آج کی آیت

اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا ﳓ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ(۱۷۳)
وہ جن سے لوگوں نے کہاکہ لوگوں نے تمہارے لیے جتھا جوڑا تو ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زائد ہوا اور بولے اللہ ہمارے لئےکافی ہے اور کیا اچھا کار ساز
 

اکمل زیدی

محفلین
إِنّما وَلیکُمُ اللهُ و رَسولُهُ والّذینَ ءَامَنوا الَّذینَ یقِیمُونَ الصَّلوةَ و یؤتُونَ الزَّکوة و هُم راکِعونَ
ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃدیتے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینے سے کیا مراد ہے

شاید ترجمہ میں سہو ہے
إِنّما وَلیکُمُ اللهُ و رَسولُهُ والّذینَ ءَامَنوا الَّذینَ یقِیمُونَ الصَّلوةَ و یؤتُونَ الزَّکوة و هُم راکِعونَ
ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃدیتے ہیں۔ (سورہ مائدہ ۵۵)
 
اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ(۵۵)
تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے (ف۱۴۵) کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں(ف۱۴۶) ترجمہ دعوت اسلامی
(ف146)
جملہ '' وَھُمْ رٰکِعُوْنَ'' دو وجہ رکھتا ہے ایک یہ کہ پہلے جملوں پر معطوف ہو دوسری یہ کہ حال واقع ہو ، پہلی وجہ اظہر و اقوٰی ہے اور حضرت مُتَرجِم قُدِّس سِرّہٗ کا ترجمہ بھی اسی کے مساعد ہے ۔ (جمل عن السمین) دوسر ی وجہ پر دو احتمال ہیں ایک یہ کہ '' یُقِیْمُوْنَ وَیُؤْ تُوْنَ'' دونوں فعلوں کے فاعل سے حال واقع ہو اس صورت میں معنٰی یہ ہوں گے کہ وہ بخشوع و تواضُع نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ (تفسیر ابوالسعود) دوسرا احتمال یہ ہے کہ صرف'' یُؤْتُوْنَ'' کے فاعل سے حال واقع ہو ، اس صورت میں معنٰی یہ ہوں گے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور متواضع ہو کر زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ (جمل) بعض کا قول ہے کہ یہ آیت حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ کی شان میں ہے کہ آپ نے نماز میں سائل کو انگُشتری صدقہ دی تھی وہ انگُشتری انگُشتِ مبارک میں ڈھیلی تھی بے عملِ کثیر کے نکل گئی لیکن امام فخر الدین رازی نے تفسیرِ کبیر میں اس کا بہت شدّ و مد سے ردّ کیا ہے اور اس کے بُطلان پر بہت وجوہ قائم کئے ہیں ۔

تمہارا رفیق تو وہی اللہ ہے اور اس کا رسول اور جو ایمان والے ہیں جو کہ قائم ہیں نماز پر اور دیتے ہیں زکوٰۃ اور وہ عاجزی کرنے والے ہیں ۔ ترجمہ نورِ ھدایت
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِيَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًاO

النساء، 4 : 136

’’اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جو اس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ، اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بیشک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیاo‘‘
 

فہد مقصود

محفلین
سورۃ البقرۃ
آیت نمبر: 75


أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن:
(مسلمانو !) کیا تم توقع رکھتے ہو کہ یہ لوگ (کلام حق پر غور کریں گے اور اس کی سچائی پرکھ کر) تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ ایسا تھا جو اللہ کا کلام سنتا تھا اور اس کا مطلب سمجھتا تھا لیکن پھر بھی جان بوجھ کر اس میں تحریف کردیتا تھا (یعنی اس کا مطلب بدل دیتا تھا)

تفسیرمکہ:
٧٥۔ ١ اہل ایمان کو خطاب کر کے یہودیوں کے بارے کہا جا رہا ہے کیا تمہیں ان کے ایمان لانے کی امید ہے حالانکہ ان کے پچھلے لوگوں میں ایک فرق ایسا بھی تھا جو کلام الٰہی جانتے بوجھتے تحریف کرتا تھا۔ یہ استفہام انکاری ہے یعنی ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی قطعا امید نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ دنیوی مفادات یا حزبی تعصبات کی وجہ سے کلام الٰہی میں تحریف تک کرنے سے گریز نہیں کرتے وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ امت محمدیہ کے بہت سے علماء و مشائخ بھی بد قسمتی سے قرآن اور حدیث میں تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جرم سے محفوظ رکھے۔

