ابلیس شاپ از ایس ایس ساگر

ایس ایس ساگر

لائبریرین
گزرے دن یاد کروں ، توماضی کی دھند کےاُس پار چند ہیولے دکھائی دیتے ہیں۔ گہری سوچ کے پردے پر عمرِرفتہ کے مدھم نقوش آہستہ آہستہ واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ذہن کی بلیک اینڈ وائٹ سکرین پر زندگی کے خوشنما رنگ بکھرنے لگتے ہیں۔ اُچھلتے کودتے متحرک سائے مانوس سی شکلوں کا روپ دھارنے لگتے ہیں۔ حافظے کی بنجر زمین سے ننھے مُنے گھروندے سر اُبھارنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے خیال کی دنیا میں ایک چھوٹی سی بستی آباد ہونے لگتی ہے۔
جابجا بکھرے ہوئے تنگ و تاریک مکانات جن کے درودیوار سے ٹپکتی خستگی مکینوں کی مفلسی اور بدحالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگرچہ ان گھروں کی گھٹن آمیز فضا میں دم توڑتی تمناؤں کی سسکیاں گونجتی سنائی دیتی ہیں، تاہم بستی کے کوچہ و بازار میں زندگی کا سورج پوری آب و تاب سے چمکتا دکھائی دیتا ہے۔ سڑک کے کنارے جابجا بیٹھے خوانچہ فروشوں کی دو رویہ قطاریں۔ چوراہوں پر اِدھر اُدھر کھڑی آوارہ نوجوانوں کی ٹولیاں۔ بستی کی دکانوں اور چھوٹے درجے کے ریستورانوں پر ڈیرا جمائے گپیں ہانکتے ادھیڑ عمر کے مرد۔ دروازوں کے پٹ کھولے ایک دوسرےکو صلواتیں سناتی عورتیں۔ دُھول سے اَٹے، مغلظات بکتے ،کھیلتے کودتے، ننگ دھڑنگ بچے۔
اس بستی کے مکیں بےچارے مجبورو بے بس لوگ تھے جوسر سے پاؤں تک غربت کی دلدل میں دھنسے ہوئے تھے۔بستی کی بیشتر آبادی مزدور پیشہ لوگوں پرمشتمل تھی۔ زیادہ ترلوگ کارخانوں اور فیکڑیوں میں کام کرتے تھے جبکہ باقی آبادی کوچوانوں اور رکشہ چلانے والوں کی تھی۔ ان لوگوں کا تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ تعلیم سے بیگانگی وراثت کی طرح ان کی اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی جا رہی تھی اور وہ سب اس بات سے لاعلم تھے۔ محلے کے نوعمر لڑکے سارا سارا دن آوارہ پھرتے تھے۔ شراب اور چرس یا ہیروئن سے بھری سگریٹ پینا ان کا محبوب مشغلہ بن چکا تھا۔ محبت کی خودفریبی میں ڈوبےجوان لڑکے اور لڑکیاں جنسی تعلقات استوار کیے بیٹھےتھے۔ اپنے ان گنت جنسی معاشقوں کی داستان گوئی میں بستی کےنوجوان فخر محسوس کرتے ۔ آئے دن بستی میں دنگا فساد ہوتا۔بستی کی عورتیں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ گالم گلوچ اور ہاتھا پائی میں حصہ لیتیں۔ قماربازی اور جوئے کے اڈوں پر پولیس کے چھاپے معمول کی بات بنتی جا رہی تھی۔
ایک بات قابل ذکر ہے : یہ بستی اُس جوہڑ کے مانند تھی جو برائیوں کےکیچڑ سےلبالب بھر چکا تھا۔مگر اس کی سطح پرتیرتےکنول کے چندپھولوں نے اسےابھی تک دلفریب بنا رکھا تھا۔ "مشتاق احمد" واقعتاً ایک پھول تھا جسے بستی کا ہر چھوٹا بڑا "مشتاق چچا "کے نام سے جانتا تھا ۔ اُن کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ تھی۔ جسم دُبلا پتلا اور قدلمبا۔مشتاق چچا کا ذکر آتے ہی ماضی کا جو منظرذہن میں ابھرتا ہے۔اُس میں بستی کی جامع مسجد کےپہلو میں لکڑی کا ایک چھوٹا سا کھوکھادکھائی دیتاہے۔ جس میں جابجا پرچون کا سامان بکھرا پڑا ہے۔ ایک طرف دال اور چاول کی بوریوں کا انبار ہے تو دوسری طرف گھی کے کنستر اور دیگر اشیاء کا ڈھیر ۔ ان سب چیزوں کے بیچوں بیچ مشتاق چچا اپنی دبیز شیشوں والی عینک لگائےاخبار پڑھتے دکھائی دیتے۔ ایک وقت تھاکہ ان کے لہجے کی حلاوت اور باتوں کی مٹھاس نے بستی کے ہرفرد کواپناگرویدہ بنا رکھا تھا۔ کھوکھے پرہر وقت گاہکوں کاتانتا بندھارہتا۔ کسی نے پرچون کی کوئی بھی چیز خریدنا ہوتی تووہ اردگرد کی سب دکانیں چھوڑ کر مشاق چچا کے کھوکھے کا رخ کرتا ۔مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا اور بستی کے اکثر لوگ ان سے نالاں رہنے لگے۔
درحقیقت مشتاق چچاکو اخبار سے شدیدمحبت ہو گئی تھی۔ اسی سبب خالہ برکتےنے بھی اخبار کو اپنی سوتن گرداننا شروع کر دیا۔وہ دن میں کئی بار دروازے سے باہر جھانکتیں اور دور کھوکھے پر بیٹھےشوہر کو اخبار کی محبت میں گم دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتی رہتیں۔کبھی کبھار جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا تو وہ شوہر کی خبر گیری کے لیے کھوکھے پر آ دھمکتیں اور پھر مشتاق چچا کو اپنی عزت بچانا مشکل ہو جاتا۔ بات حد سے آگے بڑھتی تو لوگ اکھٹے ہو جاتے اور بیچ بچاؤ کروا دیتے۔ اُدھر مشتاق چچا کی بے قراری کا یہ عالم تھا کہ جب تک اخبارکا ایک ایک لفظ حفظ نہ کرلیتے ، انہیں سکون نصیب نہ ہوتا۔
پھر یوں ہواکہ مشتاق چچا اپنا اخباری علم دوسروں میں بانٹنے لگے۔ان کا کھوکھا آہستہ آہستہ چوپال کی شکل اختیار کرگیا۔ وہاں پرباقاعدہ عمررسیدہ لوگوں کی محفل جمنے لگی۔ دوپہر ڈھلتے ہی بستی کے ایک آدھ درجن بزرگ مشتاق چچا کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہوجاتے۔ مشتاق چچا پھر اخبار پڑھ کرسنانے میں اتنے محوہوتے کہ دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہ رہتی۔ایسے میں اوّل تو کوئی گاہک کھوکھے کا رخ نہ کرتا۔تاہم اگر کبھی کوئی بُھولا بھٹکا گاہک اُدھر آ ہی جاتا تو مشتاق چچا کی بے نیازی کے طفیل اُسےنامراد ہی لوٹنا پڑتا۔
یہ شغل کچھ عرصہ یونہی جاری رہا۔ پھر ایک روز مشتاق چچا کے گھر سےبرتن ٹوٹنے اور چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ عقدہ یہ کھلا کہ خالہ برکتے کی برداشت جواب دے گئی تھی۔ ایک عرصے سے وہ اخبار کواپنی سوتن کے روپ میں برداشت کرتی چلی آرہی تھیں مگر اب معاملہ حد سےبڑھ گیا تھا۔اس نگوڑ مار اخبار نے تواب گھر کا چولہا بھی ٹھنڈا کر دیا تھا۔اس دن کے بعد کھوکھے پر مشتاق چچاکے دوستوں کی آمد پرپابندی لگ گئی۔ اُس شام مشتاق چچا نے ہاتھ جوڑ کرسب دوستو ں سے معافی مانگی اور اپنی مجبوریوں کی داستان سنا کر ان سےدرخواست کی کہ وہ آئندہ ان کے کھوکھے پر آنے کی زحمت نہ کریں۔ان کےسبھی دوست یار جہاندیدہ افرادتھے۔اس لیے معاملے کی سنگینی سمجھنے میں انہیں دیر نہ لگی اور انہوں نے کھوکھے پر آنا ترک کر دیا۔
اخبار اور دوستوں کی بے عزتی پر مشتاق چچا کافی بد دل ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد اخبار کیساتھ ان کا معاشقہ ٹھنڈا پڑگیا۔ اب اخبار کے بجائے انہوں نے کتابوں سے دل لگا نے کی ٹھان لی۔ دل میں ایسا درد جاگا کہ میدان ِسیاست چھوڑ کر تصوف کو تختہ مشق بنا لیا۔اب ان کے ہاتھوں میں موٹی موٹی کتابیں دکھائی دیتیں۔ وہ اکثر اوقات کھوکھے پرمیاں محمد بخشؒ یا بُلھے شاہ ؒ کا کلام ترنم کے ساتھ پڑھتے پائے جاتے۔ جب سے انہوں نے صوفیانہ کلام پڑھنا شروع کیا تھا ، ان کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگےے۔ میری جب بھی ان سے ملاقات ہوتی،وہ کتابوں کے مطالعہ میں غرق ملتے۔ میں تجسس سے پوچھتا۔ چچا ۔ آپ سارا دن کیا پڑھتے رہتے ہیں؟ ۔ وہ کتاب سے نظریں اٹھا کر مجھے دیکھتے اور مسکرا کر کہتے۔ بیٹا۔یہ اللہ والوں کی کتابیں ہیں۔ میں معصومیت سے پوچھتا۔ چچا! ان کتابوں میں کیا لکھا ہے؟ وہ مجھےسمجھانے کی کوشش کرتے۔یہ بڑی ڈونگی باتیں ہیں بیٹا ۔تم ابھی نہیں سمجھو گے۔ میں چپ ہو جاتا۔ وہ سچ ہی کہتے تھے۔ ان کتابوں کی گہرائی میں وہ ایسے ڈوبےکہ پھر نہ اُبھرسکے۔ ڈوبتے ہی چلے گئے۔ میں نے بچپن میں، مشتاق چچا کے دو ہی روپ دیکھے تھے۔پہلا وہ جس میں وہ اخبار کی محبت میں گرفتار نظر آئے۔ پھرجوں جوں وہ راہِ الفت کی منازل طے کرتے گئے ۔ ان کا روپ بھی بدلنے لگا۔لگن سچی تھی یا قدرت کوان کاکوئی امتحان مقصود تھا کہ پتھریلے اور اونچے نیچے راستوں پر چلتے چلتے ایک دن ان کے قدموں نے درِ عشق چھو لیا ۔بس پھر کیا تھا۔ہر طرف سے پتھر برسے۔کُفر کے فتوے جاری ہوئے۔ ان پردیوانے کا لیبل لگا اورایک بار پھرایک منصور سُولی پر چڑھا دیا گیا۔
