تیرہویں سالگرہ آوازِ دوست کا انٹرویو

نور وجدان

لائبریرین
السلام علیکم! میں ہوں آپ کی میزبان نور سعدیہ اور میرے ساتھ ہیں محمد ظہیر، مریم افتخار، فہد اشرف اور حمیرا عدنان. یہ تو آپ سب کو معلوم ہے کہ اُردو زَبان کی کشش ایسے محفلین کو یہاں پر کھینچ لاتی ہے جیسے شہد کے چھتے پر مکھیاں ۔ اس کثیر رنگ برنگی محفل کی حیثیت اس چوپال کی سی ہے جہاں پر سب کے اپنے اپنے رنگ انہیں ممتاز کرتے ہیں اور یوں ہر محفلین کی اپنی اہمیت مسلم ہے ۔ آپ سب میں ایک ایسی ہی شخصیت موجود ہے جن کی شخصیت کی رنگا رنگی دلوں کو موہ لیتے ہوئے تارِ ہستی کے سُر بکھیر دیتی ہے ۔ یہ محفل میں قدرے خاموش سے رہتے ہیں مگر جب بولتے ہیں تو لگتا ہے کہ زاہد صاحب ہی ایسی مدبرانہ اور مشفقانہ گفتگو کرسکتے ہیں ۔ ان کی تحریر ظرافت کا رنگ لیے ہوئے ہوتی ہے مگر باوجود اسکے ان کے الفاظ موتیوں کی طرح ہوتے ہیں جن میں کہیں بھی ہلکا پن نہیں ہوتا ہے ۔ زندگی کے بارے خاص مقصد رکھتے ہوئے منزل کے متمنی بھی ہیں ۔ ان کا مزاج دھیما ، اطوار میں شائستگی ، لہجہ معلمانہ اور انداز میں ادب نمایاں ہے ۔

زاہد حسین ملتان کی پیدائش ہیں ۔ ملتان جسکو ولیوں ، صوفیوں کا شہر کہا جاتا ہے ۔ ان کی طبیعت پر اسکا بھی گہرا اثر محسوس ہوتا ہے ۔نیٹ گردی میں ایسی یگانہ ہستیوں سے گفت و شنید آپ کو ششدر کیے دیتی ہے کہ نیٹ نہ ہوتا ، تو کیا ان سے مل سکتے ؟ اردو محفل نہ ہوتی تو کیسے ہم سب اک چھت تلے اکٹھے ہوتے ۔ ان کی اردو بہت ثقیل اور گاڑھی ہے ۔ اس ثقالت کے باوجود الفاظ کی مالا ایسے پروتے ہیں کہ ہر لفظ ابلاغ کا حق ادا کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کی مثال ایسی ہے بقول شاعر

سوچتے اور جاگتے سانسوں کا اک دریا ہوں میں
اپنے گم گشتہ کناروں کیلئے بہتا ہوں میں۔۔۔

آپ سب کی بھرپور تالیوں میں ہم زاہد حسین کو اسٹیج پر مدعو کرتے ہیں ۔۔زاہد صاحب محفلین و حاضرین آپ کو جاننے کے متمنی ہیں ۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
یہ سوالات مری جانب سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،


1۔ شعور اس وقت حاصل ہوتا ہے جب ٹھیس پُہنچے ۔ آپ کی زندگی میں ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات جنہوں نے آپ کو ٹھیس پہچائی اور دکھ سے ہمکنار کرتے حقیقتِ حال تک پہنچایا ؟
2۔ محبت نے زندگی کے نظریات بدلے یا جوں کے توں ہی ہیں ۔ کیا ایک سے زیادہ محبتیں انسان کو ہوسکتیں ہیں؟
3۔ لوگ کہتے ہیں زندگی کھانے ، پینے اور سونے کے لیے ہے ۔ آپ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟
4۔آپ کی ایجوکیشن اور انسٹیوٹ؟آپ کی ڈیٹ آف برتھ اور اسٹار؟
5 ۔کیا آپ خود کو حساس لوگوں کی صف میں رکھتے ہیں ۔آپ حساسیت کے بارے کیا سوچ رکھتے ہیں ؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حساسیت کا زیادہ ہونا درست امر نہیں ؟
6۔کسی سے پہلی ملاقات میں اس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے کس چیز کو اہمیت دیتے ہیں؟

7۔یارب چہ چشمہ ایست محبت کہ من از اُو
یک قطرہ آپ خوردم و دریا گریستم۔۔
اے پروردگار، یہ محبت کا چشمہ آخر کیا چیز ہے کہ میں نے اس میں سے صرف ایک قطرہ چکھا اور دریا جتنا رونا پڑا۔۔
آپ اس نظریے کی تائید کرتے ہیں یا اس سے اختلاف اور کیوں؟
8۔ زندگی کی کوئی ایسی ہستی جس نے بچپن سے لے کر اب تک آپ کو متاثر کیا اتنا کہ آپ اب جو ہیں انہی کی بدولت ہیں ؟
9۔ آپ کا نک آوازِ دوست ہے ، اس کے رکھنے کی کیا وجہ ہے ؟ آپ کا یہ نک نیم آپ کی زندگی پر کیسے اثر انداز ہوا ؟
10۔بچپن میں کونسی اور کیسی سوچ اکثر آپ کو اسیر کیے رکھتی تھی ؟ کیا جو آپ نے بچپن میں سوچا اسے مستقبل میں حاصل کر پائے ۔؟
11۔ آپ کے نزدیک لکھنا کتھارسس سے زیادہ کوئی اور شے ہے یا بس اک کتھارسس ہے ؟
12۔ آپ کے پاس تخییل اعلی ہے ، نثر بھی اچھی ہے تو لکھتے کیوں نہیں ہیں ؟
13۔ شعورِ ذات فسانہ ہے ؟ انسان کا شعور سارا لاشعور حرکات کا ردعمل ہے ؟ آپ کیا کہتے ہیں
14۔ آپ کا فیورٹ کھانا کون سا ہے ؟ کیا آپ کھانا خود بھی بناتے ہیں ؟
15۔انسان کو معاشرتی دباؤ نے کیا تحفہ دیا ہے؟
16۔آپ کی کس عادت سے گھر والے اوردوست تنگ ہیں؟
17۔غصے کا اظہار کس طرح کرتے ہیں؟
18۔خوشی کس طرح مناتے ہیں؟
19۔گھر سے نکلتے وقت کون سی چیز لینا ضروری سمجھتے ہیں؟
20۔ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا طوفان انسانیت کے لیے کس حد تک مفید ہے ؟
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
السلام علیکم! میں ہوں آپ کی میزبان نور سعدیہ اور میرے ساتھ ہیں محمد ظہیر، مریم افتخار، فہد اشرف اور حمیرا عدنان. یہ تو آپ سب کو معلوم ہے کہ اُردو زَبان کی کشش ایسے محفلین کو یہاں پر کھینچ لاتی ہے جیسے شہد کے چھتے پر مکھیاں ۔ اس کثیر رنگ برنگی محفل کی حیثیت اس چوپال کی سی ہے جہاں پر سب کے اپنے اپنے رنگ انہیں ممتاز کرتے ہیں اور یوں ہر محفلین کی اپنی اہمیت مسلم ہے ۔ آپ سب میں ایک ایسی ہی شخصیت موجود ہے جن کی شخصیت کی رنگا رنگی دلوں کو موہ لیتے ہوئے تارِ ہستی کے سُر بکھیر دیتی ہے ۔ یہ محفل میں قدرے خاموش سے رہتے ہیں مگر جب بولتے ہیں تو لگتا ہے کہ زاہد صاحب ہی ایسے مدبرانہ اور مشفقانہ گفتگو کرسکتے ہیں ۔ ان کی تحریر ظرافت کا رنگ لیے ہوئے ہوتی ہے مگر باوجود اسکے ان کے الفاظ موتیوں کی طرح ہوتے ہیں جن میں کہیں بھی ہلکا پن نہیں ہوتا ہے ۔ زندگی کے بارے خاص مقصد رکھتے ہوئے منزل کے متمنی بھی ہیں ۔ ان کا مزاج دھیما ، اطوار میں شائستگی ، لہجہ معلمانہ اور انداز میں ادب نمایاں ہے ۔

