مکمل آغا حشر سے دو ملاقاتیں ۔ تحریر: سعادت حسن منٹو

فرخ منظور

لائبریرین
آغا حشر سے دو ملاقاتیں
تحریر: سعادت حسن منٹو

تاریخیں اور سن مجھے کبھی یاد نہیں رہے، یہی وجہ ہے کہ یہ مضمون لکھتے وقت مجھے کافی الجھن ہورہی ہے۔ خدا معلوم کون سا سن تھا۔ اور میری عمر کیا تھی، لیکن صرف اتنا یاد ہے کہ بصد مشکل انٹرنس پاس کرکے اور دو دفعہ ایف۔ اے میں فیل ہونے کے بعد میری طبیعت پڑھائی سے بالکل اچاٹ ہو چکی تھی اور جوئے سے میری دلچسپی دن بدن بڑھ رہی تھی۔ کٹڑا جیمل سنگھ میں دینو یا فضلو کمہار کی دکان کے اوپر ایک بیٹھک تھی جہاں دن رات جوا ہوتا تھا۔ فلش کھیلی جاتی تھی۔ شروع شروع میں تو یہ کھیل میری سمجھ نہ آیا۔ لیکن جب آگیا تو پھر میں اسی کا ہو رہا۔۔۔۔۔۔ رات کو جو تھوڑی بہت سونے کی فرصت ملتی تھی۔ اس میں بھی خواب راؤنڈوں اور تریلوں ہی کے آتے تھے۔
ایک برس کے بعد جوئے سے مجھے کچھ اکتاہٹ ہونے لگی۔ طبیعت اب کوئی اور شغل چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔ کیا؟۔۔۔۔۔۔ یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ دینو یا فضلو کمہار کی بیٹھک میں ایک روز ابراہیم نے جو کہ امرتسر میونسپلٹی میں تانگوں کا داروغہ تھا، آغا حشرکا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ امرتسر آئے ہوئے ہیں۔ میں نے یہ سنا تو مجھے سکول کے وہ دن یاد آگئے جب تین چار پیشہ ور لفنگوں کے ساتھ مل کر ہم نے ایک ڈرامٹیک کلب کھولی تھی۔ اور آغا حشر کا ایک ڈرامہ سٹیج کرنے کا ارادہ کیا تھا یہ کلب صرف پندرہ بیس روز قائم نہ رہ سکی تھی۔ اس لئے کہ والد صاحب نے ایک روز دھاوا بول کر ہارمونیم اور طبلے سب توڑ پھوڑ دیئے تھے۔ اور واضح الفاظ میں ہم کو بتا دیا تھا کہ ایسے واہیات شغل انہیں بالکل پسند نہیں۔
اس کلب کے باقیات آغا حشر کے اس ڈرامے کے چند الفاظ ہیں۔جو میرے ذہن کے ساتھ ابھی تک چپکے ہوئے ہیں۔’’ارتاتھ اس کے کرم ہیں۔‘‘ میرا خیال ہے جب داروغہ ابراہیم نے آغا حشر کا ذکر کیا تو مجھے اس وقت ڈرامے کا پورا ایک پیرا یاد تھا، چنانچہ مجھے اس خبر سے ایک گو نہ دلچسپی پیدا ہوگئی، کہ آغا حشر امرتسر میں ہے۔
آغا صاحب کا کوئی ڈرامہ دیکھنے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اس لئے کہ رات کو گھر سے باہر رہنے کی مجھے قطعاً اجازت نہیں تھی۔ ان کے ڈرامے بھی میں نے نہیں پڑھے تھے۔ اس لئے کہ مجھے مسٹریز آف کورٹ آف لنڈن اور تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجمہ کردہ انگریزی جاسوسی ناول جیسی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا لیکن اس کے باوجود امرتسر میں آغا صاحب کی آمد کی خبر نے مجھے کافی متاثر کیا۔
آغا صاحب کے متعلق بے شمار باتیں مشہور تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ کوچہ وکیلاں میں رہا کرتے تھے جوہماری گلی میں تھی، جس میں ہمارا مکان تھا۔ آغا صاحب بہت بڑے آدمی تھے۔۔۔۔۔۔ کشمیری تھے، یعنی میرے ہم قوم۔۔۔۔۔۔ اور پھر میری گلی میں وہ کبھی اپنے بچپن کے ایام گذار چکے تھے۔ ان تمام باتوں کا نفساتی اثر مجھ پر ہوا آپ اُسے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