مشتاق چچا کی اخبار سے گہری محبت اور کاروبار سے یکسر بے نیازی کی بدولت گاہکوں نےآہستہ آہستہ ان کے کھوکھے کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ رہی سہی کسر اس دن کے واقعہ نے پوری کردی۔ اُس واقعہ کے بعد تو لوگ مشتاق چچا کے سائے سے بھی دور بھاگنے لگے۔ ہوایوں کہ ایک روز مشتاق چچا کے کھوکھے پر ایک عجیب و غریب سی عبارت جلی حروف میں لکھی دکھائی دی۔ اس تحریر نےہر کسی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ پہلی بار جب میں نے بھی کھوکھے پر " ابلیس شاپ" لکھادیکھا تو شک گزرا کہ شاید یہ کسی بچے کی شرارت ہے۔ مگر جب مشتاق چچا کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تو وہ ہنس کر بولے۔ بیٹا! یہ کسی کی شرارت نہیں۔ میں نے خود لکھا ہے۔ان کا جواب سن کرمیں ہکا بکا رہ گیا۔ مزید کچھ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی تو چپ چاپ گھر چلا آیا۔ ساری رات بستر پر کروٹیں بدلتے اور یہ سوچتے گزری کہ مشتاق چچاکو آخر کیاہو گیاہے ؟ انہیں خود کو ابلیس کہلوانے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ میرا ننھا ساذہن ان ثقیل سوالوں کا جواب تلاشنے سے قاصر تھا۔ وہ دن گزرا تو پھر کبھی مشتاق چچا کے کھوکھے پر کوئی گاہک نظر نہ آیا۔ البتہ ان کے گھر میں برتن ٹوٹنے اورچیخنے چلانے کی آوازیں زور پکڑتی چلی گئیں۔ مگر اِس بار مشتاق چچا نے کان لپیٹ لیے تھے۔ کوئی کچھ بھی کہتا، ان کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ وہ دُھن کے پکے تھے۔ اب انہیں کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی ۔ وہ اخبار کی محبت سےدستبردار ہو گئے تھے مگرعشق کے جس رستے پر وہ اب چل نکلے تھے۔ اس سے واپسی شاید ان کے اپنے بس کی بات بھی نہیں تھی۔خالہ برکتے اب تھک ہار کر چپ ہو گئی تھیں۔ بستی کے چند بزرگوں نے بھی مشتاق چچا کو سمجھانے کی کوشش کی مگر مشتاق چچا اب کسی کی سننے کو تیار نہیں تھے۔
جب سے مشتاق چچا نے کھوکھے پر "ابلیس شاپ "لکھوا یا تھا۔ لوگوں کو ان کی دماغی حالت پر شک ہونے لگا تھا۔ بستی کےبچے ان کا مذاق اڑاتے ۔بڑے بوڑھے طرح طرح کی باتیں بناتے، قریب کی مسجد کے نمازی کھوکھے کے پاس سے گزرتے اونچی آواز میں لاحول پڑھتے مگر مشتاق چچا بالکل خاموش رہتے۔ اس وقت ان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھنے کو ملتی او روہ لوگوں کی ہر بات کوخندہ پیشانی سے سہہ لیتے۔ ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنے میں گوگا بٹ پیش پیش تھا۔جب سےمشتاق چچا نے بستی کی بہو بیٹیوں سے چھیڑ چھاڑ پر اسے ٹوکا تھا اور اس کے والد سے اسکی شکایت کی تھی ، تب سے وہ مشتاق چچا کے ساتھ کُھلی دشمنی پر اتر آیا تھا۔ وہ مشتاق چچا کی تحقیر کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔
پھر ایک روز بستی کے لوگوں نے ایک ایسامنظر دیکھاجس سے ان کا یقین پختہ ہوگیا کہ مشتاق چچا اب سمجھنے سمجھانے کی حدعبور کر چکے ۔ گرمیوں کے دن تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں مشتاق چچا اپنے منہ پر کالک ملے اورگلے میں جوتیوں کا ہار پہنے بڑے طمطراق سےایک گدھے پر سوار چلے آتے ہیں۔ پیچھے پیچھے بستی کے آوارہ بچوں کا جلوس تھا۔ بچے وقفے وقفے سے " چچا ابلیس "کا فلک شگاف نعرہ بلند کرتے جسے سن کر مشتاق چچا کا دل باغ باغ ہو جاتا اور ایک انجانی خوشی کا احساس ان کے روئیں روئیں میں سرایت کرنے لگتا۔ شام تک وہ اسی حالت میں بچوں کے جلو میں مختلف گلیوں کا چکر لگا تے رہے۔آخرکار تھک ہار کر بچے ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ مگر وہ پھر بھی اسی مستقل مزاجی سے گلیوں کی خاک چھانتے رہے یہاں تک کہ خالہ برکتے کو اپنے بڑے بیٹے کی مدد سے زبردستی مشتاق چچا کو گدھے کی پشت سے اتار کر گھر لانا پڑا۔
اس واقعے کو رونما ہوئےکچھ دن ہی گزرے تھے کہ مشتاق چچا کے دماغ میں نجانے کیا سودا سمایا ۔انہوں نے محلے بھر کے گٹروں کی صفائی کا بیڑہ اٹھا لیا۔ صبح سویرے وہ لنگوٹ کس کر کسی نہ کسی گٹر کا ڈھکن اٹھا کر اس میں گُھس جاتے اور شام ڈھلنے تک اس میں سے اینٹ،گارا اور پتھر نکال نکال کر باہر ڈھیر کرتےرہتے۔ لوگ ناگواری کا اظہار کرتےپاس سے گزرتے رہتے ۔ مگر مشتاق چچا کے جذبے اور شوق پر کوئی چیز کارگر نہ ہوئی۔ انہوں نے اپنا کام مستقل مزاجی سے جاری رکھا اور ایک ہفتے کے اندر بستی کے تمام گٹر صاف کر دیے۔ بلدیہ والے اس خدائی خدمتگار سے بےحد خوش دکھائی دیتے جس نے ان کا سال بھر کا کام ایک ہفتے میں پورا کر دیا تھا۔ اس دن کے بعد سے تولوگ اس طرح کےانوکھے واقعات دیکھنے کے عادی ہو گئے۔ مشتاق چچا آئے دن کسی نہ کسی نئے بہروپ میں جلوہ گر ہوتے۔ انہیں دیکھ کربستی کی عورتیں حیرت سے انگلیاں دانتوں میں داب لیتیں۔ بچے مذاق اڑاتے۔بڑے بوڑھے لعن طعن کرتے، مگر وہ ضبط کا پیکر بنے ہر قسم کی عزت افزائی کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے اور مسکراتے رہتے۔
مشتاق چچا کی زندگی اسی ڈگر پر چل رہی تھی کہ ایک رات چند خردمندوں نے مل کراس دیوانے کو راہ عشق پر چلنے کی کڑی سزا سنا دی ۔ وہ گرمیوں کی ایک سیاہ رات تھی۔ ہوا بند ہوجانے کے باعث حبس بڑھ گیا تھا۔ لوگ چھتوں پر چارپائیاں ڈالے سو رہے تھے۔اچانک شور کی آواز سے مشتاق چچا کی آنکھ کھل گئی۔ آنکھیں ملتے ہوئے انہوں نے چھت کی منڈیر سےجھانک کر دیکھا۔ کچھ دور آگ کا ایک آلاؤ روشن تھا۔بہت سے لوگ جمع تھے۔ پانی سے بھری بالٹیاں بھڑکتی ہوئی آگ پر انڈ یلی جا رہی تھیں مگر شعلے تھے کہ آسمان کو چھونے پر بضد تھے۔ وہ بھاگ کر اس جگہ پہنچے اور ہجوم کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے۔ اسی وقت کسی نےقریب سے صدا لگائی ۔ مشتاق چچا! کسی نے آپ کا کھوکھا جلا دیا ۔ مشتاق چچا چپ چاپ آسمان کی طرف بلند ہوتے شعلوں کو دیکھ رہے تھے۔ان کی آنکھوں میں آنسو تیر رہےتھے اور پاس کھڑے گوگے بٹ کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ اس کا ہاتھ فاتحانہ انداز میں اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کھوکھا جل کر راکھ ہو گیا۔ بستی والوں کی نظر میں ان کا کھوکھا اگرچہ کب کابے حیثیت ہو چکا تھا مگر مشتاق چچا کواب بھی اس سے بڑی اُنسیت تھی۔اس کے جل جانے پر انہیں لگا جیسے وہ بے گھر ہو گئے ہوں۔ اسی صدمے سے نڈھال ہو کروہ بستر سے جا لگے۔ خالہ برکتے نے ان کی ہمت بندھانے کی بہتیری کوشش کی مگر ان کے دل میں جانے کیا بات بیٹھ گئی تھی۔ انہوں نےچپ سادھ۔ پھرایک دن اِسی عالم میں وہ دنیا سے منہ موڑ کر راہِ عدم کے سفر پر چل نکلے۔
مشتاق چچا کو مرے ابھی ہفتہ ہی گزرا تھا کہ مسجد کے پہلو میں پھر سے ایک نیا کھوکھا نظر آنے لگا۔ یہ کھوکھا گوگے بٹ کا تھا ۔ آہستہ آہستہ پرانی رونقیں پھر سے بحال ہونے لگیں۔اس کے کھوکھے پر گاہکوں کا رش لگنےلگا۔ لوگ اب بھولتے جا رہے تھے کہ کبھی اس جگہ کسی مشتاق چچا کا کھوکھا ہو ا کرتا تھا۔کچھ لوگ خوش تھے کہ چلو اچھا ہوا، بستی کی ایک نجس جگہ پاک ہوئی اور مسجد کے پہلو سے ابلیس کے نام کی نحوست جاتی رہی۔ گوگے بٹ نے لوگوں کو شیشے میں اتار لیا تھا اور اس کا پان وسگریٹ کا کاروبار بھی خوب چمک اٹھا تھا۔
بستی والوں کے لیے سب کچھ پہلے جیسا ہو چکا تھا مگرنجانے کیوں میرے لیے کچھ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ گو کہ اب کھوکھے پرابلیس شاپ لکھا نظر نہ آتا تھا۔مگراس کے باوجود میں گوگے بٹ کے کھوکھے پر ابلیس کو کھڑا دیکھتا۔ وہ مجھے روز دکھائی دیتا۔مونچھوں کو تاؤ دیتے ۔ مکروہ ہنسی ہنستے اور راہ چلتی بہو بیٹیوں پر گندی نظریں جمائے ہوئے۔ میں اکثرسوچتا، نجانے وہ دوسروں کو کیوں نظر نہیں آتا۔ تبھی کہیں پاس سے میرے کانوں میں مشتاق چچا کی سرگوشی گونجتی۔

