تیرہویں سالگرہ آوازِ دوست کا انٹرویو

آوازِ دوست

محفلین
14۔ آپ کا فیورٹ کھانا کون سا ہے ؟ کیا آپ کھانا خود بھی بناتے ہیں ؟
خوش ذائقہ بنی ہوئی کوئی بھی دال، سبزی یا گوشت خوشدلی سےکھا لیتا ہوں۔ شوربے والا سالن ہو تو اس میں روٹی بھگو کر کھانا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ نمکین روسٹ، سجی اورباربی کیو آئیٹمز بھی پسند ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے اچھا کھانا بنانا آجائےتو اس کے لیے آنے والی سردیوں میں کوشش کا ارادہ ہے۔باقی گھر کی کوکنگ میں جہاں میری ضرورت محسوس ہو میں مدد کے لیے دستیاب رہتا ہوں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
15۔انسان کو معاشرتی دباؤ نے کیا تحفہ دیا ہے؟
احساسِ عدم تحفظ اور مشینی زندگی کی مسابقانہ دوڑ نے انسانی سوچ کے چشمےخشک کر دیے ہیں۔ ہم پیٹ سے سوچنے والے عہدمیں جی رہے ہیں۔زندگی کی اعلیٰ اقدار کے مقابلے میں مادہ پرستی کی پیروی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔معاشرتی عدم مساوات اور لاقانونیت کے دباؤ نے لوگوں کی اکثریت کو اخلاقی سطح پر بونوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ہر شعبہء زندگی میں عوامی خدمت کی ہر اہم سیٹ پر چھوٹے چھوٹے فرعون بیٹھے ہیں جو عوام کو اپنے ہوسِ زر کی بھٹی کا ایندھن بنائے ہوئے ہیں۔اس صورتِ حال کا تحفہ یہی ہو سکتا ہے کہ آج جو بندہ تھوڑی سی نیکی اور بھلائی بھی کرتا ہے تو یہ بڑی بات سمجھی جاتی ہے اور یہ واقعی بڑی بات ہے کیونکہ ایسا کرنا آسان نہیں رہا سو اُمید ہے کہ خُدا کے ہاں بھی تھوڑے کیے کا زیادہ اجر ملے گا۔
 

آوازِ دوست

محفلین
16۔آپ کی کس عادت سے گھر والے اوردوست تنگ ہیں؟
الحمدللہ گھر والوں اور دوستوں کو کبھی کوئی پریشانی نہیں دی۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔بعض اوقات میں محسوس کرتا ہوں کہ میری پرفیکشنسٹ اپروچ یا مثالیت پسندی میری ٹائم مینیجمنٹ کو کمپرومائز کر رہی ہےاسے متوازن رکھنے کے لیے کوشش کرتا رہتا ہوں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
17۔غصے کا اظہار کس طرح کرتے ہیں؟
الحمدللہ میں ایک صلح جوانسان ہوں ۔ غصہ ایک منفی جذبہ ہےسوچاہتا ہوں کہ غصہ بالکل نہ آئے مگر اس میں شائد کافی محنت کی ضرورت ہے کیوں کہ کبھی کبھار ہی سہی پر میں اس کے ہاتھوں خود کو زیر ہوتا دیکھ ہی لیتا ہوں۔میرے چہرے کے تاثرات اور لہجے کی تندی ہی اس کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
18۔خوشی کس طرح مناتے ہیں؟
اللہ کا شکر ادا کرنے سے ہی تسلی ہوتی ہے کہ ہم نے ملنے والی نعمت کی قدر کی ہے اور خوشی کی صحیح سیلیبریشن دوسروں کو خوشی دینےمیں دیکھی ہے ۔
 

آوازِ دوست

محفلین
19۔گھر سے نکلتے وقت کون سی چیز لینا ضروری سمجھتے ہیں؟
بزرگوں کی دعا اور اس بات کی تسلی کہ مجھے راستے میں بلاوجہ رُکنا نہیں پڑے گا۔
 

آوازِ دوست

محفلین
20۔ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا طوفان انسانیت کے لیے کس حد تک مفید ہے ؟
ٹیکنالوجی کا انسانیت کے حق میں مفید استعمال کوئی حدود نہیں رکھتا اور جہاں اس کے ذیلی نقصان دہ اثرات سامنے آئیں وہاں بھی ہمیں اُن کے سدِ باب کے لیے مزید ایڈوانس ٹیکنالوجی کی ہی مدد درکار ہوگی کیونکہ اب اس دوڑ میں سرینڈر کا کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔
 