داروغہ ابراہیم سے جب میں نے آغا صاحب کے متعلق کچھ اور پوچھا تو اس نے وہی باتیں بتائیں جو میں اوروں سے ہزار مرتبہ سن چکا تھا کہ وہ پرلے درجے کے عیاش ہیں۔ دن رات شراب کے نشے میں دھت رہتے ہیں۔ بے حد گندہ ذہن ہیں۔۔۔۔۔۔ ایسی ایسی گالیاں ایجاد کرتے ہیں کہ مغلظات میں جن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بڑے سے بڑے آدمی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔۔۔۔۔۔ کمپنی کے فلاں فلاں سیٹھ نے جب ان سے ایک بار ڈرامے کا تقاضا کیا تو انہوں نے اس کو اتنی موٹی گالی دی جو ہمیشہ کے لئے اس کے دل میں آغا صاحب کیخلاف نفرت پیدا کرنے کیلئے کافی تھی۔ لیکن حیرت ہے کہ سیٹھ نے اُف نہ کی، اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا۔’’آغا صاحب ہم آپ کے نوکر ہیں‘‘۔۔۔۔۔۔ بدیہہ گو تھے۔۔۔۔۔۔ ایک مرتبہ ریہرسل ہورہی تھی۔ گرمی کے باعث ایک ایکٹرس بار بار ماتھے پر سے انگلی کے ساتھ پسینہ پونچھ رہی تھی۔ آغا صاحب جھنجھلائے اور ایک شعر موزوں ہوگیا۔
ابرو نہ سنوار اکرو کٹ جائے گی اُنگلی
نادان ہو تلوار سے کھیلا نہیں کرتے
ریہرسل ہورہی تھی۔ لفظ’’فنڈ‘‘ ایک ایکٹرس کی زبان پر نہیں چڑھتا تھا۔ آغا صاحب نے گرج کر’’فنڈ‘‘ کا ایک ہم قافیہ لفظ لڑھکا دیا۔۔۔۔۔۔ ایکٹرس کی زبان پر فوراً’’ فنڈ‘‘ چڑھ گیا۔
آغا صاحب کے کان تک یہ بات پہنچی کہ حاسد یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ ہندی کے ڈرامے ان کے اپنے لکھے ہوئے نہیں کیونکہ وہ ہندی زبان سے بالکل ناواقف ہیں۔ آغا صاحب سٹیج پر ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے آئے اور حاضرین سے کہا۔’’ میرے متعلق چند مفسدہ پردار یہ بات پھیلارہے ہیں کہ میں نے اپنے ہندی کے ڈرامے کرائے کے پنڈتوں سے لکھوائے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں اب آپ کے سامنے شدھ ہندی میں تقریرکروں گا‘‘۔۔۔۔۔۔ چنانچہ آغا صاحب دو گھنٹے تک ہندی میں تقریر کرتے رہے جس میں ایک لفظ بھی اردو یا فارسی کا نہیں تھا۔
آغا صاحب جس ایکٹرس کی طرف نگاہ اٹھاتے تھے وہ فوراً ہی ان کے ساتھ خلوت میں چلی جاتی تھی۔
آغا صاحب منشیوں کو حکم دیتے تھے کہ’’تیار ہو جاؤ۔‘‘ اور شراب پی کر ٹہلتے ٹہلتے بیک وقت کومیڈی اور ٹریجڈی لکھوانا شروع کردیتے تھے۔
آغا صاحب نے کبھی کسی عورت سے عشق نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے داروغہ ابراہیم کی زبانی معلوم ہوا کہ یہ بات جھوٹ ہے کیونکہ وہ امرتسر کی مشہور طوائف مختار پر عاشق ہیں۔ وہی مختار جس نے’’ عورت کا پیار‘‘ فلم میں ہیروئن کا پارٹ ادا کیا ہے۔
مختار کو میں نے دیکھا ہوا تھا۔ ہال بازار میں انورپینٹر کی دکان پر بیٹھ کر ہم قریب قریب ہر جمعرات کی شام کو مختار عرف داری کو نئے سے نئے فیشن کے کپڑوں میں ملبوس دوسری طوائفوں کے ہمراہ’’ ظاہرا پیر‘‘ کی درگاہ کی طرف جاتے دیکھا کرتے تھے۔
آغا صاحب شکل و صورت کے کیسے تھے۔ یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ کچھ چھپی ہوئی تصویریں دیکھنے میں آئی تھیں۔ مگر ان کی چھپائی اس قدر واہیات تھی کہ صورت پہچانی ہی نہیں جاتی تھی۔ عمر کے متعلق صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ اب ضعیف ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس زمانے میں یعنی عمر کے آخری وقت میں ان کو مختار سے کیسے عشق ہوا۔اس پر ہم سب کو جودینو یا فضلو کمہار کی بیٹھک میں جواء کھیل رہے تھے، سخت تعجب ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ مجے یاد ہے نال کے پیسے نکالتے ہو�ؤد نیو یا فضلو کمہار نے گردن ہلا کر بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا تھا۔’’ بڑھاپے کا عشق بڑا قاتل ہوتاہے۔‘‘