چل او بُلھیااوتھے چلیے جتھے ہون سار ے اَنّے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھے تے نہ کوئی سانوں مَنّے۔​
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اکثرسوچتا، نجانے وہ دوسروں کو کیوں نظر نہیں آتا۔ تبھی کہیں پاس سے میرے کانوں میں مشتاق چچا کی سرگوشی گونجتی۔

چل او بُلھیااوتھے چلیے جتھے سار ے اَنّے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے نہ کوئی سانوں مَنّے۔​
بہت خوب صورت تحریر ۔۔۔۔ مشتاق چچا جیسے کردار سچے اور کھرے انسان اسی معاشرے کا جیتا جاگتا کردار آپکے پرُ اثر انداز نے رلا دیا ۔۔۔ جلدی جلدی پڑھی پر آنکھوں کو بھیگنے سے نہ روک سکے ۔۔۔۔
اتنی عمدہ تحریرلکھنے کا بہت بہت شکریہ .
معاشرہ ، سماج اور ماحول کی عکاسی بڑی خوبصورتی سے کی ہے آپ نے ۔۔پڑھتے ہوئے آپ ارد گرد لے ماحول کو محسوس کرتے ہیں ۔۔۔۔۔
جیتے رہیے ڈھیر ساری دعائیں
شاد و آباد رہیے ساگر بھیا۔۔۔۔۔۔۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
گزرے دنوں کو یاد کروں توماضی کی دھند کےاُس پار چند ہیولے سے دکھائی دیتے ہیں۔ گہری سوچ کے پردے پر عمرِرفتہ کے مدھم نقوش آہستہ آہستہ واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ذہن کی بلیک اینڈ وائٹ سکرین پر زندگی کے خوشنما رنگ بکھرنے لگتے ہیں۔ اُچھلتے کودتے متحرک سائے مانوس سی شکلوں کا روپ دھارنے لگتے ہیں۔ حافظے کی بنجر زمین سے ننھے مُنے گھروندے سر اُبھارنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے خیال کی دنیا میں ایک چھوٹی سی بستی آباد ہونے لگتی ہے۔
جابجا بکھرے ہوئے تنگ و تاریک مکانات جن کے درودیوار سے ٹپکتی خستگی مکینوں کی مفلسی اور بدحالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگرچہ ان گھروں کی گھٹن آمیز فضا میں دم توڑتی تمناؤں کی سسکیاں گونجتی سنائی دیتی ہیں، تاہم بستی کے کوچہ و بازار میں زندگی کا سورج پوری آب و تاب سے چمکتا دکھائی دیتا ہے۔ سڑک کے کنارے جابجا بیٹھے خوانچہ فروشوں کی دو رویہ قطاریں۔ چوراہوں پر اِدھر اُدھر کھڑی آوارہ نوجوانوں کی ٹولیاں۔ بستی کی دکانوں اور چھوٹے درجے کے ریستورانوں پر ڈیرا جمائے گپیں ہانکتے ادھیڑ عمر کے مرد۔ دروازوں کے پٹ کھولے ایک دوسرےکو صلواتیں سناتی عورتیں۔ دُھول سے اَٹے، مغلظات بکتے ،کھیلتے کودتے، ننگ دھڑنگ بچے۔
اس بستی کے مکیں بےچارے مجبورو بے بس لوگ تھے جوسر سے پاؤں تک غربت کی دلدل میں دھنسے ہوئے تھے۔بستی کی بیشتر آبادی مزدور پیشہ لوگوں پرمشتمل تھی۔ زیادہ ترلوگ کارخانوں اور فیکڑیوں میں کام کرتے تھے جبکہ باقی آبادی کوچوانوں اور رکشہ چلانے والوں کی تھی۔ ان لوگوں کا تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ تعلیم سے بیگانگی وراثت کی طرح ان کی اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی جا رہی تھی اور وہ سب اس بات سے لاعلم تھے۔ محلے کے نوعمر لڑکے سارا سارا دن آوارہ پھرتے تھے۔ شراب اور چرس یا ہیروئن سے بھری سگریٹ پینا ان کا محبوب مشغلہ بن چکا تھا۔ محبت کی خودفریبی میں ڈوبےجوان لڑکے اور لڑکیاں جنسی تعلقات استوار کیے بیٹھےتھے۔ اپنے ان گنت جنسی معاشقوں کی داستان گوئی میں بستی کےنوجوان فخر محسوس کرتے ۔ آئے دن بستی میں دنگا فساد ہوتا۔بستی کی عورتیں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ گالم گلوچ اور ہاتھا پائی میں حصہ لیتیں۔ قماربازی اور جوئے کے اڈوں پر پولیس کے چھاپے معمول کی بات بنتی جا رہی تھی۔
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ یہ بستی اُس جوہڑ کے مانند تھی جو برائیوں کےکیچڑ سےلبالب بھر چکا تھا۔مگر اس کی سطح پرتیرتےکنول کے چندپھولوں نے اسےابھی تک دلفریب بنا رکھا تھا۔ "مشتاق احمد" واقعتاً ایک پھول تھا جسے بستی کا ہر چھوٹا بڑا "مشتاق چچا "کے نام سے جانتا تھا ۔ اُن کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ تھی۔ جسم دُبلا پتلا اور قدلمبا تھا۔مشتاق چچا کا ذکر آتے ہی ماضی کا جو منظرذہن میں ابھرتا ہے۔اُس میں بستی کی جامع مسجد کےپہلو میں لکڑی کا ایک چھوٹا سا کھوکھادکھائی دیتاہے۔ جس میں جابجا پرچون کا سامان بکھرا پڑا ہے۔ ایک طرف دال اور چاول کی بوریوں کا انبار ہے تو دوسری طرف گھی کے کنستر اور دیگر اشیاء کا ڈھیر ہے۔ ان سب چیزوں کے بیچوں بیچ مشتاق چچا اپنی دبیز شیشوں والی عینک لگائےاخبار پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک وقت تھاکہ ان کے لہجے کی حلاوت اور باتوں کی مٹھاس نے بستی کے ہرفرد کواپناگرویدہ بنا رکھا تھا۔ ان کے کھوکھے پرہر وقت گاہکوں کاتانتا بندھارہتا تھا۔ کسی نے پرچون کی کوئی بھی چیز خریدنا ہوتی تووہ اردگرد کی سب دکانیں چھوڑ کر مشاق چچا کے کھوکھے کا رخ کرتا ۔مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا اور بستی کے اکثر لوگ ان سے نالاں رہنے لگے۔
درحقیقت مشتاق چچاکو اخبار سے شدیدمحبت ہو گئی تھی۔ اسی سبب خالہ دولتے نے بھی اخبار کو اپنی سوتن گرداننا شروع کر دیا تھا۔وہ دن میں کئی بار دروازے سے باہر جھانکتیں اور دور کھوکھے پر بیٹھےشوہر کو اخبار کی محبت میں گم دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتی رہتیں۔کبھی کبھار جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا تو وہ شوہر کی خبر گیری کے لیے کھوکھے پر آ دھمکتیں اور پھر مشتاق چچا کو اپنی عزت بچانا مشکل ہو جاتا۔ بات حد سے آگے بڑھتی تو لوگ اکھٹے ہو جاتے اور بیچ بچاؤ کروا دیتے۔ اُدھر مشتاق چچا کی بے قراری کا یہ عالم تھا کہ جب تک اخبارکا ایک ایک لفظ حفظ نہ کرلیتے ، ان کو سکوں نصیب نہ ہوتا۔
