آغا حشرؔ کاشمیری کے نما ئن۔دہ ڈ را مے

الف عین

لائبریرین
آغا حشرؔ کاشمیری
کے نما ئن۔دہ ڈ را مے​
﴿ ترتیب وتصحیح ﴾
ڈاکٹر انجمن آرا انجمؔ
ایم ۔ اے(اردو ۔ انگریزی۔ عربی)
پی۔ ایچ۔ ڈی (اردو)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
 

الف عین

لائبریرین
انتساب

مرح۔۔۔وم وال۔۔دین
کے نام
جنھوں نے مجھے علم کی وہ شمعِ فروزاں
عطا کی جس کی روشنی میں
دینی‘ دینوی اور روحانی سعادت و مسرت
کے لازوال خزینوں تک
میری رسائی ہو سکی
انجمن آرا انجم
 

الف عین

لائبریرین
مقدمہ

ڈرامے کویونانی اورسنسکرت روایات میں قدیم زمانہ سے بڑی اہمیت حاصل رہی۔ ان روایات میں وہ مذہب کا بھی حصہ تھا اور شعری و ادبی سرمایہ کا بھی۔ لیکن دونوں ہی زبانوں میں یہ اپنے عروج تک پہنچ کر زوال کا شکار ہو گیا۔ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی یہ روایات آگے نہ بڑھ سکی۔ اردو شعرو ادب کا آغاز ہوا تو مختلف شعری ونثری اصناف پر توجہ دی گئی۔ لیکن ڈرامے کی طرف کوئی التفات نہ ہوا۔ اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں. لیکن شاید ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ڈراما لکھنے پڑھنے سے زیادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’کھیلنے ‘‘کا متقاضی ہوتا تھا جس میں مختلف کرداروں کا بہروپ بھرنا ہوتا تھا اور یہ کام بھانڈوں اورنقالوں سے وابستہ قرار دیا جاتا تھا اور متانت اور سنجیدگی کے خلاف۔ شایداسی لیے اربابِ قلم نے اس کو قابلِ اعتنانہ خیال کیا۔ تاآنکہ علم وادب کے رسیا، کھیل تماشوں کے شوقین، رقص و موسیقی کے دلدادہ اور جدت پسند طبع کے مالک نواب واجد علی شاہ کا اس طرف میلان ہوا۔ انھوں نے ’’رادھاکنھیا کا قصہ‘‘ کو ۱۸۴۳ء میں رہس کی شکل میں اسٹیج پرپیش کیا۔ خود اس میں کردار ادا کیا۔ اور بھی کئی رہس اس شاہی اسٹیج پر دکھائے گئے۔ اس طرح شاہی سرپرستی میں ڈراما کھیلا گیا۔ تو لوگوں کی جھجھک دور ہوئی اور جلد ہی اہل اردو ڈراما نگاری کی طرف مائل ہو گئے۔ دس سال کے اندر اندرہی امانت کی ’’اندر سبھا‘‘نے اسٹیج کی دنیامیں دھوم مچادی۔ اسی دوران تھیئٹر کا رواج شروع ہو گیا تھا۔ مغربی اثرات کے تحت بہت سی تھئیٹریکل کمپنیاں وجود میں آگئیں۔ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ابھر کر سامنے آئی۔
آغا حشرؔ (۱۸۷۹۔۱۹۳۵) اردو ڈرامے کی دنیا میں ایک بلند قامت حیثیت سے ابھرے۔ انھوں نے ڈرامے کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ انھوں نے مختلف تھئیٹریکل کمپنیوں میں کام کیا۔ اپنی کمپنی قائم کی، متواتر ڈرامے لکھے، خود ان کی ہدا یت کاری کی ا ور ڈرامے کھیلنے کے معیار کو بلندی بخشی۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے ماخوذ ہیں۔ انگریزی کے مقبول و معروف ڈراموں کو انھوں نے اردو جامہ پہنایا۔ انھوں نے کرداروں کے ناموں،مکالمات،گانوں اورڈراموں کی پوری فضا کو مشرقی رنگ میں ایسا رنگ دیا کہ کہیں اجنبیت اور پردیسیت کا احساس نہیں ہوتا۔ انھوں نے کرداروں کو ہندوستانی تہذیب و معاشرت میں اس طرح ڈھال دیا کہ وہ نامانوس نہیں معلوم ہوتے۔ اپنے چست مکالموں، اعلیٰ پایہ کے گانوں،بر جستہ گوئی اور زبان کے اعلیٰ معیار سے ان ڈراموں کو ادبی وقار بخشا۔
بیسویں صدی میں سنیما کا چلن عام ہونا شروع ہواتو تھئیٹراور اسٹیج پر پھر زوال کے سائے منڈلانے لگے۔ فلمیں عوامی دلچسپی اور تفریح کا ذریعہ بن گئیں۔ دھیرے دھیرے تھئیٹر کی عوامی مقبولیت ختم ہو گئی۔ ان ڈراموں کی طباعت واشاعت بھی معدو م ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ اب ان کا دستیاب ہونا مشکل ہے۔
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا یہ ڈرامے (جو تقریباً ایک صدی پر محیط ہیں) ہماری ادبی روایت کا اہم حصہ ہیں۔ ان کو محفوظ رکھنا اور ان کا ادبی مطالعات میں شامل رکھنا ہمارا فرض ہے ۔تھئیٹر کا رواج ختم ہونے کے باوجود ہم ان ڈراموں سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔ بالکل اسی طرح جیسے قصیدے کا ماحول ختم ہونے کے باوجود ہم اس کے مطالعہ کو نظرانداز نہیں کر سکتے یا کلاسیکی غزل کو ادبی مطالعہ سے خارج نہیں کر سکتے۔لیکن اگر متون ہی دستیاب نہ ہوں تو پھرکوئی بھی مطالعاتی کوشش نہیں کی جاسکتی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دور کے اُن تمام ڈراموں کے متون مہیا کرائے جائیں جن کی اپنے زمانہ میں عام مقبولیت رہی تاکہ یہ ادبی مطالعہ کے لیے بنیا د فراہم کریں۔ ا س کے بغیر ہماری ادبی تاریخ تشنہ رہ جائیگی۔

ڈاکٹر انجمن آرا انجم ؔجن کے تحقیقاتی کاموں کا مرکز و محور آغا حشر اور ان کے ڈرامے رہے ہیں، مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انھوں نے حشر کے تین ڈراموں ............سفید خون،یہودی کی لڑکی اور رستم و سہراب کے معتبر متون پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہت ہی دشواریوں کے باوجود،بقول مؤلفہ،’’ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ ان نقائص و اسقام سے پاک حشر کے ڈراموں کا صحیح متن پیش کر دیں۔ چنانچہ جو اشعار یا گانے وزن سے گرے ہوئے نظر آئے اُن کا وزن درست کر دیا گیا ہے۔،مقفیٰ عبارتوں میں جہاں جھول نظر آیا، اسے نکال دیا گیا ہے۔ مکا لموں کے غلط انتساب کی تصحیح کر دی گئی ہے۔الفاظ او فقرے اگر رہ گئے ہیں تو انھیں فراہم کر دیا گیا ہے اور اگر عبارت میں کسی طرح کا اضافہ دخیل ہو گیا ہے تو اسے خارج کر دیاگیا ہے۔‘‘
ابتدائی تین ابواب ڈرامے کی مختصر تاریخ ، آغا حشر کے حالاتِ زندگی اور آغا حشر کے فن پر گفتگو کے لیے وقف کیے گئے ہیں۔ آخر میں تینوں ڈراموں کا متن دیا گیاہے۔ ہرڈرامے کے شروع میں قصہ کا خلاصہ، اس کا مختصر تعارف اور اس پر تبصرہ بھی لکھا گیا ہے جس سے اس پیش کش کی افادیت بڑھ گئی ہے۔
مؤلفہ نے ایک اہم ضرورت کی تکمیل کی بنیاد ڈالی ہے۔ممکن ہے حشر کے باقی ڈراموں کے متون بھی وہ مرتب کر سکیں اور یہ اس بات کا پیش خیمہ بن جائے کہ دوسرے محققین دوسرے ڈراما نگاروں کے ڈراموں کے متون کی تدوین و ترتیب کا کام انجام دے سکیں۔

پروفیسر عتیق احمد صدیقی
سابق صدر شعبۂ اردو
اور
ڈین فیکلٹی آف آرٹس
اے ۔ایم ۔ یو۔ علی گڑھ
 

الف عین

لائبریرین
عرضِ مر تِّب

آغا حشرؔ کاشمیری پر تحقیق کے دوران اُن کے ڈراموں کے متن میں جو دشواریاں پیش آئیں ان کو مدِّنظررکھتے ہوئے میری خواہش اور کوشش رہی کہ میں حشر کے چند ڈراموں کو تمہید وتعارف کے ساتھ اس طرح مرتب کروں کہ وہ اردو ادب کے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طالب علموں کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ہی عام قاری کے لیے بھی علمی وادبی نقطۂ نظر سے مفید ثابت ہو سکیں ۔ مذکورہ امور کے پیش نظر آغا حشرؔ کاشمیری کے تین ڈرامے ’’سفید خون‘‘ ’’یہودی کی لڑکی‘‘ اور ’’رستم وسہراب یا عشق وفرض‘‘ صحیح متن کی امکانی کوشش کو برروئے کار لاتے ہوئے تمہید وتعارف کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔
ان ڈراموں کے انتخاب میں اس امر کو خاص طور سے ملحوظ رکھا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی اعتبار سے آغا حشرؔ کی ڈراما نگاری کے فن کی نمائندگی کرتے ہوں اور ان سے حشرؔکی زبان وبیان ،کردار نگاری ، جودتِ طبع، فنّی عور ، طرزِ ادا، موضوع پر قابو،ڈراما نگاری کو نئی جہتوں سے روشناس کرانے کی صلاحیت، ہمہ جہتی علمیت، مختلف زبانوں پر عبور اور متنوع تقاضوں سے عہدہ بر آہو نے کی قابلیت کے بارے میں قاری کو بصیرت حاصل ہو سکے اور وہ آغا حشرؔ کے فن کے بارے میں خود اپنی رائے قائم کر سکے ۔ ان ڈراموں کے متن کی تصحیح میں ہر ممکن کوشش کی گئی ہے اور خیال رکھا گیا ہے کہ تصحیحِ متن کا کوئی تقاضا تشنہ نہ رہ جائے ۔ آغا حشرؔ کے ڈراموں کی تصحیح کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جس کی وجہ سے مختلف لائق مرتّبین کی جد وجہد کے باوجود آج تک حشرؔ کے ڈرامے کامل تصحیح کے ساتھ شائع نہ ہو سکے ، یہ رہی ہے کہ ان کے اصل نسخوں کی دستیابی نہ صرف بیحد دشوار بلکہ بعض اوقات ناممکن ہے۔
آغا حشرکو اردو، ہندی اور فارسی(تینوں زبانوں ) پر عبورحاصل تھا۔ وہ عوامی نیز عامیانہ بولی ٹھولی کے بھی رمز شناس تھے ۔ چنانچہ وہ بڑی بے تکلفی سے ان زبانوں اور بولیوں کے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو بعض اوقات مصحّح کے لیے پریشان کن ثابت ہوتے ہیں ۔ ان کے پیش کردہ اشعار یا مقفیٰ عبارتوں میں بھی طباعت وتصحیح کی غلطیاں راہ پاتی رہی ہیں۔بعض اوقات ان ڈراموں میں اس قدر تصحیحا ت وتحریفات ہوئی ہیں کہ کسی کردار کا مکالمہ کسی دوسرے کردار سے منسوب ہو گیا ہے۔بعض ایڈیشنوں میں عبارتیں اور فقرے حذف ہو گئے ہیں ۔ اشعار وزن سے گر گئے ہیں۔ رموزِ اوقاف کے بالعموم عدم استعمال سے عبارت کے صحیح فہم میں دشواری پیدا ہو گئی ہے ۔ باوجود مذکورہ بالا دشواریوں کے ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ اِن نقائص واسقام سے پاک حشر کے ڈراموں کا صحیح متن پیش کر دیں تاکہ طلبہ اور عام قاری کے لیے ان سے استفادہ آسان ہو جائے ۔ چنانچہ جو اشعار یا گانے وزن سے گرے ہوئے نظر آئے ان کا وزن درست کر دیا گیا ہے ۔ مقفیٰ عبارتوں میں جہاں جھول نظر آیا اسے نکال دیا گیا ہے ۔ مکالموں کے غلط انتساب کی تصحیح کر دی گئی ہے۔ الفاظ اور فقرے اگر رہ گئے ہیں تو انھیں فراہم کر دیا گیا ہے اور اگر عبارت میں کسی طرح کا اضافہ دخیل ہو گیا ہے تو اسے خارج کر دیا ہے ۔ ہر سقم اور غلطی سے پاک عبارت اور کلام تو صرف اللہ کاہی ہے تاہم خاصے اطمینان سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آغا حشرؔ کے یہ ڈرامے اپنی صحیح ترین شکل میں پیش کیے جارہے ہیں۔غلطیوں کی نشان دہی کے لیے میں اپنے کرم فرماؤں کی ممنون ہوں گی۔
تصحیحِ متن کے ساتھ مختصر طور پر اردو ڈرامے کاپس منظر، آغا حشرؔ کے اہم سنگِ میل ، ڈرامے کے فن کی ترقی میں ان کا حصہ ، نیز پیش کردہ ڈراموں کی خصوصیات پر بھی اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ اپنی اس شکل میں یہ مجموعہ ان مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوگا جن کو پیشِ نظر رکھ کر یہ حقیر کوشش کی گئی ہے ۔
میں ان تمام حضرات کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں جنھوں نے ان ڈراموں کی ترتیب و تصحیح سے لے کراشاعت تک کے مراحل طے کرنے میں میری معاونت کی اور رہنمائی فرمائی۔سچ تو یہ ہے کہ ان کی توجہ اورمدد کے بغیر ڈراموں کے اس مجموعے کا شائع ہونا ممکن نہ تھا۔ میں فخرالدین علی احمد کمیٹی لکھنؤ کی بیحد ممنون ہوں جس کے مالی تعاون سے یہ مجموعہ منظرعام پر آسکا۔

انجمن آرا انجمؔ
حریم سابق ریڈر(اردو) ویمنس کالج
بالمقابل جٹاری ہاؤس علی گڑھ مسلم یونورسٹی
دودھ پور ، علی گڑھ ۲۰۲۰۰۲
 