زاہد حسین ملتان کی پیدائش ہیں ۔ ملتان جسکو ولیوں ، صوفیوں کا شہر کہا جاتا ہے ۔ ان کی طبیعت پر اسکا بھی گہرا اثر محسوس ہوتا ہے ۔نیٹ گردی میں ایسی یگانہ ہستیوں سے گفت و شنید آپ کو ششدر کیے دیتی ہے کہ نیٹ نہ ہوتا ، تو کیا ان سے مل سکتے ؟ اردو محفل نہ ہوتی تو کیسے ہم سب اک چھت تلے اکٹھے ہوتے ۔ ان کی اردو بہت ثقیل اور گاڑھی ہے ۔ اس ثقالت کے باوجود الفاظ کی مالا ایسے پروتے ہیں کہ ہر لفظ ابلاغ کا حق ادا کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کی مثال ایسی ہے بقول شاعر

سوچتے اور جاگتے سانسوں کا اک دریا ہوں میں
اپنے گم گشتہ کناروں کیلئے بہتا ہوں میں۔۔۔

آپ سب کی بھرپور تالیوں میں ہم زاہد حسین کو اسٹیج پر مدعو کرتے ہیں ۔۔زاہد صاحب محفلین و حاضرین آپ کو جاننے کے متمنی ہیں ۔
وعلیکم السلام !!! میں سعدیہ و دیگر منتظمین کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس عزت افزائی کے قابل سمجھا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ میں محض ایک معمولی طالب علم ہوں اور اس تعریف کا مستحق نہیں ہوں۔ اردو ویب کافی کشادہ فورم ہے اور یہاں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن سے ہم کسی نہ کسی طور سیکھتے ہیں۔ ہم سب خاکی خوبیوں اورخطاؤں کا مجموعہ ہیں۔ میری ذات میں موجود خوبیاں اگر کچھ ہیں تو مجھے بلا مشقت ملی ہیں اور مجھے ان کے لیے کوئی خاص تردد نہیں کرنا پڑا اور میری خامیوں کی اکثریت بھی شائد اسی بے تکانی ہی کا نتیجہ ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ کے سوالات کا آپ کی نیک گمانی کے مطابق جواب دے سکوں۔ جواب دینے کے لیے امید ہے کہ کمرہ امتحان کی طرح یہاں مجھے وقت کی کمی کا گلہ نہیں کرنا پڑے گا۔ آپ کی محبتوں کے لیے ایک بار پھر آپ اراکین محفل کابہت بہت شکریہ :)
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
اب آتے ہیں سلسلہ سوالات کی جانب تو آپ نے کافی مشکل پرچہ ترتیب دیا ہے خیر کوشش کر دیکھتے ہیں اپنی سی :)
آپ کا پہلا سوال
1۔ شعور اس وقت حاصل ہوتا ہے جب ٹھیس پُہنچے ۔ آپ کی زندگی میں ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات جنہوں نے آپ کو ٹھیس پہچائی اور دکھ سے ہمکنار کرتے حقیقتِ حال تک پہنچایا ؟
شعور یا آگہی انسانی شخصیت کا ہمہ جہت مظہر ہے۔ اس کے حصول کا انحصار میری ناقص رائے کے مطابق زندگی کے محض جذباتی رُخ پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ ہماری تربیت، ماحول، فطری رحجانات اور لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ ہمارے تجربات اس کے حصول میں کافی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جذبات کو ہماری زندگی میں زیادہ اہمیت تب حاصل ہوتی ہے جب ہم خود کو بہت کمزور یا بہت طاقتور محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ٹھیس پہنچنے کا تعلق اُمید اور توقعات سے ہے جو لوگ دوسروں سے زیادہ اُمیدیں اور توقعات نہیں باندھتےانہیں کسی جذباتی دھچکے کا امکان اتنا ہی کم ہو جاتا ہے لیکن عمومی انسانی فطرت ہےکہ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا معاملہ کرکے آپ شعوری یا لاشعوری طور پر جواب میں بھلے کی توقع ہی رکھتے ہیں۔ ہم بحثیت ایک نارمل انسان جذبات سے کٹ کر نہیں رہ سکتے کیوں کہ زندگی کی اعلیٰ اقدار انسانوں کے جذباتِ خیر سگالی اور باہمی احترام کی مرہونِ منت ہیں۔ لطیف جذبات کا سرگم اپنے متنوع رنگوں کی رم جھم سے دنیا بھر کے فنونِ لطیفہ کی آبیاری کرتا ہے تاہم جیسا کہ عملی زندگی میں سب اچھا نہیں ہوتا تو سمجھدارانہ اور متوازن طرزِ عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی داخلی دنیا کو عملی زندگی کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیں اور جہاں جہاں ضروری ہو اس مسابقت بھری دوڑ کی دنیا میں اپنا مناسب مقام بنانے کی جدوجہد کریں۔
گو کہ اللہ تعالیٰ نے مناسب عقل عطاکی ہے کہ میں بہت سارےمعاملات کے نتیجہ کا پیشگی اچھا اندازہ لگا لیتا ہوں مگر جہاں جہاں میں نے اپنی غیر ضروری نرم دلی کو عملی زندگی کے تقاضوں پر ترجیح دی وہاں وہاں مجھے اُس کی قیمت کبھی خوش دلی سے، کبھی نیم دلی سے تو کبھی توعا" کرہا" ادا کرنا پڑی۔ بہرحال یہ اللہ کریم کا شکر ہے کہ اُس کی عطا نے کسی قلق کو دل میں ٹکنے نہیں دیا۔ فی زمانہ مروت لحاظ اور بالخصوص اعتماد کی کچھ نہ کچھ قیمت چکانا پڑتی ہےاور ان صفات کا کاروبارِ زندگی میں بس اُتنا ہی استعمال کرنا چاہیے جتنا آپ کی طبیعت یا جیب برداشت کر سکے۔حال ہی میں مکان کی تعمیر کے سلسلے میں درجنوں افراد سے واسطہ رہا اور یہ جان کر تعجب اور افسوس ہوا کہ شائد ہی ان میں سے کوئی پیشہ ورانہ یا کاروباری دیانتداری کے تقاضوں پر پورا اُترتا ہوگا۔
ہم خود اور ہمارے قریبی رشتے یعنی ماں، باپ، بہن، بھائی، شریکِ حیات اور اولاد بھی وقت، مزاج اور زندگی میں آنے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوتے ہیں اور زندگی کے کھیل میں آپ کا کردار کافی مشکل کا شکار ہو سکتا ہے اگر آپ کے یہ چاہنے والے ایک دوسرے کے لیے ایثار اور تواضع کی کشادہ روش چھوڑ کر حقوق اور اختیارات کے تنگ دائروں میں چلنے پر اصرار کریں۔ حساس اور مثالیت پسند لوگوں کے لیے متوازن اور کامیاب زندگی گزارنا ایک کٹھن کام ہے۔ مگر اللہ کریم آسانی دینا چاہے تو ساری مشکلیں ہموار ہو جاتی ہیں :)
 