پھر یوں ہواکہ مشتاق چچا اپنا اخباری علم دوسروں میں بانٹنے لگے۔ان کا کھوکھا آہستہ آہستہ چوپال کی شکل اختیار کرنے لگا۔ وہاں پرباقاعدہ عمررسیدہ لوگوں کی محفل جمنے لگی۔ دوپہر ڈھلتے ہی بستی کے ایک آدھ درجن بزرگ مشتاق چچا کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہوجاتے۔ مشتاق چچا اخبار پڑھ کرسنانے میں اتنے محوہوجاتے کہ دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہ رہتی۔ایسے میں اوّل تو کوئی گاہک کھوکھے کا رخ نہ کرتا۔تاہم اگر کبھی کوئی بُھولا بھٹکا گاہک اُدھر آ ہی جاتا تو مشتاق چچا کی بے نیازی کے طفیل اُسےنامراد ہی لوٹنا پڑتا۔
یہ شغل کچھ عرصہ یونہی جاری رہا۔ پھر ایک روز مشتاق چچا کے گھر سےبرتن ٹوٹنے اور چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ عقدہ یہ کھلا کہ خالہ دولتے کی برداشت جواب دے گئی تھی۔ ایک عرصے سے وہ اخبار کواپنی سوتن کے روپ میں برداشت کرتی چلی آرہی تھیں مگر اب معاملہ حد سےبڑھ گیا تھا۔اس نگوڑ ماری اخبار نے تواب گھر کا چولہا بھی ٹھنڈا کر دیا تھا۔اس دن کے بعد کھوکھے پر مشتاق چچاکے دوستوں کی آمد پرپابندی لگ گئی۔ اُس شام مشتاق چچا نے ہاتھ جوڑ کرسب دوستو ں سے معافی مانگی اور اپنی مجبوریوں کی داستان سنا کر ان سےدرخواست کی کہ وہ آئندہ ان کے کھوکھے پر آنے کی زحمت نہ کریں۔ان کےسبھی دوست یار جہاندیدہ افرادتھے۔اس لیے معاملے کی سنگینی سمجھنے میں انہیں دیر نہ لگی اور انہوں نے کھوکھے پر آنا ترک کر دیا۔
اخبار اور دوستوں کی بے عزتی پر مشتاق چچا کافی بد دل ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد اخبار کیساتھ ان کا معاشقہ ٹھنڈا پڑنے لگا۔ اب اخبار کی بجائے انہوں نے کتابوں سے دل لگا نے کی ٹھان لی۔ دل میں ایسا درد جاگا کہ میدان ِسیاست چھوڑ کر تصوف کو تختہ مشق بنا لیا۔اب ان کے ہاتھوں میں موٹی موٹی کتابیں دکھائی دیتیں۔ وہ اکثر اوقات کھوکھے پرمیاں محمد بخشؒ یا بُلھے شاہ ؒ کا کلام ترنم کے ساتھ پڑھتے ہوئے پائے جاتے۔ جب سے انہوں نے صوفیانہ کلام پڑھنا شروع کیا تھا ، ان کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے تھے۔ میری جب بھی ان سے ملاقات ہوتی،وہ کتابوں کے مطالعہ میں غرق ملتے۔ میں تجسس سے پوچھتا۔ چچا ۔ آپ سارا دن کیا پڑھتے رہتے ہیں؟ ۔ وہ کتاب سے نظریں اٹھا کر مجھے دیکھتے اور مسکرا کر کہتے۔ بیٹا۔یہ اللہ والوں کی کتابیں ہیں۔ میں معصومیت سے پوچھتا۔ چچا! ان کتابوں میں کیا لکھا ہے؟ وہ مجھےسمجھانے کی کوشش کرتے۔یہ بڑی ڈونگی باتیں ہیں بیٹا ۔تم ابھی نہیں سمجھو گے۔ میں چپ ہو جاتا۔ وہ سچ ہی کہتے تھے۔ ان کتابوں کی گہرائی میں وہ ایسے ڈوبےکہ پھر نہ اُبھرسکے۔ ڈوبتے ہی چلے گئے۔ میں نے بچپن میں، مشتاق چچا کے دو ہی روپ دیکھے تھے۔پہلا وہ جس میں وہ اخبار کی محبت میں گرفتار نظر آئے۔ پھرجوں جوں وہ راہِ الفت کی منازل طے کرتے گئے ۔ ان کا روپ بھی بدلنے لگا۔لگن سچی تھی یا قدرت کوان کاکوئی امتحان مقصود تھا کہ پتھریلے اور اونچے نیچے راستوں پر چلتے چلتے ایک دن ان کے قدموں نے درِ عشق کو چھو لیا ۔بس پھر کیا تھا۔ہر طرف سے پتھر برسے۔کُفر کے فتوے جاری ہوئے۔ ان پردیوانے کا لیبل لگا اورایک بار پھرایک منصور سُولی پر چڑھا دیا گیا۔
مشتاق چچا کی اخبار سے گہری محبت اور کاروبار سے یکسر بے نیازی کی بدولت گاہکوں نےآہستہ آہستہ ان کے کھوکھے کا رخ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ رہی سہی کسر اس دن کے واقعہ نے پوری کردی۔ اُس واقعہ کے بعد تو لوگ مشتاق چچا کے سائے سے بھی دور بھاگنے لگے تھے۔ ہوایوں کہ ایک روز مشتاق چچا کے کھوکھے پر ایک عجیب و غریب سی عبارت جلی حروف میں لکھی تھی۔ اس تحریر نےہر کسی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ پہلی بار جب میں نے بھی کھوکھے پر " ابلیس شاپ" لکھادیکھا تو شک گزرا کہ شاید یہ کسی بچے کی شرارت ہے۔ مگر جب مشتاق چچا کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تو وہ ہنس کر بولے۔ بیٹا! یہ کسی کی شرارت نہیں۔ میں نے خود لکھا ہے۔ان کا جواب سن کرمیں ہکا بکا رہ گیا۔ مزید کچھ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی تو چپ چاپ گھر چلا آیا۔ ساری رات بستر پر کروٹیں بدلتے اور یہ سوچتے گزری کہ مشتاق چچاکو آخر کیا ہو اہے ؟ انہیں خود کو ابلیس کہلوانے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ میرا ذہن ان ثقیل سوالوں کا جواب تلاشنے سے قاصر تھا۔ وہ دن گزرا پھر کبھی مشتاق چچا کے کھوکھے پر کوئی گاہک نظر نہ آیا۔ البتہ ان کے گھر میں برتن ٹوٹنے اورچیخنے چلانے کی آوازیں زور پکڑتی چلی گئیں۔ مگر اِس بار مشتاق چچا نے کان لپیٹ لیے تھے۔ کوئی کچھ بھی کہتا، ان کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ وہ دُھن کے پکے تھے۔ اب انہیں کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی ۔ وہ اخبار کی محبت سےدستبردار ہو گئے تھے مگرعشق کے جس رستے پر وہ اب چل نکلے تھے۔ اس سے واپسی شاید ان کے اپنے بس کی بات بھی نہیں تھی۔خالہ دولتے اب تھک ہار کر چپ ہو گئی تھیں۔ بستی کے چند بزرگوں نے بھی مشتاق چچا کو سمجھانے کی کوشش کی مگر مشتاق چچا اب کسی کی سننے کو تیار نہیں تھے۔
