آدھی عمر

فرحت کیانی

لائبریرین
یونہی بے یقیں، یونہی بے نشاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائیگاں ، مری آدھی عمر گزر گئی

کبھی سائبان نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم
کبھی بے مکاں کبھی لا مکاں ، مری آدھی عمر گزر گئی

ترے وصل کی جو امید ہے، وہ قریب ہے کہ بعید ہے
مجھے کچھ خبر تو ہو جانِ جاں ، مری آدھی عمر گزر گئی

کبھی مجھ کو فکرِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا مرے نقطہ داں ، مری آدھی عمر گزر گئی

کوئی طعنہ زن مری ذات پر، کوئی خندہ زن کسی بات پر
پئے دلنوازیء دوستاں ، مری آدھی عمر گزر گئی

اُسے پا لیا اُسے کھو دیا، کبھی ہنس لیا کبھی رو دیا
بڑی مختصر سی یہ داستاں ، مری آدھی عمر گزر گئی

ابھی وقت کچھ مرے پاس ہے، یہ خبر نہیں ہے قیاس ہے
کوئی کر گلہ مرے نقطہ داں ، مری آدھی عمر گزر گئی


کہاں کائنات میں گھر کروں، میں یہ سوچ لوں تو سفر کروں
اسی سوچ میں تھا کہ ناگہاں، میری آدھی عمر گزر گئی۔
 

فاتح

لائبریرین
واہ۔۔۔ بہت اعلٰی۔۔۔ اچھی ردیف نکالی ہے شاعر نے:
مری آدھی عمر گزر گئی
کیا نام ہے شاعر کا؟
 

عمر سیف

محفلین
کبھی مجھ کو فکرِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا میرے نقطہ داں ، میری آدھی عمر گزر گئی۔


اُسے پا لیا اُسے کھو دیا، کبھی ہنس لیا کبھی رو دیا
بڑی مختصر سی یہ داستاں ، میری آدھی عمر گزر گئی۔


بہت خوب۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کبھی مجھ کو فکرِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا میرے نقطہ داں ، میری آدھی عمر گزر گئی۔


اُسے پا لیا اُسے کھو دیا، کبھی ہنس لیا کبھی رو دیا
بڑی مختصر سی یہ داستاں ، میری آدھی عمر گزر گئی۔


بہت خوب۔
بہت شکریہ ضبط
 
Top