ایک بار آغا صاحب کا ذکر بیٹھک پر ہوا تو پھر قریب قریب ہرروز ان کی باتیں ہونے لگیں۔ ہم میں سے صرف داروغہ ابراہیم آغا صاحب کوذ اتی طور پر جانتا تھا۔ ایک روز اس نے کہا۔’’ کل رات ہم مختار کے کوٹھے پر تھے۔۔۔۔۔۔ آغا صاحب گاؤ تکیے کا سہارا لئے بیٹھے تھے ہم میں سے باری باری ہر ایک نے ان سے پر زور درخواست کی کہ وہ اپنے نئے قلمی ڈرامے’’ رستم و سہراب‘‘ کا کوئی قصہ سنائیں، مگر انہوں نے انکار کردیا۔ ہم سب مایوس ہوگئے ۔ ایک نے مختار کی طرف اشارہ کیا۔ وہ آغا صاحب کی بغل میں بیٹھ گئی اور ان سے کہنے لگی۔’’ آغا صاحب ہمارا حکم ہے کہ آپ رستم و سہراب، سنائیں!‘‘۔۔۔۔۔۔ آغا صاحب مسکرائے اور بیٹھ کر رستم کا پر زور مکالمہ ادا کرنا شروع کردیا۔ اللہ اللہ کیا گرج دار آواز تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ پانی کا تیز دھارا پہاڑ کے پتھروں کو بہائے لئے چلا جارہا ہے۔‘‘
ایک دن ابراہیم نے بتایا کہ آغا صاحب نے پینا یک قلم ترک کردیا ہے۔ جو آغا صاحب کے متعلق زیادہ جانتے تھے۔ ان کو بہت تعجب ہوا۔ ابراہیم نے کہا کہ یہ فیصلہ انہوں نے حال ہی میں مختار سے عشق ہونے کی وجہ سے کیا ہے۔ یہ عشق بھی کیا بلا تھی۔ ہم سمجھ نہ سکے۔ لیکن دینو یا فضلو نے نال کے کل پیسے اپنے تہمد کے ڈب میں باندھتے ہوئے ایک بار پھر کہا۔’’بڑھاپے کے عشق سے خدا بچائے۔۔۔۔۔۔ بڑی ظالم چیز ہوتی ہے۔‘‘
جوئے سے طبیعت اکتا ہی چکی تھی۔ میں نے بیٹھک جانا آہستہ آہستہ چھوڑ دیا اس دوران میں میری ملاقات باری صاحب اور حاجی لق لق سے ہوئی جو روزنامہ’’ مساوات‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہو کر امرتسر آئے ہوئے تھے ۔ جیجے کے ہوٹل’’ شیراز‘‘ میں دونوں چائے پینے آتے تھے اور ادب سے سیاست پر باتیں کرتے تھے۔ ان سے میری ملاقات ہوئی۔ باری صاحب کو میں نے بہت پسند کیا۔ اسی دوران میں جیجینے اختر شیرانی مرحوم کو مدعو کیا۔ دن رات ٹھرے کے دور چلنے لگے، شعر و ادب سے میری دلچسپی بڑھنے لگی۔ جو وقت پہلے فلش کھیلنے میں کٹتا تھا۔ اب’’ مساوات‘‘ کے دفتر میں کٹنے لگا۔ کبھی کبھی باری صاحب ایک آدھ خبر ترجمہ کے لئے مجھے دے دیتے جو میں ٹوٹی پھوٹی اردو میں کردیا کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ میں نے فلمی خبروں کا ایک کالم سنبھال لیا۔ بعض دوستوں نے کہا کہ محض خرافات ہوتی ہے لیکن باری صاحب نے کہا۔’’بکواس کرتے ہیں۔ تم اب طبعزاد مضمون لکھنے شروع کرو۔‘‘
طبعزاد مضمون تو مجھ سے لکھے نہ گئے لیکن فرانسیسی ناول نگار کی ایک کتاب’’ لاسٹ ڈیز آف کنڈمنڈ‘‘ میری الماری میں پڑی تھی۔ باری صاحب اٹھا کر لے گئے دوسرے روز دوپہر کے قریب میں’’ مساوات‘‘ کے دفتر میں گیا تو کاتبوں سے معلوم ہوا کہ باری صاحب کو سرسام ہوگیا ہے۔ ایک کتاب صبح سے بلند آواز میں پڑھ رہے ہیں۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد یہاں آتے ہیں۔ اور ایک لوٹا ٹھنڈے پانی کا سر پر ڈلوا کر اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ میں ادھر گیا تو دروازے بند تھے اور وہ خطیبانہ انداز میں انگریزی کی کوئی نہایت ہی زور دار عبارت پڑھ رہے تھے۔ میں نے دستک دی۔ دروازہ کھلا۔ باری صاحب کرتے پجامے بغیر باہر آئے۔ ہاتھ میں وکٹر ہیوگو کی کتاب تھی۔ اسے میری طرف بڑھا کر انگریزی میں کہا۔’’ اِٹ از اے ویری ہوٹ بُک‘‘ اور جب کتاب پڑھنے کی گرمی دور ہوئی تو مجھے مشورہ دیا کہ میں اس کا ترجمہ کروں۔‘‘
میں نے کتاب پڑھی۔ لکھنے کا انداز بہت ہی موثر اور خطیبانہ تھا۔ شراب پی کر ترجمہ کرنے کی کوشش کی۔ مگر نظروں کے سامنے سطریں گڈمڈ ہوگئیں۔ صحن میں پلنگ بچھوا کر حقے کی نے منہ میں لے کر اپنی بہن کو ترجمہ لکھوانے کی کوشش کی۔ مگر اس میں بھی ناکام رہا۔ آخر میں اکیلے بیٹھ کر دس پندرہ دنوں کے اندر انڈر ڈکشنری سامنے رکھ کر ساری کتاب کا ترجمہ کر ڈالا۔ باری صاحب نے بہت پسند کیا۔ اس کی اصلاح کی اور یعسوب حسن مالک اردو بک سٹال کے پاس روپے میں بکوا دیا۔ یعسوب حسن نے اسے بہت ہی قلیل عرصے میں چھاپ کر شائع کردیا۔۔۔ اب میں صاحبِ کتاب تھا۔