جب سے مشتاق چچا نے کھوکھے پر "ابلیس شاپ "لکھوا یا تھا۔ لوگوں کو ان کی دماغی حالت پر شک ہونے لگا تھا۔ بستی کےبچے ان کا مذاق اڑاتے ۔بڑے بوڑھے طرح طرح کی باتیں بناتے، پاس کی مسجد کے نمازی کھوکھے کے پاس سے گزرتے ہوئےاونچی آواز میں لاحول پڑھتے مگر مشتاق چچا بالکل خاموش رہتے۔ اس وقت ان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھنے کو ملتی او روہ لوگوں کی ہر بات کوخندہ پیشانی سے سہہ لیتے۔ ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنے میں گوگا بٹ پیش پیش تھا۔جب سےمشتاق چچا نے بستی کی بہو بیٹیوں سے چھیڑ چھاڑ پر اسے ٹوکا تھا اور اس کے والد سے اسکی شکایت کی تھی ، تب سے وہ مشتاق چچا کے ساتھ کُھلی دشمنی پر اتر آیا تھا۔ وہ مشتاق چچا کی تحقیر کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔
پھر ایک روز بستی کے لوگوں نے ایک ایسامنظر دیکھاجس سے ان کا یقین پختہ ہوگیا کہ مشتاق چچا اب سمجھنے سمجھانے کی حدوں کو عبور کر چکے ہیں۔ گرمیوں کے دن تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں مشتاق چچا اپنے منہ پر کالک ملے اورگلے میں جوتیوں کا ہار پہنے بڑے طمطراق سےایک گدھے پر سوار چلے آتے ہیں۔ پیچھے پیچھے بستی کے آوارہ بچوں کا جلوس تھا۔ بچے وقفے وقفے سے " چچا ابلیس "کا فلک شگاف نعرہ بلند کرتے جسے سن کر مشتاق چچا کا دل باغ باغ ہو جاتا اور ایک انجانی خوشی کا احساس ان کے روئیں روئیں میں سرایت کرنے لگتا۔ شام تک وہ اسی حالت میں بچوں کے جلو میں مختلف گلیوں کا چکر لگا تے رہے۔آخرکار تھک ہار کر بچے ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ مگر وہ پھر بھی اسی مستقل مزاجی سے گلیوں کی خاک چھانتے رہے یہاں تک کہ خالہ برکتے کو اپنے بڑے بیٹے کی مدد سے زبردستی مشتاق چچا کو گدھے کی پشت سے اتار کر گھر لانا پڑا۔
اس واقعے کو رونما ہوئےکچھ دن ہی گزرے تھے کہ مشتاق چچا کے دماغ میں نجانے کیا سودا سمایا کہ انہوں نے محلے بھر کے گٹروں کی صفائی کا بیڑہ اٹھا لیا۔ صبح سویرے وہ لنگوٹ کس کر کسی نہ کسی گٹر کا ڈھکن اٹھا کر اس میں گُھس جاتے اور شام ڈھلنے تک اس میں سے اینٹ،گارا اور پتھر نکال نکال کر باہر ڈھیر کرتےرہتے۔ لوگ ناگواری کا اظہار کرتےپاس سے گزرتے رہتے ۔ مگر مشتاق چچا کے جذبے اور شوق پر کوئی چیز کارگر نہ ہوئی۔ انہوں نے اپنا کام مستقل مزاجی سے جاری رکھا اور ایک ہفتے کے اندر بستی کے تمام گٹر صاف کر دیے۔ بلدیہ والے اس خدائی خدمتگار سے بےحد خوش دکھائی دیتے تھے جس نے ان کا سال بھر کا کام ایک ہفتے میں پورا کر دیا تھا۔ اس دن کے بعد سے تولوگ اس طرح کےانوکھے واقعات دیکھنے کے عادی ہو گئے۔ مشتاق چچا آئے دن کسی نہ کسی نئے بہروپ میں جلوہ گر ہوتے۔ انہیں دیکھ کربستی کی عورتیں حیرت سے انگلیاں دانتوں میں داب لیتیں۔ بچے مذاق اڑاتے۔بڑے بوڑھے لعن طعن کرتے، مگر وہ ضبط کا پیکر بنے ہر قسم کی عزت افزائی کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے اور مسکراتے رہتے۔
مشتاق چچا کی زندگی اسی ڈگر پر چل رہی تھی کہ ایک رات چند خردمندوں نے مل کراس دیوانے کو راہ عشق پر چلنے کی کڑی سزا سنا دی ۔ وہ گرمیوں کی ایک سیاہ رات تھی۔ ہوا بند ہوجانے کے باعث حبس بڑھ گیا تھا۔ لوگ چھتوں پر چارپائیاں ڈالے سو رہے تھے۔اچانک شور کی آواز سے مشتاق چچا کی آنکھ کھل گئی۔ آنکھیں ملتے ہوئے انہوں نے چھت کی منڈیر سےجھانک کر دیکھا۔ کچھ دور آگ کا ایک آلاؤ روشن تھا۔بہت سے لوگ جمع تھے۔ پانی سے بھری بالٹیاں بھڑکتی ہوئی آگ پر انڈ یلی جا رہی تھیں مگر شعلے تھے کہ آسمان کو چھونے پر بضد تھے۔ وہ بھاگ کر اس جگہ پہنچے اور ہجوم کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے۔ اسی وقت کسی نےقریب سے صدا لگائی ۔ مشتاق چچا! کسی نے آپ کا کھوکھا جلا دیا ۔ مشتاق چچا چپ چاپ آسمان کی طرف بلند ہوتے شعلوں کو دیکھ رہے تھے۔ان کی آنکھوں میں آنسو تیر رہےتھے اور پاس کھڑے گوگے بٹ کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ اس کا ہاتھ فاتحانہ انداز میں اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کھوکھا جل کر راکھ ہو گیا۔ بستی والوں کی نظر میں ان کا کھوکھا اگرچہ کب کابے حیثیت ہو چکا تھا مگر مشتاق چچا کواب بھی اس سے بڑی اُنسیت تھی۔اس کے جل جانے پر انہیں لگا جیسے وہ بے گھر ہو گئے ہوں۔ اسی صدمے سے نڈھال ہو کروہ بستر سے جا لگے۔ خالہ دولتے نے ان کی ہمت بندھانے کی بہتیری کوشش کی مگر ان کے دل میں جانے کیا بات بیٹھ گئی تھی۔ انہوں نےچپ سادھ لی تھی۔ پھرایک دن اِسی عالم میں وہ دنیا سے منہ موڑ کر راہِ عدم کے سفر پر چل نکلے۔
مشتاق چچا کو مرے ابھی ہفتہ ہی گزرا تھا کہ مسجد کے پہلو میں پھر سے ایک نیا کھوکھا نظر آنے لگا۔ یہ کھوکھا گوگے بٹ کا تھا ۔ آہستہ آہستہ پرانی رونقیں پھر سے بحال ہونے لگیں۔اس کے کھوکھے پر گاہکوں کا رش لگنےلگا۔ لوگ اب بھولتے جا رہے تھے کہ کبھی اس جگہ کسی مشتاق چچا کا کھوکھا ہو ا کرتا تھا۔کچھ لوگ خوش تھے کہ چلو اچھا ہوا، بستی کی ایک نجس جگہ پاک ہوئی اور مسجد کے پہلو سے ابلیس کے نام کی نحوست جاتی رہی۔ گوگے بٹ نے لوگوں کو شیشے میں اتار لیا تھا اور اس کا پان وسگریٹ کا کاروبار بھی خوب چمک اٹھا تھا۔
بستی والوں کے لیے سب کچھ پہلے جیسا ہو چکا تھا مگرنجانے کیوں میرے لیے کچھ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ گو کہ اب کھوکھے پرابلیس شاپ لکھا نظر نہ آتا تھا۔مگراس کے باوجود میں گوگے بٹ کے کھوکھے پر ابلیس کو کھڑا دیکھتا تھا۔ وہ مجھے روز دکھائی دیتا تھا ۔مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ۔ مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے اور راہ چلتی بہو بیٹیوں پر گندی نظریں جمائے ہوئے۔ میں اکثرسوچتا، نجانے وہ دوسروں کو کیوں نظر نہیں آتا۔ تبھی کہیں پاس سے میرے کانوں میں مشتاق چچا کی سرگوشی گونجتی۔

