آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2019

سید ذیشان

محفلین
کرکٹ ٹیم میں بھی سیاست کی طرح دس-پندرہ سال بعد جھاڑو پھیرنے کا رواج ہے۔ 99 کے ورلڈ کپ کے بعد بھی جھاڑو پھیرا گیا تھا اور کافی کھلاڑیوں کو نکال دیا تھا۔ اس مرتبہ بھی تیور کچھ ایسے ہی لگ رہے ہیں۔ میں تو اتنا کرکٹ نہیں دیکھتا لیکن اس مرتبہ کچھ میچز دیکھے ہیں۔ کوئی اس پر روشنی ڈال سکتا ہے کہ سرفراز جیسا بندہ جو 20-30 رنز ہی بنا سکتا ہے، کیوں کپتان ہے؟ اس کے علاوہ سپیشلسٹ سپنرز کہاں گئے؟ اور اتنے سارے آل راونڈ کیوں کھیل رہے ہیں؟ جو نہ اچھے باولر ہیں نہ بیٹس مین؟
 
انگلینڈ کی اننگ 397/6 پر ختم
مورگن جی نے 148 رنز کی اننگ میں ریکارڈ 17 چھکے جڑے آج۔
جبکہ دوسری طرف راشد خان کو 9 اوورز میں 110 رنز پڑے جو کہ ورلڈ کپ ریکارڈ ہے۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھارت سے شکست کے بعد قومی ٹیم کی نقل وحرکت محدود کردی گئی
یوسف انجم / ویب ڈیسک منگل 18 جون 2019
1709235-safraz-1560843744-453-640x480.jpg

گروپنگ کرنے کے الزامات کی اطلاعات نے ٹیم کا ماحول خراب کردیا ہے۔ فوٹو : فائل

لاہور: ورلڈکپ میں بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد شدید عوامی ردعمل کے باعث ٹیم انتظامیہ نے کھلاڑیوں کی نقل وحرکت محدود کردی ہے۔

ورلڈکپ میں بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستانی ٹیم میں اختلافات اور گروپنگ کے چرچے قومی کھلاڑیوں کے لندن پہنچنے کے بعد بھی جاری ہیں، شدید عوامی ردعمل کے بعد ٹیم انتظامیہ نے کھلاڑیوں کی نقل وحرکت بھی محدود کردی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم میں گروپنگ اور اختلافات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیاہے۔

ترجمان پی سی بی نے واضح کیا ہے کہ ایسی اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں، تمام کھلاڑی سرفراز احمد کی قیادت میں متحد اور آئندہ میچوں میں بہترین پرفارمنس دینے کے لیے تیار ہیں، کرکٹرز لندن میں منگل اور بدھ کو آرام کریں گے ۔ ٹیم اتوار کو جنوبی افریقا کے خلاف میچ سے پہلے جمعرات کو لارڈز میں اپنا پریکٹس سیشن کرے گی۔

بھارت کے خلاف میچ میں قومی کھلاڑیوں کی مایوس کن پرفارمنس نے ٹیم میں گروپنگ کی اطلاعات کو ہوا دی ہے، کپتان سرفراز احمد کی جانب سے عماد وسیم، امام الحق، وہاب ریاض اور بابر اعظم پر گروپنگ کرنے کے الزامات کے اطلاعات نے ٹیم کے ماحول کو خراب بنادیا ہے۔

ذرائع کےمطابق شکست کے بعد ڈریسنگ روم میں کپتان کی جانب سے سخت باز پرس پر کھلاڑی خفا ہیں، چیف کوچ مکی آرتھر نے بھی کھلاڑیوں کی خوب کلاس لیتے ہوئے انہیں گیم پلان کے تحت کارکردگی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔

پی سی بی ترجمان کا موقف ہے کہ ہر میچ کے بعد ٹیم میٹنگ کا ہونا معمول ہے، جیت کی صورت میں اگلےمیچز کے لیے کارکردگی کے تسلسل کو برقرار رکھنے پر زور دیا جاتا ہے تو ہار پر غلطیوں کی نشاندہی کرکے اگلے میچز میں انہیں نہ دہرانے کی بھی ہدایت کی جاتی ہے، روایت کے مطابق یہ میٹنگ کی باتیں کبھی پبللک نہیں کی جاتی۔

ورلڈکپ میں سیمی فائنل تک رسائی پاکستانی ٹیم کے لیے ایک خواب بن چکی ہے، اگلے چارمیچوں میں شکست کے ساتھ دوسری ٹیموں کی پرفارمنس سے ہی یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے۔
 

