آزادی مارچ اپڈیٹس

زرقا مفتی

محفلین
معاشرے میں تنافر اور عدم برداشت بڑھتا جا رہا ہے اور اسکی ایک بڑی وجہ معاشرتی نا انصافیاں ہیں
54042937ea906.jpg
 
مگر عوامی احتجاج کو غداری یا فساد نہیں سمجھا جاتا تھا جیسا کہ آج سمجھا جا رہا ہے
انتخابات سے پہلے ایک پالیسی بنائی گئی تھی کہ ایسے سیاستدان جو بدعنوانی میں ملوث نہ رہے ہوں اور انتخابات جیت سکتے ہوں اُنہیں پارٹی کی رکنیت دے دی جائے
لیکن محترم جاوید ہاشمی صاحب کا نام تو مشہور زمانہ یونس حبیب نامی بینکر کی پیسے لینے والی فہرست میں چھٹے نمبر پر بہت پہلے سے تھا۔
تاریخ پڑھ لیجئے[/QUOTE]
تاریخ میں ایسا کچھ نہیں لکھا
 

آبی ٹوکول

محفلین
حیرت ہے پورے میڈیا پر نواز شریف کے اسمبلی پر بولے جانے والے جھوٹ اور شہباز شریف کہ زمہ دار ثابت ہوجانے پر استعفٰی دے دینے والے بیانات پر مجرمانہ خاموشی ہے
 

ابن عباس

محفلین
ہاشمی صاحب ایک با عزت سیاسی لیڈر ہیں ۔اور ہر ایک آدمی کو اختلاف رائے کا حق حاصل ہے لیکن اس وقت میں ان کی پریس کانفرنس نے تحریک انصاف کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ افسوس کہ ہاشمیہ صاحب ایک نازک وقت میں تحریک انصاف کو اچھا خاصا دھچکا پہنچا گئے۔
 
خان صاحب سے کسی نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ جاوید ہاشمی کو صدر کیوں بنایا گیا؟ افضل خان جو بھی بولے وہ سچ ہے، ہاشمی صاحب جو بولیں وہ جھوٹ ہے- خان صاحب تقریر فرماتے ہوئے نواز شریف پہ الزام لگاتے ہیں کہ بی ایم ڈبلیو گاڑی رشوت کےطور پر آرمی چیف کو دی ہے-اس پہ کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ ملک کی مسلح افواج پہ راشی ہونے کا الزام کیوں لگایا گیا ہے؟ہاشمی یا تو پہلے دن سے سچا ہے یا پہلے دن سے جھوٹا، کپتان خان کی مردم شناسی پہ سوال کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟ پارٹی کے منتخب صدر کو ایک چپٹراسی کی طرح نکال دیا جاتا ہے۔ اور دعوٰی یہ کہ ہم جمہوری جماعت ہیں- یہ ساری حرکتیں کوئی اور کرے تو کرپٹ ، منافق اور نجانے کیا کیا- خان صاحب کریں تو تبدیلی-
بقول شاعر- میں کروں تو سالا کیرکٹر ڈھیلا ہے------------------
 

عثمان سیال

محفلین
افسوس اس بات پر ہے کہ ہاشمی صاحب یہی جرات پہلے کرتے۔ اس دھرنے میں شریک ہونے سے انکار کرتے۔ عوام کو وہ ساری باتیں بتاتے جو آج بتا رہے ہیں۔کس بات کا انتظار کرتے رہے۔ اگر یہ سب کچھ ایک منصوبے کا نتیجہ تھاتو ہاشمی صاحب کس مصلحت کے تحت خاموش رہے اور شامل رہے۔جاوید چودھری کے پروگرام میں کہتے ہیں فوج عمران خان کے پیچھے نہیں ہے۔ کیا تماشا ہے یہ؟

ہاشمی صاحب ایک با عزت سیاسی لیڈر ہیں ۔اور ہر ایک آدمی کو اختلاف رائے کا حق حاصل ہے لیکن اس وقت میں ان کی پریس کانفرنس نے تحریک انصاف کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ افسوس کہ ہاشمیہ صاحب ایک نازک وقت میں تحریک انصاف کو اچھا خاصا دھچکا پہنچا گئے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ساٹھ برس پرانی تازہ کہانی
وسعت اللہ خان​
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
اتوار 31 اگست 2014