آوازِ دوست

محفلین
میں معذرت خواہ ہوں کہ جوابات میں تکلیف دہ حد تک تاخیر ہو رہی ہے۔ بہتری کی پوری کوشش کروں گا۔ آپ کے دوسرے سوال کی طرف آتے ہیں:
2۔ محبت نے زندگی کے نظریات بدلے یا جوں کے توں ہی ہیں ۔ کیا ایک سے زیادہ محبتیں انسان کو ہوسکتیں ہیں؟
یہ محبت جس کی ہم لوگ بات کرتے ہیں آخر چیز کیا ہے۔ میں نے یہ جانا کہ زندگی کو اگر ہم الجبرےکی ایک مساوات سمجھ لیں تو محبت اس میں ایک ایسا متغیر ہےجس کی قیمت ہر انسان اپنے فہم و ادراک اور ضرورت کے تحت طے کرتا ہے۔بنیادی طور پر یہ قیمت اس امر کی نشاندہی کرتی ہےکہ آپ کسی تعلق، چیز یا کام کی خاطر کتنے جوکھن اُٹھا سکتے ہیں۔بوقتِ ضرورت آپ کتنے صحرا و سمندر عبور کر سکتے ہیں اور اپنےمطلوب کے حصول کے لئےاپنے چین و سکون کی کس حد تک قربانی دے سکتے ہیں۔نوزائیدہ بچے کے لیے ماں کی ذات اولین محبت کا منبع ہوتی ہےکیوں کہ وہ بچے کی ضروریات کو پورا کرتی ہےاوراُس کےتحفظ کا خیال رکھتی ہے۔باپ بھی اپنے انداز میں انہی لوازمات کی تکمیل کر کے بچے کی محبت میں شامل ہو جاتا ہے۔پھر چیزیں ،کھلونے، روشنیاں، آوازیں اور نظارے بچے کے تیزی سے ماحول کے بارے میں جاننے کے فطری جذبےکی تسکین و نمو کرتے ہیں سو بچہ ان سے بھی محبت کرنے لگتا ہے۔بچہ سکول ، کالج ، یونیورسٹی یا دیگر معاشرتی و قدرتی ذرائع سےسیکھنے کے اس عمل کو عملی زندگی میں بروئے کار لانےکے مقام تک لے جاتا ہےکہ فطرت سلسلہ افزائشِ نسل کی ترویج کے لیے اُسے نئی ضروریات سے دوچار کردیتی ہےاور "بچہ" ان ضروریات کی تکمیل کے لیے فطری رحجانات کے زیرِاثر کسی نئی محبت کا اسیر ہو جاتا ہے۔یوں ہر "بچہ" زندگی کے اس مدار میں اپنے دورِ حیات کا طبعی چکر پورا کرکے بالاخر ختم ہوجاتا ہے اور اُس کے ساتھ ہی اُس کی ضروریات کی محبتوں کا سلسلہ بھی فنا ہو جاتا ہے۔ ماں باپ کی اولاد سے محبت، لڑکے لڑکیوں کی فلمی محبت، شہرت ، مال و دولت اور اقتدارسے محبت سب بیالوجی اور سائیکالوجی کے میدانِ تصرفات ہیں۔
یہاں تک اگر دیکھیں تو حیوان اور انسان کم و بیش ایک ہی شعوری سطح پر نظر آتے ہیں لیکن انسانی محبتوں کا ایک رُخ ایسا بھی ہےجو دائمیت رکھتا ہے اور اسے وقت اور حوادث فنا نہیں کر سکتے۔ہم اسے آفاقی محبت کہہ سکتے ہیں اور اس کی خصوصیات ضروریات والی محبتوں سے بالکل مختلف بلکہ کافی حد تک متضادنظر آتی ہیں۔یہ ایک الگ سکول آف تھاٹ ہے۔ اس میں لامحدود خواہشوں کے تعاقب میں محدود وسائل کے ساتھ سرگرداں انسان کو از سرِ نو منزل کے تعین کا موقع ملتا ہے۔ انسان کو پتا چلتا ہے کہ وہ ایک بہت بڑے خزانے کا مالک تھامگر وہ اُس سے بے خبر رہا۔وہ اپنے دل کی ٹکسال میں محبت اور احترام کے جتنے سنہری سکے چاہے ڈھال سکتا ہےاور اپنے مقام و مرتبے میں اضافہ کر سکتا ہے۔محبت اور احترام کی یہ طاقت دودھاری تلوار ہےمثبت رُخ پر ہو تو انسان کو دوست، ہمدرد، غمخوار، رازداں، ولی ، قطب، ابدال اور غوث بنا دیتی ہےاورمنفی رُخ پر ہو توشیطان اور مادیت کا پجاری بنا دیتی ہے۔بھلے کی راہ اپنی ذات کی نفی اور دوسروں کے لیے ایثار و محبت کا درس دیتی ہےجبکہ بُرائی اور کم مائیگی کی راہ انسان کی سوچ کو اپنی ذات سے آگےنکلنے ہی نہیں دیتی۔ جتنے بھی اولیا کرام اور نیک لوگ گزرے ہیں اُن کی ذات میں مخلوق سے محبت اور خالق کے احکامات کا احترام جزوِ لازم بنانظر آتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ وہ خالق کی مخلوق کی خدمت اور اُس کی محبوب ہستیوں کے احترام سے ایسے مرجع خواص و عوام ہوئےکہ اُن کے گزر جانے کے صدیوں بعدبھی اُن کی چاہتوں کے دِیے جگمگاتے نظر آتے ہیں۔یہ وہ محبتیں ہیں جو شرمندہ نہیں ہوتیں اور نہ ہی ہونے دیتی ہیں۔بےلوث محبت کی وافر ایکسرسائز شعور کی ترقی میں معاونت کرتی ہےاور اقبال کے الفاظ میں علاجِ تنگیء داماں کا سامان ہے۔
اگر ہم ان خیالات کو چند حروف میں سمونا چاہیں تو بات صرف اتنی ہے کہ انسان زندگی میں کئی محبتیں کرتا ہےعمومی سطح پر یہ محبتیں فقط ہمارے لیے کسی نہ کسی طورپر تسکین کا ذریعہ ہوتی ہیں اور بلند سطح پر یہ محبتیں بے لوث ہوتی ہیں اور دوسروں کی مدد اور آسانی چاہتی ہیں اس میں گرفتار انسان کی پہچان یہ ہے کہ اسے دوسروں کی مشکلیں اور تکالیف دور کرنے سے راحت ملتی ہے۔میں نے سطحی محبتوں کے دشت میں دل کوہر اچھی لگنے والی اور خوبصورت چیز کی طرف مائل دیکھا اور اسی سے مجھے اندازہ ہوا کہ اگر یہی محبت ہےتو اس میں کچھ کمی ضرور ہے۔محبت نے زندگی کے نظریات نہیں بدلے بلکہ زندگی نے محبت کے نظریات کو تبدیل کردیا ہے۔اب تک زندگی محبت سے بڑی رہی اب چاہتا ہوں کہ محبت زندگی سے آگے نکل جائے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
