ابتدائی اسلامی نظام 21ویں صدی میں کیسے رائج ہوگا؟!

arifkarim

معطل
عارف، مجھے تمہارے خلوص پر شک نہیں ہے۔ لیکن معاشرے میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کا کام صرف فورم پر پوسٹ کرکے نہیں ہو سکتا۔ یہاں اس موضوع پر پہلے ہی کئی طویل تھریڈ موجود ہیں۔ میرا تمہارے لیے مخلصانہ مشورہ ہوگا کہ پہلے تم اپنی شخصیت کی تعمیر پر توجہ دو اور کچھ مطالعہ کرو تاکہ تمہارے نظریات کا تضاد دور ہو۔ اس کے بعد ہی تمہاری بات میں کسی کو وزن نظر آئے گا۔

شکریہ نبیل بھائی۔ آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایک چھوٹا سا فارم کیسے عوام کی آواز بن سکتا ہے۔بہر حال کوشش کرنا کچھ نہ کرنے سے بہت بہتر ہے۔ آپنے نوٹ کیا ہوگا مختلف سیاسی اور مذہبی تھریڈز میں ڈسکشنز ذاتیات پر آکر ختم ہو جاتی ہیں۔ اسلئے میری یہاں بھرپور کوشش ہے کہ کسی کی ذاتیات پر اترنے کی بجائے محض علمی مناظرہ ہو ۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اُس وقت تک کسی کی بات نہیں سنتے جب تک وہ مکمل بالغ نہ ہو جائے یا معاشرے کے قوانین کے اعتبار سے اس اسٹیج تک نہ پہنچ جائے جسکا اس سے تقاضا کیا جاتا ہے۔ حالانکہ بعض اوقات ایک بچہ بھی بڑے بڑے عالموں کو نیچا دکھا سکتا ہے۔ اسلئے میرے خیال میں جب تک ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ" کیا" کہا جا رہا ہے بجائے اسکے کہ "کون" کہہ رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کی اصلاح ناممکن ہے۔
میرا مقصد اس تھریڈ میں صرف مختلف آئیڈیاز ڈسکس کرنا ہے جنکی مدد سے ہم مستقبل میں‌اپنے مسائل کے حل کیلئے ایک لائحہ عمل تیار کر سکیں۔ یہاں پر میں کوئی" کالم" لکھ کر باقیوں کی طرح انٹرٹینمنٹ فراہم نہیں‌کر رہا۔ بلکہ سچے دل سے اس موضوع پر غور و فکر چاہتا ہوں۔ :)
 

نبیل

تکنیکی معاون
بہرحال میں تمہیں یہی مشورہ دوں گا کہ خود کو کچھ وقت دو۔ اس سے تمہیں اپنی منزل طے کرنے میں مدد ملے گی۔
 

زونی

محفلین
:grin:
لگتا ہے یہ دھاگہ صدر صاحب کو دکھانا ہی پڑے گا;)
جی محترمہ، میں بھی اول دن سے قوم میں علمی شعور بیدار کرنے کے حق میں ہوں۔ اب تمام افراد تک یکساں تعلیمی میعار کون مہیا کرے گا؟ اصل سوال یہ ہے۔۔۔۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اسوقت ملک میں ہزاروں سیاسی و مذہبی جماعتیں موجود ہیں۔ ان سب کے انٹرسٹس بھی مختلف اور متصادم ہیں۔ ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ ہم میں شامل ہو جاؤ ، سلامت رہو گے۔ اور یہی گروہ بندی تمام مسائل کی جڑ ہے۔
مسائل کے حل کیلئے ہمیں اپنے قومی انٹرسٹس یکساں کرنے ہوں گے جو اسوقت تک نہیں ہو سکتے جب تک بچپن سے ہی تعلیم یکساں نہ ملی ہو یا تربیت ایک جیسی نہ ہو۔ ہمارے پاس اس وقت گورنمنٹ اسکولز، دینی مدرسوں سے لیکر مغربی طرز کےپرائویٹ انگلش اسکولز موجود ہیں جنمیں پڑھائے جانے والے نصاب میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔!
آپنے یہاں عوام میں علمی شعور بیدار کرنے کیلئے ایک سنٹرل گوورمنٹ یا نظام کی بات کی ہے لیکن اس با ت کو نظر انداز کر دیا کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مفادات میں اسقدر اختلاف ہے کہ ایک کامیاب یکساں انٹرسٹس پر مبنی نظام تشکیل دینا ہی ناممکن ہے۔ اور جیسا کہ پہلے کہا کہ انٹرسٹس کو یکساں کرنے کیلئے تعلیمی نظام کو یکساں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میرا مشورہ یہ ہے کہ سیدھا سیاسی نظام پر بے تکی بحث کی بجائے اگر پہلے تعلیمی نظام اور اسکے نصاب پر نظر ثانی کر لیں تو بعد میں یقینا ً ایک بہتر لائحہ عمل بنانے میں مدد ملی گی۔ ایک لمبی ڈسکشن کے بعد آخر کار ہمیں ابتدائی اسلامی نظام کی واپسی کی پہلی کڑی مل گئی اور وہ ہے’’ یکساں تعلیمی نظام ‘‘جو کہ ہر فرد تک مفت فراہم کیا جائے۔ میری تمام اراکین سے درخواست ہے کہ اسی موضوع میں رہتے ہوئے اب یکساں تعلیمی نظام اور یکساں تعلیمی نصاب سے متعلق اپنی آرا کا اظہار کریں۔ کس قسم کی گورمنٹ یہ کام سر انجام دے گی، اسپر بحث بعد میں کریں گے، شکریہ :hurryup:







حسب معمول میرے سوال کا جواب نہیں آیا :idontknow:


سیاسی نظام کی بات تو آپ نے ہی شروع کی تھی ، میں نے تو اسکا مختصر سا جواب دیا تھا اور یکساں تعلیمی نظام کو ڈسکس کرنے کیلئے اتنا گھمانے پھرانے کی کیا ضرورت تھی :timeout:
 

arifkarim

معطل
حسب معمول میرے سوال کا جواب نہیں آیا :idontknow:


سیاسی نظام کی بات تو آپ نے ہی شروع کی تھی ، میں نے تو اسکا مختصر سا جواب دیا تھا اور یکساں تعلیمی نظام کو ڈسکس کرنے کیلئے اتنا گھمانے پھرانے کی کیا ضرورت تھی :timeout:

بہن جی، آپ کے سوال کا جواب تو میں نے دیا۔ یہی کہ فی الوقت موجودہ نظاموں سے ہمارے ملک کے مسائل حل نہیں ہو سکتے کیونکہ درست سیاسی قیادت بھی تب ہی ہوگی جب عوام میں حقیقی و یکساں شعور موجود ہوگا۔بھلا مُلا اور سائنسدان ایک ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ سکتے ہیں کبھی:sad2:
اسی لئے میں نے درست قیادت کیلئے آپکو پہلے یکساں تعلیم نظام سے متعلق ڈسکشن کیلئے کہا ہے۔ اور اسکے لئے کچھ وجوہات بھی بیان کی ہیں کہ یہ کیوں ضروری ہے۔ اب آپ بتائیں کہ جس ملک میں سرکاری زبان انگریزی اور قومی زبان اردو ہو، اسکا نصاب اول سے دہم جماعتوں تک کس حساب سے بنایا جائے؟ نیز سائنس اور مذاہب کی کتب ایک ہی زبان میں ہونی چاہئیں یا یورپین اسٹینڈرڈ کے مطابق انگریزی میں۔
میری رائے یہ ہے کہ تاریخ کے مطابق ہر ملک نے اپنی ہی قومی زبان میں ترقی کی ہے۔ چینی اور جاپانی کو اگر دیکھا جائے تو انگریزی کے مقابلے میں کہیں کمپلکس زبانیں ہونے کے باوجودانکی حکومتوں نے انہیں قومی و سرکاری زبان کا درجہ دیا ہوا ہے اور اسی میں ٹیکنالوجی کے بلند مقام کو چھویا ہے۔ حالانکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انکی حالت ہم سے بھی زیادہ بد تر تھی۔ اسلئے میں اپنے ملک میں شعور کی کمی کی وجہ اسی دو لخت زبانوں کے تصادم کو سمجھتا ہوں۔ میں چاہوں گا کہ حکومت اردو کو اول حیثیت دے اور انگریزی کو ثانوی۔ تمام کتب خواہ انکا تعلق کسی بھی مضمون سے ہو، اردو میں پیش کئے جائیں۔ ہاں بیشک انگریزی انگریزی میں ہی سکھائی جائے ;)
ہمارے ہاں اکثر یہ گلہ کیا جاتا ہے کہ اعلیٰ ڈگریز کے حامل طلباء دیار غیر میں رزق تلاش کرتے ہیں اور اپنے ملک میں کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ گلہ اپنے منہ پر چپت مارنے کے متردف ہے۔ اول دن سے ہمنے اپنی سائنسی تعلیم انگریزی میں حاصل کی۔ اب جب پیشہ ورانہ زندگی میں کودے تو اس اسٹینڈرڈ کی نوکریاں مہیا نہ کر سکے جس اسٹینڈرڈ پر تعلیم حاصل کی گئی تھی۔ نتیجہ؟ ملک فراری اور غیروں کی غلامی:rollingonthefloor:
اب ملک میں صرف اردو میں تعلیم یافتہ ملا ہی بچتا ہے اور اسی کی چلتی ہے :applause:
 

