آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

زاہد لطیف

محفلین
اللہ کے احکامات عورت کے حقوق کے حوالے سے بہت واضح ہیں۔ اب شریعت یہ کہتی ہے شریعت وہ کہتی ہے شریعت اس کی اجازت دیتی ہے شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔ شریعت کے نام کے ساتھ کوئی بھی من پسند عمل جوڑ دینے سے وہ شریعت کا حکم نہیں بن جاتا۔ مرد کو ڈکٹیٹر نہیں بنایا گیا کہ طلاق لینے کے لیے عورت اس کی محتاج رہے گی یا ہمیشہ ہمیشہ غلام بن کے رہے گی۔ عورت اگر طلاق چاہتی ہے تو اس کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں اگر اسے ڈر ہے کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود قائم نہ رکھ سکے گی۔ اگر ایک عورت کسی سے پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کا حق ہے اور اگر کسی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اسے زبردستی نہیں رکھا جا سکتا تو اس صورت میں اللہ کی حدوں کو توڑنا طلاق سے بڑا گناہ ہے۔ غلامانہ سوچ سے باہر بھی ایک دنیا ہے جسے دیکھنے کے لیے سوچ کو آزاد کرنا بہت ضروری ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
شوہر کی اجازت سے کیوں؟ جب ایک ذمہ دار بیگم نے جاب خود ہی کرنی ہے تو وہ شوہر سے پہلے اجازت کیوں لے؟ کیا شوہر اپنی بیگم سے پوچھتے ہیں کہ وہ فلاں کام کرنے جا رہے ہیں۔ اجازت ہے؟
مسلمان بیویوں کی بات ہورہی ہے۔۔۔
دہریوں کی نہیں!!!
 

عدنان عمر

محفلین
اللہ کے احکامات عورت کے حقوق کے حوالے سے بہت واضح ہیں۔ اب شریعت یہ کہتی ہے شریعت وہ کہتی ہے شریعت اس کی اجازت دیتی ہے شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔ شریعت کے نام کے ساتھ کوئی بھی من پسند عمل جوڑ دینے سے وہ شریعت کا حکم نہیں بن جاتا۔
خواتین کی ملازمت کے حوالے سے سعودی علمائے کرام کا فتویٰ:

خاتون کیلیے گھر سے باہر ملازمت کرنے کے اصول


106815

سوال
میں انجنیئرنگ کالج کی طالبہ ہوں میری عمر 20 سال ہے، میں اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلیے گرمی کی چھٹیوں میں ایک لائبریری میں دستاویزات کی فوٹو کاپی کا کام کرتی ہوں، تو کیا اس سے مجھے گناہ ہو گا؟ واضح رہے کہ میں کام کے دوران نقاب لیکر رکھتی ہوں، اور مجھے بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید میرے کام کرنے کی وجہ سے کوئی دیندار رشتہ نہیں آتا۔

جواب کا متن

6742) کا مطالعہ کریں

دوم:

عورت کیلیے ملازمت کی خاطر گھر سے نکلنا جائز ہے، لیکن اس کے کچھ اصول و ضوابط ہیں اگر یہ موجود ہوں تو عورت کیلیے کام کی غرض سے باہر نکلنا جائز ہو گا، جیسے:

- عورت کو کام کرنے کی ضرورت ہو،اور اپنی ضروریات پوری کرنے کیلیے ملازمت کو آمدن کا ذریعہ بنائے، جیسے کہ آپ کی صورتحال میں موجود ہے۔

- کام ایسا ہو جو جسم، تخلیق، اور مزاج ہر اعتبار سے صنف نازک کے ساتھ میل رکھتا ہو، مثلاً: طب، نرسنگ، تدریس، سلائی کڑھائی وغیرہ۔

- ملازمت کی جگہ صرف خواتین کام کرتی ہوں، وہاں پر اجنبی لوگوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو۔

- کام کے دوران عورت شرعی حجاب کا مکمل اہتمام کرے۔

- کام کی وجہ سے بغیر محرم کے سفر کرنا نہ پڑے۔

- کام کیلیے جاتے ہوئے کسی حرام کام کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، مثلاً: ڈرائیور کے ساتھ تنہا سفر کرنا، اجنبی مردوں تک پہنچنے والی خوشبو لگانا وغیرہ۔