’’مساوات‘‘ بند ہوگیا۔ باری صاحب، لاہور کسی اخبار میں چلے گئے، جیجیکا ہوٹل سُونا ہوگیا۔ میرے لئے کوئی شغل نہ رہا۔ لکھنے کی چاٹ پڑ گئی تھی۔ لیکن چونکہ دوستوں سے داد نہ ملتی تھی۔ اس لئے ادھر کوئی توجہ نہ دی۔ اب پھر دینا یا فضلو کمہار کی بیٹھک تھی۔ جوا کھیلتا تھا۔ مگر اس میں اب وہ پہلا سا لطف اور پہلی سی حرارت نہیں تھی۔
ایک دن داروغہ ابراہیم نے فلش کھیلنے کے دوران میں بتایا کہ آغا حشر آئے ہوئے ہیں۔ اور مختار کے یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں میں نے اس سے کہا۔ کسی روز مجھے وہاں لے چلو۔ ابراہیم نے وعدہ تو کرلیا مگر پورا نہ کیا۔ جب میں نے تقاضا کیا تو اس نے یہ کہہ کر ٹرخا دیا۔’’ آغا صاحب لاہور چلے گئے ہیں۔‘‘
میرا ایک دوست تھا ہری سنگھ،اللہ بخشے خوب آدمی تھا۔ پانچ مکان بیچ کر دو مرتبہ سارے یورپ کی سیر کر چکا تھا۔ اور ان دنوں چھٹے اور آخری مکان کو آہستہ آہستہ بڑے سلیقے کے ساتھ کھارہا تھا۔ فرانس میں صرف چھ مہینے رہا تھا۔ لیکن فرانسیسی زبان بڑی بے تکلفی سے بول لیتا تھا۔ بہت ہی دبلا پتلا، مریل سا انسان تھا۔ مگر بلا کا پھرتیلا، چرب زبان اور دھانسو، یعنی برمے کی طرح اندر دھنس جانے والا۔ ایک روز میں نے اس سے آغا حشر کا ذکر کیا۔ اس نے فوراً ہی پوچھا۔’’ کیا تم اس سے ملنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا۔’’ بہت دیر سے میری خواہش ہے کہ ان کو ایک نظر دیکھوں۔‘‘ ہری سنگھ نے فوراً ہی کہا۔’’ اس میں کیا مشکل ہے جب سے وہ یہاں امرتسر میں پنڈت محسن کے ہاتھ ٹھہرا ہے، قریب قریب ہر روز میری اس سے ملاقات ہوتی ہے‘‘۔۔۔۔۔۔ میں اچھل پڑا۔’’ تو ہری کل شام کو تم مجھے ان کے پاس لے چلو‘‘۔ ہری نے اپنا وسکی کا گلاس اپنے پتلے ہونٹوں سے لگایا۔ اور بڑی نزاکت سے ایک چھوٹا سا گھونٹ بھر کے فرانسیسی زبان میں کچھ کہا جس کا مطلب تھا۔ ’’ یقیناً میرے دوست۔‘‘
اور ہری سنگھ دوسرے روز شام کو مجھے آغا حشر کاشمیری کے پاس لے گیا۔
پنڈت محسن جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کشمیری پنڈت تھے۔ نام ان کا جانے کیا تھا محسن ان کا تخلص تھا۔ مشاعروں میں پرانی دقیانوسی شاعری کے نمونے کے طور پر پیش ہوتے تھے۔آپ کا کاروباری تعلق کٹڑہ گھنیاں کے امرت سینما سے تھا۔
آغا صاحب سے پنڈت جی کی دوستی معلوم نہیں شاعری کی وجہ سے تھی۔ یا سینما کی وجہ سے۔ یاکٹڑہ گھنیاں اس کا باعث تھا۔ جس میں امرت سینما اور مختار کا بالا خانہ بالکل آمنے سامنے تھے۔ سبب کچھ بھی ہو، آغا صاحب پنڈت محسن کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے اور جیسا کہ مجھے ان کی باہم گفتگو سے پتہ چلا، دونوں ایک دوسرے سے بے تکلف تھے۔
پنڈت محسن کی بیٹھک یا دفتر کٹڑہ گھنیاں کے پاس پشم والے بازار سے نکل کر آگے جہاں سبزی کی دکانیں شروع ہوتی ہیں۔ ایک بڑی سی ڈیوڑھی کے اُوپر واقع تھا۔ ہری سنگھ آگے تھا۔ میں اس کے پیچھے سیڑھیاں چڑھتے وقت میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ میں آغا حشر کو دیکھنے والا تھا۔
باہر صحن میں کرسیوں پرکچھ آدمی بیٹھے تھے۔ ایک کونے میں تخت پر پنڈت محسن بیٹھے گڑگڑی پی رہے تھے۔ سب سے پہلے ایک عجیب و غریب آدمی میری نگاہوں سے ٹکرایا۔ چیختے ہوئے لال رنگ کی چمکدار سا ٹن کالاچا، دو گھوڑے کی بوسکی کی کالر والی سفید قمیض، کمر پرگہرے نیلے رنگ کا پھندنوں والا آزار بند، بڑی بڑی بے ہنگم آنکھیں۔۔۔۔۔۔ میں نے سوچا کٹڑہ گھنیاں کا کوئی پیر ہوگا۔ لیکن فوراً ہی کسی نے اس کو’’ آغا صاحب‘‘ کہہ کر مخاب کیا۔ مجھے دھکا سا لگا۔