چل او بُلھیااوتھے چلیے جتھے سار ے اَنّے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے نہ کوئی سانوں مَنّے۔​
برائی اور اچھائی کی جنگ، تعلیم سے بے بہرہ افراد کے عمومی رویے، لوگوں کی مجبوریوں سے یا مشکلات سے بے حس لوگوں کا فائدہ اٹھانا، اس ایک مختصر افسانے میں بہت کچھ تھا جس نے سوچنے پر مجبور کیا۔ آپ نے عمدگی سے ایک جاہل سوچ کو اجاگر کیا۔ بہت اچھے!!
ساتھ ہی کچھ باتیں ذہن میں آئیں یا آپ سے کچھ سوالات کرنے کی جسارت ہوئی تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ تحریر کس رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔

آپ کی تحریر کسی بہت پرانے زمانے کے دور کی لگی۔ کیا ایسا ماحول آج کل بھی ہوتا ہے؟ یہی سوچتی رہی۔
چچا مشتاق کا کردار زمانے کی عام روش سے کافی دور کیوں تھا؟
کیا چچا مشتاق کا یہ رویہ ایک تعلیم یافتہ گھرانے اور ماحول میں بھی قابل قبول ہو سکتا ہے یا نہیں؟
کیا دین و دنیا میں توازن نہ ہونا تصوف کی بنیاد ہے؟
چچا مشتاق کا اخبار اور کتابوں کا اتنا اثر لینا کس بات کی غمازی کرتا ہے؟ کیا کوئی نفسیاتی مسئلہ تھا یا کم علمی ؟
آپ کے افسانے نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔
ان تمام باتوں کے باوجود بہت عمدہ منظر کشی کے ساتھ، الفاظ کے سلیقے سے کیے گئے چناؤ کے باعث ایک پر اثر تحریر ہے جو قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
چچا مشتاق کا کردار زمانے کی عام روش سے کافی دور کیوں تھا؟
کیا چچا مشتاق کا یہ رویہ ایک تعلیم یافتہ گھرانے اور ماحول میں بھی قابل قبول ہو سکتا ہے یا نہیں؟
کیا دین و دنیا میں توازن نہ ہونا تصوف کی بنیاد ہے؟
چچا مشتاق کا اخبار اور کتابوں کا اتنا اثر لینا کس بات کی غمازی کرتا ہے؟ کیا کوئی نفسیاتی مسئلہ تھا یا کم علمی ؟
آپ کے افسانے نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا
ساگر بھائی! یہ سوالات شاید ہر قاری کے ذہن میں آئیں گے۔
کیا آپ کچھ ان کی وضاحت فرمائیں گے؟
 