- ملازمت کی وجہ سے ضروری امور میں خلل پیدا نہ ہو، مثلاً: گھر کی دیکھ بھال، شوہر اور اولاد کی ضروریات وقت پر پوری کرنا۔

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"عورت کیلیے ملازمت کی جگہ ایسی ہونی چاہیے جہاں: صرف عورتیں ہی کام کریں، مثلاً: لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں کام کرے، چاہے وہاں پر کام ادارتی ہو یا فنی ، اپنے گھر میں رہتے ہوئے خواتین کے کپڑے وغیرہ سلائی کرے ، یا اسی طرح کا کوئی اور کام کرے۔

لہذا ایسی جگہیں جہاں پر مرد حضرات کام کرتے ہوں تو وہاں پر عورت کیلیے کام کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے مردوں کے ساتھ اختلاط لازم آئے گا، اور یہ بہت سنگین نوعیت کا فتنہ ہے جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے، یہ بات ذہن نشین کرنا بھی ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرے بعد مردوں کیلیے خواتین سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہو گا، بنی اسرائیل کی آزمائش بھی خواتین کے ذریعے ہوئی تھی) اس لیے گھر کے سربراہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فتنوں کی جگہوں اور فتنوں کے اسباب سے اپنے اہل خانہ کو بچا کر رکھے" انتہی
فتاوى المرأة المسلمة " ( 2 / 981 )

اگر یہ تمام شرائط آپ کے کام کرنے کی جگہ میں پائی جائیں تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو نیک رفیق حیات نصیب فرمائے، بیشک وہ اس پر قادر ہے اور وہی یہ کر سکتا ہے۔

واللہ اعلم.
 

سید عمران

محفلین
خواتین کی ملازمت کے حوالے سے سعودی علمائے کرام کا فتویٰ:

خاتون کیلیے گھر سے باہر ملازمت کرنے کے اصول


106815

سوال
میں انجنیئرنگ کالج کی طالبہ ہوں میری عمر 20 سال ہے، میں اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلیے گرمی کی چھٹیوں میں ایک لائبریری میں دستاویزات کی فوٹو کاپی کا کام کرتی ہوں، تو کیا اس سے مجھے گناہ ہو گا؟ واضح رہے کہ میں کام کے دوران نقاب لیکر رکھتی ہوں، اور مجھے بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید میرے کام کرنے کی وجہ سے کوئی دیندار رشتہ نہیں آتا۔

جواب کا متن

6742) کا مطالعہ کریں

دوم:

عورت کیلیے ملازمت کی خاطر گھر سے نکلنا جائز ہے، لیکن اس کے کچھ اصول و ضوابط ہیں اگر یہ موجود ہوں تو عورت کیلیے کام کی غرض سے باہر نکلنا جائز ہو گا، جیسے:

- عورت کو کام کرنے کی ضرورت ہو،اور اپنی ضروریات پوری کرنے کیلیے ملازمت کو آمدن کا ذریعہ بنائے، جیسے کہ آپ کی صورتحال میں موجود ہے۔

- کام ایسا ہو جو جسم، تخلیق، اور مزاج ہر اعتبار سے صنف نازک کے ساتھ میل رکھتا ہو، مثلاً: طب، نرسنگ، تدریس، سلائی کڑھائی وغیرہ۔

- ملازمت کی جگہ صرف خواتین کام کرتی ہوں، وہاں پر اجنبی لوگوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو۔

- کام کے دوران عورت شرعی حجاب کا مکمل اہتمام کرے۔

- کام کی وجہ سے بغیر محرم کے سفر کرنا نہ پڑے۔

- کام کیلیے جاتے ہوئے کسی حرام کام کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، مثلاً: ڈرائیور کے ساتھ تنہا سفر کرنا، اجنبی مردوں تک پہنچنے والی خوشبو لگانا وغیرہ۔

- ملازمت کی وجہ سے ضروری امور میں خلل پیدا نہ ہو، مثلاً: گھر کی دیکھ بھال، شوہر اور اولاد کی ضروریات وقت پر پوری کرنا۔

