آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آگئے


مصنف کا مشاہدہ شاید ایسا ہی ہو۔
ہمارے گھر رات کا کھانا ساتھ ہی کھایا جاتا ہے۔ اور ویک اینڈ پر ناشتہ سے عشائیہ تک، حتیٰ کہ شام کی چائے بھی ساتھ ہی بیٹھ کر پی جاتی ہے۔
مصنف جن علاقوں میں پلے بڑھے اور اب جہاں رہائش پذیر ہیں، یہ سارا نچوڑ وہیں کا ہونا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ تو آپ امریکا کے حساب سے جواب دے رہے ہیں۔

میرے پی سی میں 500 جی بی والی ہارڈ ڈسک ہے اور میں سوچتا رہتا ہوں کہ ناجانے یہ کس سال بھرے گی۔
پاکستان میں بھی ایسے ہی ہے چوہدری صاحب، کسی فلموں کے شوقین سے پوچھیں۔ میرے پاس ایک ٹیرا بائٹ کی ہارڈ ڈسک ہے، اور کئی بار جگہ بنانے کے لیے فلمیں ڈیلیٹ کر چکا ہوں۔ ایک اور لگوانے کی سوچ رہا ہوں۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
مصنف جن علاقوں میں پلے بڑھے اور اب جہاں رہائش پذیر ہیں، یہ سارا نچوڑ وہیں کا ہونا ہے۔
یہ خاکسار بھی مصنف کے ساتھ متفق ہے۔ میٹر ک تک والد صاحب مرحوم کے سخت احکامات کے تحت ہم سب بھی رات کا کھانا اکٹھے ہی کھاتے تھے۔ فرسٹ ایئر میں انہوں نے دستر خوان پر میرا انتظار کرنا شروع کر دیا، اور سیکنڈ ایئر سے اب تک شاید ہی کبھی میں نے اپنی فیملی کے ساتھ کھانا کھایا ہو سوائے رمضان کے یا جب مجھ پر افتاد پڑی ہو باہر کھانا کھلانے کی۔ :)
 
یہ خاکسار بھی مصنف کے ساتھ متفق ہے۔ میٹر ک تک والد صاحب مرحوم کے سخت احکامات کے تحت ہم سب بھی رات کا کھانا اکٹھے ہی کھاتے تھے۔ فرسٹ ایئر میں انہوں نے دستر خوان پر میرا انتظار کرنا شروع کر دیا، اور سیکنڈ ایئر سے اب تک شاید ہی کبھی میں نے اپنی فیملی کے ساتھ کھانا کھایا ہو سوائے رمضان کے یا جب مجھ پر افتاد پڑی ہو باہر کھانا کھلانے کی۔ :)
جب تک شادی نہیں ہوئی تھی، ابو اگر ہم سے پہلے کھانے کی میز پر پہنچ جاتے تھے تو کمپیوٹر اور موبائل کو ساری ڈانٹ سننی پڑتی تھی۔ اب لحاظ کر لیتے ہیں۔ مگر عادت بن چکی ہے ساتھ کھانے کی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ناسٹلجیا سے بھری ہوئی تحریر۔

ناسٹلجیا بالکل کوئی بری بات نہیں ہے، ہر شخص اپنے ماضی کو یاد کر کے خوش ہو سکتا ہے۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب "حال" کو برا بھلا کہہ کر "ماضی" کا رونا رویا جاتا ہے۔ واللہ مضمون نگار نے جس زمانے کو یاد کر کے آہیں بھری ہیں، اگر اُس زمانے کے بزرگ سے پوچھا جاتا تو وہ تقسیم سے پہلے کو یاد کر کے آہیں بھرتے اور مصنف کے زریں زمانے کو بالکل ہی بگڑا ہوا سمجھتے۔

میں خود اس بات کا گواہ ہوں، میرے بچپن میں یعنی ستر کی دہائی کے اواخر میں، ہمارے محلے میں ایک بزرگ تھے جنہوں پہلی جنگ عظیم لڑی ہوئی تھی۔ اب ستر اسی کی دہائی آج کے مقابلے میں "فرشتہ" لگتی ہے لیکن وہ موصوف اس زمانے میں کہتے تھے کہ سب کچھ خراب ہو چکا، اور تقسیم سے پہلے کے زمانے کو یاد کر کے آہیں بھرا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات داستانیں سناتے سناتے روہانسے ہو جاتے تھے۔
بالکل۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جیسے ابھی کچھ دنوں پہلے ہم یاد کر رہے تھے کہ 'ہمارے زمانے' میں بجلی کم کم جایا کرتی تھی۔ کبھی موسم کی بہت زیادہ خرابی کی وجہ سے یا مین ٹرانسفارمر/پاور ہاوس میں کسی مسئلے کی وجہ سے۔ یہ اور بات ہے کہ بچہ پارٹی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ میرے کزن کا گیارہ سال کا بیٹے کا خیال تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ بجلی اتنی دیر موجود رہتی ہو۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میرے گھر میں کچن اب بھی سیڑھیوں کے نیچے ہے، کھانا کھڑے ہو کر ضرور پکایا جاتا ہے لیکن بیٹھ کر پکانا مکمل ختم نہیں ہوا اور دستر خوان ہمیشہ تو نہیں لیکن اب بھی بچھتا رہتا ہے۔