الف عین

لائبریرین
اردو ڈرامے کا آغاز وارتقا
ہندوستان میں ڈرامے کی روایت قدیم بھی ہے اور عظیم بھی۔ اس کی ابتدا کی نشان دہی چوتھی صدی قبل مسیح کی جاتی ہے ۔ ڈراما ہند آریائی تہذیب کا ایک اہم جزو رہا ہے ۔ قدیم آریائی تہذیب جب اپنے عروج پر تھی تو اس کے ساتھ سنسکرت ڈراما بھی اپنی تمام تر لطافتوں اور نزاکتوں ، فنّی رچاؤ، اعلیٰ ادبی معیار ، اخلاقی اقدار اور اپنی مخصوص روایات کو اپنے دامن میں سمیٹے درجۂ کمال کو پہنچ چکا تھا لیکن آریائی تہذیب ومعاشرت کے زوال کے ساتھ ساتھ سنسکرت ڈرامے پر بھی انحطاط کے بادل چھا گئے ۔ سنسکرت زبان اور اس کا ادب درباری سرپرستی سے محروم ہو گیا ۔ اِدھر سنسکرت عوامی زبان کبھی نہ تھی ۔ اس دوگونہ صورتِ حال کے نتیجے میں سنسکرت ڈرامے کا خاتمہ ہو گیا ۔ دوسری علاقائی اور مقامی پراکرتوں میں ڈرامے کے آرٹ کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت نہ تھی۔لہٰذا عوام نے اپنی دلچسپی اور تفریحی شوق کی تسکین کے لیے رام لیلا، کرشن لیلااور اسی طرح کے دوسرے مذہبی، عشقیہ اور معاشرتی کھیلوں کا سہارا لیا ۔ ان تماشوں اورکھیلوں کے لیے نہ کوئی مخصوص عمارت ہوتی تھی اور نہ کوئی باقاعدہ اسٹیج ہوتا تھا بلکہ یہ میدانوں یا سڑکوں پر کھیلے جاتے تھے۔ ان کی مروّجہ صورتیں سوانگ ، بہروپ اور نوٹنکی وغیرہ تھیں۔ ان میں نہ توفنی اصولوں کو ملحوظ رکھا جاتا تھا اور نہ دیکھنے والوں کے نزدیک تفریحِ طبع کے علاوہ کوئی اہمیت تھی ۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دورِ حکومت میں ڈرامے کی صنف پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جب کہ دوسرے علوم وفنون کی ترویج وترقی میں مسلمان حکمرانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کا بڑا سبب غالباً یہ تھا کہ نہ تو عربی وفارسی ڈرامے کی کوئی روایت ان کے سامنے تھی اور نہ سنسکرت ڈرامے کی روایت ہی باقی تھی ، لہٰذا ڈراما ان کی سرپرستی سے محروم رہا۔
ڈرامے کے اس پس منظر پر غور کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو ڈراما کسی روایت کے تسلسل کے طور پر نہیں بلکہ اپنے مخصوص حالات اور اسباب وعوامل کے تحت وجود میں آیا ۔ اردو ڈرامے کا آغاز انیسویں صدی کے وسط سے ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے اس کی عمر بہت مختصر ہے ۔ اردو کے تقریباً تمام محققین ، مسعود حسن رضوی ادیب کے اس خیال سے متفق ہیں کہ نواب واجد علی شاہ اردو کے پہلے ڈراما نگار ہیں اور ان کا رہس ’’رادھا کنھیّا کا قصہ‘‘ اردو ڈرامے کا نقشِ اول ۔ (۱) یہ رہس واجد علی شاہ کی ولی عہدی کے زمانے میں ’قیصر باغ‘ میں ۱۸۴۳ء میں بڑی شان سے کھیلاگیا۔ واجدعلی شاہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فنِ موسیقی، رقص وسرود اور آرٹ کے بڑے دلدادہ اور مدّاح تھے۔’’رادھا کنھیّاکا قصہ ‘ ‘کے علاوہ واجد علی شاہ کے دوسرے رہس بھی بڑی آن بان سے شاہی اسٹیج پر دکھائے گئے ۔
ایک طرف واجد علی شاہ کے رہس تھے جو ’’قیصر باغ‘‘ کی چہار دیواری تک محدود تھے تو دوسری طرف تقریباً کچھ ہی عرصے بعد یعنی ۱۸۵۳ء میں سید آغا حسن امانتؔ کا ’’اندر سبھا‘‘ عوامی اسٹیج پر پیش کیا جارہا تھا۔گو تاریخی لحاظ سے واجد علی شاہ کے رہس کو امانت کے اندر سبھا پر تقدم حاصل ہے لیکن بے پناہ شہرت ، ہر دلعزیزی اور قبولِ عام کی سند ’’اندرسبھا‘‘ کے حصے میں۔ آئی مسعود حسن رضوی ادیبؔ لکھتے ہیں ’’اندر سبھا اردو کا پہلا ڈراما نہیں ہے لیکن اس سے اُ س کی تاریخی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی ، وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو عوامی اسٹیج کے لیے لکھا اور کھیلا گیا ۔ وہ پہلا ڈراما ہے جس کو عام مقبولیت نے ملک میں شہر شہر اور اودھ میں گاؤں گاؤں پہونچادیا۔ وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو چھپ کر منظرِعام پر آیا اور سینکڑوں مرتبہ شائع ہوا۔ وہ اردو کا پہلا ڈراما ہے جو ناگر ی، گجراتی اورمراٹھی خطوں میں چھاپا گیا‘‘(۲) ۔
’’اندر سبھا‘‘ کی کامیابی اور شہرت کے زیرِ اثر اسی انداز کے پلاٹ اور طرز پر لکھنؤ اور دوسرے مقامات میں کئی سبھائیں اور ناٹک لکھے گئے۔ اندر سبھا (مداری لال)،فرخ سبھا، راحت سبھا۔(راحت)، جشن پرستان، ناٹک جہانگیر، عشرت سبھا ، گلشن بہار افزا اور لیلیٰ مجنوں وغیرہ وغیرہ۔ امانت کے ’’ اندر سبھا‘‘ کے بعد مداری لال کا’’ اندر سبھا‘‘ سب سے زیادہ مقبول ہوا۔
ڈھاکہ میں ’’اندر سبھا‘‘ کی بدولت اردو تھئیٹر نے ترویج وترقی کی کئی منزلیں طے کیں،کئی تھئیٹریکل کمپنیاں وجود میں آئیں جن کے پیشِ نظر عوام کی تفریح کے ساتھ تجارتی مفاد بھی تھا ۔ شیخ پیربخش کانپوری نے اندر سبھا کے طرز پر ایک ناٹک’’ ناگر سبھا ‘‘ لکھا جسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ شیخ فیض بخش کی کمپنی فرحت افزاتھئیٹریکل کمپنی، جس نے بہت سے کھیل دکھائے تھے ’’ناگر سبھا‘‘ کو اسی نے کھیلا(۳)۔ ماسٹر احمد حسن وافرؔ کا ڈراما ’’بلبلِ بیمار‘‘ ڈھاکہ کی ڈرامائی تاریخ میں نیا موڑ اور ایجاد پسندی کا نیا باب تسلیم کیا جاتا ہے، اس ڈرامے میں پہلی بار نظم کے ساتھ مکالموں میں سلیس وشستہ نثر کو شامل کیا گیا اور اس کے گانوں کا انداز بھی بدلا ہوا تھا ‘‘(۴)۔
اردو ڈرامے کا دوسرا اہم مرکزبمبئی تھا۔ جس زمانے میں شمالی ہندوستان یعنی اودھ اور اس کے مضافات میں اندرسبھادکھایا گیا تقریباً اسی زمانے میں اندر سبھا بمبئی کے اسٹیج پر پیش کیا گیا اور اسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی (۵)۔
اردو ڈراما پارسی اربابِ ذوق کی سرپرستی میں پروان چڑھا۔ انھوں نے اردو ڈرامے کی قابلِ قدر خدمات انجام دیں ۔ ڈرامے کے فن سے دلچسپی اور مالی منفعت کے پیشِ نظر پارسیوں نے بڑی بڑی تھیئڑیکل کمپنیاں قائم کیں جن کے اپنے ڈراما نگار ‘ڈا ئرکٹر اور کام کرنے والے ہوتے تھے ۔ زیادہ تر ڈراموں کا موضوع وفاداری،سچائی اورشرافت ہوتا تھااوران کے قصے دیومالا، قرونِ وسطیٰ کی داستانوں اور شیکسپیر کے ڈراموں پر مبنی ہوتے تھے ۔
انیسویں صدی کے آخر تک ڈرامے کے فن کو نہ تو سنجیدگی سے محسوس کیا گیا اور نہ اسے سراہا گیا ۔ امانتؔ اور مداری لال کے اندر سبھا کے تتبع میں جو ڈرامے لکھے گئے وہ زیادہ تر منظوم ہوتے تھے ۔ بیچ بیچ میں دادرے اورٹھمریاں ہوتیں۔رقص وسرود پر زور دیا جاتا تھا ۔جن کمپنیوں کے لیے ڈرامے لکھے جاتے تھے وہ خالص تجارتی نقظۂ نظرسے شہرشہرکے دورے کرتیں ۔ اس زمانے میں اردو اسٹیج پر منشی رونقؔبنارسی ، حافظ عبداللہ،نظیر بیگ اورحسینی میاں ظریف چھائے ہوئے تھے۔ منشی رونقؔ بنارسی، پارسی وکٹوریہ تھیئڑیکل کمپنی کے خاص ڈراما نگار تھے ۔ ان کے ڈراموں میں ’’بے نظیر بدرِ منیر ‘‘ ’’ لیلیٰ مجنوں ‘‘ ’’ نقشِ سلیمانی ‘‘ ’’سنگین بکاؤلی ‘‘ ’’ عاشق کا خون ‘‘ اور’’ فسانۂ عجائب عرف جانِ عالم انجمن آرا ‘‘ وغیرہ مشہور ہوئے ۔
حسینی میاں ظریفؔ، پسٹن جی فرام جی کی پارسی اوریجنل کمپنی کے ڈرامانگار تھے ، ان کے ڈراموں میں’’ خدا دوست‘‘ ’’چاند بی بی‘‘ ’’شیریں فرہاد‘‘ ’’حاتم طائی‘‘ ’’چراغ اللہ دین‘‘ ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ اور ’’علی بابا‘‘ کو خاص شہرت ملی ۔
حافظ عبد اللہ ’لائٹ آف انڈیا تھیئڑیکل کمپنی سے وابستہ رہے ۔ یہ انڈین امپیریل تھیٹریکل کمپنی فتحپور کے مالک بھی تھے ۔ حافظ عبداللہ کے ڈراموں میں ’’عاشق جانباز‘‘ ’’ہیر رانجھا‘‘ ’’نور جہاں‘‘ ’’حاتم طائی‘‘ ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ ’’جشن پرستان‘‘ وغیرہ مشہور ہوئے ۔
نظیر بیگ ، حافظ عبداللہ کے شاگرد تھے ۔ یہ آگرہ اور علی گڑھ کی تھئیٹریکل کمپنی ’’دی بے نظیر اسٹار آف انڈیا‘‘ کے مہتمم تھے ۔ ان کے مندرجہ ذیل ڈرامے مقبول ہوئے۔ ’’نل دمن‘‘ ’’گلشن پا کد امنی عرف چندر اؤلی لاثانی‘‘ اور’’نیرنگِ عشق حیرت انگیز عرف عشق شہزادہ بے نظیرومہرانگیز‘‘ وغیرہ۔
ان سب ڈراما نگاروں کے یہاں چند باتیں مشترک ہیں ۔ موضوعات اور پلاٹ یکساں ہوتے ہیں ۔ ان میں کوئی تنوع نہیں پایاجاتا ۔ گانوں ‘ غزلوں اور منظوم مکالمات کی بھر مار ہے ، مقفیٰ نثر کا استعمال کثرت سے ہے ،کردار نگاری کا شعور اور فنی کاریگری کا احساس تقریباً مفقود ہے ، البتّہ ایک با ت ضرور پائی جاتی ہے وہ یہ کہ ان ڈراموں میں نظم کے ساتھ ساتھ نثر کا استعمال ہونے لگا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں پارسی تھیئٹر میں بعض ایسے ڈراما نگار شامل ہو گئے جنھوں نے اردو ڈرامے کی روایت کو آگے بڑھایا اور اس میں چند خوش گوار اور صحت مند تبدیلیاں لاکر اسے نئی جہتوں سے آشنا کیا ۔ ڈرامے کے معیار کو بلند کیا۔ اسے معاشرتی موضوعات اورسنجیدہ عناصر سے روشناس کرا یااورکسی حد تک فنّی شعور کا ثبوت دیا۔اس دور کے ڈراما نویسوں میں ونائک پرشاد طالبؔ بنارسی، مہدی حسن احسنؔ لکھنوی اور پنڈت نرائن پرشاد بیتابؔ بنارسی کے نام قابلِذکر ہیں ۔
طالبؔ بنارسی نے اپنے ڈراموں میں نظم سے زیادہ نثرکااستعمال کیا۔طالبؔ وہ پہلے ڈراما نگار ہیں جنھوں نے ہندی میں گیت نہ لکھ کر اردو میں لکھے اور یہ ثابت کر دیا کہ آسان اردو میں بھی گیت لکھے جاسکتے ہیں ۔ طالب کے ڈراموں میں’’نگاہِ غفلت‘‘’’گوپی چند‘‘’’ہریش چندر‘‘اور’’لیل ونہار‘‘مشہور ہوئے ۔ ان میں سب سے زیادہ مقبول اور اہم ڈراما ’’لیل ونہار‘‘ ہے ۔ امتیاز علی تاج اس ڈرامے کی کامیابی کا آنکھوں دیکھا حال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ’’نیو الفریڈ‘‘ میں ’’لیل ونہار‘‘ بڑے سلیقے سے پیش کیا جاتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس کی پروڈکشن میں جو باتیں وکٹوریہ کمپنی نے پیدا کی تھیں وہ سب نیو الفریڈ میں بھی برقرار رکھی گئی تھیں‘‘۔
’’سادہ زبان میں لکھا ہوا یہ ڈراما اس نوع کے ساز وسامان کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا تو اچھی خاصی گھریلو فضا پیدا ہو جاتی اور اپنی اس خصوصیت کے پیشِ نظر یہ کھیل دوسرے تماشوں میں ممتاز نظر آتا تھا ۔ اس کھیل کے گانوں میں ہندی کے بجائے اردو کے الفاظ پہلی بار استعمال کیے گئے تھے ۔ میرے خیال میں بلا تکلف کہاجاسکتاہے کہ تھیئٹرکے گانوں میں یہ جدّت ایک قابلِ قدر تجربے کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔وہ مزیدلکھتے ہیں’’ اس ڈرامے کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اردو کے پہلے ڈراموں کی طرح اس کا تعلق بادشاہوں اور نوابوں کی زندگی سے نہیں بلکہ ایک متمول شخص کے خاندانی واقعات سے ہے اور سب واقعات اس نوع کے ہیں جن میں کوئی بھی انوکھی یا عجوبہ بات نہیں ‘‘(۶)۔
ابھی اسٹیج پر طالبؔ کے ڈراموں کی گوبخ ختم نہ ہونے پائی تھی کہ احسنؔ لکھنوی اسٹیج پر چھاگئے ۔ انھوں نے سب سے پہلے اپنے نانا مرزا شوقؔ لکھنوی کی مثنوی ’’زہرِعشق‘‘ کو ’’ دستا و یزِ محبت‘‘ کے نام سے ڈرامے کی صورت میں ۱۸۹۷ء میں پیش کیا ۔ ان کے ڈرامے ’’ چند راؤلی‘‘ کی کامیابی کے بارے میں ڈاکٹر نامی تحریر کرتے ہیں کہ ’’احسنؔنے چند راؤلی لکھا جو لکھنؤ ہی میں پہلی بار اسٹیج ہوا اور بہت کامیاب رہا ۔ احسنؔ لکھنوی کی یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ انھوں نے اپنے وطن ہی میں شہرت حاصل کی‘‘(۷)۔
احسنؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے شیکپیر کے ڈراموں کو اردو قالب میں ڈھال کر فنِ ڈراما نگاری کو ایک نیا موڑ دیا۔ حالانکہ احسنؔ سے پہلے ہی یہ کام شروع ہو گیا تھا مگر صحیح معنی میں شیکسپیرکو متعارف کرانے کا سہرا انھیں کے سر ہے ۔ بقول امتیاز علی تاج’’ داستانی انداز کے ان راگ ناٹکوں کی یکساں روش سے نمایاں اختلاف مہدی حسن احسنؔ لکھنوی کے ڈراموں میں ملتا ہے ۔ میری دانست میں ان کی تصنیفات میں زیادہ اہمیت ان ڈراموں کو حاصل ہے جو انگریزی سے ماخوذ ہیں۔ یہ اس لیے کہ انگریزی ڈرامے بھلے بُرے طور پر جیسے بھی اپنائے گئے ہیں ان کے ذریعہ ہماری زبان کم از کم پلاٹ کی صحیح تعمیر سے روشناس ہوئی۔ احسنؔ کے ڈرامے پرانے راگ ناٹکوں سے نمایاں طور پر مختلف اور زیادہ دلچسپ اور موثر ہیں ۔ ان کا پلاٹ ڈرامے کا پلاٹ تھا۔ کردار نگاری میں حقیقت نظر آتی تھی۔ زبان مقابلتہً بے تکلف تھی اور ان میں ایکڑوں کے لیے ایکٹ کرنے کی گنجائش موجود تھی‘‘(۸)۔ ان کے ڈراموں میں ’’چند راؤلی‘‘ ’’خونِ ناحق عرف مارِ آستین (ہیملٹ)‘‘ ’’بزمِ فانی (رومیوجولیٹ)‘‘ ’’دلفروش (مرچنٹ آف وینس)‘‘ ’’بھول بھلیاں(کامیڈی آف ا یررز)‘‘ اور ’’اوتھیلو‘‘ بہت مشہور ہوئے ۔ احسنؔ نے ڈرامے کی زبان اور نظم ونثردونوں کونکھارا اورسنوارا، مکالموں کو دلکش بنایا اور انھیں ادبی رنگ وآہنگ بخشا، پلاٹ کی تعمیر پر زور دیا اور فنّی تدبیرگری سے کام لیا۔
بیتابؔنے اردو،ہندی دونوں زبانوں میں ڈرامے لکھ کراپنی صلاحیت کے جوہر دکھائے اور خوب شہرت حاصل کی ۔ ان کا پہلا ڈراما ’’قتلِ نظیر‘‘ ہے جو ۱۹۱۰ء میں الفریڈ تھیئٹریکل کمپنی نے اسٹیج کیا ۔ یہ ڈراما پہلا ڈراما ہے جو کسی حقیقی واقعہ یعنی طوائف نظیر جان کے قتل پر مبنی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ بیتابؔ کو اردو ہندی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔ انھوں نے اردو ڈرامے میں ہندو دیومالا کے بعض اہم واقعات کو از سرِنو زندہ کیا لیکن انھوں نے مکالموں میں جہاں عربی وفارسی کے الفاظ وتراکیب کے ساتھ ہندی اور سنسکرت کے الفاظ وتراکیب کا استعمال کیا ہے وہاں زبان بوجھل اور غیر فصیح ہو گئی ہے ۔ ہا ں جہاں سادہ اردو اور ہندی اور ہلکی پھلکی زبان استعمال کی ہے وہاں لطف وا ثر نمایاں ہے۔ بیتابؔ کے ڈراموں میں ’’ قتلِ نظیر‘‘ ’’زہری سانپ‘‘ ’’گورکھ دھندا‘‘ ’’امرت‘‘ ’’میٹھا زہر‘‘ ’’شکنتلا‘‘ ’’مہابھارت‘‘ ’’ رامائن ‘‘ اور ’’ کرشن سداما‘‘ خاص شہرت کے مالک ہیں۔ ’’مہابھارت‘‘ کی مقبولیت اور پسندیدگی کے بارے میں امتیاز علی تاج کا خیال ہے ’’لیکن الفریڈ بڑے معرکے کا جوکھیل تیارکر کے لاہور آئی تھی وہ بیتابؔ کا مہابھارت تھا ۔ اس کھیل کو اعلیٰ ڈرامے اور اس کی قابلِ قدر پیش کش کے معیار پر جانچنا بیکار ہے ۔ اسے کامیاب بنانے کے لیے اس وقت کی تھیئٹرکی دنیا کے بہترین دماغوں سے کام لیا گیا۔ سین سینری استاد حسین بخش نے بنائی تھی جن کا ثانی برِّصغیرکاتھیئٹرپھرکبھی پیدا نہ کر سکا ۔ تماشے کی طرزیں استاد جھنڈے خاں نے بنائی تھیں ۔ بر صغیر کے تھیئٹرکی دنیا میں ان سے بڑا موسیقی کا استاد کوئی نہیں گزرا۔ مہا بھارت کو اگر ڈرامے اور پیشکش کے صحیح معیار پر پرکھا جائے تواس کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔البتہ میوزیکل کامیڈی کی خصوصیات، نمائش، تحیر خیزی اور نغمہ سرائی کو موثر بنانے کے لیے کوئی کوشش نہ تھی جو اٹھا رکھی گئی ہو (۹)۔
اس میں شک نہیں کہ مذکورہ بالا ڈراما نویسوں نے اردو ڈرامے کی ترقی اور اسٹیج کی آراستگی میں قابلِ قدر کارنامے انجام دیے لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ ان ڈراما نگاروں کے یہاں فنّی مہارت اور تدبیر کاری کی خامی پائی جاتی ہے ۔ اس خامی کو بڑی حد تک دور کرنے والے ڈراما نگار ہیں آغا حشرؔ کاشمیری جنھوں نے اپنے تخلیقی شعور اور جدّت پسند طبیعت کی بدولت اپنے دور کی ڈراما نگاری کی پامال روش سے بلند ہوکر فنّی ارتقا کی اعلیٰ کاریگری کے نمونے پیش کیے اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک مخصوص دور کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی اپنے پیش روؤں اور ہمعصروں میں سب سے زیادہ ممتاز ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
آغ۔احشرؔکاشمیری کے حالاتِ زندگی اورشخصیت
آغا محمد شاہ نام ، حشرؔ تخلص ، والدکا اسمِ گرامی آغا غنی شاہ تھا۔ آغا غنی شاہ کے ماموں سید احسن اللہ شاہ اور بڑے بھائی عزیزاللہ شاہ شالوں کی تجارت کے سلسلے میں سری نگر سے بنارس آئے اور پھر یہیں مستقل سکونت اختیار کی ۔سید احسن اللہ شاہ نے کچھ عرصہ بعد آغا غنی شاہ کو بھی بنارس بلا لیا اور اپنی سالی سے شادی کر دی ۔ آغا حشرؔ کی پیدائش یکم ا پریل ۱۸۷۹ ء کوبنارس میں ہوئی۔
حشرؔ کے برادرِخورد آغا محمودشاہ کاشمیری حشرؔکی پیدائش کے بارے میں لکھتے ہیں ’’آغا محمد شاہ حشرؔ یکم ا پریل ۱۸۷۹ء جمعہ کے روز ناریل بازار محلہ گوبند کلاں شہر بنارس میں پیدا ہوئے۔ زندگی بھر انھوں نے اپنی وطنیت کو اپنی ذات سے علیحدہ کرنا پسند نہ کیا اور خود کو ہمیشہ کاشمیری کہتے اور لکھتے رہے ‘‘۔ (۱۰)
حشرؔکی عربی وفارسی کی تعلیم گھر پر ہوئی اور انگریزی تعلیم انھوں نے جے نرائن مشن اسکول بنارس میں حاصل کی ۔
آغا حشرؔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ نہ صرف اعلیٰ درجے کے مایۂ ناز ڈراما نگار تھے بلکہ باکمال شاعر ، شعلہ بیان مقرر اور خطیب بھی تھے ۔ ان کی تعلیم تو واجبی ہی تھی مگر ذاتی مطالعے کی بنا پر انھوں نے اردو ، فارسی اور ہندی میں فاضلانہ استعداد حاصل کر لی تھی ۔ ان زبانوں کے علاوہ انھیں عربی ، انگریزی، گجراتی اور بنگلہ کی بھی خاصی واقفیت تھی۔انھیں مطالعے کا بے انتہا شوق تھا،یہاں تک کہ جس پڑیا میں سودا آتا تھا اس کو بھی پڑھ ڈالتے تھے۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ حافظہ بھی بلاکاپایاتھا۔یہی وجہ تھی کہ مختلف موضوعات پر بڑے اعتماد اوربے تکلّفی سے گفتگو کرتے خواہ وہ موضوعات ادب سے متعلق ہوتے یا مذہب سے یا سیاست سے ۔
حشرؔ مشرقی تہذیب کے دل دادہ تھے ۔ مغربی تہذیب سے انھیں سخت نفرت تھی۔ملک کی سیاسی اورقوم کی زبوں حالی پر ان کا حسّاس دل تڑپ اٹھتاتھا۔ حب الوطنی اور حصولِ آزادی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ مغربی تہذیب ومعاشرت کی کورانہ تقلید انھیں انتہائی نا پسند تھی ۔ ان کے کئی ڈرامے ان نظریات کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ حشر ایک طرف مشرقی اقدار کے پرستار اور دوسری طرف جذبۂ اسلام سے سرشار تھے۔’’شکریۂ یورپ‘‘ اور ’’موجِ زمزم‘‘ ان کی وہ بے مثال نظمیں ہیں جن کا ایک ایک لفظ اسلام سے محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔ یہ نظمیں زبان وبیان ، فنّی کاریگری ، ادبی لطافت اور ابلتے ہوئے جذبات کا حسین امتزاج اور شاہکار ہیں۔ان نظموں میں علامہ اقبالؔ کا رنگ غالب ہے ۔
آغا حشرؔ کے زورِخطابت اورتقریرکا ا عتراف ان کے دوست تو کرتے ہی تھے مگر حریف بھی ان کی قابلیت کا لوہا مانتے تھے۔ ’’انجمن حمایتِ اسلام‘‘ لاہور کے جلسوں اور بمبئی کی مجالسِ مناظرہ میں روح پرور تقریروں کی بدولت حشرؔ سامعین کے دلوں پر چھا جاتے ۔ مناظروں میں مبلغین اور آریہ سماجیوں کے چھکّے چھڑا دیتے ۔ ان مناظروں میں حشرؔ کے ساتھ مولانا ابو الکلام آزاد ، سجّادؔ دہلوی، خوا جہ حسنؔ نظامی، مولانا ابوالنصرؔ اور نذیرحسین سخاؔ ہوتے جن کے سامنے مخالفین گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتے۔اسلام کی تبلیغ اور اس کے تحفظ کے لیے آغا حشرؔنے ہمیشہ مذہبی جوش اورسرگرمی کا ثبوت دیا۔’’انجمنِ حمایتِ اسلام‘‘ لاہور کے جلسے میں جس وقت انھوں نے ’’ شکریۂ یورپ‘‘ کے مناجات والے بند کا پہلا شعر پڑھا ؂
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لا نے کے لیے
بادلو ! ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لیے
تو سامعین کے ہاتھ بے اختیار دعا کے لیے اُٹھ گئے اور آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری ہو گیا۔
آغا حشرؔ خلیق اور با مروت ، وسیع القلب اور وسیع الذہن انسان تھے غرور وتکبّر سے انھیں سخت نفرت تھی۔ سخن فہموں کے قدر دان تھے ۔ لطیفہ گوئی اور بذلہ سنجی میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ ان کا کما ل یہ تھا کہ لطیفوں اور چٹکلوں میں خشک سے خشک بحث بھی اس طرح کرتے کہ سننے والا متاثر ہو جاتا ۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کا شیوہ تھا ۔ ان کے غصے میں بھی پیار تھا۔ حشرؔ گالیاں دینے میں بڑے ماہر تھے ۔ حتیٰ کہ مشہورفن کارہ اور گلو کارہ مختار بیگم کو جنھیں وہ اپنی جان سے زیادہ چاہتے تھے گالیاں دینے سے نہ چوکتے ۔ اس فن کارہ نے ان کی زندگی اور ڈراما نگاری میں بڑا اہم رول ادا کیا تھا۔ حشرؔ نے ان سے شادی کر کے اپنی بے پناہ محبت کا ثبوت دیا۔ بقول مختار بیگم مرحومہ ’’میں جب ان کی زندگی میں داخل ہو گئی تو انھوں نے بتایا کہ میں ساری زندگی اپنے آپ کو مصرع سمجھتا رہا ۔ تمھارے ملنے سے شعربن گیاہوں، میری نا مکمل زندگی کے ساتھ ساتھ تم نے میری شاعری کوبھی مکمل کر دیا ہے۔ اب میری تحریر اس قدر بلندی پر جاپہنچی ہے کہ مجھے کوئی دوسرا نظر ہی نہیں آتا ‘‘۔ (۱۱)
حشرؔ شراب کے عادی تھے لیکن آخری عمر میں انھوں نے منہ سے لگی ہوئی اس کافر کو چھوڑدیا تھا اور پھر کبھی نہ پی۔
حشرؔکی آخری عمر لاہورمیں گزری۔وہ زندگی کے اخیردنوں میں بیمار تھے اورحکیم فقیر محمد چشتی کے زیرِ علاج رہے جو ان کے عزیز ترین دوستوں میں سے تھے ۔ وہ اپنے ڈرامے بھیشم پر تگیا (بھیشم پتاما) ‘‘ کو فلمانے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ۲۸! اپریل۱۹۳۵ ء کو پیغامِ اجل آپہنچا۔ لاہور میں قبرستان میانی صاحب میں سپردِخاک کیے گئے۔ یہیں آغا حشرؔکی بیوی بھی دفن ہیں۔
حشرؔکے انتقال پرابوالاثرحفیظؔجالندھری،حکیم محمدیونس،پنڈت نرائن پرشاد بیتابؔ بنارسی اور فرحت اللہ بیگ نے قطعات اور تاریخِ وفات کہی۔ بیتابؔ نے حشرؔ کے فن کی عظمت کا اعتراف اور ان کی وفات پر اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا ہے ۔
اے حشرؔ کہ تو رقیبِ فن تھا میرا
آخر مجھے تو نے جیت کر ہی چھوڑا
لکھنے میں تو تھا ہی توٗ ہمیشہ آگے
مرنے میں بھی بیتابؔ سے پیچھے نہ رہا
ناٹک جو لکھا ملک میں مقبول ہوا
فقرہ جو تراشا وہی منقول ہوا
تھا رنگِ زباں بھی اس قدر معنی خیز
اسٹیج پہ تھوکا بھی تواک پھول ہوا

حکیم محمد یونس کی کہی ہوئی تاریخِ وفات یہ ہے ؂
ہر زباں پر مصرعٔ تاریخ ہے
ہائے اے آغا محمد شاہ حشرؔ