140824034301_pti_dharna_304x171_ap_nocredit.jpg

یہ کہانی اس سال کی ہے جب ڈاکٹر طاہر القادری پیدا ہوچکے تھے اور عمران خان کی پیدائش میں ابھی ایک سال باقی تھا۔
ایران میں جواں سال رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت نئی نئی تھی۔ شاہ نے 1951 میں عوامی دباؤ کے تحت عام انتخابات کروائے جن کے نتیجے میں قوم پرست رہنما محمد مصدق وزیرِ اعظم بن گئے۔

محمد مصدق نے سب سے پہلے تو دو تہائی پارلیمانی اکثریت کے بل بوتے پر وزیرِ دفاع اور بری فوج کے سربراہ کی نامزدگی کے اختیارات شاہ سے واپس لے لیے۔ پھر شاہی خاندان کے سالانہ ذاتی بجٹ میں کمی کر دی، پھرشاہی زمینیں بنامِ سرکار واپس ہوگئیں۔
زرعی اصلاحات کے ذریعے بڑی بڑی جاگیرداریوں کو کم کر کے کسانوں میں ضبط شدہ زمینیں بانٹنے کا سلسلہ شروع ہوا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایرانی تیل پر اینگلو ایرانین کمپنی کا 40 سالہ اختیار ختم کر کے تیل کی صنعت قومیا لی۔
چنانچہ ایسے خطرناک محمد مصدق کو چلتا کرنے کے لیے شاہ، برطانوی انٹیلی جینس ایم آئی سکس اور امریکی سی آئی اے کی تکون وجود میں آئی اور مصدق حکومت کے خاتمے کا مشترکہ ٹھیکہ امریکی سی آئی اے نے اٹھا لیا۔ سی آئی اے نے اس پروجیکٹ کے لیے دس لاکھ ڈالر مختص کیے اور یہ بجٹ تہران میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف کرمٹ روز ویلٹ کے حوالے کر دیا گیا۔
ایرانی ذرائع ابلاغ میں اچانک مصدق کی پالیسیوں پر تنقید میں تیزی آگئی۔ ملک کے مختلف شہروں میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے شروع ہوگئے۔ از قسمِ راندۂ درگاہ سیاست دانوں کا ایک اتحاد راتوں رات کھڑا ہو گیا جس نے ایک عوامی ریفرینڈم کروایا۔
ریفرینڈم میں حسبِ توقع 99 فیصد لوگوں نے مصدق حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور ان نتائج کو کچھ مقامی اخبارات نے یہ کہہ کر خوب اچھالا کہ مصدق حکومت کا اخلاقی جواز ختم ہو چکا ہے۔ جب وزیرِ اعظم مصدق نے اس اچانک سے ابھرنے والی بے چینی کو مسترد کر دیا تو پھر کام میں اور تیزی لائی گئی۔
تہران کے ایک مقامی دادا شعبان جعفری کو شہری باشندے منظم کرنے اور رشیدی برادران کو تہران سے باہر کے ڈنڈہ بردار قبائلی دارالحکومت پہنچانے اور ان کے قیام و طعام کے لیے وسائل فراہم کیے گئے۔ دارالحکومت میں ہزاروں افراد پر مشتمل احتجاجی جلوس روز نکلنے لگے۔ بازاروں میں مصدق کے حامیوں کی دوکانیں نذرِ آتش ہونے لگیں۔ تصادم شروع ہوگئے۔ 15 روز کے ہنگاموں میں لگ بھگ تین سو لوگ ہلاک ہوئے اور مصدق مخالفین نے سرکاری عمارات کو گھیر لیا۔
چنانچہ رضا شاہ پہلوی کو مصدق حکومت کی رٹ ختم ہونے پر ریاست بچانے کے لیے مجبوراً مداخلت کرنا پڑی اور 16 اگست 1953 کو جنرل فضل اللہ زاہدی کو عبوری وزیرِ اعظم نامزد کرکے معزول محمد مصدق کو نظر بند کر دیا گیا۔اگلے روز تہران ایسا نارمل تھا گویا یہاں 24 گھنٹے پہلے کسی کی نکسیر تک نہ پھوٹی ہو۔
اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس وقت محمد مصدق کی کہانی بیان کرنے کا مقصد آخر کیا ہے اور اس کا آج کے پاکستان سے کیا تعلق ہے؟ کیا میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ سیاسی ہنگام سی آئی اے اور ایم آئی سکس کی سازش ہے؟
بخدا قطعاً نہیں۔ دنیائے سازش میں پرانا نیا کچھ نہیں ہوتا۔ فارمولا اگر مجرب و موثر ہو تو 60 برس بعد بھی کام دے جاوے ہے۔ حکومتوں کی تبدیلی کے منصوبے ایم آئی سکس اور سی آئی اے وغیرہ کی میراث تھوڑی ہیں۔ ایسے منصوبے تو ثوابِ جاریہ کی طرح کہیں کا کوئی بھی ادارہ کسی بھی وقت تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ حسبِ ضرورت استعمال کر سکتا ہے۔
اب جو ہو سو ہو مگر میں پاکستان تحریکِ انصاف کے صدر جاوید ہاشمی کا بطورِ خاص شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مورخ کا کام خاصا آسان کر دیا ہے۔
یہ محتسب، یہ عدالت تو اک بہانہ ہے
جو طے شدہ ہے وہی فیصلہ سنانا ہے
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/08/140831_baat_se_baat_zis.shtml
 