میں معذرت خواہ ہوں کہ جوابات میں تکلیف دہ حد تک تاخیر ہو رہی ہے۔ بہتری کی پوری کوشش کروں گا۔ آپ کے دوسرے سوال کی طرف آتے ہیں:
2۔ محبت نے زندگی کے نظریات بدلے یا جوں کے توں ہی ہیں ۔ کیا ایک سے زیادہ محبتیں انسان کو ہوسکتیں ہیں؟
یہ محبت جس کی ہم لوگ بات کرتے ہیں آخر چیز کیا ہے۔ میں نے یہ جانا کہ زندگی کو اگر ہم الجبرےکی ایک مساوات سمجھ لیں تو محبت اس میں ایک ایسا متغیر ہےجس کی قیمت ہر انسان اپنے فہم و ادراک اور ضرورت کے تحت طے کرتا ہے۔بنیادی طور پر یہ قیمت اس امر کی نشاندہی کرتی ہےکہ آپ کسی تعلق، چیز یا کام کی خاطر کتنے جوکھن اُٹھا سکتے ہیں۔بوقتِ ضرورت آپ کتنے صحرا و سمندر عبور کر سکتے ہیں اور اپنےمطلوب کے حصول کے لئےاپنے چین و سکون کی کس حد تک قربانی دے سکتے ہیں۔نوزائیدہ بچے کے لیے ماں کی ذات اولین محبت کا منبع ہوتی ہےکیوں کہ وہ بچے کی ضروریات کو پورا کرتی ہےاوراُس کےتحفظ کا خیال رکھتی ہے۔باپ بھی اپنے انداز میں انہی لوازمات کی تکمیل کر کے بچے کی محبت میں شامل ہو جاتا ہے۔پھر چیزیں ،کھلونے، روشنیاں، آوازیں اور نظارے بچے کے تیزی سے ماحول کے بارے میں جاننے کے فطری جذبےکی تسکین و نمو کرتے ہیں سو بچہ ان سے بھی محبت کرنے لگتا ہے۔بچہ سکول ، کالج ، یونیورسٹی یا دیگر معاشرتی و قدرتی ذرائع سےسیکھنے کے اس عمل کو عملی زندگی میں بروئے کار لانےکے مقام تک لے جاتا ہےکہ فطرت سلسلہ افزائشِ نسل کی ترویج کے لیے اُسے نئی ضروریات سے دوچار کردیتی ہےاور "بچہ" ان ضروریات کی تکمیل کے لیے فطری رحجانات کے زیرِاثر کسی نئی محبت کا اسیر ہو جاتا ہے۔یوں ہر "بچہ" زندگی کے اس مدار میں اپنے دورِ حیات کا طبعی چکر پورا کرکے بالاخر ختم ہوجاتا ہے اور اُس کے ساتھ ہی اُس کی ضروریات کی محبتوں کا سلسلہ بھی فنا ہو جاتا ہے۔ ماں باپ کی اولاد سے محبت، لڑکے لڑکیوں کی فلمی محبت، شہرت ، مال و دولت اور اقتدارسے محبت سب بیالوجی اور سائیکالوجی کے میدانِ تصرفات ہیں۔
یہاں تک اگر دیکھیں تو حیوان اور انسان کم و بیش ایک ہی شعوری سطح پر نظر آتے ہیں لیکن انسانی محبتوں کا ایک رُخ ایسا بھی ہےجو دائمیت رکھتا ہے اور اسے وقت اور حوادث فنا نہیں کر سکتے۔ہم اسے آفاقی محبت کہہ سکتے ہیں اور اس کی خصوصیات ضروریات والی محبتوں سے بالکل مختلف بلکہ کافی حد تک متضادنظر آتی ہیں۔یہ ایک الگ سکول آف تھاٹ ہے۔ اس میں لامحدود خواہشوں کے تعاقب میں محدود وسائل کے ساتھ سرگرداں انسان کو از سرِ نو منزل کے تعین کا موقع ملتا ہے۔ انسان کو پتا چلتا ہے کہ وہ ایک بہت بڑے خزانے کا مالک تھامگر وہ اُس سے بے خبر رہا۔وہ اپنے دل کی ٹکسال میں محبت اور احترام کے جتنے سنہری سکے چاہے ڈھال سکتا ہےاور اپنے مقام و مرتبے میں اضافہ کر سکتا ہے۔محبت اور احترام کی یہ طاقت دودھاری تلوار ہےمثبت رُخ پر ہو تو انسان کو دوست، ہمدرد، غمخوار، رازداں، ولی ، قطب، ابدال اور غوث بنا دیتی ہےاورمنفی رُخ پر ہو توشیطان اور مادیت کا پجاری بنا دیتی ہے۔بھلے کی راہ اپنی ذات کی نفی اور دوسروں کے لیے ایثار و محبت کا درس دیتی ہےجبکہ بُرائی اور کم مائیگی کی راہ انسان کی سوچ کو اپنی ذات سے آگےنکلنے ہی نہیں دیتی۔ جتنے بھی اولیا کرام اور نیک لوگ گزرے ہیں اُن کی ذات میں مخلوق سے محبت اور خالق کے احکامات کا احترام جزوِ لازم بنانظر آتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ وہ خالق کی مخلوق کی خدمت اور اُس کی محبوب ہستیوں کے احترام سے ایسے مرجع خواص و عوام ہوئےکہ اُن کے گزر جانے کے صدیوں بعدبھی اُن کی چاہتوں کے دِیے جگمگاتے نظر آتے ہیں۔یہ وہ محبتیں ہیں جو شرمندہ نہیں ہوتیں اور نہ ہی ہونے دیتی ہیں۔بےلوث محبت کی وافر ایکسرسائز شعور کی ترقی میں معاونت کرتی ہےاور اقبال کے الفاظ میں علاجِ تنگیء داماں کا سامان ہے۔
اگر ہم ان خیالات کو چند حروف میں سمونا چاہیں تو بات صرف اتنی ہے کہ انسان زندگی میں کئی محبتیں کرتا ہےعمومی سطح پر یہ محبتیں فقط ہمارے لیے کسی نہ کسی طورپر تسکین کا ذریعہ ہوتی ہیں اور بلند سطح پر یہ محبتیں بے لوث ہوتی ہیں اور دوسروں کی مدد اور آسانی چاہتی ہیں اس میں گرفتار انسان کی پہچان یہ ہے کہ اسے دوسروں کی مشکلیں اور تکالیف دور کرنے سے راحت ملتی ہے۔میں نے سطحی محبتوں کے دشت میں دل کوہر اچھی لگنے والی اور خوبصورت چیز کی طرف مائل دیکھا اور اسی سے مجھے اندازہ ہوا کہ اگر یہی محبت ہےتو اس میں کچھ کمی ضرور ہے۔محبت نے زندگی کے نظریات نہیں بدلے بلکہ زندگی نے محبت کے نظریات کو تبدیل کردیا ہے۔

