تیرہویں سالگرہ آوازِ دوست کا انٹرویو

آوازِ دوست

محفلین
ماشاء اللہ
کیا خوب انٹرویو چل رہا ہے ۔
اردو محفل کے چمن میں جیسے کوئی علم کا چراغ روشن ہو ۔ سوال بھی خوب اور جواب بھی
علم کے موتی لٹائے جا رہے ہیں ۔ آرام سے پڑھتے کچھ حاصل کرنے والی باتیں ہیں ۔
اگر وقت و نیٹ نے اجازت دی تو کچھ پوچھ میں بھی علم پانے کی کوشش کروں گا ۔
بہت دعائیں
آپ کی اس گپ شپ میں شامل ہونے کی بہت خوشی ہوئی ہے۔ میں تو خودآپ کے عقیدت مندوں میں سے ہوں۔ یہ علم پانے والی بات کرکے گھڑوں پانی ڈال دیا آپ نے۔
 

نایاب

لائبریرین
آپ کی اس گپ شپ میں شامل ہونے کی بہت خوشی ہوئی ہے۔ میں تو خودآپ کے عقیدت مندوں میں سے ہوں۔ یہ علم پانے والی بات کرکے گھڑوں پانی ڈال دیا آپ نے۔
سدا خوش ہنستے مسکراتے رہیں
ذرا وقت ملے تو عقیدت کو ہلکا کرنے کی سعی کرتا ہوں ۔
سچے علیم نے علم کی تقسیم ایسے ہی جاری کی ہوئی ہے ۔ کوئی کھوج میں مبتلا اپنے دل کو جلا سر بام رکھ دیتا ہے ۔ اور راہی راہ پالیتے ہیں ۔ اللہ سوہنا آپ کے علم و عمل میں برکت فرمائے آمین
بہت دعائیں
 