ہری سنگھ نے بڑھ کر اس عجیب و غریب آدمی سے مصافحہ کیا، اور میری طرف اشارہ کرکے اس سے کہا۔’’ میرے دوست سعادت حسن منٹو۔۔۔۔۔۔ آپ سے ملنے کے بہت مشتاق تھے۔‘‘
آغا صاحب نے اپنی بڑی بڑی بے ہنگم آنکھیں میری طرف گھمائیں اور مسکرا کر کہا۔’’لارڈ منٹو سے کیا رشتہ ہے تمہارا۔‘‘
میں تو جواب نہ دے سکا۔ لیکن ہری سنگھ نے کہا۔’’ آپ مِنٹو نہیں مَنٹو ہیں۔۔۔ کشمیری‘‘
آغا صاحب نے ایک لمبی’’ اوہ‘‘ کی۔ اور پنڈت محسن سے کشمیریوں کی’’ اَل‘‘ کے متعلق طویل گفتگو شروع کردی۔ میں پاس ہی بنچ پر بیٹھ گیا۔ پنڈت جی کو قطعاً آغا صاحب کی اس گفتگو سے دلچسپی نہیں تھی کیونکہ وہ بار بار ان سے کہتے تھے۔’’ آغا صاحب، اس کو چھوڑیئے۔ یہ بتائیے کہ آپ کب میرے لئے دو ریل کا مزاحیہ ڈرامہ لکھیں گے۔‘‘
آغا صاحب کو اس مزاحیہ ڈرامے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ گفتگو تو کشمیریوں کی’’اَل‘‘ کے بارے میں کررہے تھے۔ مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دماغ کچھ اور ہی سوچ رہا ہے۔ ایک دوبار انہوں نے دورانِ گفتگو میں اپنے نوکر کو موٹی موٹی گالیاں دے کر یاد کیا کہ وہ ابھی تک آیا کیوں نہیں۔
آغا صاحب جب خاموش ہوئے تو پنڈت محسن نے ان سے کہا۔’’ آغا صاحب اس وقت آپ کی طبیعت موزوں ہے۔ میں کاغذ قلم لاتا ہوں، آپ وہ کومیڈی لکھوانا شروع کردیجئے۔‘‘
آغا صاحب کی ایک آنکھ بھینگی تھی۔ آپ نے اسے گھما کر کچھ عجیب انداز سے پنڈت جی کی طرف دیکھا۔’’ابے چپ کر۔ آغا حشر کی طبیعت ہروقت موزوں ہوتی ہے۔‘‘ پنڈی جی خاموش ہوگئے اور اپنی گُڑگُڑی گُڑگُڑانے لگے۔ دفعتہً مجھے محسوس ہوا کہ میرا سر چکرا رہا ہے۔ تیز خوشبو کے بھبکے آرہے تھے۔ میں نے دیکھا آغا صاحب کے دونوں کانوں میں عطرکے پھول ٹھنسے ہوئے تھے۔ اور غالباً سر بھی عطر ہی سے چپڑا ہوا تھا۔ میں کچھ تو اس تیز خوشبو اور کچھ آغا صاحب کے لاچے اور آزار بند کے شوخ رنگوں میں قریب قریب غرق ہوچکا تھا۔
بازار میں دفعتہً شور وغل برپا ہوا۔ ایک صاحب نے اٹھ کر باہر جھانکا اور آغا صاحب سے کہا۔’’ آغا صاحب تشریف لائیے۔منہدی کا جلوس آرہا ہے۔‘‘
آغا صاحب نے کہا۔’’بکواس ہے۔‘‘ اور حادثہ کربلا پر نہایت ہی محققانہ لکچر دینا شروع کردیا۔’’دجلے کا منہ بند تھا۔ فرات خشک پڑی تھی۔ پینے کو پانی کی ایک بوند نہیں تھی۔منہدی گوندھی کس سے گئی۔۔۔۔۔۔ آغا حشر۔۔۔۔۔۔‘‘ اس سے آگے کہتے کہتے رُک گئے۔ ایک صاحب جوغالباً شیعہ تھے۔ محفل سے اٹھ کر چلے گئے۔ آغا صاحب نے موضوع بدل دیا۔
پنڈت محسن کو موقعہ ملا۔ چنانچہ انہوں نے پھر درخواست کی۔’’آغا صاحب دو ریل کی کامیڈی آپ کولکھنی ہوگی۔‘‘
آغا صاحب نے یہ موٹی گالی دی۔’’کامیڈی کی۔۔۔۔۔۔ یہاں ٹریجڈی کی باتیں ہورہی تھیں اور تم اپنی کامیڈی لے آئے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر آغا صاحب نے حادثہ کربلا کے بارے میں پھر عالمانہ انداز میں بحث شروع کردی کیونکہ وہ جی بھر کے اس موضوع پر اپنی معلومات اور خیالات کا اظہار نہیں کرسکے تھے۔ مگر فوراً جانے کیا جی میں آئی کہ ایک دم اپنے نوکر کو گالیاں دینا شروع کردیں کہ وہ ابھی تک آیا کیوں نہیں۔ چنانچہ وہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔
تھوڑی دیر کے بعد اِدھر اُدھر کی باتیں شروع ہوئیں۔ کسی نے آغا صاحب سے مولانا ابوالکلام کے تبحر علم کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اس کا جواب کچھ دیا۔’’ محی الدین کے متعلق پوچھتے ہو۔ ہم دونوں اکٹھے امریکی اور عیسائی مبلغوں سے مناظرے لڑتے رہے ہیں۔ گھنٹوں اپنا گلا پھاڑتے تھے عجیب دن تھے وہ بھی۔‘‘