۱۳۵۴ھ مطابق ۱۹۳۵ء
 

الف عین

لائبریرین
آغا حشرؔ کا فنِ تمثیل نگاری
آغا حشرؔکو ڈرامے سے ذہنی لگاؤ اورطبعی مناسبت تھی۔ان کے دورانِ تعلیم بنارس میں الفریڈ کمپنی پہنچی ۔ اس زمانے میں ڈرامے کی دنیا میں میر حسن احسنؔ لکھنوی کا بڑا شہرہ تھا ۔ اس کمپنی کے دکھائے گئے کھیلوں میں سب سے زیادہ کامیابی احسنؔ کے ’چندراؤلی‘کوملی۔حشرؔبھی کھیل دیکھنے جاتے تھے، چنانچہ ان کی سوئی ہوئی صلاحتیں جاگ اٹھیں اور انھوں نے ’’ آفتابِ محبت‘‘ کے نام سے اپنا پہلا ڈراما لکھا۔گویا ان کی ڈراما نگاری کے سفرکا یہ آغاز تھا۔حشرؔنے کمپنی کے مالک کوجب اپنا یہ ڈراما دکھا یا تو اس نے اُسے اسٹیج کرنے سے انکارکر دیا ۔ مالک کے رویے اور اس کے انکار کا ردِعمل حشرؔ پر یہ ہوا کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی ڈراما نگاری کے لیے وقف کر دی اور کچھ ہی عرصے بعد وہ اسٹیج کی دنیا پر چھا گئے ۔ حشرؔ کا یہ پہلا ڈراما ، اسٹیج تو نہ ہو سکا لیکن ’’ بنارس کے جواہراکسیر کے مالک عبد الکریم خاں عرف بسم اللہ خاں نے ساٹھ روپے میں خرید لیا اور اپنے پریس میں چھاپ ڈالا۔ سال طباعت ۱۸۹۷؁ء ہے ‘‘۔(۱۲)
متعدد وجوہ ایسی تھیں کہ حشرؔ بنارس میں رہ کر نہ تو فنِ تمثیل نگاری کی خدمت کر سکتے تھے اور نہ اپنے طبعی رجحان اور جذبے کی تکمیل کر سکتے تھے۔دوسرے اس زمانے میں شرفا ڈراما دیکھنا پسند کرتے تھے نہ اس کے فن کو سراہتے تھے بلکہ اس میں شریک ہونا بھی باعثِ عار سمجھتے تھے ۔ تیسرے ڈرامے کو ادبی اور علمی کام نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ اس لیے حشرؔ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کے لیے بنارس چھوڑکر بمبئی چلے گئے ۔ ’’ بمبئی میں کاؤس جی کھٹاؤنے ۳۵روپے ماہانہ پر آغا صاحب کو اپنی کمپنی میں ملازم رکھ لیا ۔ یہ آغا حشرؔ کی تمثیل نگاری کا سنگِ بنیاد تھا ‘‘۔(۱۳) اس کے بعد انھوں نے اردشیردادا بھائی ٹھونٹی کی کمپنی میں ملازمت کی ۔کچھ عرصہ ا لفریڈ ٹھیئٹریکل کمپنی سے وابستہ رہے ۔ نیو الفریڈ تھیئٹریکل کمپنی کے تو وہ خاص ڈراما نگار تھے ۔ حشرؔ کے ڈرامے پارسی اسٹیج پر عرصۂ دراز تک کھیلے جاتے رہے جس سے حشرؔ کی شہرت میں چار چاند لگ گئے اور کمپنیوں کو بھی خوب مالی فائدہ ہوا ۔ حشرؔ نے اپنی ایک کمپنی حیدر آباد میں قائم کی لیکن یہ بند ہو گئی۔ ۱۹۱۲ء یا ۱۹۱۳ء میں لاہو رمیں اپنی دوسری کمپنی’ ’انڈین شیکسپیرتھیئٹریکل کمپنی‘‘ کے نام سے بنائی لیکن کچھ عرصے بعد یہ کمپنی بھی بند ہو گئی۔
۱۹۱۴ء میں آغا حشرؔکی رفیقۂ حیات کا انتقال لاہور میں ہو گیا۔ ناسازگاریٔ حالات کی وجہ سے وہ کلکتہ چلے گئے ۔ علم الدین سالک لکھتے ہیں کہ’’ کلکتہ میں آغا صاحب جے ۔ایف۔میڈن کے پاس گیارہ روپیہ ماہوار پرملازم ہو گئے اور کئ برس وہاں مقیم رہے‘‘۔(۱۴) اس دوران حشرؔ نے زیادہ تر ہندی ڈرامے لکھے ۔ کلکتہ میں میڈن تھیٹرز میں حشرؔکے ڈراموں کی کامیابی کے بارے میں ممتاز فن کارہ مختار بیگم نے اپنے ایک انٹرویو میں اس طرح اظہارِ خیال کیا ہے ’’آغا حشرؔکے اسٹیج ڈر اموں کی مقبولیت کی وجہ سے میڈن تھیٹرز بہت عروج پر جاچکا تھا۔ آغا صاحب اپنے ڈراموں کی موسیقی خود ہی ترتیب دیتے تھے ۔ حالانکہ وہ گا نہیں سکتے تھے لیکن یہ اُن کی بڑی خوبی تھی کہ وہ اپنے خیالات اشاروں کنایوں سے میوزک ڈا ئرکٹرکوسمجھاکراپنا مقصد پورا کر لیتے تھے اور بہترین طرزیں بنالیتے تھے ۔ ان سب خوبیوں کے باوصف ان میں اچھی آواز کی کمی تھی ۔ ان کے ڈرامے جس قدر معیاری تھے اور جس طرح ان کی بر صغیر میں دھوم مچی تھی ،اس لحاظ سے میڈن والوں کے پاس فنِ موسیقی کی اعلیٰ درجہ کی کوئی فنکارہ نہیں تھی‘‘۔
’’۱۹۲۸ء میں جب یہ کمپنی امرتسرآئی تو آغاحشرؔکے ڈراموں ’’ آنکھ کا نشہ‘‘ ’’ترکی حور‘‘ اور ’’یہودی کی لڑکی‘‘ نے ایک حشر برپا کر دیا‘‘ ۔(۱۵)
علم الدین سالکؔ کا یہ بھی بیان ہے کہ’’۱۹۲۴ء میں آپ نے میڈن تھیئٹرسے قطع تعلق کر لیا اور اپنی کمپنی بناکر آگرہ ، بنارس ، الہ آباد، اور دیگر مقامات کی سیرکی ، ہزہائینس چرکھاری نے آپ کا کھیل دیکھا ۔ پچاس ہزار روپیہ دے کرکمپنی خریدلی اور خود آغا صاحب کی شاگردی اختیار کر لی ۔ یہ کمپنی کچھ عرصے کے بعدپھر آغا صاحب کو عطاکر دی گئی جو بانس بریلی جاکر بند ہو گئی‘‘۔ (۱۶) چرکھاری سے جب دوبارہ کلکتہ پہونچے تو ڈراما کی دنیا ہی بدل چکی تھی ۔ متکلم فلموں نے تھیٹرؤں کا بازار بالکل سرد کر دیا تھا ۔ آغا صاحب نے ’’شیریں فرہاد‘‘کے بعد’’ عور ت کاپیار‘‘ لکھ کر ہندوستانی فلموں میں قابل قدر اضافہ کیا ‘‘ ۔(۱۷) کلکتہ سے آغا حشرؔ لاہور چلے گئے جہاں انھوں نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔
’’شریں فرہاد‘‘ اور ’’عورت کا پیار ‘‘ کے علاوہ حشر نے ’’یہودی کی لڑکی ‘‘ ’’قسمت کا شکار‘‘ ’’چنڈی داس‘‘ ’’دل کی آگ‘‘ ’’شہیدِفرض‘‘ ’’بلوامنگل ‘‘ ’’لوکش‘‘ ’’رستم وسہراب‘‘ او ر ’’بھیشم پتاما‘‘ فلمی ڈرامے لکھے‘‘۔ (۱۸)
دورانِ گفتگو’’عورت کا پیار‘‘ کی مقبولیت کا ذکرکرتے ہوئے مختار بیگم نے راقمہ سے فرمایا تھا کہ یہ ڈراما بہت کامیاب رہا ۔ سب سے زیادہ مشہور ہوا ۔ ایک ایک شہر میں دس دس بار دکھا یا گیا ۔ اس ڈرامے میں یہ غزل میں نے گائی تھی‘‘
چوری کہیں کھلے نہ نسیمِ بہار کی

خوشبو اڑا کے لائی ہے گیسوئے یار کی
اللہ رکھے اس کا سلامت غرورِحسن

آنکھوں کو جس نے دی ہے سزا انتظار کی
گلشن میں دیکھ کر مرے مستِ شباب کو

شرمائی جارہی ہے جوانی بہارکی
اے میرے دل کے چین مِرے دل کی روشنی

آ، اور صبح کر دے شبِ انتظارکی
اے حشرؔ دیکھنا تو یہ ہے چودہویں کا چا ند

یا آسماں کے ہاتھ میں تصویر یار کی(۱۹)
آغا حشرؔ ۳۲ یا ۳۳ سال تک ڈرامے کی خدمت کرتے رہے ۔ انھوں نے بیک وقت اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں ڈرامے لکھ کر اپنی فن کارانہ صلاحیت اور زبان دانی کا لوہا منوالیا۔ آغا جمیل صاحب نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اردو ہندی ڈراموں کے علاوہ ۱۹۲۲ ء میں اسٹار تھیئٹر یکل کمپنی کلکتہ کے لیے دو ڈرامے ’’اپرادھی کے ‘‘ اور ’’مصر کماری‘‘ بنگلہ زبان میں آغا صاحب نے لکھے تھے جو بہت مقبول ہوئے ‘‘۔ بیتابؔ بنارسی نے آغا حشرؔ کو ہندی میں ڈرامالکھنے کا چیلنج دیا تھا جس کے جواب میں حشرؔ نے ہندی میں ’’بلوامنگل‘‘ (سورداس) ’’بن دیوی عرف بھارت رمنی‘‘ لکھ کر بیتاب کا منہ بند کر دیا ۔ ’’مدھرمرلی‘‘’’ آنکھ کا نشہ‘‘ ’’بھگیرت گنگا‘‘ ’’سیتا بن باس‘‘ اور ’’بھیشم پر تگیا‘‘ کے سامنے تو بیتابؔ کے ہندی ڈراموں کی شہرت ماند پڑگئی۔
حشرؔ نے اپنے کئی ڈراموں کے پلاٹ شیکسپیر اور دوسرے مغربی مصنفین کے ڈراموں سے اخذ کیے ہیں ۔ جیسے ’’اسیرِحرص‘‘ شیریڈن کے ’’پزارو (Pizarro)‘‘ سے، ’’مریدِ شک‘‘ شیکسپیر کے ’’دی ونٹرس ٹیل‘‘ (The Winter's Tale) ‘‘ سے ، ’’صیدِ ہوس‘‘ ’’کنگ جان‘‘ (King John)‘‘ سے ، ’’شہیدِ ناز‘‘ ’’ میثر فارمیثر (Measure For Measure)‘‘ سے ، ’’سفید خون‘‘ ’’کنگ لیئر (King Lear) ‘‘ سے ، ’’خوابِ ہستی ‘‘ ’’میکبتھ (Macbeth)‘‘ سے ، ’’سلورکنگ یا نیک پروین یا اچھوتا دامن یا پاک دامن‘‘ ’’ہنری آرتھر جونز اور ہنری ہیرمین (Henry Arther jones) اور
(Henry Herman) کے سلورکنگ ‘‘سے ، اور ’’یہودی کی لڑکی ‘‘ ڈبلیو ، ٹی ، مانکریف (W.T.Moncriefe) کے ’’دی جیوس‘‘ (The Jewess)‘‘ سے ماخوذ ہے ۔
حشرؔ نے مندرجہ بالا ڈرا موں کو اردو کا لباس اس طرح پہنایا ہے کہ کہیں ان کے کچھ اجزا بعینہٖ لے لیے ہیں‘کہیں قدرے تبدیلی کے ساتھ انھیں پیش کیا ہے اور کہیں صرف مفہوم پر اکتفا کیا ہے۔ان ڈراموں کے پلاٹ انگریزی ڈراموں سے لیے تو ضرور گئے ہیں مگر حشرؔ نے انھیں ہندوستانی تہذیب ومعاشرت اور ماحول وروایت کا جامہ اس طر ح پہنا یا ہے کہ وہ غیر زبان اورمغربی تہذیب کی دین نہیں معلوم ہوتے بلکہ ان میں مانوس کرداروں اور جانے پہچانے ماحول کی عکاسی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں اپنے طرزِمعاشرت کے نمونے اور ملک وقوم کے ذہنی پس منظر کی ترجمانی بھی ہے اورمشرقی اقدار کی آئینہ داری بھی۔ برخلاف انگریزی ڈراموں کے حشرؔ کے ڈراموں کا انجام طربیہ ہے۔
حشرؔکے چند ڈرامے ایسے ہیں جو قدیم ہندوستانی تہذیب ومعاشرت اور ہندو دیو مالایعنی رامائن اور مہا بھارت کے قصوں پر مبنی ہیں۔جیسے بلوا منگل عرف سورداس ‘بن دیوی ‘مدھر مرلی ‘ سیتا بن باس اور بھیشم پرتگیا وغیرہ۔ان ڈراموں کی زبان زیادہ تر ہندی ہے۔
ان کے علاوہ کچھ ڈرامے ایسے ہیو معاشرتی ‘اصلاحی اور سیاسی موضوعات سے متعلق ہیں۔جیسے ’’خوبصورت بلا‘‘ ’’ترکی حور‘‘ ’’ٹھنڈی آگ‘‘ ’’ آنکھ کانشہ‘‘ ’’ پہلا پیار‘‘ ’’بھارتی بالک عرف سماج کاشکار‘‘ ’’دل کی پیاس‘‘ اور’’رستم و سہراب‘‘(فردوسیؔ کے شاہنامہ سے ماخوذ)وغیرہ۔
فنِ تمثیل نگار ی میں حشرؔکے تدریجی ارتقا ‘ان کی فنّی بصیرت ‘ادبی عظمت اور مقام و مرتبے کو سمجھنے اور متعین کرنے کے لیے ان کے ڈراموں کو عموماً چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔اس لیے کہ ہر اگلا دور حشرؔکے فن کی بعض نئی خصوصیات کا حامل ہے۔حشرؔنے جب اپنی ڈرامانگاری کا آغاز کیا تو اس دور میں مالکانِ کمپنی اور عوام کی پسند کا لحاظ رکھا جاتا تھا۔ بدیہہ گوئی‘فقرہ بازی اور برجستہ گوئی،اشعارکی بھرمار،مقفیٰ اورمسجّع عبارت،گانوں کی کثرت ، خطابت کا زور اور جذبات کا طوفان،ڈرامے کے لوازم اور اس کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔اندر سبھا کی روایت کااثرغالب تھا ۔اسٹیج پر منشی رونقؔبنارسی ‘حافظ عبداللہ ‘نظیربیگ اور حسینی میاں ظریفؔاور ان کے بعد طالبؔ، احسنؔاور بیتابؔ کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ابتدائی دور میں حشرؔ نے ان تمام باتوں کو اپنایا ۔’’مریدِشک ‘‘ ’’مارِآستین ‘‘اور’’ ا سیرِحرص ‘‘اسی دور کی عکاسی کرتے ہیں۔دوسرے دور میں حشرؔ نے ڈرامے کی چند روایات کو برقرار رکھا۔قافیے کا التزام‘ خطابت کے زور کے ساتھ ساتھ مکالموں میں بلند آہنگی ہے لیکن ا شعاراور گانوں میں کچھ کمی نظر آتی ہے۔حشرؔ اپنی خدا داد صلاحیت ،سماجی شعور اور فنّی کاریگری کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے فقروں سے ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے میں بڑی حدتک کامیاب نظر آتے ہیں۔
آغا حشرؔایک اعلیٰ درجہ کے اداکار،موسیقاراور ڈائریکٹرہونے کے ساتھ ہی اسٹیج کی تکنیک سے خوب واقف تھے۔ لہٰذا تکنیک کے اعتبار سے بھی حشرؔنے ڈراموں میں ایک صحت مندتبدیلی کی۔انھوں نے سماں پیدا کرنے کی لیے بڑے بڑے سین لکھنے شروع کر دیے تھے۔
’’سفید خون‘‘(باب پہلا ‘پردہ تیسرا)میں حشرؔ نے قافیہ کے استعمال سے عمل میں زور ‘کردار کی ذہنیت کو ابھا رنے اور ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کا کام لیا ہے۔شہنشاہِ خاقان اپنی بیٹی ماہ پارہ کی نا فر مانی اور بہیمانہ سلوک پر جس طرح لعن طعن کرتا ہے اس میں حشرؔ نے قافیے کو بڑی چابکدستی سے استعمال کیاہے۔اس عہدکے ڈرا موں میں’’صیدہوس‘‘ ’’سفیدخون‘‘ا ور’’ شہیدِناز‘‘ کامیاب ڈرامے ہیں۔ تیسرا دور حشرؔ کے فنّی ارتقاء کا دور ہے ۔حشر نے ا س عہد میں ڈرامے کی دیرینہ روایات سے ہٹ کر اسے نئے سلیقے سے آراستہ کیا اور اسے نئی پہچان دی۔ڈرامے کو تہذیب ومعاشرت سے متعلق اصلاحی مقصد کا ترجمان بنایا۔جمیلؔ جالبی صاحب نے صحیح کہا ہے کہ ’’ آغا حشرؔنے ڈرامے کو بلند کیا۔ اس میں معاشرتی اور لصلاحی پہلو بھی اجاگر کیے اور ڈرامے کے ذریعہ سیاسی اور اصلاحی مقصدکا کام بھی لیا۔آغا حشرؔکی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے ڈرامے کی روایت کو ہمارے مزاج میں شامل کیا۔ہمیں ڈرامے کے عملی معنی سمجھائے ۔ہمیں ڈراما پیش کرنے اور دیکھنے کا سلیقہ دیا‘‘۔(۲۰)
اس دور میں حشرؔنے مقفٰی نثراور بے سروپا موضوعا ت کی جگہ دقیانوسی اسٹیج پر معاشرتی ‘مذہبی اور اصلاحی موضوعات کو جگہ دی ۔آغا حشرؔ کے خیالات منصور احمد اس طرح بیان کرتے ہیں’’میں جب کوئی ڈرامہ لکھنے کا خیال کر تا ہوں تو پہلے اس کے موضوع پر تمام معلومات بہم کر لیتا ہوں اور اس وقت تک اس پر قلم نہیں اٹھاتاجب تک اس کی تمام تفصیلات پر حاوی نہ ہو جا ؤں۔میں وقت اور سوسائٹی کی حالت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھتا ہوں اور اس کے مطابق اپنا اصلاحی پروگرام مرتب کرتا ہوں۔میں نے مقفیٰ اوربے سروپا ڈراموں کو جن کا آج سے بیس برس پہلے تک بہت رواج تھا‘اسٹیج کو خیر باد کہنے پر مجبور کر دیا ہے لیکن مجھے پیلک کو ادبی ڈرامے کے لئے تیار کرنے کی خاطرکئی سالوں تک انتظار کرناپڑا‘۔۔۔‘۔(۲۱)
اس دور کے ڈراموں میں نثر کا استعمال زیادہ ہے۔اشعار اور قا فیے کا التزام صرف اس حد تک جائز رکھا ہے جو کرداروں کے مزاج اور ان کی شخصیت کا صحیح عکس معلوم ہو اور ناظرین میں عمل کی شدت اور جوش پیدا کر سکے۔ اس دور کے مشہور ڈرامے ’’خوابِ ہستی‘‘ ’’خوبصورت بلا‘‘ ’’سلورکنگ‘‘ ’’ترکی حور‘‘ ’’یہودی کی لڑکی‘‘ ’’بلوا منگل‘‘ اور ’’آنکھ کا نشہ ‘‘ ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ’’ آنکھ کا نشہ‘‘ جب اسٹیج پر پیش کیا گیا تو ناظرین شراب کے بتاہ کن اور عبرت انگیز نتائج سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان میں سے بہت لوگوں نے شراب نوشی ترک کر دی۔
چوتھا دور حشرؔ کی ڈراما نگاری کا آخری اور انتہائی اہم دور ہے۔ اس دور کو حشرؔ کے فن کارانہ شعور کی پختگی اور ارتقائی عمل کا بہترین دورکہنا مناسب ہوگا۔ کرداروں کے مکالمے ان کی شخصیت کو ابھارنے ، واقعات میں تاثیر پیدا کرنے اور عمل کو پرُ اثر بنانے کا کام کرتے ہیں ۔ اس دور کے ڈراموں میں نہ اشعار کی کثرت ہے نہ قافیہ کی جھنکار۔ گانوں کا استعمال بہت کم ہے یا بالکل نہیں ہے ۔
حشرؔ اپنے ڈراموں کے کردار اپنے دوستوں ، آشناؤں اور ملاقاتیوں کے حلقے سے انتخاب کر لیتے تھے اور بعض اوقات ان کرداروں کو جنم دینے میں ان کے تخیل کی کارفرمائی ہوتی تھی۔ حشرؔ نے چونکہ سماج کے کسی نہ کسی طبقے نیز زندگی کے اہم مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے اس لیے ان کے یہاں بادشاہ ، وزیر ، بیگم، خادمہ، باغی ، غدّارِ قوم ، محبِّ وطن ، عصمت مآب اور وفادار بیویاں، جانثار ملازم ، شرابی ، جواری، طوائف، ڈاکو اور قاتل ، غرض کہ ہر طرح کے کردار موجود ہیں ۔ا ن کے کرداروں کی ایک نمایا ں خصوصیت یہ ہے کہ مصائب اور پریشانی ان میں احساسِ شکست پیدا کرنے کے بجائے ان میں ان مصائب سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ اور زندگی کی شمع روشن کرنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں ۔
جس طرح حشرؔ کے فن میں ایک تدریجی ارتقائی عمل ملتا ہے اسی طرح ان کے کرداروں میں ادوار کے لحاظ سے زیادہ پختگی ، گہرائی اور گیرائی نظر آتی ہے ۔ چونکہ حشرؔ نے اپنے کرداروں سے فرد اور معاشرے دونوں کی اصلاح کا کام لیا ہے اس لیے ان کے اندرون میں جھانک کر ان کی نفسیاتی کشمکش کا جائزہ لیتے ہوئے انھیں انسانی اقدار کا احترام بھی سکھایا۔
اردو ڈرامے جو اسٹیج پر پیش کیے جاتے تھے اُن کی ایک روایت یہ بھی چلی آرہی تھی کہ مزاحیہ حصّہ (کامِک) اصل کہانی سے الگ ہوتا تھا جس میں ظرافت کا معیار انتہائی پست ہوتا تھا۔ اس میں ابتذال ، رکاکت، گالی گلوج، دھول دھپّا اور پھکّڑ بازی، غرض کہ ساری وہ غیر معیاری حرکتیں ہوتی تھیں جو عوام کے گرے ہوئے تفریحی ذوق کی تسکین کا سامان مہیا کر سکیں۔ اپنے ابتدائی دور کے ڈراموں کے مزاحیہ حصوں میں حشرؔ نے بھی اپنے یہاں اس عوامی بلکہ عامیانہ روش کو ملحوظ رکھا ۔ لیکن بعد میں ان کے یہاں ایک صحت مند رجحان ابھرتا نظر آتا ہے ۔ وہ کامِک کو بھی اصلاحِ معاشرے کے لیے ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ ظرافت وطنز سے وہ محض عوامی ذوق کی تسکین سے آگے بڑھ کر سماجی برائیوں سے پردہ اٹھانے کا کام لیتے ہیں ۔ ’’ خوبصورت بلا‘‘ میں میم اور ’’ دل کی پیاس‘‘ میں کملا کے کرداروں کو پیش کرکے حشرؔ نے مغربی تہذیب وتمدن اور اس کے کھوکھلے پن پر بڑی گہری چوٹیں کی ہیں ۔ حشر کے یہاں ہمیں ’’کامک‘‘ کے بارے میں تدریجی تبدیلی کے نشانات بھی ملتے ہیں چنانچہ ’’ ترکی حور ‘‘ اور’’بلوا منگل‘‘ میں انھوں نے ’’کامک‘‘ کی مستقل حیثیت ختم کرکے اسے اصل کہانی کا جزو بناکر پیش کیا ہے اور آخری دور کے ڈراموں میں تو انھوں نے مزاحیہ پلاٹ کو اپنے ڈراموں سے بالکل خارج کر دیا ہے ۔
حشرؔ کے فنِّ تمثیل نگاری کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو انھوں نے عوام کی پسند اور ذوق کا خیال رکھا اور دوسری طرف ڈرامے کے فن کو بلندی اور جِلا بخشنے کی بھر پور کوشش کی ۔ انھوں نے اسٹیج کے لوازم وضروریات کا لحاظ بھی کیا اور ڈرامے میں سماجی اور اصلاحی موضوعات سمو کر اسے وسعت بخشی ۔ ڈرامے کو روایتی پابندیوں سے آزاد بھی کیا اور اسے محض ایک تفریحی مشغلے کے درجے سے اوپر اٹھا کر سنجیدہ اور سبق آموز پہلوؤں کا ترجمان بنایا۔ ڈاکٹر عطیہ نشاط کے الفاظ میں ’’ ان کا بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے پلاٹ ، کردار ، مکالمہ، نقطۂ نظر، زبان وبیان اور طرز ادا ہر پہلو سے اردو ڈرامے کو اپنے پیش روؤں سے آگے بڑھایا اور پارسی اسٹیج کو وہا ں پہنچادیا جہاں وہ اس سے پہلے نہیں پہنچا تھا‘‘۔ (۲۲)
اپنے پیش روؤں اور ہم عصروں سے بلند ہوکر حشرؔ نے ڈرامے کو زندگی سے قریب تر لانے کی جو قابلِ قدر کوشش کی وہ اُن کے گہرے سماجی شعور، مشاہدے کی گہرائی ، انسانی نفسیات کے عمیق مطالعے اور عصری حسیّت کی مظہر ہے۔ در اصل وہ اپنے دور کے پہلے اور آخری ارتقا پسند فن کار اور ایک عظیم ڈراما نویس تھے ۔
حشرؔ نے برجستہ گوئی ، خطابت کے زور اور اشعار وقوافی کے بر محل استعمال سے اپنے ڈراموں میں توازن کی جو فضا قائم کی اس سے ان کی فنّی بصیرت اورتخلیقی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ وقارعظیم کے الفاظ میں ’’حشرؔ کے ڈراموں میں خطابت کا جو زور، برجستہ گوئی کی جو روانی ، فقرہ بازی کی جو شوخی اور شگفتگی اور شاعری کی جو رنگینی ہے وہ یوں تو دوسرے لکھنے والوں کے یہاں بھی کم نہیں لیکن ان میں سے ہر چیز کو بر محل استعمال کرنے کا جو سلیقہ حشر کو ہے وہ بہت کم لوگوں کو ہے۔ ممکن ہے ان میں سے کسی ایک خصوصیت میں ان کا مدِّ مقابل اپنے آپ کو اِن سے برتر ثابت کر سکے لیکن ان ساری چیزوں کا متوازن امتزاج اتنا کسی دوسرے کے یہاں نہیں ملتا جتنا حشرؔ کے یہاں ہے‘‘۔(۲۳)
اردو ڈرامے کی تاریخ میں حشرؔ سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انھوں نے قدیم پیرہن کو جدید رنگوں سے سجا کر ڈرامے کو حسن وعشق کے کوچے اور جنگ و خون ریزی کے ہنگامے سے نکال کر زندگی کے مسائل کا ترجما ن بنایا۔ بقول پروفیسر آل احمد سرورؔ ’’ انھوں نے ڈرامے کو زیادہ ’روداد‘ بنادیا۔ وہ زمانے کے ساتھ بدلتے رہے اور اس طرح وہ قدیم وجدید کے درمیان ایک کڑی ہیں‘‘۔(۲۴)
ڈراما چونکہ بیک وقت سمعی اور بصری تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لیے اس کی حقیقی قدر وقیمت اس کی تحریری شکل میں نہیں بلکہ اس کی اسٹیج پر پیش کش کے ذریعے ہی متعین کی جاسکتی ہے ، گویا ڈراما اور اسٹیج لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ پروفیسر احتشام حسین نے صحیح کہا ہے کہ ’’ ڈراما کی عملی کامیابی کی کسوٹی اسٹیج ہے اور اسٹیج ایک پیچیدہ ذریعۂ اظہار ، ہدایت کار، اسٹیج کے لوازم ،(یعنی پردے ، روشنی، موسیقی وغیرہ) اور اداکار مل کر اسٹیج کی تکمیل کرتے ہیں ۔ پھر ان سب کے بعد تماشائی ہے جس کی جذباتی اور ذہنی شرکت کے بغیراچھے سے اچھا ڈراما بھی کامیاب نہیں ہو سکتا‘‘ ۔(۲۵)
حشر کے ڈرامے بھی اسٹیج کے لیے لکھے گئے اور اسی پہلو سے انھوں نے اپنے پیش روؤں اور ہمعصروں سے بہت آگے بڑھ کر کامیابی حاصل کی ۔ آج بھی ان کے ڈراموں سے صحیح طور پر لطف اندوز ہونے کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کی حقیقی قدر وقیمت متعین کرنے کے لیے بھی اور یہ جاننے کے لیے بھی کہ وہ اسٹیج تکنیک کو کتنی پُرکا ری سے استعمال کرتے ہیں، سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ انھیں اسٹیج پر پیش کرکے حشرؔ کے کمالِ فن ، ان کی تخلیقی صلاحیت اور ان کی طبّاعی کے جوہر کو نمایاں کیا جائے ۔ ان کے فن کی عظمت اسٹیج کے پردے ہی میں سے حقیقی جلوہ گری کا مظاہرہ کر سکتی ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
سفید خون

