلے ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ ساگر بھائی نے یہ افسانہ صوفیائے ملامت کے فلسفے سے متاثر ہو کر لکھا ہے۔ لیکن اب اس میں یہ ترمیم کر لیتے ہیں کہ اس سچے واقعے کا کردار صوفیائے ملامت کے فلسفے سے متاثر تھا۔

بہر کیف، لکھتے رہیے اور ہم سب کو پڑھاتے رہیے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
یہ تو سَمت میں شائع کرنے کے قابل ہے، یہ بتائیں کہ اسی نام سے شائع کروانا چاہتے ہیں یا قلمی نام کچھ اور ہے
الف عین سر ذرہ نوازی ہے کہ آپ نے میری تحریر کو اپنے شمارے کے قابل سمجھا۔ ایس ایس ساگر کے نام ہی سے شائع کروانا پسند کروں گا مگر سر یہ تحریر پہلے ہی اردو ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ کہیں کاپی رائٹس کا مسئلہ نہ بن جائے۔ آپ کی پذیرائی کا بہت شکریہ۔ سلامت رہیئے۔ آمین۔
 
Top