اسکین دستیاب آرائشِ محفل

صابرہ امین

لائبریرین
صفحہ 141 سے 145


ص141

کہنا تھا کہ اگر اس وقت وہ چور میرے پاس ہوتے تو یہ مال متاع میں ان کو بخش دیتا کہ پهر وہ محتاج نہ رہتے اور بندگان خدا کو ایذا نہ دیتے ۔
حاصل کلام اُس نے ایک جوڑا کپڑے کا اچھا سا اُس میں سے پہنا اور تھوڑا سا زر و جواہر اپنی جیب میں ڈال کر اُن چوروں کی تلاش میں روانہ ہوا اور دعائیں مانگتا تھا کہ الہٰی! اُس بڑھیا کو پھر مجھ سے ملا۔
تھوڑی ہی دور پہنچا ہوگا کہ وه بڑھيا برسر راه بہ حال تباه ، فقیروں کی سی صورت بنائے بیٹھی سوال کر رہی تھی کہ جانے والے بابا کچھ خیر کیے جا۔
یہ اس کو دیکھتے ہی دوڑا اور خوش ہو کر مثل گل کے کھل گیا اور مٹھی بھر روپے اشرفیاں جیب سے نکال کر اس کو دیے۱ اور اپنا قدم آگے رکھا۔ اُس نے وہ روپے لے لیے اور پھر اُسی صورت سے با آواز بلند کہا کہ " یکے دکے بٹو ہی کا راه باٹ میں خدا نگہبان ہے ۔“
اس آواز کو سن کر وے ہی ساتوں پهانسی گر پھر کسے کسائے ادهر اُدهر سے نکلے اور اس سے ملاقات کر کے کہنے لگے کہ اے جوان! تو کہاں جاتا ہے ؟
اُس نے ان کو پہچان کر کہا "اے عزیزو! میں تم سے ایک عرض رکھتا ہوں ، اگر تم قبول کرو تو کہوں ؟
انھوں نے کہا ” کیا کہتے ہو فرماؤ ۔“
حاتم نے کہا ” اگر تم سب توبہ کرو اور مردم آزاری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱- نسخہء مكتوبہ (صفحه ۱۱۱)” دیں ‘‘ -


ص142

سے ہاتھ اٹھاؤ تو میں اس قدر زر و جواہر دوں کہ وه تمهاری سات پیڑھی تک کام آوے۔
اُنھوں نے کہا کہ ہم تو پیٹ ہی کے واسطے اپنے اوپر عذاب لیتے ہیں ۔ اگر اتنا مال و اسباب پاویں تو پھر کیا دیوانے ہیں جو ایسی حرکت کریں بلکہ آج کی تاریخ سے عہد کرتے ہیں کہ جس کام سے خدا راضی نہ ہو، سو تمام عمر نہ کریں -
حاتم نے کہا کہ تم خدا کی طرف متوجہ ہو کر قول دو اور قسم بہ دل کھاؤ تو میں اتنا گنج و مال تمھیں دوں کہ نہال ہو جاؤ۔ یہ بات سن کر انھوں نے عرض کی کہ پہلے ہمیں دکھلا دو تو ہم توبہ کریں ۔
حاتم ان کا ہاتھ پکڑ کر اس کوئیں پر لے آیا اور اُس زر بے شمار کو دکھلا کر کہنے لگا کہ اب اسے لو اور اپنے وعدے کو وفا کرو۔
وے اس کو دیکھتے ہی نہایت خوش ہوئے اور ہاتھ باندھ کر یہ بات کہنے لگے کہ اب جو کہو سو کر یں ۔
حاتم نے کہا” تم سب اس طرح قسم کھاؤ کہ خدا دانا اور بینا ہے اورہر ایک کا احوال جانتا ہے ۔ اگر آج سے ہم کسی کا مال چراویں یا کسی پنچھی پردیسی کو ستاویں تو خدا کے غضب میں گرفتار ہوویں -
انھوں نے اسی طور سے قسم کھائی اور چوری سے توبہ کی ۔
حاتم نے وه زر و جواہر سب اُن کو بخشا اور راہ راست دکھلا کر جنگل کا رستہ ليا کہ ایک کتا جیب نکالے سامنے سے دکھلائی دیا ۔ اُس نے معلوم کیا کہ شاید اس صحرا میں کوئی


ص143




کاروان اُترا ہے اور یہ كتا اُسی قافلے کا ہے۔
جب وہ اس کے پاس آیا تب حاتم نے اس کو اپنی گود میں اُٹھا لیا اور پانی اس کے واسطے ادهر اُدھر ڈهونڈھنے لگا اور جی میں کہتا تھا کہ اس جنگل میں کوئی چشمہ ملے تو میں اس پیاسے کو خوب سا پانی پلاؤں ۔
اتنے میں ایک گاؤں دکھلائی دیا ۔ حاتم اس کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں کے لوگ گیہوں کی روٹیاں اور مٹها مسافروں کو دیتے تھے ، حاتم کے بھی آگے لے آئے ۔ اس نے وے روٹیاں اور چھاچھ لے کر کتے کے آگے رکھ دی ۔ کتے نے پیٹ بھر کر کھایا اور۱ حاتم اس کی طرف دیکھ کر کہتا تھا ، کیا خوش ترکیب اور کیا خوب صورت کتا ہے اور وہ اُس کے سامنے بیٹھا ہوا شکر خدا کر رہا تها ۔
اتنے میں حاتم شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور دل میں خدا کو یاد کرکے یوں کہنے ۲ کہ یہ تیری ہی قدرت ہے کہ اٹهاره ہزار عالم کو تو نے پیدا کیا اور ایک کی صورت سے دوسرے کی شکل کو ملنے نہ دیا ۔ اتنے میں ایک سخت سی چیز شاخ کی مانند اس کے ہاتھ میں لگی ۔ جب غور کرکے دیکھا تو ایک میخ آہنی نظر پڑی - ووں ہی وه میخ اُس کے سر سے نکال لی. وہ کتا ایک جوان خوش رو کی صورت ہو گیا ۔
حاتم متعجب ہو کر کہنے لگا کہ اے بندهء خدا ! یہ کیا بھید ہے اور تو کون ہے کہ پہلے تیری صورت حیوان کی تھی

ا - نسخہء مطبوعه بمبئ (ص ۸۴) ”پھر“ - نسخہء مكتوبہ (ص ۱۱۴) - نسخہء مكتوبہ (ص ۱۱۴)” کہے“


ص144

اور اُس میخ کے نکالتے ہی تو انسان ہو گیا ؟
اُس نے دیکھا کہ اس شخص نے مجھ پر احسان کیا ، اس سے اپنا احوال نہ چھپانا چاہیے ۔ اس بات کو سوچ کر اس کے پاؤں پر گر پڑا اور کہنے لگا ''اے مرد بزرگ ! میں بنی آدم ہوں ، تیری دست گری سے اپنی اصلی صورت پر آیا ۔“
حاتم نے کہا " یہ کیا سبب تھا کہ تیری صورت کتے کی بن گئی تھی ؟؟“
جوان نے کہا ” میں ایک سوداگر کا بیٹا ہوں - باپ میرا بہت سا مال و اسباب لے کر چین میں گیا تھا . وہاں سے کچھ ۱ مول لے کر خطا میں آیا اور اس کی فروخت سے بہت سا نفع اُٹهايا اور میرے تئیں بڑی دھوم سے بیاہ دیا ۔ کتنے روز جیا ، پھر شربت اجل پی کر مر گیا ۔ مال و اسباب ، زر و جواہر میرے ہاتھ لگا۔ میں ایک مدت تک اس کو بیچ بیچ کر عیش و عشرت کرتا رہا . جب وہ کم ہونے پر آیا ، تب میں خطا کا مال خرید کر کے شہر چین میں گیا اور خرید و فروخت کر کے پھر اپنے شہر کو روانہ ہوا۔ جب تک میں آؤں ، وہ عورت بد ذات جو باپ نے بیاہ دی تھی، پیچھے ایک غلام حبشی سے پچی هوگئ ۲ تھی اور یہ میخ لوہے کی جادوگروں سے پڑھوا کر اپنے پاس رکھ چھوڑی تھی ۔ جب میں گھر میں آپہنچا اور ایک دن غافل سوگیا ، اس نے فرصت پا کر یہ میخ میرے سر میں ٹھونک دی ۔ میں اُس کے لگتے ہی کتا ہو گیا ۔ اُس نے اُسی گھڑی دھتکار کر نکال دیا ۔ میں کان پھٹپٹهاتا هوا بازار میں آیا ۔ وہاں کے کتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ا- نسخہء مكتوبہ ( ص ۱۱۵) میں ” کچھ “ نہیں ہے ۔

۲ - نسخیء مكتوبہ (ص ۱۱۵ ) میں ” پچی ہو گئ “ اور نسخہء بمبئی (ص۵۸) میں ” بجھے تھی“



ص145


اجنبی جان کر بھونکنے لگے اور کتنے ہی دوڑے۔ اُن کی د ہشت سے آج تیسرا دن ہے کہ میں شہر چھوڑ کر اس جنگل میں بھوکا پیاسا پڑا پھرتا تھا ۔ آگے کیا کہوں ، بارے آج خدا نے اپنے فضل و کرم سے تجھے اس مکان پر بھیجا جو تو نے کھانا کھلایا ، پانی پلایا ، آدمی بنایا ۔
حاتم اس بات کے سنتے ہی سر بہ زانو ہوا اور کہنے لگا کہ اے عزیز! تیرا گھر کس شہر میں ہے ؟
اس نے کہا کہ اس جنگل سے تین روز کی راہ پر اور اس کو شہر سورت کہتے ہیں ۔

حاتم نے کہا کہ اس شہر میں تو حارث ۱ سوداگر بھی رہتا ہے اور اس کی بیٹی تین سوال رکھتی ہے ۔ اُسی ۲ لڑکی نے مجھے اس بات کی خبر کو بھیجا ہے کہ ” نہ کیا وہ کام میں نے جو آج کی رات کام آتا میرے ۔“
اُس نے کہا کہ صاحب ! یہ بات سچ ہے اور میں بھی اُسی شہرکا رہنے والا ہوں -
پھر حاتم نے کہا کہ اے بنده خدا ! تو اس میخ کو اپنے پاس رہنے دے. اگر تیرا جی بدلا لینے کو چاہے گا تو فرصت پا کر اپنی جورو کے سر میں گاڑ دينا ، وہ کتيا ہوجائے گی ۔
اسی ڈھب کی باتیں کرتے ہوئے وہ دونوں وہاں سےچل نکلے۔ تین روز کے عرصے میں اُس شہر میں داخل ہوئے اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ ”حارس" نسخہء مكتوبہ (ص ۱۱۶) ” حارث“ نسخہء مطبوعہ بمبئی (ص ۱۱۶)

۲۔ نسخہء مكتوبہ (ص ۱۱۶) ” اُس لڑکی نے اس بات
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۱

بٹھلایا۔ پھر آپ سر تا پا ایک عورت نازنین بن کر ارادہ ھم بستر ھونے کا کیا۔

اُس نے اس بات کو ھرگز نہ مانا اور کہا کہ میں ایک کام کے واسطے اپنے گھر کو تباہ کر کے یہاں تک پہنچا ھوں۔ تو راہ ھی میں راہ زنی کر کے چاھتی ھے کہ مجھ کو ٹھور رکھے۔ یہ مجھ سے کب ھو گا کہ تیرے ساتھ اس جگہ عیش کروں، مگر اس صورت پر کہ جس جگہ سے تو لائی ھے وھیں پہنچا دے، تو خیر میں بھی چند روز تیرے ساتھ اپنی صحبت گرم کروں اور تیرے دل کی بھی آرزو بخوبی بر لاؤں۔

اس نے اس بات کو قبول کر کے کہا کہ میں بعد تین روز کے تجھ کو جہاں سے لائی ھوں، وھاں پہنچا دوں گی۔ حاتم خوش ھوا اور بہ رغبت اس سے ملا۔

بعد تین روز کے اُسے کہا کہ اے مچھلی! اب اپنے وعدے کو تو بھی پورا کر۔

اُس نے اُس کا ھاتھ پکڑ کر پانی میں غوطہ مارا اور کنارے پر پہنچا دیا۔ پھر کہنےلگی "اے جوان رعنا! تو مجھ سے جدا کیوں ھوتا ہے؟"

حاتم نے کہا کہ مجھے ایک ایسا ھی کام ضروری ھے، نہیں تو میں تجھ سےکب جدا ھوتا اور اس چین کو چھوڑ کر یہ دکھ کیوں سہتا۔

اس بات کو سن کر وہ چلی گئی۔ اس نے وھاں اپنے کپڑے دھو کر سکھلائے اور رستہ پکڑا۔

بعد ایک مدت کے کسی ایسے پہاڑ پر جا پہنچا کہ جس پر ھزاروں درخت سرسبز طرح بہ طرح میوؤں سے لدے کوسوں


صفحہ ۹۲

تک لہلہاتے تھے اور سینکڑوں مکان عالی شان ستھرے (۱) چمکتے تھے۔ ھر ایک طرف آب جوئیں جاری اور ھر ایک سمت کو پھولی ھوئی پھلواری؛ جو مکان تھا سو (۲) ھوا دار۔ یہ تھکا ماندہ تو تھا ھی، وھاں جاتے ھی سو رھا کہ اتنے میں اُس مکان کا مالک آن پہنچا اور دیکھا کہ ایک جوان خوب صورت غافل سوتا ھے نزدیک اُس کے آ کر بیٹھ گیا۔

حاتم بعد دیر کے بیدار ھوا اور آنکھیں مل مل کر دیکھنے لگا تو ایک شخص اُس کے پاس بیٹھا نظر آیا۔ بہ مجرد اُس کے دیکھتے ھی گھبرا اپنی جگہ سے اُٹھا اور جھک کر سلام کیا۔ اُس نے پوچھ کہ تو کون ھے اور کہاں جائے گا اور اس جنگل میں کس کام کے واسطے آیا ھے؟

حاتم نے کہا کہ میں دشت ھویدا جو جاؤں گا۔ بہتر ھواکہ آپ کی بھی زیارت نصیب ھوئی۔ آگے جو مرضی اللہ کی۔

اُس نے کہا "اے جوان! اس خیال خام کو دل سے دور کر، کیوں جان گنواتا ھے؟ مجھ کو یہ افسوس ھے کہ کوئی تیرے آشناؤں میں ایسا دل سوز نہ تھا جو تجھ کو منع کرتا۔

اُس نے کہا "کچھ میں اپنی مراد کے واسطے نہیں جاتا ھوں۔ میں نے کمر عنداللہ ایک غیر کے واسطے باندھی ھے اور قدم جستجو راہ سعی میں رکھا ھے، آگے جو کرے حق تعالٰی، کہ منیر شامی خارزم کا شہ زادہ حسن بانو برزخ سوداگر کی بیٹی پر عاشق ھوا ھے اور وہ سات سوال رکھتی ھے۔ جو کوئی اُس کے ساتوں سوال پورے کرے گا، اُس کو قبول کرے گی اور وہ
--------------------------------------------------------------------------------
(۱) ستھرے ستھرے – نسخۂ مکتوبہ (ص ۵۹)
(۲) سو۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۵۹)


صفحہ ۹۳

شہ زادہ اُن کے جواب کا عہدہ برآنہ ھو سکا؛ تب اُس نے اپنے شہر میں نہ رھنے دیا۔ ناچار وہ وھاں سے نکلا، جنگلوں میں خراب پھرنے لگا ور بہ آواز بلند رونے۔ اسی صورت سے با حال تباہ میرے مکان میں آیا، مجھ سے ملاقات کی؛ میں نے احوال پوچھا، اُس نے اپنا ماجرا جو ابتدا سے تا انتہا قرار واقعی تھا، مفصل میرے سامنے ظاھر کیا۔ اُس وقت میرے جی میں یہ خیال گزرا کہ اس کا احوال پوچھنا اور اس کی مدد نہ کرنا یہ بات جواں مردی سے دور ھے، اس واسطے میں نے کمر سعی کی باندھی اور اس قدر مصیبت اپنے اُوپر لی۔"

اس بات کو سنتے ھی اس شخص نے کہا کہ معلکوم ھوا کہ تو حاتم بن طے ھے کیوں کہ سوائے اس کے اب اس زمانے میں کون ھے جو ایسا کام کرے اور غیر کے واسطے آپ آفت میں پڑے۔ خیر کچھ اندیشہ نہ کر، خداوند کریم و رحیم ھے، یہ مشکل آسان ھو گی۔ لیکن میرے جی میں یہ خطرہ ھے کہ آج تک کوئی دشت ھویدا سے پھر نہیں آیا اور اگر کوئی پھرا بھی ھے تو وہ آپ میں نہیں رھا۔ یہ نصیحت میری بہ دل یاد رکھ کہ جس وقت تو اُس دشت کے قریب پہنچے گا، تو تجھے ظلمات میں لے جاویں گے۔ تو چپکا چلا جانا، کسی جگہ زور کر کے اڑ نہیں رھنا اور جو پری پیکر تیر خواھش کرے، تو اس کی طرف ھرگز التفات نہ کرنا۔ پیچھے ان کے ایک ایسی نازنین مہ جبین آوے گی کہ جس کے دیکھتے ھی تیرا دل ھاتھ سے جاتا رھے گا اور بے اختیار ھو جائے گا، پر خدا کے واسطے کہیں استقلال نہ چھوڑنا اور اضطراب نہ کرنا۔ سچ تو یہ ھے کہ وہ جوں ھی تیر ھاتھ پکڑے گی ووں ھی دشت ھویدا میں جا پہنچے گا۔ اگر ایک ھفتے تک کچھ کام اُسے کہے گا تو


صفحہ ۹۴

دم مرگ تلک پشیمان رھے گا۔

وے اسی گفتگو میں تھے کہ ایک شخص نوجوان دو پیالے کھیر کے اور دو کوزے پانی کے اپنے ھاتوں پر دھرے غیب سے پیدا ھوا اور اُن کے آگے رکھ دیے۔ اور اُن دونوں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا اور سجدۂ شکر ادا کر کے وہ رات کاٹی۔ صبح کو حاتم اس سے رخصت ھو کر کسی جنگل کی طرف راھی ھوا۔

تھوڑے دنوں کے بعد ایک تالاب خوش قطع پر جا پہنچا اور اس کے کنارے بیٹھ کر پانی پینے لگا۔ اتنے میں ایک عورت حسین مہ جبین سر سے پاؤں تک ننگی پانی سے نکلی اور حاتم کا ھاتھ پکڑ کر پھر اُسی تالاب میں غوطہ مار چلی گئی۔ جوں ھی حاتم کا پاؤں زمین کی تہہ پر پہنچا، آنکھیں کھول کر جو دیکھا تو اپنے تئیں اور اُس نازنین کو ایک پھولے پھلے باغ عالی شان میں پایا، بھیچک (۱) رہ گیا۔ اور وہ اُس کا ھاتھ چھوڑ کر کسی طرف چلی گئی۔

وہ سیر کرتا ھوا ادھر اُدھر کا تماشا دیکھتا پھرتا تھا کہ ایک طرف سے ھزاروں پری پیکر غول باندھے، گلے میں باھیں ڈالے، سر سے پاؤں تک گہنے میں لدی ھوئیں، کسی طرف سے نکل آئیں اور حاتم کو زبردستی اپنی طرف کھینچنے لگیں۔ اُس نے ھرگز کسی کی طرف رغبت نہ کی اور نہ کسی کو سر اُٹھا کر دیکھا کہ یہ کون ھیں اور کیا کرتی ھیں، کیوں کہ کہنا اُس مرد کا اس کو یاد تھا۔ اور اپنے دل میں کہتا تھا کہ اے حاتم! کہیں ایسا نہ ھو کہ تیرے استقلال کا پاؤں ڈگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) بھیچک – نسخۂ مکتوبہ (ص ۶۲)۔


صفحہ ۹۵

اور تو خواہ نہ خواہ اُس مکر و فریب کے غار میں گرے، خبردار رہ کہ ظلمات یہی ھے۔

آخرکار وے بہ ھر صورت اس کو ایک ایسے مکان میں لے گئیں جو تمام جواھر و لعل و یاقوت ھی سے بنا تھا۔ لاکھوں ھی تصویریں ھر ایک سمت اس میں لگیں تھیں اور ایک تخت مرصع بھی ایک دالان خوش قطع میں نہایت تکلف سے بچھا تھا۔

جب وہ اُس تخت کے پاس پہنچا، تب وے سب کی سب بطور تصویر کے نقش بہ دیوار ھو گئیں۔ اور ھزاروں پریاں اُس محل کی دیوار سے نکلیں۔ وہ ھر ایک کی طرف حیرت سے دیکھتا تھا اور اپنے دل میں یہ کہتا تھا کہ الٰہی یہ کیا حکمت ھے! یہ کہاں سے آئیں اور سے کیوں نقش دیوار ھو گئیں؟ غرض اُس تخت کے پاس تو کھڑا ھی تھا۔ اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ اے حاتم! اگر تو یہاں تک پہنچا ھے تو اب اس تخت پر بھی بیٹھ۔ یہ سوچ کر جوں ھی اُس نے اُس پر پاؤں رکھا، ووں ھی اس میں سے ایک آواز تڑاق کی آئی۔ اُس نے معلوم کیا کہ شاید اس کا پایا ٹوٹ گیا۔ نیچے جھانکنے لگا تو اُس تخت کو جوں کا توں پایا۔ پھر اُس پر بیٹھ گیا۔ ووں ھی پھر اس میں سے ویسی ھی آواز آئی۔ ساتھ ھی اُس آواز کے وہ نازنین کہ جو سب سے خوب صورت اور قد و قامت میں بڑی تھی، سو نقش دیوار کی ھیئت کو چھوڑ کر حاتم کے پاس ناز و ادا سے چلی آئی۔ حاتم اس صورت سے اُس کو دیکھ کر حیران ھوا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ الٰہی! یہ تو ابھی بطور تصویر کے تھی، پھر کیوں کر اس ناز و کرشمے سے منہ پر نقاب ڈالے اس تخت کے آگے کھڑی ھوئی! اُسے دیکھتے ھی بے قرار ھو کر چاہتا تھا کہ اس کا گھونگھٹ کھول کر رخسار نازنین کا دید کرے


صفحہ ۹۶

کہ نصحیت اُس مرد کی یاد آئی۔ ووں ھی سنبھل گیا اور جی میں کہنے لگا، اگر میں اس کا ھاٹھ پکڑوں گا تو پھر قیامت تک اس ظلمات سے باھر نہ جاؤں گا۔ بارے تماشا دیکھا چاھیے کہ بہ میرا ھاتھ آپ سے پکڑتی ھے اور میں اس ظلمات سے باھر جاتا ھوں یا نہیں۔

غرض وہ اسی آرزو میں تین رات دن تک اُس تخت مرصع پر بیٹھا رھا۔ جب رات ھوتی تھی، تب ھر ایک مکان میں کافور کی شمیں خود بہ خود روشن ھو جاتی تھیں اور ھر ایک سمت سے گانے بجانے کی آواز چلی آتی تھی اور وہ صورتیں جو نقش دیوار تھیں، سو مجسم ہو کر ناچتی تھیں اور وہ نازنین تخت کے آگے کے میوے بھی حاتم کے حضور دھرے تھے۔ ھر چند وہ کھاتا تھا پر پیٹ نہ بھرتا تھا۔ تب حیران ھو کر کہتا تھا کہ الٰہی میں اتنا کچھ کھاتا ہوں، پر سیر نہیں ھوتا، یہ کیا سبب ھے؟

ندان اُس نازنین کا ھاتھ پکڑا۔ وھین ایک اور نازنین مہ جبین اُس تخت کے نیچے سے نکلی اور ایک لات اُس نے ایسی ماری کہ حاتم کہیں کا کہیں جا پڑا اور وھاں سر اُٹھا کر جو دیکھا تو نہ وہ نازنین نظر پڑی، نہ وہ تخت، نہ وہ باغ ھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) تخت و باغ – نسخۂ مکتوبہ (ص ۶۴)


صفحہ ۹۷

دکھلائی دیا، مگر ایک جنگل ایسا لق و دق سنسان نظر پڑا کہ جس کا اُور نہ چُھور؛ تب اس نے معلوم کیا کہ دشت ھویدا یہی ھے اور وہ شخص بھی یہیں ھو گا جو کہتا ھے کہ "ایک بار دیکھا ھے اور دوسری دفعہ دیکھنے کی ھوس ھے۔" پس اب اُسے ڈھونڈھیے۔

اسی خیال میں وہ ادھر اُدھر پھرتا تھا کہ اتنے میں یہ آواز اس کے کان میں کسی طرف سے پڑی کہ "ایک بار دیکھا ھے، دوسری دفعہ کی ھوس ھے۔" اور اُسی صورت سے دن میں تین مرتبہ وہ آواز سات روز تک متواتر اس کے کان میں آیا کی مگر آٹھویں روز شام کے وقت وہ صدا اُس کے کان میں پڑی، تب یہ اُسی طر دوڑا۔ کیا دیکھتا ھے کہ ایک شخص فقیر ریش سفید زمین پر بیٹھا ھے۔ یہ اُس کے آگے گیا اور سلام کیا۔ اس نے علیک السلام کہہ کرکہا "اے جوان خوش رو! کہاں سے آیا ھے تو اور اس جنگل میں کیا کام رکھتا ھے؟"

اُس نے کہا کہ میں اسی بات کا متلاشی ھو کر اپنے شہر سے نکلا ھوں کہ تم سے ایسا کیا دیکھا ھے کہ جس کے دیکھنے کی دوبارہ آرزو رکھتے ھو؟ بہر خدا کہو۔

اُس نے کہا کہ تم بیٹھو میں کہوں گا۔ اس بات کو سنتے ھی حاتم بیٹھ گیا۔

جب رات ھوئی، دو روٹیاں اور دو آب خورے پانی کے اُن کے آگے خود بہ خود آ رھے۔ ایک روٹی اور ایک آب خورہ پانی اُس نے حاتم کو دیا، دوسرا حصہ آپ لیا۔ غرض دونوں نے
-------------------------------------------------------------------------------------
(۱) نسخۂ مطبوعہ بمبئی ۱۸۴۵ء میں "دوڑا گیا" اور نسخہ مکتوبہ ( ص ۶۵) میں "دوڑا – کیا" ھے۔


صفحہ ۹۸

روٹیاں کھائیں، پانی پیا۔ جب کھا پی چکے تب حاتم نے کہا کہ اے بندۂ خدا! اب کہہ؟

اُس نے کہا کہ اے مسافر شہر غریب! میں کسی روز سیر کرتا ھوا ایک تالاب خوش قطع پر جا نکلا اور اس کے کنارے بیٹھ کر تماشا دیکھنے لگا۔ اتنے میں ایک عورت نازنین شکیلہ، سر سے پاؤں تک ننگی، اُسی تالات سے نکلی اور میرا ھاتھ پکڑ کر اُس میں لے گئی۔ میں نے تہہ پر جا کر جو آنکھٰن کھول کے دیکھا تو ایک باغ نہایت دل چسپ (۱) و عجیب و غریب نظر پڑا اور بہت سی عورتیں خوب صورت (۲) ھر ایک طرف سے نکلیں اور میرا ھاتھ پکڑ کر ایک تخت مرصع کےپاس لے گئیں۔ میں اس پر بیٹھ کر تماشا دیکھنے لگا کہ ایک نازنین ماہ جبین ‘منہ پر نقاب ڈالےھوئے اُس تخت کے پاس آ کر کھڑی ھوئی۔ دیکھتے ھی اس کے میں غش کر گیا اور دل میرا میرے ھاتھ سے جاتا رھا۔ آکر قرار ھو کر جو برقع اُٹھا کے میں نے اُس کا مکھڑا دیکھا تو عجب حس خدا داد دکھائی (۳) دیا۔ میں نے جوں ھی ھاتھ پکڑ کر اس کو اپنی طرف کھینچا، ووں ھی ایک اور عورت حسین اُس تخت کے نیچے سے نکلی اور ایک لات اُس نے ایسی ماری کہ میں اُس مکان مطبوع سے ان جنگل ویران میں آ پڑا۔ وہ عشرت کدہ نظروں سے غائب ھو گیا۔ اُسی دن سے اب میں آٹھوں پہر سوائے گریہ و زاری کے کچھ کام نہیں رکھتا اور چاھتا ھوں کہ اُسے اپنے دل سے بھلاؤں پر (۴) ھر گز
------------------------------------------------------------------------------------
(۱) دلچسپ عجیب – نسخۂ مکتوبہ (ص ۶۶)
(۲) خوب صورت خوب صورت – نسخۂ مکتوبہ (ص ۶۶)
(۳) دکھلائی – نسخۂ مکتوبہ (ص ۶۶)
(۴) وہ – نسخۂ مکتوبہ (ص ۶۷)


صفحہ ۹۹

فراموش نہیں ھوتی۔ یہ کہہ کر اس نے ایک نعرہ مارا اور آہ سرد بھر کر بگولے کی طرح خاک بسر اُس جنگل میں دوڑنے لگا اور یہی کہنےکہ "ایک بار دیکھا ھے، دوسری دفعہ کی ھوس ہے۔"

تب حاتم نے معلوم کیا کہ یہ عاشق ھے۔ کہا کہ اے پیر مرد! اس تماشے کو دوبارہ دیکھے تو کچھ خوش ھو؟

اُس نے کہا کہ اے مسافر! یہ بات محال ھے، اگرچہ :

فرد

شب کو کرتا ھوں دعا میں خاک پر نت رکھ جبین
دے ملا دل ہر کو مجھ سے جامع المتفرقین

پر کچھ اثر نہیں دیکھتا۔

تب حاتم نے کہا "اے پیر مرد! تو میرے ساتھ آ، وہ جلسہ میں تجھ کو دکھاؤں (۱) گا۔

اس سخن کو سن کر وہ حاتم کےھم راہ ھوا۔ بعد چند روزکے وہ دونوں ایک درخت کے تلے جو متصل اُس تالاب کے تھا، جا پہلچے۔ حاتم نے کہا "اے بزرگ! اگر اُس نازنین کو ھمیشہ دیکھا چاہتا ھے تو کبھی اس ھاتھ نہ پکڑنا اور برقع اس کے منہ کا ھرگز نہ اُلٹنا، وہ تمام عمر تیرے آگے ھاتھ باندھے کھڑی رھے گی اور اگر اس کا ھاتھ پکڑے گا تو پھر اپئے تئیں اُسی جنگل میں دیکھے گا، پھر اُس مکان میں قیامت تک نہ جا سکے گا اور میں جو اس جگہ آیا ھوں تو یہ ایک بزرگ کی دست گیری سے (۲) ھے ورنہ میں اس جگہ آتا؟ یہ میرا
--------------------------------------------------------------------------------------
(۱) دکھلاؤں گا۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۶۷)
(۲) سے – نسخۂ مکتوبہ (ص ۶۸) میں نہیں ھے۔

صفحہ ۱۰۰

کیا مقدور تھا۔ پس اب تو جا، آگے وھی تالاب ھے۔

اس بات کر سنتے ھی وہ عاشق زار اس تالاب پر پہنچا کہ اتنے میں ایک عورت ننگی اُس پانی سے نکلی اور اُس کا ھاتھ پکڑ کر پھر اُس میں لے گئی۔ اور حاتم شاہ آباد کی طرف روانہ ھوا۔

بعد ایک مدت کے آفتیں کھینچتا اور مصیبتیں اُٹھاتا اُس فقیر کے پاس آیا اور اُس سےمل جل کر وھاں سے بھی روانہ ھوا۔

پھر تھوڑے سے دنوں میں اُس مچھلی کے گھر پہنچا اور ایک مہینے تک وھیں رھا۔

پھر وھاں سے رخصت ھو کر خرسوں کے جنگل میں گیا اور خرس کی لڑکی سےملاقات کی۔ دو مہینے اس کے پاس بھی رہا۔

پھر اُس سے جدا ھو کر دونوں گیدڑوں کے پاس آیا، ان کو دیکھ بھال کر چند روز میں شاہ آباد جا پہنچا۔

حسن بانو (۱) کے لوگ اُس کو ھاتوں ھاتھ اُس کی حویلی تک لے گئے اور حسن بانو سے عرض کی کہ حاتم صحیح سلامت آیا ھے۔ اُس نے سنتے ھی اُسے بلوا کر پردے کے پاس بیٹھلایا اور پوچھا کہ کیا (۲) خبر لایا ھے؟ کہہ –

اُس نے کہا کہ ایک پیر مرد ظلمات میں ایک عورت نازنین پر عاشق ھو کر جنگل میں آ پڑا تھا اور پکارتا پھرتا تھا کہ "ایک بار دیکھا میں نے، دوسری مرتبہ دیکھنے (۳) کی
----------------------------------------------------------------------------------------
(۱) نسخۂ مکتوبہ (ص ۶۹) میں صرف "بانو" ھے۔ اس سے پہلے بھی دو ایک جگہ "بانو" لکھا ھے۔
(۲) "کیا" نسخہ مکتوبہ (ص ۶۹) میں نہیں۔
(۳) ‘دیکھنے‘ نسخہ مکتوبہ (ص ۶۹) میں نہیں ھے۔


صفحہ ۱۰۱

ھوس ھے۔" پھر میں نے اُس کو اُس کی معشوقہ تک پہنچا دیا۔ اب وہ آواز اُس جنگل سے نہیں آتی۔

اس احوال کو سن کر حسن بانو نے اور اُس دانی نے حاتم کی ھمت اور محنت پر آفرین کی؛ پھر اُس نے کہا کہ اے حسن بانو! اب دوسرے شرط کا بیان کر کہ میں اس کی بھی سعی کروں اور ڈھونڈھ نکالوں۔

اُس نے نہایت رحم دلی اور مہربانی سے کہا کہ اے حاتم! تو بہت سے دکھ سہہ کر آیا ھے، قدرے دم لے اور چند روزآرام کر۔

حاتم نے کہا کہ آرام تو مجھے اُسی روز ھو گا جس روز خدا کے فضل سے تیرے ساتوں سوال پورے کر دوں گا۔

یہ کہہ کر اُٹھ کھڑا ھوا اور کارواں سرائے میں جا کر آٹھ روز تک منیر شامی شہزادے کے پاس رھا۔ تمام ماجرا اپنااس کے آگے ظاھر کیا۔ پھر نویں دن حسن بانو سے جا کر کہا کہ تیر دوسرا سوال کیا ھے؟ خدا کے واسطے جلد کہہ؟


صفحہ ۱۰۲

دوسرا سوال

حاتم کے جانے کا اور اس شخص کے دروازے کے نوشتے کی خبر لانے کا

حسن بانو نے کہا کہ دوسر اسوال یہ ھے کہ ایک شخص نے اپنے دروازے پر لکھ کر لگا دیا ھے کہ "نیکی کر اور دریا میں ڈال۔" آیا یہ کیا بھید ھے؟ اور اس نے ایسی کیا نیکیکی ہے؟ اس کی خبر لا۔

اس سخن کے سنتے ھی حاتم اُٹھ کھڑا ھوا اور حسن بانو سے پوچھنے لگا کہ وہ شخص کون ھے اور کس طرف کو رہتا ھے؟

حسن بانو نے کہا کہ میں نے اپنی دائی سے سنا ھے کہ اُس کی جگہ اُتر کی طرف ھے۔

بس اتنی ھی بات دریافت کر کے وھاں سے توکل بہ خدا چل نکلا۔

بعد ایک مدت کے کسی جنگل ھیبت ناک میں جا پہنچا اور شام کے وقت ایک درخت کے نیچے چپکا ھو کر بیٹھ رھا کہ اتنے میں ایک آواز سوز ناک درد آلودہ ساتھ آہ و زاری کے، کسی طرف سے اُس کےکان میں ایسی پڑی کہ جس کے سنتے ھی آنکھوں میں آنسو بھرلایا اور کلیجا جلنے لگا۔ بے اختیار اپنے جی میں کہہ اُٹھا کہ اے حاتم! یہ بات جواں مردی سے دور ھے


صفحہ ۱۰۳

کہ ایک شخص، بندۂ خدا کسی آفت میں گرفتار ھو کر روئے، تو اس کی آواز (۱) سن کر مدد نہ کرے اور اُس کا احوال نہ پوچھے۔

اس کلام (۲) کو دل میں ٹھہرا کر اُس وقت اُس طرف کا رستہ پکڑا۔ تھوڑی دور گیا ھو گا کہ اُس جگہ جا پہنچا کہ جہاں سے رونے کی آواز آتی تھی۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک جوان خوب صورت سطح خاک پر بیٹھا، گوھر اشک چشمۂ چشم سے گل رخسار نازنین پر بہا رھا ھے اور آھیں پر سوز بھر بھر یہ قطعہ پڑھتا ھے:

جاوں میں کہا ور کہوں کس سے عزیزو
ٹک سوچو تمھیں میرے دل زار کا احوال
جو مجھ پہ گزرتی ھے رقم کر نہیں سکتا
اور کہہ بھی نہیں سکتا زباں ھے گی مری لال

حاتم نے کہا "اے جوان درد مند! ایسی کیا تجھ پر مشکل پڑی ھے جو تو انتا حیران و پریشان ھے؟"

اس نے کہا "اے مسافر! میں سوداگر ھوں۔ اور یہاں سے بارہ کوس پر ایک شہر عالی شان ھے، وھاں حارس نام ایک سوداگر نہایت عمدہ و مال دار رھتا ھے اور ایک لڑکی بھی پری پیکر رشت قمر رکھتا ھے۔ اتفاقاً ایک دن میں کسی طرف سے پھرتا پھرتا کچھ مال سوداگری کا لے کر اُس شہر میں جا نکلا۔ حارس کی حویلی کے نیچے مارے دھوپ کے بیٹھ گیا۔
---------------------------------------------------------------------------------------------
(۱) کر – نسخۂ مکتوبہ (ص ۷۱) میں ھے۔ نسخۂ مطبوعہ بمبئی میں نہیں ھے۔
(۲) ‘سخن‘ نسخۂ مکتوبہ (ص ۷۱)۔


صفحہ ۱۰۴

یکایک نظر میری کوٹھے کی طرف جو گئی تو ایک عورت نازنین مہ جبین نظر آئی۔ حالت میری تباہ ھو گئی؛ تب اپس شہر کے لوگوں سے پوچھا میں نے "یہ کون ھے اور یہ کس کی حویلی (۱) ھے؟" انھوں نے کہا کہ یہ محل حارس کی بیٹی کا ھے اور وہ بڑا مال دار ھے۔ میں نے پھر اُن سے کہا کہ یہ لڑکی شوھر رکھتی ھے یا نہیں؟ انھوں نے کہا کہ اس کا باپ اس کا بیاہ نہیں کر سکتا اور اس کا کچھ اس بات میں بس نہیں چلتا۔ یہ لڑکی اپنی شادی کرنےمیں آپ مختار ھے تین سوال رکھتی ھے۔ جو کوئی اس کےسوال پورے کرے گا، اسی سے بیاہ کرے گی۔ اس بات کے سنتے ھی اس کی ڈیوڑھی پر گیا۔ دربان نے خبر کی۔ اس نے مجھے اندر بلوا لیا اور ایک فرش پاکیزہ پر بٹھلا کر کہلا بھیجا کہ اگر تو عہد و پیمان پر قائم رھے تو اپنے سوالوں سے تجھے آگاہ کروں؟ میں نے کہا کہ فرمائیے، دل و جان سے قبول کیا۔ اُس نے کہا "اگر کہنا میرا کرے گا تو میں تیری ھی ھو کر رھوں گی اور جو یہ بھید نہ کھولے گا تو تجھے اپنا ھی جانوں گی۔ؔ میں نے اس کو قبول کیا اور قول دیا؛ تب اس نے کہا :

پہلا سوال یہ ھے میرا کہ قریب اس شہر کے ایک غار ھے، وھاں آج تک کوئی نہیں گیا اور معلوم نہیں کہ اس کی انتہا کہاں تک ھے۔ دوسرا یہ ھے (۲) کہ شب جمعہ کو ایک آواز جنگل سے آتی ھےکہ "نہ کیا وہ کام میں نے جو آج کی شب کام آتا میرے۔" تیسرا یہ ھےکہ وہ مہرہ جو سانپ کی پیٹھ پر
--------------------------------------------------------------------------------------
(۱) نسخۂ مکتوبہ (ص ۷۲) میں "حویلی کس کی" ھے۔
(۲) "ھے" نسخہ مکتوبہ (ص ۷۳) میں نہیں۔


صفحہ ۱۰۵

ھے، اس کو مجھے لا دیوے (۱)۔

اس بات کو سنتے ھی اور بھی رھے سہے حواس میرے گم ھو گئے۔ میں نے ٹک ایک پاؤں کھینچا۔ اُس نے دست ظلم سے میرا مال و اسباب و زر و جواھر لوٹ لیا اور مجھ کو بھی اپنے شہر سے نکال دیا۔ میں لابار ھو کر اس جنگل میں آ پڑا۔ ایک تو مال گیا دوسرے رسوا ھوا، تیسرے عشق کے تیر نے کلیجہ چھلنی کر ڈال؛ ھم راھیوں نے ساتھ چھوڑ دیا، میں فقیر ھو گیا

حاتم نے کہا کہ تو خاطر جمع رکھ، مجھے اُس شہر میں لے چل کہ میں تیرا اسباب بھی تجھے دلوا دوں اور معشوقہ سے بھی ملا دوں۔

اُس نے کہا"اے عزیا! میں زر و جواھر کا خیال نہیں کرتا، اگر وہ ھاتھ لگے اس واسطے کہ کہتےھیں، دیکھنا یار کے دیدار کا دولت بے شمار ھے۔

حاتم اُس گرفتا عشق کو اپنے ساتھلے کر شہر میں آیا اور کارواں سرائے میں اُترا۔ سوداگر کو وھاں بیٹھلا کر آپ اس کے دروازے پر گیا ور کہنے لگا کہ میں بیاہ کرنےکو آیا ھوں۔

خبر داروں نے جا کر کہا کہ ایک شخص تجھ سے بیاہ کرنےکو آیا ھے۔ اُس نے اس بات کے سنتے ھی پردہ ڈال کر حاتم کو گھر میں بلوا لیا اور جو عہد و پیمان اُس ے لینے تھے سو لیے۔ بعد اس کے حاتم نے کہا کہ (۲) تو حارس سوداگر کی بیٹی ھے۔
------------------------------------------------------------------------------------
(۱) دے – نسخۂ مکتوبہ (ص ۷۳)
(۲) ‘کہ‘ نسخۂ مکتوبہ (ص ۷۴) میں نہیں۔

صفحہ ۱۰۶

اگر وہ اس بات پر ھاتھ مارے اور اقرار کرے تو میں اس کی سعی میں کمر باندھوں۔ جس روز فضل خدا سے یہ کام کر چکوں، اُس روز میں تیرا مختار ھوں، جس کو چاھوں اس کو دے ڈالوں۔

اُس نے کہا کہ بہت بہتر

حاتم نے کہا کہ اب تو اپنے باپ کو بلوا۔

اُس نے حارس کو بلوا لیا۔ حاتم نے یہ احوال اسے کہا کہ اس نے بھی اس بات کومانا۔ پھر حاتم نے اس لڑکی سے کہا کہ اب اپنا سوال ظاھر کر۔

اُس نے کہا کہ اس شہر کے نزدیک ایک غار ھے۔ تمام زن و مرد اس شہر کے جانتے ھیں۔ تو اس کی خبر لا کہ وہ کتنا گہرا ھے اور کتنا لانبا؟ کہاں تلک ھے اور اُس میں کیا ھے؟

اس سخن کے سنتےھی حاتم وھاں سے رخصت ھوا۔ کتنے لوگ بھی شہر کے اُس کے ستھ آئے اور اُس غار کو دکھلا کر چلے گئے۔

حاتم اس میں کود پڑا۔ ایک رات اور ایک دن غلطان و پیچاں چلا گیا۔ بعد ایک عرصے کے روشنی نمود ھوئی؛ تب حاتم نے معلوم کیا کہ اب یہ غار تمام ھوا، بس اب یہاں سے پھریے؛ اتنے میں اُس کو یہ خیال گزرا کہ اگر کوئی اس کی حقیقت پوچھے تو میں کیا جواب دوں گا؟ یہ سمجھ کر آگے بڑھا۔

تھوڑی دور جا کر ایک میدان وسیع پاکیزہ اس کے نظر پڑا اور ایک تالاب اس میں اچھا خاصا، صاف ستھرا، پانی سے بھرا اُسے دکھلائی دیا۔ حاتم اپنےساتھ ایک صراحی پانی کی اور


صفحہ ۱۰۷

تھوڑے سے بادام بھی رکھتا تھا۔ کبھی کبھی دو تین بادام کھا لیتا تھا اور ایک آدھ گھونٹ پان (۱) پی لیتا اور رات دن چلا ھی جاتا۔ ندان پانی نبڑ گیا؛ تب اُس نے تالاب کا پانی پیااور صراحی کو (۲) بھر کر آگے کا رستہ لیا۔

سامنے سے ایک دیوار ایسی نظر پڑی کہ جس کو بہ یک نگاہ اپنی پگڑی تھام کر دیکھے تو بھی اُس کے پشتے تک نہ پہنچے اور طائر خیال بھی اس کی طولانی قیامت تک طے نہ کر سکے۔ یہ آگے بڑھا اور اُس دیوار کے پاس جا کر جو دیکھا، ایک دروازہ نظر آیا، یہ اندر گھس گیا۔

وھاں ایک بستی نظر پڑی۔ جب نزدیک پہنچا، تب ھزاروں دیو دوڑے اور چاھا کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا جاویں؛ اتنے میں ایک نے انھیں میں سے کہا کہ اے یار!یہ آدمی ھے، اس کو تم مت مارو کیوں کہ گوشت اس کا نہایت لذیذ ھوتا ھے۔ اگر تم اس کو کھاؤ گے اور یہ خبر کوئی بادشاہ تک پہنچائے گا، تو پھر تم سبھوں کو مروا ڈالے گا۔ چاھیے یوں کہ اسے یہاں نہ چھیڑو بلکہ بادشاہ کے پاس لے چلو۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ ایسا دشمن ھمارا کون ھی جو بادشاہ سے کہے گا؟

اُس نے کہا یہ کیا کہتے ھو۔ اپنی ھی صورتوں میں
-----------------------------------------------------------------------------------
(۱) پانی بھی۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۷۵) – نسخۂ مطبوعہ بمبئی میں ‘بھی‘ نہیں۔
(۲) کو بھی – نسخۂ مکتوبہ (ص ۷۵) نسخۂ مطبوعہ بمبئی میں ‘بھی‘ نہیں۔


صفحہ ۱۰۸

مدعی بہت سے ھیں، یہ بات میری یاد رھے۔ بہتر یہی ھے کہ تم سب کے سب اُس سے دست بردار ھو۔ اس بات کو سن کر وے ڈرے اور اُس کو چھوڑ کر اپنے اپنے گھر چلے گئے۔

حاتمنے اُس جگہ سے پاؤں بڑھایا اور ایک طرف کا رستہ پکڑا۔ اتنے میں اُسے ایک گاؤں نظر پڑا۔ اُس نے معلوم کیا شاید یہ بستی آدمیوں سے آباد ہو گی۔ اس گمان پر آگے گیا تو بہت سے دیووں نے آ کر ھر ایک طرف سے گھیر لیا اور قصد اس کے کھانےکا کیا۔ اُن میں سے بھی ایک دیو نے کہا کہ اس کو تم نہ کھاؤ بلکہ جیتا ھی بادشاہ کے پاس پہنچاؤ کیوں کہ اُس کی بیٹی نہایت بیمار ھے۔ شاید اس آدمی کے ھاتھ سے اچھی ھو۔

