Aasan+HadeeseN+001.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
میری کیا مجال کہ حمد باری تعالیٰ میں ایک حرف بھی نیا لکھ سکوں ۔اس مضمون سے یہ غرض بھی نہیں کہ مجھے ایسے مشکل کام کا دعوےٰ ہے جو آج تک کسی سے نہ ہوسکا ۔مگر بچوں اور بوڑھوں کی ضد ان کی سمجھ کے مطابق پوری ہو جائے تو خوش ہو جاتے ہیں ، اور شاعروں کو وصفوائد ِ دہنِ یار میں گو نظر آئے یا نہ آئے لطف آتا ہے۔مجھ سے بھی اگر حمد نہ بن پڑی تو حمد کی تعریف میں اس قدر لکھ کر اپنا دل خوش کٸے لیتا ہوں

ہم سمجھے ہم نے مدح کے دریا بہا دیے
کیا ہو گیا جو بحر میں قطرے ملا دیے

یہ وہ ذکر ہے جو شب و روز و ماہ و سال ، ماضی و مستقبل و حال کی زبان پر ازل سے جاری ہے اور ابد تک ختم نہیں ہو سکتا ۔ رات شام سے تاروں کعبہ جمع کر کے یہی ذکر سنانا شروع کر دیتی ہے ۔ اور صبح کو مرغانِ خوش الحان کی زبان سے یہی ذکر سن لیجیے ۔ اس ذکر میں بے تاب دلوں کو وہ تسلیّ ہوتی ہے جو ہوائے گرم میں جب لوٸیں چل رہی ہوں آبشار کے پاس گنجان درختوں کے سائے میں بیٹھنے والوں کوبھی نصیب نہیں۔ اس کا لطف ان سے پوچھیے جن کو شور و غوغا سے گھبرا کر کسی گوشہ ٕ عافیت بے غلام و غش خیالِ یار میں بیٹھنا نصیب ہو ۔ جس طرح جاششِ بہار سے ہر برگِ گیاہ پر اثر ہوتا ہے ۔ حمد باری تعالی کے ذکر سے ہر نیک دل کی جان میں جان آتی ہو۔ اس کا ذکر اس کی دی ہوٸی زبان سے عجیب نعمت ہے ۔ اس کی دی ہوٸی ہر چیز کی تعریف عین دینے والے کی تعریف ہے ۔ میرا عقیدہ ہے کہ اپنی زبان کی ترقی کا بہترین طریقہ حمدِ الٰہی ہے ۔
حمد کے لٸے زبان اپنی ہی چاہیے غیر کی نہیں ۔
میں خوش ہوں کہ مجھے اس پرچے کاظہار پہلا مضمون حمدِ بای تعالٰے کیا تعریف میں لکھنا نصیب ہوا ۔

یہاں تک تھی حریصِ نالہ بلبل
نکالی بیضہ سے منقار پہلے

ناصری شمارہ اولٰی ا٣٠٧ ھ

اوپر درج ہے مقاماتِ ناصری میں میر ناصر علی کے پہلے مضمون افتتاحِ کلام کی آخری چند سطروں کا اقتباس ۔
میر ناصر علی کے پوتے جناب انصاری ناصری نے ان کی لاتعداد گم شدہ تحاریر کو بازیاب کیا ان کا انتخاب کیا اور ترتیب دیا اور مقاماتِ ناصری کے نام سے انجمن ترقی اردو کےتعاون سے شاٸع کیا ۔ سوا سات سو صفحات کی اس کتاب کے شاٸع ہونے میں انصار ناصری صاحب کی چھتیس سال کی محنت ہے ۔ انتصار علی صاحب (ولد ناصر علی) کی معروضاتِ ضعیف ہیں ، بابائے اردو مولوی عبدالحق کی تفریض ہے مولانا عبالماجد دریابادی کا لکھا پیش لفظ ہے، جمیل الدین عالی صاحب کے حرفے چند ہیں نیاز فتحپوری صاحب نے بھی تعارف کرایا ہے اردو کا پہلا اور آخری انشاٸیہ نگار کہہ کر اور ۔ ۔
پھر آپ ہیں اور میر ناصر علی دہلوی جن کے طرزِ تحریر کی صرف ایک جھلک آپ نے اوپر دیکھی ہے ۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت حسان بن ثابتؓ