پسندیدہ۔متفق۔زبردست
 

آوازِ دوست

محفلین
3۔ لوگ کہتے ہیں زندگی کھانے ، پینے اور سونے کے لیے ہے ۔ آپ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟
کھانا، پینا اور سونا زندگی کی بنیادی ضروریات ہیں اور ان کی اہمیت کسی دلیل کی محتاج نہیں۔ ان ضروریات کی تکمیل ہمیں توانا اور ہشاش بشاش رکھتی ہےتاکہ ہم اپنے طے کردہ نصب العین کو پانے کے لیے بھرپور جدوجہد کر سکیں لیکن یہ ضروریات بجائے خود زندگی کا نصب العین ہرگز نہیں ہو سکتیں۔ شائد ایسا سوچنا بھی زندگی کی توہین کے مترادف ہو۔ پھر اس جملےکا اصل مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ بدقسمتی سے ہماری زندگی کا کافی سے زیادہ وقت انہی ضروریات کے حصول کی تگ و دو اور پھر ان سے استفادہ حاصل کرنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ اس جملے کی ادائیگی میں اگر احساسِ زیاں شامل ہو تو یہ سوچ کے مثبت رُخ کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے محدود وقت میں سے وہ وقت جو ہم اپنی منزل کی تلاش میں صرف کریں گے مزید کم رہ جاتا ہے۔ سو ہمیں اپنے اور دوسروں کے وقت کی اہمیت کا احساس کرنا چاہیے اور اس نعمت کو ضائع ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔
اس جملے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ ستم ظریف اس سے اپنی (غیر حقیقی) بے فکری اور حال مستی کی اپنے قدردانوں پر کچھ ایسی دھاک بٹھانا چاہتے ہوں کہ وہ بے چارے ان کی اس نادر خوش بختی اور ترنگ و مستی پر اپنے عام سے جدوجہد بھرے حالات کے تناظر میں رشک و حسد سے جل بھُن کر سیاہ ہو جائیں ۔ متاثرین اُن کے دست سعید پر بیعت کے لیے تیار ہو جائیں کہ حضور ہم تو ایسے ہی زندگی سنوارنے کے چکر میں دوڑ دوڑ کر پھاوے ہو گئے ہیں اور یہ ہے کہ کم بخت پریشاں گیسوئے یار کی مانند کسی طور سلجھتی ہی نہیں ہے سو ہمیں بھی اپنے رنگ میں رنگ دیں اور معرفت کا وہ جام پلا دیں جو طبیعت میں آپ کے جیسی (بے حمیتی اور) بے فکری کی جوت جگا دے۔
تفنن برطرف اپنے وقت کے بہترین لوگوں کی زندگی کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ان لوگوں نے کھانے پینے اور سونے کو زندہ رہنے کے لیے اپنایا ناکہ وہ ان کے لیے زندہ رہے :)
 

