میری کیا مجال کہ حمد باری تعالیٰ میں ایک حرف بھی نیا لکھ سکوں ۔اس مضمون سے یہ غرض بھی نہیں کہ مجھے ایسے مشکل کام کا دعوےٰ ہے جو آج تک کسی سے نہ ہوسکا ۔مگر بچوں اور بوڑھوں کی ضد ان کی سمجھ کے مطابق پوری ہو جائے تو خوش ہو جاتے ہیں ، اور شاعروں کو وصفوائد ِ دہنِ یار میں گو نظر آئے یا نہ آئے لطف آتا ہے۔مجھ سے بھی اگر حمد نہ بن پڑی تو حمد کی تعریف میں اس قدر لکھ کر اپنا دل خوش کٸے لیتا ہوں
ہم سمجھے ہم نے مدح کے دریا بہا دیے
کیا ہو گیا جو بحر میں قطرے ملا دیے
یہ وہ ذکر ہے جو شب و روز و ماہ و سال ، ماضی و مستقبل و حال کی زبان پر ازل سے جاری ہے اور ابد تک ختم نہیں ہو سکتا ۔ رات شام سے تاروں کعبہ جمع کر کے یہی ذکر سنانا شروع کر دیتی ہے ۔ اور صبح کو مرغانِ خوش الحان کی زبان سے یہی ذکر سن لیجیے ۔ اس ذکر میں بے تاب دلوں کو وہ تسلیّ ہوتی ہے جو ہوائے گرم میں جب لوٸیں چل رہی ہوں آبشار کے پاس گنجان درختوں کے سائے میں بیٹھنے والوں کوبھی نصیب نہیں۔ اس کا لطف ان سے پوچھیے جن کو شور و غوغا سے گھبرا کر کسی گوشہ ٕ عافیت بے غلام و غش خیالِ یار میں بیٹھنا نصیب ہو ۔ جس طرح جاششِ بہار سے ہر برگِ گیاہ پر اثر ہوتا ہے ۔ حمد باری تعالی کے ذکر سے ہر نیک دل کی جان میں جان آتی ہو۔ اس کا ذکر اس کی دی ہوٸی زبان سے عجیب نعمت ہے ۔ اس کی دی ہوٸی ہر چیز کی تعریف عین دینے والے کی تعریف ہے ۔ میرا عقیدہ ہے کہ اپنی زبان کی ترقی کا بہترین طریقہ حمدِ الٰہی ہے ۔
حمد کے لٸے زبان اپنی ہی چاہیے غیر کی نہیں ۔
میں خوش ہوں کہ مجھے اس پرچے کاظہار پہلا مضمون حمدِ بای تعالٰے کیا تعریف میں لکھنا نصیب ہوا ۔
یہاں تک تھی حریصِ نالہ بلبل
نکالی بیضہ سے منقار پہلے
ناصری شمارہ اولٰی ا٣٠٧ ھ
اوپر درج ہے مقاماتِ ناصری میں میر ناصر علی کے پہلے مضمون افتتاحِ کلام کی آخری چند سطروں کا اقتباس ۔
میر ناصر علی کے پوتے جناب انصاری ناصری نے ان کی لاتعداد گم شدہ تحاریر کو بازیاب کیا ان کا انتخاب کیا اور ترتیب دیا اور مقاماتِ ناصری کے نام سے انجمن ترقی اردو کےتعاون سے شاٸع کیا ۔ سوا سات سو صفحات کی اس کتاب کے شاٸع ہونے میں انصار ناصری صاحب کی چھتیس سال کی محنت ہے ۔ انتصار علی صاحب (ولد ناصر علی) کی معروضاتِ ضعیف ہیں ، بابائے اردو مولوی عبدالحق کی تفریض ہے مولانا عبالماجد دریابادی کا لکھا پیش لفظ ہے، جمیل الدین عالی صاحب کے حرفے چند ہیں نیاز فتحپوری صاحب نے بھی تعارف کرایا ہے اردو کا پہلا اور آخری انشاٸیہ نگار کہہ کر اور ۔ ۔
پھر آپ ہیں اور میر ناصر علی دہلوی جن کے طرزِ تحریر کی صرف ایک جھلک آپ نے اوپر دیکھی ہے ۔