باقی "ڈاگی" کا کیا ہے، کچھ دن میں سدھر جائے گا، پھر بھونکنے کی بجائے دُم ہلایا کرے گا!
جی جی وارث بھائی۔ آپ کی اس بات نے ہمیں مجبور کردیا کہ اپنا حالیہ وسیع وعریض تجربہ قارئین خصوصا@ہادیہ کی نذر کریں۔۔۔۔۔ تو سنیے!
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
میں جس مسجد میں نماز پڑھاتا ہوں وہ میرے گھر سے 3 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس جگہ کو گاؤں تو نہیں کہا جاسکتا البتہ وہاں کافی کھیت اور خالی پلاٹ ہیں۔ اس لیے کتوں کی کئی نسلیں آباد ہیں۔ شروع میں نماز فجر کے لیے جاتے ہوئے کتے اچانک اپنی گھات سے نکل کر میری بائیک کے پیچھے بہت تیز رفتاری سے دوڑنے لگتے تھے like tigers ۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی فریاد اور آہ وبکا سے ہمارا ایمان گرمانے کی اپنی سی سعی بھی کرتے۔
اگر آپ نے بھی ہم جیسی طبیعت پائی ہے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایسے موقع پر آیت الکرسی ذہن سے اُتر جاتی ہے اور اس کی جگہ آپ شاید دعائے قنوت پڑھنے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔(اوہو یہ تو ہم پطرس بولنے لگے۔۔۔)

میں جتنی رفتار تیز کرتا اتنی ہی کتوں کی بھی ہوجاتی۔کبھی تو غول کا غول جمع ہوکر ہم پر کاؤنٹر اٹیک بھی کرتا۔ بائیک کا یا ہمارا تو خیرکیا بگڑنا تھا البتہ یہ ڈر ضرور ہوتا کہ کہیں بائیک کی رفتار کی وجہ سے کوئی حادثہ نہ ہوجائے۔
خیر ایک وقت گزرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہاں "پلٹنا" کام نہیں دے گا بلکہ "جھپٹنے" کی ضرورت ہے۔ سو ہم نے مسجد کے "صفِ اول" کے بابوں سے ٹِپس لیں اور ایک نیا پلان ترتیب دیا۔۔
گھر میں ایک فالتو پائپ پڑا ہوا تھا، پہلے تو اس کا ایک دو گزکا ٹکڑا کاٹ کر ہمراہ لیا اور پھر "جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے"۔ موقع واردات پر پہنچے تو حسب توقع سگانِ بے حمیت کو منتظر پایا۔ بالکل ہراساں نہیں ہوئے بلکہ بائیک روکی، اترے، پائپ نکالا اور دے دنا دن کشتوں کے پشتے لگانے شروع کردیے۔ دشمن نے ہوا کا رخ بدلتا محسوس کیا تو لاشیں گرانے کی نسبت راہِ فرار کو ترجیح دی۔

رفتہ رفتہ ہم سمجھ گئے کہ یہ سگانِ ناہنجار ہمیں بائیک چلاتا دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ گویا ہم پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ تو ہم یونہی ذرا تیز چلا رہے ہوتے تھے، سو اب آسان طریقہ یہ ہاتھ آیا کہ جونہی موقع واردات پر پہنچے، بائیک کی رفتار بڑھانے کی بجائے اتر کر پیدل ہولیے، سگانِ ناہنجار سمجھ گئے کہ "اے منڈا تے ہن سیانا ہوگیا اے۔" اس لیے حالات تیزی سے بدلنا شروع ہوگئے اور وہ سمجھ گئے کہ مزید چھیڑ چھاڑ مہنگی پڑ سکتی ہے۔۔۔۔۔ اور اب تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ پائپ کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ کبھی کبھار کسی سگِ بے حمیت کی طبیعت ذرا گدگداتی ہے تو ہم ہنس دیتے ہیں کہ شاید بچہ مذاق کے موڈ میں ہے۔

ان تازہ ترین اور وسیع تجربات کے پیش نظر ہم
ہادیہ کو نصیحت کرنا چاہیں گے کہ ڈریں بالکل نہیں اور حسبِ ہدایت
جائے واردات سے پہلے احتیاطاً کچھ "وٹے" اٹھالیں، صنف نازک ہونے کے کارَن آپ کو کچھ اوپرا سا معلوم ہوگا لیکن "بعد کی چیخ و پکار" سے بہرحال بہتر ہے۔ ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ"وٹے" چھپا لیں کہ کسی کی ان پر نظر نہ پڑے یا ذرا نفیس اور عمدہ "وٹوں" کا انتخاب کرلیں۔ امید ہے افاقہ ہوگا، آزمائش شرط ہے۔