اُنھوں نےکہا کہ یہ کیا کہتا ھے، ھم تو سینکڑوں آدمیوں کو لےلے گئے اور شرمندہ ھوئے۔ اب ھمیں ایسی کیا ضرور (۱) ھے جو لے جاویں۔ یہ تو ملک بادشاھی آ ھی پہنچا ھے، اب کہاں جا سکتا ھے؟ یقین ھے کہ کوئی نہ کوئی اس کو بادشاہ تک پہنچا ھی رہے گا۔

حاتم وھاں سے بھی آگے بڑھا اور ایک موضع دوسرا اس کے نظر پڑا۔ وھاں کے دیو اس کو پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گئے۔ اس سردار کے قبیلے کی آنکھیں دکھتی تھیں اور پانی آٹھوں پہر جاری تھا۔ سردار اس کے غم سے سر جھکائے بیٹھا تھا۔ اس نے حاتم کو دیکھتےھی سر اُٹھا کر اُن کو کہا کہ تم کیوں اپنے باپ کو لائے ھو؟ چلو دور ھو میرے سامنے سے اور اسے چھوڑ دو۔ یہ مختار ھے، جہاں چاھے وھاں چلا جائے۔
------------------------------------------------------------------
(۱) ضرور، بہ معنی ضرورت


صفحہ ۱۰۹

حاتم نے جو اُسے غم میں گرفتار دیکھا تو پوچھا کہ اے دیو! تجھے کس بات کا غم ھے۔

اُس نے کہا کہ بھائی میری بی بی کی آنکھیں دکھتی ھیں، اُسی فکر میں میں نے رات دن کا سونا اور چین اور آرام چھوڑ دیا ھے۔

اُس نے کہا کہ تو خاطر جمع رکھ، میں تیری جورو کی آنکھیں اچھی کروں گا۔

اس بات کے سنتے ھی وہ دیو اپنی جگہ سے اُٹھا اور اس کا ھاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گیا اور اپنی جورو کے پاس بٹھلا کر کہنے لگا کہ اے شخص! اگر تیری دوا سے یہ اچھی ھووے گی تو جب تک جیتی رھے گی، تب تک تیری احسان مند رھے گی اور میں بھی اپنی بساط کے موافق کچھ نہ کچھ خدمت کروں گا۔

اس بات کو سن کر حاتم نے کہا اُس سے "بہ شرطے کہ تو اس سخن کو میرے قبول کرے کہ جب تیری بی بی کو میں اچھا کروں، تب تو مجھے اپنے بادشاہ کے پاس لے جاوے اور تعریف میری حکمت کی اُس کے سامنے کرے تو میں اُس کو دوا دوں اور اچھا کروں۔"

اُس دیو نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی قسم کھا کر کہا کہ بہت اچھا۔ اگر یہ تیری تدبیر سے اچھی ہو گئی تو میں تجھے دربار بادشاھی میں لے چلوں گا اور بادشاہ کی ملازمت کروا دوں گا۔

حاتم نے ایک مہرہ اپنی پگڑی سے کھولا اور پانی میں رگڑ کر اس کی آنکھوں میں لگا دیا۔ اُس نے وھیں شفا پائی اور اسی گھڑی درد جاتا رھا۔ اُسی صورت سے اُس نے دو تین بار


صفحہ ۱۱۰

لگایا، وہ کٹورا سی کھل گئیں اور پانی بند ھو گیا۔ دیوؤں کا سردار بہت خوش ھوا اور خدمت اس کی بہت سی کی۔

بعد چند روز کے اس کو اپنے ساتھ بادشاہ کے پاس لے گیا اور تعریف اُس کی کر کے عرض کرنے لگا کہ خداوند! یہ شخص دانائے دھر ھے اور حکمت میں یکتائے عصر؛ چناں چہ میرے قبیلے کی آنکھیں کئی برس سے دکھتی تھیں، اس نے ایک پل میں اچھی کیں۔

اس احوال کو دریافت کر کے بادشاہ نے (جو اس کا نام فروقاش تھا) اُس پر بہت سی مہربانی کر کے کہا کہ اے شخص مسافر! میں آزار شکم رکھتا ھوں اور میری قوم سے کوئی میری دوا نہ کر سکا۔ اگر تیرے ھاتھ سے شفا پاؤں تو میں بھی احسان مند رھوں۔

حاتم نے کہا "جس وقت تم کھانا کھاتے ھو، اس وقت تمہارے پاس کس قدر امیر و اُمرا جمع ھوتے ہیں؟"

اُس نے کہا کہ جتنے چھوٹے بڑے ھیں، سب کے سب حاضر رھتے ھیں۔

حاتم نے کہا "آج اُس وت میں میں بھی حاضر رھوں"

وہ بولا کہ بہت اچھا۔

اتنے میں ایک دسترخوان وسیع بچھا اور طرح بہ طرح کے کھانے اس پر چنے گئے۔ بادشاہ چاھتا تھا کہ اس پر ھاتھ ڈالے اور کچھ تناول کرے کہ اتنے میں حاتم نے کہا کہ اے بادشاہ! ذرا ٹھہر جا۔

وہ رک رھا، تب اُس نے ایک قاب سے سرپوش اُٹھایا اور اس کو سب اھالی موالی کو دکھلا کر پھر اُسی طرح سے
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 36 آرائشِ محفل صفحہ 1

اللہ اکبر
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

الٰہی دے مجھے روشن بیانی
دل تال دل پر کھلے راز نہانی
زباں کو مخزن تقریر کر دے
دھن کو گوھر معنی سے بھر دے
کمیتِ خامہ کو میرے لگا پر
مجھے بحر معانی تک رسا کر
پلا دے مجھ کو جام ارغوانی
کہ جس سے طے ھو حاتم کی کہانی
کہیں سن کر اسے فصحاے اردو
کہ ھے یہ گوھر دریاے اردو

یہ قصہ عبارت فارسی میں زبان سلیس سے کسی شخص نے آگے لکھا تھا، اب اس سید حیدر بخش متخلص بہ حیدری دلی کے رھنے والے نے حکومت میں امیر والا تدبیر، پشت پناہ ھر پیر و جواں، دستگیر درماندگان و بے کساں، نوشیروان وقت، ھمایوں بخت، زبدۂ نوئینان عظیم الشان، مشیر خاص شاہ کیوان بارگاہ انگلستان مارکویس ولزلی گورنر جنرل بہادر دام افضالہ کی بہ موجب حکم خداوند خدایگان والا شان، عالی خاندان جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام اقبالہ کے سنہ بارہ سو سولہ ھجری مطابق اٹھارہ سو ایک عیسوی، موافق سنہ جلوس تینتالیس شاہ عالم بادشاہ غازی کے زبان ریختہ میں موافق اپنی طبع کے اس کتاب سے (جو ھاتھ لگی تھی) ترجمہ نثر میں کیا اور نام اس کا "آرائش محفل" رکھا؛ پر اکثر اس میں زیادتیاں اپنی طبیعت سے بھی جہاں جہاں موقع اور مناسب پایا، وھاں کیں تاکہ قصہ طولانی ھو جائے اور سننے والوں کو خوش آئے۔
------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 37 آرائشِ محفل صفحہ 2

لکھنے والے نے یوں لکھا ھے کہ اگلے زمانے میں طے نام یمن کا بادشاہ تھا، نہایت صاحب حشم و عالی جاہ؛ فوج افواج کی طرف سے فرخندہ حال، زر و جواھر سے مالا مال؛ رعیت اس کی ھیژدہ ھزار اور سپاہ بے شمار۔ القصہ اپنے چچا کی بیٹی کو نکاح میں لا کر امیدوار ثمر جاودانی کا ھوا۔
بارے خدا کے فضل سے کتنے دنوں میں اسی بیگم سے ایک لڑکا مہر لقا پیدا ھوا۔ یہ خبر فرحت اثر سن کر اس نے حکیموں، منجموں، رمّالوں، ندیموں، پنڈتوں کو بلوا کر کہا کہ تم اپنی اپنی عقل کی رسائی اور پوتھی اور قرعے کے رو سے دریافت کرو اور بچارو؛ دیکھو تو اس لڑکے کے نصیب کیسے؟
انھوں نے جو دریافت کیا تو ھر ایک طرح سے اس شہ زادے کو صاحب اقبال ھی پایا اور کہ ا کہ خداوندا! ھم کو تو اپنے علم سے یوں معلوم ھوتا ھے کہ یہ صاحب زادہ ھفت اقلیم کا بادشاہ ھو گا اور تمام عمر کار برائے خدا ھی کیا کرے گا اور نام اس کا مانند مہر سپہر کے تاقیامت دنیا میں جلوہ گر رھے گا۔
اس بات کو سن کر اسے نہایت خوشی حاصل ھوئی اور سجدۂ شکر ادا کر کے ان لوگوں کو زر بے شمار سے مالا مال کر دیا اور اس لڑکے کا نام حاتم رکھ کر اپنے مصاحبوں سے یہ بات کہی کہ تم جلد اس بات کا اشتہار دو کہ میرے قلم رو میں آج کے دن جس شخص کے یہاں لڑکا پیدا ھوا ھے، وہ لڑکا آج ھی کی تاریخ سے نوکر بادشاھی ھے، بلکہ ماں باپ اس کے محل مبارک میں ھی پہنچائے جائیں؛ وہ پرورش بھی یہیں ھو رھے گا۔ چنانچہ اس روز اس کے ملک میں چھ ھزار لڑکے پیدا ھوئے تھے۔
----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 38 آرائشِ محفل صفحہ 3

یہ حکم سنتے ھی ھر ایک کے ماں باپ اپنا اپنا لڑکا حضور اعلیٰ میں پہنچا گئے۔
بنا بر اس کے چھ ھزار دائیاں نوکر رکھی گئیں اور ایک ایک لڑکے پر تقسیم ھو گئیں؛ چار دائیاں حاتم کے واسطے مقرر ھوئیں۔ وہ کس کس طرح سے اس کو تھپکیاں اور لوریاں دے دے کر چمکارتیاں تھیں کہ یہ کسی طرح سے دودھ پیے پر وہ ھر گز آنکھیں نہ کھولتا تھا اور نہ کسی کی چھاتی منہ میں لیتا تھا۔
چنانچہ یہ خبر بھی بادشاہ تک پہنچی۔ وہ اس بات کے سنتے ھی نہایت متفکر ھوا اور اپنے اھل کاروں سے کہنے لگا کہ تم جلد ان سیانوں کو بلواؤ۔
غرض وے آئے اور عرض کرنے لگے کہ جہاں پناہ! یہ حاتم زمانہ ھو گا، تنہا دودھ نہ پیے گا۔ پہلے ان کو پلوا لے گا تو پیچھے آپ پیے گا اور جب تک جیتا رھے گا، تب تک تنہا نہ کھائے گا نہ پیے گا۔
حاصل کلام جب وہ لڑکے پی چکے تب اس نے بھی پیا۔ اور ابتداے عمر سے نہ روتا، نہ اکیلے کھاتا اور نہ غفلت کی نیند سے سوتا۔
جب دودھ چھڑایا گیا، تب انھیں چھ ھزار لڑکوں کے ساتھ کھانا پینا مقرر کیا۔ حق تو یہ ھے جس غریب 1 غربا بھوکے پیاسے، ننگے کو دیکھتا روپیہ پیسہ، کپڑا لتا، دانہ پانی بے دیے دلائے نہ رھتا اور رات دن دینے دلانے میں مشغول رھتا۔
فضل خدا سے چودہ برس کا ھوا۔ جو زر و جواھر باپ نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ غریب و غربا (ص 4 مکتوبہ)
----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 39 آرائشِ محفل صفحہ 4

جمع کیا تھا، سو راہ 1 میں خدا کی خرچ کرنے لگا۔ جب شکار گاہ میں جاتا اور کوئی جانور نظر آتا تو جیتا ھی پکڑتا اور چھوڑ دیتا اور کبھی کسی کو سخت و سست نہ کہتا۔
فضل الٰہی سے حسن بھی ایسا رکھتا تھا کہ جس زن و مرد نے دیکھا سو ھزار جان سے عاشق ھوا اور اگر کوئی سرِ سواری بھی فریاد کرتا تھا تو یہ گھوڑے کی باگ تھام لیتا اور اسے داد کو پہنچا دیتا، اور جو نہ مانتا اس کو میٹھی میٹھی باتوں سے سمجھا دیتا تھا اور کبھی ظلم و ستم کا روادار نہ ھوتا؛ نہ اپنے کی حمایت کرتا، نہ بیگانے کی مامی پیتا۔
بارے فضل الٰہی سے تھوڑے ھی دنوں میں سبزہ جوانی کا رخسار نازنین پر لہکا۔ حسن دونا چمکا تو ھر ایک شخص کو یوں نصیحت کرنے لگا کہ بندگان خدا سبھی مخلوق ھیں؛ قدرت خالق دیکھیے کہ اس نے اپنی صنعت خدا وندی سے اٹھارہ ھزار عالم کو پیدا کیا ھے۔ اس کی سیر کیجیے اور سجدۂ شکر بجا لائیے اور اپنی اپنی زندگی کو ساتھ جواں مردی و دلیری و نام آوری کے بسر کیے جائیے۔ چنانچہ شہرہ حسن و خلق و دلیری و سخاوت کا اس کے ھر ایک شہر و قصبے میں 2 پہنچا۔ جس جس نے سنا اس اس کے منہ سے لفظ مرحبا بے اختیار نکلا۔ اور اکثر اس کو دیکھنے کو آتے تھے اور مسرور ھو ھو کر اپنے اپنے گھر چلے 3 جاتے تھے۔
اتفاقاً ایک دن وہ کسی جنگل میں شکار کھیلنے گیا کہ اتنے میں ایک شیر غراتا ھوا سامنے سے نظر آیا۔ یہ اندیشہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ یہ راہ مولا میں۔ (ص 4 مکتوبہ)
2۔ بہ خوبی پہنچا۔ (ص 5 مکتوبہ)
3۔ چلے۔ نسخۂ مکتوبہ (ص 5) میں نہیں۔
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 40 آرائشِ محفل صفحہ 5

کر کے اپنی جی میں کہنے لگا کہ اگر خنجر مارتا ھوں تو یہ حیوان بے زبان زخمی ھوتا ھے یا مارا ھی پڑتا ھے اور اگر چھوڑ دیتا ھوں تو میں جان سے جاتا ھوں؛ یقین ھے کہ یہ لپکے اور مجھے کھا جاوے۔ ان دونوں مشکلوں پر نظر کر کے یہ خیال کیا کہ اگر یہ میرا گوشت کھا کر منہ 1 تازہ کرے تو اس بات سے اور کون سی بات بہتر ھے، تجھ کو ثواب ھو گا اور اس کا پیٹ بھرے گا۔
اس بات کو سوچ کر اس کے آگے گیا اور کہنے لگا کہ اے شیرِ صحرائی؟ میرا گوشت اور میرے گھوڑے کا گوشت حاضر ھے؛ جس کے گوشت کو بہ خوبی چاھتا ھو، اس کے گوشت کو کھا اور اپنا پیٹ بھر کر جہاں چاھے وھاں چلا جا۔
یہ بات سنتے ھی وہ اپنا سر جھکا کر حاتم کے قدموں پر گر پڑا اور اپنی آنکھیں اس کے تلووں سے ملنے لگا۔ حاتم نے کہا کہ اے شیر خدا! یہ حاتم کی ھمت سے دور ھے جو تو بھوکا جاوے۔ اگر مجھ کو نہیں کھاتا تو میرا گھوڑا موجود ھے، اسی کو کھا اور اپنے جنگل کو چلا جا۔
وہ ھر گز نہ بولا اور اپنا سر جھکا کر چلا گیا۔
حاصل کلام یہ اپنے شہر میں معہ 2 اپنے ھم جولیوں کے رھا کرتا تھا اور کار خلق اللہ براے خدا ھی کیا کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ منوا۔ (نسخۂ مکتوبہ ص 5)
2۔ مع۔ (نسخۂ مکوبہ ص 5)
----------------------------------------------------------------------
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 166 آرائشِ محفل صفحہ 131

سچ کہو تم میں سے ایسا کون ھے جو وھاں جاوے اور اس درخت کا پانی لاوے؟"
اس سخن کے سنتے ھی وے سب کے سب کان پر ھاتھ دھر گئے اور سر جھکا کر عرض کرنے لگے کہ جہاں پناہ! اس کی راہ نہایت پر خطر ھے اور بہت سے اس میں دیو داؤ 1 بھوت پلید رھتے ھیں۔ وھاں ھم میں سے کوئی نہیں جا سکتا کیوں کہ وے کافر بڑے زبردست ھیں۔ ھم کو جیتا نہ چھوڑیں گے آگے جو حکم ھو سو کریں۔
اتنے میں حسنا پری اٹھی اور ھاتھ باندھ کر عرض کرنے لگی کہ اگر خداوند میرا گناہ معاف کریں اور اس انسان کو مجھے بخشیں تو میں جاؤں اور اس درخت کا پانی لاؤں؟
بادشاہ نے کہا "تیرا گناہ تجھے بخشا اور وہ سرحد تیرے باپ کو دی اور اس آدمی کا بھی وھی مختار ھے۔"
حاتم بولا "اے حسنا پری! اگر تو چاھے کہ تمام عمر مجھے اپنے پاس رکھے، سو تو نہ ھو سکے گا مگر اس بات کا اقرار کرے کہ جب تک میرا جی چاھے تب تک رھوں اور جب چاھوں تب چلا جاؤں تو مضایقہ نہیں۔"
حسنا پری نے کہا "اے جوان! مجھ کو بھی تجھ سے کچھ اور کام نہیں، پر اتنا ھے کہ چند روز تیری صحبت سے اپنی مجلس گرم رکھوں اور سیر ھو کر تیرے باغ حسن کی سیر کروں، پھر تو مختار ھے، جدھر چاھنا ادھر جانا، کوئی تیرا لاگو نہ ھو گا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ نسخہ مکتوبہ (ص 138) "دیوواں۔" نسخہ مطبوعہ بمبئی (ص 102) میں "دیودانؤں" ھے۔
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 167 آرائشِ محفل صفحہ 132

حاتم نے کہا کہ اس بات کو میں نے بہ دل و جان قبول کیا۔ اب جلدی کر۔
تب حسنا پری کتنی پریوں کو ساتھ لے کر روانہ ھوئی۔ چالیس دن کے بعد ظلمات میں جا پہنچی۔ کیا دیکھتی ھے کہ ایک درخت عظیم الشان ھے کہ اس کی پھنک آسمان تک پہنچی ھے اور اس سے قطرے پانی کے ٹپکتے ھیں۔
حسنا پری نے ایک شیشہ اس کے نیچے رکھ دیا، کتنی ایک دیر میں پانی سے بھر گیا، تب یہ اس کا منہ باندھ کر وھاں سے لے اڑی۔ اتنے میں خلقاش دیو کا چوکی دار جو ھزار دیووں سے اس درخت کا نگہبان تھا، آ پہنچا۔ حسنا پری نہایت چست و چالاک تھی، بھاگی اور اس کے ھاتھ نہ لگی۔
چالیس روز کےک عرصے میں حضور اقدس میں آ پہنچی اور آداب بجا لا کر عرض کرنے لگی "خداوند! آپ کے اقبال سے یہ لونڈی اس درخت کا پانی لے آئی اور اس کے چوکی داروں کے بھی ھاتھ نہ لگی۔"
یہ کہہ کر شیشے کو بادشاہ کے آگے رکھ دیا کہ یہ چند قطرے پانی کے حاضر ھیں، اور راہ کے صدمے بھی ظاھر کیے۔ بادشاہ نے مہربانی سے حسنا پری کو گلے لگا لیا اور شیشہ پانی کا حاتم کے حوالے کیا۔
اس نے فی الفور اس مہرے کو رگڑ کر اس کی آنکھوں میں لگا دیا اور پٹی سے سات روز تک باندھ رکھا۔ آٹھویں دن جو پٹی اس کی آنکھویں سے کھولی تو آنکھیں ایسی دیکھیں کہ جیسی ماں کے پیٹ سے لے کر نکلا تھا۔
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 168 آرائشِ محفل صفحہ 133

جو ھی شاہ زادے نے اپنے باپ کا دیدار دیکھا، نہایت خوش وقت ھوا اور حاتم کے پاؤں پر گر پڑا۔ اس نے اس کو گلے لگا کر خدا کا شکر کیا۔
تب ماہ پری بادشاہ نے احسان مند ھو کر اتنا زر و جواھر اس کے آگے رکھا جس کا کچھ شمار نہیں کیا جاتا۔ حاتم نے کہا "اے بادشاہ! غریبوں کے پشت پناہ! اس قدر یہ زر و جواھر میں تنہا کیا کروں گا اور کہاں لے جاؤں گا۔ ھاں اگر پری زادوں کے ھاتھ اس کو فروقاش بادشاہ کے پاس بھجوا دو تو یقین ھے کہ وہ میری سرحد میں بھجوا دے گا یا میرے ھی ساتھ کر دیجیو۔"
تب بادشاہ نے اپنے پری زادوں کو کہا کہ جب یہ جوان اپنے شہر کی طرف روانہ ھو، تم اس مال و اسباب کو اس کے ساتھ لے جائیو۔ پھر حاتم نے عرض کی "اے شہنشاہ گیتی پناہ! یہ جو کچھ عنایت ھوا ھے، سو آپ کا تفضلات ھے لیکن امیدوار اس بات کا ھوں جو دینے کا کہا تھا سو عنایت ھو۔
بادشاہ نے کہا "کیا مانگتا ھے مانگ؟"
حاتم نے کہا کہ یہ مہرہ جو آپ کے ھاتھ میں ھے، اگر میری آرزو پوری کرنی منظور ھے تو بخشیو۔
اس بات کے سنتے ھی بادشاہ نے سر نیچے کر لیا اور کہا "معلوم ھوا شاید یہ مہرہ حارث سوداگر کی بیٹی نے تجھ سے مانگا 1 ھے اور میں نے بھی تجھ سے اقرار کیا ھے، لاچار ھوں۔" یہ کہہ کر شاہ مہرہ حاتم کو دیا اور کہا "اے جوان! جب تو یہ مہرہ اس کو دے گا، میں اُس 2 پاس رھنے نہ دوں گا، کسی نہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ نسخۂ مکتوبہ (ص 141) "منگوایا۔"
2۔ نسخۂ مکتوبہ (ص 141) "اس کے۔"
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 169 آرائشِ محفل صفحہ 134

کسی ڈھب سے منگوا لوں۔"
حاتم نے التماس کیا کہ جب عاشق کا مطلب حاسل ھو چکے، پھر آپ مختار ھیں۔
غرض حاتم نے اس کو لے کر اپنے بازو پر خوب مضبوط کر کے باندھا کہ جتنے گنج اور دفینے زمین میں گڑے ھوئے تھے نظر آنے لگے۔ تب اس نے اپنے جی میں کہا کہ ھاں حارث سوداگر کی بیٹی نے اسی واسطے یہ مہرہ تجھ سے منگوایا ھے۔
القصہ بادشاہ سے رخصت ھوا۔ تب بادشاہ نے اپنے عیاروں نظر بازون سے کہا کہ جس وقت حارث کی بیٹی کا بیاہ ھو چکے اس مہرے کو اس کے ھاتھ سے کسی گھات سے لے آئیو۔
حاتم وھاں سے حسنا پری کے گھر آیا اور تھوڑے دن عیش و عشرت کر کے اس سے رخصت ھوا۔ تب وے پری زاد زر و جواھر لے کر اس کے ھمراہ ھوئے اور فروقاش کی سرحک تک پہنچا کر کر رخصت ھوئے اور وہ دیو جو حاتم کے ساتھ آئے تھے، دیکھتے ھی کو کو دوڑے اور شاد ھوئے۔ پھر مال و متاع سمیت ایک تخت پر بیٹھلا کر چند روز میں فروقاش کے پاس لے گئے۔ وہ اتھ کر بغل گیر ھوا اور بہت سی تواضع کر کے آفرین کی۔
شب کی شب حاتم وھاں مہمان رھا، صبح کو رخصت ھو کر غار کی راہ سے سورت میں آ پہنچا۔ دیووں کو وہ زر و جواھر بخش کر رخصت کیا؛ پھر آپ حارث سوداگر کی بیٹی کے گھر آیا اور شاہ مہرہ اس کے حوالے کیا۔ وہ اس کو دیکھتے ھی نہایت خوش ھوئی اور کہنے لگی۔ "اے جوان! اب میں تیری ھوں، جو چاھے سو کر۔"
---------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 170 آرائشِ محفل صفحہ 135

حاتم نے کہا "اے ساقی ناز! میرا مقصد یہ نہیں ھے کہ تیری شراب وصال پیوں مگر وہ جوان جو ایک مدت سے اس شراب کا پیاسا ھے، اس کو پلاؤں گا، تو بھی قبول کر۔"
اس نے کہا کہ میں تیرے بس میں ھوں، تو مختار ھے، جو کچھ کہے گا وھی بجا لاؤں گی۔
ووں ھی حاتم نے اس کے باپ کو بلوا کر اس سوداگر بچے کا ھاتھ اس کے ھاتھ میں پکڑا دیا اور یہ کہا کہ اسے اپنے فرزند سمجھو۔ اس نے اسی وقت بیاہ کی تیاری کی اور اپنی بیٹی کو اس کے ساتھ بیاہ دیا۔
بعد دس دن کے وہ مہرہ اس لڑکی کے ھاتھ سے غائب ھو گیا، وہ رونے پیٹنے لگی۔ تب حاتم نے اس کو دلاسا تسلی دے کر کہا "میں نے تیرے شوھر کو اتنا زر و جواھر دیا ھے کہ وہ سات پشت تک وفا کرے گا۔ اتنا کیوں بلبلاتی ھے۔
غرض اس طرح کی کئی باتیں کر کے حاتم وھاں سے رخصت ھوا اور حسن بانو کے سوال کے جواب 1 کی فکر میں چلا۔
بعد کئی دن کے منزلیں طے کرتا ھوا 2 اور آفتیں سخت اٹھاتا کسی دریا کے کنارے جا پہنچا اور وھاں ایک محل عالی شان لائق بادشاھوں کے اس کے نظر پڑا اور اس کے دروازے پر خط جلی سے 3 لکھا دیکھا کہ "نیکی کر اور دریا میں ڈال۔" یہ اس نوشتے کو پڑھ کر نہایت خوش ھوا اور سجدۂ شکر ادا کر کے کہنے لگا "الحمدللہ! اب میں اپنی مراد کو پہنچا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ نسخۂ مکتوبہ (ص 143) "سوال جواب۔"
2۔ نسخۂ مکتوبہ (ص 143) "ھوا" نہیں۔
3۔ نسخۂ مکتوبہ (ص 143) "یہ لکھا۔"
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 171 آرائشِ محفل صفحہ 136

قدرے آگے بڑھا تو بہت سے شخص بطور خواصوں کے اس محل سے نکلے اور حاتم کو اندر لے گئے۔
وھاں جا کر وہ کیا دیکھتا ھے کہ ایک سو برس کا بوڑھا مرد، نورانی صورت تخت پاکیزہ پر بیٹھا ھے۔ حاتم کو دیکھتے ھی اٹھا اور گلے لگا کر اپنے تخت پر بتھا لیا اور کھانے طرح بہ طرح کے منگوا کر کھلائے۔
جب حاتم نے کھانے پینے سے فراغت پائی، پوچھا کہ آپ نے اپنے در دولت پر یہ کیوں لکھ رکھا ھے؟
اس نے کہا کہ میں راہ زن تھا۔ راتوں کو مسافروں کا مال لوٹتا تھا اور تمام دن مزدوری میں کاٹتا تھا۔ آخر روز دو روٹیاں گھی سے چوپڑ کر، شکر ان پر ڈال دریا میں پھینک دیتا اور کہتا کہ یہ کام خدا کے واسطے کر ھوں۔ ایک مدت یوں ھی گزر گئی کہ ایک دن بیمار ھوا، گویا جان اس حالت میں بدن سے نکل گئی۔ کیا دیکھتا ھوں کہ ایک شخص میرا ھاتھ پکڑ کر دوزخ کو دکھلاتا ھے اور کہتا ھے کہ تیری جگی یہی ھے۔ غرض قریب تھا کہ مجھ کو دوزخ میں ڈال دیں، دو فرشتے مرد صورت آگے آئے، میرا بازو پکڑ کر کہنے لگے کہ اس کو ھم دوزخ میں نہ جانے دیں گے اور اس کی جگہ دوزخ نہیں ھے بلکہ یہ بہشت میں جائے گا۔ چنانچہ وے مجھ کو بہشت کی طرف لے گئے، کہ ایک بزرگ اٹھ کھڑا ھوا اور کہنے لگا کہ اس کو کیوں لائے ھو؟ ھنوز اس کی عمر کے دو سو برس باقی ھیں۔ اس کا ھم نام ایک اور شخص ھے، اس کو لے آؤ۔ یہ بات سن کر پھر وھی دونوں جوان مجھ کو یہاں پہنچا گئے اور کہنے لگے
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 172 آرائشِ محفل صفحہ 137

کہ ھم دونوں وھی دو روٹیاں ھیں جو خدا کے واسطے تو دریا میں ڈالتا تھا۔ اتنے میں کچھ چتیا۔ تب اٹھ کھڑا ھوا اور خدا کی درگاہ میں مناجات کرنے لگا کہ الٰہی تو غفورالرحیم ھے اور میں بندہ گنہگار ھوں، بخش دے مجھ کو، توبہ کرتا ھوں میں اور رزق مجھے ھر حال میں تو ھی خزانۂ غیب سے پہنچاوے گا۔
جب صبح ھوئی تو موافق معمول کے دو روٹیاں ڈالنے گیا کہ یکایک سو دینار پانی سے نکل پڑے۔ میں نے ان کو اٹھا لیا اور شہر میں ڈھنڈورا پٹوا دیا کہ اگر کسی کا مال دریا میں گر پڑا ھو تو مجھ سے لے۔ کسی نے اس بات کا جواب نہ دیا۔
پھر بدستور سابق میں دریا پر گیا، اسی طرح دینار نکل پڑے، ان کو بھی لا کر رکھ چھوڑا۔
اسی طرح سے دن گزرا اور رات ھوئی، تو کیا خواب میں دیکھتا ھوں کہ ایک شخص کہتا ھے "اے بندۂ خدا! وہ دو روٹیاں تیری شفیع ھوئیھیں۔ خداے کریم نے حکم کیا ھے کہ سو دینار تیرے تئیں ھر روز ملا کریں، تو ان میں سے کچھ خدا کی راہ میں خرچ کر اور باقی سے اپنی اوقات کاٹ۔
اتنے میں میری آنکھ کھل گئی، سجدۂ شکر بجا لایا۔ پھر یہ عمارت میں نے بنائی اور اس کے دروازے پر یہ کلمہ لکھ دیا۔ اب بھی اسی طرح سے مجھے سو دینار پہنچتے ھیں۔ میں مسافروں اور فقیروں کو دیتا ھوں اور کھانا کھلاتا ھوں اور یاد الٰہی میں مشغول رھتا ھوں۔ اب سو برس میری عمر کے باقی ھیں اور اس عمارت کو بنے سو برس ھوئے ھیں۔ اے عزیز! جب سے مجھ پر یقین ھوا کہ خداے کریم نے گناہ بخشے، اور اتنی عمر عطا کی اور رزق بے منت پہچانے لگا، تب سے میں خوش و خرم رھتا
-----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 173 آرائشِ محفل صفحہ 138

ھوں اور کسی طرح اندیشہ نہیں کرتا، ایسی ھدایت سب کے نصیب کرے۔
اس بات کو سن کر حاتم نے خدا کی درگاہ میں سجدۂ شکر ادا کیا اور تین روز اس کے پاس رھا؛ چوتھے دن اس بزرگ سے رخصت ھو کر شاہ آباد کی طرف چلا۔
بعد تھوڑے دنوں کے ایک جنگل میں جا پہنچا۔ وھاں کیا دیکھتا ھے کہ ایک کالا سانپ کسی خوش رنگ سانپ سے ایک درخت نیچے لڑ رھا ھے اور قریب ھے کہ کالا اس کو مار ڈالے۔ یہ اس کی حالت کو دیکھ کر دوڑا اور للکار کر کہنے لگا کہ اے موذی! خبردار کیا کرتا ھے؟
اس آواز کو سن کر وہ ڈرا اور اس سے جدا ھو کر چلا گیا۔ وہ غریب بھاگنے کی تاب نہ رکھتا تھا، اسی درخت کے نیچے ٹھہر گیا اور ادھر ادھر بطور وحشت زدوں کے دیکھنے لگا۔
حاتم نے کہا "اے سانپ! تو اپنی خاطر جمع رکھ۔ جب تک تو بحال نہ ھو گا تب تک میں یہیں رھوں گا اور کہیں نہ جاؤں گا۔"
بارے ایک آدھ گھڑی کے بعد توانا ھوا اور اس درخت پر چڑھ کر آدمی کی صورت ھو کے حاتم کو جھک جھک کر سلام کرنے لگا۔ اس حالت کو دیکھ کر حاتم متعجب ھوا اور خیال کرنے گا کہ یہ کیا اسرار ھے! اتنےمیں اس سانپ نے کہا کہ اے عزیز! تو تعجب مت کر، میں جن کی قوم سے ھوں اور اس شہر کا بادشاہ میرے باپ کا غلام ھے۔ ایک مدت سے یہ ناحق میری جان کا دشمن ھوا ھے، آج قابو پا کر مارا چاھتا تھا کہ حق تعالیٰ نے تجھ کو میری حفاظت کے واسطے بھیجا جو اس
----------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 174 آرائشِ محفل صفحہ 139

موذی کے چنگل سے چھوٹا۔
حاتم نے کہا "خیر معلوم ھوا۔ اب تو جہاں چاھے وھاں جا کیوں کہ میں برسرکار ھوں، زیادہ یہاں نہیں رہ سکتا۔"
اس نے کہا اے جوان دستگیر بے کسان! غریب خانہ یہاں سے بہت نزدیک ھے۔ اگر بندہ نوازی کرے اور تشریف لے چلے تو مہربانی ھے۔ غرض حاتم اس کے ساتھ ھو کر چلا۔ اتنے میں ایک لشکر عالی شان سامنے سے دکھلائی دیا۔ حاتم نے پوچھا کہ یہ لشکر کس کا ھے؟
وہ بولا "اسی فقیر کا۔"
پھر حاتم کو لیے ھوئے اپنے دولت خانے میں داخل ھوا اور ایک تخت مرصع پر بٹھلایا اور بہ آئین شایستہ ضیافت کی اور بہت سا زر و جواھر اس کے سامنے رکھا اور تمام رات ناچ راگ رنگ کی صحبت رکھی۔
ھاتم نے کہا "زر و جواھر مجھے کچھ درکار نہیں۔"
پھر صبح کو شاہ زادے نےاس غلام کی گردن ماری اور حاتم رخصت ھو کر کارواں سرائے میں اتر اور منیر شامی سے ملا۔
یہ خبر کسی شخص نے حسن بانو کو پہنچائی۔ اس نے وھیں اس کو بلوا لیا اور ایک مکان عالی شان میں پردہ ڈال کر آپ بیٹھی اور باھر اسے بٹھلا کر احوال پوچھا کہ اے جوان عالی ھمت! بہت دنوں میں تو آیا، کہہ کیا خبر لایا؟
ھام نے جو ماجرا دیکھا تھا اور اس پیر مرد کی زبانی سنا
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 175 آرائشِ محفل صفحہ 140

تھا، بخوبی بیان کیا اور کہا کہ صاحب! اس پیر مرد نے اسی واسطے یہ بات اپنے دروازے پر لکھ کر لگا دی ھے۔
حسن بانو اس سخن کو سن کر نہایت خوش ھوئی اور حاتم کی ھمت پر آفرین کر کے کہنے لگی "اے جوان! تو ھی تھا جو یہ خبر لایا، نہیں تو کس کا منہ تھا کہ یہ کام کر سکے۔"
بعد اس کے کتنے خوان میووں کے، جہاں وہ اترا تھا، وھاں بھیجوا دیے۔ اس نے آ کر وہ کھانا منیر شامی کے ساتھ کھایا اور سجدۂ شکر ادا کیا اور کہنے لگا کہ اے منیر شامی! تو نہ گھبرا، اب تھوڑے ھی دنوں میں خدا کے فضل سے میں تیری معشوقہ کو تجھ سے ملا دیتا ھوں۔
اس کو اس طرح سے دلاسا دے کر آپ حسن بانو کے پاس گیا اور کہنے لگا "اے حسن بانو! اب کون سا سوال رکھتی ہے؟ کہہ، میں اس کی بھی جست جو میں کمر کوشش کی باندھوں؟"
حسن بانو نے کہا کہ تیسرا سوال یہ ھے میرا کہ ایک شخص جنگل میں کھڑا کہتا ھے کہ "کسی سے بدی نہ کر، اگر کرے گا وھی پاوے گا۔" اس کی خبر لا۔
------------------------------------------------------------------
 

محمد عمر

لائبریرین
151

پس اُنہوں نے ہزاروں من لکڑیاں جمع کر کے آگ بھڑکائی۔ جب اُس کی لو آسان تک پہنچی، اُس کو اُٹھا کر اُس آگ میں ڈال دیا۔ حاتم تین روز تک اُسی آگ میں رہا۔

وے چلے گئے۔ بعد اُس کے جو نکلا تو ایک تار بھی اس کے جامے کا نہ جلا تھا۔ وہاں سے ایک طرف کو راہی ہوا۔

تھوڑی دور گیا ہو گا کہ پری زاد ہر طرف سے دوڑے اور پوچھنے لگے "اے جوان! تیری ہی صورت کا ایک شخص دو چار دن کا ذکر ہے کہ آیا تھا۔ اس کو تو ہم نے آگ میں ڈال کر خاک سیاہ کر دیا۔ اب جو (۱) تو آیا ہے، کیا وہی ہے یا دوسرا اور پیدا ہوا؟ سچ کہہ۔"

حاتم نے کہا "اے احمقو! جو آتش کدے میں پڑے سو کیوں کر جیتا بچے؟"

پھر اس کو انہوں نے ایک بھاری پتھر کے تلے تین روز تک داب رکھا۔ چوتھے روز اس کو اس سے نکال کر اس زور سے ٹانگ پھرا پھرا کر پھینکا کہ وہ، وہاں سے اٹھارہ کوس پر دریائے شور بہتا تھا، اس میں جا پڑا اور ایک گھڑیال اس کو نگل گیا۔ وہ اُس صدمے سے عالم بے ہوشی میں تھا، کچھ نہ سمجھا کہ میں کہاں تھا اور کہاں آیا۔

جب ہوش ہوا، تب اپنے تئیں گھڑیال کے پیٹ میں دیکھ کر گھبرایا اور اس کے دل و جگر کو دوڑ دوڑ کر پاؤں سے(۲) کچلنے لگا۔ وہ اس کے ہضم نہ ہونے کے باعث سے عاجز ہو کر خشکی

---

۱۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۱۲۲) "تو جو۔"

۲۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۱۲۰) میں "پاؤں سے" نہیں۔


152

میں گیا اور قے کرنے لگا۔ حاتم اس کے منہ سے نکل پڑا۔

بعد اس کے بھوکا پیاسا کسی طرف کو چلا۔ جب طاقت طاق ہو گئی، چل کر ریتل میں گر پڑا اور ہر ایک سمت کو تکنے لگا۔

اتنے میں ایک غول پری زادوں کا اٹھکھلیاں کرتا ہوا آ پہنچا اور ہر ایک اسے دیکھ کر آپس میں کہنے لگا کہ یہ آدم زاد کون ہے اور یہاں کیوں کر آیا ہے؟ تحقیقات کیا چاہیے۔

ایک آ کر حاتم سے کہا "اے آدمی(۱) زاد! تجھ کو یہاں کون لایا(۲) جلد بتلا؟"

حاتم نے کہا "مجھ کو خدائے کریم الرحیم لایا ہے کہ جس نے مجھے اور تجھے پیدا کیا، اور دوسرا دن ہے کہ مجھ کو گھڑیال کے پیٹ سے جیتا باہر نکالا۔ اگر تم کو خدا نے توفیق دی ہو تو کچھ کھانے پینے کی خبر لو۔"

اُنہوں نے کہا کہ تجھ کو ہم دانا پانی کیوں کر دیں۔ حکم ہمارے بادشاہ کا یہ ہے کہ جس آدمی کو یہاں پاؤ، وہیں ٹھکانے لگاؤ۔ اگر تجھ کو نہ ماریں اور کھانے پینے کو دیں تو غضب سلطانی میں گرفتار ہوویں۔

اتنے میں ایک نے اُنہیں میں سے کہا کہ اے یارو! خدا سے ڈرو۔ کہاں بادشاہ اور کہاں یہ گدا۔ کچھ آپ سے یہ نہیں آیا۔ واللہ اعلم گھڑیال کہاں سے اس کو لایا ہے۔(۴)"

۔۔۔

۱۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۱۲۳) "آدم زاد ۔"

۲۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۱۲۳) "لایا ہے۔"

۳۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۱۲۴) "آن"

۴۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۱۲۴) "ہو"



153

چند روز اس کی حیات کے باقی تھے جو اس کے پیٹ سے نکلا، اور قوم انسان کی ہم سب سے اشرف کہلاتی ہے، لازم ہے کہ اس کو گھر لے جاویں اور پرورش کریں۔

اُنہوں نے کہا کہ اگر اس کو ہم رکھیں اور کھانا دیں، مبادا بادشاہ پریوں کا سنے اور ہماری گردن مارے تو مفت میں جان جاتی رہے۔

حاتم نے کہا "اے عزیزو! اگر میرے مارے جانے سے تمہارا بھلا ہو تو مت چوکو، مار ہی ڈالو۔"

اس جرأت کو دیکھ کر وے پھر آپس میں مشورت(۱) کر کے کہنے لگے "اے یارو! یہاں سے سات روز کی راہ پر ہمارا بادشاہ رہتا ہے۔ ایسا کون ہے جو اس کا احوال بادشاہ سے عرض کرے گا؟"

اس بات کو سوچ کر وے سب کے سب متفق ہوئے اور حاتم کو اپنے گھر لے گئے۔ میوے اور کھانے قسم قسم کے اُس کے آگے رکھے۔ حاتم نے سیر ہو کر کھایا اور پانی پیا اور خوشی سے بیٹھا۔ پری زاد بھی اس کے گرد آ بیٹھے اور قیل و قال کرنے لگے اور اس کے حسن پر فریفتہ ہو گئے۔

بعد کتنے دنوں کے ایک روز حاتم نے اُکتا کر کہا کہ اے یارو! اب مجھ کو رخصت کرو کہ جس کام کے واسطے آیا ہوں، اس کی سعی کروں۔

اُنہوں نے کہا کہ وہ کیا کام ہے اور تجھے یہاں کون لایا ہے؟

حاتم نے کہا "مجھ کو فروقاش بادشاہ کے دیو ماہ پری بادشاہ

---

۱۔ نسخۂ مکتوبہ ( ص ۱۲۴) "مشورہ کرنے لگے، اے یارو"



154

کی سرحد میں لائے تھے۔ تمھارے بھائیوں نے تین مرتبہ مجھ کو آگ میں ڈالا، خدائے کریم نے بچا لیا۔ پھر اُنہوں نے دریا میں ڈال دیا، وہاں ایک گھڑیال نگل گیا۔ جب وہ ہضم نہ کر سکا، تب اُس نے بھی کنارے پر آ کے اُگل دیا؟ اتنے میں تم سے ملاقات ہوئی، تم اپنی مہربانی سے گھر لے آئے اور میری تم نے غور و پرداخت کی۔"

یہ سن کر اُنہوں نے کہا "اے جوان خوش رو! ایسا کون سا کام ہے کہ جس کے واسطے تو نے ایسی مصیبتیں اٹھائیں اور جفائیں سہیں؟"

حاتم نے کہا کہ میں ماہ پری بادشاہ سے کچھ کام رکھتا ہوں۔

اُنہوں نے کہا "اے نادان! تو ہارے سامنے ماہ پری بادشاہ کا نام نہ لے کیوں کہ اس کے ہم نوکر ہیں۔ اس نے اپنی حد بھر اسی صورت سے شہر بہ شہر چوکیاں بٹھلائی ہیں اور یہ فرمایا ہے کہ میرے ملک میں کوئی آدم زاد اور دیو زاد آنے نہ پاوے۔ اگر ماہ پری شاہ سنے گا کہ آدم زاد یہاں آیا ہے تو ہم کو جیتا نہ چھوڑے گا اور تجھ کو مار ڈالے گا۔

بیت

قدغن ہے کہ اس گھر میں کوئی آنے نہ پاوے

گر بے خبر آ جائے تو پھر جانے نہ پاوے

حاتم نے کہا "اے یارو ! اگر میری حیات باقی ہے تو کوئی نہیں مار سکتا اور جو تم اپنے واسطے ڈرتے ہو تو مجھے باندھ کر اُس کے پاس لے چلو، خدا جو چاھے گا سو کرے گا۔"

اُنہوں نے کہا "ہم سے یہ بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ


155

جس کی پرورش کی ہے اُس کو مارنے کے واسطے کیوں کر دیں؟

حاتم نے کہا "میرے مارے جانے پر تم کوئی سوچ نہ کرو کیوں کہ مجھ کو ماہ پری شاہ کے پاس جانا ہے، خواہ وہ مارے، خواہ چھوڑے۔"

اس بات کو سن کر وے حیران ہوئے اور آپس میں مشورت کر کے کہنے لگے "اب یہ بہتر ہے کہ اس کو یہیں رکھیے اور اس احوال کی ایک عرضی بادشاہ کو کریے، حضور اعلیٰ جو ارشاد ہو، سو کیجیے۔"

اس بات پر وہ ہر ایک راضی ہوا؛ تب ایک پری زاد کو عرضی دے کر رخصت کیا اور اس میں یہ مضمون لکھا کہ جہان پناہ ! ایک آدمی دریائے قلزم کے کنارے سے ہاتھ آیا ہے، سو اس کو بہ طور نظر بندوں کے اپنے گھر ہی میں رکھا ہے۔ اگر حکم ہو تو حضور اعلیٰ میں بھجوا دیں۔

غرض وہ وہاں سے عرضی لے کر چلا اور ایک ہی ہفتے میں در دولت میں جا پہنچا:

غرض بیگیوں۔ خبر پہنچائی کہ خداوند! ایک پری زاد دریائے قلزم کے چوکی داروں میں سے آیا ہے۔ وہاں کے حاکم کی عرضی بھی ہاتھ میں رکھتا ہے۔ حکم ہوا کہ اُس کو حضور میں حاضر کرو۔

وے اُس کو لے آئے۔ وہ آداب بجا لایا اور عرضی حضور میں گزرانی۔

ماہ پری شاہ نے پڑھ کر فرمایا کہ اسے جلد حضور میں بہ احتیاط تمام حاضر کرو۔


156

بعد کئی دن کے وہ دیو (۱) جواب لے کر وہیں آ پہنچا اور اس(۲) سے کہنے لگا کہ حکم حضور یوں ہے کہ اس کو جلد در دولت پر پہنچاؤ۔

اس سخن کے سنتے ہی وے پری زاد اس کو اپنے ساتھ لے چلے اور یہ شہرہ ہر ایک سمت(۳) کو پھیلا کہ ایک آدم زاد گرفتار ہو ماہ پری شاہ کے حضور میں جاتا ہے۔

یہ سن کر منسا پری زاد کی بیٹی نے اپنی ہم جولیوں مشورت کی کہ بادشاہ کے ملک میں ایک آدمی خوب صورت و نہایت حسین پکڑا ہوا آتا ہے۔ اسے دیکھا چاہے کہ وہ کیسی صورت رکھتا ہے۔ ان سبھوں نے کہا کہ بہت بہتر۔ اگر اس کو دیکھنا منظور ہے تو راہ ہی میں دیکھ لو کیوں کہ جب وہ حضور میں پہنچے گا تب اسے کوئی(۴) نہ دیکھ سکے گا۔

اس بات کو سن کر وہ اپنی ماں کے پاس آئی اور باغ کے جانے کا بہانہ کر کے رخصت ہوئی۔ چنانچہ اس شہر کا یہ دستور تھا کہ جو کوئی باغ کی سیر کو جاتا سو چالیس روز تک وہیں رہتا۔

غرض وہ ہر صورت وہاں سے روانہ ہوئی اور تھوڑی دور جا کر ہم جولیوں سے پوچھنے لگی کہ اس جوان کو کیوں کر دیکھیں؟

۔۔۔

۱۔ مترجم نے پری زاد کی جگہ لفظ "دیو" غلط استعمال کیا ہے۔ وہ علاقہ پری زادوں کا ہے۔ (فائق)

۲۔ نسخہ مکتوبۂ (ص ۱۲۷) میں "اُن" درست ہے، نسخۂ مطبوعہ بمبئی (ص ۹۴) میں "اُس" ہے۔

۳۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۱۲۷) میں "کو " نہیں۔

۴۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۱۲۸) "کوئی بھی"



157

اُن میں سے ایک نے کہا کہ دریائے قلزم کے چوکی دار فلانے رستے سے لیے آتے ہیں۔ اگر وہیں چل کر دیکھو تو بہت بہتر ہے۔

اُس بات کو سن کر وے سب کی سب اُسی سمت کو گئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ ایک لشکر نہایت عالی شان پڑا(۱) ہے۔ حسنا پری نے ایک پری کو کہا کہ تو جا کر اُن سے پوچھ کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ اس بات کو تحقیق کر کے جلد پھر آ۔

غرض وہ گئی اور ان سے پوچھنے لگی کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟

اُنہوں نے کہا کہ ہم دریائے قلزم کے نگہبان ہیں۔ ایک آدمی کو گرفتار کیے ہوئے حضور عالی میں لے جاتے ہیں۔

اس نے کہا "وہ کون سا آدمی ہے کہ جس کو تم لے چلے ہو؟ ایک ذرا ہم بھی اسے دیکھیں۔"

اُنہوں نے اسے حاتم کو دکھلا دیا اور کہا کہ وہ اجل گرفتہ یہی ہے۔

اس نے دیکھا کہ ایک شخص نوجوان مثل گل خنداں اور حسن میں مانند ماہ تاباں ژولیدہ مو، نہایت خوب رو، بہ طور قیدیوں کے بیٹھا ہے اور آھیں سرد بھرتا ہے۔

وہاں سے پھر آئی اور حسنا پری سے اس کے حسن و جوانی کی تعریف کرنے لگی۔ حسنا پری اس خبر کو سن کر اس کے دیکھنے کی نہایت مشتاق ہوئی اور اپنی پریوں سے کہنے لگی کہ اے بوا!