آوازِ دوست

محفلین
4۔آپ کی ایجوکیشن اور انسٹیوٹ؟آپ کی ڈیٹ آف برتھ اور اسٹار؟
میں نے انسٹیٹیوٹ آف سادرن پنجاب سے کمپیوٹر سائنس میں ایم فل کیا ہے اور آگےپی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ ہے۔ ڈیٹ آف برتھ پندرہ مئی ہے اور سٹار اس حساب سے ٹارس بنتا ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
5۔کیا آپ خود کو حساس لوگوں کی صف میں رکھتے ہیں ۔آپ حساسیت کے بارے کیا سوچ رکھتے ہیں ؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حساسیت کا زیادہ ہونا درست امر نہیں ؟
مجھے اکثر یہ لگتا ہے میں ۔اوور سینسیٹو ہوں اور انسانی المیوں کے گرداب میں پھنسے تیسری دنیا کے ایک غریب اور کرپشن زدہ ملک کاشہری ہونے کے ناطے اپنی اس خامی کی وجہ سےشائد ایک نارمل آدمی سے زیادہ سزا بھگتتا ہوں۔زیادہ حساسیت اپنے تمام تر نقصانات کے باوجود آپ کو تخلیقی اور تعمیری معاملات میں سپورٹ بھی کرتی ہے۔ آپ اس حرارت کو مثبت استعمال میں لا سکیں تو بہت سے لوگوں کی محتاجی ختم ہو جاتی ہے۔ کسی کو مدد کے لیے کہنا آپ کے لیے آخری آپشن بن جاتا ہے۔ آپ مدد کر کے زیادہ خوشی محسوس کر نے لگتے ہیں۔ تاہم عملی زندگی میں اس کے نقصانات بھی کافی ہیں آپ کا رویہ ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی آپ کی طرف ایک قدم چلے تو اُس کی طرف دس قدم چلیں اور کوئی ایک قدم پیچھے ہٹے تو آپ سو قدم دور چلے جائیں۔ آپ بظاہر ذرا سی بات پر آسمان سر پر اٹھا سکتے ہیں سولوگ آپ کو مغرور ،سرکش اور ضدی سمجھنے میں خود کو حق بجانب کہیں گے۔زندگی کا وزن آپ کے لیے دوسروں سے ذرا زیادہ بن جاتا ہے۔ایسے میں آپ مختلف مشکل سیچوئشنز میں اپنے جذباتی طور پر زیادہ سٹیبل دوستوں اور آئیڈیلز (حقیقی یا فرضی)کی مدد بھی لے سکتے ہیں۔جب آپ خود کو کسی بڑی ذمہ داری میں ڈال لیتے ہیں تو بھی یہ سارے معاملات چھوٹےہو جاتے ہیں اور آپ کو آسانی سے متزلزل نہیں کر سکتے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
6۔کسی سے پہلی ملاقات میں اس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے کس چیز کو اہمیت دیتے ہیں؟
یہ اللہ کریم کا خاص احسان ہے کہ اُس نے مجھےخوش اخلاق اور دوست دل بنایا۔ میری زیادہ خوش گمانیاں انسانوں سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔ میرے مزاج کی ڈیفالٹ سیٹنگ یہ ہے کہ میں ہر ملنے والے کو ایک اچھا انسان اور خود سے بہتر سمجھتا ہوں تاوقتیکہ دوسری جانب سے اس نظریے کی واضح تردید سامنے نہ آ جائے۔یہ خوش خیالی ایک خوشبو کی طرح ہے اور اچھی خوشبوئیں کچھ نہ کچھ قیمت بھی رکھتی ہیں اور اہلِ ذوق کم از کم تسکینِ ذوق کے لیے تو بخل نہیں کرتے :)
 

آوازِ دوست

محفلین
7۔یارب چہ چشمہ ایست محبت کہ من از اُو
یک قطرہ آپ خوردم و دریا گریستم۔۔
اے پروردگار، یہ محبت کا چشمہ آخر کیا چیز ہے کہ میں نے اس میں سے صرف ایک قطرہ چکھا اور دریا جتنا رونا پڑا۔۔
آپ اس نظریے کی تائید کرتے ہیں یا اس سے اختلاف اور کیوں؟

میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ محبت اور آنسو اکثر یکجا ہو جاتے ہیں۔آنسو ہماری بیش بہادولت ہیں۔ جب یہ دولت ادنیٰ مقاصد کے لیےخرچ کی جاتی ہے تو یہ عمل ہماری کمزوری اور نادانی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی دولت جب اعلیٰ مقاصد کے لیے خرچ ہوتی ہے تو یہ ہماری طاقت بن جاتی ہے اورہمارے مقام و مرتبے میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ ہمیں جس سے محبت ہو وہ ہماری آنکھوں میں بہت دیرآنسو نہیں دیکھ سکتا تو بس اب جس کو بھی اپنا کرنا ہو اُس سےمحبت کیجئے اور آنسو بہائیے۔
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
8۔ زندگی کی کوئی ایسی ہستی جس نے بچپن سے لے کر اب تک آپ کو متاثر کیا اتنا کہ آپ اب جو ہیں انہی کی بدولت ہیں ؟
وقت کی سیڑھی پر آج میں جہاں موجود ہوں اُس سے پیچھے گزرنے والی تمام ساعتیں اور اس میں ملنے والےتمام لوگ، وسائل اور حالات اس سیڑھی کا جزو لازم ہیں اُن میں سے کچھ بھی کم اہم نہیں البتہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کتابوں نے اور کتابیں پڑھنے ، لکھنےوالوں نے میرے خیالات پر کافی اثرات مرتب کیے ہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
9۔ آپ کا نک آوازِ دوست ہے ، اس کے رکھنے کی کیا وجہ ہے ؟ آپ کا یہ نک نیم آپ کی زندگی پر کیسے اثر انداز ہوا ؟
نک نیم ہمارا ابتدائی تعارف ہوتا ہے تو آوازِدوست کا نِک ، تعارف کے ابتدائی مرحلے میں اجنبیت کے روکھے پن کو دوستانہ خلوص میں تبدیل کرنے کی ایک خودکار سی کوشش کرتا ہےسو اس لیے اسے منتخب کیا۔ زندگی کے مشکل مراحل میں ہمیں اکثر یوں لگتا ہے کہ اگر کوئی مخلص دوست پکار کر کہہ دے کہ فکر مت کرو میں تمہارے ساتھ ہوں تو آدھی مشکل تو ویسے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ سو یہ نک بڑی حد تک اسی اُمید افزااحساس کی ترجمانی کرتا ہے کہ مشکلات میں مخلص دوست آپ کے بن کہے بھی آپ کو حوصلہ دینے اور آپ کی مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
10۔بچپن میں کونسی اور کیسی سوچ اکثر آپ کو اسیر کیے رکھتی تھی ؟ کیا جو آپ نے بچپن میں سوچا اسے مستقبل میں حاصل کر پائے ۔؟
بچپن کا دور کچھ تجربات کے حوالے سے بہت خوابناک ہے۔پرائمری سکول میں گھر سے سکول جاتے ہوئےمیں مسمی چھیل کر اُس کی پھانکیں کھاتا ہوا جا رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ برابر میں چلنے والا ایک بچہ للچائی ہوئی نظروں سے میرے ہاتھ میں موجود مسمی کی طرف دیکھ رہا ہے۔ میں نے ہاتھ میں موجود نصف کے قریب مسمی اُس کے حوالے کردیا جسے اُس نے خوشی خوشی لے لیا۔ میں حیران رہ گیا کہ ایسا کرتے ہی میرا دل جیسے اچانک خوشی کی تیز روشنیوں میں نہا گیا۔ یہ میرے لیے ایک عجیب سا تجربہ تھا یا مجھے اس کی ایسی توقع نہیں تھی یہ معمولی سا واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ پہلا بچہ جیسا کہ عموما" زیادہ لاڈلا ہوتا ہے سو میں بھی تھا اور سکول کو تو جیسے تیسے برداشت کر لیا مگر گھر آنے کے بعدہوم ورک کبھی نہیں کیا۔ اب وہ وقت ایسا نہیں تھا کہ جب سرکاری سکولوں کے باہر بھی "مار نہیں پیار " کے دل خوش کن بورڈ لگائے جاتے تھے۔اساتذہ ( اور شائد والدین بھی)تعلیم کے شعوری نفاذ سے زیادہ عملی حکمت عملی کو کارگرسمجھتے تھے اور مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک کو وقت اور وسائل کی شدید فضول خرچی جانتے ہوئے کبھی اس کے مرتکب نہ ہوتے تھے تو نتیجہ سکول میں میری پے در پے مولا بخش سے تواضع کی صورت میں نکلا۔ اب سکول سے چھُٹی ہونے کی خوشی اور سرشاری کا نشہ مجھےاگلے دن صبح سکول روانگی تک سرشار رکھتا لیکن سکول کی طرف جاتے ہی گویا قدم من من بھاری ہو جاتےکہ آج پھر خیر نہیں۔ آپ میں سے یقینا" کچھ باخبر ایسے ہوں گے جو جانتے ہوں گے کہ سردیوں کی صبح میں نرم و نازک ٹھٹھرتے ہاتھوں پر پڑنے والی چوبی ضربات کیسے ہوشربا اثرات رکھتی ہیں۔خیر اُس وقت تک کےاپنے سارے علم کو یکجا کرکے میں نے اپنی مشکل کا حل تین کلمات کے ورد کی صورت میں نکالا"یا اللہ مدد، یا علی مدد، یا رسولﷺ مدد" ۔ سکول کی جانب بڑھتے ہوئے اپنے سکول بیگ میں موجود اپنی اُجلی سفید ،بے داغ کاپیوں اور بے پناہ دھڑکتے دل کے ساتھ میں ان کلمات کا ورد کرتے سکول میں داخل ہوتا۔ وقتِ مقررہ پر کاپیاں چیک ہوتیں کام نہ کرنے والوں کی تواضح کو قطار بنتی اور اس قطار میں شامل بچے ایک ایک کر کے آگے بڑھتے اور آہ و فغاں کے نغمے ایک کورس میں گاتے ہوئے اپنے ہاتھ بغلوں میں دبا کر اچھلتے کودتےاپنی نشستوں کی طرف بڑھتے جاتےمگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھےاس جادواثر ورد کے بعد پھرکبھی یہ تکلیف نہ سہنی پڑی ۔ باری آتے ہی ماسٹر جی سر کے اشارے سے مجھےآگے جانے کا کہتے اور میں خراماں خراماں اپنے بستے کے پاس پہنچ جاتا۔یہ سلسلہ پرائمری سکول کے سارے دور میں چلتا رہا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو کبھی مار پڑی اور نہ ہی میری رائیٹنگ سپیڈ بنی۔یہ معاملہ صرف سکول کی مار سے استثنٰی تک محدود نہ تھا بلکہ اس کے اثرات زندگی کے ہر پہلو پر نظر آئے دل جس چیز کو چاہتا اُس دن وہی پکی ہوتی ۔ جو پھل کھانا ہوتا شام کو ابا جی وہ لے کر آتے ۔ امتحان میں اچھے نمبر آتے (البتہ مقررہ وقت میں پرچہ حل کرنے میں مجھے بہت دقت ہوتی ۔ عادت جو نہ تھی)۔ایک عجب سا سماں تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر طرف بس اپنی ہی حکومت ہے۔ ایک اور تجربہ یہ ہوا کہ گرمیوں کی دوپہر میں سکول واپسی پر میں گھر داخل ہوتے ہی اپنی تختی اور بستہ ایک طرف پھینکتا اور کمرے میں رکھی اپنی چارپائی پر لیٹ جاتا سامنے کی دیوار میں ایک روشندان تھا جس میں میں سے باہر کا روشن نیلگوں آسمان نظر آتا تھا۔ نیم روشن سے کمرے سے آسماں کی بے کراں وسعتوں میں گھورتے ہوئے حیران سے ذہن میں تین سوالوں کی تکرارایک بازگشت کی طرح گونجتی "میں کون ہوں؟، میں کیاہوں ؟، میں کہاں ہوں؟" اور پھر کچھ ہی دیر میں ایسا محسوس ہو تا گویا میرے بدن سے میری روح ان سوالوں کے جواب کی تلاش میں میرے جسم سے باہر آ گئی ہے۔ میں خود کو گوشت پوست کے ایک مجسم ڈھیر کی حالت میں دیکھ سکتا تھا اور متعجب ہوتا تھا کہ یہ کیا صورت ہے؟ جیسے ہی مجھے یہ احساس ہوتا کہ میں اپنے جسم کے باہر سے خود کو دیکھ رہا ہوں میں خوفزدہ ہو جاتا کہ اگر میں اپنے جسم میں واپس نہ جا سکا تو کیا ہوگا۔اس خوف کے زیرِ اثر میں واپس بحالی کی طرف آتا اور چند ثانئے خود کو اور اپنے ماحول کو پہچاننے کی کوشش کرتا رفتہ رفتہ مجھے یاد آتا کہ یہ میں ہوں، یہ میرا گھر ہے اور یہاں میرے ماں باپ اور بہن بھائی رہتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ لوگ میرے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہیں میں اُن کے حلیے اور حرکات و سکنات کی ایک جھلک دیکھ کر اُن کے بارے میں جان سکتا تھا کہ یہ اچھا انسان ہے یا نہیں۔ مجھے یہ یقین حاصل تھا کہ میں جس موضوع پر سوچنا چاہوں اُس کی گہرائی تک پہنچ سکتا ہوں۔ ایک اور عجب بات کہ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ریت ،مٹی ، گرد وغیرہ کے باریک ترین نظر آنے والے ذرات میں بھی ایک جہان آباد ہے اور ان ذرات کی الگ الگ کہانیاں ہیں داستانیں اور بیک گراؤنڈ ہیں اور اگر میں زیادہ دلچسپی لوں توان کی تفصیلات مجھ پر ظاہر ہو جائیں گی۔ ۔مجھے یہ لگتا تھا کہ یہ ساری کائناتیں میرے لیے بنی ہیں ۔ میں ہی اس کا مرکز و محور ہوں۔
ایک خیال جو لا شعوری طور ذہن میں گڑ چکا تھا وہ یہ تھا کہ "آئی ایم ناٹ این آرڈینری پرسن"۔
پھر ایک وقت آیا اوراس سارے قصے کا خاتمہ ہو گیا۔ہوا یوں کہ شومئی قسمت میں نےکہیں پڑھ لیا کہ مسلمان صرف اللہ سے مدد مانگتا ہے اور غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ہے جو کہ گناہِ عظیم ہے ۔ میں اپنی غیر دانستہ جسارتوں پر گھبرا کر رہ گیااور کلمات کی حیثیت مشکوک ہو گئی ذہن کی اس تبدیلی سے کلمات فوری طور پر غیر موثرہوگئے۔پھر ان کے پڑھنے سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ اگر وہ غلط تھا تو یہ غلط تر لگا کہ آپ کو حاصل ایک دنیا آن واحد میں زیر و زبر ہوجائےنہ کوئی وارننگ نہ کوئی واپسی کاراستہ(کم ازکم ابھی تک نہیں ملا)۔ اناللہ و انا علیہ راجعون۔
بچپن میں یہی چاہا تھا کہ بڑے ہو کر دنیا کی سیر کریں گے اور نگر نگر آباد خدا کی بستیاں اور بیاباں دیکھیں گے۔سو بڑے ہونے کا انتظار ابھی باقی ہے۔
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
11-آپ کے نزدیک لکھنا کتھارسس سے زیادہ کوئی اور شے ہے یا بس اک کتھارسس ہے ؟
لکھنا اچھا ہے کہ اس کے ذریعے آپ اپنے خیالات کو ترتیب دے سکتے ہیں ۔ انہیں صفحے پر اُتارنے کے بعد ان کی کانٹ چھانٹ کر سکتے ہیں اور انہیں اچھی تراش خراش سے بہتر بنا سکتے ہیں ۔ آپ اپنی تحریر کو متعدد بار تنقید کی چھلنی سے گزار کر اتنا ریفائن کر سکتے ہیں کہ آپ کو خود بھی یقین نہ آئے کہ یہ آپ کا لکھا ہے۔اس طرح آپ کی سوچ بھی اپ گریڈ ہونے لگتی ہے آپ اپنی خامیوں سے آگاہ ہونے لگتے ہیں اور پھر ان سےپیچھا چھڑانا بھی سیکھ لیتے ہیں ۔جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اچھا بولنا ہے تو اچھا سُنو اور اگر اچھا لکھنا ہے تو اچھا پڑھو۔ ایکسپلورنگ دی ورلڈ آف انگلش کے مصنف نے بڑی پیاری بات سمجھائی ہے وہ کہتا ہے۔ " ہیو سم تھنگ ٹو سے اینڈ سے اِٹ ایز مچ کلئیرلی ایز یو کین"۔ تو لکھنا کتھارسس کے ساتھ ساتھ آپ کی سوچ کو بہتر بھی بناتا ہے بشرطیکہ آپ اپنی تحریروں کا تنقیدی جائزہ لیتے رہیں اور مایہ ناز تحریروں کے ساتھ اپنی کاوشوں کا موازنہ (شعوری یا لاشعوری طور پر)کرتےرہیں۔قلم میں قدرت نے عجب طاقت رکھی ہے کہ یہ آپ کو لافانی بھی بنا سکتا ہے۔آپ اپنی تحریروں سے لوگوں کو اس طرح متاثر کر سکتے ہیں کہ اچھی تحریروں کے ہر معتبر حوالے میں آپ کا ذکر بھی شامل ہو۔
 