بچے ڈنٹونک استعمال نہیں کرتے لیکن میں اب بھی کرتا ہوں۔
ادویات والے ڈبے میں الحمدللہ ابھی تک ایسی کسی بیماری کی کوئی دوا جگہ نہیں بنا سکی۔ البتہ بچوں کے بخار اور کف سیرپ ضرور موجود ہوتے ہیں یا شاید ایک آدھ دانت درد یا پیراسٹامول کی گولی۔

میری بیگم کی دادی (ابو کی ممانی) کے گھر کچن سیڑھیوں کے نیچے ہے اور کھانا بیٹھ کر ہی پکایا جاتا ہے۔ کھانے والے 2،3 ہوں تو وہیں کچن میں بیٹھ کر ہی کھایا جاتا ہے۔ کیتلی اور ٹی کوزی کا استعمال بھی جاری ہے۔
سیڑھیوں کے نیچے کچن ۔ اس ترکیب کی سمجھ نہیں آئی۔ سیڑھیوں کے نیچے تو بہت کم جگہ ہوتی ہے عموما۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عجیب بات ہے۔ 35 سال قبل جب پاکستان گیا تو پنڈی اسلام آباد کھانے پینے کا کوئی مذاق ہی نہ تھا۔ گھر میں پکائیں اور کھائیں۔ اب جانے کس کس قسم کے کھانے مل جاتے ہیں۔

بیس پچیس سال قبل امریکہ آیا تو ریستورانوں میں چند ہی کوزینز ہوتی تھیں۔ گروسری سٹور میں بھی ایک ہی قسم کی خریداری۔ آج آپ درجنوں ممالک کے کھانے آس پاس سے کھا سکتے ہیں اور سٹور پر بھی بھانت بھانت کے ممالک کی چیزیں دستیاب ہیں
اب تو پاکستان کا بھی یہی حال ہے۔ پہلے جو چیزیں اور چاکلیٹس وغیرہ تحائف کے طور پر باہر سے لائی جاتی تھیں اب وہ ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔ اشیائے خوردونوش کا بھی یہی حال ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یا 3.5 جی بی کہنا چاہ رہے ہوں گے۔ 98 میں ہمارے گھر پہلا کمپیوٹر آیا تو اس کے ساتھ 2.3 جی بی ہارڈ ڈسک تھی۔ اور مارکیٹ میں غالباً اس سے زیادہ کیپیسٹی کی بھی موجود تھیں۔
جہاں تک مجھے یاد ہے پچانوے میں 540 ایم بھی کی ڈسک گھروں میں استعمال ہونے والی سب سے بڑی کیپپیسٹی تھی۔کمپنیوں میں البتہ اس سے زیادہ ہوتی ہو ۔اور عموما کمپنیوں میں سکزی ڈسکس اور ریڈ کنٹرولر سے زیادہ سپیس حاصل کی جاتی تھی۔
 
سیڑھیوں کے نیچے کچن ۔ اس ترکیب کی سمجھ نہیں آئی۔ سیڑھیوں کے نیچے تو بہت کم جگہ ہوتی ہے عموما۔
پرانے بنے ہوئے گھروں میں عموماً کچن تنگ ہی ہوتا تھا، ویسے ان کے گھر سیڑھیوں کے نیچے کے علاوہ حصہ بھی ہے۔ لیکن پھر بھی چھوٹا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ہارڈ ڈسک فل ہی نہیں ہوتی تھی، کیونکہ سی ڈیز کاپی کرنے کا کانسیپٹ تھا ہی نہیں، گیمز بھی سی ڈی ڈال کر ہی چلتی تھیں۔ اس کے بعد 20 جی بی کی ہارڈ ڈسک لی تو یوں لگا جیسے لامحدود سٹوریج مل گئی ہے۔ ہر چیز کاپی کرنا شروع۔ کچھ ہی عرصہ میں ہارڈ ڈسک فل۔ :)
جب میں نے بیس جی بی کی ڈسک لی تھی (شاید دو ہزار ایک یا دو میں ) تو سی گیٹ کی جانب سے اس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس میں اتنی کتابیں آجائیں کہ ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ بھی بھر جائے ۔
نہ جانے دعوی تھا یا بوسٹ ۔مجھے لگتا ہے ٹھیک ہی کہا تھا ٹیکسٹ اور آفسٹ پیپر کو مد نظر رکھ کر۔۔۔ :)
 