جاسمن

لائبریرین
پھر غلیل بناؤں گا
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
اتوار 10 اگست 2014

120921084124_islamabad-rangers.jpg

ایسی پارلیمانی اکثریت کس کام کی جس سے لیڈر کوئی کام ہی نہ لے سکے
یہ تہہ در تہہ مسلح سکیورٹی کے دائرے، یہ خاردار تاروں کے نوکیلے لچھے، کونہ در کونہ پھیلے سادہ لباسئے، مہنگے ریبین کی سستی فرسٹ کاپی آنکھوں پر لگائے چوڑے چوڑے محافظ، یہ ڈالروں سے خریدے گئے اعلیٰ نسل جرمن شیفرڈ، یہ موبائل جیمرز سے لیس بلٹ پروف فلیٹ، گواہی ہے اس یقین کی کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ پر دل ہے کہ لرزتا ہی رہتا ہے۔
اور جب دل ہی قابو میں نہ ہو تو ملک کیسے قابو میں آئے اور حوصلہ کہاں گھونسلہ بنائے۔ ایسی پارلیمانی اکثریت کس کام کی جس سے لیڈر کوئی کام ہی نہ لے سکے۔ اگر کھلونے ہی جمع کرنے تھے تو اس کے لیے اتنی بھاگ دوڑ یا قسموں وعدوں کی کیا ضرورت تھی۔ ایک سے ایک کھلونے تو اپنے ہی گھر سے چند قدم دور آکسفورڈ سرکس کے نکڑ پر ٹوائز رس سے بھی خریدے جاسکتے تھے۔ اور کسی نے یہ بھی تو نہیں بتایا ہوگا کہ آپ کھلونوں سے کھیل تو سکتے ہیں مگر کھلواڑ نہیں کرسکتے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ آپ کے کھلونے تک آپ سے بیگانے ہو چکے ہیں۔ کاش آپ اتنے سارے جمع کرنے سے پہلے فلم ٹوائے سٹوری ہی دیکھ لیتے۔
آدم کو تو خدا نے ایک بھی موقع نہیں دیا۔ لیکن اسی خدا نے آپ کو تین تین موقعے عطا کردیے۔ شاید اب کچھ کر جائے، شاید اب کچھ سیکھ لے، شاید اب کچھ سمجھ لے۔ لیکن آپ بھی اس بچے کی طرح ثابت ہوئے جسے بس ایک ہی دھن تھی۔
بیٹے بڑے ہو کر کیا کرو گے؟
غلیل بناؤں گا!