سورة البقرة - آیت 75
 

فہد مقصود

محفلین
سورۃ یونس
آیت نمبر: 15


وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

ترجمہ تیسیر القرآن:
اور جب ان (کافروں) پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں جو ہم سے ملنے کی توقع [٢٢] نہیں رکھتے تو کہتے ہیں: ’’اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں [٢٣] تبدیلی کردو‘‘ آپ ان سے کہئے: ’’مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں تبدیلی [٢٤] کر دوں۔ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں‘‘

تفسیر تیسیر القرآن:
[٢٢] کفار مکہ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا پیروکار سمجھتے تھے وہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے تو پوری طرح قائل تھے مگر الوہیت کی صفات میں اپنے مختلف دیوی دیوتاؤں کو بھی شریک کرلیا تھا اور عقیدہ آخرت کے تو سخت منکر تھے۔ انکار آخرت کا عقیدہ کس دور میں ان کے مذہب میں شامل ہوا تھا یہ معلوم نہیں ہوسکا۔

[٢٣] کفار کی طرف سے قرآن میں تبدیلی کا مطالبہ :۔ گویامشرکین قریش یہ سمجھتے تھے کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہی تصنیف کردہ ہے لہٰذا اپنے اس زعم باطل کو بنیاد بنا کر انہوں نے دو مطالبات پیش کردیئے ایک یہ کہ اس قرآن کے بجائے کوئی ایسا قرآن لاؤ جو ہمارے لیے بھی قابل قبول ہو اور دوسرا یہ کہ اگر سارا قرآن دوسری قسم کا نہیں لاسکتے تو کم از کم اس میں کچھ ترمیم و تنسیخ کردو جس کی بنا پر ہم تمہارے ساتھ صلح و سمجھوتہ کی راہ استوار کرسکیں۔ بالفاظ دیگر قرآن میں سے اس حصہ کو حذف کر دو جو بت پرستی وغیرہ سے متعلق ہے اس کے عوض ہماری طرف سے تم لوگوں کو عام اجازت ہوگی کہ جیسے اور جب چاہو اپنے اللہ کو پکارو اور اسی کی عبادت کرو وغیرہ وغیرہ۔ اور یہی وہ نظریہ ہے جسے آج کل بھی مختلف مذاہب کے درمیان صلح و آشتی کی بنیاد قرار دیا جارہا ہے ’’یعنی اپنی چھوڑو نہ اور دوسروں کو چھیڑو نہ‘‘ اور یہی وہ فاسد نظریہ ہے جس کے متعلق اقبال نے کہا تھا :

باطل دوئی پرست ہے حق لاشریک ہے......... شرکت میانہ حق باطل نہ کر قبول

[٢٤] اس جملہ میں کفار کے دونوں نظریات کی تردید کردی گئی یعنی یہ قرآن میری اپنی تصنیف نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر وحی کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ بات میرے اختیار سے باہر ہے کہ میں کوئی اور قرآن لاؤں نیز میں اس وحی کی پیروی کا پابند ہوں جو اس قرآن میں ہے لہٰذا مجھے ایسا کوئی اختیار نہیں کہ اس میں کچھ ترمیم و تنسیخ کرکے اسے اس قابل بناسکوں جس کی بنیاد پر ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی سمجھوتہ یا درمیانی راہ طے پاسکے۔ نیز اگر میں کوئی ایسا کام کر گزروں درآں حالیکہ میں ہی اس قرآن کی اتباع کا داعی ہوں تو پھر مجھ سے بڑھ کر مجرم کون ہوسکتا ہے؟ میں تو اس تصور اور پھر اس کے نتیجہ میں عذاب اخروی کے تصور سے ہی کانپ اٹھتا ہوں۔

سورة یونس - آیت 15
 

فہد مقصود

محفلین
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 162


فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَظْلِمُونَ

ترجمہ مکہ:
سو بدل ڈالا ان ظالموں نے ایک اور کلمہ جو خلاف تھا اس کلمہ کے جس کی ان سے سفارش کی گئی تھی۔ اس پر ہم نے ان پر ایک آسمانی آفت بھیجی اس وجہ سے کہ وہ حکم کو ضائع کرتے تھے (١)۔