عظیم

محفلین
اللہ کرے کہ پاکستان کی ٹیم کسی طرح سیمی فائنل تک پہنچ جائے اور اگلے چاروں میچ جیت جائے
ورنہ آئیندہ ایک دو سال تک تو پاکستان کا میچ دیکھنے کا دل ہی نہیں کرے گا
 

جاسم محمد

محفلین
کرکٹ ٹیم میں بھی سیاست کی طرح دس-پندرہ سال بعد جھاڑو پھیرنے کا رواج ہے۔ 99 کے ورلڈ کپ کے بعد بھی جھاڑو پھیرا گیا تھا اور کافی کھلاڑیوں کو نکال دیا تھا۔ اس مرتبہ بھی تیور کچھ ایسے ہی لگ رہے ہیں۔
اسی لئے بڑے کہتے ہیں کہ ہمیشہ "اچھے" کی امید رکھنی چاہئے :)

پی سی بی کا ورلڈ کپ کے بعد آپریشن کلین اپ اور پوسٹ مارٹم کا فیصلہ
محمد یوسف انجم / ویب ڈیسک منگل 18 جون 2019
1709285-malik-1560846014-317-640x480.jpg

ذرائع کے مطابق سلیکشن کمیٹی کے کنٹریکٹ میں توسیع کا امکان نہیں۔ فوٹو : فائل

لاہور: ورلڈ کپ کے بعد سینئر کھلاڑیوں، ٹیم مینجر طلعت علی اور کوچنگ اسٹاف میں تبدیلی پر اتفاق کرلیا گیا۔

کرکٹ ٹیم کی انتہائی مایوس کن کارکردگی پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے فوری طور پر “پینک بٹن” نہ دبانے کے ساتھ میگا ایونٹ ختم ہونے کے بعد آپریشن کلین اپ اور پرفارمنس کی بنیاد پر پوسٹ مارٹم کا فیصلہ کیا ہے۔

بھارت کے خلاف انتہائی ناقص کارکردگی نے کپتان، کئی کھلاڑیوں، کوچ اور سلیکشن کمیٹی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگایا دیا ہے، سرفراز احمد شدید ترین تنقید کی زد میں ہیں جس کے بعد ان کی کپتانی کا بچنا آسان نہیں رہا۔ شعیب ملک اور محمد حفیظ کا ون ڈے کیریئر بھی کنارے پر ہے جب کہ انضمام الحق کی سربراہی میں سلیکشن کمیٹی کا کنٹریکٹ 15 جولائی کو ختم ہو جائے گا۔

ذرائع کے مطابق سلیکشن کمیٹی کے کنٹریکٹ میں توسیع کا امکان نہیں، ہیڈ کوچ مکی آرتھر معاہدے میں توسیع چاہتے ہیں لیکن بورڈ حکام انہیں فارغ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور ٹیم کے ساتھ کام کرنے سے پہلے ہی معذرت کرچکے ہیں، بولنگ کوچ اظہر محمود، فیلڈنگ کوچ گرانٹ بریڈبرن ، فٹنس ٹرینر گرانٹ لوڈن اور فزیو تھراپسٹ کلف ڈیکن بھی اب کچھ دنوں کے مہمان دکھائی دیتے ہیں۔

ورلڈکپ ختم ہونے کے بعد پاکستانی ٹیم کی پہلی سیریز ستمبر میں سری لنکا کے ساتھ طے ہے جو آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ ہے، پی سی بی نے لاہور اور کراچی میں ان دونوں ٹیسٹ میچوں کی میزبانی کے لیے ہوم ورک بھی شروع کردیاہے۔
 
اسی لئے بڑے کہتے ہیں کہ ہمیشہ "اچھے" کی امید رکھنی چاہئے :)

پی سی بی کا ورلڈ کپ کے بعد آپریشن کلین اپ اور پوسٹ مارٹم کا فیصلہ
محمد یوسف انجم / ویب ڈیسک منگل 18 جون 2019
1709285-malik-1560846014-317-640x480.jpg

ذرائع کے مطابق سلیکشن کمیٹی کے کنٹریکٹ میں توسیع کا امکان نہیں۔ فوٹو : فائل

لاہور: ورلڈ کپ کے بعد سینئر کھلاڑیوں، ٹیم مینجر طلعت علی اور کوچنگ اسٹاف میں تبدیلی پر اتفاق کرلیا گیا۔

کرکٹ ٹیم کی انتہائی مایوس کن کارکردگی پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے فوری طور پر “پینک بٹن” نہ دبانے کے ساتھ میگا ایونٹ ختم ہونے کے بعد آپریشن کلین اپ اور پرفارمنس کی بنیاد پر پوسٹ مارٹم کا فیصلہ کیا ہے۔