آوازِ دوست

محفلین
12۔ آپ کے پاس تخییل اعلی ہے ، نثر بھی اچھی ہے تو لکھتے کیوں نہیں ہیں ؟
میں اپنی زندگی کے محدود وقت کو ایسے استعمال کرنا چاہتا ہوں کہ اس سےبنی نوع انسان کی خدمت ہو۔کچھ احباب کے ساتھ مل کر اس سوچ کی تسکین کا سامان کیا بھی ہے اب رہی لکھنے کی بات تو وطن عزیز میں معاملات کبھی بھی مثالی نہیں رہے اور اب تو یہ حالات ہیں کہ آپ مظلوم کی حمایت میں کچھ لکھیں یا معاشرتی برائیوں پر بات کریں آپ کو کسی نہ کسی گروہی مفاد پرست ٹولے کی مخالفت اور منفی پراپیگنڈےکا سامنا کرنا پڑے گا۔ ملک کے نامور ادیب اورصحافی یہاں کلمہء حق گوئی کی پاداش میں مصلوب ہوئے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ایسا بھی لکھا جائے کہ رند کے رند رہیں اور جنت بھی ہاتھ سے نہ جائے مگر طبیعت ادھر نہیں آتی۔ میرا یہ خواب ہےکہ پیارے وطن میں قانون کی حکمرانی ہو اور شخصیت پرستی کی قبیح رسم کا خاتمہ ہو۔ یہاں چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے بڑے آدمی کو یکساں سہل، سستا اور سریع انصاف ملے۔ یہاں کوئی ان ٹچ ایبل نہ ہو۔ایسے ہی خیالات لکھنے پر اُکساتے بھی ہیں اور پھر یہ دیکھتے ہوئے کہ یہاں تو بڑے بڑے مجبورِ محض بنے ہوئے ہیں یا پھر بہتی گنگا سے ہاتھ دھو رہے ہیں، یہ خیال جھٹک دیتا ہوں کہ بن پڑتی جو کر رہے ہیں اس سے بھی جاتے رہیں گے۔ تحریر صرف وقتی حِظ اُٹھانے اور بات برائے بات کی سطح سے اوپر اُٹھے تو لکھنے میں لطف آتا ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم وہ نیرو ہیں جو روم جلنے پر چین کی بنسری بجا رہا تھا۔خیر اپنے حصے کی شمع روشن کرنے کے لیے باقاعدہ لکھنا تمام تر نامساعد حالات کے باوجود خارج از امکان نہیں ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
13۔ شعورِ ذات فسانہ ہے ؟ انسان کا شعور سارا لاشعور حرکات کا ردعمل ہے ؟ آپ کیا کہتے ہیں
میری ادنیٰ رائے کے مطابق لاشعور ہمارا ان کلیمڈ یا غیر دریافت شدہ شعور ہی ہےاور شعور فسانہ نہیں ہےبلکہ اعلیٰ انسانی خصوصیات کا بنیادی جوہر ہے۔ لفظ "شعورِ ذات" بظاہر دو لفظوں کا ایک سادہ سا مرکب ہےلیکن یہ اپنی اصل میں ساری کائناتی سرگزشت کا خلاصہ ہو سکتا ہے۔انسان محض گوشت پوست کا جیتا جاگتا منطق پسند پتلا نہیں ہے۔ہماری مادی ہیت فقط دنیا سے رابطے کا ایک ذریعہ یا انٹرفیس ہےجس کا مقصد دنیاوی معاملات میں شمولیت کے قابل ہوناہے۔غزالی نے اصل ذات روح قرار دی ہے اور اسے سوار اور جسم کو سواری سے تشبیہ دی ہے۔سوار کو تو سواری کی مدد سے مسافتِ زندگی طے کر کے منزلِ مقصود تک پہنچنا ہے۔لمبی مسافتوں کے طے کرنے میں سواری کی ضروریات کا خیال رکھنا ضروری تو ہے مگر سواری کی بے جا زیب و زینت اور آسائش کے حصول میں منزل کا نشان گم کر دینا سوار کی بڑی ناکامی ہو گی۔یاد رکھنے کی بات یہی ہے کہ سوار کی منزل سواری کی آسودگی سے زیادہ اہم ہے۔
 
آخری تدوین:
Top