زونی

محفلین
بہن جی، آپ کے سوال کا جواب تو میں نے دیا۔ یہی کہ فی الوقت موجودہ نظاموں سے ہمارے ملک کے مسائل حل نہیں ہو سکتے کیونکہ درست سیاسی قیادت بھی تب ہی ہوگی جب عوام میں حقیقی و یکساں شعور موجود ہوگا۔بھلا مُلا اور سائنسدان ایک ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ سکتے ہیں کبھی




ٹھیک ھے سیاسی قیادت تب درست ہو گی جب عوام میں شعور موجود ہوگا لیکن میرا سوال یہ ھے کہ نظام تعلیم کو کون بدلے گا ، کیا کوئی مارشل لاء ایڈمنسٹیٹر بدلے گا ؟ یا عوامی حکومت ؟
 

زونی

محفلین
میری رائے یہ ہے کہ تاریخ کے مطابق ہر ملک نے اپنی ہی قومی زبان میں ترقی کی ہے۔ چینی اور جاپانی کو اگر دیکھا جائے تو انگریزی کے مقابلے میں کہیں کمپلکس زبانیں ہونے کے باوجودانکی حکومتوں نے انہیں قومی و سرکاری زبان کا درجہ دیا ہوا ہے اور اسی میں ٹیکنالوجی کے بلند مقام کو چھویا ہے۔ حالانکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انکی حالت ہم سے بھی زیادہ بد تر تھی۔ اسلئے میں اپنے ملک میں شعور کی کمی کی وجہ اسی دو لخت زبانوں کے تصادم کو سمجھتا ہوں۔ میں چاہوں گا کہ حکومت اردو کو اول حیثیت دے اور انگریزی کو ثانوی۔ تمام کتب خواہ انکا تعلق کسی بھی مضمون سے ہو، اردو میں پیش کئے جائیں۔ ہاں بیشک انگریزی انگریزی میں ہی سکھائی جائے





لیکن یہاں پنجاب میں تو نصاب تعلیم انگش میڈیم میں کنورٹ ‌ہو رہا ھے ;)

اپنی زبان کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس وقت جو بنیادی مسئلہ ھے وہ دوہرے تعلیمی معیار کو ختم کرنا ھے بلکہ میں تو کہتی ہوں تیسرا ملاء‌ والا خود ساختہ معیار بھی موجود ھے ،،،،، اس کو بھی اگر فلحال چھوڑا جائے تو اردو اور انگش میڈیم کا بنیادی مسئلہ ھے یعنی انگلش میڈیم سے تعلیم یافتہ اردو میڈیم کو کمتر سمجھتے ہیں یا انگلش میڈیم کو اداروں کے نام پہ اچھی نوکریاں مل جاتی ہیں اور اردو میڈیم والا دائمی احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ھے ، تو اس دوہرے معیار کو ختم کرنے کی ضرورت ھے اور موجودہ صورتحال میں اسے انگلش میڈیم میں کنورٹ‌ کرنا آسان ھے بہ نسبت اردو میڈیم کے ۔
 

arifkarim

معطل
ٹھیک ھے سیاسی قیادت تب درست ہو گی جب عوام میں شعور موجود ہوگا لیکن میرا سوال یہ ھے کہ نظام تعلیم کو کون بدلے گا ، کیا کوئی مارشل لاء ایڈمنسٹیٹر بدلے گا ؟ یا عوامی حکومت ؟