بھارت کے خلاف انتہائی ناقص کارکردگی نے کپتان، کئی کھلاڑیوں، کوچ اور سلیکشن کمیٹی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگایا دیا ہے، سرفراز احمد شدید ترین تنقید کی زد میں ہیں جس کے بعد ان کی کپتانی کا بچنا آسان نہیں رہا۔ شعیب ملک اور محمد حفیظ کا ون ڈے کیریئر بھی کنارے پر ہے جب کہ انضمام الحق کی سربراہی میں سلیکشن کمیٹی کا کنٹریکٹ 15 جولائی کو ختم ہو جائے گا۔

ذرائع کے مطابق سلیکشن کمیٹی کے کنٹریکٹ میں توسیع کا امکان نہیں، ہیڈ کوچ مکی آرتھر معاہدے میں توسیع چاہتے ہیں لیکن بورڈ حکام انہیں فارغ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور ٹیم کے ساتھ کام کرنے سے پہلے ہی معذرت کرچکے ہیں، بولنگ کوچ اظہر محمود، فیلڈنگ کوچ گرانٹ بریڈبرن ، فٹنس ٹرینر گرانٹ لوڈن اور فزیو تھراپسٹ کلف ڈیکن بھی اب کچھ دنوں کے مہمان دکھائی دیتے ہیں۔

ورلڈکپ ختم ہونے کے بعد پاکستانی ٹیم کی پہلی سیریز ستمبر میں سری لنکا کے ساتھ طے ہے جو آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ ہے، پی سی بی نے لاہور اور کراچی میں ان دونوں ٹیسٹ میچوں کی میزبانی کے لیے ہوم ورک بھی شروع کردیاہے۔
یہ کتنے کوئی 'گرانٹس' لے رکھے ہیں پائین؟
 

جاسم محمد

محفلین
گھبرانے کا وقت آ چکا ہے
فہد کیہر17 جون 2019
خدا نہ کرے کہ کبھی کسی کو ایسی صورتحال کا سامنا ہو کہ گاڑی چلاتے ہوئے پتا چلے کہ بریک فیل ہوچکے ہیں۔ سوچیں گاڑی کو روکنے کے لیے کیا کیا جتن کرنا پڑیں گے؟ ہوسکتا ہے کہ گاڑی کسی درخت، کھمبے یا دیوار سے ٹکر کھا کر ہی رک پائے۔ ایسا کوئی بھی حادثہ پیش آنے کے بعد کوئی بھی سمجھدار آدمی گاڑی کی مرمّت کے دوران یقینی بنائے گا کہ اب بریک بالکل ٹھیک کام کریں گے تاکہ اسے دوبارہ کبھی ایسی بھیانک صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

تاہم اگر ہر بار حادثے کا سبب ایک ہی ہو تو ضروری ہے کہ ایسی گاڑی کے مالک کا دماغی علاج کروایا جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی شکست کے اسباب گنوانا اب ایک گِھسا پٹا موضوع لگنے لگا ہے۔ صرف سال 2019ء میں جو ٹیم صرف 3 ون ڈے میچ جیتی ہو اور بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز، بلکہ آئرلینڈ، افغانستان اور زمبابوے سے بھی پیچھے ہو اس کے بارے میں کیا لکھا جائے؟ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو ایک اچھے کپتان یا کوچ سے بھی کہیں زیادہ ضرورت ایک اچھے ماہرِ نفسیات کی ہے۔

بھارت کے خلاف مقابلہ ورلڈ کپ 2019ء کے پہلے مرحلے میں پاکستان کی نصف منزل تھا۔ یہاں کامیابی کا سیدھا سا مطلب یہی تھا کہ اب نئے جوش اور ولولے کے ساتھ آگے کے مراحل طے کیے جا سکتے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ پاکستان اور بھارت میں مقابلہ جوڑ کا نہیں تھا۔ بھارت ورلڈ کپ کے لیے فیورٹ ترین ٹیموں میں سے ایک ہے جبکہ شاید ہی کسی نے پاکستان کو بھی اس دوڑ میں شامل سمجھا ہو۔