یہ کہہ کر آغا صاحب لاچے اور آزار بند کے بھڑکیلے رنگوں اور کانوں میں اڑسے ہوئے پھوئے اور سر میں چپڑے ہوئے عطر کی تیز خوشبو سمیت بیتے ہوئے دنوں کی یاد میں کچھ عرصے کے لئے کھو گئے۔ اس سے گو آپ رنڈیوں کے پیر دکھائی دیتے تھے لیکن ان کا چہرہ بہت ہی بارعب تھا۔ آنکھیں بند تھیں۔ جھکے ہوئے پپوٹوں کی جھریوں والی پتلی جلد کے نیچے موٹی کانچ کی گولیاں سی ہول ہولے حرکت کررہی تھیں۔ انہوں نے جب آنکھیں کھولیں تو میں نے سوچا کتنے برسوں کا نشہ ان میں منجمد ہے۔ کس قدر سُرخی ان کے ڈوروں میں جذب ہو چکی ہے۔
آغا صاحب نے پھر کہا۔’’ عجیب دن تھے وہ۔۔۔۔۔۔ آزاد ڈھیل کے پیچ لڑانے کا عادی تھا۔ مجھے آتا تھا مزا کھینچ کے پیچ لڑانے میں۔ ایک ہاتھ مارا۔ اور پیٹا کاٹ لیا۔ حریف منہ دیکھتے رہ گئے۔ ایک دفعہ آزاد بہت بُری طرح گھر گیا۔ مقابلہ چار نہایت ہی ہٹ دھرم عیسائی مشنریوں سے تھا۔ میں پہنچا تو آزاد کی جان میں جان آئی۔ اس نے ان مشنریوں کو میرے حوالے کیا۔ میں نے دو تین ایسے اڑنگے دیئے کہ بوکھلا گئے۔ میدان ہمارے ہاتھ رہا۔ لیکن میرا حلق سوکھ گیا۔ قیامت کی گرمی تھی۔ مسجد دوزخ بنی ہوئی تھی۔ میں نے آزاد سے کہا۔’’ وہ بوتل کہاں ہے؟ ‘‘اس نے جواب۔’’ میری جیب میں۔‘‘ میں نے کہا خدا کے لئے چلو۔ میرا حلق سوکھ کے لکڑی ہوگیا ہے۔دور جانے کی تاب نہیں تھی۔ وہیں مسجد میں ایک خانے کے اندر جھک مارنی پڑی۔‘‘
اتنے میں آغا صاحب کا نوکر آگیا۔ آغا صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اس کو گالیاں دیں اور وجہ پوچھی کہ اس نے اتنی دیر کیوں کی۔ نوکر نے جو گالیوں کا عادی معلوم ہوتا تھا کاغذ کا ایک بنڈل نکالا اور کھول کر آگے بڑھایا۔’’ ایسی چیز لایا ہوں کہ آپ کی طبیعت خوش ہو جائے۔‘‘
آغا صاحب نے کھلا ہوا بنڈل ہاتھ میں لیا۔ شوخ رنگ کے چار ازار بند تھے۔ آغا صاحب نے ایک نظر ان کو دیکھا اور آنکھوں کو بہت ہی خوفناک انداز میں اوپر اٹھا کر اپنے نوکر پر گرجے۔۔۔۔۔۔’’ یہ چیز لایا ہے تو۔۔۔۔۔۔ ایسے واہیات ازار بند تو اس شہر کے کنجڑے بھی نہیں پہنتے‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے بنڈل فرش پر دے مارا۔ کچھ دیر نوکر پر برسے، پھر جیب میں سے غالباً دو تین ہزار روپے کے نوٹ نکالے اور اسے حکم دیا۔’’ جاؤ، پان لاؤ۔‘‘
پنڈت محسن نے گڑگڑی ایک طرف رکھی اور کہا۔’’ نہیں نہیں آغا صاحب، میں منگواتا ہوں۔‘‘
آغا صاحب نے سب نوٹ تماش بینوں کے انداز میں اپنی جیب میں رکھے اور کہا۔’’ جاؤ تمہارے پاس کچھ باقی بچا ہوا ہے۔‘‘
نوکر جانے لگا تو انہوں نے اسے روکا۔’’ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ وہاں سے پتہ بھی لیتے آؤ کہ وہ ابھی تک کیوں نہیں آئیں۔‘‘
نوکر چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد سیڑھیوں کی جانب سے ہلکی سی مہک آئی پھر ریشمیں سرسراہٹیں سنائی دیں۔۔۔۔۔۔ آغا صاحب کا چہرہ بشاش ہوگیا۔۔۔۔۔۔ مختار جو ہرگز ہرگز حسین نہیں تھی۔ خوش وضع کپڑوں میں ملبوس صحن میں داخل ہوئی۔ آغا صاحب اور حاضرین کو تسلیمات عرض کی اوراندر کمرے میں چلی گئی۔ آغا صاحب کی آنکھیں اس کو وہاں تک چھوڑنے گئیں۔
اتنے میں پان آگئے۔ جو اخبار کے کاغذ میں لپٹے ہوئے تھے۔ نوکر اندر چلا تو آغا صاحب نے کہا۔’’ کاغذ پھینکنا نہیں سنبھال کے رکھنا۔‘‘
میں نے ایک دم حیرت سے پوچھا۔’’ آپ اس کاغذ کو کیا کریں گے آغا صاحب؟‘‘
آغا صاحب نے جواب دیا۔’’ پڑھوں گا۔ چھپے ہوئے کاغذ کا کوئی بھی ٹکڑہ جو مجھے ملا ہے۔ میں نے ضرور پڑھا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھے۔’’ معافی چاہتا ہوں، اندر ایک معشوق میرا انتظار کررہا ہے۔‘‘