نہ مارشل لاء نہ کوئی ایڈمنسٹریٹر، نہ کوئی عوامی طاقت۔ ہم ہمیشہ سے غیر قوموں کے غلام رہیں ہے۔ اسلئے ہمارے ملک کا نظام اگر کوئی بدل سکتا ہے تو وہ 100 فیصد غیر ملکی ہی ہو گا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ گنتی کے انگریز ہم پر حکومت کرتے رہے۔ گنتی کے نوٹوں کی خاطر ہمارے حکمران فروخت ہوتے رہے۔ ہم صرف "یس سر" کہنے والی قوم ہیں۔ کبھی مغلوں کے آگے، کبھی انگریزوں کے آگے تو کبھی امریکیوں کے آگے!
پہلے اپنی نئی پود کو خود فیصلے کرنا سکھائیں۔ اپنی قوم کی سوچ بدلیں۔ گزارے اور شارٹ کٹس کی بجائے ایک لانگ ٹرم پلین بنائیں۔ خود مختاری ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے۔
یہ سب کام کسی حکومت کا نہیں ہے، بلکہ متفقہ طور پر عوام کا ہے۔ ہمیں اس وقت ایک نئے انقلاب کی ضرورت ہے، نہیں تو ملک کے ٹکڑے ہونے میں بہت کم دن باقی ہیں :nailbiting:
 

زونی

محفلین
نہ مارشل لاء نہ کوئی ایڈمنسٹریٹر، نہ کوئی عوامی طاقت۔ ہم ہمیشہ سے غیر قوموں کے غلام رہیں ہے۔ اسلئے ہمارے ملک کا نظام اگر کوئی بدل سکتا ہے تو وہ 100 فیصد غیر ملکی ہی ہو گا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ گنتی کے انگریز ہم پر حکومت کرتے رہے۔ گنتی کے نوٹوں کی خاطر ہمارے حکمران فروخت ہوتے رہے۔ ہم صرف "یس سر" کہنے والی قوم ہیں۔ کبھی مغلوں کے آگے، کبھی انگریزوں کے آگے تو کبھی امریکیوں کے آگے!




سمجھ گئی ، آپ کا مطلب ھے کہ پہلے انگریزوں کی غلامی کی اور اب امریکہ کے باقاعدہ تشریف لانے کا انتظار کر لیں ، سبحان اللہ! :rolleyes:
 

زونی

محفلین
پہلے اپنی نئی پود کو خود فیصلے کرنا سکھائیں۔ اپنی قوم کی سوچ بدلیں۔ گزارے اور شارٹ کٹس کی بجائے ایک لانگ ٹرم پلین بنائیں۔ خود مختاری ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے۔
یہ سب کام کسی حکومت کا نہیں ہے، بلکہ متفقہ طور پر عوام کا ہے۔ ہمیں اس وقت ایک نئے انقلاب کی ضرورت ہے، نہیں تو ملک کے ٹکڑے ہونے میں بہت کم دن باقی ہیں




مجھے افسوس اس بات کا ھے کہ ہمارے نوجوان اپنی ساری توانائی کیڑے نکالنے ، ملک کو کوسنے ، سسٹم کا رونا رونے میں ہی ضائع کرتے ہیں اور وقت آنے پہ خود ملک سے باہر بھاگ جاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کے بھی صرف دن ہی گنتے ہیں کہ ملک ختم ہونے میں کتنا وقت باقی ھے ، کوئی کہتا ھے پاکستان کا وجود ہی غلط ھے ، کوئی کہتا ھے فیلڈ‌ریاست ھے ، کوئی کہتا ھے اب اس کے درستگی کا کوئی امکان نہیں لیکن عملی طور پہ سب زیرو ہیں ، سب کے سب ، دراصل مسلمانوں کے قول و فعل میں ہی تضاد ھے اور یہی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ھے ، پرانے مسئلے کھود کے بیٹھ جاتے ہیں آگے کوئی نہیں دیکھتا ، بھائی اب ملک کا وجود تو ایک حقیقت ھے ، دنیا نے اسے تسلیم کر لیا ھے اب آگے بھی چلو ، اسکو آہستہ آہستہ سنوارنے کی کوشش کرو ، کوئی تعمیری کام بھی کرو ، اگر پڑھے لکھے ہو تو ملک کو کرائسس سے نکالنے کا طریقہ نکالو ، کچھ تو انویسٹ‌کرو ملک کیلئے لیکن نہیں بس لفاظی لفاظی لفاظی اور بس ختم ۔
 

arifkarim

معطل
سمجھ گئی ، آپ کا مطلب ھے کہ پہلے انگریزوں کی غلامی کی اور اب امریکہ کے باقاعدہ تشریف لانے کا انتظار کر لیں ، سبحان اللہ! :rolleyes:

جی نہیں، میں‌نے صرف اپنی قوم کی سیاسی تاریخ بیان کی ہے۔ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ کونسا نظام بہتر ہے؟ آمریت، جمہوریت، مولویت یا بادشاہت۔ حالانکہ اصل سوچنے کا امر یہ ہے کہ وہ کونسا نظام ہے جسمیں کوئی بھی لیڈر بک نہ سکے۔ ایسا نظام جسمیں لیڈرز اپنی عوام کیساتھ کھرے اور مخلص ہوں۔ اب تاریخ کو دیکھ لیں۔ ہمارے بادشاہ بکے، راجے بکے، ڈکٹیٹر بکے، سیاست دان بکے، مذہبی لیڈر بکے۔ الغرض ان چاروں میں سے کوئی بھی نظام ایسا نہیں ہے جسنے ہماری عوام کیساتھ مخلصی کی ہو۔ ۔۔۔۔ چونکہ ہماری فطرت میں اپنوں سے غداری لکھی ہے اسلئے کوئی غیر ہی آکر یہاں کے مسائل دور کر سکتا ہے۔ شاید ہم ملکر اسکی سن لیں :(
 

arifkarim

معطل
مجھے افسوس اس بات کا ھے کہ ہمارے نوجوان اپنی ساری توانائی کیڑے نکالنے ، ملک کو کوسنے ، سسٹم کا رونا رونے میں ہی ضائع کرتے ہیں اور وقت آنے پہ خود ملک سے باہر بھاگ جاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کے بھی صرف دن ہی گنتے ہیں کہ ملک ختم ہونے میں کتنا وقت باقی ھے ، کوئی کہتا ھے پاکستان کا وجود ہی غلط ھے ، کوئی کہتا ھے فیلڈ‌ریاست ھے ، کوئی کہتا ھے اب اس کے درستگی کا کوئی امکان نہیں لیکن عملی طور پہ سب زیرو ہیں ، سب کے سب ، دراصل مسلمانوں کے قول و فعل میں ہی تضاد ھے اور یہی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ھے ، پرانے مسئلے کھود کے بیٹھ جاتے ہیں آگے کوئی نہیں دیکھتا ، بھائی اب ملک کا وجود تو ایک حقیقت ھے ، دنیا نے اسے تسلیم کر لیا ھے اب آگے بھی چلو ، اسکو آہستہ آہستہ سنوارنے کی کوشش کرو ، کوئی تعمیری کام بھی کرو ، اگر پڑھے لکھے ہو تو ملک کو کرائسس سے نکالنے کا طریقہ نکالو ، کچھ تو انویسٹ‌کرو ملک کیلئے لیکن نہیں بس لفاظی لفاظی لفاظی اور بس ختم ۔

اگر ایک ریاست اپنی نئی پود کو وہ تمام سہولیات فراہم کرے جو اسکی زندگی کیلئے ضروری ہیں، تو کوئی بھی اپنے وطن کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا۔ جب ہمارے جوان اپنی وطن کی خدمت کا عزم لیکر عملی میدان میں نکلتے ہیں تو انکا سامنا کرپشن، بدعنوانی، سفارشات اور سیاسیات سے ہو جاتا ہے جو کہ بالآخرصرف دو آپشنز دیتا ہے: یا تو ملک چھوڑدو یا ساری زندگی یہیں جدو جہد میں گزار دو۔ جو نوجوان اپنی زندگیوں کو جہنم بنانا نہیں چاہتے وہ ہر ممکن کوشش کرکے ملک سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں جبکہ باقی قسمتاً ظلم کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔
میں یہاں اقرار کرتا ہوں کہ اگر آج پاکستانی جوان کو درست طور پر روزگار مہیا کیا جائے تو اس سے زیادہ محنتی اور ٹیلنٹڈ قوم اور کوئی نہیں ہوگی۔
اسوقت پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد ۱ سال سے ۶۴ سال تک کی عمر والے افراد کی ہے جو کہ کل آبادی کا ۹۶ فیصد بنتا ہے! ۱۹۵۸ء سے ہماری آبادی ۵ گنا بڑھ چکی ہے۔ قدرتی وسائل پر دباؤ ، نیز بدحال سیاسی نظام کے باعث ہی ہمارا ملک مسائل کی جانب رواں دواں ہے۔ چین میں جب آبادی تیزی سے بڑھی تو انکی حکومت نے ایک بچہ فی فیملی کی پالیسی اپنائی اور اس پر عمل بھی کروایا۔ اور اسکا پھل وہ لوگ آج کھا رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں تو کسی کے جوں تک نہیں رینگتی۔ جب بھی آبادی پر کنٹرول کی بات کی جائے تو اسلامی جواز پیش کئے جاتے ہیں کہ اپنی اولادوں کو رزق کے خوف سے قتل نہ کرو وغیرہ۔ :battingeyelashes: جبکہ بعد میں اسی اولاد کی خاطر والدین کو انتہائی مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے:eek:
اسلئے میں یہاں اپنے ملک میں‌کیڑے مکوڑے نہیں نکال رہا، بلکہ مختلف ممالک کیساتھ ایک تاریخی موازنہ پیش کر رہا ہوں۔ تاکہ دوسروں پر ایک انگلی اٹھانے سے پہلے اپنی طرف اٹھی تین انگلیاں اوجھل نہ ہو جائیں :cool:
 

