آخری فلم یا ڈاکیومنٹری کونسی دیکھی۔۔2

سنگیتا بجلانی یا نرگس فاخری کے متعلق بھی روشنی سُٹیں!
انکو لوڈشیڈنگ میں ہی رہنے دیں- ویسے نرگس نے ہی سنگیتا کا کردار ادا کیا ہے-
مجھے اظہر اور ایم ایس دھونی کا انتظار تھا- یہ دیکھ کر تو مایوسی ہوئی البتہ دھونی کا چکر دیکھتے ہیں-
 

یاز

محفلین
شنڈلر'ز لسٹ بھی دیکھ ڈالی۔تین گھنٹے سے بھی طویل، لیکن شاندار فلم ہے۔
schindler-s-list-movie-poster-jpg.jpg

تمام فلم بلیک اینڈ وائٹ ہے۔ صرف دو مناظر میں سرخ رنگ کی جھلک ہے جن میں سے ایک یہ رہا۔
girl.jpg
 

یاز

محفلین
12 اینگری مین بھی دیکھ لی۔ 1957 میں بنائی گئی یہ مووی بھی دیکھنے لائق ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ آجکل میں کافی شاندار موویز دیکھ رہا ہوں :hot:۔

20120105012318e00.jpg
 

یاز

محفلین
روشنی سٹھی جائے فوراً سے بیشتر--
تین منٹ کے علاوہ ساری فلم ایک ہی کمرے میں بنی ہے۔ جیوری کے 12 اراکین آپس میں ایک مقدمے کے فیصلے کے لئے بحث کرتے ہیں جس کی روشنی میں ایک نوجوان لڑکے کو سزائے موت کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ فلم شروع ہوتی ہے تو بارہ میں سے گیارہ اراکین دل و جان سے اس پہ قائل ہیں کہ وہی لڑکا قاتل ہے۔ صرف ایک ممبر (ہنری فونڈا) یہ نکتہ اٹھاتا ہے کہ چونکہ زندگی موت کا مسئلہ ہے، لہٰذا اس پہ بحث ضرور کرنی چاہئے۔ بحث مباحثے کے دوران ایک ایک کر کے دیگر اراکین بھی لڑکے کی بے گناہی کے قائل ہو جاتے ہیں اور اخیر میں بارہواں بندہ بھی مان ہی جاتا ہے۔
فلم میں اداکاری، ڈائیلاگ ڈیلیوری وغیرہ کمال کی ہے۔
 
یو یو ہنی سنگھ کی پنجابی فلم دیکھی
فلم دیکھنے کے دوران احساس ہوا ایک دم بکواس مووی ہے اس لیے پوری فلم آدھے گھنٹے میں دیکھ لی
images
 

تجمل حسین

محفلین
یو یو ہنی سنگھ کی پنجابی فلم دیکھی
فلم دیکھنے کے دوران احساس ہوا ایک دم بکواس مووی ہے اس لیے پوری فلم آدھے گھنٹے میں دیکھ لی
images
مجھے تو شروع سے ہی اس سے چڑ ہے۔اس کا گانا سننے سے سکون تو کیا ملنا ہوتا ہے سر میں درد شروع ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ اس کا نام تو کسی اچھی خاصی جاندار فلم میں بھی آجائے تو مجھے وہ بھی بکواس لگنے لگتی ہے۔ :)
 

تجمل حسین

محفلین
ابھی کچھ ماہ پہلے Gippy Grewal کی نئی فلم ”فرار“ جب ریلیز ہورہی تھی تو میں نے اس کا گانا سنا جو گپے اور یویو نے اکٹھا گایا تھا گانا سنتے ہی میں نے فلم کو فلاپ فلم کے کھاتے میں ڈال دیا۔:D اور پھر ریلیز کے بعد فلم دیکھنے کا مزہ بھی نہ آیا۔۔ :(
حالانکہ میں گپے گریوال کی فلمیں شوق سے دیکھتا ہوں۔۔ :sneaky:
 

محمد وارث

لائبریرین
12 اینگری مین بھی دیکھ لی۔ 1957 میں بنائی گئی یہ مووی بھی دیکھنے لائق ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ آجکل میں کافی شاندار موویز دیکھ رہا ہوں :hot:۔

20120105012318e00.jpg
یہ واقعی زبردست فلم ہے، آل ٹائم بیسٹ میں سے ایک۔

اسی کی نقل انڈیا میں بنی تھی، "اک رُکا ہوا فیصلہ"۔ میں نے یہ فلم اخیر اسی کی دہائی میں دیکھی تھی دُور درشن پر، اور اُس وقت بھی سوچ میں پڑ گیا تھا کہ کیا انڈیا میں بھی ایسی فلمیں بن سکتی ہیں۔ کافی عرصے کے بعد معلوم ہوا کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ بہرحال اک رکا ہوا فیصلہ بھی اچھی نقل ہے، پنکج کپور کی اداکاری دیدنی ہے۔
 