اکمل زیدی

محفلین
۔۔سر جی ۔۔۔سب پر زبردست کی ریٹنگ قبول کریں ۔۔قسم سے آپ کا ہی دل گردہ ہے جو نہ صرف محترمہ کے سوالوں کا سامنا کیا بلکہ کمال مہارت سے بہترین جوابات دیے۔۔۔ میں تو حامی بھر کر پچھتا رہا ہوں۔۔۔انٹرویو کی ۔ ۔ :unsure:
 

آوازِ دوست

محفلین
۔۔سر جی ۔۔۔سب پر زبردست کی ریٹنگ قبول کریں ۔۔قسم سے آپ کا ہی دل گردہ ہے جو نہ صرف محترمہ کے سوالوں کا سامنا کیا بلکہ کمال مہارت سے بہترین جوابات دیے۔۔۔ میں تو حامی بھر کر پچھتا رہا ہوں۔۔۔انٹرویو کی ۔ ۔ :unsure:
اکمل صاحب آپ کی محبت کا شکریہ۔ ہم سوالوں سے بھی کچھ نہ کچھ سیکھتے ہی ہیں۔رہی آپ کے پچھتانےکی بات تو عقلمند حامی بھر کے ہی پچھتاتے ہیں :)
 

نور وجدان

لائبریرین
۔۔سر جی ۔۔۔سب پر زبردست کی ریٹنگ قبول کریں ۔۔قسم سے آپ کا ہی دل گردہ ہے جو نہ صرف محترمہ کے سوالوں کا سامنا کیا بلکہ کمال مہارت سے بہترین جوابات دیے۔۔۔ میں تو حامی بھر کر پچھتا رہا ہوں۔۔۔انٹرویو کی ۔ ۔ :unsure:
سوالات شخصیت کے مطابق پوچھے جاتے ہیں ...مجھے امید تھی کہ زاہد صاحب بہت اچھے جوابات دیں گے ... انہوں نے دئیے بھی:)) آپ بے فکر رہیے، آپ سے بھی ہلکے پھلے سوالات پوچھے جائیں گے جیسے تابش بھیا اور دیگر محفلین سے پوچھے:):... بہت شکریہ محترم زاہد حسین صاحب ... مشکل سوالات کے جوابات دینے کا ... آپ کے جوابات پڑھ کے کوئی سوال ہوا تو آپ کو زحمت دوں گی :)..باقی کے سوالات مریم بہنا کریں گے ...
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
سوالات شخصیت کے مطابق پوچھے جاتے ہیں ...مجھے امید تھی کہ زاہد صاحب بہت اچھے جوابات دیں گے ... انہوں نے دئیے بھی:)) آپ بے فکر رہیے، آپ سے بھی ہلکے پھلے سوالات پوچھے جائیں گے جیسے تابش بھیا اور دیگر محفلین سے پوچھے:):... بہت شکریہ محترم زاہد حسین صاحب ... مشکل سوالات کے جوابات دینے کا ... آپ کے جوابات پڑھ کے کوئی سوال ہوا تو آپ کو زحمت دوں گی :)..باقی کے سوالات مریم بہنا کریں گے ...
آپ کے سوالات دلچسپ تھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میرے جواب آپ کے معیار پر پورا اترے۔ مزید بھی آپ یا دیگر احباب جو پوچھنا چاہیں گے اپنی سی کوشش ضرور کروں گا۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اب آتے ہیں سلسلہ سوالات کی جانب تو آپ نے کافی مشکل پرچہ ترتیب دیا ہے خیر کوشش کر دیکھتے ہیں اپنی سی :)
آپ کا پہلا سوال
1۔ شعور اس وقت حاصل ہوتا ہے جب ٹھیس پُہنچے ۔ آپ کی زندگی میں ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات جنہوں نے آپ کو ٹھیس پہچائی اور دکھ سے ہمکنار کرتے حقیقتِ حال تک پہنچایا ؟
شعور یا آگہی انسانی شخصیت کا ہمہ جہت مظہر ہے۔ اس کے حصول کا انحصار میری ناقص رائے کے مطابق زندگی کے محض جذباتی رُخ پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ ہماری تربیت، ماحول، فطری رحجانات اور لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ ہمارے تجربات اس کے حصول میں کافی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جذبات کو ہماری زندگی میں زیادہ اہمیت تب حاصل ہوتی ہے جب ہم خود کو بہت کمزور یا بہت طاقتور محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ٹھیس پہنچنے کا تعلق اُمید اور توقعات سے ہے جو لوگ دوسروں سے زیادہ اُمیدیں اور توقعات نہیں باندھتےانہیں کسی جذباتی دھچکے کا امکان اتنا ہی کم ہو جاتا ہے لیکن عمومی انسانی فطرت ہےکہ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا معاملہ کرکے آپ شعوری یا لاشعوری طور پر جواب میں بھلے کی توقع ہی رکھتے ہیں۔ ہم بحثیت ایک نارمل انسان جذبات سے کٹ کر نہیں رہ سکتے کیوں کہ زندگی کی اعلیٰ اقدار انسانوں کے جذباتِ خیر سگالی اور باہمی احترام کی مرہونِ منت ہیں۔ لطیف جذبات کا سرگم اپنے متنوع رنگوں کی رم جھم سے دنیا بھر کے فنونِ لطیفہ کی آبیاری کرتا ہے تاہم جیسا کہ عملی زندگی میں سب اچھا نہیں ہوتا تو سمجھدارانہ اور متوازن طرزِ عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی داخلی دنیا کو عملی زندگی کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیں اور جہاں جہاں ضروری ہو اس مسابقت بھری دوڑ کی دنیا میں اپنا مناسب مقام بنانے کی جدوجہد کریں۔
گو کہ اللہ تعالیٰ نے مناسب عقل عطاکی ہے کہ میں بہت سارےمعاملات کے نتیجہ کا پیشگی اچھا اندازہ لگا لیتا ہوں مگر جہاں جہاں میں نے اپنی غیر ضروری نرم دلی کو عملی زندگی کے تقاضوں پر ترجیح دی وہاں وہاں مجھے اُس کی قیمت کبھی خوش دلی سے، کبھی نیم دلی سے تو کبھی توعا" کرہا" ادا کرنا پڑی۔ بہرحال یہ اللہ کریم کا شکر ہے کہ اُس کی عطا نے کسی قلق کو دل میں ٹکنے نہیں دیا۔ فی زمانہ مروت لحاظ اور بالخصوص اعتماد کی کچھ نہ کچھ قیمت چکانا پڑتی ہےاور ان صفات کا کاروبارِ زندگی میں بس اُتنا ہی استعمال کرنا چاہیے جتنا آپ کی طبیعت یا جیب برداشت کر سکے۔حال ہی میں مکان کی تعمیر کے سلسلے میں درجنوں افراد سے واسطہ رہا اور یہ جان کر تعجب اور افسوس ہوا کہ شائد ہی ان میں سے کوئی پیشہ ورانہ یا کاروباری دیانتداری کے تقاضوں پر پورا اُترتا ہوگا۔
ہم خود اور ہمارے قریبی رشتے یعنی ماں، باپ، بہن، بھائی، شریکِ حیات اور اولاد بھی وقت، مزاج اور زندگی میں آنے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوتے ہیں اور زندگی کے کھیل میں آپ کا کردار کافی مشکل کا شکار ہو سکتا ہے اگر آپ کے یہ چاہنے والے ایک دوسرے کے لیے ایثار اور تواضع کی کشادہ روش چھوڑ کر حقوق اور اختیارات کے تنگ دائروں میں چلنے پر اصرار کریں۔ حساس اور مثالیت پسند لوگوں کے لیے متوازن اور کامیاب زندگی گزارنا ایک کٹھن کام ہے۔ مگر اللہ کریم آسانی دینا چاہے تو ساری مشکلیں ہموار ہو جاتی ہیں :)
آپ نے جتنے نپے تلے انداز سے جواب دیا ، کمال کیا ہے:) یہ سچ بتایا ہے کہ نرم دلی سے ردعمل جو معاشرہ دیتا ہے وہ شعور کو ٹھیس پہنچاتا ہے ... "میں " اور نرم دلی دونوں متضاد ... نرم دلی نے آپ کی بہت مدد کی تو سودزیاں کے احساس کو کیسے مینج کرتے ہیں آخر خسارہ تو سب کے ہاتھ کسی نہ کسی صورت آتا ہے .؟... یہ دُنیا ہے، دنیا اک راستہ دیتی ہے ...اپنا ... نہ چلو تو توازن نہیں رہتا ..اب کس عوامل نے آپ کو اک متوازن شخصیت کے روپ میں ہم سے متعارف کرایا؟
 