5d071fd71ec5b.jpg

بھارت کے خلاف مقابلہ ورلڈ کپ 2019ء کے پہلے مرحلے میں پاکستان کی نصف منزل تھا
اس کے باوجود روایتی حریفوں کے درمیان مقابلہ دراصل پریشر کا گیم ہوتا ہے۔ ہیرو بننے کی لگن اپنی جگہ لیکن زیرو بننے کا خوف بڑے بڑے کھلاڑیوں کا پِتا پانی کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جتنے میچ ہوئے ان میں سے بیشتر یکطرفہ مقابلے تھے کیونکہ اتنے زیادہ دباؤ کے اندر کھیلتے ہوئے حوصلے فوراً ٹوٹ جاتے ہیں۔ چیمپیئنز ٹرافی 2017ء کا فائنل تو یاد ہی ہوگا کہ کس طرح بھارت کو بدترین شکست ہوئی تھی؟ اس لیے اِس ورلڈ کپ میں پاک بھارت مقابلہ دونوں کے لیے بہت اہم تھا کیونکہ اس نے ان ٹیموں کی پیش رفت کو ایک واضح سمت دینا تھی۔ بالآخر پاکستان کی کراری شکست کے بعد لگتا ہے کہ بھارت سیمی فائنل کی دوڑ میں جیت چکا ہے اور پاکستان اب کسی معجزے کا منتظر ہے۔

آخر ایسا کیوں ہوا؟ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے اور بارش کی دعائیں مانگنے جیسی بے وقوفانہ باتیں چھوڑ کر کچھ ٹھوس دلائل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک غلط فہمی یہ ہے کہ بھارت انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے کامیاب انعقاد کی بدولت عالمی کرکٹ میں ایک بڑی طاقت بنا ہے لیکن کیا یہی فارمولا پاکستان پر لاگو کیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، کیونکہ پاکستان سُپر لیگ (پی ایس ایل) کے آنے کے بعد سے قومی کرکٹ، خاص طور پر ٹیسٹ اور ون ڈے، کو مسلسل زوال کا سامنا ہے۔

5d07212c334d8.jpg

ہیرو بننے کی لگن اپنی جگہ لیکن زیرو بننے کا خوف بڑے بڑے کھلاڑیوں کا پِتا پانی کردیتا ہے۔
وجہ سادہ سی ہے کہ بھارت نے پچھلی 2 دہائیوں میں اپنے ڈومیسٹک کرکٹ انفرا اسٹرکچر کو بہت بہتر بنا لیا ہے جبکہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ آئے روز کی تبدیلیاں، کبھی پرانا اسٹرکچر بحال کرنا تو کبھی اسی کو خرابی کا سبب قرار دے کر مسترد کردینا، وہاں مسلسل کارکردگی دکھانے والوں کو نظر انداز کرنا اور ایسے ہی دوسرے تماشوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں کرکٹ اب ہاکی کی طرح زوال پذیر ہے اور خدا نہ کرے کہ اس کا انجام ہاکی جیسا ہو کیونکہ قومی کھیل کو بھی پے در پے شکستوں نے ہی اس حالت تک پہنچایا ہے۔ لہٰذا پہلا مسئلہ تو یہی ہے کہ ٹیسٹ اور ون ڈے کے لیے ٹیم کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر اور درست میدان سے نہیں کیا جا رہا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ سلیکشن ٹیلی وژن دیکھ کر کی جا رہی ہے۔

میدانِ عمل میں ایک دیرینہ مسئلہ فیلڈنگ کا بھی ہے اور پھر وہی ہوا جس کا خوف تھا۔ جس طرح فیلڈروں نے انگلینڈ کے خلاف میچ میں روٹ کو نئی زندگی دے کر سنچری بنانے دی، پھر آسٹریلیا کے کپتان آرون فنچ کو بھی موقع دیا کہ وہ ایک قائدانہ اور فاتحانہ اننگز کھیلیں، اسی طرح روہت شرما بھی پاکستانیوں کی سخاوت کو مان گئے ہوں گے۔ صرف 32 رنز پر انہیں تب چانس ملا جب فخر زمان نے غلط اینڈ پر تھرو کرکے روہت کو ایک یقینی رن آؤٹ سے بچا لیا۔ اس کے بعد روہت نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا اور 140 رنز کی یادگار اننگز کھیل گئے۔

5d071fd7ce0de.png

فخر زمان نے غلط اینڈ پر تھرو کرکے روہت کو ایک یقینی رن آؤٹ سے بچا لیا۔
پھر روہت شرما سمیت بھارت کے بلے باز آزادی کے ساتھ کھیلے، باؤنڈریاں ملیں یا نہ ملیں لیکن ایک، دو رنز کے ذریعے اسکور بورڈ کو مسلسل حرکت میں رکھا اور یوں دباؤ بڑھاتے چلے گئے۔