arifkarim

معطل
چین کی کامیابی کا راز:
In total, the Chinese government estimates that it has three to four hundred million fewer people in 2008, with the one-child policy, than it would have had otherwise. Chinese authorities thus consider the policy as a great success in helping to implement China's current economic growth
 

ظفری

لائبریرین
جی نہیں، میں‌نے صرف اپنی قوم کی سیاسی تاریخ بیان کی ہے۔ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ کونسا نظام بہتر ہے؟ آمریت، جمہوریت، مولویت یا بادشاہت۔ حالانکہ اصل سوچنے کا امر یہ ہے کہ وہ کونسا نظام ہے جسمیں کوئی بھی لیڈر بک نہ سکے۔ ایسا نظام جسمیں لیڈرز اپنی عوام کیساتھ کھرے اور مخلص ہوں۔ اب تاریخ کو دیکھ لیں۔ ہمارے بادشاہ بکے، راجے بکے، ڈکٹیٹر بکے، سیاست دان بکے، مذہبی لیڈر بکے۔ الغرض ان چاروں میں سے کوئی بھی نظام ایسا نہیں ہے جسنے ہماری عوام کیساتھ مخلصی کی ہو۔ ۔۔۔۔ چونکہ ہماری فطرت میں اپنوں سے غداری لکھی ہے اسلئے کوئی غیر ہی آکر یہاں کے مسائل دور کر سکتا ہے۔ شاید ہم ملکر اسکی سن لیں :(

ریاست کے خدوخال کیا ہونگے یہ تو بہت بعد کی بات ہے عارف ۔۔۔۔ پہلے تو آپ کو یہ سوچنا ہے کہ آپ ریاست کی ذمہ داری کس کو سونپیں گے ۔ جس نظام کی اوپر تم نے جو بات کہی ہے ۔ اس میں صرف ایک جہموریت ہی" نظام " ہے ۔ باقی سب کا تعلق طبقاتی یا ایک فرد کی حکومت سے ہے ۔ یعنی تمہارے پاس موجودہ دور میں تین نظام موجود ہیں ۔ جہموریت ، بادشاہت اور طبقاتی نظام ۔ ان میں سے کونسا نظام بہتر ہے ۔ یہ آپ کو متخب کرنا ہے ۔ آپ کونسا نظام منتخب کرو گے ۔ ؟
 