تفسیرسعدی:
﴿فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ﴾ ” پس بدل ڈالا ظالموں نے ان میں سے“ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے حکم کی تحقیر کی﴿قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ﴾ ” دوسرا لفظ، اس کے سوا جو ان سے کہا گیا تھا“ پس انہوں نے طلب مغفرت اور (حِطَّۃٌ) کو (حَبَّۃٌ فِی شَعِیرَۃٍ) سے بدل ڈالا۔ جب قول کے آسان اور سہل ہونے کے باوجود انہوں نے اس کو بدل ڈالا تو فعل کو بدلنے کی ان سے بدرجہ اولیٰ توقع کی جاسکتی ہے۔ اس لئے وہ اپنی سرینوں پر گھسیٹتے ہوئے شہر کے دروازے میں داخل ہوئے۔ ﴿فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ﴾ ” تو ہم نے ان پر بھیجا۔“ یعنی جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی اور اس کی نافرمانی کا ارتکاب کیا۔ ﴿رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ﴾” آسمان سے سخت عذاب۔“ یہ عذاب یا تو طاعون کی شکل میں تھا یا کوئی اور آسمانی سزا تھی۔ یہ سزا دے کر اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ یہ سزا تو ان کے اس ظلم کی پاداش میں تھی جو وہ کیا کرتے تھے۔

سورة الاعراف - آیت 162

تفسیر تیسیر القرآن:
[١٦٦] فتحیاب فوج کا تکبر اور عذاب :۔ لیکن ان بدبختوں نے ہمارے حکم کی پوری پوری خلاف ورزی کی۔ فتح کے بعد ان میں عجز و انکساری کے بجائے فخر اور گھمنڈ پیدا ہوگیا اور اترانے لگے پھر اموال غنیمت میں بھی جی بھر کر خیانت کی۔ مفتوحہ علاقہ میں ظلم و تشدد کو روا رکھا۔ غرض یہ کہ وہ سب کچھ روا رکھا جو دنیا دار قسم کے لوگ فتح کے موقعہ پر کیا کرتے ہیں ان کے یہ لچھن دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل فرمایا یہ عذاب کیا تھا اس کے متعلق مفسرین کے دو اقوال ہیں ایک یہ کہ ان میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی تھی اور دوسرا یہ کہ دشمن قوم نے بنی اسرائیل کو پھر سے شکست دے کر بنی اسرائیل کو بےدریغ قتل کیا۔
 

سیما علی

لائبریرین
سورۂ احزاب
آیت نمبر 1
يَ۔ٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ ٱتَّقِ ٱللَّهَ وَلَا تُطِعِ ٱلۡكَٰفِرِينَ وَٱلۡمُنَٰفِقِينَۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمٗا
اے نبی! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا* اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا، اللہ تعالیٰ بڑے علم واﻻ اور بڑی حکمت واﻻ ہے.**
*
آیت میں تقویٰ پر مداومت اور تبلیغ ودعوت سے استقامت کا حکم ہے۔ طلق بن حبیب کہتے ہیں، تقویٰ کا مطلب ہے کہ تو اللہ کی اطاعت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق کرے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھے اور اللہ کی معصیت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق ترک کر دے، اللہ کےعذاب سے ڈرتے ہوئے۔ (ابن کثیر)
 

سیما علی

لائبریرین


یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسۡبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۶۴﴾ "اے نبی! اللہ کافی ہے تجھے اور مومنوں کو جو تیرے تابعدار ہیں۔" (سورۃ الانفال ۔ آیت 64 )
 

سیما علی

لائبریرین
1tRplmw.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
يَسْ۔۔َٔ۔لُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ۭ قُلْ ھِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۭ

یہ آپ سے ہلال (نئے چاند) کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہیے کہ یہ انسانوں کے لئے تاریخیں مقرر کرنے کے لئے ہے اور حج (کی تاریخ مقرر کرنے )کے لئے بھی۔
 

سیما علی

لائبریرین
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَآءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُ‌ونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ﴿٣٤﴾۔۔۔سورۃ الاعراف
ترجمہ: اور ہر گروه کے لئے ایک میعاد معین ہے سو جس وقت ان کی میعاد معین آجائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
جولوگ ایمان لائے ہوئے ہیں وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، اور جن لوگوں نے کفر اَپنالیا ہے وہ طاغوت کے راستے میں لڑتے ہیں۔ لہٰذا (اے مسلمانو!) تم شیطان کے دوستوں سے لڑو۔ (یاد رکھو کہ) شیطان کی چالیں درحقیقت کمزورہیں۔ ﴿سورۃ النساء ،۷۶﴾
 
Top