ایسی شاعری جس میں پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد الرسول اللہ کی تعریف و تحسین کی گئی ہو وہ نعت کہلاتی ہے۔ عرب کی شاعری ہجویہ اور جذباتی تھی اور قرآنی افکار سے متصادم تھی۔ اس لئے قرآن حکیم نے ایسی شاعری کو پسند نہ فرمایا (شعرا کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں)۔ پھر فرمایا ”ہم نے آپ کو شعر کی تعلیم نہیں دی“ (سورة یٰسین 69)۔ قرآن مجید کے بارے فرمایا گیا ”یہ قرآن کسی شاعر کا کلام نہیں۔ محبوب علیہ السلام بھی عمومی طور پر شعر کی طرف راغب نہیں تھے۔ ایک تو یہ کہ شاعری مقام نبوت سے نہایت فروتر درجے کی چیز ہے۔ اور دوسرے یہ کہ شعر سے قبائلی عصبیت و منافرت ابھرتی تھی جبکہ رسول اتفاق و اتحاد، محبت و الفت اور ہمدردی و دلجوئی کے داعی تھے۔

غور کیا جائے تو آیت کریمہ اور احادیث نبوی میں علی الاطلاق شعر کی مذمت نہیں۔ ہجائی اور ایذا رساں شاعری کی مذمت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک اعرابی سرور عالم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ شعر میں گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا ”بے شک شعروں میں دانائی کی باتیں ہیں اور بعض باتیں جادو کا اثر رکھتی ہیں۔“

نعت کا آغاز اس وقت ہوا جب اسلام نے قبائلی عصبیت کو مٹا ڈالا۔ نظریاتی بنیادوں پر کفار و مومنین کے درمیان مہاجاة ہوئی۔ عبداللہ بن ابصری، ابو سفیان بن الحارث اور عرو بن العاص کفار کی طرف سے مشہور ہجو گو شاعر تھے۔ محبوب ؑ نے کفار کے مقابلے میں لسانی اور شعری معرکوں کے لئے حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو مقرر فرمایا اور پھر ان کے نعتیہ اشعار سے متاثر ہو کر فرمایا ”یہ وہ
لوگ ہیں جو قریش کے لئے تیروں کی بوچھا ڑسے بھی زیادہ سخت ہیں۔“

حضرت حسان بن ثابتؓ مدینہ میں پیدا ہوئے۔ عمر میں حضور سے کوئی آٹھ برس بڑے تھے۔ ہجرت مدینہ کے بعد 60برس کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ کبرسنی کی وجہ سے جہاد بالسیف سے معذور رہے۔ قریش کی ہجو گوئی کے خلاف حضور نے شعرائے اسلام کو تحریض کی تو حضرت حسان بن ثابتؓ نے فرمایا کہ میں ان کی ہجو کروں گا۔ حضور نے فرمایا کہ میں بھی تو قریش ہی سے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو ان میں سے یوں کھینچ نکالوں گا جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے۔ ابو سفیان بن الحارث نے ہجو کی تو انہوں نے جواباً کہا:

(ترجمہ) ”تو نے محمد کی ہجو کی میں جواب دیتا ہوں۔ اس کی اللہ کے ہاں جزا ہے۔ تو نے اس مبارک، نیک اور یکسو کی ہجو کی وہ امانت خداوندی کا امین ہے اور وفا اس کی خصلت ہے۔ میرے ماں باپ اور عزت محمد کی عزت کے تحفظ کی ڈھال ہے۔
حضرت حسان بن ثابتؓ کا سب سے بڑا کارنامہ وفد بن تمیم کے ایمان لانے پر نصرت رسول ہے۔ 70یا 80افراد پر مشتمل یہ وفد حاضر خدمت ہوا۔ بن تمیم نے اپنے مشہور شاعر زیرقان بن بدر کو پیش کیا۔ قبائلی مفاخرت ہوئی۔ حضور نے حسان بن ثابتؓ کو بلا کر فرمایا جواب دیں۔ آپ نے نعتیہ اشعار پڑھ کر موثر جواب دیا۔ بنی تمیم دولت ایمان سے مالا مال ہو گئے۔ ان کے وہ اشعار تو اب ہر عربی خواں کی زبان پر ہیں:

آپؓ کی شاعری کا دیوان چھپ گیا ہے۔ اس کی کئی شروح لکھی گئی ہیں۔ محبوب کی جائز و مناسب تعریف و تحسین ہی آپ کی نعت کا درجہ رکھتی ہے -۔۔۔
 
Top