سیما علی

لائبریرین
تبھی کہیں پاس سے میرے کانوں میں مشتاق چچا کی سرگوشی گونجتی۔

چل او بُلھیااوتھے چلیے جتھے سار ے اَنّے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے نہ کوئی سانوں مَنّے۔​
ساری تحریر کا نچوڑ بابا بلھے شاہ کا شعر ہے
بابا بلھے شاہ کہتے ہیں کہ ’’چل بلہیا ایسی جگہ چل کر رہتے ہیں جہاں سب اندھے رہتے ہوں اور جہاں کوئی میری ذات نہ جانتا ہو، اور نہ کوئی مجھے مانتا ہو‘‘۔ یہ تو اس بہت بڑی فکر کے حامل شعر کے سادہ سے لفظی معنی ہیں، اور اگر اس شعر کی فکر انگیزی میں کسی نے اترنا ہے تو اتر جائے اور ڈوبتا چلا جائے اور اسرار و رموز سے آشنا ہوتا چلا جائے۔
دنیا میں بہت نامور جو دنیا والوں کو محبت کے سبق سکھاتے رہے ، خود عمل کرکے دکھاتے رہے ، مگر دنیا والوں نے نہ سدھرنا تھا اور نہ ہی وہ سدھرے۔
صدیاں بیت گئیں درد والے یوں ہی درد سہتے رہے ہیں، بے دردوں نے نہ سدھرنا ہے نہ سدھریں گے !!!!!
گوگے بٹ جیسے لوگ صرف اس طبقے ہی میں نہیں پائے جاتے یہ ہر طبقے میں مختلف ناموں سے موجود ہیں
حبیب جالب نے شام غم سے پوچھا:
؀
اے شام غم بتا کہ سحر کتنی دور ہے
آنسو نہیں جہاں، وہ نگر کتنی دور ہے
کیا چچا مشتاق کا یہ رویہ ایک تعلیم یافتہ گھرانے اور ماحول میں بھی قابل قبول ہو سکتا ہے یا نہیں؟
بٹیا سیدھا سادھا سا کردار ہے ہاں دنیا کی کثافتوں سے دور لوگوں کے دکھ درد بانٹنے والا بہت زیادہ حساس انسان اکثر اسی طرح React کرتے ہیں ۔۔۔۔اور گوگے بٹ جیسے لوگ اُسکا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔۔۔۔ابلیس شاپ لکھا نظر نہ آتا پر ابلیس اپنی تمام بدصورتی لیئے براجماں ہے🥲🥲🥲🥲
 

صابرہ امین

لائبریرین
بٹیا سیدھا سادھا سا کردار ہے ہاں دنیا کی کثافتوں سے دور لوگوں کے دکھ درد بانٹنے والا بہت زیادہ حساس انسان اکثر اسی طرح React کرتے ہیں ۔۔۔۔اور گوگے بٹ جیسے لوگ اُسکا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔۔۔۔ابلیس شاپ لکھا نظر نہ آتا پر ابلیس اپنی تمام بدصورتی لیئے براجماں ہے🥲🥲🥲🥲
متفق۔۔!!
 
ساری تحریر کا نچوڑ بابا بلھے شاہ کا شعر ہے

بٹیا سیدھا سادھا سا کردار ہے ہاں دنیا کی کثافتوں سے دور لوگوں کے دکھ درد بانٹنے والا بہت زیادہ حساس انسان اکثر اسی طرح React کرتے ہیں ۔۔۔۔اور گوگے بٹ جیسے لوگ اُسکا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔۔۔۔ابلیس شاپ لکھا نظر نہ آتا پر ابلیس اپنی تمام بدصورتی لیئے براجماں ہے🥲🥲🥲🥲
شاید آپ نے اوپر دیے گئے سوالوں کے جواب دے دیے ہیں-
ساگر صاحب! ویل ڈن
آپا جی زندہ باد!
 

صابرہ امین

لائبریرین
شاید آپ نے اوپر دیے گئے سوالوں کے جواب دے دیے ہیں-
ساگر صاحب! ویل ڈن
آپا جی زندہ باد!
بھئی جوابات تو ایس ایس ساگر بھیا ہی سے متوقع ہیں۔ تصوف کی سمجھ تو ہمیں ہرگز نہیں ہے۔ اس لیے شائد سمجھنا مشکل ہو رہا ہے۔ بھلے بابا کا شعر تو سیما آپا نے سمجھا دیا مگر مشتاق چچا کے رویے کا اس شعر سے تعلق سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ساگر بھیا ہی یہ عقدہ حل کر سکتے ہیں ۔ ۔
 