سارہ خان

محفلین
مجھے افسوس اس بات کا ھے کہ ہمارے نوجوان اپنی ساری توانائی کیڑے نکالنے ، ملک کو کوسنے ، سسٹم کا رونا رونے میں ہی ضائع کرتے ہیں اور وقت آنے پہ خود ملک سے باہر بھاگ جاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کے بھی صرف دن ہی گنتے ہیں کہ ملک ختم ہونے میں کتنا وقت باقی ھے ، کوئی کہتا ھے پاکستان کا وجود ہی غلط ھے ، کوئی کہتا ھے فیلڈ‌ریاست ھے ، کوئی کہتا ھے اب اس کے درستگی کا کوئی امکان نہیں لیکن عملی طور پہ سب زیرو ہیں ، سب کے سب ، دراصل مسلمانوں کے قول و فعل میں ہی تضاد ھے اور یہی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ھے ، پرانے مسئلے کھود کے بیٹھ جاتے ہیں آگے کوئی نہیں دیکھتا ، بھائی اب ملک کا وجود تو ایک حقیقت ھے ، دنیا نے اسے تسلیم کر لیا ھے اب آگے بھی چلو ، اسکو آہستہ آہستہ سنوارنے کی کوشش کرو ، کوئی تعمیری کام بھی کرو ، اگر پڑھے لکھے ہو تو ملک کو کرائسس سے نکالنے کا طریقہ نکالو ، کچھ تو انویسٹ‌کرو ملک کیلئے لیکن نہیں بس لفاظی لفاظی لفاظی اور بس ختم ۔

بالکل صحیح کہا زونی ۔۔ بالکل ایسا ہی ہے ۔۔۔
 

صرف علی

محفلین
میرے خیال سے جب سب تعلیم یافتہ ہوجائے گے تو یہ تمام مشکلات بھی ختم ہوجائے گی کیوں کہ ہماری آدھی سے زیادہ مشکلات تعلیم کا نا ہونا ہے
 

زونی

محفلین
ریاست کے خدوخال کیا ہونگے یہ تو بہت بعد کی بات ہے عارف ۔۔۔۔ پہلے تو آپ کو یہ سوچنا ہے کہ آپ ریاست کی ذمہ داری کس کو سونپیں گے ۔ جس نظام کی اوپر تم نے جو بات کہی ہے ۔ اس میں صرف ایک جہموریت ہی" نظام " ہے ۔ باقی سب کا تعلق طبقاتی یا ایک فرد کی حکومت سے ہے ۔ یعنی تمہارے پاس موجودہ دور میں تین نظام موجود ہیں ۔ جہموریت ، بادشاہت اور طبقاتی نظام ۔ ان میں سے کونسا نظام بہتر ہے ۔ یہ آپ کو متخب کرنا ہے ۔ آپ کونسا نظام منتخب کرو گے ۔ ؟






اس سوال کا جواب اگلے الیکشن تک متوقع ھے

:music:
 

arifkarim

معطل
اس سوال کا جواب اگلے الیکشن تک متوقع ھے

:music:

ایسی بھی کوئی بات نہیں محترمہ!
ظاہر ہے ہر کوئی جمہوری نظام ہی منتخب کرے گا کیونکہ شخصی نظاموں میں‌ عوام کےحقوق مسمار کر دئے جاتے ہیں۔
البتہ جمہوری نظام کی درست قیادت کیلئے عوام کا باشعور ہونا ضروری ہے۔ جسکے لئے ہمیں پہلے اپنی نئی پود تک یکساں تعلیم پہنچانی ہوگی۔
 

زونی

محفلین
جی نہیں، میں‌نے صرف اپنی قوم کی سیاسی تاریخ بیان کی ہے۔ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ کونسا نظام بہتر ہے؟ آمریت، جمہوریت، مولویت یا بادشاہت۔ حالانکہ اصل سوچنے کا امر یہ ہے کہ وہ کونسا نظام ہے جسمیں کوئی بھی لیڈر بک نہ سکے۔ ایسا نظام جسمیں لیڈرز اپنی عوام کیساتھ کھرے اور مخلص ہوں۔ اب تاریخ کو دیکھ لیں۔ ہمارے بادشاہ بکے، راجے بکے، ڈکٹیٹر بکے، سیاست دان بکے، مذہبی لیڈر بکے۔ الغرض ان چاروں میں سے کوئی بھی نظام ایسا نہیں ہے جسنے ہماری عوام کیساتھ مخلصی کی ہو۔ ۔۔۔۔ چونکہ ہماری فطرت میں اپنوں سے غداری لکھی ہے اسلئے کوئی غیر ہی آکر یہاں کے مسائل دور کر سکتا ہے۔ شاید ہم ملکر اسکی سن لیں :(