بالکل۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جیسے ابھی کچھ دنوں پہلے ہم یاد کر رہے تھے کہ 'ہمارے زمانے' میں بجلی کم کم جایا کرتی تھی۔ کبھی موسم کی بہت زیادہ خرابی کی وجہ سے یا مین ٹرانسفارمر/پاور ہاوس میں کسی مسئلے کی وجہ سے۔ یہ اور بات ہے کہ بچہ پارٹی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ میرے کزن کا گیارہ سال کا بیٹے کا خیال تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ بجلی اتنی دیر موجود رہتی ہو۔
مجھے تو بچپن کا یاد ہے کہ اتنی زیادہ تو نہیں، مگر لوڈ شیڈنگ شیڈول ہوا کرتی تھی۔
یاد اس لیے ہے کہ بچپن کی یادوں میں سے ایک سہانی یاد اس سے وابستہ ہے۔ سردیوں کی شام میں مغرب کے بعد بجلی جاتی تھی۔ ہیٹر لگا ہوتا تھا۔ موم بتی جل رہی ہوتی تھی۔ مونگ پھلیاں اخبار پر بچھا دی جاتی تھیں۔ ہم سب بہن بھائی دادا کے ساتھ اس اخبار کے گرد بیٹھ کر مونگ پھلی کھاتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ اردو ورڈ بلڈنگ کھیلا جاتا تھا۔ :)
 
سیڑھیوں کے نیچے کچن ۔ اس ترکیب کی سمجھ نہیں آئی۔ سیڑھیوں کے نیچے تو بہت کم جگہ ہوتی ہے عموما۔

سیڑھیاں عموماً صحن میں ہوتی ہیں تو اس کے نیچے کی جگہ استعمال کرنے کے لیے اور پھر بارش، دھوپ وغیرہ کے اثرات سے بچنے کے لیے بنا بنایا شیڈ۔ گاؤں دیہات میں تو عام سی بات تھی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مجھے تو بچپن کا یاد ہے کہ اتنی زیادہ تو نہیں، مگر لوڈ شیڈنگ شیڈول ہوا کرتی تھی۔
یاد اس لیے ہے کہ بچپن کی یادوں میں سے ایک سہانی یاد اس سے وابستہ ہے۔ سردیوں کی شام میں مغرب کے بعد بجلی جاتی تھی۔ ہیٹر لگا ہوتا تھا۔ موم بتی جل رہی ہوتی تھی۔ مونگ پھلیاں اخبار پر بچھا دی جاتی تھیں۔ ہم سب بہن بھائی دادا کے ساتھ اس اخبار کے گرد بیٹھ کر مونگ پھلی کھاتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ اردو ورڈ بلڈنگ کھیلا جاتا تھا۔ :)
مجھے بھی بالکل یہی یاد ہے بس فرق اتنا ہے کہ ہم سب گھر والے اور کچھ عزیز بھی اندرون سندھ میں انگیٹھی سلگا کر اس کے گرد بیٹھتے تھے ۔ شاید ارلی ایٹیز کی بات ہو گی یعنی اسّی کے اوائل کی ۔
آہ !!! جگ جگ جیو چوہدری صاحب ۔
 
مجھے بھی بالکل یہی یاد ہے بس فرق اتنا ہے کہ ہم سب گھر والے اور کچھ عزیز بھی اندرون سندھ میں انگیٹھی سلگا کر اس کے گرد بیٹھتے تھے ۔ شاید ارلی ایٹیز کی بات ہو گی یعنی اسّی کے اوائل کی ۔
آہ !!! جگ جگ جیو چوہدری صاحب ۔
یہاں تھوڑا سا فرق اور آ گیا۔
میری یادیں ارلی نائنٹیز کی ہیں۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
1987 میں جب دفتر میں کمپیوٹر کی ٹریننگ حاصل کی، اسی زمانے میں 3.5 فلاپی-ڈسک آ چکی تھی اگرچہ مہنگی تھی اور ہمارے استعمال میں وہی پرانی پانچ انچ والی تھیں۔ اس زمانے کی ہارڈ ڈسک کی کمیت یاد نہیں لیکن 1996 میں پہلا کمپیوٹر گھر میں آیا تو اس میں 256 ایم بی کی ڈسک تھی لیکن 98،99 میں اپ گریڈ کرتے وقت 7.5 جی بی کی ہارڈ ڈسک آئی تھی۔
 

زیک

مسافر
جن گھروں کے دروازے رات آٹھ بجے کے بعد بند ہوجایا کرتے تھے وہ اب رات گیارہ بجے کے بعد کھلتے ہیں اورپوری فیملی ڈنرکھا کر رات ایک بجے واپس پہنچتی ہے۔
کیوں؟ کیا پاکستان میں لوگ صبح کام پر اور بچے سکول نہیں جاتے؟ کیا ریستوران اتنی دیر تک کھلے رہتے ہیں؟
 
Top