بھئی جوابات تو ایس ایس ساگر بھیا ہی سے متوقع ہیں۔ تصوف کی سمجھ تو ہمیں ہرگز نہیں ہے۔ اس لیے شائد سمجھنا مشکل ہو رہا ہے۔ بھلے بابا کا شعر تو سیما آپا نے سمجھا دیا مگر مشتاق چچا کے رویے کا اس شعر سے تعلق سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ساگر بھیا ہی یہ عقدہ حل کر سکتے ہیں ۔ ۔
آپ نے درست فرمایا- ساگر صاحب ہی اصل جواب دے سکتے ہیں- باقی تو تبصرے ہیں-
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
بہت خوب صورت تحریر ۔۔۔۔ مشتاق چچا جیسے کردار سچے اور کھرے انسان اسی معاشرے کا جیتا جاگتا کردار آپکے پرُ اثر انداز نے رلا دیا ۔۔۔ جلدی جلدی پڑھی پر آنکھوں کو بھیگنے سے نہ روک سکے ۔۔۔۔
اتنی عمدہ تحریرلکھنے کا بہت بہت شکریہ .
معاشرہ ، سماج اور ماحول کی عکاسی بڑی خوبصورتی سے کی ہے آپ نے ۔۔پڑھتے ہوئے آپ ارد گرد لے ماحول کو محسوس کرتے ہیں ۔۔۔۔۔
جیتے رہیے ڈھیر ساری دعائیں
شاد و آباد رہیے ساگر بھیا۔۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ سیما آپا۔ تحریر کی پسندیدگی اور دعاؤں کے لیے تہہ دل سے ممنون ہوں۔ اللہ آپ کو بھی شادوآباد رکھے۔آمین۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
برائی اور اچھائی کی جنگ، تعلیم سے بے بہرہ افراد کے عمومی رویے، لوگوں کی مجبوریوں سے یا مشکلات سے بے حس لوگوں کا فائدہ اٹھانا، اس ایک مختصر افسانے میں بہت کچھ تھا جس نے سوچنے پر مجبور کیا۔ آپ نے عمدگی سے ایک جاہل سوچ کو اجاگر کیا۔ بہت اچھے!!
صابرہ امین بہنا! تحریر کو پسند فرمانے پر سپاس گزار ہوں۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
آپ کی تحریر کسی بہت پرانے زمانے کے دور کی لگی۔ کیا ایسا ماحول آج کل بھی ہوتا ہے؟ یہی سوچتی رہی۔
صابرہ امین بہنا! تحریر تو پرانی نہیں البتہ اس میں جس زمانے کا ذکر ہے وہ لگ بھگ اٹھائیس انتیس سال پہلے کا ہے۔ یعنی میرے بچپن کا۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
چچا مشتاق کا کردار زمانے کی عام روش سے کافی دور کیوں تھا؟
بہنا!مشتاق چچا کا رویہ یا طرز عمل اگرچہ عام لوگوں سے مختلف نظر آتا ہو مگر یہ ایک جیتا جاگتا کردار ہے۔ یہ کوئی خیالی کردار نہیں اور بیان کردہ واقعات بھی فرضی نہیں۔ میں ان سب چیزوں کا چشم دید گواہ ہوں۔
کیا چچا مشتاق کا یہ رویہ ایک تعلیم یافتہ گھرانے اور ماحول میں بھی قابل قبول ہو سکتا ہے یا نہیں؟
چچا مشتاق جیسے کردار تو ان پڑھ ماحول میں بھی قابل قبول نہیں ہوتے جیسا کہ تحریر سے واضح ہے۔ ہم ہر چیز کو اپنے معیار پر پرکھنے کے عادی ہیں۔ زمانے کی عام روش سے ہٹ کر جو بھی چیز ہو وہ آسانی سے قبول نہیں کی جاتی۔ اس کی تو ڈھیروں مثالیں آج کل کے دور میں بھی ملتی ہیں۔
کیا دین و دنیا میں توازن نہ ہونا تصوف کی بنیاد ہے؟
بعض اوقات لوگوں کا ظاہر ہمیں دھوکا دیتا ہے کیونکہ ان کے باطن میں جھانکنے کی ہم صلاحیت نہیں رکھتے
چچا مشتاق کا اخبار اور کتابوں کا اتنا اثر لینا کس بات کی غمازی کرتا ہے؟ کیا کوئی نفسیاتی مسئلہ تھا یا کم علمی ؟
کسی بھی چیز کا اثر مختلف لوگوں پر مختلف طریقے سے ہوتا ہے۔ جیسے برستی ہوئی بارش زمین کے مختلف حصوں پر مختلف طرح سے اثرڈالتی ہے۔ کہیں سبزہ اگاتی ہے تو کہیں کیچڑ بناتی ہے۔ جتنی حساسیت زیادہ ہو گی اتنا ہی اثر گہرا ہوگا۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
بہنا!مشتاق چچا کا رویہ یا طرز عمل اگرچہ عام لوگوں سے مختلف نظر آتا ہو مگر یہ ایک جیتا جاگتا کردار ہے۔ یہ کوئی خیالی کردار نہیں اور بیان کردہ واقعات بھی فرضی نہیں۔ میں ان سب چیزوں کا چشم دید گواہ ہوں۔

چچا مشتاق جیسے کردار تو ان پڑھ ماحول میں بھی قابل قبول نہیں ہوتے جیسا کہ تحریر سے واضح ہے۔ ہم ہر چیز کو اپنے معیار پر پرکھنے کے عادی ہیں۔ زمانے کی عام روش سے ہٹ کر جو بھی چیز ہو وہ آسانی سے قبول نہیں کی جاتی۔ اس کی تو ڈھیروں مثالیں آج کل کے دور میں بھی ملتی ہیں۔

بعض اوقات لوگوں کا ظاہر ہمیں دھوکا دیتا ہے کیونکہ ان کے باطن میں جھانکنے کی ہم صلاحیت نہیں رکھتے

کسی بھی چیز کا اثر مختلف لوگوں پر مختلف طریقے سے ہوتا ہے۔ جیسے برستی ہوئی بارش زمین کے مختلف حصوں پر مختلف طرح سے اثرڈالتی ہے۔ کہیں سبزہ اگاتی ہے تو کہیں کیچڑ بناتی ہے۔ جتنی حساسیت زیادہ ہو گی اتنا ہی اثر گہرا ہوگا۔
اوہ، تو یہ کردار واقعی ایک حقیقت تھا!! آپ نے ٹھیک ہی کہا کہ لوگوں کا ظاہر ہمیں دھوکا دے جاتا ہے۔ حساس ہونا سچ میں بہت تکلیف دہ بن جاتا ہے۔ آپ کی وضاحت کا بے حد شکریہ ۔ ۔
منظر نگاری اور الفاظ کے چناؤ اور استعمال میں آپ نے ہمیشہ کی طرح متاثر کیا۔ اللہ آپ کے قلم کو مزید طاقت عطا فرمائے۔ آمین
 

سید عمران

محفلین
بہت اچھی اور متاثر کن تحریر ہے ساگر صاحب۔۔۔
ہمارے پڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ حقیقی کہانی ہے۔۔۔
ہم سے بناوٹی قصہ کہانی ناول نہ سنے جاتے ہیں نہ پڑھے جاتے ہیں!!!
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ساگر صاحب! ویل ڈن
آپا جی زندہ باد!
خورشید صاحب آپ کی محبت کا بے حد شکریہ۔اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ آمین۔
اوہ، تو یہ کردار واقعی ایک حقیقت تھا!! آپ نے ٹھیک ہی کہا کہ لوگوں کا ظاہر ہمیں دھوکا دے جاتا ہے۔ حساس ہونا سچ میں بہت تکلیف دہ بن جاتا ہے۔ آپ کی وضاحت کا بے حد شکریہ ۔ ۔
منظر نگاری اور الفاظ کے چناؤ اور استعمال میں آپ نے ہمیشہ کی طرح متاثر کیا۔ اللہ آپ کے قلم کو مزید طاقت عطا فرمائے۔ آمین
اپنی بہن کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں جو میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو تعریف کے قابل سمجھتی ہے۔ دعا کے لیے بھی ممنون ہوں۔ اللہ آپ کو ہمیشہ شادوآباد رکھے۔ آمین۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت اچھی اور متاثر کن تحریر ہے ساگر صاحب۔۔۔
ہمارے پڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ حقیقی کہانی ہے۔۔۔
ہم سے بناوٹی قصہ کہانی ناول نہ سنے جاتے ہیں نہ پڑھے جاتے ہیں!!!
آپ یہ کیسے جان لیتے ہیں کہ کون سا حقیقی واقعہ ہے اور کون سا گھڑا گیا ہے؟
 

صابرہ امین

لائبریرین
اپنی بہن کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں جو میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو تعریف کے قابل سمجھتی ہے۔ دعا کے لیے بھی ممنون ہوں۔ اللہ آپ کو ہمیشہ شادوآباد رکھے۔ آمین۔
آپ بے شک بہت اچھا لکھتے ہیں۔ اس طرح لکھنا بعض لوگوں کا بس خواب ہی ہو سکتا ہے کہ حساس ہونا اور اپنے احساسات کو قلمبند کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔ ۔
سلامت رہیں 🏅🏅🏅
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آپ یہ کیسے جان لیتے ہیں کہ کون سا حقیقی واقعہ ہے اور کون سا گھڑا گیا ہے؟
جو واقعہ بڑھا چڑھا کے لکھا جائے وہ تو یقیناً ہر خاص و عام جان لیتے ہیں کہ لکھنے والے صاحب کی کارستانی ہے۔ لیکن حقیقی واقعات جیسا کہ ساگر بھائی نے جو واقعہ بیان کیا اس کا کیسے علم ہو گا کہ حقیقی ہے۔ کیونکہ ساگر بھائی کے بتانے سے پہلے تک اسے مجھ سمیت اور دوستوں نے بھی محض ایک بنایا ہوا واقعہ سمجھا۔
 
Top