آزاد نظم

پاکستانی

محفلین
آگے آگ کادریا ہے

اور پیچھے سمندر

میرے مالک

تیرا یہ بندہ کدھر جائے

بستی بستی ہاتھوں میں

سنگ لیے آتی ہے

اے رحیم

تیری رحمت نہ ہو تو

یہ مر جائے

غیر تو غیر ہیں

ان سے شکایت اور گلہ کیسا

اب کے اپنوں نے ہی گھیرا ہے

کہاں جائے

آتشیں بارود ہے اور

پھیلا ہوا خون بے گناہوں کا

پھر وہ بندوق نہ اٹھا ئے تو

کدھر جائے

نئے سال کے پٹاخوں نے

دبا دیں ہزاروں آہیں

درد و آفات کی ظلمت میں تو

یہ انسان

کبھی سدھر جائے

مہ خانے میں نشہ ہے

پر، سکون نہیں

دل پہ وحشت کی ہو برسات

تو مسافر کہاں جائے

یہ زندگی عذاب

مرنے پہ حساب

نہ خوشی سے

ادھر آئے

نہ

ادھر جائے

یزیدی لشکر کو چھو ڑا

یہ کہتے ہوئے حۡر نے

دل میں جس کے ہو جرأت و ایمان

وہ فلاح پائے
 
Top