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"عورت کیلیے ملازمت کی جگہ ایسی ہونی چاہیے جہاں: صرف عورتیں ہی کام کریں، مثلاً: لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں کام کرے، چاہے وہاں پر کام ادارتی ہو یا فنی ، اپنے گھر میں رہتے ہوئے خواتین کے کپڑے وغیرہ سلائی کرے ، یا اسی طرح کا کوئی اور کام کرے۔

لہذا ایسی جگہیں جہاں پر مرد حضرات کام کرتے ہوں تو وہاں پر عورت کیلیے کام کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے مردوں کے ساتھ اختلاط لازم آئے گا، اور یہ بہت سنگین نوعیت کا فتنہ ہے جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے، یہ بات ذہن نشین کرنا بھی ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرے بعد مردوں کیلیے خواتین سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہو گا، بنی اسرائیل کی آزمائش بھی خواتین کے ذریعے ہوئی تھی) اس لیے گھر کے سربراہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فتنوں کی جگہوں اور فتنوں کے اسباب سے اپنے اہل خانہ کو بچا کر رکھے" انتہی
فتاوى المرأة المسلمة " ( 2 / 981 )

اگر یہ تمام شرائط آپ کے کام کرنے کی جگہ میں پائی جائیں تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو نیک رفیق حیات نصیب فرمائے، بیشک وہ اس پر قادر ہے اور وہی یہ کر سکتا ہے۔

واللہ اعلم.
مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے شرعی اصول و احکام ہوتے ہیں!!!
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
خواتین کی ملازمت کے حوالے سے سعودی علمائے کرام کا فتویٰ:

خاتون کیلیے گھر سے باہر ملازمت کرنے کے اصول


106815

سوال
میں انجنیئرنگ کالج کی طالبہ ہوں میری عمر 20 سال ہے، میں اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلیے گرمی کی چھٹیوں میں ایک لائبریری میں دستاویزات کی فوٹو کاپی کا کام کرتی ہوں، تو کیا اس سے مجھے گناہ ہو گا؟ واضح رہے کہ میں کام کے دوران نقاب لیکر رکھتی ہوں، اور مجھے بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید میرے کام کرنے کی وجہ سے کوئی دیندار رشتہ نہیں آتا۔

جواب کا متن

6742) کا مطالعہ کریں

دوم:

عورت کیلیے ملازمت کی خاطر گھر سے نکلنا جائز ہے، لیکن اس کے کچھ اصول و ضوابط ہیں اگر یہ موجود ہوں تو عورت کیلیے کام کی غرض سے باہر نکلنا جائز ہو گا، جیسے:

- عورت کو کام کرنے کی ضرورت ہو،اور اپنی ضروریات پوری کرنے کیلیے ملازمت کو آمدن کا ذریعہ بنائے، جیسے کہ آپ کی صورتحال میں موجود ہے۔

- کام ایسا ہو جو جسم، تخلیق، اور مزاج ہر اعتبار سے صنف نازک کے ساتھ میل رکھتا ہو، مثلاً: طب، نرسنگ، تدریس، سلائی کڑھائی وغیرہ۔

- ملازمت کی جگہ صرف خواتین کام کرتی ہوں، وہاں پر اجنبی لوگوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو۔

- کام کے دوران عورت شرعی حجاب کا مکمل اہتمام کرے۔

- کام کی وجہ سے بغیر محرم کے سفر کرنا نہ پڑے۔

- کام کیلیے جاتے ہوئے کسی حرام کام کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، مثلاً: ڈرائیور کے ساتھ تنہا سفر کرنا، اجنبی مردوں تک پہنچنے والی خوشبو لگانا وغیرہ۔

- ملازمت کی وجہ سے ضروری امور میں خلل پیدا نہ ہو، مثلاً: گھر کی دیکھ بھال، شوہر اور اولاد کی ضروریات وقت پر پوری کرنا۔

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"عورت کیلیے ملازمت کی جگہ ایسی ہونی چاہیے جہاں: صرف عورتیں ہی کام کریں، مثلاً: لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں کام کرے، چاہے وہاں پر کام ادارتی ہو یا فنی ، اپنے گھر میں رہتے ہوئے خواتین کے کپڑے وغیرہ سلائی کرے ، یا اسی طرح کا کوئی اور کام کرے۔