اول تو یوں لگتا جیسے فلم کے وقت امریکہ میں طالبان حکومت تھی یعنی پوری فلم گزر گئی لیکن کسی کڑی کا دیدار نہیں ہوا-ظلم ہے جی ظلم فیدہ گوریاں دی فلم ویکھن دا-
پھر یوں ہے کہ آپ اچھی فلمز نہیں دیکھ رہے بلکہ بقول بانو قدسیہ صاحبہ انسان ماضی میں اپنی جوانی تلاشتا یے اور بقول چاچے تارڑ جوانی کی ہر چیز اچھی لگتی ہے وغیرہ تو آجکل آپ اپنے جوانی کی دور کی فلم دیکھ رہے تو ااچھی ہی لگیں گی-
اب چھیڑتے ہیں اصل مدعا یعنی کے ڈائیلاگ کے ذریعہ ایک بندے نے 11 بندوں کا دماغ ڈیڑھ گھنٹے میں بدل دیا - مطلب دوسروں نے پہلے عمومی رائے کی پیروی کی جس کے مطابق لڑکا قاتل تھا- جبکہ پے درپے سوالات نے انکی رائے بدل ڈالی- لیکن پھر بھی کافی سوال اٹھتے ہیں مثلاً ان تمام نکات پر پہلے کیوں نہ غور ہوا؟ وغیرہ

تین منٹ کے علاوہ ساری فلم ایک ہی کمرے میں بنی ہے۔ جیوری کے 12 اراکین آپس میں ایک مقدمے کے فیصلے کے لئے بحث کرتے ہیں جس کی روشنی میں ایک نوجوان لڑکے کو سزائے موت کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ فلم شروع ہوتی ہے تو بارہ میں سے گیارہ اراکین دل و جان سے اس پہ قائل ہیں کہ وہی لڑکا قاتل ہے۔ صرف ایک ممبر (ہنری فونڈا) یہ نکتہ اٹھاتا ہے کہ چونکہ زندگی موت کا مسئلہ ہے، لہٰذا اس پہ بحث ضرور کرنی چاہئے۔ بحث مباحثے کے دوران ایک ایک کر کے دیگر اراکین بھی لڑکے کی بے گناہی کے قائل ہو جاتے ہیں اور اخیر میں بارہواں بندہ بھی مان ہی جاتا ہے۔
فلم میں اداکاری، ڈائیلاگ ڈیلیوری وغیرہ کمال کی ہے۔
 