آوازِ دوست

محفلین
7) انتہائی قنوطیت کے وقت کیا کرتے ہیں؟
ٹی وی ،اخبارات و دیگر ذرائع سے سامنے آنے والی پریشان کن خبروں کےاپنے مزاج میں برپاکرنے والےتغیر سے تو کبھی کبھی یہ لگتا ہےکہ قنوطیت نے ایک مستقل کیفیت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ایسے موقعوں پر استغفار پڑھ کریا ذہن کو مطالعے میں یا گھر کی کسی ایکٹیویٹی میں مصروف کرکےپر سکون کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔کسی اپنے پرائے کی پریشانی یا نقصان پر بہت بےچین ہو جاؤں تو خُدا سے التجا کرتا ہوں کہ وہ میری ناقص فہم کو اپنے بے نیازانہ فیصلوں کی تفہیم کے قابل کردے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو مجھے بھی تھوڑی بے نیازی عنایت کر دے تاکہ میں تکلیف دہ سوچوں کی اذیت سے راحت پاؤں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
میں سمجھا مختار مسعود سے متاثر ہوکر رکھا۔
محمد احمد بھائی نے آوازِدوست بائی مختار مسعود کی پی ڈی ایف کاپی بھیجی تو یقین کیجئے اتنا ہی متاثر ہوا کہ اگر پہلے یہ کتاب پڑھی ہوتی تو عین ممکن تھا کہ یہ نِک منتخب کرنے کی یہی وجہ ہوتی۔قدرت اللہ شہاب کے بعد یہ پاکستانی بیوروکریسی کا دوسرا مصنف ہے جس کی تحریر نے اتنا متاثر کیا۔ ساتھ ہی یہ احساسِ زیاں بھی ہوا کہ بیوروکریسی کا جن کیسے کیسے قدآوروں کو نگل گیا۔
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
اگر آپ کو وقت میں جانا پڑے تو پیچھے جائیں گے یا آگے اور کیوں؟
میں دونوں جانب ہی جانا چاہوں گا لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر میں آگےجانے کو ترجیح دوں گا۔ اس کی وجہ بہت سادہ سی ہے کہ ہسٹری کی مدد سے گزرے ہوئے وقت کا تو کچھ نہ کچھ آئیڈیا ہمیں ہوتا ہی ہے البتہ آنے والا وقت تیز رفتار سائنسی ترقی کی وجہ سے کافی غیر واضع محسوس ہوتا ہے۔ کوئی ایک اہم دریافت کوئی ایک اچھوتی ایجاد ہماری زندگی کے روزِ مرہ کو بدل کے رکھ سکتی ہے۔ چشمِ فلک نے جو بھلائیاں ابھی دیکھنی ہیں ، چاہوں گا کہ میں بھی اُن کا شاہد بنوں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
9) تاریخ کا کون سا ایک واقعہ نہ ہوتا تو ہم بحثیت قوم قدرے بہتر انداز میں جی رہے ہوتے؟
بہت سی باتیں یا بہت سے کاش ذہن میں آتے ہیں جیسا کہ:
کاش !!!ریڈ کلف تقسیمِ ہندوستان میں جانبداری اور بد دیانتی کا مظاہرہ نہ کرتا۔
کاش!!!تقسیم ِ ہندوستان میں بے گناہ مردوں ، عورتوں اور بچوں کے ساتھ انسانیت سوز واقعات پیش نہ آتے جنہیں پڑھ کر یا سُن کر آج بھی روح کانپ اُٹھتی ہے۔
کاش!!!قائدِاعظم کو زندگی کچھ اور مہلت دے دیتی تو 71 برس بعد بھی ڈگمگاتی ہوئی یہ ناؤ شائدسنبھل ہی جاتی۔
کاش !!!جب اتنی قربانیوں اور کاوشوں کے بعدیہ وطن بن ہی گیا تھاتو اپنے حلف سے غداری کرکےپاکستانی آئین وقانون کو بوٹ کی نوک پر رکھ کر ہماری قومی تاریخ کو داغدار کرنے والا ایوب خان قوم پر مسلط نہ ہوتا۔
کاش!!! وطنِ عزیز میں عدل و انصاف طاقتور کے ہاتھوں موم کی ناک ثابت نہ ہوتا اور ہم یکے بعد دیگرے سیاسی و فوجی آمریتوں کے تاریک اور احتساب فراموش کردہ سلسلے کا سامنا نہ کرتے۔ اگر کسی ایک فیکٹر کو ہی فیصلہ کن قرار دینا ہو تو یہ آخری فیکٹر ہی سب سے اہم ہے ۔ کہتے ہیں کہ کفر پر مبنی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم پر مبنی معاشرہ نہیں چل سکتا۔انصاف اور قانون کی سربلندی آکسیجن جتنی ہی ضروری ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
10) اپنی زندگی کا نچوڑ ہمیں چند الفاظ میں بتائیے نیز یہ بھی کہ وقت کا صحیح استعمال کرنے کے لیے کیا طریقہ اپنایا جائے جس پر قائم رہا جا سکے.
ایک جیسی ذہنی سطح پر بھی بھرے پیٹ کا فلسفہ خالی پیٹ کے فلسفے سے مختلف ہوتاہے۔ بھوک کی شدت کسی طرح کی بھی ہو یہ ہمیں تہذیب اور شعور کے اعلیٰ درجوں سے نیچے گراتی ہے۔ایثار اور برداشت والی محبت شائد واحد چیز ہے جوآپ کی زندگی کے ہر پہلو کی کفایت کر سکتی ہے۔وقت کے صحیح استعمال کے لیے خود کو اپنے بچے یا طالبعلم کی جگہ پر رکھ لیں اور پھر تماشا دیکھیں۔اس آسان سے ٹرِک سے آپ کا مکمل کنٹرول آپ کے پاس آ جائے گا۔ باقی اس پر قائم رہنا آپ کا اپنا اختیار ہے کیوں کہ خود کو ریلیکس کرنے اور اس لوپ سے باہر لانے کے لیے پھر آپ کو یہ شعر بھی یاد آ سکتا ہے :
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل بھی ۔ ۔ ۔ ۔لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
:)
 