۔۔۔

۱۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۱۲۸) اور نسخۂ مطبوعہ بمبئی (ص ۹۴) میں "پڑا" ہے، شاید "اُترا" ہو۔



158

کیوں کر اُسے دیکھیے؟

اُنہوں نے کہا کہ جب رات ہو گی تب سپاہ سو جائے گی۔ اس وقت ہم جا کر اُس کو چوری سے اُڑا لائیں گے، تمہیں دکھلا دیں گے۔

اتنے میں آفتاب غروب ہوا اور رات ہو گئی۔ پریاں اُس لشکر کی طرف چلیں۔ کیا دیکھتی ہیں کہ وہ خوابِ غفلت میں ہے۔ تب حاتم کے سر پر بے ہوشی کی دارو چھڑک کر حسنا پری کے باغ میں اُٹھا کر لے گئیں اور اس سے عرض کی کہ ہم اس آدمی زاد کو سرکار کے باغ میں چھوڑ آئی ہیں۔

وہ سنتے ہی باغ کی طرف متوجہ ہوئی۔ آ کر کیا دیکھتی ہے کہ ایک جوان خوش جمال بے ہوش پڑا ہے۔ دیکھتے ہی ہزار جان عاشق ہوئی اور اس نے ہوش کو ہشیار کیا۔

حاتم نے جو آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایک عورت پری زاد جمیلہ سرہانے کھڑی ہے۔ بے اختیار ہکا بکا ہو کر کہنے لگا کہ تو کون ہے اور مجھے یہاں کون لایا ہے؟

اُس نے ناز سے منہ پھیر کر یہ شعر پڑھا:

شعر

یہ گھر گو کہ میرا ہے تیرا نہیں

پر اب گھر یہ تیرا ہے میرا نہیں

اور وہ اپنے دل میں حیران ہو ہو کر کہتا تھا کہ یہ پریاں عورتیں ہیں اور وہ(۱) لشکر مردوں کا تھا اور میں اُن کی قید میں تھا، اس باغ میں کیوں کر آیا! آخر گھبرا کر بولا کہ تم سچ کہو کون ہو اور میں یہاں کس طرح سے آیا؟

---

۱۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۱۳۰) میں "وہ" نہیں۔



159

حسنا پری نے پھر کہا کہ اے جوان! یہ باغ منسا پری زاد نے بنوایا ھے اور میں حسنا پری اُس کی بیٹی ہوں۔ تیرے آنے کی خبر جو تمام شہر میں اُڑی، مجھ کو تیرے دیکھنے کی نہایت آرزو ہوئی، اس واسطے یہ پریاں تجھ کو وہاں سے اُڑا کر یہاں لے آئی ہیں۔

حاتم نے مسکرا کر کہا کہ میرے لانے کا سبب کیا ہے؟ ناحق میرے کام میں خلل کیا۔

پری نے کہا "وہ کون سا کام ہے؟ مجھے آگاہ کر کہ جس کے واسطے تو ایسا گھبراتا ہے؟"

اس نے کہا کہ میں ماہ پری شاہ کا مہرہ لینے آیا ہوں۔

وہ ہنسی اور کہنے لگی "اے جوان! وہ مہرہ اس کے ہاتھ سے لینا ذرا کام رکھتا ہے اور نہایت مشکل ہے کیوں کہ جہاں فرشتے کا بھی گزر نہ ہوا وہاں آدمی کی پہنچ کب ہو سکے؟ مگر تیری قسمت سے وہ ہاتھ لگے تو لگے بلکہ میں بھی تا مقدور سعی کروں گی۔ حاتم اس بات کو سن کر خوش ہوا۔ غرض وے دونوں عیش عشرت میں مشغول ہوئے۔

اتنے میں وہ لشکر خواب غفلت سے بیدار ہوا اور چوکی داروں نے اس جگہ حاتم کو نہ پایا۔ حیران و سرگرداں ہوئے پر معلوم کیا کہ اس کو(۱) پری زاد عاشق ہو کر چرا لے گئی ہے۔ اگر بادشاہ سنے تو ہماری کھال کھینچے۔ بہتر یہ ہے کہ کسی گوشے میں چھپ رہیں اور چپکے چپکے تلاش کیا کریں، شاید اس کا کہیں کھوج ملے تو بادشاہ کے پاس پکڑ کر لے جائیں۔

---

۱۔ نسخۂ مکتوبہ (ص ۱۳۱) میں "کوئی پری زاد" ہے. مطبوبہ بمبئی میں نہیں۔


160

یہ کہہ کر وے سب کے سب بھاگے اور کسی جگہ چھپ رہے۔ جب رات ہوتی، تب صبح تک ڈھونڈتے؛ دن بھر چھپ رہتے، اسی طرح ایک مدت گزر گئی۔

ایک دن ماہ پری شاہ نے کہا کہ ہنوز وہ آدم زاد نہیں آیا، کیا باعث ہے؟ وہاں ایک پری زاد جاوے اور جلد خبر لاوے۔

غرض ایک پری زاد بہ موجب حکم حضور کے اُڑا اور پل مارتے ہی اُس لشکر کے سردار کے پاس جا پہنچا اور کہنے لگا: "بادشاہ منتظر ہے، وہ آدمی اب تک نہیں پہنچا۔"

اُس نے کہا "مجھے ایک مدت ہوئی کہ میں نے اس کو اپنے لشکر کے ساتھ روانہ کر دیا ہے۔"

یہ بات سن کر وہ پری زاد پھر آیا اور بادشاہ کی خدمت میں احوال جوں کا توں عرض کیا۔ وہ اس خبر کے سنتے ہی آگ ہو گیا اور ایک سردار کو بلا کر حکم کیا کہ تو اپنی فوج سمیت جا کر ان حرام زادوں کی تلاش کر۔ دیکھو(۲) تو وے اُس کو کہاں لے گئے۔

غرض وہ اپنے لشکر کو ساتھ لے کر گیا اور جستجو ان کی کرنے لگا؛ اتنے میں ایک شخص اُس لشکر کا بھاگا ہوا اُن کے جاسوسوں کو نظر آیا۔ وے اس کو باندھے ہوئے حضور میں لے گئے۔

بادشاہ نے اُس پر نہایت غصہ اور عتاب کیا اور کہا کہ کہہ، وہ آدمی کہاں ہے؟

۔۔۔

۱۔ نسخۂ مکتوبہ ( ص ۱۳۲) میں "اپنے" نہیں ہے

۲۔ نسخۂ مکتوبہ ( ص ۱۳۲) "دیکھ"
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 206 آرائشِ محفل صفحہ 173

بیاہ دیا۔ جوان سے بہت سی معذرت کی اور کہا کہ یہ ملک و مال سب تیرا ھی ھے، کیوں کہ میں سوائے اس کے اور کوئی لڑکا بالا نہیں رکھتا، تو ھی میرا فرزند ھے۔ حاصل کلام وے دونوں عاشق و معشوق آپس میں ملے۔
تب حاتم رخصت ھوا اور کہنے لگا کہ بھائی مجھ کو اور بھی ایسے ھی بہت سے کام کرنے ھیں، رخصت دے، چناں چہ کوہ القا کو جاتا ھوں۔ جوان پاؤں پر گر پڑا اور دعائیں دینے لگا۔ "خدا تیرا حافظ اور مدد گار رھے، راہ لے۔"
حاتم نے اپنا مہرہ اس سے لے لیا اور کوہ القا کا رستہ پکڑا۔ کئی رات دن چلا کیا، آخر ایک دن کوہ القا کے متصل جا پہنچا۔ کیا دیکھتا ھے کہ ایک پہاڑ آسمان سے باتیں کر رھا ھے۔ پرندے کی تو کیا طاقت کہ پر مار سکے اور چرندے کی کیا قدرت جو ادھر نظر کر سکے۔ حاتم اس اندیشے میں اس کے تلے بیٹھ گیا کہ اگر یہاں کے کسی رھنے والے کو دیکھوں تو پوچھوں کہ اس کی راہ کدھر کو ھے؛ اسی فکر میں تھا کہ ایک گروہ پری زادوں کا جاتے نظر پڑا۔ حاتم اس کے پیچھے دوڑا پر نہ پایا اور وہ غول اس کی نظروں سے غائب ھوا۔
اتنے میں ایک بڑا ھی غار دکھلائی دیا اور ایک پتھر چکنا صاف اس کے لبوں پر لگا ھوا دیکھا۔ ھاتم نے اپنے جی میں خیال کیا کہ اس غار میں کیوں کر جائیے کیوں کہ یہ راہ کسی طرف سے نہیں رکھتا۔ آخر یہ تدبیر سوجھی کہ اس پتھر پر سے پھسلتا ھوا چلا چاھیے، جو چاھے سو کرے خداوند۔ آخر یوں ھی عمل میں لایا اور صبح سے شام تک لڑکھتا پڑکھتا چلا گیا۔ جب اس کے پاؤں تہہ پر پہنچے، آنکھیں کھول کر دیکھتا کیا ھے کہ
-----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 207 آرائشِ محفل صفحہ 174

ایک میدان نہایت وسیع اور پرفضا ھے۔ دیکھتے ھی دل اس کا کھل گیا؛ تھوڑی دور چلا، پھر جی میں دھیان کرنے لگا کہ وے پری زاد کدھر گئے اور کسی طرف اس جنگل کی آبادی ھے یا نہیں؟ یہ سوچ کر دو چار قدم آگے بڑھا کہ ایک عمارت عالی شان و دل چسپ نظر پڑی۔ گمان کیا البتہ یہاں لوگ رہتے ھوں گے، چلا چاھیے۔
اس اثنا میں کتنے پری زادوں نے اسے دیکھ لیا کہ ایک آدمی غیر جنس بے دھڑک چلا آتا ھے۔ اپنی جگہ سے اٹھ کر بے اختیار دوڑے اور حاتم کے پاس آ کر کہنے لگے کہ اے آدمی زاد! یہ مکان تیرے آنے کے لایق نہیں ھے، یہاں تو کیوں کر آیا اور تجھے کون لایا؟
وہ بولا کہ خدا ھادی و رھنما ھے، لے آیا۔
انھوں نے پھر کہا کہ سچ کہہ، غار کی راہ تو نے کیوں کر دیکھی۔
اس نے کہا کہ میں دور سے تمھیں دیکھ کر دوڑا۔ تم آگے جا کر بعد ایک ساعت کے آنکھوں سے غائب ھو گئے۔ میں فکر کرنے لگا کہ الٰہی! وے سب یہاں سے کیا ھوئے اور کہاں گئے؟ بارے خدا کے فضل سے جس طرف تم گئے تھے، میں بھی اسی طرف چلا۔ اتنے میں ایک غار تاریک دکھلائی دیا؛ میں اس کو دیکھ کر نہایت حیران ھوا اور جی میں کہنے لگا کہ میں اس میں کیوں کر پیٹھوں۔ یکایک یہ خیال آ گیا کہ اس پتھر پر لیٹ کر پھسل پڑوں اور کسی طرح اندر جاؤں۔ غرض وھی کیا اور تمھاری تلاش میں یہاں تک آ پہنچا۔ اب برائے خدا یہ بتلا دو کہ اس پہاڑ کا کیا نام ھے اور یہ باغ کس کا ھے؟
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 208 آرائشِ محفل صفحہ 175

وے بولے کہ اس پہاڑ کا نام القا ھے اور یہ باغ ملکہ الگن پری کا ھے، ھم اسی کے نگہبان ھیں؛ اب موسم بہار نزدیک آیا ھے، اس واسطے ھم اس کی خبر لینے آئے تھے۔ اغلب ھے کہ پرسوں تلک وہ بھی سیر کو یہاں تشریف لاوے۔ اور کہنے لگے کہ اے جوان! تجھے کیوں کر اس باغ میں رھنے دیں کہ تو مارا جائے گا، تیری جوانی پر ھم کو رحم آتا ھے۔
تب حاتم نے کہا کہ میں کوئی ٹھکانا نہیں رکھتا، کہاں جاؤں۔ یہ میرے نصیبوں کی یاوری ھے کہ جس کے واسطے اتنی محنت کھینچ کر آیا ھوں وہ اتنا جلد آیا چاھتی ھے۔ اب جو ھونی ھو سو ھو۔
یہ بات سن کر انھوں نے پوچھا "تجھے اس سے ایسا کیا کام ھے جو تو اس کے ملنے کی آرزو رکھتا ھے؟ تو بےچارہ غریب آدمی اور وہ بادشاہ زادی پریوں کی۔"
حاتم نے کہا "طالب پری کا انسان ھے اور پری طالب انسان کی۔"
اس بات کو سنتے ھی وہ دق ھوئے اور کہنے لگے کہ شاید دیوانہ ھے۔ حق تو یہ ھے کہ جو کوئی اپنی جان سے ھاتھ دھوتا ھے سو ایسی سخت جگہ پاؤں دھرتا ھے۔ غرض نہایت غصے ھو کر وے سب کے سب اس کی طرف دوڑے اور مستعد اس کے قتل پر ھوئے؛ وہ سر جھکا کر چپکا کھڑا ھو رھا۔ تب وے آپس میں ھنس کر کہنے لگے کہ یہ عجب آدمی ھے۔ نہ بھگانے سے بھاگتا ھے، نہ ڈرانے سے ڈرتا ھے، نہ کسی سے لڑتا ھے؛ ایسے شخص کو کوئی کیوں کر مارے یا دکھ دیوے۔ یہ کہہ کر پھر انھوں نے حاتم سے کہا کہ اے جوان! ھم اھل مروت ھیں،
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 209 آرائشِ محفل صفحہ 176

تیرے ھی بھلے کو کہتے ھیں کہ یہ جگہ تیرے رھنے کی نہیں۔ اگر سلامت جایا چاھتا ھے تو اب بھی کچھ نہیں گیا، چپکا چلا جا، نہیں تو رنج کھینچے گا بلکہ مارا پڑے گا۔
یہ بات سن کر اس نے کہا کہ جی کے جانے کا مجھ کو کچھ غم نہیں؛ میں نے خدا کی راہ میں سر دینا اختیار کیا ھے اور جو خدا کی راہ میں مصروف ھوئے ھیں، وے اپنے سر کو ھتھیلی پر لیے پھرتے ھیں، ھر آن اسی کی رضا جوئی میں رھتے ھیں، کیوں کہ وہ خالق زمین و آسمان کا ھے، اس کی بندگی لازم ھے۔
اس بات کو سن کر وے مہربان ھوئے اور کہنے لگے کہ اے جوان خوش گفتار! ھمارے ساتھ آ۔ اگر الگن پری کے دیکھنے کا ذوق رکھتا ھے تو ھم تجھے کسی گوشے میں چھپا رکھیں اور دکھلا دیں، لیکن آفتاب کو ذرے سے کیا نسبت۔ غرض ایک گوشے میں لے گئے، طرح بہ طرح کے کھانے کھلائے اور قسم قسم کے میوے اور اس سے صبحت رکھی۔
بعد تین روز کے پوچھا کہ اے جوان! سچ کہہ، تیرے آنے کا سبب کیا ھے؟
اس نے کہا کہ مجھے الگن پری سے سچ مچ میں ایک کام ھے، اس واسطے کہ وہ ایک جوان سے سات روز کا وعدہ کر کے یہاں آئی ھے؛ اس بات کو سات برس گزر گئے کہ وہ اس کے انتظار میں قریب مرگ کے پہنچا ھے؛ آنکھیں پتھرا گئی ھیں، جان بہ لب ھو رھا ھے، بلکہ سانس لینے کی طاقت نہیں رھی تو بھی بعد دو تین گھڑی کے ایک آہ سرد دل پُر درد سے کھینچتا ھے اور یہ مصرع پڑھتا ھے:

شتاب آ کہ نہیں تاب اب جدائی کی

--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 210 آرائشِ محفل صفحہ 177

میں نے جو اس کا یہ احوال دیکھا، بے اختیار ھو کر پوچھا کہ کیا احوال ھے تیرا؟ اس نے اپنی مصیبت از ابتدا تا انتہا سب کی سب میرے سامنے بیان کی۔ اس واردات کو سن کر میرا کلیجا جل گیا اور آنسو ٹپکنے لگے۔ میں اس کی خاطر آیا ھوں، اس واسطے کہ اس کا قول اسے یاد دلاؤں، شاید بھول گئی ھو؛ اور اگر وہ اس امید پر مر جاوے گا تو بڑا غضب پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ اے آدم زاد! ھم اتنی قدرت نہیں رکھتے ھیں جو تیرا احوال جا کر اس سے کہیں مگر یہ کہ تجھے باندھ کر اس کے سامنے لے جاویں، پھر جو تیری زبان پر آوے سو عرض کر۔ یہ بات ھم بطور دوستی کے کہتے ھیں کیوں کہ اگر ھم تجھے بخوبی لے جاویں، شاید وہ ھم پر غضب ھو کہ اس آدمی کو اس خوبی سے کیوں لائے ھو۔
حاتم نے کہا کہ جس ڈھب سے بنے اس ڈھب سے مجھ کو اس کے پاس لے چلو، آگے میں ھوں اور میری محنت یا اس جوان کی قسمت۔
غرض ایک دن الگن پری اپنے محل سے نکل کر اس باغ کی طرف سے ناز و ادا سے چلی آتیتھی؛ وے سب کے سب استقبال کو آئے اور آداب بجا لائے۔ الگن پری آ کر تخت پر بیٹھ گئی اور وے پریاں جو اس کی جلیس تھیں، کرسیوں پر قاعدے سے برابر بیٹھیں۔
پھر پری زادوں نے باغ میں آ کر حاتم سے کہا کہ چل تیرے تئیں ھم ملکہ کو دکھلا دیں۔ غرض لے آئے اور ایک جھروکے کے پاس بٹھلا دیا اور کہا کہ دیکھ وہ جو تخت زریں پر دھانی جوڑا پہنے اور سر پر آنچل پلو کا ڈوپٹا اوڑھے ھوئے ایک غرور و ناز سے بیٹھی ھے، وھی الگن پری ھے۔ حاتم دیکھتے
-------------------------------------------------------------------
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ ۱۹۶

میں ایک لڑکا چودہ پندرہ برس کا نہایت حسین ومہ جبین تھا، اُس پر جا پڑا اور ان میں سے اُس کو اٹھا کر ایک گوشے میں لے گیا۔ وہاں اس کا پیٹ پھاڑ ڈالا اور دل و جگر پرزے پرزے کر کے جنگل کی طرف راہی ہوا۔ حاتم بھی ساتھ ہی ساتھ چلا۔ وہ تھوڑی دور جا کر ایک عورت نازنین کی صورت بن کر برسر راہ جا بیٹھی۔ حاتم حیران ہوا اور ایک درخت کے تلے تاک لگائے بیٹھ رہا۔
اتنے میں دو بھائی سپاہی زادے اپنے شہر سے روزگار کے واسطے نکلے تھے اور ایک مدت تک نوکری کرکے کچھ کمائے ہوئے گھر کی طرف چلے جاتے تھے۔ اتفاقاً اس راہ آ نکلے اور جب وے اُس کے قریب پہنچے تب وہ عورت رونے لگی۔ آواز اس کے رونے کی اُن کے کان میں پڑی ۔ بڑا بھائی اس کے پاس آ کر کیا دیکھتا ہے کہ ایک عورت نہایت حسین و خوب صورت بیٹھی رو رہی ہے۔ آپ بھی آنسو بھر لایا اور اس سے پوچھنے لگا ” اے نازنین! تو کون ہے او ر اس بیابان میں کس لیے رو رہی ہے؟“
اُس نے کہا ” اے جوان! میں فلانے شخص کی جورو ہوں ؛ وہ میرے میکے سے مجھے لیے ہوئے اپنے گھر جا تا تھا، اتنے میں ایک شیر اس جنگل سے نکلا اور اس کو اُٹھا کر لے گیا۔ میں تن تنہا یہاں بیٹھ رہی ہوں ، کیوں کہ نہ اپنے باپ کے گھر کا رستہ جانتی ہوں اور نہ سسرال کی راہ پہچانتی ہوں۔ حیران ہوں کہ اب کیا کروں اور کہاں جاؤں اور یہ بھی نہیں جانتی کہ آگے کیسی بپتا پڑے گی اور یہ عمر رنڈاپے میں کیوں کر کٹے گی۔“
اُس نے کہا ” اگر کوئی تجھے اپنے پاس رکھے تو تو اس کے پاس رہنا قبول کر ے یا نہ کرے ؟“

صفحہ ۱۹۷
اُس نے کہا کہ کیوں نہ قبول کروں کیوں کہ اس جنگل میں کون ہے میرا جو خبر لے گا اور دکھ کا شریک ہو گا۔
اس سخن کو سن کر اُس نے کہا کہ مجھے قبول کر۔
عورت بولی کہ تین شرطو ں سے: ایک یہ ہے کہ تیرے گھر میں دوسری عورت نہ ہو، دوسرے یہ کہ مجھ سے محنت و خدمت نہ ہو سکے گی، تیسرے یہ کہ جب تک میں جیئوں تب تک مجھ کو دکھ نہ دینا اور نہ کڑھانا۔
اُس نے کہا کہ میں بھی ایک مرد مجرد ہوں ۔ جب تک جیتا رہوں گا، سوائے تیرے دوسری رنڈی نہ کروں گا اور اگر پری ہوگی تو اس کا بھی منہ نہ دیکھوں گا؛ سوائے اس کے خدا کے فضل سے میرے گھر میں بہت سی لونڈیاں باندیاں غلام چیلے ہیں ۔ تجھے کسی صورت کی تکلیف نہ ہوگی، تو کار فرمانی کرتی رہ، کام بخوبی ہو گا۔ اور کسی نے بھی آج تک اپنی معشوقہ کو ستایا ہے جو میں تجھے رنجیدہ کروں گا۔
اس نے کہا کہ میں اس بات پر جان و دل سے راضی ہوئی۔ اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور آگے چلا۔ حاتم بھی اُس کے پیچھے پیچھے روانہ ہوا۔
تھوڑی دور جا کر اس عورت نے اس جوان سے کہا کہ میں تین دن سے بھوکی پیاسی ہوں ۔ مارے ضعف کے جی سنسنایا جاتا ہے۔ اگر کھانے کی چیز ہاتھ نہ لگے ، پر تجھے پانی ضرور لایا چاہیے۔ اس بات کو سن کر اُس نے اس کو ایک درخت کے تلے بٹھلایا اور اپنے چھوٹے بھائی سے کہا کہ بھیا تو ا س سے خبردار رہ کہ میں کہیں سے پانی لے آؤں ۔ یہ کہہ کر اُس نے چھاگل کاندھے پر رکھی اور پانی لانے گیا۔

صفحہ ۱۹۸
بعد ایک دم کے اس عورت نے اُس کے بھائی سے کہا کہ میں نے تیرے واسطے اس کے ساتھ رہنا قبول کیا تھا کیوں کہ تیری صورت دیکھتے ہی دل میرا میرے اختیار میں نہ رہا، نہیں تو ایسے بوڑھے کو میں کیوں کر قبول کرتی ؛ پس تجھ کو بھی لازم ہے جو تو مجھے اپنی خدمت میں رکھے۔
اس نے کہا کہ تم ہماری ماں بہن کی جگہ ہو، یہ ہم سے ہرگز نہ ہو گا۔
تب وہ کہنے لگی ” اے جوان !اگرچہ میں اس کی جورو ہوئی ہوں پر تیری ہی محبت میں رہوں گی، اور تجھے دیکھا کروں گی۔ “
اس نے کہا ” یہ بھی ممکن نہیں ، اس خیال فاسد کو اپنے دل سے دور کر۔“
وہ اس بات کو سن کر جل گئی اور کہنے لگی کہ اب میں تجھ پر تہمت لگا کر تیرے بھائی سے کہوں گی کہ یہ مجھ سے تیرے پیچھے بدفعلی کیا چاہتا تھا اور لے بھاگا چاہتا تھا، نہیں تو اس بات کو کر گزر۔ اس نے کہا ”بہت بہتر، جو چاہے سو کر ، پر میں تیری نہ سنوں گا۔ “
اسی گفتگو میں تھے اور حاتم بھی ایک کونے میں کھڑا ہوا اُن کی باتیں سنتا تھا؛ اتنے میں بڑا بھائی چھاگل پانی سے بھرے ہوئے قریب آ پہنچا کہ اس عورت نے دیکھتے ہی بال سر کے کھسوٹے اور گال نوچے ، سر میں خاک ڈالے ندان چلانے اور چیخیں مارنے لگی۔
اُس نے نزدیک آ کر پوچھا ” بی بی میں پانی لینے گیا تھا۔ مجھ کو نہ کسی شیر نے کھایا ، نہ کسی درندے نے پھاڑا ، تو جو میرے واسطے ا س قدر حال تباہ کرتی ہے، سبب اس کا

صفحہ ۱۹۹
کیا ہے؟“
تب وہ بولی کہ میاں رحمت خدا تجھ پر اور تیرے چھوٹے بھائی پر۔ ارے کم بخت کوئی بھی اپنی عورت کو ایسے بدکا ر کے حوالے کر کے کہیں جاتا ہے۔ اب تو خدائے کریم نے میری شرم رکھی۔ کیوں کہ جوں ہی تو پانی کو گیا اس کم بخت ناشدنی نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔ چاہتا تھا کہ میرا ستر دیکھے اور خراب کرے، میں اپنے تئیں کھینچتی اور چھڑاتی تھی۔ جب میں نے دیکھا کہ اب رہائی نہیں ۔ بے اختیار فریاد کرنے لگی، پر کوئی میری داد کو نہ پہنچا۔ اور یہ کہتا تھا کہ تو مجھے قبول کیوں نہیں کرتی ، میں کیا تیرے لائق نہیں ہوں؛ چنانچہ تو دس پندرہ برس کی ہے اور میں سولہ سترہ برس کا نوجوان۔ میرا بھائی تیرے لائق نہیں، میں تجھ پر ہزار جان سے عاشق ہوں۔ اگر قابو پاؤں گا تو بڑے بھائی کو ٹھکانے لگاؤں گا۔
اس بات کے سنتے ہی وہ مارے غصے کے تھر تھرانے لگا اور اپنے چھوٹے بھائی سے کہنے لگا ”اے نامرد! آج تک کسی نے بھی اپنی ماں بہن سے ایسا کام کیا ہے جو تو اس سے کیا چاہتا تھا۔“
اُس نے ہر چند قسمیں کھائیں پر اس نے ہرگز اس کا کہا نہ مانا اور با ور نہ کیا، بلکہ گالی گلو چ پر آ گیا۔ آخر کار ایک تلوار اُس کے سر پر ایسی ماری کہ وہ سینے تک پہنچی اور چھوٹے بھائی نے بھی ایسا خنجر مارا کہ اس کے پیٹ میں لگ ناف تک چیر گیا۔ دونوں زخمی ہو کر گر پڑے اور جان بحق تسلیم ہوئے۔ کہ وہ عورت بھینس ہو کر آگے بڑھی۔

صفحہ ۲۰۰
حاتم بھی اُس کے پیچھے لگ لیا۔ وہ قریب ایک گاؤں کے پہنچی اور یہ بھی ساتھ ہی ساتھ چلا گیا۔ رہنے والے اس گاؤں کے اس کو دیکھتے ہی بے اختیار دوڑے اور چاہا اُنہوں نے کہ اس کو پکڑ کر اپنے گھر لے جاویں ، اس لالچ پر اس کے نزدیک آئے۔ اس نے کتنے ہی کو لاتو ں سے مار ڈالا اور کتنے ہی کو سینگوں سے پھوڑ دیا۔ پھر ایک جنگل میں جا کر پیر مرد کی صورت بن گئی۔
تب حاتم اپنے دل میں کہنے لگا کہ اب اس ماجرے کو اُس سے پوچھا چاہیے کہ یہ کیا سبب ہے؛ ندان دوڑا اور پکار کر کہنے لگا ”اے پیر مرد! برائے خدا ذرا ٹھہر جا۔“ وہ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا ”اے حاتم ! تو خوش تو ہے؟ کیا کہتا ہے کہہ۔ “ حاتم نے پوچھا ”تم میرے نام سے کیوں کر واقف ہوئے؟“
اُس نے کہا کہ تیرے نام پر کیا موقوف ہے۔ میں تیرے باپ کا بھی نام جانتا ہوں ۔ تجھے اس بات سے کیا، جو پوچھنا منظور ہے سو پوچھ، کیوں کہ اس وقت مجھے فرصت نہیں، ایک ایسا ہی کام ضرور در پیش ہے۔ آخر حاتم نے جس جس صورت سے اُس کو دیکھا تھا اُس اُس شکل کا احوال پوچھا۔
ا س بات کو سن کر وہ ہنسا اور کہنے لگا کہ تجھ کو اس کے سننے سے کیا، ایک دن تجھ کو بھی اسی صورت سے کھاؤں گا۔
حاتم نے کہا کہ اب جب تک تو یہ بھید مجھ سے مفصل نہ کہے گا تب تک میں تجھے نہ چھوڑوں گا۔
تب پیر مرد نے لاچا ر ہوکر کہا کہ میرا نام ملک الموت ہے، جس جس صورت سے حکم ہوتا ہے ، اُس اُس شکل سے میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۷۶

تیسرا سوال

حاتم کے جانے کا اور اس بات کی خبر لانے کا کہ کسی سے بدی نہ کر، اگر کرے گا تو وھی تیرے آگے آوے گی

غرض اس بات کے سنتے ھی حاتم وھاں سے روانہ ھوا اور خدا کو یاد کر، سر بہ صحرا چل نکلا۔

بعد ایک مہینے کے ایک پہاڑ ایسا دکھلائی دیا کہ جو آسمان سے باتیں کر رھا تھا۔ جب اُس کے نیچے گیا، ایک آواز آہ و زاری کی سنی۔ سر اُٹھا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا تو کچھ نظر نہ آیا۔ یہ اور اس کے نزدیک گیا تو کیا دیکھتا ھے کہ ایک درخت سایہ دار، عظیم الشان کے تلے ایک سل سنگ مرمر کی دھر ھے اور اس پر ایک نوجوان خوش رو مہر لقا، ژولیدہ مو دبلا پتلا، بیماروں کی سی وضع اس کی ڈالی پکڑے، آنکھیں بند کیے کھڑا ھے۔ دم بدم نعرے مارتا ھے اور یہ مصرع پڑھتا ہے۔

شتاب آ کہ نہیں تاب اب جدائی کی

حاتم اسے دیکھ کر حیران ھوا کہ یہ کیا بھید ھے؛ ٹک آگے بڑھ کر پوچھا کہ اے جوان! اس حالت کو کیوں پہنچا ھے؟ اپنا ماجرا بیان کر۔

وہ آنکھیں بند کیے مراقبے میں تھا، جواب نہ دیا۔ دوبارہ اس


صفحہ ۱۷۷

نے پھر اسے پکارا، وہ کچھ نہ بولا۔ جب تیسری دفعہ یوں کہا کہ اے شخص! معلوم ھوا تو بہرا ھے کہ میں تین مرتبے تجھے پکارا، تو نے جواب نہ دیا؟

یہ بات سنتےھی اس نے آنکھیں کھول دیں اور کہا "اے شخص! تو کون ھے اور کہاں سے آیا؟ مجھ سے کیا کام رکھتا ھے؟"

اس نے کہا "میں بندۂ خدا ھوں، سیر کرتے کرتے یہاں بھی آ نکلا ھوں۔ تو اپنا احوال بیان کر کہ ایسا ھکا بکا کیوں روتا ھے اور یہاں کس واسطے کھڑا ھے؟"

اس نے کہا کہ اے مسافر! تیری طرح سے بہت اشخاص اس راہ سے آئے اور میرے احوال سے واقف ھوئے پر کسی نے میرے درد کا علاج نہ کیا، احوال کہنا کچھ حاصل نہیں، تو اپنی راہ لے، کیوں دکھ دیتا ھے مجھے اور کس واسطے بلا میں ڈالتا ھے۔

حاتم نے کہا "جب کہ احوال تو نے اکثر لوگوں سے کہا، خدا کے واسطے مجھ سے بھی کہہ کہ دل میں میرے یہ آرزو نہ رہ جائے۔"

اس نے کہا کہ تو ایک دم میرے پاس بیٹھ جا، میں ھوش میں آؤں اور اپنا ماجرا بہ خوبی کہہ سناؤں۔

وہ اُس درخت کے تلے بیٹھ گیا۔ جوان کہنے لگا "اے درد مند! میں ستم رسیدہ سوداگر ھوں۔ قافلہ میرا روم کو جاتا تھا اور میں اس کے ساتھ یہاں تک آ پہنچا۔ صبح کو اس سے جدا ھو کر اس پہاڑ پر آیا اور قضاے حاجت سے فارغ ھو کر اس درخت کے تلے آ پہنچا۔ یہاں ایک پری زاد حسین مہ جبین کو دیکھ کر فریفتہ ھوا بلکہ اپنے ھوش و حواس سے ایسا جاتا رھا کہ گر پڑا۔ وہ میرے


صفحہ ۱۷۸

سر کو اپنے زانو پر رکھ کر گلاب چھڑکنے لگی۔ جب میں ھوش میں آیا، اپنے سر کو اس کے زانو پر دیکھ کر خوش ھوا اور ھزار جان سے عاشق ھو گیا۔ جوں توں اُٹھ کھڑا ھوا اور پوچھا میں نے "اے نازنین جان بخش! تو کون ھے اور اس جنگل ویران میں کیا کرتی ھے؟"

اس نے کہا کہ میں پری زاد ھوں اور یہ پہاڑ و قلعہ میرا مکان ھے؛ تجھ سا آدمی چاھتی تھی، سو آج خدا نے ملا دیا۔

یہ دلبری اور دال داری کی باتیں سن کر میں ایسا دیوانہ ھو گیا کہ اپنے مال و متاع اور قافلے کی کچھ مجھ کو سرت نہ رھی۔

اسی طرح سے وہ نازنین چند روز الفت کرتی رھی؛ ندان میرے طائر روح کو اس نے اپنی زلف مشکیں کے دام میں گرفتار کیا۔ غرض تین مہینے تک رات دن میں اس کے ھم صحبت رھا۔ ایک دن میں نے اس سے کہا "اے پری! اس جنگل میں رھنے سے کیا فائدہ؟ شہر میں چلیں اور آرام سے گزران کرین۔"

اس نے کہا کہ اگر تیرا دل یوں ھی چاہتا ھے تو بہتر، میرا گھر یہاں سے بہت نزدیک ھے۔ میں اپنے لوگوں سے ملاقات کر کے رخصت ھو آؤں لیکن خبردار تو میرے آنے تک یہاں سے کہیں نہ جانا۔

میں نے کہا "اچھا! جیا جی چاھے، پر سچ کہہ کب آئے گی؟"

اس نے کہا "سات دن کے بعد، پر تو اگر کہیں جائے گا تو نہایت پشیمان ھو گا۔" اسی حالت سے سات برس ھوئے کہ وہ عہد شکن غارت گر دین و ایمان نہیں آئی اور میں اس کے وعدے پر


صفحہ ۱۷۹

کہیں جا بھی نہیں سکتا، مبادا آ جائے اور یہاں مجھ کو نہ پائے تو خدا جانے کہ میرے حق میں کیا کر بیٹھے اور اتنی طاقت نہیں کہ کہیں جا کر اس کی تلاش کروں۔ قوت میرا درختوں کے پتے ھیں اور پنای اس چشمے کا۔ کیا کروں زمین سخت ھے اور آسمان دور، نہ رھنے کو ٹھاؤں، نہ چلنے کو پاؤں۔ حسب حال میرے یہ شعر ہے :

شعر

جدائی تری کس کو منظور ھے
زمیں سخت اور آسماں دور ھے

یہ احوال سن کر حاتم بہت کڑھا اور آب دیدہ ھو کر کہنے لگا "اے عاشق زار! اگر اس نے تجھے اپنے مکان کا نشان دیا ھے اور نام بتلایا ھے تو مجھ سے بیان کر۔" اس نے کہا "اتنا تو جانتا ھوں کہ اس کے قبایل کوہ القار پر رھتے ھیں پر یہ نہیں معلوم کہ وہ کہاں گئی اور اب کہاں ھے۔"

اُس نے کہا کہ دس بیس قدم میرے سامنے داھنی طرف چلی تھی، پھر نہیں معلوم کہ کس طرف غائب ھو گئی۔

حاتم نے کہا "اگر تم اُس کا عشق رکھتے ھو تو ھمارے ساتھ ھو کر کوہ القا کو چلو، خدا کے فضل سےاُسے ڈھونڈھ نکالیں گئی۔"

جوان نے کہا "اگر معشوقہ یہاں آوے اور مجھے نہ پاوے تو پھر نہ یہ جگہ ھی پاؤں گا اور نہ وھی ھاتھ آوے گی۔ اگر ملاقات ھوتی ھے تو یہیں ھو رھے گی، نہیں تو اس کے انتظار میں اسی مکان میں مر جاؤں گا۔"


صفحہ ۱۸۰

حاتم اس کلام درد آمیر کو سن کر آنسو بھر لایا اور کہنے لگا "اے عزیز! اگر اس کا نام جانتا ھے تو بتلا دے؟"

اس نے کہا "الگن پری کہتے ھیں اس کو۔"

حاتم بولا "اے جوان! خاطر جمع رکھ کہ میں کوہ القا پر جاتا ھوں اور تیری معشوقہ کو ڈھونڈھ کر تجھ تک پہنچا دیتا ھوں اور یا تجھی کو وھاں لے جاتا ھوں۔ لے اب میں اس کا مکان تحقیق کر کے تیرے پاس انھیں پاؤں پر آتا ھوں۔"

وہ بولا "اب تک میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا کہ اپنا کام چھوڑے اور دوسرے کے کام پر کمر باندھے، کیوں باتیں بناتا ھے، جا اپنے کام لگ۔"

حاتم نے کہا "اے عزیز! میں سر ھتیلی پر دھرے پھرتا ھوں کہ خدا کی راہ میں کسی کام آؤے اور جس کو درکار ھو سو لے۔

شعر

جی تلک اپنا میں گنواؤں گا
کام اس کا بجا ھی لاؤں گا

میرے کہنے کو راست جانو اور جھوٹ نہ سمجھو۔"

غرض اس ڈھب کی دو چار باتیں کر کے اُس سے رخصت ھوا اور جس طرف وہ گئی تھی اُس طرف کو چل نکلا۔

تھورے دنوں میں اُس پہاڑ کے عرصے کو طے کر کے اور ایک پہاڑ تک جا پہنچا اور اُس پہاڑ پر چڑھ گیا۔کیا دیکھتا ھے کہ بہت سے درخت میوہ دار لہلہا رھے ھیں اور کتنے پھولوں سے لدے ھیں اور جھوم رھے ھیں اور اس سے آگے ایک جگہ پاکیزہ ستھری صاف نظر آتی ھے۔ وھاں چار درخت بڑے اور گھنے لگے ھوئے ھیں اور ٹھنڈی ھوا چلتی ھے۔ حاتم بہ خواھش تمام اُس


صفحہ ۱۸۱

مکان میں گیا۔ جاتے ھی بے اختیار اس کی آنکھ لگ گئی، سو رھا۔

شام کے وقت چار پری زادیں آئیں اور مسند بچھا کر بیٹھیں اور اُس کو دیکھ کر آپس میں کہنے لگیں کہ یہ کون ھے اور کیوں کر آیا ھے؟ اُس سے پوچھا چاھیے۔ مشورت کر کے اس کے پاس آئیں اور جگا کر کہنے لگیں "اے آدم زاد! تو یہاں کس ڈھب سے آیا اور کس واسطے یہ ارادہ کیا؟"

حاتم اُن کی آواز سن کر چونک پڑا اور اُٹھ کر ادھر اُدھر لگا دیکھنے تو کیا دیکھتا ھے کہ چار پری زادیں جواھر میں لدی ھوئی سرھانے بیٹھی ھیں اور یہی باتیں کر رھیں۔ اُٹھ کھڑا ھوا اور کہنے لگا کہ یہاں مجھ کو میرا خدا لایا ھے؟ میں کوہ القا کی سیر کرنے اور الگن پری کے دیکھنے کو جاتا ھوں۔ سبب اس کا یہ ھے کہ وہ ایک آدمی سے سات روز کا وعدہ کر کے وھاں گئی ھے اور سات برس گزر گئے کہ بے چارہ ایک درخت کے تلے اس کی یاد میں بے قراری سے تڑپ رھا ھے، اور اس کی جان لبوں پر آ رھی ھے۔ میں اس واسطے جاتا ھوں کہ اس کو سمجھاؤں کہ وعدہ کرنا اور اس کا وفا نہ کرنا یہ شیوہ اچھوں کا نہیں ھے۔

اس بات کو سن کر وہ مسکرائیں اور کہنے لگیں کہ الگن پری القا کے پہاڑ کی شہزادی ھے ۔ اور کو ایسی کیا غرض تھی کہ وہ کسی آدمی سے ملنے کا اقرار کرتی؟ معلوم ھوا تو سودائی ھے جو اس پہاڑ کے دیکھنے کا اور اس سے ملنے کا قصد رکھتا ھے۔ قطع نظر اس کےاگر تو وھاں جائے گا تو کب جیتا بچے گا۔

حاتم نے کہا "خیر جو ھونی ھو سو ھو۔ میں وھاں بے گئے نہیں رھتا۔"

اُنھوں نے کہا "اگر صحبت ھماری قبول کرے اور آج


صفحہ ۱۸۲

کا رھنا یہاں غنیمت جانے تو کل ھم تجھے القا کے پہاڑ کی راہ دکھلا دیں گے۔"

اس نے کہا "بہت اچھا، کسی طرح سےیہ کام ھو۔"

غرض وہ اُن کے یہاں مہمان رھا، اور اُس رات کو عیش عشرت میں بسر کیا۔

صبح ھوتے ھی کوہ القا کا رستہ لیا۔ وے اس کے ساتھ ھوئیں اور سات روز تک دن اور رات چلی گئیں۔ آٹھویں دن کسی منزل پر پہنچ کر کہنے لگیں کہ اب اس کے آگے ھم نہیں جا سکتے کیوں کہ یہاں سے آگے ھماری سرحد نہیں۔ چاھیے کہ سیدھا چلا جائے۔ یقین ھے کہ تھوڑے ھی دنوں میں کوہ القا تک پہنچ جائے گا۔

حاتم اُن سے رخصت ھوا اور آگے چلا۔

بعد ایک مہینے کے وھاں جا پہنچا جہاں ایک دوراھا تھا۔ رات کی رات وھیں رھا۔ دو چار گھڑی رات گزرے ایک بستی کی طرف سے گریہ و زاری کی آواز اس کے کان میں پہنچی، وہ چونک کر اُٹھ بیٹھا۔ دھیان اُس پر لگایا اور اپنے جی میں کہتے لگا کہ اے حاتم! تو خدا کی راہ پر کمر باندھے اور اس گریہ و زاری کی آواز سن کر تغافل کرے؟ پس خدا کو کیا جواب دے گا اور تیرا نام دنیا میں کیا خاک رھے گا؟ جس سے بہتر یہ ھے کہ اپنی راحت چھوڑ اور اس مصیبت زدہ کی خبر لے۔ اگر تیرے ھاتھ سے کسی کا کام اور مطلب بر آوے تو باغ جہاں سے بھی بھلائی کا پھل پاوے۔

یہ دھیان کر کے اُٹھا اور تمام رات ادھر اُدھر ڈھونڈھتا پھرا۔ صبح ھوتے ھی جس طرف سے آواز آتی تھی، اُدھر روانہ


صفحہ ۱۸۳

ملوں۔ دو برس سے مانند بگھولے کے چاروں طرف خاک اُڑاتا پھرتا ھوں۔"

حاتم نے کہا "اے جوان میں براے خدا یہ شرطیں پوری کر کے تیری شرطیں پوری کر کے تیری معشوقہ کو تجھ سے ملاؤں گا، یہ بات میری یاد رکھ۔ اور حق تعالٰی نے اسی واسطے مجھے پیدا کیا ھے کہ ھر ایک کے برے وقت میں کام آؤں۔ پھر سوچا کہ گیدڑ میرے زخم کے واسطے پری رو جانور کا مغز دشت ماژندران سے لایا تھا۔ اب مجھ کو بھی ضرور ھوا اور منزل مقصود کو چل نکلا۔

تھوڑی دور جا کر کیا دیکھتا ھے کہ ایک قلعے کی خندق کے گرد بہت سے لکڑیاں جمع کر کے ایک خلقت آگ لگانے کی فکر کر رھی ھے۔ یہ ماجرا دیکھ کر وہ متفکر ھو کے کہنے لگا "یہاں آگ لگانے کا سبب کیا ھے؟ کسی نے کہہ دیا کہ ایک جانوور بہت آفت روز گار کسی طرف سے آتا ھے اور تین چار آدمی کھا جاتا ھے۔ اگر یہی حالت رھی تو تمام شہر ویران ھو جائے گا۔" اس بات کو سن کر وہ اپنے دل میں کہنےلگا کہ اس بلا کو کسی طرح ان غریبوں کے سر سے ٹالا چاہیے۔ یہ سوچ کر کارواں سراے میں آیا اور اُس کے پاس میدان میں بڑا سا گڑھا کھدوایا اور بہت سے سوکھی سوکھی لکڑیوں سے پٹوا کر اس میں جا بیٹھا۔