یعنی آپ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ یہاں کونسا نظام حکومت ہونا چاہیئے جسکا حل آپ نے یہ نکالا ھے کہ باہر سے کوئی آئے گا اور آپ سب کو سیدھی سمت میں ہانکے گا اور آپ ہانکے جائیں گے ، اللہ اللہ خیر سلا ۔
آپ نے صحیح‌ کہا کہ اس قوم کی فطرت غلام ھے ، میں تو کہتی ہوں جس ریاست کے شہریوں کو ساٹھ سال بعد بھی یہ سمجھ نہ آ سکے کہ انہیں کونسا نظام حکومت چاہیئے ، انہیں کس سمت میں جانا ھے، اسے غلام ہی رہنا چاہیئے کیونکہ ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ھے ، ایک طرف آپ نظام تعلیم کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ کوئی ایسا نظام موجود نہیں جو اسوقت کارگر ہو ، تو نظام تعلیم کی بنیاد کیا ہوا میں رکھیں گے ؟ آپ میں سے ہی لوگ ہوں گے ناں جن کی رائے سے صحیح‌نظام کی بنیاد رکھی جائے گی ، یوں کہیئے کہ آپ میں ہی اتنی صلاحیت موجود نہیں ھے کہ کوئی نظام وضع کر سکیں ، تو نظام کا گلا کرنا تو فضول ھے ۔ :rolleyes:
 

زونی

محفلین
ایسی بھی کوئی بات نہیں محترمہ!
ظاہر ہے ہر کوئی جمہوری نظام ہی منتخب کرے گا کیونکہ شخصی نظاموں میں‌ عوام کےحقوق مسمار کر دئے جاتے ہیں۔
البتہ جمہوری نظام کی درست قیادت کیلئے عوام کا باشعور ہونا ضروری ہے۔ جسکے لئے ہمیں پہلے اپنی نئی پود تک یکساں تعلیم پہنچانی ہوگی۔






اور جتنی دیر تک تعلیم نہیں پہچے گی اسوقت تک کیا کریں گے :idontknow:
 

arifkarim

معطل

یعنی آپ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ یہاں کونسا نظام حکومت ہونا چاہیئے جسکا حل آپ نے یہ نکالا ھے کہ باہر سے کوئی آئے گا اور آپ سب کو سیدھی سمت میں ہانکے گا اور آپ ہانکے جائیں گے ، اللہ اللہ خیر سلا ۔ آپ نے صحیح‌ کہا کہ اس قوم کی فطرت غلام ھے ، میں تو کہتی ہوں جس ریاست کے شہریوں کو ساٹھ سال بعد بھی یہ سمجھ نہ آ سکے کہ انہیں کونسا نظام حکومت چاہیئے ، انہیں کس سمت میں جانا ھے، اسے غلام ہی رہنا چاہیئے کیونکہ ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ھے ، ایک طرف آپ نظام تعلیم کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ کوئی ایسا نظام موجود نہیں جو اسوقت کارگر ہو ، تو نظام تعلیم کی بنیاد کیا ہوا میں رکھیں گے ؟ آپ میں سے ہی لوگ ہوں گے ناں جن کی رائے سے صحیح‌نظام کی بنیاد رکھی جائے گی ، یوں کہیئے کہ آپ میں ہی اتنی صلاحیت موجود نہیں ھے کہ کوئی نظام وضع کر سکیں ، تو نظام کا گلا کرنا تو فضول ھے ۔ :rolleyes:

یہی تو معمہ ہے نا کہ ہم میں سے جو کوئی بھی ایک بہتر نظام نافذ کرنے کی خواہش کرتا۔ ہے باقی سب ملکر اسکی ٹانگ کاٹ دیتے ہیں۔ آج ایک طرف طالبان شریعت محمدی کوڈنڈے کے زور پر چلانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف سیکولر جماعتیں تعلیمی نصاب سے اسلامی تعلیم ہی نکال دینے کیلئے بل پاس کروانا چاہتی ہیں۔ ۔۔۔ غلامی والی بات میں نے اسلئے کہی کہ اگر کوئی غیر یہاں آکر کام کرے تو اسے ہم سر پر چڑھا لیں گے لیکن اپنوں کی ہم سنتے ہیں :(
چلیں اگر بالفرض موجودہ پارلیمانی نظام کو ہی بہتر سے بہتر کرنے کے بعد ہم اس قابل ہو جاتے ہیں کہ قوم کے ہر فرد کو یکساں تعلیمی معیارفراہم کر سکیں، اس مقام تک پہنچنے کیلئے ‌ہمیں پہلا قدم کیا اٹھانا ہوگا؟ آپکی رائے کا انتظار ہے۔۔۔۔۔
 
Top