لہذا ایسی جگہیں جہاں پر مرد حضرات کام کرتے ہوں تو وہاں پر عورت کیلیے کام کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے مردوں کے ساتھ اختلاط لازم آئے گا، اور یہ بہت سنگین نوعیت کا فتنہ ہے جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے، یہ بات ذہن نشین کرنا بھی ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرے بعد مردوں کیلیے خواتین سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہو گا، بنی اسرائیل کی آزمائش بھی خواتین کے ذریعے ہوئی تھی) اس لیے گھر کے سربراہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فتنوں کی جگہوں اور فتنوں کے اسباب سے اپنے اہل خانہ کو بچا کر رکھے" انتہی
فتاوى المرأة المسلمة " ( 2 / 981 )

اگر یہ تمام شرائط آپ کے کام کرنے کی جگہ میں پائی جائیں تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو نیک رفیق حیات نصیب فرمائے، بیشک وہ اس پر قادر ہے اور وہی یہ کر سکتا ہے۔

واللہ اعلم.

معذرت لیکن مجھے کچھ یہ تاثر ملا تھا کہ آپ اپنے اس نکتے کے حق میں کوئی فتویٰ فراہم کرنے لگے ہیں کہ عورت کو شوہر کی اجازت ضروری ہے اور وہ اس امر کا فیصلہ اپنے طور پر نہیں کر سکتی۔

ہمارے دوسرے ساتھی یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر عورت اپنی زندگی کا یہ فیصلہ خود کرنے پر اصرار کرے تو کسی وجہ سے وہ مسلمان عورت کے بجائے دہریہ عورت ہو جاتی ہے۔
مسلمان بیویوں کی بات ہورہی ہے۔۔۔
دہریوں کی نہیں!!!

آپ نے جو فتویٰ فراہم کیا ہے، اس میں ایسا کوئی نکتہ نظر نہیں آ رہا۔ نہ مرد کی اجازت لازم ہونے والا اور نہ ہی عورت کے دہریہ ہو جانے والا۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے شرعی اصول و احکام ہوتے ہیں!!!
رسول اللہﷺ سے شادی سے قبل حضرت خدیجہ تجارت کرتی تھیں۔ آپﷺ کی بعثت کے بعد بھی یہ کام بدستور کرتی رہی۔ اسی طرح عرب معاشرہ میں دیگر خواتین اپنے خاوندوں کے شانہ بشانہ کام کرتی تھی۔ کہیں حکم نہیں ہوا کہ عورتیں اپنے شوہروں کی غلام بن کر رہیں۔ اینٹی خواتین شرعی اصول بہت بعد میں وضع کئے گئے ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
معذرت لیکن مجھے کچھ یہ تاثر ملا تھا کہ آپ اپنے اس نکتے کے حق میں کوئی فتویٰ فراہم کرنے لگے ہیں کہ عورت کو شوہر کی اجازت ضروری ہے اور وہ اس امر کا فیصلہ اپنے طور پر نہیں کر سکتی۔
بيوى كام كرنے كى رغب ركھتى ہے اور خاوند اسے منع كرتا ہے
22397

سوال
ميرا خاوند نہ تو مجھے ملازمت كرنے ديتا ہے، اور نہ ہى تعليم، ميرا خيال ہے كہ ميرے پاس وقت بھى فارغ ہے اور ميں يہ كام كرنے كى قدرت بھى ركھتى ہوں، تو كيا خاوند كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ مجھے ملازمت كرنے يا تعليم حاصل كرنے سے منع كرے، وہ ميرى بات نہيں سنتا جس كى بنا پر ميں اذيت سے دوچار ہوتى ہوں ؟
جواب کا متن

الحمد للہ :

خاوند اور بيوى دونوں پر واجب ہے كہ وہ اپنى ازدواجى زندگى كے سارے معاملات شريعت مطہرہ كے احكام كے مطابق بسر كريں، شريعت اسلاميہ نے جو حكم ديا ہے اس كى تنفيذ اور اسے تسليم كرنا واجب ہے، دنيا و آخرت ميں سعادت و راحت اور آرام كى يہى راہ ہے، جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:

اور اگر تم كسى چيز ميں تنازع كرو تو اسے اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، يہ انجام كے اعتبار سے بہتر اور اچھا ہے النساء ( 59 ).