جب پہر رات گئی تب وہ جانور آتے وقت نظر آیا کہ ایک پہاڑ سا چلا آتا ھے۔ جب نزدیک آیا، حاتم نے پہچانا کہ اس جانور کا نام سمن ھے۔ آٹھ پاؤں اور سات سر رکھتا ھے؛ ایک سر ھاتھی کا سا ھے اور چھ سر شیر کے سے، چناں چہ جو سر کہ ھاتھی کی شکل ھے، اُس میں نو آنکھیں ھیں؟ اگر بیچ کی آنکھ اُس کی کسی


صفحہ ۱۸۴

ضرب سے پھوٹ جائے تو یقین ھے کہ یہاں سے بھاگے، اور پھر کبھی اس طرف کو رخ نہ کرے۔ اتنے میں وہ منہ پھیلائے شہر کی طرف آ پہنچا۔ لوگوں نے دیکھتے ھی قلعے کے گرد آگ بھڑکا دی۔ شعلہ اس کا ایسا بلند ھوا کہ قلعہ نظر آنے سے رہ گیا۔ وہ ادھر اُدھر پھرنے لگا اور ایک آواز اُس ھاتھی کے سر سے ایسی نکلی کہ تمام خلقت وھاں کی تھرتھرا گئی اور ساری زمین تھلک اُٹھی۔ یکایک وہ اجل گرفتہ حاتم کے پاس جا پہنچا کہ اس نے تاک کر ایک تیر ایسا مارا کہ بیچ کی آنکھ میں ترازو ھو گیا۔ وہ نیم بسمل کی طرح خاک پر تڑپنے لگا اور ایسے نعرے مارے کہ تمام جنگل تھر تھرا اُٹھا۔ ندان اٹھ کر ایسا بھاگا کہ پیچھے پھر کر نہ دیکھا۔

حاتم اُس غار سے نکلا اور باقی رات وھیں کاٹی۔ صبح کو رھنے والے اس بستی کے آ کر اس سے پوچھنے لگے "اے عزیز! تو اُس کو دیکھ کر کیوں کر جیتا رھا؟" اُس نے کہا کہ میرے سر پر سایہ خدا کا تھا، اُس نے بچا لیا اور اُس بلا کا نام سمن تھا۔ خدا کے فضل سے میں نےاُسے مارا اور تمھارے سر سے دفع کیا۔ انھوں نھ کہا "یہ بات ھم کیوں کر باور کریں۔"

حاتم بولا کہ آج کی رات تم سب کے سب قلعے کی چھت پر بیٹھ کے جاگو۔ اگر وہ آج کی رات آوے تو مجھ کو جھوٹا جانیو اور نہیں تو سچا۔ اُنھوں نے اس کے کہنے کے بموجب کیا۔ وہ جانور صبح تک نہ آیا، تب وے سب کے سب آ کر حاتم کے پاؤں پر گر پڑے، لاکھوں روپے اور سیکڑوں خوان جواھر کے اس کے آگے دھرے۔ اُس نے کہا کہ میں تن تنہا مسافر غریب اس زر و جواھر کو لے کر کیا کروں گا، بہتر یہی ھے کہ اس کو فقیروں، محتاجوں کو بخشو، خدا کے نزدیک سرخ رو رھو اور


صفحہ ۱۸۵

دنیا میں نیک نام کہلاؤ۔

یہ کہہ کر وھاں سے بھی رخصت ھوا اور کسی طرف کو چلا۔ اتفاقاً ایک دن راہ میں کیا دیکھتا ھے کہ ایک سانپ نیولے سے لڑ رہا ھے۔ قریب ھے کہ کوئی نہ کوئی اُن میں سے مارا جاوے۔ حاتم بولا اور للکار کر دوڑا کہ اے جوانو! تم دونوں میں ایسی کیا دشمنی ھے جو ایسے لڑ رھے ھو اور اپنی جانیں کھوتے ھو۔

سانپ نے کہا کہ اس نے میرے باپ کو مارا ھے، میں اسے ماروں گا۔

نیولا بولا کہ وہ میری خورآک تھا، میں نے کھایا اور اس کو بھی کھاؤں گا۔

حاتم نے کہا"اے نیولے اگر تجھ کو گوشت ھی کھانا منظور ھے تو مجھے کہہ اپنے بدن کا دوں، اور اس سانپ سے کہا کہ اگر تو اپنے باپ کا عوض چاھتا ھے تو مجھے مار کہ میں خدا کی راہ میں ایک مدت سے سر دے چکا ھوں۔" یہ بات سن کر وے دونوں آپس میں لڑائی سے باز رھے۔

پھر نیولے نے کہا "اے شخص تو نے وعدہ کیا تھا اپنے گوشت کے دینے کا۔ اب دے کہ میں کھاؤں اور اپنے گھر چلا جاؤں۔"

حاتم نے کہا کہ جہاں کا گوشت چاھے وھاں کا مانگ لے۔ اس نے کہا کہ اپنے رخسار کا دے۔ حاتم نے خنجر کمر سے کھینچا۔ چاھتا تھا کہ اپنے رخسارے کا گوشت کاٹے، اتنے میں نیولا پکارا "اے جوان مرد! ٹھہر ایسی جلدی مت کر، یہ بات میں نے آزمائش کے لیے کہی تھی۔ آفریں تجھ کو


صفحہ ۱۸۶

اور تیری ماتا پتا کو۔" یہ کہہ کر وہ دونوں انسان کی صورت ھو گئے۔

حاتم نے کہا "اے عزیز! یہ کیا سبب ھے، تم ابھی حیوان کی شکل تھے اور انسان ھو گئے۔

راسو نے کہا کہ ھم دونوں جن کی قوم سے ھیں اور اس کے باپ کو اس واسطے مارا ھے کہ میں اُس کی بیٹی پر عاشق ھوں اور وہ اُس کی شادی میرے ساتھ نہ کرتا تھا اور یہ اُس لڑکی کا بھائی ھے، یہ ویسی ھی حجتیں کرتا ھے، اب اسے بھی مار ڈالوں گا۔

حاتم نے کہا "اے جوان! تو اپنی بہن کی شادی اس کے ساتھ کیوں نہیں کرتا۔"

اُس نے کہا کہ میں اُس کی بہن پر عاشق ھوں، یہ بھی اُس کا میرے ساتھ نہیں بیاہ کرتا، یہ قبول کرے تو میں بھی قبول کروں۔

نیولے نے کہا کہ میرا باپ جیتا ھے۔ وہ راضی نہیں ھوتا، میں اس بات میں لاچار ھوں۔

حاتم نے کہا کہ اپنے باپ کے پاس مجھے لے چل، میں اُسے سمجھا بجھا کر راضی کروں گا۔

غرض وے دونوں جن اور حاتم روانہ ھوئے۔

تھوڑی دور جا کر نیولے نے کہا کہ میں اپنے محل میں جاتا ھوں، تو شہر میں آ، یقین ھے کہ وھاں کے لوگ تجھے پکڑ کر میرے باپ کے پاس لے آئیں گے، وھاں جیسی بنے ویسی کیجیو۔


صفحہ ۱۸۷

حاتم نے اس کے کہنے پر عمل کیا؛ چناں چہ جن اس کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے کہ نام اُس بادشاہ کا ھیوز تھا۔

بادشاہ نے کہا "اے آدم زاد! تو ھمارے شہر میں کیوں آیا ھے؟ بتلا۔"

وہ بولا کہ میں بندۂ خدا ھوں اور تیرے بھلے کو آیا ھوں۔

بادشاہ نے کہا "اے شخص تو کیوں کر جن کی قوم سے نیکی کرے گا۔"

حاتم نے کہا "خیر معلوم ھوا کہ تو اپنے بیٹے کی زندگی سے سیر ھو چکا ھے جو ایسا غافل ھے۔"

اس بات کو سنتے ھی اُس نے کہا "اے عزیز کیا کہتا ھے۔ میں نے اس عمر میں یہی ایک لڑکا پایا ھے، میں تو اپنی جان سے بھی اُس کو بہتر جانتا ھوں اور عزیز رکھتا ھوں۔"

حاتم نے کہا کہ اگر اُس کی زندگی چاھتا ھے تو میرا کہا مان، نہیں تو یہ آج کل مارا جاتا ھے۔

اُس نے کہا "اے دوست ایک رنگ! رحمت تجھ کو کہ تو نے مجھ پر بڑا احسان کیا اور کرتا ھے۔ بارے اس بھید کو ظاھر کر۔"

وہ بولا کہ تیرے بیٹے نے کسی کے باپ کو مار ڈالا ھے۔ وہ اس کو مارا چاہتا ھے۔ آج میں نے اس کو اور اُس کو ایک جنگل میں لڑتے دیکھا تھا بلکہ قریب تھا کہ اس کی جان جائے۔ میں نے بزور اس کو اُس کے ھاتھ سے چھوڑایا، لیکن ایک نہ ایک دن مارا ھی جاوے گا۔ کیوں کہ یہ اُس کی بہن پر عاشق


صفحہ ۱۸۸

ھے اور وہ اس کی بہن پر فریفتہ۔ بہتر یہی ھے کہ تو دونوں کی شادی کر دے کہ آپس میں صلاح ھو جائے۔

ھیوز نے یہ بات حاتم کی پسند کر کے اُسی وقت اپنیلڑکی کو اُسے بیاہ دیا اور اُس کی بہن کو اپنے بیٹے سے منسوب کی۔ جب وہ ھر ایک اپنی اپنی مراد کو پہنچا، تب حاتم ھیوز بادشاہ سے رخصت ھونے لگا۔

اُس نے کہا "اے جوان! ان نیکی کے بدلے کچھ مجھ سے زر و جواھر لے۔"

اُس نے کہا "عوض لینا میرا کام نہیں۔"

اُس نے پھر بہ منت کہا کہ اگر تو مال و متاع نہیں لیتا تو یہ عصا میرا لے کہ اس میں کئی خواص ھیں : اگر سانپ اور بچھو کاٹیں تو زھر اثر نہ کرے اور نہ سوزش ھو، اگر اُس کے تلے سو رھے تو آگ سے نہ جلے، اور اگر کوئی جادو کرے تو وہ بھی اُس کے رکھنے والے کا کچھ نہ کر سکے اور اگر دریا راہ میں حائل ھو تو اُس میں اُس کو ڈال دے، بہ بطور کشتی کے ھو جائے اور بیڑا پار کر دے اور ایک مہرہ دیتا ھوں، وہ بھی اپنے پاس رکھ۔ اُس کے یہ خواص ھین کہ اگر راہ میں سیاہ یا سفید سانپ ملے تو اُس وقت اس کو اپنے منہ میں رکھ لیجو اور بے دھشت رھیو، ھرگز کسی کا زھر اثر نہ کرے گا۔

حاتم نے اُن دونوں کو لے لیا اور اُس سے رخصت ھوا اور رات دن سوائے چلنے کےکچھ کام نہ کیا۔

بعد کئی منزلوں کےایک دریائے عظیم ایسا دکھلائی دیا کہ لہر اُس کی آسمان پر جاتی تھی۔ متفکر ھو کر چاروں طرف نگاہ کی، کسی کو آتے جاتے نہ دیکھا۔ اتنے میں ھیوز کے عصا کا خواص


صفحہ ۱۸۹

یاد پڑا۔ اُس وقت اُس نے اُسے دریا میں ڈال دیا، وہ بطور کشتی کے ھو گیا۔ یہ اُس پر سوار ھو کر چل نکلا۔ جب بیچوں بیچ مانجھ دھار میں پہنچا، تب ایک گھڑیال اُس دریا سے نکلا اور اُس کو کھینچ کر لے گیا اور سات کوس تک نیچے ھی چلا گیا، کہیں دم نہ لیا۔ جب اُس کا پاؤں تہہ پر لگا، تب اُس نے آنکھیں کھول کر جو دیکھا تو ایک گھڑیال مانند پہاڑ کی نظر پڑا، یہ گھبرایا۔

وہ عاجزی سے مانند فریادیوں کے عرض کرنے لگا کہ اے جوان! یہ میرا مکا ھے، اُس کو کیکڑے نے بہ زبردستی چھین لیا ھے۔ اُمیدوار اس بات کا ھوں کہ تو دلا دے۔

حاتم نے کہا کہ معلوم ھوتا ھے کہ وہ تجھ سے نہایت زبردست ھے اور تو کمزور۔

گھڑیال بولا "یہ ستم رسیدہ کیا کہے، تم دیکھو گے تو معلوم کرو گے۔ حق تو یہ ھی ھے کہ اگر وہ چاھے تو اپنے نیش کے مقراض سے پکڑ کر دو ٹکڑے کر ڈالے، اس وقت چرائی کو گیا ھے، ھوتا تو دیکھتے۔"

یہ اسی گفتگو میں تھے کہ وہ منہ پھیلائے آ پہنچا۔ گھڑیال ڈر کر حاتم کے پیچھے جا چھپا اور وہ حاتم کو بطور قلعے کے دکھلائی دیا؛ چناں چہ ایک طرف کا نیش اُ کا مغرب کو پہنچا تھا، دوسری طرف کا مشرق کو۔ اتنے میں نظر کیکڑے کی جو گھڑیال پر جا پڑی، ایک ایسا نعرہ مارا کہ وہ مانند بید کے کانپنے لگا، اور حاتم بھی آگا پیچھا کرنے کہ الٰہی اس بلا سے کیوں کر نجات پاؤں گا۔ یہ دل میں کہا اور عصا ھیوز کا ھاتھ میں لے کر اُٹھ کھڑا ھوا۔ کیکڑا اُس کو دیکھ کر جہاں کا تہاں رہ گیا۔

اتنے میں حاتم نے بہ آواز بلند کہا کہ اے بندۂ خدا! کسی


صفحہ ۱۹۰

کو دکھ دینا اچھا نہیں، بلکہ جو کوئی کسی کو ستاتا ھے، سو اپنے حق میں آپ ھی کانٹے بوتا ھے۔ تو کس لیے اس غریب کو دکھ دیتا ھے۔ کیا تیرے رھنے کو سوائے اس مکان کے اور کہیں جا نہیں ملتی جو تو رھے؟

اس بات کو سن کر سرطان نے کہا کہ ھم دونوں یہاں کے رھنے والے ھیں، آپس میں سمجھ لیں گے؛ آدمی کو کیا دخل ھے جو ھمارے درمیان میں بولے۔

حاتم نے کہا "یہ تو سچ کہتا ھے پر جس نے کہ اٹھارہ ھزار خلقت کو پیدا کیا ھے، کسی کوتری میں رکھا ھے اور کسی کو خشکی میں، سبھی بندے خدا کے ھیں۔ وہ پاک پروردگار نہیں چاھتا ھے کہ کوئی بندہ میرا کسی کے ھاتھ ستایا جائے۔"

سرطان نے کہا کہ خیر اب تو میں اسے تیرے کہنے سے چھوڑ دیتا ھوں پر پھر یہ تجھے کہاں سے پاوے گا جو حمایتی بنا کر لاوے گا۔ اس کو آخر اسی میں رھنا ھے اور مجھ کو بھی، یہ وھی مثل ھوئی "دریا میں رھنا اور مگر مچھ سے بیر۔"

حاتم نے کہا "اے کافر! معلوم ھوا کہ تو کسی پر رحم نہیں کرتا ھے، نہ خدا سے ڈرتا ھے، خیر اب بھی کچھ نہیں گیا، اگر اپنی زندگی چاھتا ھے تو ایذا دینے سے باز آ اور اس جگہ کو چھوڑ دے، نہیں تو ابھی دھجیاں کر کے اُڑا دیتا ھوں۔"

اس بات کو سن کر سرطان ھنسا اور کہنے لگا کہ اس ضد پر تو میں ھرگز اسے نہ چھوڑوں گا بلکہ تجھے بھی۔ یہ کہہ کر چاھتا تھا کہ اپنے نیش سے پکڑ کر حاتم کو دو ٹکڑے کر ڈالے، اتنے میں ھیوز بادشاہ کا عصا اُس نے اس زور سے مارا کہ دونوں ٹکڑے اُس کی نیش کے کھیرے کی طرح سے کٹ کے زمین
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صفحہ 46-50
------------
صفحہ 46 - ریختہ
------------

مسند شاہانہ پر آبیٹھا اور خواجہ سرا زرو جواہر کی کشتیاں
اس کے آگے لے آئے ۔ اس نے ہر گز کسی کشتی کو قبول نہ
کیا بلکہ کہا کہ یہ اسباب میرے کس کام کا ۔پھر وے اندر
گئے اور کئی خوان پوشاک لے کے آئے ۔اس نے ان کو بھی
پسند نہ کیا ۔ پھر محل میں گئے اور بہت سے خوان شیرینی اور
میوے کے لے آئے اور ایک دستر خوان پاکیزه اور کلاں بچھا کر
اس پر چننے لگے ۔ وہ ہر ایک خوان سونے روپے ہی کے باسنوں
سے بھرا تھا اور کھانے اقسام اقسام کے ان میں دھرے تھے اور
فرش فروش بادشاہوں سے بھی عمدہ اور زربفت کے پردے
کلابتوں کی ڈوریوں سے اس دالان کے دروں پر بندھے تھے ۔ اور
ایک نمگیرا بھی الماس تراش استادوں پر اس کے آگے جھمجھماتا
تھا، ، اور خوجے لباس زریں سے سجے سجائے ، چالاک و چست
جڑاؤ سونے روپے کے سیلپچی آفتابے لے آئے اور ہاتھ دھلوا کر
امید وار اس بات کی ہے کہ خدا وند کچھ تناول کریں ۔
اس بات کو سن کر وہ مکار کھانا کھانے لگا اور اس
سونے روپے کے اسباب کو بھانپنے۔اور ہر ہر نوالے پر اپنے جی
میں یہی کہتا تھا کہ بر زخ سوداگر کوئی بڑا ہی مالدار و
عمدہ تھا جو اس قدر مال و اسباب بطور بادشاہوں کے اپنے گھر
میں چھوڑ گیا ؛ چاہیئے یوں کہ کہ اس سب کو آج ہی کی رات کسی
طرح اپنے گھر لے جائے اور غنیمت سمجھے ۔
اس اندیشے میں ا س ملعون نے کھانے کو تھوڑا بہت
زہر مار کر کے ہاتھ کھینچا ۔ پھر وہ خواص سب کے سب
جڑاؤ عطر دان لے آئے ۔ اس نے وہ عطر اپنی ڈاڑھی اور پوشاک
میں ملا اور وہ ہر ایک باسن مینے کاری کا اٹکلا ، ظاہر میں
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
صفحہ 46-50
------------
صفحہ 47 - ریختہ
------------

حسن بانو کو دعائیں دے دے کر رخصت ہوا۔
اتنے میں رات ہو گئی ۔ اور اس کے لوگ تمام دن اس کم بخت
کی ضیافت کے کام و کاج سے تھک رہے تھے ، رات کے ہوتے ہی
بے اختیار پاؤں پھیلا پھیلا کے سو رہے ؛ نہ انہوں نے دروازے
کوٹھوں کے بند کیے ، نہ اس اسباب و جواہر کو ٹھاکنے سے
رکھا ۔
بود دو پہر رات کے وہ ڈکیت ۔ انسان صورت ، شیطان خصلت
اپنے انہی چالیس چوروں کے ساتھ اس کے حویلی میں آپڑا
اور تمام زرو جواہر مال و متاع غارت کر نے لگا ۔ اس عرصے
میں جو تھوڑے بہت لوگ جاگ اٹھے ، اس ظالموں کے ہاتھ سے
زخمی ہوئے اور کچھ مارے پڑے ۔
حسن بانو اپنے کوٹھے کی کھڑکی سے جھانک جھانک کے
دیکھتی تھی اور ان کو پہچان پہچان کر ہاتھ مل مل کے کہتی
تھی کہ افسوس یہ موا تو وہی خانہ خراب درویش ہے اور اس
کے ساتھی ۔ اس کا علاج کوئی کیا کرے ۔
غرض رات جوں توں اسی پچتاوے میں کاٹی ، پر صبح
کو چرپائیوں پر ان مردوں اور ان زخمیوں کو ڈلوا کر بادشاہ
کے در دولت پر لے گئی ؛ بطور فریادیوں کے جا کھڑی ہوئی اور
یہ آواز بلند دوہائی دے دے کر کہنے لگی کہ میں لوٹی گئی ۔
بادشاہ نے پوچھا یہ کون ہے اور کس کے ظلم سے
ایسی بلبلا رہی ہے ؟
خبرداروں نے عرض کی " اے خداوند ! برزخ سوداگر کی
بیٹی دو چار چرپائیوں پر کئی مردے اور کئی زخمی لائی ہے
اور رو رو کر عرض کرتی ہے کہ اگر جہاں پناہ اپنی مہربانی
سے نزدیک بلواویں تو یہ لونڈی کچھ احوال اپنی واردات کا حضور
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صفحہ 46-50
------------
صفحہ 48 - ریختہ
------------

میں ظاہر کرے ۔
اس بات کو سنتے ہی بادشاہ نے اسے بلوا لیا اور احوال
پوچھا ۔
اس نے مجرا کر کے کہا کہ عمر دولت خداوند کی بڑھے
اور مہر انصآف ، سپہر حق پرستی پر تا قیامت جلوہ گر رہے !
کل لونڈی نے اس فقیر کی مہمانی کی تھی ، سو اس نے یہ غضب
میرے سر پر ڈالا کہ پہر رات گئے اپنے چالیس چوروں کے ساتھ
آکر مجھ غریب بے کس کے گھر کو لوٹا ؛ دس بیس کو زخمی
کیا ۔ دو چار کو مار ڈالا اور گیارہ بارہ لاکھ روپے کے قریب
زرو جواہر اور نقد و اسباب لے گیا ۔ خدا اس کا منہ کالا کرے
کہ اس قدر ظلم و ستم اس نے اس عاجز پر کیا ۔
اس سخن کے سنتے ہی بادشاہ آگ ہو گیا اور کہنے لگا
" اے نادان ! مت کھوٹی ! تجھے کچھ بھی شعور ہے جو ایسے ولی
کو تہمت لگاتی ہے ۔ وہ تمام جہان کی چیزوں سے نفرت
رکھتا ہے۔"
حسن بانو نے پھر عرض کی کہ اے حضرت ! ایسے کافر
کو ولی نہ کہیے ۔ یہ تو شیطنت میں شیطان سے بھی زیادہ ہے ،
آپ کیا ارشاد کرتے ہیں ۔

بیت

اس کو کس طرح سے کہیں انسان
ہے یہ ملعون ، زادۂ شیطان

اس بات چیت کے سنتے ہی وہ اور بھی غضب ہوا اور
تاؤ پیچ کھا کر کہنے لگا " ارے کوئی ہے ! اس بد بخت لڑکی
کو میرے سامنے ہی سنگسار کرے کہ یہ اپنی سزا کو پہنچے
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ ۲۳۱

اُس نے کہا کہ میں کسی صورت سے ان کا احوال دریافت کروں۔
خواجہ نے فرمایا کہ یہ سردار شام احمر جادو کی بیٹی ہے اور اس مکان کا نام کوہ احمر ہے۔ ایک دن اس لڑکی نے اپنے باپ سے خاوند کرنے کا ذکر کیا تھا کہ بابا جان! اب میں جوان ہوئی ہوں، میری شادی کر دو۔ اس بات کو سن کر وہ غضب ہوا اور اس لڑکی کو اُس روز سے اس طلسم کے دریا میں ڈال دیا ہے۔ اور یہ تالاب اور درخت جادو کا ہے اور یہ سر جو سب سروں کے اوپر لٹکتا ہے ، اسی کی لڑکی کا ہے۔ اس کا نام ملکہ زریں پوش ہے۔ اور کوہ جادو یہاں سے تین سو کوس ہے، پر یہ جادو کے زور سے ایک ہی دن میں وہاں جا سکتی ہیں او ر شام احمر جادو جب تک جیتا رہے گا تب تک اس کو نہ بیاہے گا، اور یہ بھی تب تک اسی حالت میں گرفتار رہے گی ، کسی کے ہاتھ نہ لگے گی۔
یہ سن کر حاتم نے کہا کہ معلوم ہوا کہ میری قسمت میں اسی جگہ مرنا لکھا ہے جو خدا نے مجھ کو یہاں پہنچایا اور شام احمر جادو کے جادو میں پھنسایا۔
حضرت خواجہ خضر نے کہا کہ جو تو اس کی بیٹی کی چاہ رکھتا ہے تو آپ سے آ پ اپنے تئیں بلا میں ڈالتا ہے، جس سے بہتر یہی ہے کہ اس کا خیال چھوڑ دے۔
حاتم نے کہا کہ میں جان سے ہاتھ دھو چکا ہوں ، جو ہونی ہو سو ہو۔ جب تک یہ نازنین میرے ہاتھ نہ لگے گی تب تک میں اس بات سے باز نہ آؤں گا۔
خواجہ خضر نے کہا کہ اے جوان ! آخر تیری آرزو

صفحہ ۲۳۲

کیا ہے ؟
اس نے کہا ”پیر مرشد! مطلب میرا یہ ہے کہ اس درخت پر چڑھوں اور ان کے برابر پہنچ کر ہم کلام ہوں۔“
حضرت نے فرمایا کہ اے عزیز! دیدہ و دانستہ اپنے تئیں بلا میں ڈالنے سے کیا فایدہ ، باز آ۔
حاتم نے عرض کی کہ نفع مجھ کو اسی میں ہے کہ ایک دم اُن سے جدا نہ ہوں ، اور جو روز ازل سے میری قسمت میں یہ مصیبت و پریشانی لکھنے والے نے لکھ دی ہے تو سکھ کہاں سے پاؤں گا۔
اس بات کو سن کر حضر ت خواجہ خضر نے اپنا عصا اُس درخت پر مارا اور اسم اعظم پڑھ کر فرمایا کہ لے اب اس درخت پر چڑھ جا۔ یہ کہہ کر آپ اس کی نظروں سے غائب ہو گئے۔
حاتم وہیں درخت پر چڑھ گیا۔ جب اُس نازنین کے سر کے برابر پہنچا تب اُس کا سر بھی اُنہیں سروں کے برابر لٹکنے لگا اور تن تالا ب میں گر کر ڈو ب گیا ۔ آسمان سے ایک غوغا اُٹھا اور ایک شور زمین سے بلند ہوا۔
جب آفتاب چھپا اور رات ہو گئی، وے سر سب کے سب حاتم کے سر سمیت اُس تالاب میں گر پڑے اور بدستور سابق جسم پکڑ کر ، جمع ہو کے کاروبار کرنے لگے ، پھر ملکہ بھی تخت پر آ بیٹھی اور حاتم ہاتھ باندھ کر تخت کے ایک کونے سے لگ کر کھڑا ہو رہا، پر بے ہوش تھا۔ یہ نہ جانتا تھا کہ میں کہاں آیا ہوں اور کہاں تھا اور اب کہاں جاؤں گا۔
اتنے میں ملکہ زریں پوش نے کہا کہ اے جوان! سچ کہہ

صفحہ ۲۳۳
کہ تو کون ہے اور کیا نام رکھتا ہے اور کہاں سے آیا ہے؟
اس نے کہا کہ میں بھی ایک تیرے خادموں سے ہوں اور اسی تالاب سے نکلا ہوں ۔
اُس نے اس کے فحوائے کلام سے معلوم کیا کہ یہ مجھ پر عاشق ہوا ہے۔ اس بات کو سمجھ کر کچھ نہ بولی اور ناچ رنگ میں مشغول ہوئی ۔ جب آدھی رات گئی تب ایک ستر خوان عالی شان بچھایا اور کھانے ہر ایک طرح کے مزے دار نمکین و شیریں اور میوے رنگ برنگ کے اُس پر چن دیے۔
شہزادی نے حاتم کو اپنے پاس بٹھلا لیا اور ستھرے ستھرے کھانے اس کے آگے رکھ دیے اور نہایت مہربانی و دل جوئی سے کہا کہ اے جوان! کچھ کھا، پانی پی۔
حاتم کھانا کھانے لگا، پر بے خبر تھا کہ میں کون ہوں او ر کس واسطے آیا ہوں اور کہاں جاؤں گا؟ جب کھانے سے فارغ ہوئے ، ناچ راگ پھر ہونے لگا اور رات بھر یہی عالم رہا۔
جب صبح ہوئی ، سب سر حاتم کے سر سمیت اُس درخت کی ڈالیوں پر پھر اُسی صورت جا لٹکے اور دھڑ اُن کے تالا ب میں غرق ہو گئے۔
اسی طرح سے کئی روز گزرے۔ ایک دن حضرت خواجہ خضر پھر اس کی مدد کو پہنچے اور اس کے سر کو اپنے عصا سے اتارا اور دھڑ کو تالاب سے نکالا؛ پھر یہاں تک اسم اعظم پڑھا کہ اُس کے تن بے جان میں جان آئی اور جادو دور ہو گیا۔
اُس نے آنکھیں کھول کر دیکھا کہ وہی مرد بزرگ ہاتھ میں عصا لیے سرہانے کھڑا ہے، یہ اُٹھ کھڑا ہوا، اُن کے پاؤں میں

صفحہ ۲۳۴
گر پڑا اور کہنےلگا کہ حضرت سلامت ! اس حالت میں تم مجھے گرفتار دیکھتے ہو اور کچھ غور نہیں کرتے ۔
اُنہوں نے کہا ”اے جوان! تو اب تک کہاں تھا ؟“
وہ بولا کہ میں اس درخت پر اُس سروچمن ِ ناز کے تماشے میں مشغول تھا۔
خواجہ علیہ السلام نے پوچھا کہ اب بھی اُس نازنین کی آرزو تیرے دل میں ہے؟
اُس نے کہا کہ از برائے خدا اتنی دست گیری کرو کہ میں اپنی مراد کو پہنچوں ، نہیں تو اسی بلا میں گرفتار رہوں گا بلکہ مر جاؤں گا۔
خواجہ خضر نے کہا کہ جب تک اس کا باپ نہ مارا جائے گا تب تک اس گل خوبی کو کوئی نہ پاوے گا، کیوں کہ وہ جادوگر ہے ، اُس نے اس کو جادو میں گرفتار کر رکھا ہے۔ اور اُس کا یہ طور ہے کہ جو کچھ میں کہوں تو اس کو بجا لائے۔
اس نے عرض کی ”میں آپ کے حکم سے باہر نہیں اور نہ ہوں گا۔“
یہ سن کر اُنہوں نے فرمایا کہ میں تجھے اسم اعظم سکھلا دیتا ہوں ۔ چاہیے یوں کہ تو احتیاط سے رہے اور ناپاکی سے اپنے تئیں بچائے؛ جھوٹ نہ بولے، ہر روز نہایا کرے، تمام دن روزے سے رہے۔
اُس نے یہ سب باتیں قبول کیں، تب اُنہوں نے اسم اعظم سکھلا کر کہا کہ اب اُس پہاڑ کی طرف جا، کچھ اندیشہ جی میں نہ لا۔

صفحہ ۲۳۵
وہ بولا کہ میں کوہ احمر پر کیوں کر جاؤں؟
خواجہ نے کہا کہ تو میرا عصاپکڑ اور آنکھیں اپنی بند کر ۔ اُس نے اُنہیں کے کہنے کے بہ موجب کیا۔ بعد ایک دم کے پاؤں اس کا زمین پر جا لگا؛ آنکھیں کھول کر جو دیکھا تو کوئی چیز نظر نہ پڑی ، مگر ایک پہاڑ عظیم الشان دکھائی دیا اور اس پر لالہ بے موسم پھولا ہوا، نہایت خوش ہوا، اور اس پر چڑھنے لگا۔
قدم کے رکھتے ہی وہاں کےپتھرو ں نے اس کے پاؤں ایسے پکڑے کہ پھر اٹھانا محال ہو گیا۔ جب نہایت عاجز ہوا، دل میں کہنے لگا اب اسم اعظم پڑھا چاھیے۔ پڑھتے ہی اس کے پاؤں پتھر سے چھٹ گئے ، تب اس نے معلوم کیا کہ کوہ احمر یہی ہے۔ پھر تو ااسم پڑھتا ہوا چڑھ گیا۔
اتنے میں ایک میدان پر فضا نظر آیا۔ آگے بڑھا ایک چشمہ پانی کا نہایت شفاف و صاف دکھلائی دیا؛ گرد اس کے بہت سے درخت میوہ دار کہ کبھی دیکھنے میں نہ آئے تھے، نظر پڑے ۔ حاتم نے کپڑے اتار کر اُس میں غسل کیا، پھر لباس پاکیزہ پہن کراسم اعظم پڑھنے لگا؛ اُس کی برکت سے تمام جانور جادو کے ، کیا درندے کیا گزندے ، بھاگ گئے۔
یہ خبر شام احمر کو پہنچی کہ جانور سب کے سب بھاگے ہوئے چلے آتے ہیں۔ اُس نے نجوم کی کتا ب دیکھی۔ معلوم کیا کہ ایک دن حاتم طائی اس پہاڑ پر آئے گا اور تمام جادو ہمارا باطل کرے گا، یہ وہی ہے جو وہاں چشمے پر بیٹھا ہوا اسم اعظم پڑھتا ہے اور کوئی سحر اس اسم کے پڑھنے والے کو اثر نہیں کرتا۔ کیا تدبیر کیجیے کہ وہ اسم بھول جاوے۔ یہ سوچ کر ایک منتر پڑھا اور چاروں طرف پھونکا کہ ایک غٹ کا غٹ

صفحہ ۲۳۶
پریوں کا نمودار ہوا؛ اُن میں ایک پری ملکہ زریں پوش کی صورت تھی، صراحی اور پیالا ہاتھ میں لیے ہوئے دکھلائی دی۔
شام احمر نے کہا کہ تم جاؤ، حاتم کو شراب کا پیالا پلا کر تمام کرو۔
وہ صورت سب پریوں سمیت اُس چشمے پر جا پہنچی ۔ حاتم دیکھ کر حیران ہوا کہ یہ سب تو درخت میں لٹکتی تھیں ، یہاں کیوں کر آئیں۔ پھر دل میں سوچا کہ یہ اس کے باپ کا مکان ہے، آ نکلی ہو۔
اتنے میں صورت ملکہ زریں پوش کی حاتم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اے حاتم ! تو نے بہت سے رنج و تعب کھینچے ہیں، آج میرے باپ نے مجھے اس باغ کی سیر کو بلوا لیا ہے، میں تجھے دیکھ کر نہایت خوش ہوئی۔ یہ بات کہہ کر اُس کے پہلو سے لگ بیٹھی او ر شراب کی صراحی سے پیالا بھر کر اس کے ہاتھ میں دیا۔ حاتم نے پیالا اُس سے لے کر دل میں کہا کہ معشوق کی صحبت غنیمت ہے، ہاتھ سے نہ دیا چاہیے۔ آخر منہ سے لگا دیا۔ وہ محبوبہ وہیں سیاہ دیو ہو کر حاتم کو باندھ کے شام احمر جادو کے پاس لے گئی۔
اُس نے اُس کو دیکھتے ہی سر نیچا کر لیا اور دل میں کہا کہ ایسے جوا ن کو مارنا محض نادانی ہے لیکن یہ دشمن ہے، اسے کچھ سزا دیا چاہیے۔ نوکروں کو فرمایا کہ اس کو چاہ آتشیں میں ڈال دو۔ اُس کے چاکروں نے حاتم کو اُسی وقت کوئیں میں ڈال دیا او ر ہزار منی ایک سل لوہے کی لال کر کے اُس کے منہ پر ڈھانک دی۔
غرض حاتم غلطاں و پیچاں چلا جاتا تھا لیکن وہ مہر ہ

صفحہ ۲۳۷
خرس کی بیٹی کا جو اُس کے منہ میں تھا، کوئیں میں سل سمیت دم بہ دم سرد ہوتا جاتا تھا۔
القصہ شام احمر کے لوگوں نے خبر کی کہ حاتم چاہ آتشیں میں جل کر خاک سیاہ ہو گیا، تب اُس نے نجوم کی کتا ب دیکھ کر معلوم کیا کہ یہ جھوٹ کہتے ہیں۔ حاتم ایک مہرے کے سبب سے صحیح و سلامت ہے، اس کو تو آنچ بھی نہیں لگی۔ پھر سوچنے لگا کہ وہ مہر ہ کسی طرح اس سے لیا چاہیے۔ جب تک وہ اُس کے پاس ہے کوئی آفت اُسے نہ پہنچے گی۔ پر مشکل یہ ہے کہ وہ بہ زور ہاتھ نہیں لگ سکتا مگر وہ آپ سے دے تو ہاتھ لگے۔
یہ اندیشہ کر کے تابع داروں سے کہا کہ جلد اُسے کوئیں سے نکال کر اُسی چشمے پر لے جاویں ۔ بہ موجب حکم کے اُس کو وہیں پہنچا آئے۔
حاتم نے آتے ہی غسل کیا اور اُسی چشمے کے کنارے بیٹھ کر سجدۂ شکر بجا لایا۔ اور شام احمر جادو نے منتر پڑھنا شروع کیا؛ بعد ایک ساعت کے وہی نازنین ملکہ زریں پوش کی صورت سمیت حاتم کے سامنے آئی۔ اُس ملکہ زریں پوش کی شکل نے آگے قدم بڑھا کر حاتم سے کہا: ”اے یارغم گسار! اب میں تیرے پاس نہ بیٹھوں گی ، دور ہی سے دیدار دیکھوں گی ، کیوں کہ اس روز جو میں تیرے پاس بیٹھی تھی، میرے باپ نے سیاہ دیو کو بھیج کر تجھے پکڑوا منگوایا تھا؛ خدا نے تجھے اس بلا سے نجات دی؛ مبادا میں تیرے پاس بیٹھوں او ر بابا جان سننے پاویں تو پھر تجھ سے ویسا ہی سلوک کریں گے۔“
حاتم نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا، تب وہ

صفحہ ۲۳۸
نازنین ناز و ادا سے کہنے لگی کہ اے حاتم ! تو مجھے سچ مچ چاہتا ہے؟
اُس نے کہا کہ جان و دل سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہوں ۔
تب وہ بولی کہ ایک چیز میں تجھ سے مانگوں ، اگر دیوے تو جانوں۔
اُس نے کہا کہ وہ کون سی چیز ہے ، میں تو مفلس ہوں، زروجواہر کچھ اپنے پاس نہیں رکھتا۔
یہ سن کر وہ کہنے لگی کہ میں اس خرس کی بیٹی کا مہرہ چاہتی ہوں ، زروجواہر کی خواہش نہیں رکھتی۔
حاتم نے کہا کہ تم نے کیوں کر جانا کہ وہ مہرہ میرے پاس ہے؟
وہ بولی کہ میرے باپ نے نجوم کی رو سے بتایا ہے۔
حاتم نے کہا کہ وہ مہرہ دوست سے زیادہ عزیز نہیں۔ چاہتا تھا کہ نکال کر اس کے حوالے کرے کہ ایک پیر مرد نے داہنی طرف سے ڈانٹا کہ اے نادان! کیا کرتا ہے۔ مہرہ دے گا تو نہایت پشیمان ہو گا، بلکہ جان سے بھی جاتا رہے گا۔
یہ بات سن کر حاتم نے کہا ”اے بزرگ! تو کون ہے جو کارخیر سے باز رکھتا ہے؟ مہرہ میرے کس کام آوے گا جو محبوبہ کو نہ دوں ۔ مثل مشہور ہے پھول وہی ہیں جو مہیشر چڑھیں۔“
اس نے کہا کہ میں وہی مرد ہوں کہ جس نے تجھے

صفحہ ۲۳۹
اسم اعظم سکھایا تھا۔
حاتم اُٹھ کر اُن کے پاؤں پر گر پڑا اور کہنے لگا کہ یا حضرت! میں جس نازنین کو چاہتا تھا، آپ کے توجہ سے ہاتھ لگی۔
حضرت نے فرمایا کہ اے نادان! یہ کیا کہتا ہے۔ ہرگز اس بات کا خیال اپنے دل میں نہ لا۔ یہ ملکہ زریں پوش نہیں نادان مت ہو؛ یہ تصویر جادو کی ہے۔ پہلے اس کو شام احمر جادو نے تیرے پاس ملکہ کی شکل بنا کر بھیجا تھا اور اسی کے ہاتھ سے جادو کی شراب کا پیالا پلوا کر تجھے چاہ آتشیں میں ڈلوایا تھا، بہ دولت اس مہرے کے تو جیتا بچا۔ اور یہ صورتیں جو تیرے پاس آئی ہیں۔ صرف جادو کی ہیں، اسم اعظم پڑھ، اگر ملکہ زریں پوش ہے تو بیٹھی رہے گی اور اگر جادو کی تصویر ہے تو جل جائے گی۔
حاتم نے اُن کے قدم چوم لیے اور تالاب سے منہ ہاتھ دھو کر، کلی کر کے جوں ہی اسم اعظم پڑھنا شروع کیا، وہیں اُس جماعت کا رنگ متغیر ہونے لگا اور بدن تھرتھرانے اور ملکہ کی تصویر بھی کانپنے لگی ۔ آخر ہر ایک کے سر پر ایک شعلہ پیدا ہوا کہ وہ شمع کی طرح جلنے لگیں؛ بعد ایک دم کے سب کی سب جل کر راکھ ہو گئیں۔ حاتم افسوس کرنے لگا کہ یہ تصویر ہی مجھ کو غنیمت تھی؛ اُس کی جگہ میں اس کو دیکھ کر اپنے دل بے قرار کو تسکین دیتا تھا۔ اب کس طرح سے صبر کروں گا اور کیوں کر جی کو تھانبوں گا، سوائے رونے کرکچھ چارہ نہیں۔ آخر بے اختیار ہو کر رونے لگا۔
اتنے میں یہ خبر شام احمر جادو کو پہنچی کہ وہ سب

صفحہ ۲۴۰
صورتیں جادو کی جل کر خاک ہو گئیں۔ اس بات کے سنتے ہی اُس نے جادو کے زور سے شیطان کو بلوایا اور نہایت تعظیم و تکریم کر کے اپنے پاس بٹھلایا اور کہا کہ میں حاتم کے ہاتھ سے نہایت عاجز ہوں ، کچھ بن نہیں پڑتی ، کیا کروں ؟
ابلیس نے کہا کہ اے شام احمر! ابھی اُس کی عمر بہت باقی ہے۔ وہ کب کسی کے ہاتھ سے مارا جاتا ہے اور کب کسی کا فریب کھاتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تو اپنی بیٹی اُس سے بیاہ دے۔
وہ بولا کہ جب تک میں جیتا ہوں، یہ کام ہرگز نہ کروں گا۔
ابلیس نے کہا کہ اگر یہی بات تیرے دل میں تھی تو مجھے کیوں تکلیف دی۔
وہ بولا کہ اس نے بہت سی صورتیں ہماری جلا کر خاک کر دی ہیں، اُمیدوار اس بات کا ہوں کہ تو اپنی دست گیری سے اسم اعظم کو اُس کے دل سے بھلا دے۔
اُس نے کہا کہ میں اس جگہ کچھ نہیں کر سکتا کیوں کہ حضرت خواجہ خضر اس کی حفاظت اور مدد کے واسطے حق تعالیٰ کی طرف سے تعینات ہوئے ہیں، وہ اسم اعظم نہیں بھولنے کا، اور مجھ کو اتنی قدرت نہیں جو اس کے دل سے بھلا دوں، پر اتنا ہو سکتا ہے کہ وہ غافل سو جائے اور محتلم ہوئے۔
یہ بات سنتے ہی احمر جادو بہت خوش ہوا اور اس کے پاؤں پر گر پڑا۔ شیطان دلاسا دے کر غائب ہو گیا اور حاتم کو غفلت میں ڈال کر محتلم کروا ہی دیا۔ وہ گھبرا کر چونک پڑا او ر اپنے تئیں ناپاک دیکھ کر قصد غسل کا کیا۔ جادوگر
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صفحہ 46-50
------------
صفحہ 49 - ریختہ
------------


تا اوروں کو عبرت ہووے کہ پھر کوئی ایسی حرکت نہ
کرے کہ ایسے بزرگ کو اس وضع کی بات کہے ۔
اتنے میں ایک وزیر نیک خو اپنی جگہ سے اٹھا اور
پایۂ تخت بادشاہی چوم کر عرض کرنے لگا کہ اے جہاں پناہ یہ
وہی برزخ سوداگر کی بیٹی ہے کہ جس کے سر پر خداوند ہمیشہ
شفقت کا ہاتھ اس کے جیتے جی پھیرتے تھے اور پیار کر کے
اپنے پاس بٹھلاتے تھے ، آج اس کو سنگسار کرتے ہو ۔ اگر اس کو
مارو گے تو دل سے ان غلاموں کے اعتماد خدا وند کی مہربانی
کا اور بندہ پروری کا اپنے فرزندوں کے حق میں اٹھ جائے گا ،
بلکہ ہر ایک اسی اندیشے سے ہلاک ہو گا کہ جہاں پناہ بعد
ہمارے ، ہمارے فرزندوں سے بھی یہی سلوک کریں گے جو آجا اس
لڑکی کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اس خیال کو اپنے اپنے جی میں جگہ
دے کر کنارہ کش ہوں گے اور فرصت پا پا کر بھاگ بھاگ
جاویں گے ؛ اغلب ہے کہ غنیموں سے ملیں اور خدا وند سے دشمنی
کریں ۔ یہ حقیقت عرض کرنی واجب تھی عرض کی ، آگے جو
مرضی خدا وند کی ۔
اس بات کو سن کر بادشاہ نے کہا کہ اے دانش مند !
میں نے تیری سفارش سے اور برزخ سوداگر کی خاطر سے اس کی
جان بخشی کی ۔ پھر یہ اپنا بھلا چاہتی ہے تو آج ہی اس شہر
سے نکل جاوے بلکہ حجور عالی سے لوگ جاویں ، اس کو
دیس نکالا دیں اور زر و جواہر سے لے کر جھاڑو کے تنکے تک اس
کے گھر کا اسباب توشے خانے میں داخل کریں ۔
اس بات کے سنتے ہی فوج بادشاہی گئی اور اس کو اس
کے گھر سے بے گھر کر کے کچھ مال و اسباب اس فقیر کے ہاتھ
سے جو بچا تھا ، سو سب کا بس لوٹ لائے اور وہ غریب تن تنہا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صفحہ 46-50
------------
صفحہ 50 - ریختہ
------------

وہاں سے نکل کر کسی جنگل میں دائی سمیت جا پڑی ۔
چاروں طرف گھبرائی گھبرائی صحرا میں پھرتی تھی اور
رو رو کر اپنی دائی سے یہی کہتی تھی کہ مادر مہربان !
ایسی خطا مجھ سے کیا ہوئی جو میں اس عذاب میں پڑی ۔
اس کو گلے لگا ، بلائیں لے ، یوں دلاسے دیتی تھی کہ
ہا ہا ! گردش فلکی سے کچھ چارہ نہیں ، صبر کر ۔ اگر خدا فضل
کرے گا تو پھر سب کچھ ہو رہے گا ۔
اس صورت سے یہ گریہ و زاری کرتی ہوئی اپنی دای سمیت
ایک اور جنگل میں جا پہنچی اور ای ک درخت سایہ دار کے نیچے
مارے دھوپ کے جا بیٹھی ۔ دو چار دن کی بھوکی پیاسی تو تھی
ہی ، بے اختیار نیند آگئی تو وہ لڑکی اس درخت کے نیچے
خاک ہی پر سو رہی ۔
کیا خؤاب دیکھتی ہے کہ ایک شخص بزرگ صورت ، نیک
خصلت ، سفید کپڑے پہنے ، عصائے سبز ہاتھ میں لیے ، گلے میں
تسنیاں ڈالے ، کھڑاؤں پہنے سرہانے کھڑا کہتا ہے کہ بابا ! غم
نہ کھا اور اندیشہ مت کر ۔ وہ کریم کارساز ہے ، اس سے کچھ
عجب نہیں جو اسی مرتبے پر پہنچاوے ؛ چنان چہ اس درخت
کے نیچے سات بادشاہت کی دولت گڑی ہے ؛ سو حق تعالیٰ نے
تیرے ہی واسطے چھپا رکھی ہے ۔ اب تو اٹھ اور اس خزانے
کو اپنے تصرف میں لا ، دل کا یاد خدا میں لگا۔
اس نے کہا کہ میں ایک عورت ناتواں ، کیونکر اس
زمین کو کھودوں اور کیونکر اس دولت بے شمار کو اپنے
قبضے میں لاؤں ؟
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶۱

کی کمی غمی نہ ہو گی۔

یہ بات کہہ کر وہ اپنے باپ کو عرضی اس مضمون سے لکھنے لگا کہ اے قبلۂ کونین! اگر عمر وفا کرتی ہے تو میں اس کام سے فراغت کر کے حضور کی قدم بوسی کے واسطے آؤں گا اور سرفراز ہوں گا۔ بالفعل ملکہ زریں ہوش کو اپنے عقد میں لا کر خدمت عالی میں بھیجا ہے، یقین ہے کہ توجہات و الطاف اس کے حال پر فرماتے رہیں۔ القصہ جب عرضی تمام ہو چکی اُس پر مہر کر کے ملکہ کے حوالے کی، وہ اپنی خوان خواص اور لاؤ لشکر سمیت یمن کو روانہ ہوئی اور حاتم بھی شہر خورم کو چلا۔

بعد چند روز کے ایک شہر میں داخل ہوا اور وہاں جا کر پوچھنے لگا کہ اے صاحبو! وہ کون شخص ہے جو ہمیشہ کہا کرتا ہے کہ سچ کہنے والے کے آگے ہمیشہ راحت ہے۔

اُنہوں نے کہا "ایسا شخص تو یہاں کوئی نہیں جو یہ کہتا ہو مگر ایک بوڑھے نے یہی بات جو تم کہتے ہو، لکھ کر اپنے دروازے پر لگا دی ہے۔"

حاتم نے پوچھا کہ اُس کا مکان کہاں ہے؟

وہ بولے کہ یہاں سے نو کوس پر شہر خورم ہے، وہ وہیں رہتا ہے۔

یہ بات سن کر حاتم اُسی طرف روانہ ہوا۔ بعد تین پہر کے جا پہنا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک عمارت عالی شان و بلند کھڑی ہے اور اُس کے دروازے پر یہی کلا خط جلی سے لکھا ہے۔ یہ اُس کو پڑھ کر نہایت خوش ہوا اور دروازے پر جا کے دستک دی۔


صفحہ ۲۶۲

بعد ایک دم کے کئی دربان دروازہ کھول کے باہر آئے اور حاتم کو دیکھ کر کہنے لگے کہ اے جوان! تو کون ہے اور کس کام کو یہاں آیا ہے؟

اس نے کہا کہ میں شاہ آباد سے ایک کام کے واسطے یہاں آیا ہوں۔

اس بات کو سن کر دربانوں نے دوڑ کر اپنےخاوند سے اظہار کیا۔ وہ شخص ظاہر میں امرد اور حقیقت میں کہنہ سال تھا۔ بولا کہ اُس مسافر کو بلا لو۔ جب حاتم اندر گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک جوان خوش رو، مسند تکلف پر تکیہ لگا امتیاز سے بیٹھا ہے۔ اس نے جھک کر سلام کیا۔ وہ بھی مسند سے اُٹھ کر بغل گیر ہوا اور نہایت تعظیم اور تکریم سے اپنے پاس بٹھا لیا۔ کھانے انواع و اقسام کے منگوا کر اُس کے رو بہ رو رکھے۔

جب کھانے سے فراغت ہوئی، صاحب خانہ نے پوچھا کہ صاحب! تم کون ہو اور کہاں سے تشریف لائے ہو اور کس کام کے واسطے تم نے یہ سفر دور دراز اختیار کیا جو اس قدر رنج کھینچے اور دکھ سہے؟ سچ تو یہ ہے کہ سواے دو شخصوں کے اس مکان پر اور کوئی نہیں آیا، اُن میں کا ایک تو ہی ہے۔

یہ سنتے ہی حاتم کہنے لگا "میں یمن کا رہنے والا ہوں پر اب شاہ آباد سے منیر شامی کے کام کے لیے تم تک آیا ہوں۔" الغرض ماجرا حسن بانو پر عاشق ہونے کا اور اس کے سوالوں کے پورے کرنے پر اپنے تئیں مستعد ہونے کا تفصیل وار کہہ سنایا۔ پھر پوچھا کہ آپ نے در دولت پر یہ کلام لکھ کرکس لیے لگایا ہے؟


صفحہ ۲۶۳

اُس نے کہا کہ اے جوان مرد یمن کے رہنے والے! تو دنیا میں بڑے نیک ناموں میں مشہور ہو گا کیوں کہ کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو اوروں کے واسطے اپنے اوپر اس قدر دکھلے یا رنج سہے۔ تو ہی ایسا تھا جو یہ بوجھ تو نے اپنے سر پر لیا، آج رہ جا کیوں کہ راہ کا تھکا ماندہ آیا ہے، قدرے آرام کر، اُس کی حقیقت میں کل تجھ سے کہوں گا۔

غرض حاتم تمام رات وہاں بہ آرام تمام رہا، صبح کو کھانا کھا کر کہنے لگا کہ اب ارشاد کیجیے۔

اُس نے کہا کہ اے جوان!اس شہر خورم کو سات سو برس ہوئے ہیں کہ یہ یہاں آباد ہوا ہے اور میری عمر آٹھ سو برس کی۔ جس صورت سے مجھے تو اب دیکھتا ہے اسی شکل میں اُس وقت میں بھی تھا، چناں چہ میں جواریوں میں مشہور تھا اور سواے جوا کھیلنے کے کوئی کام جہان کا نہ کرتا تھا۔ اتفاقاً ایک روز نہایت تنگ دست ہوا کہ ایک پیسا بھی میرے ہاتھ نہ آیا۔ جب رات ہوئی تو چوری کو نکلا۔ اُس وقت یہ بات جی میں گزری کہ کسی غریب و غربا کے گھر جا کر کیا چوری کیجیے، جس سے بہتر یہی ہے کہ بادشاہ کے دولت خانے میں جا کر خوب سا مال و ضواہر چرا لائیے۔ یہ ٹھہرا کر بعد آدھی رات کے میں نے پادشاہ کی حویلی میں کمند ڈال اور خاص بادشاہ کی خواب گاہ میں اپنے تئیں پہنچایا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بھی چوکیداروں میں سے، کیا خواص کیا خوجا، کوئی نہیں جاگتا اور بادشاہ بھی اپنے مرصع کے پلنگ پر بے خبر سوتا ہے۔ میں آگے بڑھا اور اُس کے گلے سے گوہر شب چراغ اُتار کر کمند کی راہ سے باہر آیا اور کسی طرف چل نکلا۔ جب جنگل


صفحہ ۲۶۴

میں گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک درخت کے نیچے بہت چور کہیں سے مال چرا لائے ہیں اور بیٹھے حصے کر رہے ہیں۔ اتفاقاً انہوں نے مجھ کو دیکھ لیا اور بلا کر پوچھا کہ تو کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟ میں رات گو تھا، سچ سچ احوال اُن سے کہا اور گوہر شب چراغ دکھا دیا۔ اُس کو دیکھتے ہی چوروں کو یہ لالچ ہوا کہ میرے ہاتھ سے چھین لیں۔ اتنے میں ایک شخص جنگل میں غیب سے پیدا ہوا اور اس آواز ھیبت ناک سے للکارا کہ تمام صحرا کانپ اُٹھا اور وہ اپنی جان کی دہشت سے بھاگ گئے۔ میں تن تنہا وہاں کھڑا رہ گیا۔ وہ میرے پاس آیا اور کہنےلگا "تو کون ہے؟" میں نے آگے بھی سوائے سچ کے کچھ اور نہ کہا تھا۔ اُس سے بھی کہا۔ یہ سن کر وہ ہنسا اور کہنے لگا کہ تو نے سچ کہا، اس واسطے یہ سب مال و متاع اس گوہر شب چراغ سمیت میں نے تجھ کو بخشا لیکن تو چوری سے توبہ کر۔ یہ بات اُس کی میں نے مان لی اور جوا کھیلنے اور چوری کرنے کی دل و جان سے توبہ کی۔ پھر اس نے کہا کہ اگر جوا نہ کھیلے گا اور چوری نہ کرے گا تو تیری عمر نو سو برس کی ہو گی۔

یہ کہہ کر چلا گیا۔ میں اُس مال و متاع کے پشتارے باندھ کر اپنے گھر لے آیا اور ایک عمارت نہایت عالی شان بنائی۔ محلے والے میرے دشمن ہوے اور کوتوال نے مجھے بلا کر پوچھا۔ میں نے اس کے سامنے بھی سوائے سچ کے کچھ اور نہ کہا۔ وہ مجھے بادشاہ کے پاس لے گیا۔ میں نے


صفحہ ۲۶۵

اُس کے رو بہ رو بھی جو بات سچ تھی سو ہی کہی، جان کی دہشت کچھ نہ کی۔یہ سخن سن کر بادشاہ نے میرے حال پر نہایت نوازس کی کہ یہ شخص عجب راست گو ہے کہ اس قدر زر و جواہر کسی سے نہ چھپایا، صاف کہہ دیا۔ اس کے سچےپن پر میں نے یہ مال اس کو دیا اور اس کا گناہ بھی بخشا، بلکہ اُس نے اور بھی زر و ضواہر اپنے خزانے سے اتنا کچھ دیا کہ میں مالا مال ہو گیا۔ اب بھی اس میں سے میرے پاس بہت کچھ ہے، اگرچہ بہت کچھ خرچ کیا۔ اور اُسی دن سے یہ اپنے دروازے پر لکھ کر لگا دیا ہے کہ سچ کہنے والے کےہمیشہ راحت آگے ہے، مردوں کو چاہیے کہ سوائے سچ کے کبھی جھوٹ نہ کہیں۔ بہ قول سعدی شیرازی :

بیت

راستی موجب رضاے خدا ست
کس ندیدم کہ گم شد از رہ راست

یہ کہہ کر اس نے حاتم سے پوچھا کہ سچ کہہ، تو کون ہے؟

اس نے کہا کہ میں یمن کا شہزادہ حاتم بن طائی ہوں۔ یہ سنتے ہی وہ اپنی مسند سے اٹھا اور بغل گیر ہوا، تعظیم و تواٖضع بہت سی کر کے کہنے لگا کہ سچ ہے کہ سوائے حاتم کے اور کون ایسا کام کر سکتا ہے۔ پھر اس نے کئی دن تک اس کو مہمان رکھا۔ ایک دن حاتم نے کہا "اے عزیز! مجھے ایک کام بہت ضرور ہے، اب رخصت کر۔" اس نے نہایت منت و معذرت سے رخصت کیا۔

وہ اپنی منزل مقصود کو راہی ہوا۔ رات دن چلا جاتا


صفحہ ۲۶۶

تھا۔ ایک دن ملکہ زریں پوش کی صورت یاد آئی۔ ارادہ کیا کہ ملکہ کو دیکھ کر شاہ آباد جاؤں گا۔ یہ ٹھہرا کر یمن کی طرف روانہ ہوا۔

بعد چند روز کے یمن کے قریب جا پہنچا، خوشی سے ایک ستھرے تالاب پر بیٹھ گیا۔ اتفاقاًً اس کنارے ایک جوڑا طوطی کا بیٹھا تھا اور آپس میں باتیں کر رہا تھا۔ حاتم نے بھی اپنے کان اُدھر لگا دیے، اس واسطے کہ دیکھوں تو یہ کیا کہتے ہیں۔

اتنے میں مادہ نے نر سے کہا کہ تو مجھ کو تنہا چھوڑ کر کہاں جاتا ہے، برائے خدا نہ جا۔

نر نے کہا "اے نادان! تو کیوں خار خیر میں حرکت کرتی ہے۔ قیامت کے روز تو میرے کیاکام آؤے گی جو دنیا میں تجھ سے مشغول رہوں اور نیک کام کو چھوڑ دوں۔ نہیں سنا ہے تو نے کہ ایک بادشاہ کسی دن شکار کو نکلا تھا، ہر چند پھرا پر شکار کوئی اس کے ہاتھ نہ لگا۔ آخر اپنے لشکر سے جدا ہو کر ایک جنگل میں جا پڑا، وہاں ایک باغ خوش قطع دیکھ کر اس کے اندر چلا گیا اور شادان و فرحاں سیر کرتا ہوا ایک بنگلے کے پاس جا پہنچا۔ وہاں ایک حوض ملبب تالاب کے برابر نظر آیا۔ دیکھنے میں نہایت پاکیزہ، خوب صورت، پانی اُس کا صاف و بےکدورت۔ بادشاہ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوا، اس کےکنارے بیٹھ کر ہاتھ سے پانی اچھالنے لگا؛ یکایک ایک زنجیر اس کے ہاتھ میں آ گئی، اس کو پکڑ کر جو کھینچا تو صندوق مقفل کنجی سمیت نکلا۔ اس نے جو قفل اس صندوق کا کھولا تو ایک مہ جبین پری طلعت کو اس میں بیٹھے پایا۔ بادشاہ ڈر گیا۔


صفحہ ۲۶۷

اس نازنین نے کہا "اے جوان! کیوں ڈرتا ہے، میں بھی انسان ہوں۔" یہ کہہ کر صندوق سے نکل آئی اور صراحی پیالا گزک لا کر بادشاہ کے آگے رکھ دیا، پھر امیدوار بوس و کنار کی ہوئ۔ بادشاہ نے جو دیکھا کہ یہ عورت جمیلہ و شکیلہ ہے اور اسباب عیش و عشرت بھی سب مہیا ہے، اس کو ہاتھ سے نہ دیا چاہیے۔ شراب پی کر اور اس سے صحبت کی۔ جب فارغ ہوا لشکر یاد آیا، اٹھ کھڑا ہوا اور انگھوٹی اپنی چھین انگلیاں سے نکال کر اس کو دی کہ یہ میری نشانی اپنے پاس رکھ تاکہ پھر جو ملاقات ہو تو مجھ تو تو بھول نہ جاوے۔ وہ کھل کھلا کر ہنس پڑی اور ایک تھیلی انگھوٹھیوں کی نکال کر بادشہ کےکو دکھلا دی اور کہنے لگی کہ اے جوان! خدا عالم الغیب اور دانا بینا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے خاوند نے حفاظت کے واسطے مجھے جنگل میں لا کر اس باغ کے بیچ صندوق میں بند کر کے حوض کے درمیان لٹکا دیا ہے اور آپ سوداگروں کے ساتھ سوداگری کرتا پھرتا ہے اور میرے کھانے پینےکو بھی اس جگہ ہر یاک چیز مہیا ہے، کمی کچھ نہیں اور جوکبھی کبھی مسافر بھولا بھٹکا خواہ بادشاہ، خواہ سوداگر، اس باغ میں تیرے طرح اے آ نکلتا ہے اور اسی طور مجھے حوض سے نکال کر ہم بستر ہوتا ہے، پھر انگھوٹھی دے کر چلا جاتا ہے؛ چناں چہ یہ بہت سی انگوٹھیاں میرے پاس موجود ہیں لیکن نہیں جانتی کہ کون سی کس کی ہے۔ اسی طرح انگھوٹھی کو اور تجھے بھی بھول جاؤں گی کیوں کہ ایک دو ہو تو کوئی یاد رکھے، سیکڑون ہزاروں کا کہاں تلک دھیان کرے۔ اس بات کو سن کر بادشاہ حیران ہوا اور اس کو صندوق میں بند کر کے اسی صورت سے تالاب میں لٹکا اپنے لشکر کو ساتھ لے کر


صفحہ۲۶۸

شہر میں آیا اور تمام اسباب بادشاہی فقیروں کو دے کر آپ جنگل میں نکل گیا اور بیٹھ کر یاد الٰہی میں مشغول ہوا، پھر جب تک جیتا رہا عورت کا نام نہ لیا۔ پس اے نادان! تو میرے ساتھ کیا سلوک کرے گی جو کارخیر سے باز رکھتی ہے۔ چناں چہ حاتم نے بھی برائے خدا کمر کوشش باندہی اور کتنی کتنی آفتیں اٹھا کر کچھ کچھ نیک نامی پیدا کی، سو اب ملکہ زریں پوش کو یاد کر کے شاہ آباد کی راہ چھوڑ کر اس کی ملاقات کے واسطے یمن کو جاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ وہ اپنی محنت خواہ نہ خواہ خاک میں ملاتا ہے۔"

جوں ہی اس نے یہ بات سنی وہیں سجدۂ شکر ادا کر کے یہ بات اپنے دل میں کہی کہ اے حاتم! یہ آواز خدا کی طرف سے آئی اب تیرے حق میں یہی بہتر ہے کہ یمن کی طرف سے قدم پھیر اور شاہ آباد کا راستہ لے۔ یہ بات جی میں ٹھہرا کر شاہ آباد کی طرف روانہ ہوا، بعد ایک مدت کے جا پہنچا۔ وہاںکے رہنے والے اسے پہچان کر حسن بانو کے دروازے پر لے گئے۔

وہ اوجھل ہو گئی، اسے پردےکے باہر بلوا کر بٹھلایا اور احوال پوچھا۔ حاتم نے پہلے اپنی راہ کی مصیبت بیان کی، پھر اس پیر مرد کی حقیقت جو ٹھیک ٹھیک تھی، تمام و کمال کہہ دی۔

حسن بانو نے کہا کہ اے حاتم! جو تو کہتا ہے سو سچ ہے، اس میں کچھ شک نہیں۔ یہ کہہ کر اسی وقت طعام پر تکلف و لذیذ منگوا کر حاتم کے سامنے رکھوایا۔ تب اس نے کہا کہ اے حسن بانو! میں کارواں سراے میں جا کر اپنے بھائی


صفحہ ۲۶۹

کے ساتھ کھاؤں گا۔ یہہ کر وہاں سے اٹھا اور سراے میں آ کر منیر شامی سے ملاقات کر کے باہم کھانا کھایا اور تمام سرگذشت بیان کی۔ یہ سن کر منیر شامی نے بہت سی تحسین و آفرین کی، پھر اپنے پلنگ پر بہ آرام تمام سو رہے۔ صبح کو حاتم حمام کر کے کپڑے نئے پہن کر حسن بانو کی ڈیوڑی پر آیا، چوب داروں نے خبر پہنچائی کہ حاتم آیا ہے۔

اس نے پردہ کر کے اندر بلا لیا اور ایک کرسی پر بٹھلا کر کہا کہ اے حاتم! سننے میں یوں آیا ہے کہ ایک پہاڑ سے آواز آتی ہے۔ اسی واسطے اس کا "کوہ ندا" نام رکھا ہے۔ اب اس کی خبر لا کہ وہاں آواز کرنے والا کون اور پہاڑ کے اُدھر کیا اسرار ہے؟ حاتم یہ سن کر وہاں سے رخصت ہوا اور کاروان سرائے میں آکر منیر شامی سے کہنےلگا کہ اے منیر شامی! اب میں کوہ ندا کی خبر لانے جاتا ہوں؛ اگر زندگی وفا کرتی ہے تو اس بات کو تحقیق کر کے پھر تجھ سے آ ملتا ہوں اور نہیں تو مرضی اللہ کی، پر تو کسی بات کا خطرہ نہ کرنا۔


صفحہ ۲۷۰

پانچواں سوال

حاتم کے جانے کا اور کوہ ندا کی خبرلانے کا

غرض حاتم نے دو چار باتیں نصیحت آمیز منیر شامی سے کر کے جنگل کی راہ پکڑی۔ غرض جس بستی میں جا نکلتا تھا وہاں کےلوگوں سے پوچھتا تھا "اے عزیزو! تم میں سے کوئی کہ ندا کی راہ سے واقف ہے تو مجھے بتا دے۔" یہ بات سن کر وہ لوگ حیران ہو ہو کر کہتے کہ بھائی ہماری اتنی بڑی عمر ہوئی ہے، ہم نے اس کا نام بھی نہیں سنا راہ تو ایک طرف۔ اور حاتم جوان مردی سے ان دیکھی، ان سنی راہ طےکرتا ہوا چلا جاتا تھا۔

بعد ایک مہینے کے کسی شہر کے گرد و نواح میں جا پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ تمام مرد و زن اس شہر کے صحرا میں جمع ہوئے ہیں، یہ انہیں کی طرف چلا۔ انہوں نے جو دیکھا کہ ایک شخص چلا آتا ہے، سب کے سب اس کی طرف متوجہ ہوئے اور بہ آواز بلند کہنے لگے کہ مرحبا اے مسافر! خوب ہوا تو یہاں آیا، ہم کب سے تیری راہ دیکھتے ہیں۔ حاتم آگے گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ دسترخوان پر طرح بہ طرح کے کھانے چنے ہیں اور ایک جنازے کے گرد بہت سے لوگ بیٹھے ہیں۔ حیران ہو کر پوچھنے لگا۔ "اس مردے کو کیوں نہیں گاڑتے اور اس قدر کیوں روتے ہو؟"


صفحہ ۲۷۱

انہوں نے کہا کہ ہماری قوم کی یہ رسم ہے کہ کوئی شخص، کیا عمدہ کیا غریب۔ مر جاوے تو ہم سب اس کے جنازے کو جنگل میں لے آتے ہیں اور کھانے بہت سے ستھرے پکا کر ایک دسترخوان پر چن کے مسافر کی راہ دیکھتے ہیں؛ اگر کوئی پنچھی پردیسی اس عرصے میں آ گیا تو مردے کو گاڑ دیتے ہیں اور کھانا اس مسافر کے آگے رکھ دیتے ہیں۔ چناں چہ اس مردے کو سات روز ہوے ہیں کہ یہ یوں ہی یہاں پڑا ہے اور کوئی مسافر ایک بھی اس طرف نہ آیا تھا۔ ہم عجب مصیبت میں گرفتار تھے کہ ہر روز کھانا شام کے وقت اپنی عورتوں کو بھیج دیتے تھے اور آپ یوں ہی پڑ رہتے تھے۔ الحمد للہ کہ اب ساتویں روز تیری صورت دیکھی، اب اس کو بھی دفن کریں گے اور کھانا بھی کھاویں گے۔

حاتم نے کہا کہ اگر ایک مہینے تک کوئی مسافر یہاں نہ آؤے تو اس مردےکا احوال کیا ہو اور تم کس صورت سے جیو؟

انہوں نے کہا کہ یہ بات سچ ہے، پر ساتویں دن خواہ نہ خواہ مسافر کہیں نہ کہیں سے آہی رہتا ہے احیانا اگر پندرہ روز نہ آیا تو تمام دن روزہ رکھیں، شام کے وقت صرف پانی پیئیں اور مردہ بھی ایک مہینے تک نہیں سڑتا۔

حاتم نے کہا کہ اگر ایک مہینے سے زیادہ گزرے تو بدبو آوے گی، اس وقت کیا کرو گے؟

وہ بولےجو ایسا ہی ہو تو مردے کو گاڑ دیں اور تمام مرد و زن چھ مہینے تک روزہ رکھیں، شام کے وقت درگاہ الٰہی میں توبہ کریں اور کھانا ہر روز ہمسایوں میں بانٹیں، پھر مردےکی قبر پر جا کر بہت سا مال و زر خیرات کر کے اپنے اپنے کام میں مشغول ہوں۔

یہ بات سن کر حاتم حیران ہوا۔ انہوں نے اس مردے کو تہ خانے میں اتار کر فرش پاکیزہ بچھا کے اس کو اس پر لٹا دیا اور طرح بہ طرح کے کھانے رکھے، خوشبوئیوں کی بتیاں روشن کر کے سات بار اس کے گرد پھرے، قدم بوس ہو کر باہر نکل آئے اور دسترخوان پر جا بیٹھے۔ پھر حاتم سے کہا کہ اے مسافر! کھانے میں پہلے تو ہاتھ ڈال اور پیٹ بھر کر کھا کہ یہ قبول ہو اور تیری توجہ سےہم بھی روزہ کھولیں۔

یہ بات سن کر حاتم کھانے لگا۔ پھر وہ سب بھی شریک طعام ہوے۔ بعد اس کے جو بچا اس کو اپنے اپنے گھر بھجوا دیا، وہ ان کی عورتوں نے کھایا۔ وہ نہائے اور پاک و پاکیزہ کپڑے پہن کر گھر چلے اور حاتم سے کہا کہ اے جوان! اگر تیرا جی چاہے تو چند روز ہمارے یہاں مہمان رہ۔ حاتم نے کہا بہت بہتر تمہاری خاطر سے دو چار روز رہ سکتا ہوں۔

غرض وے اُس کو شہر میں لے گئے اور ایک مکان ستھرا سا اس کے رہنے کو خالی کروا دیا اور لوازم خورش و پوشش کے خوب صورت لونڈیاں سمیت بھجوا دیئے۔ حاتم نے اپنے دل میں کہا کہ یہاں کی عجب رسم ہے۔ اگر میں ان کاموں سے فرصت پاؤں اور خدا میرے مطلب کو پورا کرے، تو میں بھی اپنے شہر میں جا کر اسی طرح مہمان داری کروں گا۔ اور وے عورتیں آرزو مند ہیں کہ اگر اس جوان کا ہم میں سے جی جس پر چلے اُس سے بہ شوق تمام ملے اور شراب خوب سا مزا لے لے کر پیے، لیکن حاتم نے کسی کی طرف خواہش کی
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
صفحہ نمبر 191 ۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر 195

صفحہ نمبر 191

پر گر پڑے ۔ سرطان نے جب دیکھا کہ میرے پاس حربہ نہ رہا ناچار جان لے کر بھاگا اور گھڑیال اس کے پیچھے دوڑا ۔

حاتم نے ڈانٹ کر کہا ” اے نامرد ! تو کہاں جاتا ہے اور اسے کیوں ستاتا ہے ۔ اگر اب تو کچھ اسے دکھ دے گا تو میں مار ڈالوں گا ۔ “

اس بات کے سنتے ہی وہ ڈرا اور وہیں کھڑا رہا ۔

حاتم آنکھیں بند کر کے اس بیڑے پر چڑھا اور دریا کے کنارے جا لگا ۔ پھر مارزندران کی طرف روانہ ہوا اور اس کے قریب جا پہنچا ۔

ایک درخت سایہ دار کے تلے بیٹھ کر سوچنے لگا کہ میں خدا کے فضل و کرم سے یہاں تک آیا ، پر اب اس جانور کے جوڑے کو ڈھونڈیھے کہ وہ کہاں ہے ۔

اتنے میں رات ہو گئی اور وے جو چرائی کو گئے تھے ، سو وہاں سے پھرے اور ایک درخت کے اوپر بیٹھ کر آپس میں کہنے لگے کہ آج کی رات ایک آدمی خدا رسیدہ ، غریب پرور ، غیر کے واسطے اپنے اوپر اذیتیں اٹھاتا اور دکھ سہتا یہاں تک آیا ہے اور نام اس کا ہم نے بزرگوں سے حاتم بن طئی سنا ہے اور خدا کا بندۂ خاص ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری ملاقات سے محروم رہ جاوے ۔ یہ بات ٹھہرا کر وے سب کے سب آئے اور حاتم کے پاؤں پر گر پڑے ۔

وہ ہر ایک جانور کی صورت دیکھ کر حیران رہ گیا ؛ اس واسطے کہ منہ ان کا آدمی کا سا تھا اور بدن طاؤس کا سا ۔ اگر پری بھی انہیں دیکھے تو فریفتہ ہو جاوے ۔

اور وے جانور زبان فصیح سے کہنے لگے کہ آفریں ہے تیری ہمت اور جواں مردی پر جو تو نے غیر کے واسطے اپںے تئیں اس محنت و مشقت میں ڈالا ۔ شاید کوئی شخص مسخر جادو کی

صفحہ نمبر 192

بیٹی پر عاشق ہوا ہے کہ مسخر نے ایک جوڑا ہمارا طلب کیا ہے ، تو اس لیے یہاں آیا ہے ۔

حاتم نے کہا کہ یہ تم نے سچ کہا ۔ اگر تم اپنے میں سے ایک جوڑا میرے حوالے کر دو تو گویا اس نیم جاں کو جلاؤ اور مجھے بھی بے داموں مول لو ۔ میں جب تک جیتا رہوں گا تمہارے طوق احسان سے گردن نہ نکالوں گا اور وہ نا مراد بھی اپںی مراد کو پہنچے گا ، تمہیں دعائیں دے گا ۔

اس بات کو سن کر انہوں نے آپس میں مصلحت کی کہ کوئی ایسا ہے کہ ایک جوڑا اپنے بچوں کا خدا کی راہ پر اس جوان کو دے کہ کار خیر ہے ۔ اس سخن کے سنتے ہی ان میں سے ایک اٹھا اور ایک جوڑا اپنے بچوں کا حاتم کو دیا اور کہا کہ تو اس کا مختار ہے ، جو چاہے سو کر ، اور جہاں چاہے وہاں لے جا ۔

حاتم ان دونوں کو لے کر ان سے رخصت ہوا اور مسخر جادو کے شہر کی طرف چل نکلا ۔

بعد ایک مدت کے منزلیں طے کرتا اور دکھ بھرتا اس جوان تک جا پہنچا ۔ وہ سر جھکائے نعرہ زناں بیٹھا تھا ۔ اس سے ملاقات کی اور کہا ” اے جوان ! خوش ہو کہ مطلب تیرا بر آیا ۔ “

وہ اس جوڑے کے دیکھتے ہی حاتم کے پاؤں پر گر پڑا ۔

حاتم نے اس کو گلے لگا لیا اور احوال وہاں کا اور دکھ راہ کا سب کا سب اس کو کہہ سنایا اور کہا کہ تو اسی طرح سے اس جادو مسخر کے سامنے تذکرہ کرنا اور کہنا کہ یہ جوڑا میں لایا ہوں ۔

غرض وہ سپاہی اس جوڑے کو لے کر جادو مسخر کے پاس گیا ۔

وہ اس کو دیکھ کر جی میں نہایت خوش ہوا اور کہنے لگا

193


کہ یہ کام تیرا نہیں ہے ، شاید کسی دوسرے نے مدد کی ہے ؛ اور اگر تو لایا ہے تو وہاں کے ہر ایک مکان و مقام کا نشان دے اور وہاں کی کیفیت سے آگاہ کر کہ جس سے تسکین دل کی ہو ۔ جوان نے حقیقت جوں کی توں بیان کی ۔ اس نے کہا کہ سچ کہتا ہے تو ، یہ سب درست ہے ، اب جا اور سرخ سانپ کا مہرہ لا ۔

اس نے کہا کہ ایک مرتبہ اس نازنین مہ جبین کا منہ دکھلا کہ مجھے بھی طاقت ہو ، کیوں کہ معشوق کے دیکھنے سے دل کو قوت ہوتی ہے ۔

اس بات کو سن کر اس نے اپںی لڑکی سے کہا کہ بابا ایک دم کے واسطے اپنا چہرہ کھڑکی سے نکال اور اپنے عاشق کو ٹک دکھلا دے جمال ۔ وہ کھڑکی کھول کر ناز و ادا سے جھانکنے لگی ۔

غرض اسی دیکھا دیکھی میں دن گزر گیا ۔

جوان نے کہا کہ اب میں سرخ سانپ کا مہرہ لیںے جاتا ہوں ۔

اگر تو کچھ اس سے آگاہ ہے تو کہہ دے کہ وہ کس سر زمین پر اور کہاں ہے ۔

اس نے کہا کہ میں نے اپںے بزرگوں کی زبانی سنا ہے کہ وہ کوہ قاف کے دشت سرخ میں ہے ۔

جوان معشوقہ سے رخصت ہو کر حاتم کے پاس آیا اور کہنے لگا ” اے عزیز ! اس نے سرخ سانپ کا مہرہ مانگا ہے ۔“

حاتم نے کہا کہ تو کچھ اس کا پتا بھی پوچھ آیا ہے کہ وہ کس طرح کا ہے ؟

اس نے جو سنا تھا سو کہہ دیا ۔

حاتم بولا کہ اب تو فریاد و فغاں نہ کر ۔ میں تیرے کام میں


صفحہ نمبر 194

دل و جان سے سعی کرتا ہوں بلکہ ابھی جاتا ہوں ۔ خدا کریم و رحیم ہے چاہیے کہ تو جلدی اپنی مراد کو پہنچ ۔

اس طرح کی باتیں کر کے اس سے رخصت ہوا اور کوہ قاف کی طرف چلا ۔ کئی منزلیں گیا تھا کہ ایک دن صبح کے وقت قضائے حاجت کو جاتا تھا ؛ کیا دیکھتا ہے کہ ایک بچھو ہفت رنگی کلنگ مرغ کے برابر صحرا میں چلا جاتا ہے ۔ یہ اس کو دیکھ کر ڈرا اور اپںے جی میں کہنے لگا کہ خدا جانتا ہے کہ میں نے ایسا بچھو اپںی اس عمر میں کبھی نہیں دیکھا ۔ اور وہ جا کر کسی کونے میں چھپ رہا ۔ یہ تمام دن اس کی جست و جو میں رہا اور بار بار کہتا تھا کہ دیکھنا چاہیے شب کو یہ کیا کرتا ہے ۔ اس جنگل کے ادھر ادھر کئی گاؤں آباد تھے ۔ وہاں کے لوگوں نے جو مسافر کو دیکھا ، آب و دانے سے متواضع ہوئے ۔ حاتم نے کھانا کھایا ، پانی پیا ، اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ۔ کر یاد الہی میں مشغول ہوا ۔ اتفاقاً بہت سی گائیں اور گھوڑے میدان میں جمع ہوئے اور تین چار چاکر و نگہ بان ان کے پاس سو رہے ۔

پہر رات گئے وہ بچھو پتھر کے تلے سے نکل کر گائیوں کی طرف گیا اور اچھل کر ایک گائے کے سر پر ڈنک مارا اور وہ تڑپ کر مر گئی ۔ غرض اسی طرح سے سب کو مار ڈالا ۔ پھر گھوڑوں کے گلے میں آیا ، ان کا بھی نگہ بانوں سمیت کام تمام کیا ، پھر اسی پتھر کے تلے جا کر چھپ رہا ۔

جب صبح ہوئی ، رہنے والے اس گاؤں کے جو اس جنگل میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ دونوں گلے نگہ بانوں سمیت موئے پڑے ہیں ۔ اور نیلا پانی ہر ایک کے پیٹ سے بہا جاتا ہے ۔


صفحہ نمبر 195

تب لوگوں نے اسے کہا کہ اے مسافر ! توں کیوں کر جیتا رہا ؟

حاتم بولا ” اے یارو ! میں نے ایسا تماشا دیکھا کہ کبھی نہیں دیکھا ، یعنی ایک بچھو سات رنگ کا مرغ کے برابر پیدا ہوا اور یہ کام اسی نے کیا ہے ۔

اتنے میں وہ بچھو پھر اس پتھر کے تلے سے نکلا اور ان کے سردار کے سر پر ڈنک مارا ، وہ تڑپنے لگا ، بچھو نے جںگل کی راہ لی ۔

وے لوگ رونے پیٹنے لگے اور حاتم اس کے پیچھے لگ گیا ۔ تھوڑی دور چلا تھا کہ ایک شہر نظر آیا ۔ بچھو وہاں لوٹ پوٹ کر کالا سانپ بن گیا ۔ حاتم اور بھی حیران ہوا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ الہی یہ بچھو تھا ، کیوں کر سانپ ہوا اور یہ بل میں کس طرح جا بیٹھا ! یہ سوچ کر وہاں بیٹھ رہا ۔ جب پہر رات گئی تب وہ سانپ بل سے نکل کر شہر کی طرف چلا ۔ حاتم بھی اس کے پیچھے ہو لیا ۔ بادشاہی محل میں بدر رو کی راہ سے گھس گیا اور بادشاہ کو ڈس کر وزیر کی حویلی میں جا بیٹھا ۔ وہاں اس کے بیٹے کو کاٹ کر نکلا اور اسی سوراخ میں جا چھپا ۔

صبح کو شور و غل شہر میں مچ گیا کہ رات کے وقت بادشاہ کو سانپ نے کاٹا اور وزیر کے بیٹے کو بھی ڈسا ، ہزار حیف کہ ان کی جانیں مفت میں گئیں ۔ اتنے میں شام ہوئی ، سانپ پھر بل سے نکلا اور کسی طرف کو راہی ہوا ۔

حاتم بھی اس کی آنکھ بچائے ساتھی ساتھ چلا ۔ اپنے جی میں کہںے لگا کہ دیکھیے اب یہ کیا کرتا ہے اور کہاں جاتا ہے ۔

غرض صبح کے ہوتے ہوتے ایک دریا کے کنارے جا پہنچا ، وہاں شیر کی صورت ہو گیا ۔ اتنے میں دس بارہ آدمی پانی پینے آئے ،
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 220 آرائشِ محفل صفحہ 187

میں لگاوے اور مال مجھے نظر آوے تو آدھا تیرا۔
اس نے کہا کہ بہت بہتر؛ تو میرے ساتھ جنگل میں چل، میں تیری آنکھوں میں ایک سلائی پھیر دوں۔
میں اس کے ساتھ اس جنگل میں آیا اور اس پنجرے کو دیکھ کر حیران ھو پوچھنے لگا کہ یہ پنجرا کس کا ھے؟
اس نے کہا کہ میں نہیں جانتا۔ یہ کہہ کر وہ اس درخت کے تلے بیٹھ گیا اور اپنے بغل سے ایک ڈبیا سرمے کی نکال کر ایک سلائی بھری اور میری آنکھوں میں پھیر دی؛ فی الفور میں اندھا ھو گیا اور اس سے کہنے لگا "اے عزیز! یہ کیا کیا تو نے، مجھے اندھا کیا۔"
وہ بولا جھوٹوں اور بدعہدوں کی یہی سزا ھے۔ اگر آنکھوں کی بصارت چاھتا ھے تو اسی پنجرے میں بیٹھ رہ اور یہ سخن کہا کہ بدی مت کر کسی سے، اگر کرے گا تو وھی پاوے گا۔"
میں نے پھر پوچھا کہ سچ کہہ، میری آنکھوں کا علاج کیا ھے؟ اس نے کہا کہ بعد ایک مدت کے ایک جوان حق پرست ادھر آوے گا، تو اس سے اپنا احوال کہنا؛ وہ کہیں سے نوریز گھانس لا کے تیری آنکھوں میں اس کا پانی چواوے گا، آنکھیں تیری جیسی کی تیسی ھو جاویں گی۔
اسی امید پر تیس برس سے اس پنجرے میں بیٹھا ھوا اس کی راہ تکتا ھوں اور کبھی کبھی جو اکتا کر اس سے نکلتا ھوں تو تمام بدن ھڈی سے لے کر گوشت تک اور گوشت سے لے کر پوست تک درد کرتا ھے، بے تاب ھو کر پھر اسی میں جا بیٹھتا ھوں اور آہ سرد کھینچ کر یہی سخن کہتا ھوں۔ اسی صورت
---------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 221 آرائشِ محفل صفحہ 188

سے کتنے ھی آئے اور کتنے ھی پوچھ پوچھ چلے گئے، پر کوئی میری داد کو نہ پہنچا اور نہ کسی نے اس کی تدبیر کی۔
حاتم نے کہا کہ تو خاطر جمع رکھ، یہ کام میں کروں گا۔
اتنے میں وے پری زاد جو حاتم کو یہاں پہنچا کے کوہ القا کو گئے تھے، الگن پری دیکھتے ھی ان پر جھنجلائی اور کہنے لگی کہ جب وہ اس کام سے فراغت کرتا تب اس کے گھر پہنچا کر تم یہاں آتے۔ اب اسی میں تمھاری خیر ھے کہ اس کو اس کے گھر پہنچا کر یہاں آؤ، نہیں تو بے طرح پیش آؤں گی۔
اس بات کے سنتے ھی وہ دوڑے اور حاتم کے پاس آ کر موجود ھوئے؛ پھر اپنی سرگذشت بیان کی اور پوچھا کہ اب آپ کا قصد کیدھر کا ھے؟
اس نے کہا کہ جہاں نوریز گھانس ھے، وھاں جایا چاھتا ھوں۔
وے بولے "ھم تم کو اس جنگل کے قریب پہنچا دیں گے اور دور سے پتا بھی بتا دیں گے لیکن وھاں نہ جائیں گے۔ اگر تم سلامت پھرے تو تمھیں تمھارے شہر پہنچا دیں گے، نہیں تو جو تم پر گزرے گی ملکہ سے عرض کر دیں گے۔"
حاتم نے پوچھا کہ اس کا سبب کیا ھے؟
انھوں نے کہا کہ صاحب! جس وقت وہ گھاس زمین سے نکلتی ھے، اس وقت تمام گُل اس جنگل کے مانند چراغ کے روشن ھو جاتے ھیں اور ھزاروں جانور، کیا سانپ، کیا بچھو، کیا چرندے، کیا پرندے، کیا درندے، کیا گزندے اس گھاس کے گرد آ کر جمع ھو جاتے ھیں؛ اس واسطے وھاں کسی کا گزر نہیں۔
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 222 آرائشِ محفل صفحہ 189

حاتم نے کہا "بارے دیکھوں قسمت میں کیا ھے۔"
تب ایک پری زاد نے حاتم کو کاندھے پر بٹھلا لیا، باقی ساتھ ھو لیے۔ حاصل یہ ھے کہ ساتویں دن اس جنگل کے قریب جا پہنچے۔ ایک میدا وسیع نظر پڑا، حاتم نے پوچھا کہ وہ گھانس کہاں ھے۔
وے بولے کہ اس کے اگنے کا وقت نزدیک پہنچا ھے، دو چار ھی روز میں نکلے گی۔
حاتم اور وے پری زاد کئی دن اس جنگل میں باھم رھے اور ھر ھر قسم کے میوے کھایا کیے کہ ایک دن وہ گھاس زمین سے نمود ھوئی۔ جہاں تلک پھول تھے چراغوں کے مانند روشن ھو گئے؛ سارا جنگل خوشبو سے مہک اٹھا، جانور ھر قسم کے آکر اس کے گرد جمع ھوئے اور ایک حلقہ باندھ کر کھڑے رھے۔
حاتم نے پری زادوں سے کہا کہ تم یہیں رھو، میں توکل بخدا جاتا ھوں، آگے جو مرضی اس کی۔ یہ کہہ کر وہ مہرہ منہ میں دھرا اور اس جنگل میں جا کر دو تین پتے گھاس کے اور کئی پتیاں پھولوں کی لے کر خیریت سے پھر آیا۔
پری زاد دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ عجب طرح کا آدم زاد ھے کہ اس کے ثانی نہ دیکھا نہ سنا۔ غرض پھر اسی طرح سے حاتم کو اس بڈھے کے پاس پہنچا دیا۔
وہ اسی حالت میں پڑا تھا۔ اتنے میں پکار کر کہا کہ اے پیر مرد! میں وہ گھاس لے آیا ھوں۔
بڈھے نے کہا "مرحبا! اب لازم ھے کہ تو اپنے ھاتھوں سے اسے مل کر دو تین قطرے میری آنکھوں میں ٹپکا دے۔"
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 223 آرائشِ محفل صفحہ 190

حاتم نے وھی کیا۔ پہلے تو اس کی آنکھیں ابل آئیں، پھر نیلگوں ھو گئیں، آکر پانی سوکھ گیا اور کٹورا سی ھو گئیں۔
وہ حاتم کے پاؤں پر گر پڑا اور معذرت کرنے لگا۔
اس نے بھی اسے گلے سے لگا لیا اور کہا "بھائی! از براے خدا کیا کہتا ھے۔ میں نے خدا کی راہ میں کمر باندھی ھے، جو کام میرے ھاتھ سے نکلتا ھے میں اسے غنیمت جانتا ھوں اور اپنی سعادت سمجھتا ھوں۔"
پیر مرد نے کہا کہ اے جوان مرد! میرے گھر میں بہت سا زر و جواھر ھے، تو وھاں چل اور جس قدر چاھے اس میں سے لے۔
حاتم نے کہا "مجھے ھرگز زر و جواھر درکار نہیں۔ خدا کے فضل سے میرے گھر میں بےشمار ھے کہ میں اسی کو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ھوں، تیرا مال لے کر کیا کروں۔"
یہ کہہ کر وہ پیر مرد سے رخصت ھوا اور پری زادوں کے کندھے پر سوار ھو کر بعد دس روز کے شہر شاہ آباد میں آیا۔
تب پری زادوں نے کہا کہ خداوند! آپ اپنی مہر سے ایک رسید لکھ دیجیے کہ تا ھم بادشاہ زادی کو دیں کہ ان کی دل جمعی ھووے۔
حاتم نے ایک رسید اپنے احوال سمیت لکھ کر ان کے حوالے کی، وے اُدھر اُڑے۔ یہ شہر میں داخل ھو کر کارواں سراے میں آیا اور منیر شامی سے ملاقات کر کے نہایت خوش ھوا۔
بعد دو چار گھڑی کے دونوں متفق ھو کر حسن بانو کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ نسخہ مطبوہ بمبئی میں 'کہ' کی جگہ 'لے' ھے۔
---------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 224 آرائشِ محفل صفحہ 191

گھر آئے۔ وہ ایک مکان پاکیزہ میں پردۂ پُر تکلف ڈال کر بیٹھی اور ان کو باھر جواھر کی چوکیوں پر بہ عزت تمام بٹھلایا اور احوال پوچھا۔
حاتم نے تمام و کمال بیان کیا۔ حسن بانو نے ان کی ضیافت کی تیاری کی۔ دسترخوان بچھوا دیا، طرح بہ طرح کے کھانے چنوا دیے اور قسم قسم کے میوے رکھوا دیے۔ ھنسی خوشی انھوں نے نوش جان کیا اور رات کی رات وھیں آرام فرمایا۔
صبح کو حاتم نے پوچھا کہ اے حسن بانو! اب کون سا مطلب ھے؟
اس نے کہا کہ ایک شخص کہتا ھے کہ "سچے کو ھمیشہ راحت ھے" وہ کیا سچ بولا ھے اور کیا راحت پائی ھے؟ اس کی خبر لا۔
حاتم نے کہا کہ تم جانتی ھو وہ کس طرف ھے؟
حسن بانو بولی کہ میں نے اپنی دائی سے سنا ھے کہ شہر قرم میں ھے، پر یہ نہیں جانتی کہ وہ شہر کس طرف کو ھے۔
حاتم نے کہا "خیر کدا یہ بھی مشکل آسان کرے گا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ 225 آرائشِ محفل صفحہ 192

چوتھا سوال
حاتم کے جانے کا اور اس بات کی خبر لانے کا کہ "سچ کو ھمیشہ راحت ھے"