سفیدخون ،حشرؔکی ڈراما نگاری کے دوسرے دورکی پیشکش ہے۔ اس کا پلاٹ شیکسپئر کے مشہور المیہ کنگ لیئر (King Lear) سے ماخوذ ہے، یہ ڈراما اردشیردادا بھائی ٹھونٹھی کی بمبئی ناٹک منڈلی کے لیے ۱۹۰۷ء میں بمشاہرہ ڈھائی سوروپیہ ماہوار تقریباً سات مہینے میں قلم بند کیا۔‘‘(۲۶)
سفیدخون تین ایکٹ کا ڈراما ہے ۔ پہلے ایکٹ میں پانچ سین، دوسرے میں بھی پانچ اور تیسرے میں چار ہیں ، کل چودھا سین ہیں ۔ *
 

الف عین

لائبریرین
(جاری)۔۔۔۔

پلاٹ : ۔ ڈرامے کا پلاٹ بیٹی کی راست گوئی برداشت نہ ہونے پر شنہشاہ خاقان کا جلد بازی اور عالمِ غیظ وغضب میں ناعاقبت اندیشانہ فیصلہ اور اس کے عبرت ناک نتائج ، وزیروں کی وفاداری ،نیک اورحق گو بیٹی کی آزمائش، خوشامدی اور ریا کار بیٹیوں اور جعل ساز ودغاباز بیرم کی قدم قدم پر سازشوں نیزاقتدارکی ہوس اور نتیجے میں ان کی بد اعمالیوں کے المناک انجام سے متعلق ہے۔
شہنشاہِ خاقان ضعیف ہو جانے کی وجہ سے اپنی سلطنت اپنی تینوں بیٹیوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ انتظامِ حکومت سے دست بردار ہو کر اپنی باقیزندگی سکون سے گزارسکے ۔ چنانچہ وہ باری باری اپنی تینوں بیٹیوں ماہ پارہ ، دل آرا اور زارا کو بلا کرسوال کرتاہے کہ تم کومجھ سے کتنی محبت ہے ؟ دونوں بڑی بیٹیاں ماہ پارہ اور دل آرا مبالغہ آمیزی سے والد کے لیے اپنی محبت کا اظہارکرتی ہیں مگر چھوٹی بیٹی زارا ان دونوں اور والد کی توقع کے خلاف یہ جواب دیتی ہے کہ میں

* ڈرامے کا مزاحیہ حصہ انتہائی غیر سنجیدہ ، مبتذل اور عامیانہ ہونے کی وجہ سے نہیں دیا گیا ہے۔ ویسے بھی اصل کہانی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ راقمہ
آپ سے اتنی ہی محبت کرتی ہو ں جتنی ایک بیٹی باپ سے کر سکتی ہے ۔ اس حق گوئی پر شہنشاہ چراغ پا ہو جاتا ہے اور ملکیت دونوں بیٹیوں میں نصف نصف تقسیم کر دیتا ہے ۔ چھوٹی بیٹی زارا کو اس کے حق سے محروم کر دیتا ہے۔غصے او رجلد بازی میں کیا گیا غلط فیصلہ شہنشاہ کی ذہنی اور روحانی اذیت کا باعث بنتا ہے ۔ خاقان اپنی دونوں بیٹیوں کے یہاں مع اپنے لاؤ لشکر قیام کی غرض سے جاتا ہے لیکن وہ دونوں والد کے ساتھ انتہائی ظالمانہ اور ناقابلِ برداشت سلوک کرتی ہیں ۔ خاقان نے اپنی بیٹیوں سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ دم توڑدیتی ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس جانکاہ صدمے سے پاگل ہو جاتا ہے اور جنگل کا رخ اختیار کرتا ہے۔مصائب کے اس طوفان میں دونوں وزیرارسلان اورسعدان،زارا اور اس کا شوہر خاقان کا ساتھ دیتے ہیں۔
وزیر سعدان کے دو بیٹے ہیں بیرم اور پرویز۔ پرویز نیک اور شریف ہے جب کہ بیرم انتہائی مکار ، دغاباز، سازشی اور آوارہ ہے ۔ وہ ایک جعلی خط کے ذریعہ والد سعدان پر یہ ثابت کر دیتا ہے کہ پرویز جائدادکے لالچ میں سعدان کو قتل کرنا چاہتا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ خود باپ کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔
سعدان ، بیرم کے ذریعہ طرّم سپہ سالارکو خط بھجواتا ہے جس میں اس کو شنہنشاہ خاقان کا ساتھ دینے کے لیے لکھا ہے۔بیرم وہ خط طرّم کی بجائے ماہ پارہ اور دل آرا کو دکھاتا ہے جس پر انھیں بہت غصہ آتا ہے اور وہ غدّاری کے جرم میں سعدان کو مارڈالنا چاہتی ہیں مگر عین وقت پردل آرا کا شوہر جلاّد کو ہلاک کر دیتا ہے اور سعدان کی طرف داری کرتا ہے ۔ ردِّعمل کے طور پر دل آرا اپنے شوہر کو ختم کر دیتی ہے اور ماہ پارہ ،سعدان کے گولی ماردیتی ہے۔
دونوں خبیث بہنیں ماہ پارہ اور دل آرا اپنے باپ خاقان کو قتل کرنے کا منصوبہ بناتی ہیں ۔ بیرم بیک وقت دونوں بہنوں سے اپنی جھوٹی محبت کا دعویٰ کرتا ہے ۔ وہ تینوں بہنوں اور خاقان کو قتل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے تاکہ وہ سلطنت پر قابض ہو جائے ۔ بیرم، ماہ پارہ کو زارا کے قتل کے لیے آمادہ کرتا ہے ۔ وہ دل آراکو شراب پلا کر مست کر دیتا ہے ۔ وہ عالمِ نشہ میں زارا کے پلنگ پر لیٹ جاتی ہے۔ مرتے وقت دل آرا ، ماہ پارہ کو بیرم کی چال بازی کے متعلق بتادیتی ہے۔ ماہ پارہ، بیرم کے طمنچہ مارتی ہے اور بیرم ، ماہ پارہ کے ۔دونوں مر جاتے ہیں۔ خاقان کو جو سپاہی گرفتار کرکے لے گئے تھے ان کو زارا کا شوہرختم کر دیتا ہے۔ آخر میں شہنشاہ خاقان ، زارا اور اس کا شوہر تینوں مل جاتے ہیں ۔
کردار نگاری:۔’’سفید خون‘‘ میں زارا کا کردار سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ اس کا کردار ایک حق پسند ، صاف گو، فرمانبردار اور اطاعت گزار بیٹی کا کردار ہے۔ حالانکہ سچ بولنے پر خاقان اسے اپنی ملکیت میں اس کا حق دینے سے قطعی انکار کر دیتا ہے۔ لیکن جب دونوں بیٹیوں ماہ پارہ اور دل آرا کے غیر انسانی اور بہیمانہ سلوک سے وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا اور مصائب کے طوفان میں گِھر جاتا ہے تو زارا ہی اس کی خبرگیری کرتی اور بیٹی ہونے کا فرض خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہے ۔ وہ بلندیٔ کردار اور راست بازی کی وجہ سے قارئین وناظرین کی ہمدردی حاصل کر لیتی ہے ۔ وہ شرافت ،ایمانداری اور فرض شناسی جیسے اوصاف کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے ۔
خاقان کے کردار میں جذبات کی شدّت،گفتگو میں تیزی اور مزاج میں غصہ اور خوشامد پسندی پائی جاتی ہے ۔ وہ خو داپنی کمزوریوں کا شکار ہوکرمصیبتوں میں گرفتارہوتا ہے ۔ وہ غصہ ور اور خوشامد پسند ہے اور اسی کمزوری کے باعث وہ غلط فیصلہ کرکے پریشانیوں اورتکلیفوں کو دعوت دیتا ہے ۔ ماہ پارہ اور دل آرا کے ناقابلِ برداشت سلوک سے اس کے شاہانہ وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے ۔ ان کے خلاف اس کے سینے میں نفرت کا دہکتا ہوا لاوا بددعاؤں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ طوفانِ بادوباراں میں قسمت کا مارا ہوا ایک شہنشاہ گھرا ہوا ہے ۔ ارسلان (وزیرِ خاقان) اُ س کے ساتھ ہے ۔ اس عبرت ناک منظر کی تصویر کشی اور خاقان کے کردار میں جذبے کی شدت اور زورِ عمل کو ہم آہنگ کرتے ہوئے حشرؔ نے انتہائی چابک دستی سے ڈرامائی کیفیت پیدا کی ہے ۔
خاقان۔ خوب برسو، خوب چمکو، ہوا ، آگ، مٹی، پانی، ان سب کو رشوت دی گئی ہے، یہ سب میری بیٹیوں سے مل گئے ہیں ، تو بھی ان سے مل جا۔
ا رسلان۔ حضور برف گر رہی ہے ۔
خاقان:۔ گرنے دے ، چل اے ہوا خوب زور سے چل ، اے بادلو !اتنی شدت سے برسو کہ پہاڑوں کی چوٹیاں ، محلوں کے گنبد،قلعوں کی مینار، یہ سب تہِ آب ہو جائیں۔
ارسلان۔ایسی اولاد پر لعنت ہو جس کے دل میں ایسا زہریلا مادہ پیدا ہو جاتا ہے ۔
خاقان۔ ہاں، اور اس باپ پر بھی لعنت ہو جو اپنے نطفے سے ایسی نا خلف اولاد پیدا کرتا ہے اور اس ماں پر بھی لعنت ہو جو اپنی چھاتیوں کا دودھ پلا پلا کر دنیا کی مصیبتوں کو بڑھاتی ہے اور اس محبت پر بھی لعنت ہو جو ایسے زہریلے دانت والے کتوّں کو پالتی ہے ۔
خاقان کو یہ احساسِ شدید کہ خوشامد اور جھوٹی تعریف ہی کی وجہ سے وہ اپنا سب کچھ لٹا بیٹھا اور سچ کو برداشت نہ کر سکا ، باربارکچو کے لگا تا ہے اور اسے ایک عام انسان کے دکھوں کا اندازہ ہوتا ہے ۔
خاقان۔ اے شاہی شان وشوکت تو ان تکلیفوں کو برداشت کر،اگر تو سردی اور طوفان میں نہ پڑتا تو خدا کے قہر وغضب سے نہ ڈرتا۔ اگر مصیبت امیروں کے سرنہ ہوتی تو خدا کے غریب بندے کس تکلیف سے دن گزارتے ، یہ تجھے مطلق خبر نہ ہوتی ۔
غرض یہ کہ خاقان کا کردار انتہائی عبرت ناک اور سبق آموز ہے جو زندگی کے نشیب وفراز کا آئینہ دار ہے ۔
ارسلان اور سعدان ، نیک دل ، سعادت مند، فرمانبردار وزیر ہیں جو ہر حالت اور ہر قیمت پر اپنے مالک خاقان کا ساتھ دیتے ہیں ۔ اس کا احترام کرتے ہیں اور اس کی مصیبت میں برابر کے شریک ہیں۔
ماہ پارہ اور دل آرا اور بیرم کے کردار ہمارے معاشرے کے ایسے کردار ہیں جو اقتدار کی ہوس میں ہرنا جائز کام کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ احسان فراموشی جن کا شیوہ اور دوسروں حتیٰ کہ اپنے شوہر اور باپ کو ایذا پہنچانا جن کا مقصدِ حیات ہے ۔ حشرؔ نے ماہ پارہ ، دل آرا اور بیرم کے کرداروں کے ذریعہ ہمارے سماج کے ایسے افراد کی تصویرکشی کی ہے جو انتہائی خودغرض ، ناپاک اور رذیل ہیں جو اپنے مقدس رشتوں کا بھی ذرہ برابر لحاظ نہیں رکھتے ۔ معاشرے کو بگاڑنے اور اسے اپنے اعمالِ بد سے پستی کے غار مین ڈھکیلنے کے ذمہ دار ہیں۔ ایسے افراد کا انجام ہمیشہ عبرت ناک ہوتا ہے جیسا کہ ماہ پارہ ، دل آرا اور بیرم کا ہوا۔
حشرؔ، پرویز کے ساتھ انصاف نہ کر سکے۔ اسے اپنے اوپر لگائے گئے الزام کا علم بھی نہ ہو سکا۔ بیرم، سعدان کو پرویز سے متنفر کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن پرویز کو اتنا موقع نہ دیا گیا کہ وہ اپنی صفائی پیش کر سکتا ۔ اس طرح ایک اچھا کردار بے جان ہوکر رہ گیا۔
سفید خون کے کردار مافوق الفطرت کردار نہ ہو کر زندگی کے گونا گوں پہلوؤں کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ یہ کردار معاشرے کو سنوارنے اور بگاڑنے میں موثر رول ادا کرتے ہیں ۔ خاقان کے کردار کو پیش کرنے میں حشر نے اپنی فنّی کاریگری اور ڈرامائی صلاحیت کا پورا ثبوت دیا ہے ۔
زبان وبیان :۔ڈرامے کی زبان صاف اور سلیس ہے ۔ مکالموں میں خطابت کا رنگ غالب ہے ، کرداروں میں زورِ عمل پیدا کرنے اور ان کی شخصیت کومؤثر بنانے کے لیے حشرؔ نے اشعار اور قافیے کابر محل استعمال کیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے فقروں سے کرداروں میں ایکٹ کرنے کی گنجائش پیدا کی ہے ۔
سفید خون میں اشعار اور گانوں کی تعداد خاصی ہے ۔گانوں میں اردو ہندی کی آمیزش ، برجستگی ،دلکشی اور موسیقی کا حسین ا متزاج ہے ۔ حالانکہ’’سفید خون‘‘ حشرؔ کی ڈراما نگاری کے دوسرے دور کی نمائندگی کرتا ہے لیکن اکثر محاسن کے اعتبارسے اپنے دور سے زیادہ بلند ہے ۔ یہ قدیم اسٹیج کا دلچسپ اور عبرت ناک ڈراما ہی نہیں بلکہ حشرؔ کے عہد آفرین آغاز کا عمدہ نمونہ بھی ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
ڈرامے کے کردار
مردانہ
خاقان :۔ شہنشاہ
ارسلان:۔ وزیرِخاقان
سعدان:۔ وزیرِخاقان
بیرم:۔ سعدان کا نا خلف بیٹا
پرویز۔ سعدان کا نیک بیٹا
شوہر ماہ پارہ
شوہر دل آرا
شوہر زارا
طرّم :۔ سپہ سالار
سپاہی۔ خادم۔ چوب دار ۔ جلاّد وغیرہ

زنانہ
ماہ پارہ:۔ خاقان کی بیٹی
دل آرا:۔ خاقان کی بیٹی
زارا:۔ خاقان کی بیٹی
دیگر سہیلیاں اور خادمائیں وغیرہ

 

الف عین

لائبریرین
(حم۔۔۔۔د)
کورس
گانا:۔ پیاری پیاری، قدرت کی پھلواری،ہربن ہرا،گلشن ہرا،جگت کی شوبھا ساری، دیکھ کے نہاری نیاری ،گلکاری، پیاری پیاری۔ ڈار ڈار پر کلیاں سجتی ،کوئل گن بھجتی ۔ کیسی پیاریاں ہیں ساری نیاریاں۔ ہری ہری ڈاری پھولن سے بھری ، نسیم بہاری پیاری ، نازسے جاری، پیاری پیاری۔
دوہا:۔
فصلِ گھل آئی کھلی کلیاں دلِ ناشاد کی


ہو گئی دونی بہار اس گلشنِ ایجاد کی
گارہی ہیں چل کے پریاں نغمہ بائے تہنیت


قاف سے آواز آتی ہے مبارک باد کی
کورس:۔ فصلِ بہاری سے۔رنگت چمکے عالم کی۔ہرگھر درسے جوبن برسے ۔ فصلِ بہاری سے نورانی، ہے لا ثانی، جگ بنکے چم چم دمکے ۔ رنگت چمکے عالم کی۔ ہرگھر درسے ...
دوہا:۔
ساقیا لے آگئے دیر وحرم سے گھوم کر


غم گھٹا ، کلفت گھٹی، ساغر پلا دے جھوم کر
سروکو دیتی ہے قمری بن کے عاشق،پیچ وتاب


گُل کو بلبل چھیڑتی ہے روئے رنگیں چوم کر
کورس :۔تم ہو جگ کے آدھار۔ تن من دھن سب نثار ۔ کیسی دکھائی نرالی بہار۔ جدھر نظر قدرت آتی۔ آن دکھاتی۔ شان بتاتی۔ جان لبھاتی۔ فصلِ بہاری سے رنگت چمکے عالم کی...
سین ۔ دربارِ خاقان
(شہشاہِ خاقان کی لڑکیوں کا شوہروں کے ساتھ آنا اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ جانا۔ شہنشاہ کا مع وزیر ارسلان آنا ۔ سب اہلِ دربار کا تعظیم کے لیے دست بستہ کھڑے ہونا ۔ شہنشاہ کا تخت پر بیٹھ کر سب کو بیٹھنے کا اشارہ کرنا )
گانا: (کورس او رناچ)
ہے آؤ ، ہے آؤ، کچھ ناچ سے رِ جھاؤ

لو آؤ، لو آؤ ، کچھ رنگ ڈھنگ لاؤ
ہے آؤ ہے آؤ
باغِ جہاں میں رچی شادیاں

بلبلیں گلشن میں ہیں شادماں
ہے آؤ ہے آؤ
دوہا:۔
پران دان ہے پریت میں، تھوڑی کرنا پریت

پران دان تو سہل ہے ، کٹھن پر یت کی ریت

رسیابنا موری سونی سیجریا
ہے آؤ ہے آؤ
خاقان:۔
اے باعثِ حیاتِ جہاں بانی !