نور وجدان

لائبریرین
میں معذرت خواہ ہوں کہ جوابات میں تکلیف دہ حد تک تاخیر ہو رہی ہے۔ بہتری کی پوری کوشش کروں گا۔ آپ کے دوسرے سوال کی طرف آتے ہیں:
2۔ محبت نے زندگی کے نظریات بدلے یا جوں کے توں ہی ہیں ۔ کیا ایک سے زیادہ محبتیں انسان کو ہوسکتیں ہیں؟
یہ محبت جس کی ہم لوگ بات کرتے ہیں آخر چیز کیا ہے۔ میں نے یہ جانا کہ زندگی کو اگر ہم الجبرےکی ایک مساوات سمجھ لیں تو محبت اس میں ایک ایسا متغیر ہےجس کی قیمت ہر انسان اپنے فہم و ادراک اور ضرورت کے تحت طے کرتا ہے۔بنیادی طور پر یہ قیمت اس امر کی نشاندہی کرتی ہےکہ آپ کسی تعلق، چیز یا کام کی خاطر کتنے جوکھن اُٹھا سکتے ہیں۔بوقتِ ضرورت آپ کتنے صحرا و سمندر عبور کر سکتے ہیں اور اپنےمطلوب کے حصول کے لئےاپنے چین و سکون کی کس حد تک قربانی دے سکتے ہیں۔نوزائیدہ بچے کے لیے ماں کی ذات اولین محبت کا منبع ہوتی ہےکیوں کہ وہ بچے کی ضروریات کو پورا کرتی ہےاوراُس کےتحفظ کا خیال رکھتی ہے۔باپ بھی اپنے انداز میں انہی لوازمات کی تکمیل کر کے بچے کی محبت میں شامل ہو جاتا ہے۔پھر چیزیں ،کھلونے، روشنیاں، آوازیں اور نظارے بچے کے تیزی سے ماحول کے بارے میں جاننے کے فطری جذبےکی تسکین و نمو کرتے ہیں سو بچہ ان سے بھی محبت کرنے لگتا ہے۔بچہ سکول ، کالج ، یونیورسٹی یا دیگر معاشرتی و قدرتی ذرائع سےسیکھنے کے اس عمل کو عملی زندگی میں بروئے کار لانےکے مقام تک لے جاتا ہےکہ فطرت سلسلہ افزائشِ نسل کی ترویج کے لیے اُسے نئی ضروریات سے دوچار کردیتی ہےاور "بچہ" ان ضروریات کی تکمیل کے لیے فطری رحجانات کے زیرِاثر کسی نئی محبت کا اسیر ہو جاتا ہے۔یوں ہر "بچہ" زندگی کے اس مدار میں اپنے دورِ حیات کا طبعی چکر پورا کرکے بالاخر ختم ہوجاتا ہے اور اُس کے ساتھ ہی اُس کی ضروریات کی محبتوں کا سلسلہ بھی فنا ہو جاتا ہے۔ ماں باپ کی اولاد سے محبت، لڑکے لڑکیوں کی فلمی محبت، شہرت ، مال و دولت اور اقتدارسے محبت سب بیالوجی اور سائیکالوجی کے میدانِ تصرفات ہیں۔
یہاں تک اگر دیکھیں تو حیوان اور انسان کم و بیش ایک ہی شعوری سطح پر نظر آتے ہیں لیکن انسانی محبتوں کا ایک رُخ ایسا بھی ہےجو دائمیت رکھتا ہے اور اسے وقت اور حوادث فنا نہیں کر سکتے۔ہم اسے آفاقی محبت کہہ سکتے ہیں اور اس کی خصوصیات ضروریات والی محبتوں سے بالکل مختلف بلکہ کافی حد تک متضادنظر آتی ہیں۔یہ ایک الگ سکول آف تھاٹ ہے۔ اس میں لامحدود خواہشوں کے تعاقب میں محدود وسائل کے ساتھ سرگرداں انسان کو از سرِ نو منزل کے تعین کا موقع ملتا ہے۔ انسان کو پتا چلتا ہے کہ وہ ایک بہت بڑے خزانے کا مالک تھامگر وہ اُس سے بے خبر رہا۔وہ اپنے دل کی ٹکسال میں محبت اور احترام کے جتنے سنہری سکے چاہے ڈھال سکتا ہےاور اپنے مقام و مرتبے میں اضافہ کر سکتا ہے۔محبت اور احترام کی یہ طاقت دودھاری تلوار ہےمثبت رُخ پر ہو تو انسان کو دوست، ہمدرد، غمخوار، رازداں، ولی ، قطب، ابدال اور غوث بنا دیتی ہےاورمنفی رُخ پر ہو توشیطان اور مادیت کا پجاری بنا دیتی ہے۔بھلے کی راہ اپنی ذات کی نفی اور دوسروں کے لیے ایثار و محبت کا درس دیتی ہےجبکہ بُرائی اور کم مائیگی کی راہ انسان کی سوچ کو اپنی ذات سے آگےنکلنے ہی نہیں دیتی۔ جتنے بھی اولیا کرام اور نیک لوگ گزرے ہیں اُن کی ذات میں مخلوق سے محبت اور خالق کے احکامات کا احترام جزوِ لازم بنانظر آتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ وہ خالق کی مخلوق کی خدمت اور اُس کی محبوب ہستیوں کے احترام سے ایسے مرجع خواص و عوام ہوئےکہ اُن کے گزر جانے کے صدیوں بعدبھی اُن کی چاہتوں کے دِیے جگمگاتے نظر آتے ہیں۔یہ وہ محبتیں ہیں جو شرمندہ نہیں ہوتیں اور نہ ہی ہونے دیتی ہیں۔بےلوث محبت کی وافر ایکسرسائز شعور کی ترقی میں معاونت کرتی ہےاور اقبال کے الفاظ میں علاجِ تنگیء داماں کا سامان ہے۔
اگر ہم ان خیالات کو چند حروف میں سمونا چاہیں تو بات صرف اتنی ہے کہ انسان زندگی میں کئی محبتیں کرتا ہےعمومی سطح پر یہ محبتیں فقط ہمارے لیے کسی نہ کسی طورپر تسکین کا ذریعہ ہوتی ہیں اور بلند سطح پر یہ محبتیں بے لوث ہوتی ہیں اور دوسروں کی مدد اور آسانی چاہتی ہیں اس میں گرفتار انسان کی پہچان یہ ہے کہ اسے دوسروں کی مشکلیں اور تکالیف دور کرنے سے راحت ملتی ہے۔میں نے سطحی محبتوں کے دشت میں دل کوہر اچھی لگنے والی اور خوبصورت چیز کی طرف مائل دیکھا اور اسی سے مجھے اندازہ ہوا کہ اگر یہی محبت ہےتو اس میں کچھ کمی ضرور ہے۔محبت نے زندگی کے نظریات نہیں بدلے بلکہ زندگی نے محبت کے نظریات کو تبدیل کردیا ہے۔اب تک زندگی محبت سے بڑی رہی اب چاہتا ہوں کہ محبت زندگی سے آگے نکل جائے۔
جو لکھا ... وہ بہت خوب لکھا ہے ... آخری جملوں پر اک تبصرہ