القصہ حاتم حسن بانو سے رخصت ھوا اور شہر سے باھر نکلا؛ بعد کئی منزلوں کے ایک دامن کوہ میں جا پہنچا۔ وھاں کیا دیکھتا ھے کہ ایک دریا عظیم لہو سے بھرا ھوا نہایت زور و شور سے بہہ رھا ھے۔ اس کو دیکھ کر متفکر ھوا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ نے کبھی لال پانی کا دریا نہیں دیکھا۔ اس کو دریافت کیا چاھیے کہ یہ کس طرف سے آتا ھے اور اس کے بہنے کا سبب کیا ھے؟ یہ ارادہ کر کے اس طرف روانہ ھوا۔
اتنے میں ایک درخت عالی شان سامنے نظر پڑا۔ جب اس کے پاس پہنچا، دیکھا کہ ھر ایک ڈالی میں اس کی سیکڑوں سر آدمیوں کے لٹکتے ھیں اور اس کے نیچے ایک تالاب نہایت خوش قطع ملبّب ھے اور اسی کا پانی جنگل کی طرف چلا جاتا ھے۔
یہ اس درخت کے تلے بیٹھ گیا اور جتنے سر اس درخت میں لٹکتے تھے بے اختیار قہقہہ مار کر ھنسنے لگے۔ یہ دیکھ کر حیرا رھا کہ کٹھے ھوے سر ھنستے ھیں اور ان سے قطرے لہو کے ٹپک ٹپک کر اسی تالاب میں گرتے ھیں اور پانی خون آلاودہ ھو کر دریا میں چلا جاتا ھے۔
اتنے میں نظر اس کی اس سر پر جا پڑی جو سب سروں سے اوپر لٹکتا تھا۔ یہ اس کو دیکھتے ھی بے ھوش ھو گیا۔ جب
-----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 226 آرائشِ محفل صفحہ 193

ھوش میں آیا، اپنے جی میں کہنے لگا کہ اس ماجرے کو بے دریافت کیے میں کیوں کر کسی کے سامنے بیان کروں گا، پس لازم ھے کہ تھوڑے دن یہاں رھیے اور اس احوال کو بخوبی دریافت کیجیے کہ یہ اسرار ھے۔ یہ اسی فکر میں تمام دن وھاں رھا۔
اتنے میں رات ھو گئی۔ یہ ایک کونے میں چھپ کر بیٹھ رھا۔ سارے سر ٹہنیوں سے چھوٹ کر تالاب میں گر پڑے۔ اور حاتم اس تالاب کی طرف دیکھتا تھا۔ اس میں ایک نشست گاہ نہایت پاکیزہ تھی، فرش شاھانہ اس پر لا کے بچھایا اور ایک تخت زریں بھی وھاں پر تکلف ایک قرینے سے رکھ دیا۔ بعد کئی گھڑی کے کتنی پریاں نازنین نکلیں؛ ان میں ایک پری زاد نہایت نوکیلی سجیلی ھوش ربا، ماہ لقا تھی؛ آتے ھی ناز و غرور سے اس تخت پر بیٹھ گئی۔ حاتم نے جو غور کر کے دیکھا، معلوم کیا کہ وھی سر ھے جو سب سے اونچا تھا؛ پھر کتنی پریاں گرد اس کے کرسیوں پر بیٹھ گئیں اور کتنی ھاتھ باندھ کر با ادب کھڑی ھو رھیں۔
اتنے میں طائفہ ساز ملا کر آ کھڑا ھوا اور اس تخت کے سامنے ناچنے لگا۔ حاتم تاک لگائے دیکھتا تھا اور فکر کرتا تھا کہ الٰہی یہ کیا راز ھے! جب آدھی رات گئی، دسترخوان شاھانہ بچھایا اور اقسام اقسام کے طعام پاکیزہ و لطیف اس پر چنے؛ پھر اس تخت نشین نے ایک خواص سے کہا کہ تو ایک خوان کھانے کا آئین شایشتہ سے تیار کر کے اس مسافر کو جو فلانے کونے میں بیٹھا ھے، دے آ۔
وہ اسی صورت سے تیار کر، سر پر دھر، حاتم کے پاس لے گئی اور کہنے لگی کہ یہ ھمارے سردار نے تجھے بھیجا ھے۔
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 227 آرائشِ محفل صفحہ 194

حاتم نے کہا کہ تیرا کیا نام ھے اور تیرے سردار کا کیا نام ھے؟
وہ بولی کہ تجھے میرے نام سے اور سردار کے نام سے کیا کام ھے؟ اگر بھوکا ھے تو کھانا کھا۔
حاتم بولا کہ تو جب تک اپنا نام نہ بتاوے گی اور اپنے سردار کا، ھر گز نہ کھاؤں گا۔
یہ بات سن کر وہ نازنین پھر آئی اور ملکہ سے عرض کرنے لگی کہ وہ مسافر کھانا نہیں کھاتا اور کہتا ھے کہ جب تک تو اپنا نام اور اپنی سردار کا اور احوال اس جماعت کا کہ اس تالاب سے نکلی ھے، ظاھر نہ کرے گی، میں تب تک کچھ نہ کھاؤں گا۔
ملکہ نے کہا کہ تو جا کر کہہ کہ تم پہلے کھانا کھا لو، میں پیچھے کہوں گی۔ جب کھا چکے، کہیو آج نہیں کل۔
وہ حاتم کے پاس آئی اور جو کچھ بادشاہ زادی نے سکھلا دیا تھا، عمل میں لائی۔ غرض حاتم نے چاھا کہ اس کا ھات پکڑ لے کہ وہ بھاگ کر تالاب میں کود پڑی اور ملکہ کے پاس جا کھڑی ھوئی۔ اور شہزادی تمام رات ناچ و راگ میں مشغول ھوئی۔ جب صبح ھوئی، سب کی سب تالاب میں کود پڑیں۔
بعد ایک ساعت کے کتنے ھی سر پانی پر تر آئے اور آپ ھی آپ تالاب میں سے اچھل اچھل کر درخت کی ڈالیوں میں لٹک گئے، اور وہ سر بدستور سب سے اونچا لٹکا، پھر سب کے سب ھنس پڑے۔ حاتم بھی اس کونے سے دیکھتا تھا لیکن سردار کے سر سے ٹکٹکی لگائے تھا اور دل میں کہتا تھا کہ اگر اس بھید کو پا لوں تو اس نازنین سے جو شب کو جیتی ھے، ھر طرح سے نکاح کروں۔
------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 228 آرائشِ محفل صفحہ 195

اور کہتا تھا کہ الٰہی! یہ کیا اسرار ھے؟ ھر رات یہ جیتی ھیں اور دن کو اس درخت میں لٹک جاتی ھیں، شاید یہ کام بہ سبب جادو کے یا طلسم سے ھوتا ھے۔
انھیں سوچوں میں دن آخر ھوا اور شام ھوئی۔ رات کے وقت وے سر پھر تالاب میں گرے اور بدستور سابق فرش بچھایا گیا اور مجلس آراستہ ھوئی۔ پری زادیں اور بادشاہ زادی تخت اور کرسیوں پر جا بیٹھیں، ناچ شروع ھوا۔ اور حاتم منتظر تھا کہ آج کی رات کا وعدہ کیا ھے، دیکھیے آ کر وفا کرتی ھے یا نہیں۔
جب آدھی رات ھو گئی تب اسی طرح سے دسترخوان بچھا، کھانا قسم قسم کا چنا گیا۔ شہزادی نے پھر ایک خوان کھانے کا اسی پری کے ھاتھ بھیجا، وہ لے کر حاتم کے پاس گئی۔ وہ اس کو دیکھتے ھی کہنے لگا کہ اے پری! تو نے کہا تھا کہ میں کل آ کر احوال کہوں گی اور نام بتاؤں گی۔ پس لازم ھے تجھ کو کہ آج وعدہ وفا کر کہ میں کئی دن کا بھوکا ھوں، کھانا کھاؤں۔
اس نے پھر جا کر ملکہ سے عرض کیا۔ بادشاہ زادی نے فرمای "اسے جا کر کہہ کہ جب تو ملکہ کے حضور آئے گا اس وقت یہ بھید کھل جائے گا، لیکن پہلے کھانا کھا، بعد اس کے میرے ساتھ ھو۔"
حاتم نے یہ بات سن کر کھایا اور اس کے ساتھ ھو لیا۔ وہ غوطہ مار اسی جگہ جا کر بدستور قائم ھوئی۔ حاتم نے آنکھں بند کر کے تالاب میں غوطہ مارا اور زمین کی تہہ کو اس کے پاؤں لگے۔ آنکھیں کھول کر دیکھا کہ نہ وہ تالاب ھے، نہ وہ درخت ھے، نہ وہ پریاں ھیں، پر آپ ایک لق و دق جنگل میں کھڑا ھے۔ ندان نعرے مارنے لگا اور آھیں بھرنے ، سر پر خاک ڈالنے۔
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 229 آرائشِ محفل صفحہ 196

غرض اسی حالت میں سات رات دن گزر گئے خداے کریم نے اپنے فضل و کرم سے حضرت خواجہ حضر علیہ السلام کو حکم کیا کہ تم اس جنگل میں جاؤ جہاں حاتم سودائیوں کی طرح سے آھیں بھر بھر کر رو رھا ھے۔ مدد کرو اس کی کہ عالم میں وہ بہت سی نیکی کرے گا اور نیک ناموں میں مشہور ھو گا۔
خواجہ خضر سبز کپڑے پہنے ھوئے اور عصا ھاتھ میں لیے اس کی داھنی طرف سے نمود ھوئے۔ حاتم ان کو دیکھ کر اور بھی آھیں بھرنے اور نالے کرنے لگا۔ انھوں نے یہ حال دیکھ کر اپنا ھاتھ شفقت سے اس کے منہ پر پھیرا اور ووں ھی حالت اصلی پر آ گیا اور کہنے لگا کہ پیر و مرشد یہ کون سا مکان ھے؟
انھوں نے کہا کہ اس کو صحراے خبر پرس کہتے ھیں۔
وہ پھر کہنے لگا میں اس جگہ کیوں کر آ رھا؟
حضرت نے فرمایا کہ تو نے فلانے تالاب میں فلانی پری کے ساتھ غوطہ مارا تھا۔ وہ تالاب طلسم کے علم سے بنا ھے اور اثر اس کا یہی ھے کہ جو آدمی اس میں غوطہ مارے، سو یہاں آ پڑے؛ چناں چہ وہ مکان اس جگہ سے تین سو کوس ھے۔
یہ اس بات کے سنتے ھی خاک پر گر پڑا اور رو رو کر کہنے لگا کہ ھاے ھاے میرے دل کو کیا ھو گیا اور کیوں کر میں وھاں پہنچوں گا؛ اگر میری مراد نہ ملے گی تو میں تڑپ کر مر جاؤں گا۔
خواجہ نے پوچھا کہ تیری مراد کیا ھے؟
اس نے کہا کہ جس جگہ تھا میں وھیں جا پہنچوں۔
انھوں نے فرمایا کہ تو میرا عصا پکڑ اور آنکھیں
-----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 230 آرائشِ محفل صفحہ 197

بند کر لے۔
اس نے انھیں کے کہنے کے موافق کیا؛ اور بعد ایک دم کے باؤں اس کا تہہ پر لگا۔ اس نے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا تو وھی جنگل اور وھی درخت اور وھی سر ڈالیوں پر لٹکتے ھیں۔ بے اختیار اس درخت کے پاس آیا اور اوپر چڑھنے کا قصد کیا؛ درخت ھلنے لگا بلکہ قریب تھا کہ گر پڑے۔ حاتم اس کے تنے سے لپٹ گیا پر وہ اسی طرح سے ھلتا رھا۔
یہ جو ٹک وھاں سے اور اوپر بڑھا، ایک تڑاکے کی آواز آئی؛ درخت بیچ میں سے پھٹ گیا اور حاتم کمر تک اس میں سما گیا۔ جب دیکھا اس نے کہ اب کچھ نہیں ھو سکتا، حیران ھوا اور ڈرا کہ یہ کیا آفت پڑی ھے۔ ایک مرتبہ میں ان کے لیے تالاب میں گرا تو اس مصیبت میں پڑا، جو درخت پر چڑھنے کا قصد کیا تو یوں پھنسا؛ جتنا زور کرتا ھوں کہ اوپر آؤں، نیچے ھی چلا جاتا ھوں۔ آخر سب کا سب بدن اس درخت کے اندر چھپ گیا، فقط آنکھیں باھر رہ گئیں۔
اسی وقت حضرت خواجہ خضر پھر پہنچے اور کہنے لگے کہ اے جوان! اپنے تئیں بلا میں کیوں ڈالتا ھے، مگر زندگی سے سیر ھو چکا ھے؟
حاتم کا احوال تنگ تھا، کچھ نہ بولا۔ تب خواجہ خضر نے اس پر رحم کھا کر ایک عصا اس درخت پر مارا کہ وہ مانند موم کے ھو گیا؛ حاتم اس میں سے نکل پڑا، پر سست تھا۔
بعد کتنی دیر کے ھوش میں ایا۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ اے حاتم! تو جو اپنے اوپر اس قدر رنج اٹھاتا ھے اور مصیبت میں ڈالتا ھے، تجھ کو ان سے کیا مدعا ھے؟
-------------------------------------------------------------
 

محمد عمر

لائبریرین
210

میں نے جو اس کا یہ احوال دیکھا، بے اختیار ہو کر پوچھا کہ کیا(۱) احوال ہے تیرا؟ اس نے اپنی مصیبت از ابتدا تا انتہا سب کی سب میرے سامنے بیان کی۔ اس واردات کو سن کر میرا کلیجا جل گیا اور آنسو ٹپکنے لگے۔ میں اس کی خاطر آیا ہوں، اس واسطے کہ اُس کا قول اسے یاد دلاؤں، شاید بھول گئی ہو؛ اور اگر وہ اس امید پر مر جاوے گا تو بڑا غضب پڑے گا۔

اُنہوں نے کہا کہ اے آدم زاد! ہم اتنی قدرت نہیں رکھتے ہیں جو تیرا احوال جا کر اس سے کہیں مگر یہ کہ تجھے باندھ کر اُس کے سامنے لے جاویں، پھر جو تیری زبان پر آوے سو عرض کر۔ یہ بات ہم بطور دوستی کے کہتے ہیں کیوں کہ اگر ہم تجھے بخوبی لے جاویں، شاید وہ ہم پر غضب ہو کہ اس آدمی کو اس خوبی سے کیوں لائے ہو۔

حاتم نے کہا کہ جس ڈھب سے بنے اس ڈھب سے مجھ کو اس کے پاس لے چلو، آگے میں ہوں اور میری محنت یا اس جوان کی قسمت۔

غرض ایک دن الگن پری اپنے محل سے نکل کر اس باغ کی طرف سے ناز و ادا سے چلی آتی تھی؛ وے سب کے سب استقبال کو آئے اور آداب بجا لائے۔ الگن پری آ کر تخت پر بیٹھ گئی اور وے پریاں جو اس کی جلیس تھیں، کرسیوں پر قاعدے سے برابر بیٹھیں۔

پھر پری زادوں نے باغ میں آ کر حاتم سے کہا کہ چل تیرے تئیں ہم ملکہ کو دکھلا دیں۔ غرض لے آئے اور ایک جھروکے کے پاس بٹھلا دیا اور کہا کہ دیکھ وہ جو تخت زریں پر دھانی جوڑا پہنے اور سر پر آنچل پلو کا دوپٹا اوڑھے ہوئے ایک غرور و ناز سے بیٹھی ہے، وہی الگن پری ہے۔ حاتم دیکھتے


211

ہی غش کر گیا۔ جب ہوش میں آیا، خدا کی درگاہ میں سجدہ کیا اور اس کی صنعت پر مقر ہوا؛ جوان کو اپنی خاطر سے بھلا دیا بلکہ اُس پری پر آپ ہی دیوانہ ہو گیا یہاں تک کہ کھانا پینا بھی چھوڑ دیا۔ اس طرح سے تین دن گزر گئے۔ اتفاقاً رات کے وقت آنکھ لگ گئی تو کیا سنتا ہے کہ کسی طرف سے ایک آواز آتی ہے کہ اے حاتم! آٹھ اور اپنے تئیں پہچان۔ اسی منہ پر تو نے خدا کی راہ میں کمر باندھی ہے کہ غیر کی امانت میں خیانت کرے اور اس بات کا دم بھرتا ہے کہ میں جو کام کرتا ہوں سو عند اللہ ہی کرتا ہوں؟ مصرع

ہہ اگر سچ ہے تو ظالم اُسے کیا کہتے ہیں

اس بات کے سنتے ہی وہ چونک پڑا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا، کوئی نظر نہ آیا۔ تب اپنی جگہ سے اٹھا، استغفار کرنے لگا اور خدا سے ڈرا اور بہت سا رو دیا؛ ندان سر کو زمین پر دھر دیا اور عجز سے کہنے لگا کہ الٰہی! تو میرے گناہ بخش کہ غفور الرحیم ہے۔ بعد اس کے پری زادوں سے کہا کہ مجھ کو ملکہ کے پاس لے چلو کیوں کہ وہ غریب میرے آنے کا راہ دیکھتا ہو گا، میں کب تک انتظار کھینچوں۔

اُنہوں نے شہزادی کو خوش دیکھا، حاتم کے ہاتھ باندھ کر باغ کے دروازے پر لے آئے۔ پھر ان میں سے ایک نے جا کر ملکہ سے عرض کی کہ ایک آدمی زاد گردش کا مارا باغ کے نزدیک آ گیا تھا، ہم اس کو باندھ کر باغ کے دروازے پر لے آئے ہیں، آگے جو حکم ہو سو کریں۔

ملکہ نے کہا کہ اس کو حضور میں لے آؤ۔ جوں لے آئے، حاتم کو دیکھتے ہی اس جوان کو بھول گئی اور اس کا ہاتھ


212

پکڑ کر اپنے پاس کرسی زریں پر بٹھلا لیا۔ پھر پوچھا کہ اے جوان! کہاں سے آیا ہے؟ کیا نام ہے تیرا اور کیا مطلب رکھتا ہے تو؟

اُس نے کہا "میں طے کا بیٹا ہوں، یمن سے آیا ہوں اور حاتم نام ہے میرا ۔"

پری زاد نے جو اس کا نام سنا، تخت سے اُٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی کہ میں نے بھی تیرا نام سنا ہے کہ تو یمن کا شہزادہ ہے۔ بڑی مہربانی کی کہ یہاں قدم رنجہ فرمایا۔ بارے یہ کہہ کہ آنے کا سبب کیا ہے اور اتنی مصیبت کیوں اٹھائی؟ میں تو تیری لونڈی کی جگہ ہوں اور تجھے اپنا سر تاج جانتی ہوں۔

حاتم نے کہا کہ یہ تیری مہربانی ہے۔ اور شاہ آباد سے آیا تھا اور اب صحرائے احمر کی طرف جاتا تھا؟ اثنائے راہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جوان کسی درخت کے تلے نعرے مارتا ہے اور آنکھیں بند کیے یہ مصرع پڑھتا ہے : مصرع

شتاب آ کہ نہیں تاب اب جدائی کی

میں نے پوچھا کہ اے جوان! تو نے اپنا احوال کیوں تباہ کیا ہے؟ برائے خدا اپنا ماجرا مجھ سے کہہ۔ اس نے تمام سر گذشت اپنی اور تمہاری محبت و مہربانی کی بیان کی اور کہا کہ ملکہ سات دن کا وعدہ کر کے گئی ہیں اور سات ہی برس گزر گئے کہ نہیں آئیں۔ میں انتظاری میں اُن کے نالاں و گریاں ہوں؛ نہ طاقت چلنے کی رکھتا ہوں، نہ قدرت رہنے کی۔ سوائے اس کے چلنے کے وقت اُنہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر یہ کہا تھا کہ خبردار تو یہاں سے کہیں اگر جائے گا تو خراب ہو گا۔ حیران ہوں کہ اب معشوق کا حکم کس طرح ٹالوں۔ اگر ملاقات ہونی ہے تو یہیں ہو رہے گی۔

213

میں نے جو اس کا یہ احوال دیکھا اور عاشق پایا۔ اپنا مطلب چھوڑ کر آیا ہوں۔ اگر اس بے چارے کے احوال پر مہربانی فرماؤ تو گویا مجھے مول لو اور اس ادھ موئے کو جان بخشو۔

پری نے کہا ا"ے یمن کے شاہزادے! میں تجھے دیکھ کر اُسے بھول گئی اور وہ میرے لائق نہیں، عشق بھی اس کا خام ہے کیوں کہ سات برس گزر گئے کہ وہ اپنی جان کے ڈر سے وہیں رہا اور کوہ القا پر قدم بھی اس نے نہ رکھا۔"

تب حاتم نے کہا "اگر وہ عاشق صادق نہ ہوتا تو کیوں تیری محبت کی دارو پیتا، اور کس واسطے تیری یاد میں اپنے تئیں خراب کرتا۔ سوائے اس کے تو خود اُس سے وعدہ کر کے آئی ہے کہ میں سات روز میں آؤں گی، تو میرے آنے تک کہیں نہ جانا۔ وہ غریب عاشق نامراد اپنے معشوق کی عدول حکمی کیوں کر کرے اور اس کو یقین ہے کہ میری معشوق میرے پاس یہیں آوے گی۔ اب مجھ کو لازم نہیں ہے جو میں بھوک اور پیاس کے مارے کسی طرف چلا جاؤں اور وہ یہاں آ کر جو مجھے نہ پاوے تو رنجیدہ ہو ۔"

یہ بات سن کر اس نے کہا کہ تو کچھ کہہ، میں اس کو ہرگز قبول نہ کروں گی۔

حاتم بولا کہ اے مہر لقا! اس قدر خفگی کا سبب کیا ہے؟ بیان کر۔ حق تو یہ ہے کہ جب تک وہ اپنی مراد کو نہ پہنچے گا تب تک میں بھی یہاں سے نہ جاؤں گا۔

پری نے کہا کہ تو یہ امید مجھ سے مت رکھ، میں کبھی اس کے پاس نہ جاؤں گی۔

حاتم نے کہا کہ از برائے خدا میری محنت و مشقت رایگاں

214

مت کر، کیوں کہ میں نے بہت سی محنت و مصیبت اُٹھائی ہے۔ تب وہ بولی کہ میں تیرے کہنے کے باہر نہیں۔ اچھا تیری خاطر سے اُس کو اپنے پاس رکھوں گی، پر ہم صحبت نہ ہوں گی۔

حاتم نے کہا کہ خیر میں بھی تیرے دروازے پر بیٹھ کر اتنے فاقے کروں گا کہ مر جاؤں گا اور میرا خون تیری گردن پر رہے گا۔ یہ کہہ کر اٹھا اور اس کے دروازے پر ایک درخت کے تلے جا بیٹھا، دانا پانی چھوڑ دیا اور اسی صورت سے سات روز گزر گئے۔

ایک شب اس نے یہ خواب دیکھا کہ ایک شخص کہتا ہے کہ اے حاتم ! یہ الگن پری ہے، اس نے اسی صورت سے اپنے فراق میں کتنے ہی کو مارا ہے۔ تو پہلے اس سے کہہ کر اس جوان کو بلوا اور وہ مہرہ جو اُس خرس کی لڑکی نے تجھے دیا ہے اس کو دے کہ اپنے منہ میں رکھ کر غرغرا کرے اور پیالے میں ڈال کسی طرح بھی اُس پری کو پلا دے، پھر خدا کی قدرت کا تماشا دیکھ۔ یقین ہے کہ معشوق عاشق ہو جاوے۔ یہ بات سن کر وہ چونک پڑا اور متفکر ہوا۔

اتنے میں صبح ہو گئی۔ الگن پری اُس کے پاس آ کر کہنے لگی کہ اے جوان! تو نے دانا پانی کیوں چھوڑ دیا ہے؟ اگر بے آب و دانہ مر جاوے گا تو میں تیرے گناہ میں پکڑی جاؤں گی اور خدا کو کیا منہ دکھلاؤں گی۔

حاتم نے کہا "تو اس کو بلوا کر دیکھ اور وہ تیرا دیدار دیکھے کہ مطلب اس کا یہی ہے۔"

الگن پری نے کہا کہ البتہ یہ بات میں نے قبول کی۔ اس

215

سخن کے سنتے ہی حاتم خود مستعد ہوا کہ جا کر اُس جوان کو لے آوے کہ ملکہ نے کہا کہ صاحب! تم کس واسطے تکلیف کرتے ہو، میں کئی پری زادوں کو بھیج کر بلوا لیتی ہوں۔ یہ کہہ کر پھر گئی؛ پری زادوں کو فرمایا کہ تم فلانے پہاڑ کی طرف جاؤ، وہاں ایک شخص کسی درخت کے نیچے پتھر کی سل پر آنکھیں بند کیے کھڑا ہے اور آہیں سرد بھرتا ہے۔ اس کہو کہ حاتم وہاں جا پہنچا اور تیرا احوال اس نے تیری معشوقہ سے مفصل بیان کیا، اس واسطے تجھے الگن پری نے بلوایا ہے۔

غرض وے پری زاد ایک پل میں وہاں جا پہنچے اور اُس ماجرے کو اس سے کہنے لگے۔ وہ اس بات کے سنتے ہی اپنی جگہ سے اٹھا اور حاتم کی ہمت پر آفریں کر کے ساتھ ہو لیا۔

وے ایک ہی دن میں اسے شہزادی کے پاس لے آئے۔ ملکہ نے اس کو اپنے پاس بٹھلا لیا۔ جوان اس کو دیکھتے ہی بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔ شہزادی نے اپنے ہاتھ سے اس پر گلاب چھڑکا؛ بعد ایک دم کے ہوش میں آیا۔

تب الگن پری نے آہستہ پیار سے کہا کہ اے جوان! مجھ کو خوب سا دل بھر کر دیکھ لے۔

غرض تمام دن بہی صحبت رہی۔ شام کے وقت اس نے اپنی پریوں سے کہا کہ مجلس نشاط کی آراستہ کرو اور ناچ راگ شروع ہووے؛ اس بات کے سنتے ہی وے ناچنے گانے لگیں۔ حاتم اور وہ جوان بھی بیٹھے ہوئے تماشا دیکھ رہے تھے، پر الگن پری ہرگز اس جوان کی طرف متوجہ نہ تھی۔ یہ حالت دیکھ کر حاتم نے اس جوان کو کہا کہ تو اس مہرے کو پانی میں

216

رگڑ کر منہ میں لے اور اس کی پانی پینے کی ٹھلیا میں کلی کر دے اور پھر یہاں آ کے چپکے سے بیٹھ رہ۔ جوان اس کام میں مشغول ہوا کہ کتنی پریوں کی نگاہ اس پر جا پڑی۔ بے اختیار دوڑ پڑیں اور کہنے لگیں کہ تجھ کو آب خاص کی ٹھلیوں سے کیا کام ہے۔

اُس نے کہا کہ شدت پیاسا ہوں، کیا کروں۔ اُنہوں نے اس کو پانی پلا دیا، پھر وہیں آ بیٹھا۔

حاتم نے جب دیکھا کہ جوان نے اپنا کام تمام کیا، ملکہ سے کہا کہ اس کو نہایت گرمی ہے، تھوڑا سا شربت پلاؤ اور اس کی پیاس بجھاؤ۔ پری نے ارشاد کیا کہ جلد شربت تیار کر لاؤ۔ حاتم آپ ہی اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے ہاتھ سے شربت تیار کر شہزادی کے سامنے لے آیا۔

اس نے ارشاد کیا "تھوڑا تھوڑا سب پئیں۔"

حاتم نے کہا کہ پہلے آپ قدرے نوش جان کریں، پھر سب پئیں گے۔

ملکہ نے حاتم کے ہاتھ سے شربت کا پیالہ لیا اور منہ سے لگایا؛ دو ہی گھونٹ پیتے ہی وہ پری اُس آدم زاد پر دیوانی ہو گئی۔

حاتم نے جو دیکھا کہ احوال اس کا کچھ اور ہے، آہستہ سے کہا کہ اے ملکہ! اس عاشق نیم جان اور کشتہ ہجراں پر اگر مہربانی فرماوے تو تیرے اخلاق سے چنداں دور نہیں۔

اس نے مسکرا کر یہ مصرع پڑھا : مصرع

ای باد صبا این ہمہ آوردۂ تست


217

پھر کہنے لگی "نہیں جانتی یہ آفت کس کی اُٹھائی ہوئی ہے اور یہ آگ کس کی لگائی ہوئی۔ اب مجھ سے بھی درد اُس کی جدائی کا نہیں سہا جاتا اور اس کے بے ملے ایک دم رہا نہیں جاتا؛ لاچار ہوں، تیرا کہا مانا اور اس کو قبول کیا مگر بے رضامندی ماں باپ کے یہ کام نہیں کر سکتی۔

یہ کہہ کر کوہ القا کی طرف گئی اور محل میں داخل ہو کر والدہ کو مجرا کیا اور سر جھکا کر شرم سے چپکی ہو رہی۔ اس کی ماں نے کہا کہ اتنے جلد آنے کا سبب کیا ہے؟ ابھی تو چالیس روز نہیں ہوئے۔

تب اُس کی مصاحبوں نے عرض کی کہ ملکہ کو ایک آدم زاد پسند آیا ہے اور اس نے بھی ان کے عشق و محبت میں برسوں رنج و تعب اُٹھائے ہیں۔ اب جوں توں یہاں آن پہنچا ہے اس واسطے چاہتی ہیں کہ اس کو اپنا دم ساز اور محرم راز کریں لیکن آپ کی بے اجازت یہ کام اُن سے نہیں ہو سکتا۔

اس بات کے سنتے ہی وہ اپنے خاوند کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ تمھاری بیٹی کی خواہش ہے کہ ایک آدم زاد سے اپنا بیاہ کرے۔

اس نے کہا کہ اگر اس کی مرضی ہے تو مبارک ہو، چشم ما روشن۔

القصہ الگن پری نے اسی وقت حاتم کو اور اسی جوان کو بلا بھیجا۔ ماں اس کی ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اپنے خاوند سے بھی تعریف کی۔ اس نے اسی وقت بیاہ کا سر انجام تیار کیا اور ملک کو دھوم دھام سے اس جوان کے ساتھ موافق اپنی رسموں کے بیاہ دیا۔ عاشق و معشوق باہم ملے اور

218

حاتم کو دعائیں دینے لگے۔

آخر سات روز کے بعد حاتم ان سے رخصت ہونے لگا۔ پری نے پوچھا کہ اب کہاں کا قصد رکھتے ہو؟

اُس لئے کہا "کوہ احمر کا، کیوں کہ مجھے وہاں ایک کام ضروری ہے۔"

پری نے کہا کہ ایک دن میں تمہیں وہاں بھیجوا دیتی ہوں، مت گھبراؤ۔

یہ کہہ کر اس نے اپنے کئی پری زادوں سے کہا کہ تم اس کو ایک تخت پر بٹھلا کر وہاں پہنچا آؤ۔

وے اس کو ایک تخت مرصع پر بٹھلا کر اُڑے، رات کے وقت وہاں جا پہنچے۔ حاتم نے ان کو کہا کہ مجھ کو یہیں چھوڑو اور تم رخصت ہو۔ بہ موجب کہنے حاتم کے وے سب رخصت ہوئے اور حاتم اسی آواز پر چل نکلا اور اُسی درخت کے پاس جا پہنچا کہ جس سے وہ آواز آتی تھی۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک پیر مرد وہاں لوہے کے پنجرے میں لٹکا ہے۔ حیران ہوا اور ایک ساعت کھڑا رہا۔ پھر پوچھنے لگا کہ اے بزرگ! یہ آواز کیوں تیرے منہ سے ہر گھڑی نکلتی ہے اور وہ کون ہے کہ جس نے تجھے اس پنجرے میں بند کر کے لٹکا دیا ہے؟

یہ بات سن کر بڈھے نے ایک آہ کھینچی اور کہا کہ اے جوان! میرا احوال کے مت پوچھ اور جو پوچھتا ہے تو میری طرف غور کر۔ اس شرط پر میں تجھ سے کہتا ہوں۔

حاتم نے کہا کہ میں نے قبول کیا۔

اُس نے کہا کہ میں احمر سوداگر ہوں۔ جس وقت میں پیدا

219

ہوا تھا اُس وقت یہ ملک میرے باپ نے میرے نام سے آباد کیا تھا۔ جب میں بڑا ہوا باپ مجھ کو اس شہر میں چھوڑ کر کسی ملک میں تجارت کے واسطے گیا۔ میں نہایت فضول خرچ تھا، جو زر و جواہر، مال و متاع باپ نے مجھ کو گزران کے واسطے دیا تھا، میں نے تھوڑے ہی عرصے میں اُڑا دیا، محتاج ہو گیا، افلاس غالب آیا۔ اور باپ میرا اسی سفر میں مر گیا، کچھ گڑا گڑایا میرے ہاتھ نہ لگا۔

بعد چند روز کے بازار میں ایک جوان کو دیکھا میں نے، یوں کہتا ہے کہ جس کسی کا زر و جواہر، مال و متاع یا اسباب کھویا گیا ہو یا زمین میں گاڑ کر بھول بیٹھا ہو، میں اپنے علم سے نکال دیتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ چوتھا حصہ مجھ کو دے۔ یہ بات میں نے اس کی مان لی اور اس کو اپنے گھر میں لا کر ہر ایک جگہ دکھلا دی۔ اس نے جا بجا سے مٹی اٹھا کر سونگھی اور پھینک دی۔ آخر ایک کونے کو کھدوایا، وہاں زر و جواہر بے شمار نکلا؛ میں چوتھائی دینے میں حیلہ کرنے لگا اور اپنے اقرار سے پھر گیا۔ تھوڑا سا اٹھا کر اس کے آگے دھر دیا۔ اس نے کہا کہ میں وہی اپنا چوتھا حصہ لوں گا۔ اس بات سے میں برہم ہوا اور طپانچے مار کر اس کو باہر کر دیا؟ وہ میری جان کو روتا پیٹتا چلا گیا۔ بعد کتنے دنوں کے پھر آیا اور مجھ سے دوستی پیدا کی، بلکہ یار غار ہو کر ایک دن کہنے لگا کہ جو کچھ زمین میں گڑا ہوا ہے، مجھے سب نظر آتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا علم ہے؟ میں بھی کسی طرح سیکھ سکوں۔ اس نے کہا بہت آسان ہے؛ وہ ایک سرمے کی ترکیب ہے کہ اُسے بنا کر جو کوئی آنکھوں میں دیوے، جتنا مال کہ چھپا ہوا ہے نظر آنے لگے۔

تب میں نے کہا کہ اگر تو ایسا سرمہ میری آنکھوں

220

میں لگاوے اور مال مجھے نظر آوے تو آدھا تیرا۔

اُس نے کہا کہ بہت بہتر؛ تو میرے ساتھ جنگل میں چل، میں تیری آنکھوں میں ایک سلائی پھیر دوں۔

میں اس کے ساتھ اس جنگل میں آیا اور اس پنجرے کو دیکھ کر حیران ہو پوچھنے لگا کہ یہ پنجرا کس کا ہے؟

اس نے کہا کہ میں نہیں جانتا۔ یہ کہہ کر وہ اس درخت کے تلے بیٹھ گیا اور اپنے بغل سے ایک ڈبیا سرمے کی نکال کر ایک سلائی بھری اور میری آنکھوں میں پھیر دی؛ فی الفور میں اندھا ہو گیا اور اُس سے کہنے لگا "اے عزیز! یہ کیا کیا تو نے، مجھے اندھا کیا۔"

وہ بولا "جھوٹوں اور بدعہدوں کی یہی سزا ہے۔ اگر آنکھوں کی بصارت چاہتا ہے تو اس پنجرے میں بیٹھ رہ اور یہ سخن کہا کر کہ بدی مت کر کسی سے، اگر کرے گا تو وہی پاوے گا۔"

میں نے پھر پوچھا کہ سچ کہہ، میری آنکھوں کا علاج کیا ہے؟ اس کہا کہ بعد ایک مدت کے ایک جوان حق پرست ادھر آوے گا، تو اس سے اپنا احوال کہنا؛ وہ کہیں سے نوریز گھانس لا کے تیری آنکھوں میں اس کا پانی چواوے گا، آنکھیں تیری جیسی کی تیسی ہو جاویں گی۔

اسی اُمید پر تیس برس سے اس پنجرے میں بیٹھا ہوا اس کی راہ تکتا ہوں۔ اور کبھی کبھی جو اکتا کر اس سے نکلتا ہوں تو تمام بدن ہڈی سے لے کر گوشت تک اور گوشت سے لے کر پوست تک درد کرتا ہے، بے تاب ہو کر پھر اسی میں جا بیٹھتا ہوں اور آہ سرد کھینچ کر یہی سخن کہتا ہوں۔ اسی صورت
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 359 آرائشِ محفل صفحہ 326

ساتواں سوال
حمام باد گرد کی خبر لانے کا۔ منیر شامی اور حسن بانو کے بیاھے جانے اور حاتم کے اپنے گھر کے احوال میں

جب حاتم شہر سے نکلا، جنگل کی راہ لی۔ چند روز کے بعد ایک شہر کے قریب جا پہنچا؛ کیا دیکھتا ھے کہ ایک کنویں 1 کے گرد بہت سے زن و مرد اکٹھے ھیں۔
پوچھا اس نے "ایسا کیا ھجوم اور ایسی دھوم کیوں کر لگی ھے؟"
کسی نے کہا "اے عزیز! یہاں کے حاکم کا بیٹا اس کنویں پر دیوانہ ھو کر بیٹھ رھا تھا۔ آج تیسرا دن ھے کہ اس نے اپنے تئیں اسی میں گرا دیا۔ ھر چند ھم اس میں کانٹے اور رسیاں ڈال ڈال کر ڈھونڈتے ھیں پر لاش اس کی نہیں ملتی۔ معلوم نہیں کہ اس میں کیا بلا تھی جو اسے تحت الثریٰ میں لے گئی؛ یا پانی میں پڑا ھو، پر اپنے ھاتھ نہیں لگتا، کوئی اپنی جان کے خطرے سے اترتا بھی نہیں، مبادا اس کے بیچ اژدھا ھو اور نگل جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ نسخۂ مطبوعہ بمبئی (279) "کوئے" اسی طرح ھے، واحد "کوا" ھے۔ موجودہ رسم الخط کے لحظ "کنویں" بنا دیا گیا ھے، واحد "کنواں"۔ قدیم املا "کوا" اور بہ حالت جمع "کوئے" درست ھے۔ مرتب
----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 360 آرائشِ محفل صفحہ 327

یہی باتیں ھو رھی تھیں کہ اس کے ماں باپ گریبان پھاڑے سر میں خاک ڈالے وھاں آ پہنچے اور کنویں پر بیٹھ کر ایسے درد سے روئے کہ پرندے ھوا کے بھی فریاد کرنے لگے بلکہ پتھروں کے جگر بھی پانی ھو کے بہہ گئے۔
یہ حالت دیکھ کر حاتم کا بھی دل بھر آیا۔ آب دیدہ ھو کر پرسا دینے لگا کہ خواھش الٰہی سے چارہ نہیں، صابر و شاکر رھا چاھیے۔
وے بولے کہ اے جوان! تو سچ کہتا ھے لیکن جو اس کی لاش بھی ھاتھ آوے تو دفن کر کے اس کی قبر ھی سے اپنے دل بے تاب کو تھوڑی بہت تسلی دیں اور صبر کریں، کیوں کہ موئے ھوئے کی اتنی ھی نشانی بہت ھے؛ چناں چہ ھر ایک کی منت کرتے ھیں بلکہ ھزاروں روپے بھی دینے کو موجود ھیں لیکن کوئی ھمارے حال تباہ پر رحم نہیں کرتا اور نہیں اترتا۔ آج یہ ارادہ ھے کہ اپنے تئیں اس کنویں میں ڈالیں اور اس کی لاش تلاش کر کے نکالیں۔ دوسرے کو کیا پروا ھے جو پرائے واسطے اپنی جان کو کھووے۔
یہ سن کر حاتم بولا "خاطر جمع رکھو، میں اپنے سر کو خدا کی راہ میں ھتھیلی پر دھرے پھرتا ھوں۔ یہی آرزو ھے کہ میری جان کسی کے کام آوے؛ عنداللہ اس کنویں میں جا کر تمھارے بیٹے کی لاش ڈھونڈ لاتا ھوں، تم میرے آنے تک یہیں منتظر رھو۔"
انھوں نے کہا "اے جوان! جانے کا تو کیا ذکر ھے، ھم اپنی بود و باش یہیں کریں گے۔"
حاتم بولا "ایک مہینے تلک میری راہ دیکھنا، اگر آیا تو بہتر، نہیں تو اپنے کاروبار میں مشغول ھو جیو۔"
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 361 آرائشِ محفل صفحہ 328

اتنی بات کہہ کر کنویں میں کود پڑا۔ کئی غوطے کھائے، ندان پاؤں تہہ کو جا لگے۔ آنکھیں کھول دیں، نہ کنواں ھی نظر آیا، نہ پانی ھی، مگر ایک میدان وسیع روشن دکھائی دیا۔ آگے چلا، پھر ایک باغ پاکیزہ، پر فضا دروازہ کھلا ھوا نظر پڑا۔ بے تامل اس کے اندر چلا گیا۔ ھر ھر قسم کے پھول پھولے ھوئے دیکھے اور درخت خوب صورت میووں سے لدے ھوئے، اور وہ باغ خوشبوئیوں سے ایسا مہک رھا تھا کہ اس کا بھی دماغ معطر ھو گیا۔
اس کے جی میں آیا کہ ایسی خوشبو کن پھولوں کی ھے۔ اس امتحان کے لیے ھر ایک تختے کی طرف آتا جاتا تھا کہ ایک جماعات پری زادوں کی کسی جگہ بیٹھی ھوئی دکھلائی دی اور ایک تخت مرصع پر ایک جوان خوش رو بھی بیٹھا نظر آیا۔ تب حاتم تھوڑی دور بڑھ کر گنجان درختوں میں چھپ رھا اور تماشا دیکھنے لگا۔
اتنے میں نظر پریوں کی اس پر جا پڑی۔ یکایکی چیخیں مارنے لگیں 1 کہ ھے ھے یہ آدمی زاد نامحرم کہاں سے آیا۔ پھر جا کر اپنے سردار سے عرض کی کہ ایک شخص آدم کی قوم سے فلانے درختوں میں چھپا ھوا کھڑا ھے۔
یہ سنتے ھی پری زاد نے اس جوان کو کہا کہ تمھارا بھائی بند ایک اور بھی یہاں آ پہنچا۔ اگر کہو تو تمھارے پاس لے آویں شرط مہمان داری کی بجا لاویں۔
وہ بولا "بہت بہتر، مجھے بھی اپنے ھم جنس کا کمال اشتیاق تھا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ نسخہ مطبوہ بمبئی (صفحہ 281) میں "چیخیں مارنے لگی" صحیح نہیں۔ فعل جمع "مارنے لگیں" چاھیے۔ مرتب
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 362 آرائشِ محفل صفحہ 329

الحمدللہ خدا نے بھیج دیا۔"
اس پری نے اپنی دو ایک مصاحبوں سے کہا کہ جا کر تم اس کو بہ آئین شائستہ لے آؤ۔
وے جا کر اسی طرح لے آئیں۔ جب قریب تخت کے پہنچا پری زاد اور وہ جوان اتھ کھڑے ھوئے، اپنے پاس بٹھا لیا، رسمیں مہمان داری کی بجا لائے، احوال پوچھنے لگے کہ تم کون ھو، کیا نام ھے، کہاں سے آئے ھو؟
حاتم بولا "یمن کا رھنے والا ھوں، شاہ آباد سے آتا ھوں، حمام بادگرد کو جاتا ھوں، نام میرا ھاتم ھے؛ اتفاقاً اس کنویں پر آ نکلا تھا، بہت سے لوگوں کو روتے ھوئے دیکھا، خصوصاً اے جوان! تیرے ماں باپ کی حالت سے میری حالت تغیر ھو گئی۔ بے اختیار ان کے پاس جا کر پوچھا کہ تم اس طرح کیوں بلبلا رھے ھو جو سننے والوں کی چھاتیاں پھٹی جاتی ھیں۔
وے آہ بھر کر بولے کہ اس کنویں میں ھمارا یوسف ثانی گر کے گم ھو گیا ھے، ایسے ھمارے جی ڈوبے جاتے ھیں، کوئی ایسا نہیں جو خدا کے واسطے اس میں جا کر اس کی لاش نکال لاوے۔
جب میں نے یہ کلمہ سنا، بے اختیار اپنے تئیں اس کنویں میں گروایا، یہاں تک آ پہنچا۔ اب میں نہیں جانتا کہ ان کا بیٹا تو ھی ھے یا کوئی اور، پر ایک آدمی کو دیکھتا ھوں۔"
یہ سن کر اس جوان نے کہا کہ اے بھائی! وہ شخص جو یعقوب صفت اپنی بی بی سمیت تھا، میں اسی کا بیٹا ھوں۔ ایک دن کا ذکر ھے کہ اس کنویں پر آ نکلا کہ یہ رشک زلیخا میری نظر پڑ گئی، وھیں اس کے ایک جلوے پر بے داموں بک گیا اور اس کی چاہ سے باولا بن گیا۔ وھیں بیٹھ رھا، پر یہ
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 363 آرائشِ محفل صفحہ 330

برق وش بھی ھر روز اپنی جھلک دکھا کر چلی جاتی تھی، لیکن مجھے اتنی دیکھا بھالی سے تسلی نہ ھوتی تھی۔ آخر اس کے سلسلۂ محبت کی کشش نے کھیت میرے کے تئیں اس چاہ عمیق میں گرا دیا۔ پھر باد صبا کی طرح اس گل خوبی کی جست جو میں گرتا پڑتا اس باغ میں آ پہنچا۔ بارے اس نے میری خستہ حالی دیکھ کر نہایت مہربانی فرمائی اور مجھ تشنۂ آب وصال کو اپنے جام وصل سے سیراب کیا۔ اب بہ آرام گزرتی ھے، ھر ایک رات کو عیش و آرام میں کٹتی ھے۔
حاتم نے کہا "حیف ھے! تو یہاں رنگ رلیاں منا رھا ھے، وھاں تیرے ماں باپ کا احوال تباہ ھو رھا ھے، یہ کیا انصاف ھے۔"
وہ بولا "اب مجھ گرفتار کا اختیار اس کے ھاتھ ھے۔ اگر یہ رخصت دے تو جاؤں، ان کی تسلی کر آؤں۔"
حاتم نے کہا "اند کے صبر کر، میں تیرا احوال ابھی عرض کرتا ھوں" یہ کہہ کر پری کی طرف متوجہ ھو کے کہنے لگا کہ اے سراپا ناز، قدر دان اھل نیاز، بے دلوں کی دمساز! احسان و مہربانی سے دور ھے کہ اس کے ماں باپ آتش ھجر سے جلیں اور سوز مفارقت سے سر تا پا شمع کی مانند گلیں۔ بہتر ھے کہ اس جوان کو دو تین دن کی رخصت دے، جو یہ جا کر ان کی چھاتی سے لگے اور آتماں ٹھنڈی کرے۔
وہ مسکرا کر بولی کہ یہاں کس نے اسے منع کیا ھے، ابھی چلا جائے، یہ آپ ھی مبتلا ھو کر یہاں آیا ھے، میں نے تھوڑا ھی اسے بلایا ھے، اختیار رکھتا ھے جہاں چاھے وھاں جائے۔
یہ سن کر حاتم نے کہا "اتھ کھڑا ھو، پری نے پروانگی دی۔"
-----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 364 آرائشِ محفل صفحہ 331