اے روحِ روانِ سلطانی!
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
اند یشۂ مرگ وخوفِ فردانے گھیرا ہے ۔ تھوڑے ہی عرصے میں میری شامِ زندگی کا سویرا ہے ۔ لہٰذا چاہتا ہوں کہ وفات سے پہلے حیات کا ایک بڑا فرض ہے وہ چکا دیا جائے یعنی نا اتفاقی کے ہاتھوں سے بچا کر یہ تاج کسی حق دار کے سر چڑھادیا جائے ۔ سب سے پہلے ہمارے ضعیف کان یہ سننا چاہتے ہیں کہ تم میں ہر ایک بیٹی مجھے کس قدر پیار کرتی ہے ۔ ماہ پارہ ! تم اولادِ اکبر ہو۔ اول تم ہی سے سنیں کہ تمھاری سعادت مندی کیا اظہار کرتی ہے ۔
ماہ پارہ:۔ جہاں پناہ ! اگر یہ امرسچ ہے کہ سمندرکا پانی کو زے میں نہیں سما سکتا ، تو اسے بھی سچ جا نیے کہ آپ کی لا انتہا محبت کا اظہار زبان اور کلام کے ذریعے سے نہیں ہو سکتا ۔میری گویائی اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتی کہ جتنی محبت اس خادمہ کو آپ سے ہے اتنی کوئی بیٹی اپنے باپ سے نہ رکھتی تھی اور نہ رکھتی ہے ۔
زارا:۔ (سائڈ میں) اللہ رے خوشامد۔
خاقان:۔ شاباش اے میری نورِ دیدہ شاباش ! مجھ ضعیف کے مشتاق کان جس بات کے لیے گوش برآواز تھے تو نے وہی تسلی بخش بات کہہ سنائی۔ مبارک ہے وہ باپ جس نے تجھ جیسی سعادت مند اولاد پائی ( دل آرا کی طرف اشارہ کرکے ) ہاں بول اے باپ کی دلاری اب ہے تیری باری۔
دل آرا:۔ ذرہ نواز ۔ میں کیا عرض کروں ۔ باجی کی لا جواب اور سچی تقریر کے بعد اس کنیز کا کچھ عرض کرنا محض بے ضرورت ہے ۔ اتنا تو حضور بھی جانتے ہیں کہ میری طبیعت اور آپا کی طبیعت کی بالکل ایک ہی کیفیت ہے ۔ ؂
دونوں دل میں جلوہ فرما ہے محبت آپ کی
دونوں گھر کا ہے اُجالا شمعِ الفت آپ کی
سر میں سودا آپ کا دل میں عقیدت آپ کی
منہ پہ کلمہ آپ کا ہے لب پہ مدحت آپ کی
افتخارِ ارض بھی فخرِ سما بھی آپ ہیں
گر خدا کہتا تو ہم کہتے خدا بھی آپ ہیں

زارا:۔ (سائڈ میں ) پناہ تیری!
خاقان:۔ مرحبا! اے میری نوردیدہ تو میری امیدوں سے بھی بڑھ کر سعادت مند اور فرمانبردار ہے ۔ (زارا کی طرف اشارہ کرکے) ہال بول اے غنچۂ آرزو اب تیری گل افشانی کا انتظار ہے ۔
زارا:۔ ابا جان میں کیا عرض کروں ؂
ا طاعت مجھ سے کہتی ہے کہ تو چپ رہ نہیں سکتی
مگر میرا یہ کہنا ہے کہ میں کچھ کہہ نہیں سکتی
خاقان:۔ کیوں بات کرنے میں کیا برائی ہے ۔ آخر خدا نے زبان کس لیے عطا فرمائی ہے ۔
زارا:۔ اس کی خدائی اوریکتائی کا اقرارکرنے کے لیے اور ضرورت کے وقت اپنی ضروریات کا اظہار کرنے کے لیے ؂
زمانے کی راحت اگر چاہیے
تو باتیں کرے سوچ کر چاہیے
کہے ایک سُن لے جب انسان دو
کہ حق نے زباں ایک دی کان دو
گانا:۔ (زارا) کر غور، گر ہے دانا۔تاپڑے نہ پچھتانا۔گیانی کا گُن گانا۔کر غور گرہے دانا۔ دل کی دل میں سوچ لے پہلے۔ اس دم لب پہ لانا ۔ کر غور، گرہے دانا۔ جس نے بات کی ریت نہ جانی، اُس نے کچھ نہ جانا۔ کر غور ، گرہے دانا ؂
صبرِ حالِ تباہ مشکل ہے

ضبطِ فریاد و آہ مشکل ہے
چاہ کا دعویٰ ہے بہت آسان

مگر اس کا نباہ مشکل ہے
خاقان:۔
باپ کا فرمان تو فرمانِ شرع ودین ہے
اس قدر انکار میرے حکم کی توہین ہے
زارا :۔ عالی جاہ ! میں اُن باتوں کو پسند نہیں کرتی جن سے انسان کی پسند کا شکار کیا جاتا ہے ۔ سچائی شرافت کی جان ہے ۔ میں اپنے بزرگ باپ سے اس قدر محبت رکھتی ہوں جس قدر محبت رکھنا ہر سعادت مند بیٹی کا فرض اور ایمان ہے۔
خاقان:۔ اُو فرض فرا موش !یہ کیسی بیہودہ تکرارکرتی ہے ۔ اس سے اچھے اور اس سے عمدہ لفظوں میں تومجھ سے ایک غیر شخص کی محبت کا اظہار کرتی ہے۔
زارا:۔ تو معلوم ہوا کہ حضور کی طبیعت راست بازی کو نہیں بلکہ لفّاظی کو پیار کرتی ہے۔
خاقان:۔ زارا ! زارا !
زارا:۔سریرآرا۔ قول کو فعل کے ترازو میں رکھ کر تولنا چاہیے۔سچی محبت زبان کی دکان اور لفظوں کے بازار میں نہیں ملتی۔ اس کو دل کے خزانے میں ڈھونڈھنا اور طبیعت کے تہہ خانے میں ٹٹولنا چاہیے۔
خاقان:۔ اوہ غضب ! اتنی چھوٹی اور اتنی طرّار۔
زارا:۔ جی نہیں۔ یو ں فرمائیے کہ اتنی چھوٹی اور اتنی راست گفتار۔
خاقان:۔ تو کیا راست گفتاری اسی سخن سازی کا نام ہے ۔
زارا:۔ تو کیا حق گوئی خوشامد بازی کانام ہے ۔
خاقان:۔ اظہارِوفاداری کو خوشامد کہنا یہ ایک قسم کی بدزبانی ہے ۔
زارا:۔ اور مکاری کو وفاداری کہنا یہ ایک خوفناک نادانی ہے ۔
خاقان:۔ وفاداری کے دعوے دار کو مکار کہنا یہ تجھے سجتا نہیں۔
زارا:۔ یہ تو دنیا جانتی ہے کہ جو گر جتا ہے وہ برستا نہیں ۔
خاقان:۔ دل کا حال انسان کی گفتگو سے جانا جا تا ہے۔
زارا:۔ عطر عطّار کے کہنے سے نہیں بلکہ اپنی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے ۔
خاقان:۔ چھوڑدے یہ ضد۔
زارا:۔ کبھی چھوٹی نہیں۔
خاقان:۔ بے ادب ہے تو۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلا باب
پہلا سین
(حم۔۔۔۔د)
کورس
گانا:۔ پیاری پیاری، قدرت کی پھلواری،ہربن ہرا،گلشن ہرا،جگت کی شوبھا ساری، دیکھ کے نہاری نیاری ،گلکاری، پیاری پیاری۔ ڈار ڈار پر کلیاں سجتی ،کوئل گن بھجتی ۔ کیسی پیاریاں ہیں ساری نیاریاں۔ ہری ہری ڈاری پھولن سے بھری ، نسیم بہاری پیاری ، نازسے جاری، پیاری پیاری۔
دوہا:۔
فصلِ گھل آئی کھلی کلیاں دلِ ناشاد کی


ہو گئی دونی بہار اس گلشنِ ایجاد کی
گارہی ہیں چل کے پریاں نغمہ بائے تہنیت


قاف سے آواز آتی ہے مبارک باد کی
کورس:۔ فصلِ بہاری سے۔رنگت چمکے عالم کی۔ہرگھر درسے جوبن برسے ۔ فصلِ بہاری سے نورانی، ہے لا ثانی، جگ بنکے چم چم دمکے ۔ رنگت چمکے عالم کی۔ ہرگھر درسے ...
دوہا:۔
ساقیا لے آگئے دیر وحرم سے گھوم کر


غم گھٹا ، کلفت گھٹی، ساغر پلا دے جھوم کر
سروکو دیتی ہے قمری بن کے عاشق،پیچ وتاب


گُل کو بلبل چھیڑتی ہے روئے رنگیں چوم کر
کورس :۔تم ہو جگ کے آدھار۔ تن من دھن سب نثار ۔ کیسی دکھائی نرالی بہار۔ جدھر نظر قدرت آتی۔ آن دکھاتی۔ شان بتاتی۔ جان لبھاتی۔ فصلِ بہاری سے رنگت چمکے عالم کی...
سین ۔ دربارِ خاقان
(شہشاہِ خاقان کی لڑکیوں کا شوہروں کے ساتھ آنا اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ جانا۔ شہنشاہ کا مع وزیر ارسلان آنا ۔ سب اہلِ دربار کا تعظیم کے لیے دست بستہ کھڑے ہونا ۔ شہنشاہ کا تخت پر بیٹھ کر سب کو بیٹھنے کا اشارہ کرنا )
گانا: (کورس او رناچ)
ہے آؤ ، ہے آؤ، کچھ ناچ سے رِ جھاؤ

لو آؤ، لو آؤ ، کچھ رنگ ڈھنگ لاؤ
ہے آؤ ہے آؤ
باغِ جہاں میں رچی شادیاں

بلبلیں گلشن میں ہیں شادماں
ہے آؤ ہے آؤ
دوہا:۔
پران دان ہے پریت میں، تھوڑی کرنا پریت

پران دان تو سہل ہے ، کٹھن پر یت کی ریت

رسیابنا موری سونی سیجریا
ہے آؤ ہے آؤ
خاقان:۔
اے باعثِ حیاتِ جہاں بانی !

اے روحِ روانِ سلطانی!
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
اند یشۂ مرگ وخوفِ فردانے گھیرا ہے ۔ تھوڑے ہی عرصے میں میری شامِ زندگی کا سویرا ہے ۔ لہٰذا چاہتا ہوں کہ وفات سے پہلے حیات کا ایک بڑا فرض ہے وہ چکا دیا جائے یعنی نا اتفاقی کے ہاتھوں سے بچا کر یہ تاج کسی حق دار کے سر چڑھادیا جائے ۔ سب سے پہلے ہمارے ضعیف کان یہ سننا چاہتے ہیں کہ تم میں ہر ایک بیٹی مجھے کس قدر پیار کرتی ہے ۔ ماہ پارہ ! تم اولادِ اکبر ہو۔ اول تم ہی سے سنیں کہ تمھاری سعادت مندی کیا اظہار کرتی ہے ۔
ماہ پارہ:۔ جہاں پناہ ! اگر یہ امرسچ ہے کہ سمندرکا پانی کو زے میں نہیں سما سکتا ، تو اسے بھی سچ جا نیے کہ آپ کی لا انتہا محبت کا اظہار زبان اور کلام کے ذریعے سے نہیں ہو سکتا ۔میری گویائی اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتی کہ جتنی محبت اس خادمہ کو آپ سے ہے اتنی کوئی بیٹی اپنے باپ سے نہ رکھتی تھی اور نہ رکھتی ہے ۔
زارا:۔ (سائڈ میں) اللہ رے خوشامد۔
خاقان:۔ شاباش اے میری نورِ دیدہ شاباش ! مجھ ضعیف کے مشتاق کان جس بات کے لیے گوش برآواز تھے تو نے وہی تسلی بخش بات کہہ سنائی۔ مبارک ہے وہ باپ جس نے تجھ جیسی سعادت مند اولاد پائی ( دل آرا کی طرف اشارہ کرکے ) ہاں بول اے باپ کی دلاری اب ہے تیری باری۔
دل آرا:۔ ذرہ نواز ۔ میں کیا عرض کروں ۔ باجی کی لا جواب اور سچی تقریر کے بعد اس کنیز کا کچھ عرض کرنا محض بے ضرورت ہے ۔ اتنا تو حضور بھی جانتے ہیں کہ میری طبیعت اور آپا کی طبیعت کی بالکل ایک ہی کیفیت ہے ۔ ؂
دونوں دل میں جلوہ فرما ہے محبت آپ کی
دونوں گھر کا ہے اُجالا شمعِ الفت آپ کی
سر میں سودا آپ کا دل میں عقیدت آپ کی
منہ پہ کلمہ آپ کا ہے لب پہ مدحت آپ کی
افتخارِ ارض بھی فخرِ سما بھی آپ ہیں
گر خدا کہتا تو ہم کہتے خدا بھی آپ ہیں

زارا:۔ (سائڈ میں ) پناہ تیری!
خاقان:۔ مرحبا! اے میری نوردیدہ تو میری امیدوں سے بھی بڑھ کر سعادت مند اور فرمانبردار ہے ۔ (زارا کی طرف اشارہ کرکے) ہال بول اے غنچۂ آرزو اب تیری گل افشانی کا انتظار ہے ۔
زارا:۔ ابا جان میں کیا عرض کروں ؂
ا طاعت مجھ سے کہتی ہے کہ تو چپ رہ نہیں سکتی
مگر میرا یہ کہنا ہے کہ میں کچھ کہہ نہیں سکتی
خاقان:۔ کیوں بات کرنے میں کیا برائی ہے ۔ آخر خدا نے زبان کس لیے عطا فرمائی ہے ۔
زارا:۔ اس کی خدائی اوریکتائی کا اقرارکرنے کے لیے اور ضرورت کے وقت اپنی ضروریات کا اظہار کرنے کے لیے ؂
زمانے کی راحت اگر چاہیے
تو باتیں کرے سوچ کر چاہیے
کہے ایک سُن لے جب انسان دو
کہ حق نے زباں ایک دی کان دو
گانا:۔ (زارا) کر غور، گر ہے دانا۔تاپڑے نہ پچھتانا۔گیانی کا گُن گانا۔کر غور گرہے دانا۔ دل کی دل میں سوچ لے پہلے۔ اس دم لب پہ لانا ۔ کر غور، گرہے دانا۔ جس نے بات کی ریت نہ جانی، اُس نے کچھ نہ جانا۔ کر غور ، گرہے دانا ؂
صبرِ حالِ تباہ مشکل ہے

ضبطِ فریاد و آہ مشکل ہے
چاہ کا دعویٰ ہے بہت آسان

مگر اس کا نباہ مشکل ہے
خاقان:۔
باپ کا فرمان تو فرمانِ شرع ودین ہے
اس قدر انکار میرے حکم کی توہین ہے
زارا :۔ عالی جاہ ! میں اُن باتوں کو پسند نہیں کرتی جن سے انسان کی پسند کا شکار کیا جاتا ہے ۔ سچائی شرافت کی جان ہے ۔ میں اپنے بزرگ باپ سے اس قدر محبت رکھتی ہوں جس قدر محبت رکھنا ہر سعادت مند بیٹی کا فرض اور ایمان ہے۔
خاقان:۔ اُو فرض فرا موش !یہ کیسی بیہودہ تکرارکرتی ہے ۔ اس سے اچھے اور اس سے عمدہ لفظوں میں تومجھ سے ایک غیر شخص کی محبت کا اظہار کرتی ہے۔
زارا:۔ تو معلوم ہوا کہ حضور کی طبیعت راست بازی کو نہیں بلکہ لفّاظی کو پیار کرتی ہے۔
خاقان:۔ زارا ! زارا !
زارا:۔سریرآرا۔ قول کو فعل کے ترازو میں رکھ کر تولنا چاہیے۔سچی محبت زبان کی دکان اور لفظوں کے بازار میں نہیں ملتی۔ اس کو دل کے خزانے میں ڈھونڈھنا اور طبیعت کے تہہ خانے میں ٹٹولنا چاہیے۔
خاقان:۔ اوہ غضب ! اتنی چھوٹی اور اتنی طرّار۔
زارا:۔ جی نہیں۔ یو ں فرمائیے کہ اتنی چھوٹی اور اتنی راست گفتار۔
خاقان:۔ تو کیا راست گفتاری اسی سخن سازی کا نام ہے ۔
زارا:۔ تو کیا حق گوئی خوشامد بازی کانام ہے ۔
خاقان:۔ اظہارِوفاداری کو خوشامد کہنا یہ ایک قسم کی بدزبانی ہے ۔
زارا:۔ اور مکاری کو وفاداری کہنا یہ ایک خوفناک نادانی ہے ۔
خاقان:۔ وفاداری کے دعوے دار کو مکار کہنا یہ تجھے سجتا نہیں۔
زارا:۔ یہ تو دنیا جانتی ہے کہ جو گر جتا ہے وہ برستا نہیں ۔
خاقان:۔ دل کا حال انسان کی گفتگو سے جانا جا تا ہے۔
زارا:۔ عطر عطّار کے کہنے سے نہیں بلکہ اپنی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے ۔
خاقان:۔ چھوڑدے یہ ضد۔
زارا:۔ کبھی چھوٹی نہیں۔
خاقان:۔ بے ادب ہے تو۔
زارا:۔ مگر جھوٹی نہیں۔
خاقان:۔ باتیں یہ نا پسند ہیں ۔
زارا:۔ دنیا کو ہیں پسند۔
خاقان:۔ مجھ کو نہیں پسند۔
زارا:۔ خدا کو تو ہیں پسند۔
خاقان:۔ نقصان اٹھائے گی ۔
زارا:۔ میرا باریٔ تعالیٰ ہے ۔
خاقان:۔ میں کچھ نہ دوں گا تجھ کو۔
زارا :۔ خدا دینے والا ہے۔
خاقان:۔ اچھا اگر تو میری دولت اور سلطنت کو لا پروائی کی ٹھوکر مارتی ہے، تو اس غرور کو دولت سمجھ جس کو تو حق ، سچائی ، فرض اورایمان کے نام سے پکارتی ہے۔ جا دور ہو۔ خدا تجھ کو غارت کرے۔ آج سے میں تجھ کو اور تیری محبت دونوں کو چھوڑتا ہوں ۔ رشتۂ الفت کو توڑتا ہوں ؂
سنگِ فالج بن کے تجھ پر تودۂ لعنت گرے
درد کی صورت اُٹھے اور اشک کی صورت گرے
سر کٹے، شوکت گھٹے ، ذلّت بڑھے ، عزت گرے
عیش چھوٹے ، قہر ٹوٹے ، غم بڑھے ، آفت گرے
سعدان:۔ بس جہاں پناہ بس ! ایسی ہولناک اورمہیب بددعا اب ان جاں نثار کانوں سے نہیں سنی جاتی ہے۔ دل لزرتا ہے روئیں روئیں سے پناہ پناہ کی آواز آتی ہے۔
خاقان:۔ تو کیا ایسی نا خلف اولاد کو والدین دعائے نیک دیتے ہیں۔
سعدان :۔ ولیٔ نعمت بچہ اگر ہاتھ کو نجس کر لے تو کیا ماں باپ اس کو کاٹ کر پھینک دیتے ہیں ۔
خاقان:۔ نہیں ایسی قصور وار پر رحم کرنا کچھ ضرور نہیں۔
شوہر زارا:۔ عالی جاہ !اوّل تو آپ جسے بہت بڑا قصور سمجھتے ہیں وہ کوئی قصور نہیں۔ دوم اولادکیسی ہی قصور وار ہومگر اس کے حق میں ایسی دل ہلادینے والی بددعا دینا محبتِ پدری کا دستور نہیں۔ فیاض دل اپنا برا چاہنے والے کے حق میں بھی بھلا جملہ نکالتا ہے ۔ سر سبز درخت ، جو اس کی جڑ کاٹتا ہے ، اس پر بھی اپنا سایہ ڈالتا ہے ۔
خاقان:۔ بہت خوب ! اگر تم اس کھوٹی اشرفی کو کھری سمجھتے ہو تو ہٹاؤ۔ تم ہی اپنے ساتھ لے جاؤ۔ قسم ہے اس آفتابِ قدرت کی جس کے اختیار میں تمام عالم کے ذرائع ہست وبود ہیں، قسم ہے تمام اجرامِ فلکی کی جو ہماری نمودِبے بود کا باعثِ وجود ہیں ۔ آج سے ، اس وقت سے، او مغرورو سرکش لڑکی !ان خوفناک درندوں کی طرح جو اپنی اولادکو مارکر کھاجاتے ہیں ، تجھے ذلیل اورہیٹی جانوں گا ۔جا دور ہو ! آج سے نہ تو مجھے اپنا باپ سمجھنا اور نہ میں تجھے اپنی بیٹی جانوں گا۔
ارسلان:۔ جہاں سردار!
خاقان:۔ ارسلان خبردار!
ارسلان:۔ سریر آرا !
خاقان:۔ ادھر آؤ ماہ پارہ، دل آرا، سنو۔ آج سے ، اس وقت سے ، یہ دولت ، یہ سلطنت ، کل مال ومنال، غر ض جو کچھ ہے سو تمھارا۔ اب ما بدولت کو نہ عزت کی پروا ، نہ سلطنت کی چاہت، صرف چند دن زندگی کے گزارنے ہیں، سو اس کے لیے یہ انتظام کروں گا کہ سرداروں کے ساتھ ایک ماہ اے نورِنظر تیرے گھر اور ایک ماہ اے راحتِ جاں تیرے مکان پر قیام کروں گا ۔ پھر میں کچھ اور ...
ارسلان:۔ حضور ! ذ را غور !
خاقان:۔بس زبان کو تھام لے!
ارسلان:۔انسان کو چاہیے کہ محض غصے ہی سے نہیں ‘ ذرا عقل سے بھی کام لے۔
خاقان:۔ اس سے مراد؟
ارسلان:۔عالی نژا د ! آپ کا یہ سخت حکم سنگِغم بن کر ضعیف دلوں کو کچل دے گا۔
خاقان:۔تو ناحق اس سے ہمدردی کرتا ہے۔ایسی ناخلف اولادکو کوئی لعنت کے سوا اور کیا دے سکتا ہے۔
ارسلان:۔ حضور کان اور آنکھ میں صرف چار انگل کافاصلہ ہے مگرسن کر تجربے کی نظر سے نہ دیکھا جائے تو کوسوں کا فرق پڑجاتا ہے۔
خاقان:۔ارسلان! شاہی محلات میں دخل دینا اچھا نہیں،یہ ضعیف شخص کوئی نادان بچہ نہیں جوتمھاری باتوں کی شیرینی سے پھسل جائے گایا اس بے وفاپتلی کی طرح اپنے مضبوط ارادے سے بدل جائے گا ؂
بشر الجھیں ، مَلَک بِگڑیں ، جہاں سارا اُلٹ جائے
زمیں کانپے ، فلک لرزے ، یہ جسم وجاں پلٹ جائے
مگر کیا تاب ، کیا طاقت ، کہ دل ، اور وہ بھی میرا دل
بڑھے اور بڑھ کے گھٹ جائے ، جمے اور جم کے ہٹ جائے
ارسلان:۔حضور میں ارادہ بدلنے کو نہیں کہتا ۔صرف یہ گزارش ہے کہ غیظ سے پہلے غور کیجیے ۔ قسم ہے اس تخت و ا ورنگ کی جس کو میرے بزرگوں نے اپنے خون سے غسل دے کر پاک بنایا ۔قسم ہے اس سربلند سر کی کہ جس کی سر داری کے لیے سینکڑوں سردارانِ لشکر نے اپنا سر کٹایا۔آپ کا یہ اِرادہ ظلمِ ناحق ہے ۔آپ اتنا غیظ وغضب نہ کیجیے۔اگر آپ سلطنت لٹانا ہی چاہتے ہیں تو سب سے زیادہ اور سب سے پہلے چھوٹی صاحبزادی کا حق ہے۔
خاقان:۔دیکھو کمانِ کشیدہ کے سامنے نہ آؤ۔اگر ہمیشہ کے لیے چپ نہ رہنا ہو تو اِس وقت تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو جاؤ۔
ارسلان :۔خاموش کیاکہا!اے سرتاج خاموش!چاپلوسی کا شیطان آپ کو تباہی کے جہنم کی طرف ریلے،سخن ساز زبان آپ کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر غارِ مصیبت کی طرف ڈھکیلے اور یہ غلامِ وفادار اظہارِ وفاداری سے خاموش ہو۔ لعنت ہو ایسے دل پر جو ایسا فرض فراموش ہو۔ ؂
نہ چپ ہے ، نہ یہ حشر تک چپ رہے گا یہی کہہ رہا ہے یہی پھر کہے گا
خاقان :۔کہہ؟
ارسلان:۔ کہ آپ اپنے حق میں جفا کر رہے ہیں
بُرا کہہ رہے ہیں بُرا کر رہے ہیں
خاقان :۔قسم ہے خدا کی کہ ہم راہِ انصاف کے خلاف ہرگزقدم نہیں اٹھاتے ۔
ارسلان:۔ پیرومرشد !معاف کیجیے۔ آپ جھوٹی قسم کھاتے ہیں ۔
خاقان:۔ کیوں رے اوسفلے ،اوکمینے! اب تو یہاں تک گستاخی پر آمادہ ہوا۔
ارسلان:۔ حضور ذرا سنبھلیے۔طبیب کو قتل کیا اور مرض زیادہ ہوا۔
خاقان:۔تو گستاخ ہے ۔
ارسلان:۔ مگر خوشامد باز نہیں۔
خاقان:۔ تو سخن پرور ہے۔
ارسلان:۔مگر سخن ساز نہیں۔
خاقان:۔حجتی!
ارسلان:۔ مگر راست گفتار۔
خاقان:۔ احمق!
ارسلان:۔مگر آپ سے زیادہ ہوشیار۔
خاقان:۔چل دفع ہو ناہنجار!
ٹیبلو
(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
پہلا باب دوسراسین
را ستہ
بیرم:۔کینہ ‘دھوکا‘عیاری‘مکاری اِنھیں چیزوں کانام ہے دنیا داری۔صورت میں نور‘سیرت میں نار ‘منہ پہ پیار‘بغل میں تلوار ‘یہی ہیں وہ چلتے ہوئے اوزارجن سے بیوقوف لوگ ڈرتے ہیں اورعقلمند اپنے حریفوں کی دھجیاں کرتے ہیں۔او پرویز نابکاروغاصب بھائی! توباپ کی دولت سے تین حصّے زیادہ پا ئے ا ور بیرم تین چوتھائی ! کیوں ؟ کس لیے؟ کیا اس لیے کہ تو سراپا نیکی ہے اور میں مجسم برائی۔ تو پار سا ہے اور میں عیاش۔ تو نیک معاش ہے اور میں بد قماش ۔ ہاں ۔ ہوں ۔ پھر۔کیا میں اس بیہودہ وجہ سے اپنے ا شہبِ امیدکی لگام میدانِ آرزو سے موڑلوں گا؟ نہیں! بلکہ ان سنہری حرفوں کے جادو سے تیری ساری خوش نصیبی کا طلسم توڑ دوں گا۔ (باپ کو آتے دیکھ کر) بے وقوف بوڑھا۔
سعدان:۔ ظلم ، دغا، فریب، تباہی،ویرانی! افسوس اتنا عقلمندبادشاہ اور اتنی بڑی نادانی! زاراسی سعادت مند بیٹی اور اس سے یہ برائی ! ارسلان سا خیر خواہ اور اس سے یہ کج ادائی !صرف اتنے قصور پرکہ ایک نے خوشامد کیوں کی اور دوسرے کی زبان پر سچ بات کیوں آئی۔
بیرم :۔(خو دسے مگر سنانے کے لیے ) نہیں ہو سکتا ۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا ، اے ہوس پرست دل یہ کبھی نہیں ہو سکتا ۔ افسوس جس چشمے کے پانی سے پیاس بجھانا ، اسی میں زہر ملانا ۔ جس درخت کے سائے میں سونا ، اسی کی جڑ پر کلہاڑی چلانا ۔ پرویز سا فرشتہ اور یہ شیطانی ارادہ !بیٹا اور باپ کی جان لینے پر آمادہ! توبہ!توبہ! توبہ!ارے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا آتا ہے، میرا دماغ چکّر کھاتا ہے ، چکّر کھاتا ہے ، چکّر کھاتا ہے ۔
سعدان:۔ کون بیرم ؟ یہ کیا بک رہا ہے ؟ یہ میں نے کیا سنا ؟ کیا پرویز میرا بیٹا!
بیرم:۔ اے دیکھنے والے آسمان، اے سننے والی زمین، اے پاس سے ہوکر گزرنے والے ہوا کے جھونکو!کیا تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو میرے باپ کو ایک لفظ کہہ کر خبردار کر دے ؟
سعدان:۔ (بیرم کا جانا چاہنا ۔سعدان کا روکنا) یہ تم کر سکتے ہو ؟بیرم! یہ تمھیں کرنا ہوگا۔
بیرم:۔ ج۔ج۔ ج۔ جناب ۔ میں کیا کر سکتا ہوں؟
سعدان:۔ ادائے فرض!اظہارِ حق!
بیرم:۔ یا خدا تو جانتا ہے ۔
سعدان:۔ اور تم بھی جانتے ہو۔
بیرم:۔ جناب ، میں کیا جانتاہوں؟
سعدان:۔جو میں نہیں جانتا مگر اب جاننا چاہتا ہوں۔ بیرم ۔کیا تو میرا بیٹا نہیں ؟ کیا میں تیرا باپ نہیں ؟ تو جو ابھی جوش میں آکرکہہ رہا تھا ۔ جس کو میں اتفاق سے سن چکا ہوں۔کیا اس سے انکارکیا چاہتا ہے ؟ کیا پرویز کے ساتھ مِل کر تو بھی مجھے شکار کیا چاہتا ہے ؟
بیرم:۔ اوہ پرویز ! نا فہم ! رحم پیار ے باپ رحم !
سعدان:۔ نہیں! رحم صرف تجھ پر۔
بیرم:۔نہیں ہم دونوں پر ۔
سعدان:۔ وہ شیطان ہے !اس لیے اس پر لعنت چاہیے ۔
بیرم:۔لیکن آپ فرشتے ہیں ، اس لیے برکت چاہیے ۔
سعدان:۔ ہیں ! یہ خط کس کا؟
بیرم:۔ پ۔پ۔پ۔پرویز کا ۔ نہیں جناب میرا۔
سعدان:۔بیوقوف گناہ کا چھپانا بھی گناہ ہے ۔
بیرم:۔ (علیٰحدہ) اے لعنتی حرص تیرے لیے میرا بھائی تباہ ہوتا ہے ۔
سعدان:۔(خط کا مضمون پڑھنا)’’رات کے بارہ بجے جب زندگی کی شورشیں خوفناک خاموشی سے بدل جاتی ہیں ۔ آسمان بھیانک اور زمین سنسان۔ قبروں سے نکل کر روحیں رینگتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اس رقت اگر تمھاری چہ۔چہ ۔ چھری نے میرے باپ کو اس نیند میں ، جس نیند میں کہ وہ سوتا ہوگا، قتل کیا ، تو جس قدر دولت دینے سے میں تم سے نفرت کرتا ہوں اتنا ہی پیارکروں گا ‘‘ یا اللہ یہ کون لکھتا ہے ؟ کیا میرا بیٹا؟
بیرم:۔اے میری فصاحت ذرا اور شعلہ بھڑکا۔
سعدان:۔غضب ! قہر ! یہ پھندا !
بیرم:۔ خدا وندا!
سعدان:۔ یہ بے مہری !
بیرم:۔ پناہ تیری!
سعدان:۔ باپ کا خون!
بیرم:۔اوہ بیوقوف مجنون!
سعدان:۔ ہائے زمانہ ! زمانہ ! زمانہ!
بیرم:۔ الہٰی میرے شفیق باپ اور نادان بھائی دونوں کو ہلاکت سے بچانا! بچانا! خیر۔ جناب عالی۔ اگر چہ یہ تحریر میں نے بھائی پرویز ہی کی میز پر پڑ ی ہوئی پائی ہے مگربھربھی مجھے شک ہے کہ یہ کسی دشمن کی کارروائی ہے ۔
سعدان:۔ کیا میں اس کا خط نہیں پہچانتا ؟ کیا میری آنکھیں پھوٹی ہیں۔
بیرم:۔ (علیٰحدہ ) آنکھیں تو نہیں مگرعقل ضرور پھوٹی ہے!(ظاہر)خیر جناب اگر ایسا ہے تو آج آپ کو بھائی کی نیت آزمانا چاہیے۔ اگر کوئی حملہ ہو تو سمجھنا چاہیے کہ یہ اسی کا فتور ہے ۔ ورنہ وہ بیچارہ بالکل بے قصور ہے ۔
سعدان:۔ افسوس ! بیرم صد ہزار افسوس !
بیرم:۔جناب ۔ بلکہ بے حد اور بے شمار افسوس ۔ ( سعدان کا جانا) واہ میاں بیرم خوب باپ کو اُلّو بنایا ! ( پرویز کو آتے دیکھ کر )دیکھ لو وہ اُلّوکا پٹھا آگیا ۔
پرویز:۔بھائی تسلیم!
بیرم:۔اوہوکون پرویز! آؤ بھائی ۔ (دونوں کا گلے ملنا) کہیے جانِ برادر کیا حال ہے؟
(پرویز)گانا:۔سارے چترگنی گئے ہار۔ جگ کی نہ پائی سار ۔ لاکھن کیے بچار ۔ سارے چترگنی جن کی جگت بیچ لاکھن کو ہے آس ، اُنھیں کے چت نت بھیو ہے نراس آج۔ دیکھا یہ سنسار۔ سارے چترگنی۔
پرویز:۔بھائی تمھیں معلوم ہے کہ والد صاحب مجھ سے کیوں ناراض ہیں ؟
بیرم:۔ تم سے! بھائی تم سے ! جو انھیں نیکی اور عزت کی طرح پیارے ہو!
پرویز:۔ہاں بھائی مجھ سے !
بیرم:۔مگر والد کی ناراضی تم کو کیسے معلوم ہوئی؟
پرویز:۔ابھی ابھی راستے میں ملاقات ہوئی ۔ ہم انھیں دیکھ کر سلام کرنے لگے ۔ وہ منہ پھیرکر دوسرے شخص سے کلام کرنے لگے ۔ پھر آپ ہی آپ فرمانے لگے کہ زمانے کا زمانہ ہی بدذات ہے ۔
بیرم:۔واقعی بھائی یہ تو ناراضی کے آثار ہیں مگر کسی دشمن نے کچھ الٹاسیدھا نہ پڑھایا ہو جس سے والد کے جی میں بل آیا ہو۔
پرویز:۔بھائی دشمن کی کارروائی تو میں تب جانوں جب میں نے کسی کو ستایا ہو۔
بیرم:۔بھئی عجب نادان ہو! آج کل تو خواہ مخواہ لوگ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں ۔ بھلا بھڑاور بچھو کو کسی سے کیا عداوت ہے جو ڈنگ مارتے ہیں۔
پرویز:۔بھائی میں تمھارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ والدکی ناراضی دور کرنے کی کوئی تدبیر بتاؤ۔
بیرم:۔مت گھبراؤ۔ مجھ پر بھروسہ رکھو ۔ تمھارے خوشی کے دن کو جو غم کی تاریکی نگل گئی ہے اسے دوہی باتوں میں دوبارہ منوّر بنادوں گا ۔ لو سدھارو۔ خداحافظ۔
پرویز:۔ خدا آپ کا کام راس کرے ۔
بیرم:۔ (خود سے ) خدا تیرا ستیاناس کرے ۔ ہنہ۔ ہنہ ۔ ہنہ ۔ واہ میاں بیرم ! کیا اُلّو باپ اور کیا اُلّو کا پٹھا بھائی پایا ہے!آج تک تو جتنے پانسے پھینکے ہیں سب میں پُو بارہ ہی آیا ہے ۔ اب ایک رات کا داؤ اور باقی ہے ۔ اگر راجہ نل کی روح نے مددپہنچائی تو سمجھ لو کہ وہ بازی بھی ہاتھ آئی ؂
مات دینا ہے حریفوں کو سو ڈٹ کر دوں گا
پڑگئی چت تو بس ایک ہاتھ میں پٹ کر دوں گا
بلکہ صفا چٹ کر دوں گا
بیرم :(گانا )۔ عاقل وداناہوں دنیا کا سیانا ہوں، میری یگانہ ہے چال ۔ آگ لگانے میں، دھو کے بہانے میں، سارے زمانے میں ہوں باکمال ۔ عاقل ودانا ہوں ۔ جب پھینکا تب آیا پانسہ ۔ دے کر چکمہ ، فقرہ ، جھانسا ۔ روز ایک الّو پھانسا۔سوکرامتوں سے،دھوکے کی باتوں سے، چالوں سے، گھاتوں سے ، دنیا کے ہاتھوں سے اڑالیتا ہوں مال ۔ عاقل ود انا ہوں...