یاز

محفلین
اول تو یوں لگتا جیسے فلم کے وقت امریکہ میں طالبان حکومت تھی یعنی پوری فلم گزر گئی لیکن کسی کڑی کا دیدار نہیں ہوا-ظلم ہے جی ظلم فیدہ گوریاں دی فلم ویکھن دا-
پھر یوں ہے کہ آپ اچھی فلمز نہیں دیکھ رہے بلکہ بقول بانو قدسیہ صاحبہ انسان ماضی میں اپنی جوانی تلاشتا یے اور بقول چاچے تارڑ جوانی کی ہر چیز اچھی لگتی ہے وغیرہ تو آجکل آپ اپنے جوانی کی دور کی فلم دیکھ رہے تو ااچھی ہی لگیں گی-
اب چھیڑتے ہیں اصل مدعا یعنی کے ڈائیلاگ کے ذریعہ ایک بندے نے 11 بندوں کا دماغ ڈیڑھ گھنٹے میں بدل دیا - مطلب دوسروں نے پہلے عمومی رائے کی پیروی کی جس کے مطابق لڑکا قاتل تھا- جبکہ پے درپے سوالات نے انکی رائے بدل ڈالی- لیکن پھر بھی کافی سوال اٹھتے ہیں مثلاً ان تمام نکات پر پہلے کیوں نہ غور ہوا؟ وغیرہ
پہلی دو سطور کا جواب ہے کہ: جی جی، وہی تو
اگلی دو سطور میں آپ نے بہت اہم نکتہ اٹھایا ہے۔ بہت خوب
میرے ذہن میں بھی پہلا خیال یہی آیا تھا کہ یہ اتنے عام اعتراضات تھے کہ مقدمے کے دوران ہی سامنے آ جانے چاہییں تھے۔ تاہم غور کرنے پہ چند ممکنہ جوابات سامنے آتے ہیں۔ جیسے
۔۔ لڑکے کے خلاف شواہد اتنے مضبوط سمجھے گئے کہ دیگر باتوں پہ غور کو غیرضروری سمجھا گیا جیسے لڑکے کا اپنے ابا سے لڑنا، ایک دکان سے چاقو خریدنا، ہوبہو اسی چاقو کا اباجی کے سینے میں پیوست پایا جانا، لڑکے کو اپنی عدم موجودگی کے ثبوت کے طور پہ فلم کا نام تک نہ یاد ہونا۔ وغیرہ وغیرہ
۔۔ باتوں سے پتا چلتا ہے کہ وکیل صفائی نے بس ٹوٹل پورا کیا اور کیس میں کسی بھی قسم کی دلچسپی نہ لی۔
۔۔ اہم بات یہ ہے کہ اس مووی کا مرکزی خیال فقط کیس کی باریکیاں دکھانا اور حل کرنا نہیں ہے، بلکہ انسانی رویے دکھانا بھی ہے۔ سو دیکھا جا سکتا ہے کہ جیوری میں بھی زیادہ تر ممبران کو مختلف وجوہات کی بنا پر اس کیس سے زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ کوئی شام کے کسی پروگرام سے لیٹ ہو رہا ہے، کسی کو اپنے بچے پہ غصہ ہے، کسی کو گرمی لگ رہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ تو وہ بس یہی چاہتے ہیں کہ چھیتی چھیتی فیصلہ کرو تے ٹنگ دو منڈا۔
۔۔ ایسے میں صرف ہیرو یعنی ہنری فونڈا انسانیت کا ثبوت دیتا ہے کہ ایسے کیسے ٹنگ دیں۔ ایک بندے کی جان کا مسئلہ ہے۔ ہمیں ڈسکس کرنا ہی ہو گا۔
امید ہے کہ کچھ واضح ہوئی ہو گی بات۔ ہن فیر ویکھ لو فلم نوں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
تین منٹ کے علاوہ ساری فلم ایک ہی کمرے میں بنی ہے۔ جیوری کے 12 اراکین آپس میں ایک مقدمے کے فیصلے کے لئے بحث کرتے ہیں جس کی روشنی میں ایک نوجوان لڑکے کو سزائے موت کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ فلم شروع ہوتی ہے تو بارہ میں سے گیارہ اراکین دل و جان سے اس پہ قائل ہیں کہ وہی لڑکا قاتل ہے۔ صرف ایک ممبر (ہنری فونڈا) یہ نکتہ اٹھاتا ہے کہ چونکہ زندگی موت کا مسئلہ ہے، لہٰذا اس پہ بحث ضرور کرنی چاہئے۔ بحث مباحثے کے دوران ایک ایک کر کے دیگر اراکین بھی لڑکے کی بے گناہی کے قائل ہو جاتے ہیں اور اخیر میں بارہواں بندہ بھی مان ہی جاتا ہے۔
فلم میں اداکاری، ڈائیلاگ ڈیلیوری وغیرہ کمال کی ہے۔
اس فلم کا لب لباب یہ ہے کہ دلیل کے ذریعے آپ دوسروں کو قائل کر سکتے ہیں :)
 

زیک

مسافر
یہ واقعی زبردست فلم ہے، آل ٹائم بیسٹ میں سے ایک۔

اسی کی نقل انڈیا میں بنی تھی، "اک رُکا ہوا فیصلہ"۔ میں نے یہ فلم اخیر اسی کی دہائی میں دیکھی تھی دُور درشن پر، اور اُس وقت بھی سوچ میں پڑ گیا تھا کہ کیا انڈیا میں بھی ایسی فلمیں بن سکتی ہیں۔ کافی عرصے کے بعد معلوم ہوا کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ بہرحال اک رکا ہوا فیصلہ بھی اچھی نقل ہے، پنکج کپور کی اداکاری دیدنی ہے۔
دلچسپ۔

انڈیا پاکستان میں جیوری ٹرائل نہیں ہوتے اس لحاظ سے یہ تو صاف ظاہر تھا کہ پلاٹ derived ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دلچسپ۔

انڈیا پاکستان میں جیوری ٹرائل نہیں ہوتے اس لحاظ سے یہ تو صاف ظاہر تھا کہ پلاٹ derived ہے۔
درست ہے زیک لیکن تب میری عمر بھی سولہ سترہ برس رہی ہوگی مجھے تو فقط اس فلم کے آئیڈیے نے متاثر کیا تھا کہ اُن دنوں میں "آرٹ فلموں" کی طرف آ رہا تھا اور علم تو اس قدر تھا ہی نہیں :)
 
Top