وہ بولا "یہ اجازت نہیں ھے بلکہ کنایہ ھے۔ رضا مندی یہ ھے کہ مجھ سے اس طرح قول کرے کہ تو خاطر جمع سے اپنے گھر جا، میں ھر ایک ھفتے میں دو تین بار رات کے وقت تیرے پاس جاؤں گی اور تجھے اپنی خاطر سے نہ بھلاؤں گی۔"
یہ بات سن کر حاتم نے سر نیچا کر لیا۔ بعد ایک دم کے پری زاد سے پھر کہا "خدا کے واسطے تو اس پر مہربان ھو اور جو کہتا ھے مان لے۔"
پری تیوری چڑھا کر بولی "یہ چال ھماری قوم کی نہیں جو میں کروں، یہ پھیکے چوچلے مجھے نہیں بھاتے، اتنی گرمی نہ کیجیے، اختلاط زیادہ پر آشنائی جڑ ھے۔"
حاتم نے کہا "اگر معشوق اس گرفتار کے حال پر تک ایک رحم کھاوے تو میں کچھ عرض کروں، کیوں کہ میں نے فلانے فلانے پردے کی پریوں سے سنا اور ملاقات کی ھے اور ان کے لطف اور احسان عاشقوں کے احوال سے زیادہ دیکھے ھیں۔ تم کہتی ھو کہ ھماری قوم میں اس طرح کے سلوک کوئی نہیں کرتا، میں کیوں کر مانوں بلکہ آدم نام بےوفا جفاکار ھیں، پری زاد ھی عالم دوستی میں وفادار و فرماں بردار ھے۔"
یہ سن کر اس نے منہ پھیر لیا۔ کہا "یہ جھوٹا لپاٹیا ھے، مجھے جی سے نہیں چاھتا، یہ تیری بناوٹ ھے۔"
جوان بولا "جو کچھ تم فرماتی ھو سچ ھے۔ اس فہمیدگی کے صدقے جائیے۔ میں نے اپنا گھر بار تمھاری خاطر چھوڑا، جان سے ھاتھ دھو کر اپنے تئیں اس کنویں میں گرایا، کیا کیا صدمے اٹھا کر یہاں تک پہنچایا، تس پر بھی میں چاھنے والا نہ ٹھہرا۔"
----------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 365 آرائشِ محفل صفحہ 332

بیت
ھوئے تم نہ واقف مرے حال سے
میں صدقے رھا جان اور مال سے

یہ سن کر پری بولی "ایسی باتیں بہت سنی ھیں، کیا واھی بک رھا ھے۔ میں جب جانوں کہ تو مجھے چاھتا ھے، جو کچھ کہوں وھی بجا لائے۔"
وہ بےچارہ فی الفور اٹھ کھڑا ھوا کہ دیر کیوں کرتی ھو، جو منظور ھے جلد فرماؤ۔
اس نے اپنے لوگوں سے کہا کہ ایک کڑاہ میں گھی بھر کے چولھے پر چڑھاؤ۔ جب گھی اس میں کڑکڑاوے، مجھے خبر کرو۔
انھوں نے وھی کیا۔ جس وقت گھی کھولنے لگا، اس وقت جوان کا ھاتھ پکڑ کر کہا "کیوں جی، تم ھمیں چاھتے ھو تو اس میں کود پڑو۔"
جوان بے تامل خوشی بہ خوشی اُس کڑاہ کی طرف جایا چاھتا تھا کہ اپنے تئیں اس میں گراوے کہ پری دیوانوں کی طرح دوڑ پڑی، بےتابانہ اس کے گلے سے لپٹ گئی کہ تو عاشق صادق ھے، مجھ کو یقین ھوا، اب جو کہے سو کروں، مجھے سب قبول ھے۔
پھر حکم آیا کہ مجلس طرب آراستہ کرو اور ساقیان گل اندام جڑاؤ ستھری ستھری گلابیوں میں شراب لعل فام بھر کر لے آویں، دوبار جام شروع کریں۔ اس کے فرمانے ھی کی دیر تھی، سب مہیا ھو گیا۔ غرض اسی طرح عیش و عشرت و مہمان داری میں ایک مہینہ گزر گیا اور وھاں کنویں کے اوپر
----------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 366 آرائشِ محفل صفحہ 333

جو لوگ بیٹھے تھے وعدہ شماری کر رھے تھے۔ کہنے لگے "اگر آج وہ جوان نہ نکلا تو اپنے اپنے گھر چلے جائیں گے۔"
الغرض اکتیسویں دن حاتم نے اٹھ کر اس جوان سے کہا "مجھے کام ضرور ھے، اب نہیں رہ سکتا، جو تم نے وعدہ کیا ھے اس کو وفا کرو۔" پری بول اٹھی "بہت بہتر۔"
حاتم نے کہا "بہ شرطے کہ تم وعدہ مضبوط کرو، حضرت سلیمان کو درمیان دو، تب مجھے باور ھو۔"
پری نے قسم کھا کر کہا کہ میں اس قول سے ھر گز نہ پھروں گی، تم خاطر جمع رکھو۔ پھر اپنی پریوں سے کہا کہ ان دونوں جوانوں کو کنویں پر پہنچا آؤ۔
انھوں نے ایک ھی جست میں دونوں کو کنویں پر بٹھلا دیا۔ سب لوگ دیکھ کر اچنبھے میں آ گئے اور اس کے ماں باپ دوڑ کر حاتم کے قدموں میں گر پڑے۔ خوشی بہ خوشی اپنے شہر میں داخل ھوئے، حاتم کی نہایت تکلف سے ضیافت کی، ناچ راگ رنگ شروع ھو گیا، گھر گھر شادیانے بجنے لگے، چودہ دن تلک حاتم کو مہمان رکھا اور پری بھی اپنے قاعدے پر آنے جانے لگی بلکہ یہی معمول رکھا۔ حاتم نے اس کی راستی اور درستی دیکھ کر اپنے جی میں کہا سبحان اللہ اس قول پر کہ صورت بھی اچھی ھے اور سیرت بھی۔ سچ ھے وہ حسن بےلطف ھے اگر وفا نہ ھو اور وہ آنکھ بےکیفیت ھے جس میں حیا نہ ھو۔
القصہ پندرھویں دن حاتم وھاں سے رخصت ھوا، جنگل کا رستہ لیا، جوان بھی اس کو شہر کے باھر پہنچا گیا۔ بعد ایک مدت کے ایک بستی نظر آئی۔ اس کے شہر پناہ کے باھر ایک بدھا پیر مرد کھڑا تھا۔ حاتم پر جوں اس کی نظر پڑی کہا اس نے "السلام علیک
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 367 آرائشِ محفل صفحہ 334

اے جوان مرحبا۔"
اس نے کہا " علیک السلام اے پیر مرد با صفا!"
بعد اس کے اس نے پوچھا "اے مسافر! آج رات میرے گھر میں قدم رنجہ فرمائیے اور آب و نمک کے شریک ھو جیے تو عین مہربانی ھے۔"
حاتم بولا "نیکی کا کیا پوچھنا۔"
ندان وہ پیر مرد اس کو اپنے گھر لے آیا، ضیافت بہ آئین شائستہ کی۔ بعد کھانے کے بڈھے نے پوچھا "اے جوان! تیرا کیا نام ھے اور کہاں جائے گا۔"
اس نے کہا "حاتم نام ھے، یمن کا رھنے والا ھوں، حمام بادگرد کی خبر کو جاتا ھوں۔"
سنتے ھی اس نے سر نیچا کر لیا۔ بعد ایک ساعت کے سر اتھا کر کہا کہ اے عزیز! وہ کون تیرا دشمن تھا جس نے تجھے ایسی جگہ بھیجا۔ اول تو یہ ھے کہ اس کا نشان معلوم نہیں، دوسرے جو کوئی وھاں گیا، سو گیا، پھر نہ پھرا۔ جو کوئی وھاں جانے کا قصد کرے اپنی جان سے ھاتھ دھووے، غسل میت جیتے جی بجا لاوے، کیوں کہ اس کا رستہ، اول منزل سے کم نہیں اور سنتے ھیں "حارس قطان" کے بادشاہ نے اس کی سرحد میں چوکی بٹھائی ھے کہ جو کوئی اس حمام کی خواھش کر کے آوے پہلے اسے میرے پاس لے آؤ۔ معلوم نہیں اس کے بلانے کی وجہ اپنے رو بہ رو کیا ھے۔ مار ڈالتا ھے یا اس کو چھوڑ دیتا ھے۔
یہ سن کر حاتم نے کہا کہ حسن بانو سوداگر بچی پر
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 368 آرائشِ محفل صفحہ 335

منیر شامی شہ زادہ عاشق ھوا ھے۔ اپنا خانماں برباد کر کے اس کے شہر میں کارواں سرائے کے بیچ بیٹھ رھا ھے۔ میں اس کے واسطے یہ رنج اپنے اوپر گوارا کر کے کئی برس سے اس کے کام میں عنداللہ پھرتا ھوں اور اس سوداگر بچی کے چھ سوال خدا کے فضل و کرم سے پورے کر چکا ھوں۔ اب ساتواں سوال حمام بادگرد کی خبر ھے، سو لینے جاتا ھوں۔ دیکھوں قسمت کیا دکھائے۔
پیر مرد بولا "آفرین ھے تجھ پر اور تیرے ماں باپ پر جو بیگانے واسطے اپنی عیش و عشرت چھوڑ کر محنت اختیار کی، مصیبت سہی۔ لیکن صلاح یہ ھے کہ اب اس خیال محال کو دل سے دور کر، یہیں سے پھر جا۔ اس سے کہہ کہ وہ طلسمات ھے، کوئی اسے نہیں جانتا اور کا پتا کہیں نہیں ملتا۔"
یہ بات سن کر حاتم بولا "استغفراللہ جھوٹ کس طرح سے بولوں، بات کیوں کر بناؤں۔ یہ انصاف نہیں کہ وہ عاشق بےچارہ مدت مدید سے درد انتظار کے سبب جان بہ لب ھے۔ فقط امید وصال پر دم اس کا ٹھہر رھا ھے۔ قریب ھے کہ شربت وصال اپنی معشوقہ کے ھاتھ سے پیے، اپنی حیات کو تازہ کرے۔ حیف ھے کہ اس وقت میں حیلے ڈھونڈوں اور اس کے کام سے پہلو تہی کروں۔ پس خدا کو کیا جواب دوں گا، کیوں کہ جو کوئی عنداللہ کمر باندھتا ھے جھوٹ نہیں بولتا اور جنھوں نے خدا کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑا ھے، وہ بے حصول مطلب نہیں پھرے۔"
اس جہاں دیدہ نے کہا "اے جوان! اپنی جوانی پر رحم کر، زنہار اس طرف مت جا، کیوں کہ وھاں کا جانا جہان سے
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 369 آرائشِ محفل صفحہ 336

جانا ھے۔ اگر میرا کہنا نہ مانے گا تو پشیمان ھو گا، جیسے مینڈک نے اپنی قوم کا کہنا نہ مانا، پشیمانی کھینچی۔"
حاتم نے کہا "اس کی حقیقت کیوں کر ھے؟"
بڈھا کہنے لگا "اطراف شام میں ایک دریا تھا، اس میں بہت سے مینڈک رھتے تھے، ایک دن ان میں سے کسی غوک نے اپنی قوم سے کہا "جی یوں چاھتا ھے کہ یہاں سے سفر کریں، کسی اور دریا میں جا کر رھیں کیوں کہ مسافرت میں فائدے بہت ھیں؛ فقیر غنی ھو جاتے ھیں اور مفلس مار دار، ھر گز وطن میں کسی کو دولت حاصل نہیں ھوتی، بدون ھاتھ پاؤں ھلائے نعمت ھاتھ نہیں آئی۔"
یہ سن کر اس کی قوم نے کہا "اے نادان! یہ خیال باطل تیرے دل میں ایا ھے، اسے دور کر، ھر گز راحت نہ پائے گا، مفت میں رنج اٹھائے گا، آکر اپنے کیے پر پچتائے گا۔"
اس نے نہ مانا۔ اپنے بھائی بند، زن و فرزند سمیت وھاں سے نکل کر ایک اور دریا کی طرف چلا۔ ھر چند کہ آبی جانوروں کو خشکی میں چلنا بہت دشوار ھے، تس پر بھی وہ اچھلتا کودتا خوشی بہ خوشی چلا جاتا تھا۔ قضاکار راہ میں ایک چشمہ مل گیا۔ اس میں ایک سانپ تھا کہ اس نے وھاں کے مینڈک سب کھا لیے تھے۔ چند روز سے غذا جو نہ پائی تھی، بھوک سے جھنجلا رھا تھا۔ دیکھتے ھی بے اختیار ان پر لپکا۔ ایک ایک کو چن کھایا، جو تیوں وہ مینڈک آپ بھاگ کر دریائے قدیم میں آ پڑا لیکن جورو لڑکے برباد گئے۔
اس کی قوم یہ حالت دیکھ کر یوں طعنے دینے لگی "اے نادان! یہ کیا کیا تو نے، مفت میں اپنا گھر رستا بستا اجڑوا دیا؛
---------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 370 آرائشِ محفل صفحہ 337

جا رے اپنا احوال کہہ کہ تجھ پر کیا گزری۔" وہ بےچارہ بال بچوں کے غم کا مارا، سر جھکائے اور اپنے کیے پر ندامت کھینچے چپکا بیٹھا سب کی سنتا تھا۔ ھر چند کہ وہ لعنت ملامت کرتے تھے، یہ دم نہ مارتا تھا، جواب دینا تو درکنار۔ غرض جو کوئی اپنے گزرگوں کا کہنا نہیں کرتا اس کا یہی حال ھوتا ھے۔ بس اے جوان! میرا کہا مان، یہیں سے پھر جا، گرمی نہ کر، کیوں کہ حمام بادگرد میں کوئی نہیں پہنچا، تیرا کیوں سر پھرا ھے، اپنا علاج کر۔"
ان باتوں کو سن کر حاتم نے جواب دیا "اے بزرگ! جو تو کہا ھے، میری ھی بہتری ھے، لیکن جو بات خدا کے واسطے ھو اس سے منہ پھیرنا خوب نہیں، کیوں کہ دیانت و تقوے سے نہایت دوری ھے۔ کرم الٰہی سے امیدوار ھوں کہ اس جوان کی مراد میرے ھاتھ سے بر آوے۔ خدا کے واسطے جو تو جانتا ھے تو شہر قطان کی راہ مجھے دکھا دے جو اپنی راہ لگوں۔"
اس مرد دیرینہ نے جو دیکھا کہ اس کا ارادہ کامل ھے، ساتھ ھو لیا اور شہر کے باھر جا کر کہا "اے مسافر! داھنی طرف کا رستہ یہاں سے اختیار کر، آگے بہت سے شہر قصبے ملیں گے، ان کے بعد ایک پہاڑ نظر آئے گا، اس کے نیچے ھزاروں آفتیں بلائیں ھیں۔ اگر ان سے بچ نکلے گا تو ایک صحراے عطیم ملے گا، وھاں خدا کی قدرت نظر آئے گی۔ تھوڑی دور جا کر دوراھا ملے گا، بائیں طرف کو جائیو کہ وہ راہ پاکیزہ و پرفضا ھے؛ بہ خوبی شہر قطان میں پہنچے گا۔ اگرچہ داھنی طرف کی راہ نزدیک ھے، پر خطرے اس میں بہت سی آفتیں ھیں۔"
حاتم بولا "زندگی بن کوئی جی نہیں سکتا اور بے اجل مر
---------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 371 آرائشِ محفل صفحہ 338

نہیں سکتا؛ پھر قریب کا رستہ چھوڑ کر راہ بعید کیوں اختیار کروں۔"
بڈھے نے کہا "نہیں سنا ھے تو نے کہ بزرگوں نے کہا ھے:

بیت (ابیات)
چل راہ راست سوچ نہ ھر چند دور ھے
جورو نہ کر تو بیوہ اگرچہ وہ ھور ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گو کہ مرتا نہیں کوئی بن موت
لیکن تو منہ میں اژدھے کے نہ جا

دیکھ اگر میرے کہنے پر عمل نہ کرے گا، خراب ھو گا۔"
غرض حاتم اس کو رخصت کر کے آپ روانہ ھوا۔ بعد چند روز کے ایک شہر نظر ایا اور نقاروں کی آواز بہ کثرت سنی۔ جی میں کہنے لگا "آج اس شہر میں کیا کسی کے یہاں شادی ھے، بہت لوگ جمع ھیں، شہر کے بادشاہ سراچے کھڑے ھیں اور تنبو ڈیرے استادہ، فرش پاکیزہ، ستھرا صاف ھر ایک طرف بچھا ھے، جا بہ جا لوگ بیٹھے ھیں۔ ھر ایک مجمع کے قریب نقارے بج رھے ھیں، مجلس میں راگ ناچ راگ ھو رھا ھے، چولھوں پر دیگیں کھڑک رھی ھیں، کھانے پک رھے ھیں۔
یہ کیفیت دیکھ کر پوچھنے لگا "اے یارو! سچ کہو، آج اس شہر میں کیا شادی ھے؟"
وے بولے "اس ملک کی رسم ھے کہ برسویں دن ھر ایک امیر غریب بلکہ بادشاہ وزیر بھی اپنی اپنی لڑکیوں کو جو بالغ ھیں، دلھن بنا کر عطر اور ارگجے میں بسا خیموں میں بٹھلا دیتے ھیں؛ پھر ایک بڑا سانپ جنگل کی طرف سے آتا ھے اور ایک جوان کی شکل بن کر ھر ایک خیمے کے بیچ جا کر ان سبھوں
--------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 372 آرائشِ محفل صفحہ 339

کو دیکھتا پھرتا ھے، جو پسند آتی ھے اس کو لے جاتا ھے۔ ھم نے اس کی دھشت سے بے حیائی کا نقاب منہ پر ڈال کے مجبوراً یہ شادی مچائی ھے۔ دیکھیے کس کی لڑکی پسند کرے اور لے جائے، ھر ایک کو یہی دھڑکا ھے۔ آج نقارے بجتے دیکھتا ھے، کل چھاتی پیٹتے دیکھیو۔ ایک دن کی شادی اور سات دن کا غم ھم کو ھر سال ھے۔ بے بس ھیں، کیا کریں۔ شام کے وقت مقرر وہ آوے گا، کسی نہ کسی کے سر پر آفت لاوے گا۔"
یہ ماجرا سن کر حاتم نے اپنے جی میں کہا کہ یہ کام جن کا ھے فی الحقیقت وہ سانپ نہیں۔ پھر ان سے مخاطب ھوا "اے عزیزو! یہ بری بلا تم پر ھوئی ھے؟"
انھوں نے کہا کہ پھر کیا کریں۔ اس میں کچھ اپنا چارہ نہیں، جو خدا چاھے سو کرے۔ مثل مشہور ھے: سنگ آمد و سخت آمد" ایسا ھم کسی کو نہیں دیکھتے جو خدا کے واسطے اس آفت کو ھمارے سر سے ٹالے۔
حاتم نے کہا "ان شاءاللہ تعالیٰ اس آفت کو میں آج کی رات تمھارے سر سے دفع کرتا ھوں، تم مردانہ وار رھو، کچھ اپنے جی میں اندیشہ نہ کرو۔"
انھوں نے یہ ذکر جا کر اپنے سرداروں سے کیا۔ وہ سنتے ھی ھاتھوں ھاتھ اس کو بادشاہ کے پاس لے گئے اور ماجرا تمام بیان کیا۔
تب بادشاہ نے احوال پرسی کی اور ایک کرسی پر بٹھلا کر کہا "اے جوان! تجھے معلوم ھے کہ یہ کیا آفت ھے اور یہ کیا اسرار ؟"
حاتم نے کہا "میں خوب جانتا ھوں، وہ جن ھے۔ جب ان
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 373 آرائشِ محفل صفحہ 340

کی قوم فساد چاھتی ھے، راہ راست چھوڑ کجی و مردم آزاری اختیار کرتی ھے۔"
بادشاہ بولا "اے جواں مرد! اگر یہ جن تیرے ھاتھ سے مارا جائے یا ھمارے شہر سے دور ھو تو میں سپاہ و رعیت سمیت تیری اطاعت کروں بلکہ جب تک جیوں احسان مند رھوں۔"
حاتم نے کہا "جو میں کام کرتا ھوں سو خدا کے واسطے کرتا ھوں، جو قدم آگے بڑھاتا ھوں اپنے مولا کی راہ میں دھرتا ھوں۔ اگر یہ بھی کام کروں گا تو کسی پر احسان نہیں ھو گا، پر جو کچھ میں تم سے کہوں سو قبول کرو۔"
شاہ نے فرمایا "بہ سر و چشم۔"
پھر حاتم نے کہا "جس وقت وہ آوے اور جس کی لڑکی پسند کر کے لے چلے، اس وقت اس سے کہے کہ صاحب تم لے جانے میں مختار ھو پر اتنی بات ھماری بھی سنو کہ ھمارا ایک بڑا سردار زادہ مدت کے بعد آج آیا ھے۔ اب ھم سب کے سب اس کے تابع دار ھیں، بے کہے اس کے اس لڑکی کو تمھارے ساتھ نہیں کر سکتے۔ اگر تمھارے حوالے نہ کریں تو عین خطا ھے کیوں کہ تم غصے ھو گے تو ایک برس میں ھمارے ملک کو خراب کرو گے، جو وہ غضب ھو گا تو ایک پل میں خاک سیاہ کر دے گا۔"
القصہ بادشاہ نے تمام دن حاتم کو اپنی بارگاہ میں رکھا۔ جب شام ھوئی، سانپ کی آمد آمد کا غل ھوا، لوگوں نے حاتم سے کہا "اے جوان! وہ موذی آ پہنچا۔"
اس نے سنتے ھی شاہ سے عرض کی کہ ٹک ایک میں بھی اس کو دیکھوں۔ پھر اٹھ کھڑا ھوا اور خیمے کے باھر نکلا۔
----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 374 آرائشِ محفل صفحہ 341

تو دیکھتا کیا ھے کہ ایک اژدھا آسمان سے سر لگائے ھوئے چلا آتا ھے۔ درازی کا اس کی ٹھکانا ھی نہیں، دیو بھی اس کا سامنا نہیں کر سکتا، آدمی تو کیا مقدور جو آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے۔ جو پتھر اور درخت اس کی چھاتی کے تلے آتا ھے سو پس کر سرمہ ھو جاتا ھے۔ حاتم نے جو اس کو اس ھیبت سے آتے دیکھا، کہا "الٰہی پناہ تیری، تو ھی اس سے نجات دے گا۔
ندان وہ سانپ نزدیک آیا اور اپنی دم ایسی سخت کر کے ھلائی کہ آدمی سب کے سب سر جھکائے زمین پر گر پڑے۔ پھر وہ چار طرف نگاہ کر کے زمین پر لوٹ کر ایک خوب صورت آدمی بن گیا۔ تب انھوں نے اٹھ کے ادب سے سلام کیا اور بادشاہ اس کے آگے آ کر اپنے خیمے میں لے آیا، ایک تخت جواھر نگار پر بٹھلایا۔
وہ ایک دم بیٹھ کر اتھا اور کہنے لگا کہ اپنی اپنی لڑکیاں مجھے دکھلاو۔ بادشاہ نے کہا بہت بہتر، دیکھیے۔" تب اس نے بارگاہ سے نکل کر سب سرداروں اور سوداگروں اور غریبوں کی لڑکیاں دیکھیں پر کسی کو پسند نہ کیا، الٹا پھرا۔ بادشاہ کے خیمے میں ایا، جہاں شہزادی بیٹھی تھی وھاں گیا اور اسی کو منظور نظر کر کے بعد ایک دم کے بادشاہ سے سوال کیا کہ مجھے اسی کی خواھش ھے، میرے حوالے کرو۔
اس بات کو سن کر بادشاہ نے کہا کہ ایک بڑا بزرگ زادہ کتنے دنوں سے نکل گیا تھا، بالفعل آیا ھے، اب بے حکم اس کے کچھ کام نہیں کر سکتےو الا ایک آن میں ستیاناس ملا دے گا۔ صلاح یہ ھے کہ آپ اس کو بلواویں، جو جو کچھ کہے اگ سو ھم کریں گے۔
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 375 آرائشِ محفل صفحہ 342

اس نے سر جھکا کر کہا کہ اب تک وہ کہاں تھا، آج کیوں کر آیا؟ اچھا بلواؤ۔ یہ تو وھاں قنات کے تلے لگ ھی رھا تھا، بلاتے ھی اس کے رو بہ رو آ کھڑا ھوا۔
دیو نے پوچھا "اے جوان! میں ایک مدت سے اس شہر میں آتا جاتا ھوں پر تو کبھی میری نظر میں نہیں پڑا، اب کہاں سے آ گیا۔ سچ بتلا، تو کون ھے اور کس واسطے ھمارے تابع داروں کو گم راہ کر کے اس ملک کو خراب کروایا چاھتا ھے۔
حاتم نے کہا کہ جب تک میں اس شہر میں نہ تھا تب تک انھوں نے تیرا کہنا کیا اب اس ملک کا مالک میں آیا ھوں اور کل بار یہاں کا مجھ سے تعلق رکھتا ھے۔ جو کوئی ھمارے باپ دادا کی رسمیں بجا لاتا ھے، بیٹی اس کو دیتے ھیں۔
جن نے پوچھا "وہ کیا ھیں؟ بیان کر۔"
حاتم نے کہا کہ میرے پاس ایک مہرہ ھے، پہلے تو اس کو گھس کر پلاتا ھوں۔ وہ بولا جو یہ رسم ھے تو لے آ، میں پیوں گا۔
حاتم نے وہ مہرہ جو خرس کی بیٹی نے دیا تھا، اپنے جیب سے نکال کر تھوڑے سے پانی میں رگڑ کر اس کے حوالے کیا۔
جن نہ جانتا تھا کہ اس کے حق میں اس کا پینا سم ھے، مارے غرور کے بے تامل پی گیا؛ ایک لخت علم جنی اس نے فراموش کیا۔ اس پر بھی ڈھٹائی سے کہنے لگا کہ اب کوئی اور رسم ھو تو اس کے بھی بجا لانے کو حاضر ھوں۔
حاتم بولا "دوسری رسم یہ ھے کہ ایک گولی میں تم اترو، ھم اس کا منہ باندھ دیں، پھر اس کے باھر نکل آؤ تب ھم بہ خوشی اس لڑکی کو تمھارے حوالے کریں اور جو اس میں سے نہ نکلو
----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 376 آرائشِ محفل صفحہ 343

تو ھزار لعل اور دو ھزار الماس اور ایک موتی مرغابی کے انڈے برابر جو پریوں کے ملک میں ھے گنہ گاری لیں۔"
وہ نادان اپنے زور کے بھروسے پر بھولا ھوا تھا، بے اختیار کہہ بیٹھا "جلد لاؤ وہ گولی کہاں ھے۔"
حاتم نے ایک بڑی سی گولی منگوا کر اس کے آگے دھری اور کہا "بسم اللہ" وھیں وہ اس میں اتر پڑا۔ حاتم نے اس کے منہ پر ڈھکنا ڈھانک مضبوط باندھ اسم اعظم پڑھنا شروع کیا اور اس سے کہا کہ باھر نکل۔ اس اسم کی برکت سے ڈھکنا اس کا پہاڑ سا بھاری ھو گیا، کتنا ھی اس نے زور کیا پر نکل نہ سکا۔
تب تو حاتم نے لوگوں سے کہا کہ اب اس کے آس پاس تلے اوپر لکڑیاں رکھ کر آگ بھڑکا دو۔
انھوں نے وھیں اس کے کہنے پر عمل کیا۔ جن "میں جلا میں جلا" پکارنے لگا، پر کسی نے اس کی فریاد نہ سنی، آخر جل کر بھسم ھو گیا۔
پھر حاتم نے ان سب لوگوں سے کہا "اب تھوڑی سی زمین کھدوا کر اس کو گڑوا کر اپنے گھروں میں جا چین کرو۔ خدا نے اس بلا کو تمھارے سر سے دور کیا، نہیں تو خدا جانے تمھارا کیا حال ھوتا اور وہ موذی کیا سلوک کرتا۔"
بادشاہ نے یہ حال دیکھ کر حاتم کی تحسین و آفرین بہت سی کی، شہر کے باشندے سب کے سب پاؤں پر گر پڑے۔ پھر شاہ نے بہت سی اشرفی اور روپے، کتنی کشتیاں ملبوس و جواھر کی منگوا کر اس کے حضور رکھیں۔
اس نے کہا "مجھے درکار نہیں، خدا نے سب کچھ دیا ھے،
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 377 آرائشِ محفل صفحہ 344

اگر منظور ھے تو فقیروں کے حوالے کرو جو خدا کی خوشی ھووے اور تمھیں اجر دیوے، کیوں کہ جو شخص خدا کی راہ میں سر دیتا ھے، سر مزدوری نہیں لیتا۔"
شہریار نے اسی گھڑی فقیروں، غریبوں، محتاجوں کو بلا کر اس کی مال کو تقسیم کر دیا، حاتم کو تین روز تک مہمان رکھا۔
چوتھے روز وہ رخصت ھو کر آگے بڑھا۔ بعد کتنے دنوں کے اس پہاڑ کے نیچے جا پہنچا جس کا مذکور اس پیر مرد نے کیا تھا۔ ٹک ایک سستا کر اس کے اوپر چڑھا۔ جب اس سے گزر گیا تب ایک برا جنگل دکھلائی دیا، اسی میں عجائبات دیکھے۔ قسم قسم کے میوے کھاتا ھوا کئی روز تک چلا گیا۔ جب اس سے نکلا ایک دو راھا نظر پڑا۔ وھاں کھڑا ھو کر اپنے جی میں سوچنے لگا کہ اس پیر مرد نے کہا تھا کہ داھنی طرف کی راہ میں بہت سی آفتیں ھیں، تو ادھر مت جانا۔ اس وقت اس کے کہنے پر عمل کیا چاھیے اور بائیں طرف کا رستہ لیجیے۔ اس خیال پر بائیں طرف روانہ ھوا۔ تھوڑی دور جا کر اس نے یوں سمجھا کہ اس راہ سے جانا کچھ حاسل نہیں، بہتر یہ ھے کہ داھنی طرف چلوں۔ جو خدا مدد کرے گا تو کوئی بلا میرے سامنے نہ آ سکے گی اور اگر آ جائے گی تو اس کی مدد سے رد کروں گا، رستہ مسافروں کا پاک ھو جاوے گا اور جو للہ مارا جاؤں گا تو بھی داخل ثواب ھوں گا۔
یہ بات ٹھہرا کر اس رستے سے پھرا اور داھنی طرف چلا کہ ایک جنگل ببول کا کانٹوں سے بھرا دکھلائی دیا۔ توکل بخدا یہ اس میں پہنچا اور قدم اٹھائے بہ ھزار خرابی تھوڑی سی راہ طے کی، آخر درختوں کے کانٹوں سے کپڑے ٹکڑے ٹکڑے ھوئے،
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 378 آرائشِ محفل صفحہ 345

بدن لہو لہان ھوا اور زمین کے کانٹوں سے تلوے چھد گئے، پاؤں سوج اٹھے۔ تب بے دم ھو کر کہنے لگا "وہ بزرگ سچ کہتا تھا، مجھ کم بخت نے اس کا کہنا نہ مانا، اپنے تئیں آپ مصیبت میں ڈالا۔ اندیشہ یہ ھے کہ اس کے آگے مبادا اور کوئی جنگل پر خطر ھو تو وھاں پناہ کی صورت کیوں کر ھو گی۔ غرض بہ ھزار خرابی وہ کتنے دنوں میں اس جنگل سے نکلا، آگے بڑھا؛ چھپکلیوں کے جنگل میں پہنچا۔ وے سب کی سب آدمی کی بو پاتے ھی اس کے کھانے کو دوڑیاں۔ حاتم نے دیکھا کہ ھزاروں چھپکلیاں چیتے اور کتے کے برابر، سینکڑوں لومڑی اور گیدڑ کی مانند دوڑی آتی ھیں۔ ڈرا اور کانپنے لگا کہ اس بلا کا آنا بے سبب نہیں، اغلب ھے کہ میرے ھی کھکانے کو آتی ھیں لیکن مجبور ھوں، کچھ تدبیر کر نہیں سکتا۔
اتنے میں وہ قریب آ پہنچیں۔ ایک بڈھا نورانی صورت داھنے ھاتھ کو نمود ھوا اور کہنے لگا "اے جوان! بزرگوں کا کہنا تو نے نہ مانا، آخر پشیمان ھوا۔"
حاتم بولا "برا کیا میں نے، اپنی تقصیر پر نادم ھوں۔"
تب اس بزرگ نے فرمایا کہ مہرہ خرس کی بیٹی کا نکال کر زمین پر ڈال، وے آپ غائب ھوں گی۔
اس نے فی الفور مہرے کو کیسے سے نکال کر زمین پر پھینک دیا۔ پہلے تو زمین زرد ھو گئی، پھر سیاہ، آخر سبز ھو کر سرخر ھو گئی۔ چھپکلیاں جو دوڑی آتی تھیں، د یوانیاں ھو کر آپس میں لڑ مریں اور تین گھڑی کے عرصے میں تمام ھو گئیں۔ حاتم نے یہ احوال دیکھ کر متعجب ھو کر کہا کہ الٰہی! ان میں کیا ایسی دشمنی ھو گئی جو ایک ایک کو مار کر مر مٹی۔
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 379 آرائشِ محفل صفحہ 346

یقین ھے کہ اس مہرے کا یہ اثر ھے۔ خدا کا شکر کیا چاھیے جس نے ایسے وقت میں ایسے ولی کو بھیجا؛ اس نے مجھ کو یہ بھید بتایا اور اس بلیات سے بچایا و الا مجھ کو تکا بوٹی کر ڈالتیں۔ پھر غور کر کے جو دیکھا تو ایک کو ان میں جیتا نہ پایا۔ ارادہ کیا کہ مہرے کو اٹھا لیجیے، وھیں دھیان آیا شاید اس کے اٹھانے سے وے جی اٹھیں اور مجھے کھا جائیں تو جان کی جان جائے اور محنت کی محنت برباد ھو، جلدی نہ کیا چاھیے۔ یہاں تک صبر کیا کہ ان کا گوشت پوست گل گیا، ھڈی پسلی نکل آئی۔
تب حاتم اپنا مہرہ اٹھا کر آگے چلا۔ بعد تھوڑے دنوں کے ایک جنگل اژدھات کا ملا۔ ھر ایک وھاں کا ریزہ اس کے پاؤں کی کفش کو چھید کر پشت پا سے گزر جاتا تھا، زخم پڑ جاتے تھے۔ یہ اپنے کپڑوں سے چیتھڑے پھاڑ پھاڑ کر جوتیوں کے اندر رکھ لیتا تھا، اس کے پاؤں چھلنی ھو گئے۔
تب اپنے دل میں کہنے لگا کہ اے حاتم! تیرے برابر جہان میں کوئی بےوقوف نہ ھو گا، کیوں اس بزرگ نے تجھے مکرر منع کیا تھا کہ بابا داھنا راستہ برا ھے، ادھر سے مت جانا؛ اور خدا نے بھی ھوش گوش آدمی کو اسی واسطے دیا ھے کہ بھلے برے کو پہنچانے، سنبھل کر چلے، قدم سوچ کر دھرے۔ تو بھلا چنگا اس کو چھوڑ کر بائیں طرف گیا تھا۔ پھر یہ کیا کم بختی تھی جو اس کو چھوڑ کر داھنی طرف گیا۔ خیر اب پچتانے سے کچھ فائدہ نہیں، جو تجھ پر پڑے اسے گوارا کر، جس طرح چلا جائے چل، خدا نبھانے والا ھے؛ آخر کار ھزار محنت و مشقت سے اس جنگل کو طے کیا۔ الحمد للہ کہہ کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔ پاؤں سے جوتیاں اتار کر جو دیکھیں تو تمام پاؤں ھو گئے ھیں، ریزے اژدھات کے ھر ایک سوراخ میں نظر اتے ھیں،
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 380 آرائشِ محفل صفحہ 347

نکالنے لگا۔ جب سب نکال چکا، پاؤں پر کپڑا لپیٹ جوتیاں پہن کے لنگڑاتا ھوا چل نکلا اور اپنے جی میں خوش تھا کہ میں نے سب بلاؤں سے نجات پائی، پر یہ نہ جانتا تھا کہ ایک اور آفت عظیم در پیش ھے۔
چند قدم اس جنگل میں چلا تھا جو وھاں کے بچھو آدمی کی بو پا کر دوڑے۔ کتنے ان میں بلی کے برابر اور کتنے لومڑی کے برابر تھے؛ دمیں ان کی گیدڑ کی سی، پاؤں مرغ کے سے، گردنیں تختے کی مانند۔ حاتم کی جو نگاہ ان پر پڑی، سہم کر کانپنے لگا اور ایسا گھبرایا کہ سرت جاتی رھی، ھاتھ پاؤں پھول گئے؛ ادھر ادھر تکنے لگا کہ وھی پیر مرد مددگار پھر آ پہنچا؛ ھاتھ پکڑ کر کہنے لگا "خاطر جمع رکھ، ھراساں مت ھو، استقلال کو ھاتھ سے نہ دے۔"
حاتم بولا "اے مرد خدا! کیا کروں، مجھ کو طاقت نہیں۔ ان بچھوؤں سے جن کے ڈنگ ایسے ھیں کہ اگر پتھر پر ماریں تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ھو جاوے، کیوں کر مقابلہ کر سکوں۔"
اس بزرگ نے فرمایا "کچھ اندیشہ مت کر، وھی مہرہ پھر زمین پر ان کے رو بہ رو ڈال دے، قدرت خدا کا تماشا دیکھ۔"
حاتم نے ھر چند مہرے کے نکالنے کا قصد کیا، ھاتھ ایسے کانپنے لگے، نکال نہ سکا۔ آخر اسی پیر مرد نے نکال کر اس کے ھاتھ میں دیا کہ بسم اللہ کر کے زمین پر ڈال دے۔
حاتم نے جو اس مہرے کو پھینکا، وھیں زمین چھپکلیوں کے جنگل کی طرح رنگ بدلنے لگی۔ جب کہ لال ھوئی بچھو بھی آپس میں لڑنے لگے، ایک کے ڈنگ سے دوسرے کا بدن پھت گیا۔ حاتم کھڑا دیکھتا کہ آپس میں لڑ کر تین روز کے عرصے میں
-----------------------------------------------------------------
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 381 آرائشِ محفل صفحہ 348

وے بھی تمام ھو گئے، یہ بھی وھاں رھا۔
چوتھے روز اس مہرے کو اٹھا دوگانہ شکر کا ادا کر روانہ ھوا۔ چند روز کے بعد ایک شہر عظیم دکھائی دیا، یہ اس میں داخل ھوا۔ لوگوں نے جو اسے اجنبی دیکھا، پاس آ کر پوچھا "اے جوان! تو کس راہ سے آیا؟"
حاتم نے کہا "داھنی طرف کی راہ سے۔"
وہ حیران ھو کر کہنے لگے کہ جیتا کیوں کر بچا۔ کیا چھکلیوں اور ببول کے کانٹوں کی مصیبت، اژدھات کے جنگل اور بچھوؤں کی آفت تجھ پر نہ پڑی؟
حاتم بولا "عزیزو! البتہ ان بلاؤں میں مبتلا ھوا تھا لیکن مدد الٰہی سے چھپکلیوں اور بچھوؤں کو ٹھکانے لگایا۔ اب اس راہ میں سوائے اژدھات کے ریزوں اور ببول کے کانٹوں کے کوئی گزندہ باقی نہیں۔"
سوداگر جو وھاں اترے ھوئے تھے، اس بات کو حاتم کی سن کر مستعد ھوئے کہ اب اسی راہ سے چلیے۔ دور کی راہ کس طرح اختیار کیجیے کیوں کہ یہ رستہ صاف ھو چکا ھے، کچھ حادثہ نہیں۔ اگر سوداگر آیا جایا کریں گے، شہر بھی آباد ھو جائے گا۔ آخر لاد باندھ کر چلے گئے۔
یہ خبر بادشاہ کو پہنچی کہ کاروانوں نے ایک مسافر کے کہنے پر جس راہ میں اژدھات اور ببول کا جنگل ملتا تھا، اسی رستے گئے۔ حکم کیا کہ بہت سے ھرکارے ان کے پیچھے پیچھے چلے جائیں، راہ کا احوال قرار واقعی تحقیق کر کے پھر آئیں اور حاتم کو بلا کر اپنے پاس رکھا۔ اور کہا "اے مسافر! راہ کے حادثے، مسافری کے صدمے تو بہت سے تو نے اٹھائے ھیں، چند روز
----------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 382 آرائشِ محفل صفحہ 349

یہاں دم لے، قدرے آرام کر، ھمارا ھم صحبت ھو، پھر جہاں چاھیو وھاں جائیو۔ پر مطلب اس کا یہ تھا کہ اگر سچا ھے تو فبہا نہیں تو سولی دوں گا۔
اس ارادے پر چند روز اس کو رکھا، کتنے نگہ بان تعینات کیے کہ کہیں آئے جائے نہیں۔ اور وہ لوگ جو راہ کی خبر لینے گئے تھے اس قافلے کے پیچھے لگ گئے۔ جابجا اس کے اترنے کی نشانی پائی، آفت کہیں نہ دیکھی۔ جب سوداگر چھپکلیوں کے جنگل سے صحیح و سلامت گزرے، وے پھرے چند روز کے بعد اپنے شہر میں آ پہنچے۔ بادشاہ سے عرض کی کہ جو کچھ اس مسافر نے کہا تھا، سچ ھے؛ واقعی کوئی آفت اس راہ میں نہیں رھی۔
تب شہریار نے ھر ایک طرف اشتہار بھجوایا کہ فلانی راہ آفتوں سے پاک ھو چکی، جس کا جی چاھے بے دغدغے آئے جائے۔ اور حاتم کی بہت سی معذرت و منت کی اور کہا "اے جوان! مجھ کو کچھ خطا ھوئی ھے، تو معاف کر۔ پھر بہت سا زر و جواھر اس کے آگے رکھا۔"
حاتم بولا "کچھ آپ کا قصور بہ ظاھر مجھے معلوم نہیں ھوتا کیوں کہ جس روز سے تمھارے شہر میں ایا ھوں، بہ آرام تمام رھا ھوں۔ یہ کیا سبب ھے جو تم معذرت کرتے ھو۔"
بادشاہ نے فرمایا "تم نہیں جانتے کہ میں ظاھر سلوک کرتا تھا کہ مہمانوں کی طرح رکھتا تھا۔ فی الحقیقت کتنے لوگ تمھارے لیے متعیقن کیے تھے کہ جب تک اس جنگل کی خبر نہ آوے تم کہیں جانے نہ پاؤ۔ اگر وہ جھوٹ ھوتا تو شہر کے باھر تمھیں سولی دی جاتی کہ پھر کوئی ایسی افواہ نہ اڑاوے۔"
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 383 آرائشِ محفل صفحہ 350

اس بات کو سن کر حاتم نے عرض کی کہ یہ تو عین انصاف ھے بادشاھوں کا کہ سچے کو سرفراز کریں، جھوٹے کی گردن ماریں۔ تم عبث عذر کرتے ھو۔ میں نے بھی جھوٹ نہ کہا تھا کہ شیوا بھلے آدمیوں کا نہیں ھے۔ تمھاری بھی اس بات سے آزردہ نہیں ھوتا کیوں کہ عادلوں کو یوں ھی چاھیے۔ خدا تم کو اپنی پناہ میں رکھے، ملک تمھارا ھمیشہ تمھارے قبضے میں رھے۔ اور یہ جو کچھ مجھے عنایت ھوا ھے، میرے کس کام کا ھے کیوں کہ باربرداری نہیں رکھتا، میں تن تنہا اسے کس طرح لے جاؤں۔
بادشاہ نے فرمایا "تم خاطر جمع رکھو، میں بار برداری اور تھوڑے بہت لوگ نگہہ بانی کے واسطے ساتھ کر دوں گا کہ تمھارے وطن تک پہنچا دیں۔"
حاتم نے التماس کیا "مجھے ایک کام ضروری درپیش ھے، جب تک اسے نہیں کر چکوں گا، وطن کی طرف تو منہ بھی نہ کروں گا، جانا ایک طرف۔"
شہریار نے پوچھا کہ کون سا کام ھے؟ اگر ھم کو معلوم ھو تو ھم بھی اس میں شریک ھوں، کوتاھی نہ کریں۔
حاتم بولا "یہ حضرت کا الطاف ھے لیکن میں سوائے خالق کے کسی مخلوق سے مدد نہیں چاھتا، پر ایک رھبر ساتھ کر دیجیے جو شہر قطان کا رستہ بتا دے، یہ بھی احسان سے خالی نہیں۔"
بادشاہ نے فرمایا "تم کو اس شہر میں کیا کام ھے؟"
اس نے کہا "میں نے سنا ھے کہ حمام بادگرد اسی سرزمین میں ھے، میں اس کے دیکھنے کا نہایت مشتاق ھوں۔"
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 384 آرائشِ محفل صفحہ 351

شاہ نے ارشاد کیا "اے جوان! اس خیال کو دل سے اٹھا کیوں کہ جو کوئی اس کی طرف گیا، جیتا نہیں پھرا۔ اپنے تئیں کیوں ھلاکت میں ڈالتا ھے۔"
وہ بولا "جو ھونی ھو سو ھو، مجھے جایا چاھیے اور وھاں کی خبر لانا ضرور ھے۔"
غرض ھرچند بادشاہ نے منع کیا اور نصیحتیں کیں، پند دیں پر اس نے نہ مانا۔ تب لاعلاج دو آدمی ساتھ کر دیے کہ شہر قطان کی راہ پر اس کو پہنچا دو۔
حاتم رخصت ھوا، شہر سے باھر نکل کر رستہ پکڑا۔ بعد چند روز کے ایک مقام پر پہنچ کر رھبروں نے عرض کی کہ ھماری حد تمام ھو چکی، یہ سرحد شہر قطان کی ھے، ھمیں رخصت کرو۔ حاتم ان کو وداع کر کے آگے بڑھا۔ جب قریب پہنچا تو اس نواح کے لوگ اس کو دیکھ کر کہنے لگے "اے جوان! کس راہ سے آیا ھے؟"
اس نے کہا "فلانی طرف سے؛ اگرچہ اس میں بہت سی آفتیں تھیں لیکن خدائے کریم نے اس راہ کو اپنے کرم سے پاک کیا، آفتیں دور کیں، مجھے صحیح و سلامت یہاں تک پہنچایا۔"
یہ بات سن کر سب کے سب خوش ھوئے۔ حاتم شہر قطان میں داخل ھوا اور کارواں سرائے میں اترا۔ ایک دن دو موتی بیش قیمت اور دو لعل گراں بہا کہ ان کا ثانی سرکار عالی میں نہ تھا، ایک ڈبیا میں رکھ کر بادشاہ کے در دولت پر گیا۔
چوب داروں نے اپنے اپنے داروغے سے کہا کہ ایک مسافر کسی شہر سے آیا ھے۔
----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 385 آرائشِ محفل صفحہ 352

اس کے حضور میں جا کر عرض کی۔ ارشاد ھوا کہ اس کا احوال تحقیق کر کے آؤ۔
چوب داروں نے جا کر حاتم سے پوچھا "تم کہاں سے آئے ھو، کیا نام تمھارا ھے؟"
اس نے کہا میں سوداگر ھوں، آنا شاہ آباد سے ھوا ھے، امیدوار ملازمت کا ھوں۔"
یہ انھوں نے اپنے داروغے کی وساطت سے حضور پرنور میں عرض کیا کہ ایک جوان طرح دار خوش گفتار سوداگر پیشہ شاہ آباد سے آیا ھے، قدم بوسی کی آرزو رکھتا ھے۔
بادشاہ نے حکم کیا "بلاؤ۔" وہ جا کر حاتم کو حضور اعلیٰ میں لے آئے۔
وہ مجراگاہ میں کھڑا ھو کے آداب شاھانہ بجا لایا اور تعریف کر کے آگے بڑھا، وہ جواھر نذر گزرانا۔ بادشاہ کا رنگ اس جواھر کو دیکھ کر مارے خوشی کے دمکنے لگا۔ اسے کرسی پر بٹھلایا، احوال پوچھا۔
اس نے عرض کی کہ ایک مدت سے سوداگری کرتا تھا اب اس دنیا کو ھیچ سمجھ کر تجارت چھوڑ دی، سلاطینوں کی ملاقات ترک کی، سیاحی پکڑی۔ اس شہر میں آ کر حضرت کے اوصاف حمیدہ یہاں تک سنے کہ بے اختیار دوڑا آیا کیوں کہ ایسے بادشاہ عادل کا دیکھنا سعادت ابدی و دولت سرمدی ھے۔
بادشاہ نے اس کی گفت گو سن کر نہایت نوازش سے فرمایا "اے جوان! چند روز اس شہر میں رہ اور ھم کو اپنی صحبت سے مسرور کر، یہی میری نذر ھے۔"
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 386 آرائشِ محفل صفحہ 353