(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
پہلا باب تیسراسین
محل ماہ پا رہ

( خاقان اور ارسلان کاآنا)
خاقان:۔ارسلان !وہ نہیں آتا۔ وہ کیوں نہیں آتا؟
ارسلان:۔سرکار! اس کی مرضی۔
خاقان:۔ وجہ؟
ارسلان:۔نمک حرامی ! شرارت ! خود غرضی !
خاقان:۔افسوس! سلطنت سے علیٰحدہ ہوتے ہی یہ نتیجہ پایا۔
ارسلان:۔تو حضور پہلے ہی کیوں نہ سوچا؟
خاقان:۔افسوس! ادنیٰ ادنیٰ نوکر میرے سرداروں سے تکرار کریں ۔ مجھ سا ضعیف شخص ایک حقیر آدمی کو بلائے ! نہیں ! ایک شہنشاہ اپنے غلام کو طلب فرمائے اور وہ حاضر ہونے سے انکارکرے ! میری طلب اور جواب صاف ! میرا حکم اور اس سے یوں انحراف!
ارسلان:۔شاید حضورکو آج تک یہ معلوم نہیں کہ ؂

آبِ دریا میں سرورِ جام مُل ہوتا نہیں


خار کا گل نام رکھ لینے سے وہ گل ہوتا نہیں


آہنی فولاد کی تلوار ہو یا کاٹھ کی


غیر مانے گا تبھی لوہا ، جب اس نے کاٹ کی

خاقان:۔بس کر ارسلان بس کر۔ ورنہ میں غم اور غصہ سے دیوانہ ہو جاؤں گا۔اگر ماہ پارہ مست ہوکر درندہ بن گئی ہے تو آج ہی اس کی صورت پر لعنت بھیج کر اپنی دوسری بیٹی کی طرف روانہ ہو جاؤں گا۔
ارسلان:۔جی ہاں ہو سکتا ہے ۔
خاقان:۔تو میرا منہ کیا تکتا ہے ؟کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ ماہ پارہ کی طرح دل آرا بھی مجھے صدمہ پہنچائے گی ؟
ارسلان:۔حضور معاف کیجیے ۔ جب بڑی سے فیض نہ پایا تو چھوٹی سے کیا امید بر آسکتی ہے ؟ حضورتلوار اور چھری میں صرف قد کا فرق ہے ، ورنہ گلا کاٹنے میں دونوں کی دھار برق ہے ۔
(ماہ پارہ اور سعدان کا آنا )
خاقان:۔کون؟ ماہ پارہ؟
ماہ پارہ:۔آداب عرض ہے سریر آرا۔
خاقان:۔آج کیا دل میں آئی؟ جو اپنے ناخواندہ مہمان پر عنایت فرمائی۔
ماہ پارہ:۔میں افسوس کرتی ہوں کہ ان طعن آمیز باتوں کا جواب دینے کے لیے نہ تو میرے پاس الفاظ ہیں اور نہ فرصت۔ اصل بات یہ ہے کہ مجھے چند اہم وجوہ سے اس مکان کی سخت ضرورت ہے ۔ اس لیے اگر آپ ان شاہی محلوں میں سے کسی اور محل میں تشریف لے جاتے تو اس کنیز پر بڑی عنایت فرماتے ۔
خاقان:۔تو کیا میں یہ مکان چھوڑ دوں؟
ماہ پارہ:۔بس اس سے زیادہ اورکیا عرض کروں؟اگر اتنی بات ہو جائے تو مجھے سینکڑوں مصیبتوں سے نجات ہو جائے ۔
خاقان:۔تو صاف کیوں نہیں کہتی کہ میں قبر میں چلا جاؤں۔
ماہ پارہ:۔میرا منشا ہرگز یہ نہیں ہے ۔ در اصل بات یہ ہے کہ آپ کے مشیروں اور نوکروں نے برداشت سے زیادہ سر اٹھا رکھا ہے ۔کہیں مار، کہیں پیٹ، کہیں شور ،کہیں غل ،کہیں پکار غرض کہ ایک طوفان ہے جو مچارکھا ہے۔ مکان ایک اچھا خاصا بھٹیار خانہ بنارکھا ہے ۔
خاقان:۔عجیب بات ہے !
ماہ پارہ:۔نہ رعب ، نہ ادب ، نہ آداب ۔ ایک سے ایک زیادہ شہدا، ایک سے ایک زیادہ لُچّا ۔بس جناب بس ۔ اب صبر نہیں ہو سکتا ۔ انسان کو اتنا نہ گدگدائے کہ آخر کو وہ رودے ۔
خاقان:۔بس ۔ بس۔یہ سب کچھ جنون ہے ! جھوٹ، غلط یہ ساری باتیں بہتان ہیں ! میرے تمام نوکر شریف ، نیک، ادب کے شیدا، تہذیب کے عاشق ، شرافت کی جان ہیں۔
ماہ پارہ:۔بس تو معلوم ہوا کہ آپ ہی کی شہ اور شرارت ان پر تیل ڈال کر بھڑکاتی ہے ۔ غضب خدا کا یہ سچے اور لونڈی جھوٹی ہوتی جاتی ہے! اِن کے جھوٹ کو سچ اور میرے سچ کو جھوٹ فرماتے ہیں ۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ آپ اِن چند غریب گدا گر وں کے لیے ایک معزز شہز ا د ی کی توہین فرماتے ہیں!
خاقان:۔غریب!کیا کہا غریب ؟ کیا کسی غریب کا بلا قصور جگر چاک کر ڈالوں؟ پیس ڈالوں ؟ کیوں؟ کس لیے ؟ کیا اسی لیے کہ انھوں نے پہننے کے لیے یہ زری کا چیتھڑا نہیں پایا ؟ کیا غریبوں کے پاس آنکھ، کان ، ہاتھ، ہوش، جوش نہیں ہیں جو امیررکھتے ہیں۔کیا یہ آفتاب امیروں کے محلوں کی طرح غریبوں کی جھونپڑیوں پر اپنی روشنی نہیں ڈالتا ! کیا اس زمین پر خدا نے ان کو چلنے کا حکم نہیں دیا جس پر امیر چلتے ہیں ؟کیا یہ آسمان امیروں کو اپنی چھت کے نیچے بٹھاتا ہے اور غریبوں کو دھکّے دے کر نکال دیتا ہے ۔ اری او غریبوں پر ہسنے والی مغرور ہستی! کیوں چند روزہ دولت پر اتراتی ہے؟ جا ! ایک امیراور ایک غریب دونوں کی قبر کھود کر دیکھ ، پھر تجھے معلوم ہو جائے گا کہ مرنے کے بعد ان کی کیا حالت ہوتی ہے ؟
ماہ پارہ:۔مجھ کو اس سے بحث نہیں کہ غریبوں کا رتبہ امیروں سے بڑھایا جائے یا گھٹایا جائے مگر ان زندوں کی دنیا میں تو میرا یہ خیال ہے کہ یہ غریب سر چڑھانے کے لیے نہیں بنائے گئے ۔
خاقان:۔تو پھرکس لیے بنائے گئے ہیں !
ماہ پارہ:۔اس لیے کہ اِن کے سر کے چمڑے سے امیروں کی جوتیوں کا تلا بنایا جائے۔
خاقان:۔کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ میرا ہی خون ہے !
ماہ پارہ:۔اگر کل تک یہ تمام نجس کتّے یہاں سے نہ نکال دیے جائیں گے تو یاد رکھیے کہ عزوادب ، زبردستی اور سختی سے بدل جائے گا۔
خاقان:۔زبردستی ! استغفراللّٰہ ! لاؤ۔ لاؤ ۔ ہمارے گھوڑے لاؤ ، کل خادمانِ درگاہ کو بلاؤ ۔ جااے ناشدنی دور ہو میں نے تجھے عاق کیا ۔ تو میرا خون نہیں بلکہ وہ زنگ ہے جو لوہے کے دل میں بیٹھ کر اس کے جگر کو چاٹتا ہے ! تو میری اولاد نہیں بلکہ وہ سانپ ہے جو پہلے اپنے پالنے والے کو کاٹتا ہے ! کیا نمک حلالوں کو زہر کھلادوں ! غریبوں کو سزادوں ! کیوں ؟ کس لیے ؟ کیا ان زرو جواہر کے لیے جو بھوک کے وقت تیراپیٹ تک نہیں بھر سکتے ؟ کیا اِن زری کے چھیتڑوں کے لیے جو بعد مرنے کے تیرے کفن کے کام بھی نہیں آسکتے ؟
ارسلان:۔ حضور والا!
خاقان:۔ہائے زارا ! زارا ! ارسلان! محض ذرا سے قصور پر صرف اتنے ہی قصور پر کہ وہ سچ بات کیوں بولی مجھ کمبخت نے راستباز زارا کا حق چھین کر اِس نا خلف اور جھوٹ کی پتلی پر قربان کر ڈالا! اوہ باریٔ تعالیٰ اگر تیرا ہی ارادہ ہے کہ یہ کمبخت پھولے اور پھلے تو اپنے بندے پر رحم کر اور اس مغرور فرعونہ کوقارون کی طرح اسی مکان میں گاڑدے ۔ اس کی نسل کو برباد کر ۔ اِس کے شکم کو اجاڑ دے ۔ اگر اولاد بھی ہوتو ان خوفناک درندوں کی طرح جو اپنے پنجوں سے اپنی اولاد کو مارکر کھا جا تے ہیں، اسی طرح اِس کو ستائے ، اس کو جلائے ، یہ اپنی بے رحم آنکھوں سے خون کا دریا بہائے تا کہ اس کے پتھر دل کو معلوم ہو جائے کہ بداولاد سانپ سے بھی زیادہ بدہوتی ہے ۔
ماہ پارہ :۔ استغفراللّٰہ ! اگر میں ان بد دعاؤں سے ڈرتی تو شاہوں کی سرداری چھوڑکر اِن غریبوں میں سے کسی ایک کے پاؤں دھویا کرتی۔
خاقان:۔اری او مغرور ہستی ! تو خدا کی بستی میں بستی ہے اور اس کی قدرت اور قہر پر ہنستی ہے ! لرز! لرز! اس ہاتھ سے جس نے ضحاک اور شدّاد کا بھیجا اپنی چٹکیوں میں مسل ڈالا۔ ڈر ! ڈر! اس بے آواز لاٹھی سے جس نے غرور کا سرکچل ڈالا۔ لعنت ہو تجھ پر اور تیرے گھر پر ۔ میں شیروں سے پناہ چاہوں گا ۔ میں ریچھوں کے آگے گڑ گڑاؤں گا مگر او درندوں سے زیادہ سخت دل رکھنے والی حسین کافرہ تیرے اِس خاکی جہنم میں کبھی نہ آؤں گا ۔
(خاتون کا طیش میں چلا جانا)

(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
پہلا باب چوتھا سین
مکان دل آرا
ارسلان:۔ہم اور ہمارے جینے کی حقیقت ، یعنی جسم اور روح کے تعلق کی کیفیت ظاہر میں ایک بھید ہے لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو چلا اٹھوگے ۔ یہ جسم سانس کی تیلیوں سے بنا ہوا ایک پنجرا ہے اور روح ایک پَر بندھی چڑیا ہے جو اس میں قید ہے ، جس کے نغموں کی صدا ہم پر یہ آوازہ کستی ہے کہ اے حرص وہوس کی بستی میں رہنے والی مغرور ہستی ! کیوں چند روزہ چیرہ دستی پر غفلت پرستی ہے ۔ ہر کمال کو زوال ہے ۔ ہربلندی کا نتیجہ پستی ہے ۔ نخوت ذلت کے گڑھے میں اتارے گی ۔ موت مارے گی۔ عبرت قبر کے ڈھیر پر کھڑی ہو کر پکارے گی ؂