بالخصوص عورت كى ملازمت اور گھر سے نكلنے كے متعلق ہم يہ كہيں گے كہ:

1 - اصل تو يہى ہے كہ عورت اپنے گھر ميں ہى رہے، اس كى دليل اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور تم اپنے گھروں ميں ٹكى رہو، اور قديم جاہليت كے زمانے كى طرح اپنے بناؤ سنگھار كا اظہار نہ كرو الاحزاب ( 33 ).

اگرچہ اس آيت ميں خطاب تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات كو ہے، ليكن اس حكم ميں مومنوں كى عورتيں ان كے تابع ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات كو خطاب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہاں ان كے شرف و مرتبہ كى بنا پر ہے، اور اس ليے بھى كہ وہ مومنوں كى عورتوں كے ليے نمونہ اور قدوہ ہيں.

اور اس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مندرجہ ذيل فرمان بھى دلالت كرتا ہے:

" عورت چھپى ہوئى چيز ہے، اور جب يہ نكلتى ہے تو شيطان اسے جھانكتا ہے، اور وہ اپنے گھر كى گہرائى ميں رہتے ہوئے اللہ تعالى كے زيادہ قريب ہے"

اسے ابن حبان اور ابن خزيمۃ نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 2688 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور مساجد ميں عورتوں كى نماز كے متعلق نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اور ان كے گھر ان كے ليے زيادہ بہتر ہيں"

سنن ابو داود حديث نمبر ( 567 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

2 - اگر مندرجہ ذيل اصول اور ضوابط پائے جائيں تو عورت كے ليے ملازمت اور پڑھانا جائز ہے:

- يہ كام اور ملازمت عورت كى طبيعت اور اس كى تكوين اور خلقت كے موافق ہو، مثلا طب، اور تيمار دارى، اور تدريس، اور سلائى كڑھائى وغيرہ.

- يہ كہ عورت كا كام صرف عورتوں كے متعلق ہى ہو، جس ميں مرد و عورت كا اختلاط نہ پايا جائے، لھذا عورت كے ليے مخلوط سكول جس ميں لڑكے اور لڑكياں اكٹھى تعليم حاصل كر رہے ہوں پڑھانا جائز نہيں ہے.

- عورت اپنے كام ميں شرعى پردے كا اہتمام كرے.

- اس كى ملازمت اور كام اسے بغير محرم سفر كرنے كى طرف نہ لے جاتا ہو.

- عورت كا كام كاج اور ملازمت كى طرف نكلتےہوئے كسى حرام كام كا ارتكاب نہ ہوتا ہو، مثلا ڈرائيور كے ساتھ خلوط، يا خوشبو لگانا جے اجنبى مرد سونگھيں.

- يہ كہ اس ملازمت اور كام ميں اپنے واجبات ميں سے كسى چيز كا ضياع نہ ہوتا ہو، مثلا گھر كى ديكھ بھال، اور اپنے خاوند اور اولاد كے كام وغيرہ كرنا.

3 - آپ نے ذكر كيا ہے كہ آپ ملازمت اور تدريس يا پڑھائى كي رغبت اور قدرت ركھتى ہيں، تو يہ ايك اچھى چيز ہے، شائد آپ اسے اللہ تعالى كى اطاعت ميں صرف كريں، وہ اس طرح كہ سابقہ اصولوں اور ضوابط كو سامنے ركھتے ہوئے اپنے گھر يا اسلامك سينٹر ميں آپ مسلمان لڑكيوں كو تعليم ديں، يا ايسا كام كريں جو آپ كو بھى اور آپ كے خاندان كو بھى فائد دے، مثلا سلائى كڑھائى وغيرہ كريں، جو آپ كے ليے فراغت اور اكتاہٹ كے احساس سے نكلنے كا باعث اور وسيلہ ہو گا.

اور اسى طرح آپ كے ليے يہ بھى ممكن ہے كہ آپ كسى اوپن اسلامى يونيورسٹى سے التحاق كرليں، جو آپ كو گھر بيٹھے تعليم حاصل كرنے كى سہولت دے، تا كہ آپ علم اور فقہ حاصل كر سكيں، اور اس كے ساتھ ساتھ اس ميں اللہ تعالى كے ہاں قدر و منزلت اور اجروثواب بھى حاصل ہو.