حاتم نے یہ سن کر التماس کیا "اگرچہ ھم لوگوں کو دو چار روز بھی ایک جگہ رھنا دشوار ھے، پر تجھ سے بادشاہ صاحب انصاف، دوست پرور کی خدمت میں حاضر رھنا سب طرح سے بہتری ھے، میں نے دل و جان سے قبول کیا۔"
پھر بادشاہ نے پوچھا "کہاں اترے ھو؟"
اس نے عرض کی "کارواں سرائے میں۔" یہ سن کر دیوان خاص کے داروغے کو حکم کیا کہ ایک مکان مختصر پاکیزہ آراستہ کر کے ان کو وھاں اترواؤ اور بکاول سے کہہ دو کہ دونوں وقت ساتھ ساتھ خوان خاصے کے بے تکلیف پہنچایا کرے اور کتنے خدمت گار بھی کاروبار کے لیے متعین کر دو۔
یہ کہہ کر حاتم کی طرف متوجہ ھوئے کہ اے جوان! ھماری خوشی اسی میں ھے، وھاں سے اٹھ اور یہیں رھنا اختیار کر۔ ھر روز ھماری مجلس کی رونق برھا اور اپنا کلام شیریں اکثر اوقات سنا۔
القصہ حاتم وھیں آ رھا، بادشاہ سے صحبت گرم کی؛ چناں چہ چھ مہینے اسی طرح گزر گئے۔ ندان حارث شاہ اس پر ایسا مبتلا ھوا جو ایک دن نہ دیکھتا تھا تو اسے چین نہ پڑتا، ناچار بلوا ھی لیتا۔ غرض جان و دل سے بھی زیادہ دوست رکھتا تھا اور اکثر اپنے ندیموں سے اس کی تعریف کر کے کہتا "اگر یہ میرے شہر میں اپنی بود و باش ھمیشہ اختیار کرے تو بہ خوبی اوقات کٹے۔" وہ بھی یہ سن کر کہتے "حضرت بجا فرماتے ھیں، یہ مرد ایسا ھی خوش خلق و شیریں کلام ھے، اس کا رھنا بادشاھوں کی صحبت میں بہت مناسب ھے۔"
ایک دن کا ذکر ھے حاتم نے جو حارث شاہ کو خوش و خورم
---------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 387 آرائشِ محفل صفحہ 354

دیکھا، کئی لعل و زمرد و الماس بیش قیمت پھر نذر گزارے۔ فرمایا "اے جوان! میں تیرا دل سے ممنون ھوں، بار بار شرمندہ کیوں کرتا ھے، میں تجھ سے محجوب ھوتا ھوں کیوں کہ ایک مدت سے تو میری خدمت میں حاضر ھے پر کچھ فرمایش نہیں کرتا۔ اب میرا جی یوں چاھتا ھے کہ جو کچھ تجھے درکار ھو بے تکلف مانگ، میں عزیز نہ کروں گا، بلا توقف تجھے دوں گا۔"
حاتم بولا "آپ کی بدولت سب کچھ موجود ھے، کسی بات کی کمی نہیں، سیاحوں کو مکلفات دنیا ایسے زیادہ کیا درکار ھیں۔"
بادشاہ نے کہا "یہ کون بات ھے، میرا تمام ملک تیرا ھی ھے، جو کچھ تو چاھے بے پوچھے اپنے تصرف میں لا، یا کسی کو دے ڈال؛ مختار ھے، جو کام چاھے اھل کاروں سے لے، تیرے تابعدار ھیں، کیا مجال جو عذر کریں۔"
حاتم نے کہا "عمر شاہ کی بڑھے، سلطنت مدام قائم رھے۔ میری دل کی آرزوئیں سب نکل چکی ھیں مگر ایک باقی ھے، سو تا دم مرگ دل سے نہ جائے گی۔"
شاہ نے پوچھا "وہ ایسی کیا ھے کیوں کہ اگر تو رغبت کرے تو اپنی بیٹی بھی تیرے حوالےکروں، ملک و مال تو کیا چیز ھے۔"
حاتم نے سر جھکا کر عرض کی کہ حضرت کی بیٹی کو میں اپنی بڑی بہن جانتا ھوں، یہ دھیان میرے جی میں نہیں، لیکن تمنا اور ھی ھے، پر اس سوچ سے میں التماس نہیں کرتا مبادا قبول ہ ھو، میں کہہ کر لوگوں میں شرمندہ ھوں۔
بادشاہ نے پھر مہربانی سے ارشاد کیا "ے عزیز! میں تیرے لطف کا احسان مند ھوں۔ اگر تخت خلافت بھی چاھے تو ابھی
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 388 آرائشِ محفل صفحہ 355

بخشوں، سوائے بیگم کے جو چاھے سو لے، تیرا ھی ھے۔"
حاتم نے ھاتھ جوڑ کر عرض کی "یہ آپ کیا فرماتے ھیں۔ وہ میری بجائے والدہ کے ھیں اور تخت خلافت کا آپ کو مبارک رھے، میری عرض اور ھی ھے۔"
تب تو حارث شاہ نے کہا "بھائی خدا کے واسطے کہیں جلد کہہ، میرا جی اکتا گیا، وہ کیا ھے؟"
اس نے کہا "بہ شرطے آپ قول دیں تو میں عرض کروں۔"
بادشاہ نے وھیں عہد کیا اور قسم کھائی۔
تب حاتم نے التماس کیا "حمام بادگرد کے دیکھنے کی آرزو ھے جو ارشاد ھو تو اس کی سیر کروں، جی کی کلفت دھوؤں۔"
بادشاہ نے جو یہ بات سنی، متفکر ھو کر سر جھکا لیا، چپکا رہ گیا۔
ھاتم نے جو بادشاہ کو اس حالت میں متفکر دیکھا، پوچھا "حضرت اس قدر متفکر کیوں ھیں، میں ھر طور سے آپ کا تابع دار ھوں، جو آپ کی مرضی ھو گی بجا لاؤں گا۔"
شہریار نے سر اٹھا کر فرمایا "اے عزیز! کیوں کر ایسا متفکر نہ ھوں، مجھے کئی طرح کے اندیشے ھیں۔ پہلے تو میں نے قسم کھائی ھے کہ کسی کو حمام بادگرد کی طرف نہ جانے دوں گا۔ اگر تجھ کو ھاں جانے کی پروانگی دوں تو عہد شکنی ھوتی ھے۔ دوسرے یہ کہ تجھ سا جوان خوب صورت نیک سیرت اپنی جان سے ھاتھ دھووے، یہ جائے حیف ھے۔ تیسرے یہ کہ جیسا تو ھے کوئی ایسا آج تک میرے پاس نہیں آیا۔ چوتھے یہ اگر تجھ کو رخصت کروں تو درد جدائی کیوں کر سہوں۔
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 389 آرائشِ محفل صفحہ 356

پانچویں یہ، اگر اجازت نہ دوں تو ابھی کے قول سے جھوٹا ھوتا ھوں؛ یہ بادشاھوں کے حق میں مناسب نہیں کیوں کہ اگر بد عہد مشہور ھوں تو پھر کوئی میرے قول قسم کا اعتبار نہ کرے گا، اکثر سلطنت کے کاموں میں خلل پڑے گا۔"
حاتم نے عرض کی "میں خدا سے امیدوار ھوں، ان شاءاللہ تعالیٰ جلد خیر و عافیت سے آپ کی خدمت میں پھر حاضر ھوتا ھوں۔
کسی طرح کا اندیشہ خاطر مبارک میں نہ لائیے، بے وسواس مجھے اجازت دیجیے کیوں کہ میں اس امر سے تامقدور دست بردار نہیں ھو سکتا؛ اس واسطے کہ منیر شامی شہ زادہ حسن بانو برزخ سوداگر کی بیٹی پر عاشق ھوا ھے، وہ سات سوال رکھتی تھی اور شہ زادہ عہدہ برآ نہیں ھو سکا؛ میں نے اس پر رحم کھا کے اپنے ذمے لیے، بلکہ عہد کیا کہ میں اس کو پورا کیے بن نہ رھوں گا۔ چناں چنہ چھ سوالوں کا جواب دے چکا ھوں، اب یہی ایک ساتوان سوال باقی رہ گیا ھے۔ جناب الٰہی سے توقع رکھتا ھوں کہ وھاں بھی جا پہنچوں اور حمام بادگرد کی تمام کیفیت بیان کروں اور حسن بانو سے جا کر کہوں اور بیاہ اس کا اسی شاہ زادے کے ساتھ کروا دوں کہ مدت کے بعد وہ عاشق زار اپنی مراد کو پہنچے۔"
اس بات کو سن کر بادشاہ نے کہا "اے جوان! آفرین تیری ھمت پر اور رحمت تیرے ماں باپ پر کہ تو نے غیروں کے واسطے اپنے تئیں رنج و مصیبت میں ڈالا، یہاں تک کہ اپنا مرنا گوارا کیا، اس لیے کہ ادھر کا گیا ھوا پھر ادھر نہیں آیا۔ بہت سے شہ زادے، سوداگر بچے وھیں جا جا کھپے، سلامت کوئی نہ پھرا؛ اغلب ھے ان کو بھی اسی نے بھیجا ھو۔ بارے یہ تو کہہ کہ تو کس شہر کا رھنے والا ھے اور نام تیرا کیا ھے؟"
----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 390آرائشِ محفل صفحہ 357

اس نے کہا "وطن میرا یمن ھے، نام حاتم بن طے۔"
یہ سنتے ھی حارث اٹھا، بغل گیر ھوا اور اپنے برابر اس کو بٹھا کر کہنے لگا کہ نشان بادشاھت کا تیری پیشانی سے ظاھر ھے اور نیک ن امی مشہور ھے بلکہ اور زیادہ ھو گی، یہاں تک کہ تیرا نام ضرب المثل ھو جائے گا، اور جو کوئی ایسا پیدا ھو گا تو تیرا ثانی کہلائے گا۔" یہ کہہ کر اپنے وزیر سے فرمایا کہ سامان ارک حمام بادگرد کے دربان کو شقہ لکھ کر حوالے کرو۔
بعد اس کے اٹھ کھڑا ھوا، حاتم کو گلے لگا کر ایک آہ سرد دل پر درد سے کھینچی اور آب دیدہ ھوا، کتنے لوگ ساتھ کر کے رخصت کیا۔ جب تک حاتم نظر آیا، یہ ٹکٹکی باندھے رھا، جس وقت آنکھوں سے اوجھل ھوا، بادشاہ تخت سے اٹھ کر غم زدوں کی طرح محل میں چلا گیا اور حاتم نے شہر سے نکل کر جنگل کی راہ لی۔
غرض ھم راھیوں سے قال و مقال کرتا ھوا چلا جاتا تھا۔ بعد پندرہ روز کے حمام نظر آنے لگا۔ حاتم نے ان سے پوچھا "یہ قلعہ ھے یا پہاڑ، کیا دکھلائی دیتا ھے؟"
انھوں نے عرض کی "یہی حمام کا دروازہ ھے، دیکھنے میں نزدیک ھے، پر سات روز میں پہنچیے گا۔"
یہ کہہ کر آگے بڑھا، ساتویں دن دروازے کے متصل جا پہنچے۔ حاتم کیا دیکھتا ھے کہ وھاں ایک پہاڑ کے دامن میں لشکر عظیم پڑا ھے۔ پوچھا اس نے "یہ فوج کس کی ھے؟" ھم راھیوں نے التماس کیا "حمام بادگرد کے دربان کی۔"
آخر حاتم اس لشکر میں داخل ھوا، اس کے ھم راھیوں کے
----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 391آرائشِ محفل صفحہ 358

اکثر خوش و اقربا تھے، باھم ملے اور پوچھنے لگے کہ تمھارا آنا کیوں کر ھوا؟
انھوں نے کہا "اسی جوان یمنی کے ساتھ بادشاہ نے بھیجا ھے اور ایک نامہ بھی دربانوں کو اس کے واسطے لکھا ھے۔"
القصہ حاتم سامان ارک کے خیمے میں آیا۔ صاحب سلامت کر کے شقے کو حوالے کیا۔ وہ اٹھ کر بغل گیر ھوا اور نامہ سر پر رکھ لیا، سرنامے پر بادشاہ کی مہر دیکھ کر بوسہ دیا۔ بعد اس کے کھول کر پڑھا تو اس میں یوں لکھا تھا کہ اس جوان یمنی کے ساتھ میں نے عہد کیا تھا، بنابر اس کے بھیجا ھے۔ اگر تو اس کو سمجھا کر کسی صورت الٹا پھیر دے گا تو ھم خوش ھوں گے اور تو سرفراز ھو گا اور جو یہ کسی طرح سے نہ مانے تو حمام میں بہ خوبی بھجوا دیجیو، پر مقدور بھر اس کے پھیرنے میں سعی کیجیو۔
وہ اس کو پڑھتے ھی اتھ کھڑا ھوا اور حاتم کو بہ تعظیم تمام کرسی پر بٹھلایا، شطرح مہمان داری کی بہ خوبی بجا لایا۔ قصہ کوتاہ چند روز حسب الحکم بادشاہ کے سمجھایا بجھایا کیا، پر پتھر کو جونک نہ لگی۔ چناں چنہ اس نے ان نصیحتوں کے جواب میں یوں کہا۔
تم اس خیال سے ھاتھ اٹھاؤ۔ جب کہ میں نے کہنا بادشاہ کا اس امر میں نہ مانا، تمھاری کب سنتا ھوں، مجھے تصدیع مت دو، بہتر ھے کہ جلد رخصت کرو۔"
سامان ارک نے جو دیکھا کہ یہ میری نصیحت مطلق نہیں سنتا، بن جائے نہیں رھنے کا، لاچار بادشاہ کو عرضی کی کہ یہ جوان اپنی ھٹ نہیں چھوڑتا اور نصیحت کسی کی نہیں مانتا،
----------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 392آرائشِ محفل صفحہ 359

اب جو حکم ھو بجا لاؤں۔ بادشاہ کو جب وہ عرضی گزری، پڑھ کر اس نے سر دھنا اور آنکھوں میں آنسو بھر لایا۔ آخر مجبوری لکھ کر بھیجا "اگر وہ راضی نہیں ھوتا، مزاحمت نہ کرو، جانے دو، شاید اس کی عمر تمام ھو چکی، حمام کا بہانا ھے۔"
وھاں تو سامان ارک منتظر جواب کا تھا اور حاتم کو اپنے چلنے کی پڑ رھی تھی۔ غرض ادھر سے تقاضا تھا اور ادھر سے امروز فردا؛ اسی حیص و بحث (بیص) میں فرمان بادشاھی آ پہنچا کہ اس کو مت روکو، راہ دو۔ اس پر بھی سامان ارک نے بہ طور نصیحت کے پھر کہا "اے عزیز! اب بھی کچھ نہیں گیا، اگر زندگی عزیز ھے تو باز آ، نہیں تو پشیمانی کھینچے گا بلکہ جان سے جائے گا۔"
حاتم نے کہا "یہ مبالغہ عبث ھے، خدا کے واسطے مجھے معذور رکھ، کہیں جانے دے۔"
تب ناچار ھو کر، سامان، اٹھ کھڑا ھوا، حاتم کو حمام کے دروازے پر لے گیا۔ وھاں بھی کھڑے ھو کے بہت سمجھایا پر کچھ کام نہ آیا۔ حاتم نے ایسا دروازہ اپنی تمام عمر میں نہ دیکھا تھا۔ جو آنکھ اٹھا کر غور کیا تو خط شریانی (سریانی) سے اس کے اوپر لکھا تھا کہ یہ طلسمات کیومرس بادشاہ کے وقت میں بنا ھے۔ نشان اس کا مدتوں رھے گا اور جو کوئی اس طلسمات میں جائے گا، جیتا نہ نکلے گا، وھیں بھوکا پیاسا سرگردان رھے گا۔ اگر اس کی زندگی ھے تو ایک باغ میں وارد ھو گا، وھاں کے میوے کھاے گا، اپنی حیات کے دن پورے کرے گا، پر ممکن نہیں جو باھر نکل سکے۔
جوں اس نوشتے کو حاتم نے پڑھا، دل میں دھیان کیا کہ
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 393آرائشِ محفل صفحہ 360

جو کچھ حقیقت تھی، سو دروازے پر لکھی پائی، اندر جانا کیا ضرور ھے۔ چاھتا تھا کہ وھاں سے پھر، وھیں خاطر میں لایا کہ حسن بانو جو اس کے اندر کا احوال پوچھے تو کیا کہوں، مگر شرمندہ ھوں۔ اب جو ھونی ھو سو ھو، اندر چلا چاھیے؛ پھر لوگوں کو رخصت کیا۔
آپ اندر پیٹھا۔ دس بارہ قدم چل کر جو پیچھے پھر کے دیکھا تو نہ لوگوں کو ھی پایا، نہ دروازہ ھی نظر آیا، مگر جنگل لق و دق موجود تھا، اور کچھ دکھلائی نہیں دیا۔ متفکر ھوا کہ ابھی دس بارہ قدم سے زیادہ چلنے کی نوبت نہیں پہنچی، دروازہ نظر سے غائب ھوا بلکہ اس کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے۔ جس تس طرح اسی کو ڈھونڈیے پھر باھر نکلیے۔ غرض تمام دن اسی تلاش میں پھرا، پر دروازہ نہ ملا۔ تب دل میں کہنے لگا "حمام کا بہانہ تھا کہ پاؤں رکھتے ھی اجل کے ھاتھ میں پڑ گیا، اب بن جان دیے چھٹکارا نہیں۔ غرج دائیں بائیں دیکھ کر چل نکلا۔ پر اضطراب میں ادھر ادھر بھٹکتا پھرتا تھا۔
بعد چند روز کے ایک سمت کا رستہ پکڑا۔ تھوڑی دور گیا ھو گا کہ ایک آدمی کی صورت نظر پڑی۔ یہ خیال کیا "اغلب ھے کہ آگے بستی ھو۔" اس کی طرف روانہ ھوا۔ کیا دیکھتا ھے کہ وہ بھی ادھر ھی کو آتا ھے۔ جب نزدیک پہنچا تب اس صورت طلسماتی نے سلام کیا اور ایک آئینہ بغل سے نکال کر حاتم کے ھاتھ میں دیا۔
حاتم نے اس کو لے کر اپنا منہ دیکھا اور اس سے پوچھا کہ حمام یہاں سے نزدیک ھے؟ اور کیا تو حجام ھے جو آرسی دکھاتا ھے؟
---------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 394آرائشِ محفل صفحہ 361

اس نے کہا "البتہ۔"
پھر حاتم نے پوچھا کہ تو حمام کو چھور کر کدھر جاتا ھے؟
وہ بولا "میں حمامی ھوں۔ جس کسی کو دیکھتا ھوں، لے جا کر حمام میں نہلاتا ھوں، ھپر امیدوار انعام کا ھوتا ھوں۔ اگر آپ بھی مہربانی فرمائیے اور میرے ساتھ چل کر غسل کریے تو میرے دل کی کدورت جاتی رھے۔ آپ کی بہ دولت کچھ نہ کچھ مل ھی رھے گا۔"
حاتم نے کہا "بہت بہتر۔ میرے بھی بدن پر سفر کی گرد سے میل جم رھی ھے۔ چاھتا ھوں کہ اسے چھڑاؤں، آج خوب طرح سے مل مل کر نہاؤں۔ مگر تو اکیلا ھی ھے یا کوئی شریک بھی رکھتا ھے؟
اس نے عرض کی "ھیں تو بہتیرے پر آج غلام ھی کی باری ھے۔"
الغرض آگے آگے حاتم، پیچھے پیچھے نائی خوشہ بہ خوشی چلے جاتے تھے۔ دو تین کوس چلے ھوں گے کہ ایک گنبد آسمان سے لگا ھوا نظر پڑا۔ حاتم نزدیک پہنچا تب حجام حمام کے اندر گیا اور اس کو بلایا۔ وہ جوں ھی داخل ھوا دروازہ بند ھو گیا۔ اس نے گھبرا کر جو پیچھے دیکھا تو واقعی بند ھو گیا ھے، پر نظر آتا ھے۔ اس امید پر آگے بڑھا کہ جب چاھوں کا نکل جاؤں گا۔
آخر حمامی اسے حوض پر لے گیا اور کہنے لگا کہ آپ اس میں اتریں تو بدن پر پانی ڈالوں، میل چھڑاؤں۔
حاتم نے کہا "میں کپڑے اتار لوں تو اس میں اتروں،
----------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 395آرائشِ محفل صفحہ 362

مگر بے لنگی یہ بھی نہیں ھو سکتا۔"
تب حجام نے ایک لنگی پاکیزہ، بہت تحفہ حوالے کی۔ حاتم نے اس کو باندھ ، کپڑے اتار حوض پر رکھ دیے اور آپ اتر پڑا۔ پھر حجام نے ایک جڑاو طاس گرم پانی سے بھر کر اس کے ھاتھ میں دیا، اس نے سر پر ڈال لیا۔ اس نے پھر بھر کر دیا، اس نے اسے بھی اپنے اوپر ڈال لیا۔ تیسری مرتبہ جو ھی سر پر پانی ڈالا وھیں ایک تڑاقہ ھوا، حمام اندھیرا ھو گیا۔ بعد ایک ساعت کے تاریکی جاتی رھی تو کیا دیکھتا ھے کہ نہ حجام ھے، نہ حمام، نہ حوض مگر ایک پتھر کا تراشا گنبد ھے، اس کا تمام صحن پانی سے بھرا نظر آتا ھے۔
ایک دم نہ گزرا تھا کہ پانی پنڈلیوں تک آ گیا۔ حاتم عاجز ھو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا اور وہ بڑھ کر گھٹنوں سے بھی اوپر پہنچا۔ تب یہ گھبرایا کہ الٰہی! پانی ھر دم بڑھا جاتا ھے، نکلنے کی صورت نظر نہیں آتی۔ پس معلوم ھوتا ھے کہ اس میں ڈوب مروں گا؛ ندان مضطرب ھو کر دروازے کی طرف گیا۔ چاروں طرف سر ٹکراتا پھرا پر اسے نہ پایا۔ اتنے میں پانی ڈوباؤ ھو گیا۔ یہ پیرا تھا پیرنے لگا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ اس حمام سے جو لوگ نہیں نکل سکت، یہی سبب ھے کہ تیرتے تیرتے تھکے اور ڈوب گئے۔ میں بھی ھاتھ پاؤں مارتے مارتے ڈوب جاؤں گا کیوں کہ کوئی صورت نجات کی نظر نیہں آتی، باھر ھونا تو معلوم۔ حارث شاہ اسی دن کے لیے مجھے منع کرتا تھا۔ اس کا کہنا نہ مانا، حیف ھے حرام موت موا۔ یہ کہ کر جی کوڈھارس بندھانے لگا کہ خدا کریم کارساز ھے، اتنا مت گھبراؤ؛، داتا کی ناؤ پہاڑ پر چڑھتی ھے۔ اور جو یوں ھی آئی ھے تو بہتر؛ کیوں کہ تو نے کچھ
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 396آرائشِ محفل صفحہ 363

اپنے مزے کے واسطے یہ مصیبت نہیں اختیار کی بلکہ مرتے ھوئے کے جلانے کو اپنی جان پر جوکھوں اٹھائی، چاھیے شاد رہ۔ اگر ھزار جانیں اللہ کی راہ میں جائیں کچھ غم نہیں۔
غرض اسی طرح کی گفت گو سے دل کو تسلی دیتا تھا۔ اتنے میں پانی اتنا بلند ھوا کہ سر اس کا گنبد میں جا لگا اور نہایت ماندہ ھوا تھا۔ ھاتھ پاؤں شل ھو گئے تھے۔ قریب تھا کہ بیٹھ جائے، وھیں ایک زنجیر لٹکی دکھائی دی۔ حاتم نے بے اختیار دونوں ھاتھ سے پکڑ لی کہ بھلا ایک ساعت تو دم لوں کہ ھپر ویسی ھی آواز ھوئی۔ وہ گنبد کے باھر ھو گیا؛ اپنے تئیں ایک جنگل میں کھڑے پایا۔ ھر طرف دیکھنے لگا، سواے میدان کے کچھ دکھلائی نہ دیا۔ جی میں خوش ھوا کہ بارے اس طوفان سے میں نے نجات پائی اور طلسمات سے رھائی، آگے بڑھا۔
غرض تین دن تک بھٹکتا پھرا کہ ایک عمارت عالی شان چمکتی نظر آئی۔ آبادی کی امید پر اس طرف چلا؛ جب نزدیک پہنچا ایک باغ خوش قطع، پر فضا دیکھا۔ دل میں سوچنے لگا کہ اس بہار کا باغ یہاں کس نے بنایا ھے؛ البتہ اس کے قریب کسی طرف بستی ھو گی۔ جب متصل پہنچا، دروازہ کھلا پایا، چلا گیا۔ کئی قدم بڑھ کے جو پھر دیکھا دروازے کا نشان بھی نہ پایا۔ تب فکر مند ھوا کہ یہ کیا بلا ھے۔ اتنے صدمے اٹھائے، ھنوز اس طلسم کے باھر نہ نکلا۔ آخر لاچار ھو کر ایک مکان کی طرف روانہ ھوا۔ واھں طرح بہ طرح کے میوے کے درخت لدے ھوئے دیکھے۔ بھوکھا تو تھا ھی، میوہ توڑ توڑ کھانے لگا۔ جتنا کھاتا تھا پیٹ نہ بھرتا تھا۔ غرض سو من کے قریب کھایا پر سیر نہ ھوا، لیکن کچھ تھک گیا۔
پھر سیر کرتا، تماشا دیکھتا ایک بارہ دری کے قریب
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 397آرائشِ محفل صفحہ 364

جا پہنچا اس کے متصل بہت سے آدمی پتھر کے ننگے منگے کھڑے تھے مگر ایک ایک لنگ باندھے تھے، سو وہ بھی پتھر کا۔ حیرت میں آ گیا کہ یہ کیا بھید ھے۔ اس کا عقدہ کیوں کر کھولوں۔ اس فکر میں تھا کہ ایک طوطی نے ھانک ماری کہ اے جوان! کیوں کھڑا ھے، یہاں جو آیا ھے، مگر جان سے ھاتھ دھوئے ھیں۔
حاتم نے جو سر اٹھایا تو ایک طوطی پنجرے میں دیکھی اور یہ عبارت ایوان پر لکھی پائی: "اے بندۂ خدا! اس حمام بادگرد سے جان سلامت نہ لے جاے گا کہ یہ طلسمات کیومرس بادشاہ ھا ھے۔ ایک روز کیومرس شکار کھیلتا ھوا اس جگہ آ نکلا تھا؛ اتفاقاً اس نے ایک الماس یہاں پڑھا دیکھا، اتھا لیا۔ پھر جو اس کو تلوایا تو تین سو مثقال کے وزن پایا۔ حیران ھو کر حکیموں سے پوچھا "اس کا ثانی مل سکے گا، یا نہیں؟"
انھوں نے عرض کی کہ آدم کے وقت سے لے کر اب تک نہ ایسا دیکھا ھے نہ سنا۔
تب اس نے کہا "لازم ھے کہ اس کو ایسی جگہ رکھوں تا کسی کے ھاتھ نہ لگے۔" یہ بات ٹھہرا کے یہ حمام بادگرد کا طلسمات بنایا اور اس طوطی کو وہ ھیرا نگلا کر پنجرے میں رکھ کے یہاں لٹکا دیا اور اس کرسی جواھر نگار پر تیر و کمان اس واسطے رکھ دیا ھے کہ جو کوئی اس طلسم میں وارد ھو اور پھر باھر نکلنے کا قصد کرے تو یہ تیر و کمان اٹھا لے، اسی طوطی کے سر میں ایک تیر مارے، اگر لگا تو وہ وھیں اس طلسم کے باھر ھوا اور ھیرا بھی اس نے پایا، نہیں تو پتھر کا ھو جائےگا۔"
---------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 398آرائشِ محفل صفحہ 365

حاتم نے اس کو پڑھ کر ان بتوں کی طرف دیکھا کہ جہاں کے تہاں کھڑے ھیں، ھل بھی نہیں سکتے۔ اندیشہ کیا کہ اے حاتم! اگر تو اس طلسم سے باھر نہ نکلا تو اپنی جان اسی سرگردانی میں کھو دے گا۔ بہتر یہ ھے کہ جلد انھیں میں مل جا، چپکا ھو رہ۔ جو اپنے تئیں بچا لے گا، جب تک جیتا ھے رنج ھی میں رھے گا، کسی تدبیر سے باھر نہ ھو سکے گا اور منیر شامی جدا تیری انتظاری میں تباہ ھو گا۔ یہ سب الجھیڑے بکھیڑے زندگی کے ھی ھیں۔ بس بہتر یہ ھے کہ جینے سے ھاتھ اٹھا، پتھر ھو جا، سب فکروں سے چھٹ جائے گا۔ کدا کارساز ھے، اپنے کام آپ کر لے گا۔
یہ باتیں دل میں ٹھہرا کر کرسی کے پاس گیا۔ بسم اللہ کر کے تیر و کمان اٹھا ایک تیر اسے لگا ھی بیٹھا۔ طوطی پھڑک گئی، تیر خطا کر کے پنجرے کی چھت میں جا لگا۔ حاتم گھٹنوں تک پتھر کا ھو گیا۔ وہ جہاں بیٹھی تھی وھیں آ بیٹھی اور کہنے لگی "اے جوان! جا یہاں سے، یہ مکان تیرے قابل نہیں ھے۔"
حاتم اس جگہ سے اچھل کر تیر و کمان سمیت سو قدم پیچھے جا پڑا۔ پاؤں اس کے ایسے بوجھل ھو گئے تھے جو اٹھا نہ سکتا تھا۔ اپنے اس حالت پر آنسو بھر لایا اور کہنے لگا "یہ کیا حرکت ھے؛ کس خرابی و خستگی سے ایک مدت میں تو یہاں تک آ پہنچا، اب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا کیا لطف ھے۔ اس سے بہتر یہ ھے کہ ایک تیر اور لگا، انھیں بتوں میں شامل ھو جاؤں۔ یہ سوچ کر دوسرا تیر پھر مارا، اس نے بھی خطا کی۔ یہ ناف تک پتھر کا ھو گیا۔ طوطی نے پھر یہی بات کہی "اے جوان! پرے سرک، یہ جگہ تیرے لائق نہیں۔"
حاتم آپ سے آپ دو سو قدم اچھل کر وھاں سے پرے
----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 399آرائشِ محفل صفحہ 366

قریب بتوں کے پہنچا۔ زار زار رونے اور کہنے لگا کہ مجھ سا نامراد کوئی نہیں جو تیر الٹا میرا کام کرتا ھے۔ پھر ایک آہ سرد دل پر درد سے کھینچی اور کہا کہ اے حاتم! اپنی مرگ آنکھوں سے نہ دیکھا چاھیے؛ بہتر ھے کہ آنکھوں پر پٹی باندھ اور یہ ایک تیر جو بساط میں رہ گیا ھے، توکل بہ خدا اس کو بھی لگا چک، کیوں کہ ایسا جینا مرنے سے بدتر ھے۔ ندان طوطی کو تاک، آنکھوں پر پٹی باندھ، اللہ اکبر کہہ کے وہ بھی تیر مارا؛ وھیں طوطی کی روح پرواز کر گئی، پنجرے کے باھر نکل پڑی۔ اتنے میں ایک آندھی آئی، گھٹا اٹھی، بجلی کڑکنے لگی، اندھیرا ھو گیا، سوجھنے سے رہ گیا، شور و غوغا ایسا بلند ھوا کہ حاتم بے ھوش ھو کر گر پڑا، اس وھم میں کہ میں بھی بت ھو گیا۔
بعد ایک ساعت کے آندھی ھوا ھو گئی، ابر جاتا رھا، شور و غل موقوف ھو گیا، سورج نکل آیا۔ حاتم نے جو آنکھیں کھولیں تو اپنے تئیں بتوں کے برابر پرے دیکھا۔ جب خوب ھوش آیا اور جی ٹھہرا، حواس بجا ھوئے تو کیا دیکھتا ھے کہ نہ وہ حمام ھے، نہ باغ، نہ کرسی، نہ پنجرہ، نہ طوطی مگر الماس زمین پر پڑا تارا سا چمک رھا ھے۔
حاتم اٹھ کھڑا ھوا اور دوڑ کر اسے اٹھا لیا، سجدۂ شکر ادا کیا، وے بت سب کے سب آدمی ھو گئے۔
حاتم کو دیکھ کر کہنے لگے "اے جوان! تو اس جگہ کیوں کر سلامت رھا، وہ باغ کدھر گیا، حمام کیا ھوا؟"
تب اس نے تمام سرگزشت گہی۔
وہ دوڑ کر اس کے پاؤں پر گر پڑے اور کہنے لگے کہ ھم
-----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 400آرائشِ محفل صفحہ 367

آج سے تمھارے غلام ھو چکے، یہ طوق بندگی جیتے جی ھماری گردن سے نہ نکلے گا۔
اس بات کو سن کر حاتم نے ان کی بہت سی تسلی و خاطر داری کی اور اپنے ساتھ لے کر شہر قطان کا قصد کر کے روانہ ھوا۔ پر یہ نہ جانتا تھا کہ میں کس طرف جاتا ھوں اور شہر قطان کدھر ھے، لیکن ھادی حقیقی اس کو راہ راست پر لیے جاتا تھا۔ تھوڑی دور چلا تھا کہ وھی دروازہ نظر آیا جس راہ سے داخل ھوا تھا۔ جو اس سے باھر نکلا، 'سامان ارک' کا لشکر دکھلائی دیا؛ ادھر ھی متوجہ ھوا، اس سے جا ملا۔ وہ اس کو دیکھتے ھی اٹھا، نہایت تپاک سے بغل گیر ھوا اور ایک کرسی زریں پر بٹھلایا، بہ آئین شائستہ ضیافت کی۔
بعد عطر و پان کی رسم کے حاتم نے وھاں کا تمام احوال بیان کیا، دو چار روز رھا پھر اس نے بہت سے لوگ ساتھ کر کے شہر قطان کی طرف روانہ کیا، چند روز کے بعد شہر قطان میں داخل ھوا، حارث شاہ سے ملازمت کی، بادشاہ نے نہایت الطاف و نوازش فرمائی، برابر اپنے تخت پر بٹھایا، احوال پوچھا۔
اس نے ماجرا وھاں کا جیوں کا تیوں عرض کیا اور الماس بادشاہ کے رو بہ رو رکھ دیا کہ حضور کی نظر ھے، لیکن اتنا چاھتا ھوں کہ ایک بار حسن بانو کو دکھلا لوں تا اس کو یقین آ جائے، پھر خدمت شریف میں بھیج دوں گا۔
بادشاہ نہایت خوش ھوا اور فرمایا۔ "بارک اللہ۔"
پھر حاتم نے عرض کی کہ یہ بےچارے جو میرے ساتھ آئے ھیں، پتھر کے ھو گئے تھے۔ اکثر ان میں عمدہ زادے اور
---------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 401آرائشِ محفل صفحہ 368

سوداگر بچے ھیں؛ بالفعل محتاج اسباب و سواری کے ھیں، امیدوار ھوں کہ ایک ایک گھوڑا اور اسباب و خرچ راہ ھر ایک کو عنایت ھو جو اپنے اپنے وطن بہ آرام پہنچیں، حضرت کو دعا کریں۔ حارث شاہ نے اس کے کہنے کے موجب کیا۔
پھر حاتم بھی اس سے رخصت ھوا؛ تب بادشاہ نے بہت سے لوگ اور اسباب و سرانجام راہ کا اس کے ساتھ کر کے نہایت عظم و شان سے روانہ کیا۔ حاتم کئی مہینے کے عرصے میں بڑے ٹھاٹھ سے شاہ آباد میں داخل ھوا۔
لوگوں نے اس کو پہچان کر حسن بانو کو اطلاع دی کہ وہ جوان جو حمام بادگرد کی خبر کو گیا تھا، نہایت شوکت و شان سے آیا ھے۔
حسن بانو نے چوب داروں کو مردھے کو بھیجا کہ میری طرف سے بعد سلام کے کہو اگر تکلیف نہ ھو تو اسی طرف چلے آئیں۔ وہ دوڑا گیا اور یہ پیغام و سلام حاتم کو پہنچایا۔ وہ سن کر اس کے محل کی طرف متوجہ ھوا۔ غرض حسن بانو نے بہ دستور اندر بلا لیا اور جڑاؤ کرسی پر بٹھلایا، احوال پوچھا۔
اس نے تمام کیفیت ان گرمیوں سے بیان کی کہ وہ سنتے ھی ٹھنڈی ھو گئی، پھر الماس بھی نکال کر دکھایا۔
تب حسن بانو نے سر نیچا کر لیا، مارے شرمندگی کے پسینے پسینے ھو کر چپ ھی رہ گئی۔
حاتم نے کہا کہ میں اپنا وعدہ پورا کر چکا ھوں، اب تو بھی وفا کر۔
اس نے آھستگی و نرمی سے التماس کیا کہ میں بھی تیری ھو چکی ھوں، جو چاھے سو کر، جس کو چاھے اس کو بخش۔
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 402آرائشِ محفل صفحہ 369

اپنے پاس رکھا چاھتا ھے تو رکھ، مختار ھے۔
اس بات کو سن کر شہ زادے نے کہا "جو کچھ تو نے کہا میں نے کیا، جو میں کہوں سو تو کر۔ سچ تو یہ ھے کہ میں نے یہ محنت و مشقت اپنے واسطے نہیں کھینچی بلکہ عنداللہ منیر شامی شہ زادے کے لیے۔ لازم ھے کہ تو اسے قبول کرے؛ کیوں کہ وہ مدت سے تیرے فراق میں رو رھا ھے اور تیری جدائی کے درد سے جان کھو رھا ھے۔ اپنے بیمار عشق کو شربت وصال پلانا ھی بھلا ھے، اس میں قصور کرنا عنداللہ اور عندالناس برا ھے۔"
حسن بانو بولی کہ اب تم میرے باپ کی جگہ ھو، جو میرے حق میں مناسب جانو سو کرو، بہ شرطے جو وہ میرے شوھر ھونے کے لائق ھو تو مجھے کچھ عذر نہیں۔
یہ سنتے ھی حاتم نے منیر شامی شہ زادے کو کہلا بھیجا کہ تم پوشاک بدک، سج سجا، نہایت زرق و برق سے میرے پاس آؤ۔
شہ زادہ ایسے ٹھاٹھ سے شاداں و فرحاں آیا۔ حاتم نے اس کو بھی ایک جڑاؤ کرسی پر اپنے پاس بٹھایا۔
حسن بانو نے پردے میں سے جو جھانک کر دیکھا، ھزار جان سے عاشق ھوئی اور نیچے نظریں کیے شرم سے اتھ کر دوسرے مکان میں چلی گئی۔
حاتم بھی منیر شامی کو لیے کارواں سرائے میں آیا۔ رات کی رات وھاں رھا، صبح کو حسن بانو نے ایک مکان نہایت عالی شان خالی کروا دیا، حاتم اس میں منیر شامی سمیت داخل ھوا۔
----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 403آرائشِ محفل صفحہ 370

نوبت رکھوا دی، بیاہ کی تیاری شروع ھوئی، مجلس نشاط کی جمائی۔ بعد کئی دن کے ساچق بہ طور بادشاھوں کے بھجوائی۔ دوسرے دن ادھر سے مہندی بھی اسی ٹھاٹھ سے آئی۔ صبح کو بیاہ کی تیاری ھونے لگی۔ مکانوں کے فرش بدلے، براتیوں نے کپڑے جھمجھماتے پہنے، طائفے بہت سے اور بھی بلوائے، دو رستہ ٹھاٹھ روشنی کے مینا کاری کی ٹٹیوں سمیت دلھن کے محل تک بندھوائے، آتش بازی کی چادریں بھی جا بہ جا قرینے سے استادہ کروائیں، لاکھوں گنج ستارے کے گڑواے، آدھی رات گئے نہایت تجمل سے منیر شامی بیاھنے کو چڑھا۔

ابیات
وہ نوشہ کا گھوڑے پہ ھونا سوار
وہ موتی کا سہرا جواھر نگار
ٹھہر کر وہ گھوڑے کا جانا سنبھل
ھما کے وہ دونوں طرف مور چھل
ھزاروں تمامی کے تخت رواں
اور اھل نشاط اس پہ جلوہ کناں
وہ شہنائیوں کی سہانی دھنیں
جنھیں گوش زھرہ مفصل سنیں

اناروں کی کثرت سے گلزار ھوا تھا راہ، پھرل جھڑیوں کی روشنی سے چودھیں رات کی چاندنی مات، ستاروں کی چمک سے دن ھو گئی تھی رات ۔ غرض تمام آتش بازی کی کیفیت ، روشنی کی کثرت ، براتیوں کی بہتایت، نہ زبان کو یارا جو کہے، نہ قلم کو طاقت جو لکھے۔

بیت

جب آئی وہ دلہن کے گھر پر برات
کہوں واں کے عالم کی کیا تم سے بات

یہاں بھی مجلس نشاط کی وھاں سے زیادہ تر آراستہ تھی؛ ساز بج
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 404آرائشِ محفل صفحہ 371

رھے تھے، ناچ ھو رھا تھا۔ کتنے اشخاص پیشوا گئے، دولھا کو ھاتھوں ھاتھوں لے آئے، مسند شاھانہ پر بٹھلایا۔ حاتم بھی نوشہ کے پاس ایک مسند پر بیٹھ کر خوش و خرم تھا اور براتی اپنے اپنے قرینے سے شریک مجلس ھوئے۔

ابیات

وہ دولھا کا مسند پہ آ بیٹھنا
برابر رفیقوں کا جا بیٹھنا
طوائف کا اٹھنا اک انداز سے
دکھانا وہ آ صورتیں ناز سے

غرض ناچ کا سماں، راگ کا بیاں کچھ کہا نہیں جاتا۔ دیکھنے ھی سے تعلق رکھتا ھے۔
اتنے میں قاضی آیا، عقد اس نے پڑھایا۔ مبارک سلامت ھوئی، شربت اور ھار پان بٹنے لگے، دولھا کو محل کی ڈیوڑھی پر لے گئے۔ وھاں سے کئی بوڑھی بڑی بیگمیں دلھن کی انا سمیت آئیں، نوشہ کو بسم اللہ کر کے لے گئیں، دلھن کے پاس مسند پر بٹھا دیا۔ وہ لباس عروسی پہنے، جواھر سے آراستہ، عطر میں ڈوبی، پھولوں میں بسی اینڈی ھو رھی تھی۔ شہ زادہ گھونگھٹ میں اس کی جھلک دیکھ کر بو باس سونگھ جوں تیوں ٹھہرا تھا، پر آرسی مصحف دیکھتے ھی غش ھو گیا۔ انا وھیں گھبرا کر دوڑی، گلاب پاش لا کر گلاب چھڑکنے لگی۔ بعد دیر کے ھوش میں آئے، دوگانہ شکر کا پڑھا، حاتم کی ھمت پر آفرین و تحسین کی۔
بعد اس کے جو رسمیں باقی رھی تھیں، چونپ سے ھنسی خوشی بجا لایا۔ پھر دلھن کو گود میں لے کر چنڈول میں سوار کیا۔ بڑی دھوم دھام سے شادیانے بجواتا ھوا دولت خانے میں داخل ھوا، چار دن تک محل سے پاؤں باھر نہ رکھا۔
-------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 405آرائشِ محفل صفحہ 372

پانچویں روز برآمد ھوا، ھاتم کے پاؤں پر گر پڑا۔ شہ زادے نے اسے خوب سا بھینچ کر گلے لگایا، مبارک باد دی، رخصت چاھی۔ منیر شامی نے دو چار روز اس کو بہ منت اور بھی رکھا؛ صبحت نشاط کی دوبارہ گرم کی، آئین مہمان داری کے خاطر خواہ بجا لایا۔
تب حاتم نے متبسم ھو کر کہا کہ بھائی! اب مجھے رخصت کر۔ یہ شرط انصاف نہیں، اپنی سی حالت سمجھو؛ تب منیر شامی نے محجوب ھو کر وھیں رخصت کیا۔ وہ نہایت خوشی و خرمی سے یمن کی طرف روانہ ھوا۔ تھوڑے دنوں میں قریب شہر کے جا پہنچا۔
بادشاہ کو اس کے آنے کی جو خبر ھوئی، وزیر کو پیشوا بھیجا۔ وہ اس کو نہایت جاہ و جلال سے بادشاہ کے حضور لے گیا۔ اس نے دوڑ کر چھاتی سے لگا لیا، یہ پاؤں پر گر پڑا۔ بادشاہ نے پھر اٹھا کر سینے سے لگا لیا، پیشانی چومی، محل میں لے گیا۔ اس نے مودب ھو کر اپنی والدہ کو مجرا کیا۔ اس نے سر سے پاؤں تلک بلائیں لیں۔ یہ قدم بوس ھوا، اس نے اٹھا کر چھاتی سے لگا لیا، آتماں ٹھنڈی ھوئی۔
محل میں مبارک باد مچ گئی، شہر میں آمین آمین ھوئی، گھر گھر شادیانے بجے۔ بادشاہ نے ھر ایک چھوٹے بڑے کو موافق رتبے کے خلعت دیا، زر و جواھر بخشا، محتاجوں کو غنی کر دیا اور حاتم کا نئے سر سے ملکہ زریں پوش کے ساتھ بیاہ کیا۔
پھر سب کے سب خدا کا شکر بجا لائے، عیش و عشرت میں مشغول ھوئے۔ ملک آباد ھوا، ھر ایک غنی و غریب کا
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 406آرائشِ محفل صفحہ 373

دل شاد ھوا، بادشاہ اپنے دیوان عام میں جا بیٹھا۔
ندیموں سے کہنے لگا کہ خلق میں ایسے لوگ بھی ھیں جو غیر کے واسطے اپنا سکھ چھوڑیں، اوروں کے کام میں دکھ بھریں؛ فی الحقیقت دونوں جہان میں بھلے وھی ھیں، جینا مرنا بھی انھیں کا اچھا ھے۔ یہ چند کلمے بادشاہ نے ارشاد کر کے گوشہ پکڑا اور حاتم کو قائم مقام کیا۔
غرض دس برس اور سات مہینے اور نو روز میں حاتم کی ھفت سیر تمام ھوئی۔ منیر شامی اپنے مطلب کو پہنچا۔ آخر نہ یہ رھا نہ وہ رھا، ایک کہانی سننے کو رہ گئی۔

بیت

ھے طے کدھر جہان میں حاتم کہاں رھا
افسانہ ان کا خلق کے بس درمیاں رھا

قطعۂ تاریخ

اس قصۂ پر لطف کے اتمام کی تاریخ
میں دل میں سمجھتا تھا نہایت ھے یہ مشکل
کر دور سر یاس کہا پیر خرد نے
کیوں کر نہ کہیں ھم اسے "آرایش محفل"

تمام ھوا
--------------------------------------------------------------------
 
Top