بیٹے اگر میں آپ کو ریموٹ کنٹرول والا جہاز لے دوں تو اڑاؤ گے؟
جی اڑاؤں گا مگر دل بھر گیا تو اسے بیچ دوں گا۔
بیچ کے کیا کروگے؟
ربڑ اور دو شاخہ لکڑی خریدوں گا اور غلیل بناؤں گا۔
اچھا اگر میں آپ کو ایک درجن غلیلیں خرید کے دے دوں تب تو آپ غلیل نہیں بناؤ گے نا؟؟؟
بالکل نہیں بناؤں گا۔ لیکن اگر وہ ٹوٹ گئیں یا گم ہوگئیں تو پھر غلیل بناؤں گا۔
اور بیٹا اگر اس دنیا سے تمام درخت غائب ہوجائیں تب کیسے غلیل بناؤ گے؟
جی پھر تو میں بس سویا کروں گا۔
اتنا کیوں سوؤ گے بیٹا؟
تاکہ خواب میں غلیلیں بناؤں۔
میں بچپن سے ایسے فلسفے سن رہا ہوں کہ مرا ہوا خاک کا دہشت زدہ لاکھ کا۔آپ خود ہی بتائیے کہ کون شخص زیادہ کارآمد ہے؟ وہ کہ جس کے سینے میں آپ سیدھی سیدھی گولی اتار دیں یا وہ کہ جس کی کنپٹی کے پاس سے زناٹے دار گولی گزار دیں۔ مرے ہوئے سے آپ کوئی کام نہیں لے سکتے لیکن دہشت زدہ آپ کا احسان مند غلام ہوجائے گا۔احسان مند یوں کہ آپ نے گولی صرف کان سے چھوا کر اسے ایک اور موقع عطا کیا ہے۔
120921054327_protest_islamabad.jpg

جس نے پارٹی ہو کہ پارلیمنٹ، کہ معیشت، کہ آرٹیکل 245، سبھی سے غلیل بنانی ہے ۔اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ موٹی موٹی باتیں بھی سمجھ جائے گا، نری زیادتی ہے
ہوسکتا ہے یہ سب باتیں ٹھیک ہوں اور صدیوں کی سچائی کا نچوڑ ہوں۔ لیکن جس نے پارٹی ہو کہ پارلیمنٹ، کہ معیشت، کہ آرٹیکل 245، سبھی سے غلیل بنانی ہے ۔اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ موٹی موٹی باتیں بھی سمجھ جائے گا، نری زیادتی ہے۔آپ کچھ بھی کرلیں۔ بھلے غلیل چھین کر اس غلیل میں ڈھیلے کی جگہ اسے رکھ کے ربڑ کھینچ دیں لیکن وہ جہاں بھی گرے گا غلیل ہی بنائے گا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ ایسے یک رخے جنونی بچے کو ڈنڈا ڈولی کر کے پھینک دینے کے بعد حالات ٹھیک ہوجائیں گے؟ سوچ ہے آپ کی۔ اگلا تو اس سے بھی بڑا جنونی غلیل باز ہے۔
پھر بھی یہ سب بچے قابلِ برداشت ہیں۔ سب اپنے ہی ہیں۔آپس میں ہی غلیل بازی کرتے ہیں۔انھیں ڈھیلا مارنے کی تو اجازت ہے ڈھیلا نکالنے کی نہیں۔ بظاہر جتنے شرارتی سہی مگر اتنا پتہ ہے کہ ایک دوسرے سے کتنی مستی کرنی ہے اور کب کسی کی کھنکھار سن کر غلیل کمر کے پیچھے چھپا لینی ہے۔ ورنہ تھوڑی دیر کے لیے غلیل چھین کر اوپر رکھ دی جاتی ہے۔ اتنی سزا عموماً کافی ہوتی ہے۔
کیا کریں جی بچوں کی تربیت تو ایسے ہی کرنی پڑتی ہے۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/08/140810_baat_se_baat_rk.shtml
 
pic-02.jpg


پرامن کارکنان پی ٹی وی پر پرامن دھرنے کے بعد پرامن طریقہ سے باہر جارہے ہیں۔ سپاہی پرامن کارکنوں کی پیٹ ٹھونک کر انھیں باہر جانے کا کہہ رہی ہے
 
Top