كيونكہ شرعى علم حاصل كرنے والے طالب علم كے ليے فرشتے اپنے پر پھيلاتے ہيں، اور عالم دين كے ليے آسمان و زمين ميں پائى جانے والى ہر چيز دعاء استغفار كرتى ہے، حتى كہ پانى ميں رہنے والى مچھلياں بھى، جيسا كہ ترمذى كى حديث نمبر ( 2682 ) اور سنن ابو داود كى حديث نمبر ( 3641 ) اور سنن نسائى كى حديث نمبر ( 158 ) اور سنن ابن ماجۃ كى حديث نمبر ( 223 ) ميں بيان ہوا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور اللہ تعالى سے دعا كرتى رہيں كہ وہ آپ كو نيك اور صالح اولاد عطا فرمائے، كيونكہ اس اولاد كى تربيت عورت كے ليے تو فارغ رہنے كا وقت ہى نہيں چھوڑتى، اور عورت كو يہ سب كچھ كرنے ميں الحمد للہ اللہ تعالى كى طرف سے اجر عظيم عطا كيا جاتا ہے.

اور يہ ياد ركھيں كہ معصيت و نافرمانى كے علاوہ ہر كام ميں خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى واجب ہے، تو اس بنا پر اگر خاوند اپنى بيوى كو كہتا ہے كہ وہ ملازمت يا پڑھائى كے ليے نہ جائے تو بيوى كو اس كى بات تسليم كرنى واجب ہے، اور اسى ميں اس كى سعادت اور كاميابى بھى ہے.

ابن حبان رحمہ اللہ تعالى نے اپنى صحيح ميں حديث نقل كى ہے كہ:

" جب عورت اپنى پانچوں نمازيں ادا كرے، اور رمضان كے روزے ركھے، اور اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے، اور اپنے خاوند كى اطاعت وفرمانبردارى كرے، تو اسے كہا جائے گا كہ تم جنت ميں جس دروازے سے بھى چاہو داخل ہو جاؤ"

اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 661 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور خاوند كو بھى يہ نہيں چاہيے كہ وہ اپنى بيوى كے شعور اور احساسات كو اذيت دينے، اور اس كى رائے كو دبانے، اور اس كى رغبات سے محروم كرنے ميں اس حق كو استعمال كرتا پھرے، بلكہ اسے بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈرنا چاہيے، اور اپنى بيوى سے مشاورت اور بات چيت كرنى چاہيے، اور بيوى كے ليے شرعى حكم بيان كرنا چاہيے، اور اس كے بدلے ايسے كام اور مواقع فراہم كرے جس سے اسے سعادت اور خوشى حاص ہو، اور اس كى قوت اور مہارت زيادہ ہو، اور اس كى رغبات بھى كچھ نہ كچھ پورى ہو سكيں.

ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ سب كو اپنے محبوب اور رضامندى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .
 

سید عمران

محفلین
رسول اللہﷺ سے شادی سے قبل حضرت خدیجہ تجارت کرتی تھیں۔ آپﷺ کی بعثت کے بعد بھی یہ کام بدستور کرتی رہی۔ اسی طرح عرب معاشرہ میں دیگر خواتین اپنے خاوندوں کے شانہ بشانہ کام کرتی تھی۔ کہیں حکم نہیں ہوا کہ عورتیں اپنے شوہروں کی غلام بن کر رہیں۔ اینٹی خواتین شرعی اصول بہت بعد میں وضع کئے گئے ہیں۔
تجارت میں اور دوسروں کی غلامی میں بہت فرق ہے...
آج تک مسلمان خواتین نے اپنے گھر کے سربراہ کی اطاعت کو غلامی نہیں کہا...
لیکن دہریوں کا عورتوں کو گھر سے باہر نکال پھینکنے کا فلسفہ یہ گل بھی کھلانے لگا...
دوسروں کی نوکری کا مسئلہ ایسا عذاب جاں ہوگیا کہ عورتوں کو اس مصیبت میں ڈالنے کے لیے گھر والوں سے بغاوت پر اکسایا جانے لگا...
عورت کو نوکری کے نام پر گھر سے نکال کر دوسروں کی غلامی میں دینے کا منہ کو لگا چسکا کہاں چھوٹے گا؟؟؟
کیا عورتوں کو گھروں سے نکالنے والوں نے مردوں کو حسب ضرورت ملازمتیں دے دیں یا عورت کو دوسروں کا غلام بنانے کے جھانسے میں وہی بے حیائی پھیلانے والا ذوق کارفرما ہے؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
رسول اللہﷺ سے شادی سے قبل حضرت خدیجہ تجارت کرتی تھیں۔ آپﷺ کی بعثت کے بعد بھی یہ کام بدستور کرتی رہی۔ اسی طرح عرب معاشرہ میں دیگر خواتین اپنے خاوندوں کے شانہ بشانہ کام کرتی تھی۔ کہیں حکم نہیں ہوا کہ عورتیں اپنے شوہروں کی غلام بن کر رہیں۔ اینٹی خواتین شرعی اصول بہت بعد میں وضع کئے گئے ہیں۔
اسی رسول کی بیبیوں کو اللہ تعالی نے واضح حکم دے دیا تھا:
و قرن فی بیوتکن
اپنے گھر میں جم کر بیٹھ جاؤ...
اس آیت پر عمل نہ دہریوں کے مرد کریں گے نہ ان کی عورتیں!!!
 