پنڈت محسن نے گڑگڑی اٹھائی اور اسے گڑگڑانے لگے۔ میں اور ہری سنگھ تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے چل دیئے۔
میں کئی دنوں تک اس ملاقات پر غور کرتارہا۔ آغا صاحب عجیب وغریب ہزار پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ میں نے ان کے چند ڈرامے پڑھے جو اغلاط سے پُر تھے اور نہایت ہی ادنےٰ کاغذ پر چھپے ہوئے تھے۔ جہاں جہاں کامیڈی آتی تھی وہاں پھکڑ پن ملتا تھا۔ ڈرامائی مقاموں پر مکاملہ بہت ہی زور دار تھا۔ بعض اشعار سوقیانہ تھے، بعض نہایت ہی لطیف، سب سے پُر لطف بات یہ ہے کہ ان ڈراموں کا موضوع طوائف تھا۔ جن میں آغا صاحب نے اس کے وجود کو سوسائٹی کے حق میں زہر ثابت کیا تھا۔۔۔۔۔۔ اور آغا صاحب عمر کے اس آخری حصے میں شراب چھوڑ کر ایک طوائف سے بہت پرجوش قسم کا عشق فرما رہے تھے۔ پنڈت محسن سے ایک دفعہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا۔’’ عشق کے متعلق تو میں نہیں جانتا۔ لیکن ترکِ شراب نوشی بہت جلد ان کو لے مرے گی۔‘‘
آغا صاحب تو کچھ دیر زندہ ہے لیکن پنڈت محسن یہ فرمانے کے تقریباً ایک ماہ بعد اس دنیا سے چل بسے۔
میں نے اب مختلف اخباروں میں لکھنا شروع کردیا تھا۔ چند مہینے گزر گئے۔ لوگوں سے معلوم ہوا کہ آغا حشر لاہور میں’’ رستم وسہراب‘‘ نام کا ایک فلم بنا رہے ہیں جس کی تیاری پر روپیہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ اس فلم کی ہیروئن جیسا کہ ظاہر ہے مختار تھی۔
امرتسر سے لاہور صرف ایک گھنٹے کا سفر ہے۔ آغا صاحب سے پھر ملنے کو جی تو بہت چاہتا تھا۔ مگر خدا معلوم ایسی کون سی رکاوٹ تھی کہ لاہور جاناہی نہ ہوسکا۔
بہت دنوں کے بعد باری صاحب نے بلایا تو میں لاہورگیا۔ وہاں پہنچ کر کچھ ایسا مشغول ہوا کہ آغا صاحب کو بھول ہی گیا۔ شام کے قریب ہم نے سوچا کہ چلو اُردو بک اسٹال چلیں چنانچہ میں اور باری صاحب دونوں عرب ہوٹل سے چائے پی کر ادھر روانہ ہوئے۔ اردو بک سٹال پہنچے تو میں نے دیکھا آغا صاحب یعسوب کے میز کے پاس کرسی پر بیٹھے ہیں۔ میں نے باری صاحب کو بتایا کہ آغا حشر ہیں۔ انہوں نے غور سے ان کی طرف دیکھا۔’’ یہ ہیں آغا حشر؟‘‘
آغا صاحب کا لباس اسی قسم کا تھا۔ سفید بوسکی کی قمیض، گہرے نیلے رنگ کا ریشمی لاچا، سر سے ننگے بیٹھے ایک کتاب کی ورق گردانی کررہے تھے۔ پاس پہنچا تو ایک دم میرا دل دھڑکنے لگا۔ کیونکہ آغا صاحب کے ہاتھ میں میری ترجمہ کی ہوئی کتاب’’سرگزشتِ اسیر‘‘ تھی۔
یعسوب نے اٹھ کر میرا اور باری صاحب کا آغا حشر سے تعارف کرایا اور کہا۔’’ یہ کتاب جو آپ دیکھ رہے ہیں مسٹر منٹو کی ترجمہ کی ہوئی ہے۔‘‘ آغا صاحب نے اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے پہچان لیں گے۔ لیکن انہوں نے مجھے دیکھنے کے بعد کتاب کے چند اوراق پلٹے اور کہا۔’’ کیسا لکھنے والا ہے وکٹر ہیوگو۔‘‘
باری صاحب نے جواب دیا۔’’فرانسیسی ادب میں وکٹر ہیوگا کا رتبہ بہت بلند ہے۔‘‘
آغا صاحب ورق پلٹتے رہے۔’’ڈراما ٹسٹ تھا؟‘‘
اب کی پھر باری صاحب نے جواب دیا۔’’ڈراما ٹسٹ بھی تھا۔‘‘
آغا صاحب نے پوچھا۔’’کیا مطلب؟‘‘
باری صاحب نے انہیں بتایا۔ کہ ہیوگو اصل میں شاعر تھا۔ فرانس کی رومانی تحریک کا نام۔ اس نے ڈرامے اور ناول بھی لکھے۔ ایک ناول’’ مصیبت زدہ‘‘ اتنا مشہور ہوا کہ اس کی شاعری کو لوگ بھول گئے اور اسے ناولسٹ کی حیثیت سے جاننے لگے۔‘‘ آغا صاحب یہ معلومات بڑی دلچسپی سے سنتے رہے۔آخر میں انہوں نے یعسوب سے کہا۔’’سرگزشتِ اسیر‘‘ بھی ان کتابوں میں شامل کرلی جائے جو وہ خرید رہے تھے۔ میں بہت خوش ہوا۔