نہ تن میں تاب ، نہ بازو میں بل ، نہ سر میں شور


بدن کی فکر میں کیڑے، کفن کی تاک میں چور


پڑا ہے کس لیے خاموش اے نوالۂ گور


کہاں ہے تیرا زر اور کدھر گیا وہ زور


لحد ہے ، تو ہے ، اور اک بے کسی سی چھائی ہے


جواب دے کہ فنا پوچھنے کو آئی ہے

گانا (غزل)
تعجب ٹھوکروں سے کیوں سرِ فغفور ہوتا ہے


غرورِ زور وزر اس گھر سے یو نہی دور ہوتا ہے


جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل


مسافر شب سے اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے


ہماری زندگانی حشرؔ مٹی کا کھلونا ہے


اجل کی ایک ٹھوکر سے جو چکنا چور ہوتا ہے

خاقان:۔ہمارے آنے کی خبر پائی ۔ نہ کسی نوکر کو بھیجا ۔ نہ خود پیشوائی کو آئی!
سعدان:۔واقعی یہ برتاؤ خلافِ ادب ہے ۔
خاقان:۔ اچھا تو تم خود جاؤ اور ہماری صاحب زادی کو بلا لاؤ۔
ارسلان:۔حضور والا!
خاقان:۔کیا وہ نہیں آتی ہے ۔کیا وہ بغاوت دکھاتی ہے ؟ ارے جاؤ ! جاؤ! اس سے جاکرکہوکہ بوڑھا باپ اپنی بیٹی سے مِلنا چاہتا ہے ۔ شہنشاہ خاقان اپنی پیاری دل آرا کو یاد فرماتا ہے ۔
دل آرا:۔میں بہت ہی مسرور ہوں کہ حضور نے قدم رنجہ فرما کر اس کفش خانے کی عزت بڑھائی ۔
خاقان:۔مسرور ہو ۔ ضرور ہوگی ۔ اگر میرے آنے پرتمھیں رنج ہوتا تو میں یہ سمجھتا کہ تمھاری ماں کی قبر میں میری بیوی نہیں بلکہ وہ عورت دفن ہے جس نے سانپ کے بچے کو اپنی اولاد سمجھ کر پالاہے ۔
دل آرا:۔جنا ب والدہ مرحومہ کی شان میں ایسے کلمے نہ فرمائیے ۔ آپ باجی جان کے پاس سے کیوں چلے آئے ۔ یہ تو بتائیے !
خاقان:۔کیوں آیا ہوں ؟ قسمت کا جلایا ہوں ۔ نصیب کا ستایا ہوں ۔کبھی لوگ میرے پاس فریاد لاتے تھے ، آج میں تیرے پاس فریاد لایاہوں ؂

وہ باغ جس کے روش کی ہے توگلِ لالہ


وہ باغباں کہ چمن تجھ پہ صدقے کر ڈالا


وہ شاخ جس نے تجھے گودیوں میں ہے پالا


اس کو پھونک کے ظالم نے خاک اُڑائی ہے


وہ اُڑ کے گھر تیرے فریاد کرنے آئی ہے

دل آرا:۔کیا آپ کا اشارہ میری بہن کی طرف ہے ؟
خاقان:۔ہاں اسی کے دیے ہوئے رنج ومحن کی طرف ہے۔

جو بد شعار ، ستم کیش ، اہلِ کیں نکلی


پلی تھی گود میں پر مارِ آستین نکلی

دل آرا:۔جیسا فرماتے ہیں ،میری بہن ہرگزایسی نہیں! آپ جائیے وہیں۔
خاقان:۔تومیں اس کے پاس جاؤں؟ اور گڑگڑاکر کہوں کہ بیٹی! میں بوڑھا ہوں،لاچارہوں اور کچھ نہیں صرف سونے بیٹھنے کے لئے جگہ ا ور روٹی کے ٹکڑے کا خواستگار ہوں۔
دل آرا:۔جناب آپ کے لیے بہتریہی ہے کہ عقل کوکام میں لائیے اور ایک مرتبہ بہن کے پاس جائیے۔
خاقان:۔دل آرا تو اس کے پاس جانے کو کہتی ہے جو محسن کُشی کا آلہ ہے، جس نے کلیجے کوسانپ کی طرح ڈس لیا اور درندوں کی طرح نوچ نوچ کر کھا ڈالاہے ؂

غضب آئے ، ستم ٹوٹے ، فلک سے آفتیں برسیں


خدا چاہے تو اُس کی قبر پر بھی لعنتیں برسیں

دل آرا:۔خدا بچائے میں کہتی ہوں کہ آپ کبھی خفا ہو جائیں گے تو یو نہی مجھ پر بھی لعنتوں کے تیر برسائیں گے۔
خاقان:۔نہیں دل آرا نہیں ۔ میں اپنے ہونٹ سی لونگا ۔ میں اپنی زبان کاٹ ڈالوں گامگر تجھ جیسی نیک لڑکی کے حق میں ایسی بددعاکبھی نہ نکالوں گا ۔ تو حق شناس ہے ، تو عالی ہے ، اس کی آنکھ خوف ناک اور تیری آنکھ تسلی دینے والی ہے ۔ وہ عیش وراحت کی شریک ہے اور تو غم وآفت کی ساتھی ہے ۔ وہ میرے جسم کاپھوڑا ہے اور تو مرہم لگاتی ہے ۔ وہ آنکھیں پھوڑتی ہے اور تو آنکھیں بچھاتی ہے۔ ؂

موت مانگے تو رہے آرزوئے خواب اُسے


ڈوبنے جائے تو دریا ملے پایاب اُسے


عوضِ جور وہ یوں بر سرِ بیداد آئے


یوں بُرا ہو کہ جہنم کا مزا یاد آئے

دل آرا:۔بس کیجیے جناب بس ! آپ کی باتیں کچھ سمجھ میں نہیں آتی ہیں ۔ وہ دیکھیے باجی جان تشریف لاتی ہیں ۔
خاقان:۔اوخدا ! او خدا ! یہ میں کیا دیکھ رہاہوں ! دل آرا ! دل آرا ! کیا تجھے میرے آنسوؤں سے بھی شرم نہیں آتی ہے جو میرے سامنے اس نا ہنجار سے ہاتھ ملاتی ہے ۔
ماہ پارہ:۔لو بڑھاپے اور حماقت کی نظروں میں یہ اخلاقی رسم بھی خلافِ دستور ہے۔
دل آرا:۔سچ کہتی ہو ۔ کیوں صاحب ؟ کیا ہاتھ ملانا بھی کوئی قصور ہے ؟
خاقان:۔ہے اور ضرور ہے ۔ ڈر! ڈر!اس سے ڈر!یہ عورت نہیں بلکہ شرارت کا وہ اوزار ہے جس سے شیطان اپنا مطلب نکالتا ہے ۔ اس کے سینے میں دل نہیں بلکہ وہ پتھر ہے کہ جس پروہ گرتا ہے اسے پیس ڈالتا ہے اور جو اُس پر گرتا ہے وہ چور چور ہو جاتاہے ۔
د ل آرا:۔تو آپ کا مطلب یہ ہے کہ بہن کو بہن کی محبت چھوڑ دینا چاہیے ؟
خاقان:۔ہاں ! وہ دانت جو منہ میں رہ کر زبان کاٹے اسے توڑ دینا چاہیے۔
دل آرا:۔تو جناب مجھے اس رائے سے انکار ہے ۔
خاقان:۔تو نا تجربہ کار ہے اور سودائی ! کیسی بہن اور کہاں کا بھائی ! دنیا والے مثل آنکھ اور ابرو کے ہیں جو پاس پاس رہ کر ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے ۔
دل آرا:۔بات یہ ہے جناب والا!
خاقان:۔اس... اس ...کو دیکھو جس کو میں نے جان کی طرح پالا،دن کو رات اوررات کو دن کرڈالا ۔ آج یہ خدا کو بھولی ہے۔ اتنا بھی نہیں جانتی کہ خاقان کون کتّا اور کس کھیت کی مولی ہے !
ماہ پارہ :۔ یہ میرا قصور نہیں۔ صرف آپ کا جوش وغضب!
خاقان:۔ بس خدا کے واسطے اب تو مجھے پاگل نہ بنا ۔جا ! جی اور جینے دے! اب میری زندگی اپنی کمبختی کے دن یہیں گزارا کرے گی ( دل آرا سے ) پیاری بیٹی تو اپنے بوڑھے باپ اور اس کے سو نوکر وں کا بار گوارا کرے گی؟
دل آرا:۔ جناب ۔ اول آپ کو بہن کے ہاں جانے سے فضول انکار ہے ۔ دوسرے جب میرے ہزاروں نوکر موجود ہیں ، تو پھر آپ کا سونو کر رکھنا بے کار ہے ۔
خاقان :۔ اچھا تو میں پچاس ہی پر صبر کروں گا۔
دل آرا:۔ یہ بھی زیادہ ہیں ۔
خاقان :۔ اچھا پچیس !
دل آرا:۔یہ بھی بہت ہیں ۔
خاقان :۔ اچھا تو بیس؟
دل آرا:۔ اوہوں!
خاقان:۔ دس؟
دل آرا:۔ اجی ایک آدمی کافی ہے بس۔
ماہ پارہ:۔اگر سچ پو چھو تو ایک کی بھی ضرورت نہیں۔
خاقان:۔او خدا ! او خدا ! اگر تیری ہی مرضی ان لڑکیوں کے دل کو سخت بنارہی ہے تو مجھے سہارا دے ۔ صبر کا یارا دے۔ او ہ تم ! تم !اونا خلف عورتو !کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ ظالم مظلوم کو ستا کر پھل پاتا ہے ! نہیں ! دھوکا نہ کھاؤ ۔ خدا ٹھٹھوں میں نہیں اُڑا یا جاتاہے۔ اس کی لاٹھی بے آواز ہے ۔اس کی چکی چلنے میں سست مگر پیسنے میں بہت جلد باز ہے ۔میں اسی کے پاس اپنی فریاد لے کر جاؤں گا ۔ میں اپنی چیخوں سے اس کے قہر وغضب کو جگاؤں گا۔ وہ بولے گا میں بلاؤں گا ۔ وہ سنے گا، میں سناؤں گا۔ او بیوقوف عورتو !میں اپنے دل کے ٹکڑے کر دکھاؤں گا ‘‘۔
(خاقان دیوانہ وار سینہ پر ہاتھ مارتا اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے ۔ دل آرا اور ماہ پارہ قہقہے مارتی ہیں)
ٹیبلو
(سین ختم)
پہلا باب پانچواں سین
خواب گاہِ سعدان
(سعدان کا سوتے نظر آنا۔ بیرم کے سکھائے ہوئے دو قاتلوں کا سعدان کو قتل کرنے کے لیے آنا ۔ پہرے دار کا پہرہ دیتے نظر آنا۔ بیرم کا کھڑکی میں کھڑے ہوکر سیٹی بجاکرقاتل کو بلانا ۔ قاتل کا بیرم کے اشارے سے سیڑھی لگا کر کھڑکی کی راہ سے مکان میں داخل ہونا۔ مکان کے اندر سے لوگوں کا شور مچانا ۔ قاتل کا بغیر قتل کیے کھڑکی کی راہ سے فرار ہونا ۔ پہرے دار کا قاتل سے مقابلہ کرتے ہوئے ما را جانا ۔ پرویز کا شور وغل سن کر نیند سے بیدار ہوکر باہر آنا ۔پہرے دار کو مرتے ہوئے دیکھ کر پرویز کا حیران ہونا ۔ بیرم کا اپنے باپ سعدان کو یہ موقع دکھلانا ۔ سعدان کا دیکھ کر حیران رہ جانا ۔ )


(ڈراپ سین )
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب پہلاسین
جنگل پہاڑ
پرویز گانا :۔ کاہے من توسنکٹ سے گھبرا یا۔ کا ہے من تو سنکٹ سے گھبرایا ۔ بدھ مانی ، ابھیمانی ، گیانی ، راجا اور رانی ، سب ہی نے دکھ پایا ۔ کا ہے من تو.. . کیو ں غافل بھولا، یہاں جو گل پھولا، آخرکو وہ مرجھایا، کاہے من تو...
(خود سے) : کون جانتا ہے کہ میں کون ہوں ؟ کون جانتا ہے کہ اس فقیرانہ لباس میں ایک دولت مند نواب کا نورِ نظر ، لخت جگر ہے ! کون کہہ سکتاہے کہ اس پھٹی ہوئی گدڑی میں ایک امیر کا لال پوشیدہ ہے! چل پرویز چل اور اس غریب خاقان کی مدد کر اور وہ غلط الزام جس کی وجہ سے تو چھپا پھرتا ہے ، اسے شرافت اور لیاقت سے ردکر۔
گانا :۔ دنیا ایک مسافر خانہ ہے پیارے ، نہ من اٹکانا ۔ دنیا ایک مسافر خانہ۔ سانج سمجھ کر آٹھہرے ہیں ۔ بھور کو ہے جانا ۔ دنیا ایک مسافر خانہ ۔چن چن ماٹی محل بنایا۔ لوگ کہیں گھر میرا ۔ نا گھر تیرا ناگھرمیرا۔ چڑیاں رین بسیرا۔مت للچانا ۔ دل نہ لگانا ۔ ہری کا گن گانا ۔ دنیا ایک مسافر خانہ۔
سعدان :۔ کیوں بیرم؟
بیرم:۔ جناب آپ نے مجھے کس کے پاس بھیجا تھا ؟
سعدان:۔ ماہ پارہ اور دل آرا کے پاس ۔
بیرم:۔ نہیں بلکہ وحشی اور درندوں کے پاس ۔
سعدان:۔ کیوں؟ تمھارا سمجھانا کچھ کار گرنہ ہوا؟
بیرم:۔ حضور ! اگرپتھر ہوتا توپانی ہوکر بہہ جاتا ۔ لوہا ہوتا تو پگھل جاتا ۔ مگر خدا جانے ان نا خلف عورتوں کا دل کس چیز کا بنا ہوا ہے جو مطلق ا ثر نہ ہوا ۔
سعدان:۔ جاؤ! جاؤ! پھر جاؤ! اور انھیں لاکر اس غریب کی مصیبتیں دکھاؤ ۔ خدا کی قسم اگر انھوں نے اس غریب کی مدد نہ کی تو وہ سردی اور طوفان سے پاگل ہو جائے گا ۔ چلو ! چلو !آنکھوں سے دیکھ کر تو انھیں رحم آئے گا۔
(خاقان کا دیوانہ وار آنا )
خاقان:۔چھوڑدے ۔ چھوڑدے ۔ تو بھی مجھے چھوڑدے ۔ جا ۔ جا۔ چلا جا !
ارسلان:۔ خدا وندا!
خاقان:۔ خوب برسو ۔ خوب چمکو ، ہوا، آگ ، مٹی ، پانی ا ن سب کو رشوت دی گئی ہے ۔ یہ سب میری بیٹیوں سے مل گئے ہیں ۔ جا ۔ جا۔ تو بھی ان سے مل جا!
ارسلان:۔ حضور! برف گر رہی ہے ۔
خاقان:۔ گرنے دے ! گرنے دے ! چل اے ہوا خوب زور سے چل !اے بادلو! اتنی شدت سے برسو کہ پہاڑوں کی چوٹیاں، محلوں کے گنبد ، قلعوں کے مینار یہ سب تہِ آب ہو جائیں !
ا رسلان:۔ ایسی ا ولاد پر لعنت ہو جس کے دل میں ایسا زہریلا مادہ پیدا ہو جاتا ہے ۔
خاقان:۔ ہاں! اور اس با پ پر بھی لعنت ہو جواپنے نطفے سے ایسی نا خلف اولاد پیدا کرتا ہے ! اور اس ماں پر بھی لعنت ہو جو اپنی چھاتیوں کا دودھ پلا پلا کر دنیا کی مصیبتوں کو بڑھاتی ہے !اور اس محبت پر بھی لعنت ہو جو ایسے زہریلے دانت والے کتّوں کو پالتی ہے!
پرویز:۔ ہائے ! کیسی اچھی طبیعت برباد ہو گئی!
خاقان:۔ اے شاہی شان وشوکت ! تو ان تکلیفوں کو برداشت کر ۔ اگر تو سرد ی اور طوفان میں نہ پڑتا تو خدا کے قہر وغضب سے نہ ڈرتا ! اگر مصیبت امیروں کے سرنہ ہوتی تو خدا کے غریب بندے کس تکلیف سے دن گزارتے ہیں ، یہ تجھے مطلق خبر نہ ہوتی۔
پرویز:۔ حضور کسی پناہ کی جگہ چلیے ۔
خاقان:۔ ایسی جگہ تو صرف قبر ہے مگر نہیں قبر میں بھی پناہ نہیں ۔ وہاں بھی پہلے ہزاروں من خاک کے نیچے دباتے ہیں ۔ پھر کیڑے آکرکھاتے ہیں ۔ اس کے بعد گوشت سڑتا ہے۔ جسم بگڑتا ہے، ہڈیوں کو مصیبت کا سامناکرنا پڑتا ہے۔کچھ پسِتی ہیں،کچھ گلتی ہیں، کچھ کھاد ہوتی ہیں اور اس پر بھی بچ رہیں وہ جنگلی جانور وں کی ٹھوکروں سے برباد ہوتی ہیں ۔
ارسلان:۔ صبر کیجیے میرے آقا ! میرے مالک ! میرے شہنشاہ ! میرے خداوندِنعمت!
خاقان:۔ چپ ! جھوٹا ! خوشامدی ! گمراہ ! وہ شخص جس کی زندگی غریبوں کے قبرستان کی طرح تاراج ہے ، اس مفلس فقیر آدمی کو تو شہنشاہ بتاتا ہے ۔ آہ! یہی لفظ تھے جنھوں نے مجھے دھوکا دیا ۔ انھیں تعریفو ں سے بیٹیوں نے مجھے لوٹ لیا۔ کیا تو بھی اب خوشامد کرکے مجھے لوٹنا چاہتا ہے ؟ اب میرے پاس کیا ہے ؟ ہاں ہے!یہ سڑا ہوا چیتھڑاجو میں نے کفن کے لیے بچا رکھا ہے !یہ بھی نہ بچاؤں گا۔ننگاہی دنیامیں آیا تھا اور ننگا ہی دنیا سے جاؤں گا! لے آ!اُتار!اُتار!(جامہ کو تارتارکر ڈالتا ہے)
سعدان:۔پرور دگار! پروردگار!
(ماہ پارہ آتی ہے )
خاقان:۔ خبیث!چڑیل!مردار!جا۔جا۔چلی جا۔تو اپنی راحت کی دنیا چھوڑکر ہم غریبوں کی دنیا میں کیوں آئی؟سو۔سو۔آرام کے محلوں میں سو ۔ پھولوں کی سیجوں پر سو۔عیش کی بارہ دریوں میں سوا وریہاں تک نیند میں سرشار ہو کہ خدا کا قہر ، جس کو میں اپنی چیخوں سے جگا رہا ہوں،ایک دم بیدار ہو ۔ بیدار ہو۔ بیدار ہو۔
سعدان:۔دیکھیے!دیکھیے!کیا یہ صورت کسی سے دیکھی جاسکتی ہے!کیا کسی شخص کی ایسی ابتر حالت آپ کے وہم وگمان میں آسکتی ہے؟
ماہ پارہ:۔اگر یہ آنکھیں ہیں تواس شخص کی اس سے بھی زیادہ بدتر حالت دیکھوں گی اور تم بھی دیکھوگے۔
سعدان:۔نہ فرمائیے۔نہ فرمائیے۔وہ باتیں جو ایک غیر مرد نہیں کہہ سکتا آپ بیٹی ہوکر نہ فرمائیے اور اگر ایسا ہونے والا بھی ہے تو آپ کا فرض ہے کہ خود بھی رحم کھائیے اور خدا سے بھی رحم کی درخواست کیجیے۔
ماہ پارہ:۔ ایسے ضدی شخص پر رحم کرنے یارحم چاہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
سعدان:۔ ضرورت نہیں ! یہ جواب تو کچھ باحجت نہیں۔کیوں حضور جب آپ کبھی لڑکپن میں کھیلتے کھیلتے گر پڑتی تھیں ، تو کیا بادشاہ سلامت آپ سے یہی کہتے تھے کہ کوئی ضرورت نہیں ، نہ اٹھاؤ ۔ جب آپ بچپن میں بھوک سے بلبلاتی تھیں تو کیا اعلیٰ حضرت ملکۂ عالم سے یہی کہا کرتے تھے کہ ابھی ضرورت نہیں ، دودھ نہ پلاؤ۔ نہیں! واللہ اگر کسی وقت آپ کا حال ذرا بھی نوعِ دگر ہو جاتا تھا تو وہی نورانی چہرہ جسے آپ چیلوں اورگدھوں سے نچوانا چاہتی ہیں روتے روتے آنسوؤں سے تر ہو جاتا تھا۔
ماہ پارہ:۔ یہ سب یاددلاناواہیات ہے۔
سعدان:۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ یہ درخت جس میں نہ انسان کی سی عقل ودانائی ہے اور نہ کسی نے انھیں محبت اور اطاعت سکھائی ہے ، پھر بھی یہ اپنے باغبان کے کام آتا ہے یعنی اپنے پھولوں سے اس کا دماغ معطر بنا تا ہے ، اپنے پھل اس کو کھلاتا ہے ، اپنے سائے میں سلاتا ہے ، مگر اپنے باپ کے ساتھ جس نے آپ کو ماں کی طرح سنبھالا ، گودیوں میں پالا، رات کودن اور دن کو رات کر ڈالا، ذرا بھی سلوک کرنے میں خوش نہیں ہیں۔ اگر خدا ا ن درختوں میں زبان پیدا کر دے تو کیا یہ نہ کہیں گے کہ انسان سے بڑھ کر احسان بھول جانے والا محسن کُش کوئی نہیں ہے ۔
ماہ پارہ:۔ سعدان! درخت تو نہیں کہتے مگر ان کی آڑمیں تم کہتے ہو۔
سعدان:۔ ہاں اگر میں ہی کہتا ہوں تو سچ کہتاہوں۔
ماہ پارہ:۔ میں تمھاری باتوں سے نفرت کرتی ہوں۔
سعدان:۔ اور آپ کی باتوں سے خدا نفرت کرتا ہے ۔
ماہ پارہ:۔ادب سیکھو!
سعدان:۔ نیکی سیکھو۔
ماہ پارہ:۔ انسان بنو۔
سعدان:۔ مہربان بنو۔
ماہ پارہ:۔ میرا رتبہ جانو۔
سعدان:۔ اپنے باپ کا مرتبہ پہچانو۔
ماہ پارہ:۔زبان آرائی نہ کرو۔
سعدان: ۔ اپنے پالنے والے سے برائی نہ کرو۔
ماہ پارہ:۔ دیکھو یہ جان جانے کا قرینہ ہے ۔
سعدان:۔ مالک پر جان دینا وفاداری کا جینا ہے ۔
ماہ پارہ:۔ پچھتانا ہوگا۔
سعدان:۔ دوزخ میں جانا ہوگا۔
ماہ پارہ:۔ یہ گستاخی!
سعدان:۔ یہ بے رحمی!
ماہ پارہ:۔ عقل اور ایسی بدتر!
سعدان:۔ دل اور ایسا پتھر!
ماہ پارہ:۔ دیکھو سعدان میری مہربانیوں کو حقیر نہ جانو۔ایسے بیہودہ دماغ رکھنے والے سر فوراً اڑا دیے جاتے ہیں۔ میں پھر تم سے کہے دیتی ہوں کہ اگر تم نے میرا ساتھ نہ دیا تو اُس چورا ہے پر پھانسی پاؤگے جہاں شہر کے کتّے گولی سے مار دیے جاتے ہیں ۔
سعدان:۔ میری زندگی اسی کے لیے ہے اور میری موت بھی اسی کے لیے ہوگی۔ میری ہستی ، جب تک اس بستی میں بستی ہے ، اپنی عمر کے ہر ایک گھنٹے کو اسی کی یاد میں مبا رک بنائے گی اور میری روح ، جب تک اس جسم میں ہے ، اپنی رگوں کے تار پر اس کی محبت کا گیت گائے گی ۔ اس وقت بھی جب کہ ظالم خنجر میرا گلا ریت رہا ہوگا میرے خون کی ہر ایک دھاراسی کے قدموں کی طرف بہ کر جائے گی۔
(چلاجاتا ہے )
(بیرم کا آنا )
ماہ پارہ:۔ بیرم! تم نے دیکھا ۔
بیرم :۔ میں افسوس کرتا ہوں۔
ماہ پارہ:۔ دیکھو بیرم ! اگر تم نے میرے باپ کی مجھ سے سفارش کی تومیں تم سے بھی ناراض ہو جاؤں گی ۔
شوہر ماہ پارہ:۔ (سائڈ میں ) کون ؟ ماہ پارہ اور بیرم!
بیرم:۔ اے میرے دل کی روشنی! تو مجھ سے اپنی محبت واپس نہ لینا ۔ اگر تواپنا یہ روشن چہرہ چند لمحے کے لیے اِدھر سے اُدھرپھیر لے گی تو میرے خوشی کے دن کو فوراً غم کی تاریکی گھیر لے گی ۔
ماہ پارہ:۔ دیکھو بیرم! میں تم کوبہت چاہتی ہوں اور محبت کرتی ہوں۔
شوہر ماہ پارہ :۔ (سائڈ میں) چاہتی ہوں اورمحبت کرتی ہوں ! اوہ خدا یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ! اے آسمان تو کیوں اِن پر نہیں گر پڑتا ۔ اے زمین تو ان گنہگاروں کو کیوں نہیں نگل جاتی!
ماہ پارہ:۔ پیارے بیرم! کاش میرے شوہر کی زندگی پر موت فتح پاتی۔
شوہر ماہ پارہ :۔ اوہ ! بے شرم ! ذلت ہے تجھ پر ! لعنت ہے تجھ پر! یہ بد ذاتی ! یہ بدصفاتی!
بیرم:۔ ارررر! غضب ہو گیا!
(ماہ پارہ کے شوہر اور بیرم کا سامنا ہوتا ہے )
ماہ پارہ :۔ اررررا ! کیوں ڈرتا ہے ؟ کیوں گھبراتا ہے ؟ ایک وار میں ہمیشہ کے لیے جھگڑا پاک ہوا جاتا ہے ۔
شوہر ماہ پارہ:۔ کمینے ! خبیث! کتّے! آ۔آ۔آ۔
ماہ پارہ :۔ بیرم ! مارکیا دیکھتا ہے ۔
شوہر ماہ پارہ :۔ اوہ خدا ! انصاف ! (وار کرتا ہے بیرم گرتا ہے )
ماہ پارہ :۔ کیوں بیرم ۔ کیا ہوا !
بیرم:۔ کچھ نہیں ۔ ذرا میرا پاؤں پھسل گیا تھا ورنہ میں خوب مزا چکھاتا۔
(دونوں لڑتے ہیں )
ٹیبلو