اسی رسول کی بیبیوں کو اللہ تعالی نے واضح حکم دے دیا تھا:
و قرن فی بیوتکن
اپنے گھر میں جم کر بیٹھ جاؤ...
اس آیت پر عمل نہ دہریوں کے مرد کریں گے نہ ان کی عورتیں!!!
عمران بھائی قرآن کو سب مسلمان اللہ کا کلام مانتے ہیں لیکن کیا تمام دنیا کے مسلمان اس کی تمام باتوں پر عمل کرتے ہیں؟ کیا عمل نہ کرنے کی وجہ سے آپ ان تمام مسلمانوں پر دہریئے مردوں اور عورتوں کا حکم نافذ کررہے ہیں؟ کیا آپ ایسا کہنے کے مجاز ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
اگرچہ اس آيت ميں خطاب تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات كو ہے، ليكن اس حكم ميں مومنوں كى عورتيں ان كے تابع ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات كو خطاب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہاں ان كے شرف و مرتبہ كى بنا پر ہے، اور اس ليے بھى كہ وہ مومنوں كى عورتوں كے ليے نمونہ اور قدوہ ہيں.
جو حکم الٰہی خصوصا رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات کیلئے اترا ہے وہ تمام مومنین کی ازواج پر لاگو نہیں ہوتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
عورت کو نوکری کے نام پر گھر سے نکال کر دوسروں کی غلامی میں دینے کا منہ کو لگا چسکا کہاں چھوٹے گا؟؟؟
کیا عورتوں کو گھروں سے نکالنے والوں نے مردوں کو حسب ضرورت ملازمتیں دے دیں یا عورت کو دوسروں کا غلام بنانے کے جھانسے میں وہی بے حیائی پھیلانے والا ذوق کارفرما ہے؟؟؟
اگر کوئی عورت اپنی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر مرد کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر کام کاج کرنا چاہتی ہے تو یہ آپ کے نزدیک بے حیائی پھیلانے والا ذوق ہے۔ ماشاءاللہ۔
 

محمد سعد

محفلین
عمران بھائی قرآن کو سب مسلمان اللہ کا کلام مانتے ہیں لیکن کیا تمام دنیا کے مسلمان اس کی تمام باتوں پر عمل کرتے ہیں؟ کیا عمل نہ کرنے کی وجہ سے آپ ان تمام مسلمانوں پر دہریئے مردوں اور عورتوں کا حکم نافذ کررہے ہیں؟ کیا آپ ایسا کہنے کے مجاز ہیں؟
دیسی معاشرے میں اس قسم کی سوچ کی الٹا حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسی رسول کی بیبیوں کو اللہ تعالی نے واضح حکم دے دیا تھا:
و قرن فی بیوتکن
اپنے گھر میں جم کر بیٹھ جاؤ...
اس آیت پر عمل نہ دہریوں کے مرد کریں گے نہ ان کی عورتیں!!!
حکم الٰہی رسول اللہ ﷺ کی بیبیوں کیلئے تھا۔ تمام مومنین کی بیبیوں کیلئے نہیں۔ احکام الٰہی کی اپنی من پسند تشریحات کرنے کا اختیار آپ کو کس نے دیا؟
 
Top