آوازِ دوست

محفلین
12) اگر آپ کے پاس اپنے رہائش کے شہر اور ملک کے انتخاب کا اختیار ہوتا تو آپ کہاں رہتے؟
پیدائشی خطے سے محبت کا فطری جذبہ اپنی جگہ مگر ساری دنیا اپنا گھر ہی محسوس ہوتی ہے سو کہیں بھی بخوشی رہ سکتا ہوں جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور سہولیاتِ صحت ، تعلیم، خوراک جیسی بنیادی ضروریات آسانی سے میسر ہوں ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت سی باتیں یا بہت سے کاش ذہن میں آتے ہیں جیسا کہ:
کاش !!!ریڈ کلف تقسیمِ ہندوستان میں جانبداری اور بد دیانتی کا مظاہرہ نہ کرتا۔
کاش!!!تقسیم ِ ہندوستان میں بے گناہ مردوں ، عورتوں اور بچوں کے ساتھ انسانیت سوز واقعات پیش نہ آتے جنہیں پڑھ کر یا سُن کر آج بھی روح کانپ اُٹھتی ہے۔
کاش!!!قائدِاعظم کو زندگی کچھ اور مہلت دے دیتی تو 71 برس بعد بھی ڈگمگاتی ہوئی یہ ناؤ شائدسنبھل ہی جاتی۔
کاش !!!جب اتنی قربانیوں اور کاوشوں کے بعدیہ وطن بن ہی گیا تھاتو اپنے حلف سے غداری کرکےپاکستانی آئین وقانون کو بوٹ کی نوک پر رکھ کر ہماری قومی تاریخ کو داغدار کرنے والا ایوب خان قوم پر مسلط نہ ہوتا۔
کاش!!! وطنِ عزیز میں عدل و انصاف طاقتور کے ہاتھوں موم کی ناک ثابت نہ ہوتا اور ہم یکے بعد دیگرے سیاسی و فوجی آمریتوں کے تاریک اور احتساب فراموش کردہ سلسلے کا سامنا نہ کرتے۔ اگر کسی ایک فیکٹر کو ہی فیصلہ کن قرار دینا ہو تو یہ آخری فیکٹر ہی سب سے اہم ہے ۔ کہتے ہیں کہ کفر پر مبنی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم پر مبنی معاشرہ نہیں چل سکتا۔انصاف اور قانون کی سربلندی آکسیجن جتنی ہی ضروری ہے۔
اس کاش میں چھپے دکھ کو محسوس کرسکتی ہوں مگر اس کی نوبت نہ آتی اگر بروقت اقدامات کرلیے جات.. ہمارے قائد کافی تھک چکے تھے اس وجہ سے وہ جانتے تھے فیروز پور اور دیگر تحاصیل کشمیر کے لیے اک اوپن گیٹ وے ہے. اس کے بجائے انہوں نے مجاہدین پر بھروسہ کیا. پاکستان کو ڈائلاگ کے ذریعے حاصل کرنے کے بعد ہم نے کشمیر کو تلوار سے حاصل کرنا چاہا .. اک بھی اچھا رہنما قائد کے بعد میسر آجاتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا جو ہوتا آیا. آپ کے جذبات جان کے خوشی ہوئی .. آپ بلاشک اک اچھی شخصیت ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
وہ بات عجیب لگتی ہے جس کی حقیقت کا آپ کا علم نہ ہو ... سواری والی بات تب تک فسانہ ہے جب تک اسکا تجربہ نہ ہو مگر سواری کے تصور کی سمجھ آگئی ہے. اپنے تجربات یہی کہتے ہیں تمام عالم کا گزر درون سے ہوتا ہے جہاں کا تصور بذات خود نئی دنیا کو روشناس کراتا ہے .

. آپ خود کو دس سال بعد کہاں دیکھتے ہیں؟
آپ.کی زندگی کا.سب سے بڑا مقصد کیا.ہے؟
آپ اگر امام غزالی سے ملتے تو کیا حاصل کرتے؟
آپ ملتان کی کون کون سی جگہیں پسند کرتے ہیں؟
ایسی کون سی مووی ہے جس کو بار بار دیکھنا چاہیں گے؟
آپ کے ارادے ٹوٹ جاتے ہیں تو کیا ردعمل ہوتا ہے؟
آپ مصلحتا جھوٹ بولتے ہیں اور کیا یہ درست عمل ہے؟
اگر آپ ملتان کے کمشنر ہوتے تو پہلا کام کیا کرتے؟
بھول مت جائیے گا:)
 