(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب دوسرا سین
پہاڑی جنگل
سعدان:۔ آخرکم بختوں نے اپنے باپ کو پاگل بنادیا!
بیرم:۔ کیسی وحشی اور ناخلف اولاد ہے !
سعدان:۔ خیر! خد ا کا قہر زارا کی شکل بدل کر آیا ہے وہی ان سے پورا پورا انتقام لے گی !
بیرم:۔ مگر بادشاہ سلامت اب کہاں ہیں؟
سعدان:۔ قلعے میں،میں نے زارا کے پاس بھجوادیا ہے ۔ دیکھو بیرم ! ہم پر بادشاہ کا حق ہے اور وہ حق اس طرح سے ادا ہو سکتا ہے کہ ہم تم اور جو یہ حق ادا کرنا چاہتے ہیں وہ سب مل کران کی مدد کریں !
بیرم:۔ در حقیقت جناب شرافت تو اسی بات کی تائید کرتی ہے ۔
سعدان:۔ اچھا! انھوں نے اپنی فوج کا سپہ سالارکس کو بنایا ہے ۔ ایک تو تم ہو اور دوسرا طرّم۔
بیرم:۔ : طرّم ۔
سعدان:۔ تم تو میرے بیٹے ہو ۔ اس لیے وہی کروگے جو باپ کی مرضی ہوگی ۔ اب رہا طرّم ۔ اسے میرا یہ خط لے جاکر دکھادو۔
بیرم:۔ (سائڈ میں) اب یہ خط حرف بحرف ماہ پارہ اور دل آرا کو جاکر سناتاہوں ۔ چل بیرم چل ۔اسی طرح بوڑھوں کی بیوقوفی سے جوان عقل مندوں کا فائدہ ہوتا ہے ۔
بیرم:۔ میں آفت کا پر کالہ ہوں ۔ میں ڈسنے والا کالا ہوں۔ میں پھندا پھانسا، حیلہ، جھانسا، لاکھوں حکمت والا ہوں ، میں آفت کا پرکالہ ہوں ؂

سب سوگئے ہیں جب سے میرا فریب جاگا


شیطان تھا فریبی پر اس کی دُم میں دھاگا


وہ چال کی کہ وہ بھی لا حول پڑھ کے بھاگا


ہر دم میرے پو بارے ہیں ۔ سب سیانے مجھ سے ہارے ہیں۔ دنیا سے چلتا ۔ سب کو چھلتا ۔ قاتل سم کا پیالہ ہوں


میں آفت کا پر کالہ ہوں
(جانا)
(خاقان ، ارسلان اور سعدان کا آنا )
سعدان:۔ افسوس ! غریب پھر جنون کے جوش میں قلعے سے باہر نکل آیا ۔
خاقان :۔ ہمیں نہیں جانتا! ہمیں نہیں پہچانتا ؟ ہم بادشاہ ہیں ! ہمیں سکّہ چلانے کے لیے کیوں سزادے رہا ہے ؟
پرویز:۔ ہائے کیسی اچھی طبیعت برباد ہو گئی!
خاقان:۔ غریبوں کے عیب زیادہ ظاہر ہوتے ہیں ۔ امیروں میں اُن سے بڑھ کر برائیاں ہوتی ہیں لیکن اُن کی زرق برق پوشاک میں چھپی رہتی ہیں ۔
سعدان :۔ خدا ان ظالموں کو بھی یو نہی برباد کرے ۔ حضور!
خاقان:۔ میں نے یہ آواز کہیں سنی ہے ! میں نے تم کو اور ان کو کہیں دیکھا ہے !
سعدان :۔ حضور! میں آپ کا غلام ہوں!
ارسلان:۔سعدان ایسی حالت تو ایک غریب شخص کی بھی نہیں دیکھی جاسکتی۔
سعدان:۔ اب میری آنکھیں آنسو بن کر بہہ جائیں گی۔
خاقان:۔ ہیں ! تو روتا ہے !اگر تجھے ہماری قسمت پر رونا ہے تو ہماری آنکھیں لے اور صبر کر ۔ ہم بھی جب اس تماشا گاہ میں آئے تھے تو یو نہیں رویا کرتے تھے۔ تو نے اس تماشا گاہ میں کوئی گانا سیکھا ہے ۔
ارسلان:۔ حضور ایک زندگی کا نوحہ یاد ہے ۔
خاقان:۔ سنا۔
ارسلان :۔
کہہ رہا ہے آسماں ، یہ سب سماں کچھ بھی نہیں


پیس دوں گا ایک گردش میں جہاں کچھ بھی نہیں


جس جگہ تھا جم کا جلسہ اور خسرو کا محل


چند قبروں کے سوا ، اب تو وہاں کچھ بھی نہیں

خاقان:۔ یہی ہے یہی ہے ! سپاہیو ! اسے پکڑ لو ۔ حاکم صاحب اس کی روبکاری لکھیے ۔ میں جھوٹ نہیں کہتا ۔اس کانام ماہ پارہ ہے ۔ اس نے اپنے بوڑھے باپ کو ٹھوکروں سے مارا ہے ۔ ہیں !تو چپ کیوں ہو گیا۔
ارسلان :۔
تخت والوں کا پتہ دیتے ہیں تختے گور کے


کھوج ملتا ہے یہاں تک ، بعد ازاں کچھ بھی نہیں

خاقان :۔ دیکھیے ! دیکھیے ! وہ دوسری بھی آئی ۔ اس کا نام دل آرا ہے ۔ اس کی بگڑی ہوئی شکل سے اس کی طبیعت کی برائی آشکارا ہے ۔ ہیں !کیا وہ بھی بھاگ گئی ۔ ابھی تو کچھ گارہا تھا ؟
ارسلان :۔
گونجتے تھے جن کے ڈنکوں سے زمین و آسماں


چپ پڑے ہیں قبر میں ، اب ہوں نہ ہاں کچھ بھی نہیں

خاقان:۔ (دیوانہ وار) کچھ نہیں ! کچھ نہیں ! انصاف کے روپیوں نے خرید لیا ہے ۔حاکموں کو رشوت دی گئی ہے ۔ اوہ تم سب ڈاکو ہو ۔ سب دغاباز ہو !
زارا:۔ یہ ہیں ۔ سنبھال لو ۔ لے چلو۔
خاقان:۔ چھوڑدو ۔ مجھے چھوڑدو۔ ارے کوئی بچانے ولا نہیں ۔ کوئی میرے حال پر ترس کھانے والا نہیں ۔
زارا:۔ آپ قلعے میں تشریف لے چلیے ۔ بندی آپ کی خدمت کرے گی ۔
خاقان:۔ مجھے مت چھیڑو۔ میں ایک بیوقوف بوڑھا شخص ہوں ۔ میری عمر ساٹھ سے بھی زیادہ ہے ۔ مجھے بیوقوف سمجھ کر ہنسنا نہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ تو میری بیٹی زارا ہے ۔
زارا:۔ جی ہاں ۔ میں وہی ہوں ۔ آپ مجھے دعا دیجیے۔
شوہر زارا:۔ لائیے میں آپ کے ہاتھ کو بوسہ دوں۔
خاقان:۔ اسے دھوڈالو اس میں فنا کی بو آتی ہے ۔ ارے تم سب نہیں ہٹتے ۔ نہیں چھوڑتے ۔ اوہ بیوقوفو! ہم لڑکر مرجائیں گے مگر تمھاری اطاعت کبھی نہ کریں گے ۔ ہم باشاہ ہیں ۔پکڑلو۔ باندھ لو۔
زارا:۔ افسوس ! اولاد نے باپ کی طبیعت کس قدر بدل دی۔
شوہر زار ا :۔ایسی حالت میں انسان کا پاگل ہو جانا کچھ تعجب نہیں۔
زارا:۔ مگر تعجب تو یہ ہے کہ اب تک زندہ کیوں کر رہے ۔
سعدان:۔ حضور ! اب ان کی ایسی نگرانی کیجیے کہ قلعے کے باہر نہ آنے پائیں ، کیوں کہ جب سے آپ نے اس سر حدی قلعے پر قبضہ کیا ہے اس و قت سے دشمن کی سپاہ چاروں طرف پھر ا کرتی ہے ۔
شوہر زارا:۔ اب وہ ایک انچ زمین بھی مجھ سے واپس نہیں لے سکتے ۔ مجھے اپنی باقی فوج کا انتظار ہے ۔ پھر یہ قلعہ تو کیا ان کو اپنے بچے ہوئے ملک کا بھی بچانا دشوار ہے ۔
سعدان ارسلان:۔ خدا آپ کو فتح نصیب کر ے۔
زارا:۔ وہ ضرور نصیب کرے گا ۔کیونکہ میرا پیار حرص وہوس سے غیر ملک پر حملہ کرنے نہیں ایا بلکہ میری محبت ...
شوہر زارا:۔ او ر انسانیت کا فرض مجھے یہاں تک کھینچ لا یا ۔
ارسلان:۔ خدا وند ! تو حق ہے حق کا ساتھ دے ۔ آمین۔
ارسلان:۔ دل کو ہے جان کا بیری پایا۔ یہ کیسازمانہ ہے آیا ، دل کو ... ۔ باغِ جہاں کے ہیں گل بوٹے ۔ ہیں سب جھوٹے۔ رنگِ وفا پایا ۔ دل کوہے جان کا ...

(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب تیسرا سین
م۔۔کان دل آرا​
(دل آرا ا ور بیرم کا آنا)
دل آرا:۔ تعجب تو یہ ہے کہ اس خط کے لکھتے وقت اس بیوقوف نے اپنے انجام پر بھی نگاہ نہ کی۔
بیرم :۔ مجھے خود تعجب ہے ۔ اور قسم ہے اس سر کی کہ خیر خواہی کے واسطے میں نے اپنی سعادت مندی کی بھی پروا نہ کی۔
دل آرا:۔ تو کیا ایسے دغاباز کو سخت سزانہ دینی چاہیے۔
بیرم :۔ کیو ں نہیں دینی چاہیے ، مگر میں کیسے کہہ سکتا ہوں ۔ اس لیے کہ ...
دل آرا:۔ اس لیے کہ تمھارا باپ ہے ۔
بیرم:۔ اگر میرا باپ نہ ہوتا تو میں خود اپنے ہاتھ سے اسے پھانسی دیتا۔
دل آرا:۔ خیر! یہ فرض تمھاری طرف سے ہم بجالائیں گے۔
بیرم:۔ میری بھی کیا بری قسمت ہے ! یہ سب جانتے ہیں کہ میں نے بڑی نمک حلالی کا کام کیا ہے مگر پھر بھی لوگ مجھے بدنام کریں گے۔
دل آرا:۔ پیارے بیرم ! میں نے اپنا دل جو شوہر کی امانت تھا تمھیں دے دیا۔ خدا تک کی پروا نہ کی اور تم انسانوں کی پروا کرتے ہو۔
ماہ پارہ:۔ میں نے نمک حرام سعدان کی گرفتاری کے لیے کتّے چھوڑرکھے ہیں ۔
دل آرا:۔تواب وہ بچ نہیں سکتا ۔
ماہ پارہ :۔ا گر وہ یہاں آیا تو میں اس کی بوٹیاں نچوادوں گی۔
دل آرا:۔اور میں اس کی ہڈیاں کچلوادوں گی۔
ماہ پارہ:۔میں اس کی ہڈیوں کو جلا کر خاک کر دوں گی۔
دل آرا:۔ اور میں اس خاک کو اپنی ٹھوکروں سے اُڑا دوں گی۔
بیرم:۔ جناب ! انصاف تو اس سے بھی زیادہ سخت سزا تجویز کرتا ہے مگر چونکہ آپ رحم دل ہیں اس لیے تھوڑا رحم کیجیے اور اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو مجھے اجازت دیجیے تاکہ میں چلا جاؤں کیوں کہ میں اپنے باپ کو برائی کا بدلہ پاتے ہوئے دیکھوں گا تو مجھے شرم آئے گی ۔
دل آرا:۔ کتنا نیک معاش ہے !
ماہ پارہ :۔ یہ اتنا ہی شریف ہے جتنا اس کا باپ بدمعاش ہے۔ (سعدان کا آنا) ادھرآ۔ پاجی ! کتّے!
دل آرا:۔ ذلیل!نمک حرام!
سعدان:۔ شرافت کو نہ بدنام کرو۔ تمھارا باپ شریف ہے اور تمھاری ماں بھی شریف تھی اور میں بھی شریف ۔ اس لیے تم بھی شریف بنو اور شریفانہ کلام کرو۔
ماہ پارہ :۔ تو کتّے سے بھی زیادہ ذلیل ہے ۔
سعدان:۔ اس کی کیا دلیل ہے ؟
دل آرا:۔ یہ کہ تو دغاباز اور جھوٹا ہے ۔
سعدان:۔ سچ کہتی ہو! میں نے ہی تو خوشامد سے اپنے باپ کو لوٹا ہے!
ماہ پارہ :۔ بدمعاش تو نے خاقان کو زارا کے پاس کس لیے بھیجا ہے ۔
سعدان:۔ اس لیے کہ میں یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ تو اس کے ضعیف جسم کو ایذا پہنچائے یا اپنے ناخونوں سے اس کے جُھرّیاں پڑے چہرے کو نوچ نوچ کر کھائے۔
ماہ پارہ:۔ بدمعاش!
سعدان:۔ ظالمو !جنگل خوفناک ۔ رات مہیب ۔ اس پر بجلی کی گرج ، آندھی ، پانی ان سب آفتوں کی طغیانی اور اس میں ایک بوڑھا ضعیف شخص خستہ وخراب تھا ۔ اس وقت تم اور تمھار ا ہر نوکر محوِ خواب تھا ۔ میں آیا ۔ میں گڑ گڑایا ۔ میں نے سمجھایا مگر تم نے اپنے باپ پر ذرا ترس نہ کھایا اور اتنا نہ کہا کہ جاؤ دروازہ کھول دو اور اسے اندر بلالو۔ او وحشیو! جلاّدو! اس وقت اگر میرے دروازے پر کوئی بھیڑیا بھی آکر غل مچاتا تو میں کہتا دروازہ کھول دے اور اس کو گھر میں چھپالے۔
ماہ پارہ :۔ اس جرم پر ہم تیری بوٹیاں بھیڑیوں کو کھلوائیں گے ۔
دل آرا:۔ اس کی زبان کاٹ لو۔
سعدان:۔ ہاں جلدی کرو ورنہ تمھارے سب عیب کُھل جائیں گے ۔
ماہ پارہ:۔ خط لکھوا کر دوسرے کے نوکروں کو پُھسلانا یہ کارروائی کس قدر ذلیل ہے۔
سعدان:۔ایک نا واقف کو سانپ کی دوستی سے بچانا شرافت اور انسانیت کی دلیل ہے ۔
دل آرا:۔ وہ بیوقوف ہے ۔
سعدان:۔ او ر تو مکّار ہے ۔
ماہ پارہ:۔ وہ مصیبت ہی کے لایق ہے ۔
سعدان:۔ اور تو لعنت ہی کی سزا وار ہے ۔
دل آرا:۔ تو بوڑھے لباس میں شیطان ہے ۔
سعدان:۔ اور تو عورت کے جامے میں حیوان ہے ۔
ماہ پارہ:۔ بدمعاش تو ایسا بے خوف ہوکر ہم سے کلام کرتا ہے ۔
سعدان:۔ جس کو خدا کا خوف ہوتا ہے وہ انسانوں سے نہیں ڈرتا ہے ۔
ماہ پارہ:۔ تو اور یہ زبان درازی۔
سعدان:۔ بیٹی اور باپ سے دغابازی۔
ماہ پارہ:۔ یہ دماغ اور ایسا بیہودہ جنون۔
سعدان:۔ اولاد اور ایسا سفید خون۔
ماہ پارہ:۔ بدمعاش پاجی !جلاّد! مارہاتھ تاکہ یہ سر اِن قدموں پہ لوٹے۔
سعدان:۔
اے فرشتو ! سن رکھو ، روحِ صداقت رکھ نگاہ


اے زمیں دینا شہادت ، اے فلک رہنا گواہ


فرضِ ایماں ، حقِ مالک آج ادا میں کر چکا


بڑھ اِدھر تلوار کھینچ اور وار کر! ہے سر جھکا

جلاّد :۔ ہے اجازت؟
ماہ پارہ:۔ پوچھتا کیا ہے ؟
دل آرا:۔ اُڑا موذی کا سر؟
جلاّد:۔ بد نصیب انسان ۔ آہ ! (دل آرا کا شوہر اکرم داخل ہوکر جلاّد کا سر تلوار سے اُڑا دیتا ہے )
ماہ پارہ:۔ یہ کیا کیا بیداد گر؟
شوہر دل آرا:۔ وہ کیا جس کا یہ سزا وار تھا۔
دل آرا:۔ مگر کیا یہ تمھارا خطا وار تھا؟
شوہر دل آرا:۔ اور کیا یہ تیرا گنہگا رہے ؟
دل آرا:۔ بیشک یہ موذی مکار ہے ۔
ماہ پارہ:۔ اس نے ہم کو دھوکا دیا۔
شوہردل آرا :۔ اور تم نے اپنے باپ کو دھوکا دیا اور دھوکا بھی وہ دھوکا کہ جس کا نام سن کر شیطان تک لرز جاتا ہے ۔
دل آرا:۔ مجھے تمھاری عقل پر افسوس آتا ہے ۔
ماہ پارہ:۔ تم بڑے ذلیل ہو ۔ تمھارا دل بزدلی اور بے عزتی اٹھانے کے لیے بناہے۔
شوہر دل آرا:۔عقل اور نیکی کی باتیں بدوں کوہمیشہ بری معلوم ہوتی ہیں ۔ تم نے کیا کیا ؟ اس غریب کو چیلوں کی طرح نوچ نوچ کر کھالیا۔ کیا تم اس کی بیٹیاں نہیں ہو ؟ کیا وہ تمھارا باپ نہیں ہے؟ ایسے سفیدسرکو جسے ریچھ بھی تعظیم سے چومتا ہے تم نالائقوں نے اسے پاگل بنادیا ۔ اگر اس کے دل میں رحم آیا، اس کے خون نے جوش کھایا ، اگر یہ نمک خواری کا فرض بجالایا ، تو اس نے کون سی گنہگاری کی ؟ تم نے بیٹیاں ہوکر اسے راحت نہ دی اور اس نے غیر ہوکر خدمت گزاری کی۔
سعدان:۔او خدا !ان کے دل میں انصاف پیداکر۔
ماہ پارہ:۔ چپ بدمعاش کیا یہ انصاف نہیں ہے کہ تو خاک وخون میں ملایاجائے اور بیرم کا جس نے ہم پر تیرا پُر فریب خط ظاہر کیا ہے عزت اور رتبہ بڑھایا جائے۔
سعدان:۔ او خدا ! کیا بیٹے نے باپ سے فتنہ پردازی کی ۔ افسوس ! افسوس! اب میری آنکھ کھل گئی۔ ضرور غریب پرویز کے ساتھ بھی اِسی نے دغابازی کی؟
دل آرا:۔ ایسی اندھی عقل بھی کس کام کی جو یہ بھی نہیں دیکھ سکتی کہ ایسی نیکی کرنے سے کیا برائی ہوگی؟
شوہر دل آرا:۔ اور تو بھی تو دیکھ کہ شیطان میں بھی اتنی برائیاں نہیں جتنی تم عورتوں میں نمایاں نظر آتی ہیں۔
ماہ پارہ:۔ کیسا بزدل ہے کہ ہمت کا ایک لفظ بھی زبان پر نہیں آتا!
شوہر دل آرا:۔ تو مجھے کیوں غصہ دلاتی ہے ؟ اگر عورت نہ ہوتی تو میں تیری ہڈیاں پیس ڈالتا۔ سپاہیو! چھوڑ دو اس کو۔
دل آرا:۔ یہ نہیں چھوٹ سکتا۔
شوہر:۔ میں کہتا ہوں کہ اسے چھوڑ دو۔
دل آرا:۔ اور میں بھی کہتی ہوں کہ یہ نہیں چھوٹ سکتا ۔
شوہر:۔ تم نے نہیں سنا۔
ماہ پارہ:۔ وہ نہیں سن سکتے ۔
شوہر:۔ میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ ان دونوں کو قید کر لو۔
دل آرا:۔ اور میں بھی حکم دیتی ہوں کہ اس کا سر کاٹ لو۔
شوہر:۔ اوہ ! خبیثو ! بدمعاشو! آہ !
سعدان:۔ اوہ خدا ! یہ کیا ہورہا ہے ؟
ماہ پارہ:۔ ٹھہر ۔ بدمعاش ۔ تو کہاں جاتا ہے؟
سعدان :۔ آہ !
ٹیبلو
(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب چوتھا سین
را ستہ
(بیرم کا فوج کا دستہ لیے گاتے ہوئے گزرنا)
گانا:۔لڑیں ہم جم کے ۔خنجر چمکے ۔ دل کانپے عالم کے ۔ چلے تیغ ستم ۔ سرتن ہو قلم۔ دشمن لیں راہِ عدم۔ کار زار میں خنجر سے آتش برسے۔ دنیا لرزے تھر تھر ڈرسے ۔ فوجِ دشمن دنگ ہو۔ جنگ کا وہ رنگ ہو۔ روحِ ستم تنگ ہو ۔ آؤ لڑ وجم کے ۔ لڑیں ہم جم کے ۔

ٹیبلو

(سین ختم)
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا باب پانچواں سین
قلعے کا د رو ا زہ
(خاقان کا زارا کے ساتھ قلعے سے نکلتے ہوئے دکھائی دینا ۔بیرم کا فوج کے ساتھ آکر اس کو گرفتار کرنا)
بیرم :۔ خبردار!
(زارا اور ماہ پارہ کی سپاہ کا لڑتے نظر آنا ۔ ماہ پارہ کے سپاہیوں کا خاقان کو گرفتار کیے ہوئے لانا اور زارا کا اس کی کمر سے لپٹنا)


ٹیبلو

(ڈراپ سین )
 
Top