اس کے بعد باری صاحب نے سے باتیں کرتے کرتے اٹھے اور اندر شو روم میں چلے گئے۔ باری صاحب کی گفتگو سے آغا صاحب متاثر ہوئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے باری صاحب کی سفارش پر کئی کتابیں خریدیں۔ اس دوران میں باری صاحب نے ان سے کہا۔’’آغا صاحب آپ ہندوستانی ڈرامے کی تاریخ کیوں نہیں لکھتے۔ ایسی کتاب کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
آغا صاحب نے جواب دیا۔’’ ایسی کتاب صرف آغا حشر ہی لکھ سکتا ہے۔ اس کا ارادہ بھی تھا۔ مگروہ کم بخت آج کل قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے دروازے پر موت دستک دے رہی ہے۔‘‘
میں نے ان سے پوچھا۔’’ آغا صاحب! آپ کے ڈرامے جو بازار میں بکتے ہیں۔‘‘ میں نے ابھی اپنا جملہ پورا بھی نہ کیا تھا کہ آغا صاحب نے بلند آواز میں کہا۔۔۔۔۔۔’’ لاحول ولا۔۔۔۔۔۔ آغا حشر کے ڈرامے اور۔۔۔۔۔۔کے چیتھڑوں پر چھپیں۔۔۔۔۔۔ بغیر اجازت کے اِدھر اُدھر سے سن سنا کر چھاپ دیتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے بہت ہی موٹی گالی ان پبلشروں کو دی جنہوں نے ان کے ڈرامے چھاپے تھے۔
میں نے ان سے کہا۔’’ آپ ان پر دعویٰ دائر کیوں نہیں کرتے۔‘‘
آغا صاحب ہنسے۔’’ کیا وصول کرلوں گا ان ٹٹ پونجیوں سے۔‘‘
بات درست تھی۔ میں خاموش ہوگیا۔
آغا صاحب نے باہر آکر یعسوب سے بل طلب کیا اور جیب سے تماش بینوں کے انداز میں تین چارہزارروپے کے بالکل نئے نوٹ نکالے۔ ان دنوں دس دس اور پانچ پانچ کے نئے نوٹ نکلے تھے۔جو پہلے نوٹوں کی بہ نسبت چھوٹے تھے۔۔۔۔۔۔ آغا صاحب نے بتایا کہ چیک کیش کرانے کیلئے جب بنک گئے تو وقت ہو چکا تھا۔ آپ نے کلرک سے کہا۔’’ آغا حشر کا وقت ابھی پورا نہیں ہوا۔ جلدی چیک کیش کراؤ۔‘‘
’’کلرک کو جب معلوم ہوا کہ آغا حشر ہیں تو وہ بھاگتا ہوا منیجر کے پاس گیا۔ فوراً ہی منیجر دوڑا دوڑا ان کے پاس آیا اور اپنے کمرے میں لے گیا۔ نئے نوٹ منگوا کر اس نے بڑے ادب سے آغا صاحب کو پیش کئے اور کہا۔’’ میں آپ کی اور کوئی سیوا تو نہیں کرسکتا۔ یہ نئے نوٹ آئے ہیں، سب سے پہلے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔‘‘
باری صاحب نے ایک نوٹ آغا صاحب سے لیا اور اُس کو انگلیوں میں پکڑ کر کہا۔’’ آغا صاحب گرفت کچھ کم ہوگئی ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح حکومت کی۔‘‘
آغا صاحب نے اس فقرے کی بہت داد دی۔’’ خوب، بہت۔۔۔۔۔۔ گرفت کچھ کم ہوگئی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح حکومت کی۔۔۔۔۔۔ میں کسی نہ کسی ڈرامے میں اسے ضرور استعمال کروں گا۔‘‘
باری صاحب بہت خوش ہو ئے اتنے میں وہ نوکر آیا وہی جو پنڈت محسن کے دفتر میں ازار بند لایا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں چار قندھاری انار تھے۔ آغا صاحب نے ایک انار لیا اور ناک بھوں چڑھا کرگالی دی’’۔۔۔۔۔۔ نہایت ہی واہیات انار ہیں۔‘‘
نوکر نے پوچھا۔’’واپس کر آؤں؟‘‘
آغا صاحب بولے۔’’ نہیں بے۔ تو کھالے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے ایک وزن دار گالی لڑھکا دی۔ آغا صاحب جانے لگے تو میں نے آٹو گراف بُک نکال کر ان کے دستخط لئے۔ آغا صاحب جب کانپتے ہوئے ہاتھ سے اپنا نام لکھ چکے تو کہا ۔۔۔۔۔۔’’ ایک زمانے کے بعد میں نے یہ چندحرف لکھے ہیں۔‘‘
میں امرتسر چلا آیا۔ کچھ عرصے کے بعد یہ خبر آئی کہ لاہور میں مختصر علالت کے بعد آغا حشر کاشمیری کا انتقال ہوگیا ہے۔ جنازے کے ساتھ گنتی کے چند آدمی تھے۔
دینو یا فضلو کمہار کی بیٹھک پر جب آغا صاحب کی موت کا ذکر ہوا تو اس نے نال کے پیسے نکال کر اپنی جالی دار ٹوپی میں رکھتے ہوئے بڑے ہی فلسفیانہ انداز میں کہا۔’’ بڑھاپے کا عشق بہت ظالم ہوتا ہے۔‘‘
 
Top