آوازِ دوست

محفلین
اس کاش میں چھپے دکھ کو محسوس کرسکتی ہوں مگر اس کی نوبت نہ آتی اگر بروقت اقدامات کرلیے جات.. ہمارے قائد کافی تھک چکے تھے اس وجہ سے وہ جانتے تھے فیروز پور اور دیگر تحاصیل کشمیر کے لیے اک اوپن گیٹ وے ہے. اس کے بجائے انہوں نے مجاہدین پر بھروسہ کیا. پاکستان کو ڈائلاگ کے ذریعے حاصل کرنے کے بعد ہم نے کشمیر کو تلوار سے حاصل کرنا چاہا .. اک بھی اچھا رہنما قائد کے بعد میسر آجاتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا جو ہوتا آیا. آپ کے جذبات جان کے خوشی ہوئی .. آپ بلاشک اک اچھی شخصیت ہیں
پاکستانی تاریخ کی جو ایک آدھ کتاب میں نے پڑھی ہے اُس کےمطابق اگر میں بھول نہیں رہا توہندوستان نے پہلے اپنی فوج متحرک کی تھی اور قائدِ اعظم کی خواہش کے برعکس انگریز پاکستانی آرمی چیف نے جوابی کاروائی سے گریز کیا اور کشمیر پر ہندو تسلط کی راہ ہموار کی۔ جہاں تک ڈائیلاگ کی بات ہے انگریز سرکاراور ہندوسرکار دونوں کی ذہنیت سامنے رکھیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ طاقتور اور کم ظرف دشمن کا سامنا ہو تو ڈائیلاگ کی وقعت کے طور پرشیر اور میمنے کی کہانی ہی رہ جاتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس معاملے میں اقوامِ عالم کی طرف سے عمومی اور ملتِ مسلمہ کی طرف سے خصوصی طور پر جس طرح کا اخلاقی دباؤ انڈیا پر بنانا چاہیے تھا وہ اپنی نا اہلیوں کی وجہ سے نہیں بنا پائے۔ ہماری حالیہ سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اقوامِ متحدہ میں بھارتی مظالم کی نشاندہی اور پیلیٹ گن کے بیہیمانہ استعمال کےمتاثرین دکھانے کے لیے سینکڑوں زخمیوں کو چھوڑ کر جس زخمی لڑکی کی تصویر پیش کی جاتی ہے پتا چلتا ہے کہ اُس کا کشمیر سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے غالبا" وہ فلسطینی تھی۔ کوئی ناکامی سی ناکامی ہے۔
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
آپ خود کو دس سال بعد کہاں دیکھتے ہیں؟
اُمید کی جا سکتی ہے کہ اگر زندگی نے وفا کی تو علمی سطح پر جو تشنگیاں باقی ہیں کسی نہ کسی حد تک اُنہیں مٹا پاؤں گا۔میرا ایک خواب یہ بھی ہے کہ انسان کی روحانی زندگی کو نہ صرف یہ کہ خود بطریقِ احسن سمجھ سکوں بلکہ اس کو غیر مبہم ، سائینٹیفک اور قابلِ تصدیق طریقے سے واضح کر سکوں تاکہ ہر طلب رکھنے والا انسان نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے کے آزار سے بچ سکے اور کم وقت میں زیادہ اچھے نتائج حاصل کرنے کے قابل ہو۔اس میں بھی ہر دور کی علمی سرحدیں واضح ہوں اور آنے والی نسلوں کو با آسانی پتاہو کہ اُن کی نئی منازل کا سفر کہاں سے شروع ہوگااور وہ بخوبی جان سکیں کہ اُنہوں نے پہلے سے معلوم علم میں کیا نیا اضافہ کیا ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
آپ ملتان کی کون کون سی جگہیں پسند کرتے ہیں؟
بچپن میں ریلوے ٹریک پر میلوں پیدل چلنے کی عادت تھی توچلتے چلتے نوبہار نہر کے کنارے بیٹھ کر کچھ دیر بہتے ہوئے پانی کی اچھل کود کا نظارہ کرتا تھا،مزاروں سے شناسائی ہوئی تووہاں بھی کبھی کبھار جانے کا سلسلہ بنا۔قدیم طرزِ تعمیر اور اُس کا شاہانہ پن صاحبِ مزار کی نورانی ہیبت میں جس طرح شامل ہوتا اُسے محسوس کرتا،نگارخانے کے فن پاروں میں مقید آرائش و جمال کی انسانی کاوشوں سے لطف اندوز ہونا کبھی کبھی وہاں لے جاتا ۔دمدمے کی بلندی سے دور دور تک بسی بستیوں کا منظر دیکھنا۔سرسبز کھیت، درخت خواہ سر سبز ہوں خواہ ٹنڈ منڈ، نہروں، نالوں میں بہتا صاف پانی، نیلگوں آسماں، صاف اور سبک رو ہوا، فضا میں تیرتےچہچہاتےپرندے یہ سب الگ الگ ہوں یا کسی بھی کمبی نیشن میں ہوں جہاں بھی ہوں وہ جگہ اچھی لگتی ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
ایسی کون سی مووی ہے جس کو بار بار دیکھنا چاہیں گے؟
لائف از شارٹ اینڈ آرٹ از لانگ جیسی کہاوتوں کے تناظر میں دیکھی ہوئی فلم کو دوبارہ دیکھنا خاصا دل گردے کا کام محسوس ہوتا ہے اور بار بار دیکھنا تو محال سی بات ہےتاہم دلچسپی کے اعتبار سے انگلش فکشن موویز میں "انٹر سٹیلر"، تاریخ کے حوالے سے ایران کی سیریز "سفیرِحسین"اور انڈین پنجابی فلموں میں دیہی کلچر کے حوالےسے "انگریج" ایسی ہیں جن کا دوبارہ دیکھنا بھی گوارا کیا جا سکتا ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
آپ کے ارادے ٹوٹ جاتے ہیں تو کیا ردعمل ہوتا ہے؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول یاد آ جاتا ہے کہ میں نے اپنے خدا کو اپنے ارادوں کی شکست سے پہچانا ۔ اُن کے قول میں تو اُن کے ارادوں کے استحکام کی قوت جھلکتی ہے جبکہ ہم جیسے خود کمزور و بے بس ویسے ہی ہمارے کچھ ارادے ناپائیدارثابت ہوتے ہیں۔
 
Top