محبت زندگی سے بڑی ہے .. جبکہ آپ کے تجربات بتاتے ہیں زندگی محبت سے بڑی ہے ... واہ زاہد صاحب ... کمااااال:redheart::redheart::redheart: ... سچ ہے کہ زندگی میں انسان ایک سے زائد محبتیں کرتا ہے ... جتنا دل توٹتا جاتا ہے اتنی زندگی بدلتی جاتی ہے ... زندگی بڑی ہوگئی .:redheart::redheart:
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
5۔کیا آپ خود کو حساس لوگوں کی صف میں رکھتے ہیں ۔آپ حساسیت کے بارے کیا سوچ رکھتے ہیں ؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حساسیت کا زیادہ ہونا درست امر نہیں ؟
مجھے اکثر یہ لگتا ہے میں ۔اوور سینسیٹو ہوں اور انسانی المیوں کے گرداب میں پھنسے تیسری دنیا کے ایک غریب اور کرپشن زدہ ملک کاشہری ہونے کے ناطے اپنی اس خامی کی وجہ سےشائد ایک نارمل آدمی سے زیادہ سزا بھگتتا ہوں۔زیادہ حساسیت اپنے تمام تر نقصانات کے باوجود آپ کو تخلیقی اور تعمیری معاملات میں سپورٹ بھی کرتی ہے۔ آپ اس حرارت کو مثبت استعمال میں لا سکیں تو بہت سے لوگوں کی محتاجی ختم ہو جاتی ہے۔ کسی کو مدد کے لیے کہنا آپ کے لیے آخری آپشن بن جاتا ہے۔ آپ مدد کر کے زیادہ خوشی محسوس کر نے لگتے ہیں۔ تاہم عملی زندگی میں اس کے نقصانات بھی کافی ہیں آپ کا رویہ ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی آپ کی طرف ایک قدم چلے تو اُس کی طرف دس قدم چلیں اور کوئی ایک قدم پیچھے ہٹے تو آپ سو قدم دور چلے جائیں۔ آپ بظاہر ذرا سی بات پر آسمان سر پر اٹھا سکتے ہیں سولوگ آپ کو مغرور ،سرکش اور ضدی سمجھنے میں خود کو حق بجانب کہیں گے۔زندگی کا وزن آپ کے لیے دوسروں سے ذرا زیادہ بن جاتا ہے۔ایسے میں آپ مختلف مشکل سیچوئشنز میں اپنے جذباتی طور پر زیادہ سٹیبل دوستوں اور آئیڈیلز (حقیقی یا فرضی)کی مدد بھی لے سکتے ہیں۔جب آپ خود کو کسی بڑی ذمہ داری میں ڈال لیتے ہیں تو بھی یہ سارے معاملات چھوٹےہو جاتے ہیں اور آپ کو آسانی سے متزلزل نہیں کر سکتے۔
اس جواب میں تو حل بھی موجود ہے ....:redheart:
کہتے ہیں دنیا کی سب سے بڑی توانائی جذبات ہیں .:redheart::redheart::redheart:.. یہ جذبات ہی ہوتے ہیں جو بل گیٹس بناتے ہیں تو کہیں بدھا جیسے متلاشی ویرانوں میں بھاگ جاتے ہیں ... تو کچھ ایسے ہوتے ہیں جو احسن التقویم پر فائز ہوتے ہیں ... آپ کے نزدیک جذبات اور یقین میں کیا تعلق ہے ؟
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
7۔یارب چہ چشمہ ایست محبت کہ من از اُو
یک قطرہ آپ خوردم و دریا گریستم۔۔
اے پروردگار، یہ محبت کا چشمہ آخر کیا چیز ہے کہ میں نے اس میں سے صرف ایک قطرہ چکھا اور دریا جتنا رونا پڑا۔۔
آپ اس نظریے کی تائید کرتے ہیں یا اس سے اختلاف اور کیوں؟

میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ محبت اور آنسو اکثر یکجا ہو جاتے ہیں۔آنسو ہماری بیش بہادولت ہیں۔ جب یہ دولت ادنیٰ مقاصد کے لیےخرچ کی جاتی ہے تو یہ عمل ہماری کمزوری اور نادانی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی دولت جب اعلیٰ مقاصد کے لیے خرچ ہوتی ہے تو یہ ہماری طاقت بن جاتی ہے اورہمارے مقام و مرتبے میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ ہمیں جس سے محبت ہو وہ ہماری آنکھوں میں بہت دیرآنسو نہیں دیکھ سکتا تو بس اب جس کو بھی اپنا کرنا ہو اُس سےمحبت کیجئے اور آنسو بہائیے۔
حضرت یعقوب علیہ سلام کی بینائی چلی گئی روتے روتے مگر وہ آپ کے بیٹے وقت مقرر سے پہلے پتھر ہی رہے تھے . کیا آنسوؤں میں کمی تھی یا پتھر بہت سخت تھے ؟ ورنہ آب بھی پڑے پتھر پر مسلسل پڑے تو سوراخ ہوجاتا ہے ... آپ کے آنسوؤں نے کسی پتھر کو موم کیا ...محبوب تو آنسو نہیں دیکھ سکتا نا ...:)
 
آخری تدوین:
Top