پاکستان نہ صرف فیلڈنگ کے دوران سنگلز اور ڈبلز کو روکنے میں ناکام رہا، بلکہ پاکستانی اننگز میں اس کی سخت کمی محسوس ہوئی۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان نے ابتدائی 10 اوورز میں 42 ڈاٹ بالز کھیلیں یعنی کہ صرف 18 گیندیں ایسی تھیں کہ جن پر کوئی رن بنا۔ 327 رنز کے بڑے ہدف کے تعاقب میں جب آپ کے 2 بہترین بلے باز پہلے 10 اوورز میں صرف 38 رنز بنا پائیں تو نتیجے کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

درحقیقت پورے میچ میں ہمیں پاکستان کی کوئی منصوبہ بندی نظر ہی نہیں آئی، لگتا ہی نہیں تھا کہ ٹیم کسی گیم پلان کے ساتھ میدان میں اُتری ہے۔ اب یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ اس وقت بنگلہ دیش پاکستان سے کہیں زیادہ جدید کرکٹ کھیلتا ہے۔ ان کے بلے باز بڑی ٹیموں کے خلاف بھی 300 سے زیادہ رنز بنا ڈالتے ہیں اور اتنے بڑے اہداف کامیابی سے حاصل بھی کر لیتے ہیں۔ نہیں سیکھا تو پاکستانیوں نے نہیں سیکھا۔۔۔ شاید سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔

اب ورلڈ کپ 2019ء میں بظاہر بھارت کے قدم روکنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ وہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسے بڑے حریفوں کو چِت کر چکا ہے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف میچ بارش کی نظر ہوا اور روایتی حریف کے خلاف ایک شاندار کامیابی نے اس کے حوصلوں کو اور بلند کردیا ہے۔ لگتا ہے کہ انگلینڈ بھی اس کا راستہ نہیں روک پائے گا کیونکہ اگر بھارت کے حوصلوں کو کوئی چیز توڑ سکتی تھی تو وہ پاکستان کے ہاتھوں شکست تھی اور ورلڈ کپ تاریخ میں ایک بار پھر پاکستان بھارت کو روکنے میں ناکام ہوچکا ہے۔

5d071fd6cb9a7.jpg

درحقیقت پورے میچ میں ہمیں پاکستان کی کوئی منصوبہ بندی نظر ہی نہیں آئی،
پھر پاکستان کے لیے ورلڈ کپ اب ایک ناک آؤٹ ٹورنامنٹ بن چکا ہے۔ اسے اپنے باقی چاروں میچز جیتنے ہیں کہ جن میں اسے جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کو بھی ہرانا ہوگا اور بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے حریفوں کو بھی شکست دینا ہوگی۔ پھر دیکھا جائے گا کہ حالات کیا رُخ لیتے ہیں۔

فی الوقت تو صورتحال خطرناک ہے کیونکہ پاکستان 10 ٹیموں میں نویں نمبر پر ہے اور اس کا نیٹ رن ریٹ بھی تمام ٹیموں سے کم ہے یعنی اگر معاملہ رن ریٹ پر آیا تب بھی پاکستان کا امکان بہت کم ہوگا، یعنی گھبرانے کا وقت آ چکا ہے۔ اب جیت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور کامیابیاں بھی بڑی، ورنہ ورلڈ کپ کے ساتھ بہت سوں کی نوکریاں چلی جائیں گی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پاکستان انڈیا میچ کے بعد سے پاکستانی ٹیم کی خوب "پذیرائی" ہو رہی ہے اور ہونی بھی چاہیئے کہ انتہائی ناقص کارکردگی تھی۔

لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈیا کی ٹیم اس وقت دنیا کی بہترین ٹیم ہے۔ ان کے پاس ایک دو نہیں بلکہ کئی ایک کھلاڑی ایسے ہیں جو تنِ تنہا ان کو میچ جتوا سکتے ہیں، بیٹنگ میں کوہلی، شرما، دھون اور باؤلنگ میں بمرا ، کلدیپ اور چاہل، یہ چھ کہ چھ کھلاڑی ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی انڈین ٹیم کو کسی بھی میچ میں فتح سے ہمکنار کروا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ آل راؤنڈر پانڈیا اور وکٹ کیپر دھونی بھی میچ جتوانے والے کھلاڑی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے خلاف میچ میں دھون ان فٹ تھا اور مرکزی اسٹرائکنگ باؤلر بھونیشور کمار اپنے تیسرے ہی اوور میں باہر ہو گیا، اگر کوئی اور ٹیم ہوتی تو لالے پڑ جاتے لیکن اس کے باوجود انڈیا آرام سے جیت گیا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کی واقعی ناقص تھی لیکن دوسری طرف انڈیا کی ٹیم کی کارکردگی انتہائی عمدہ تھی اور انہوں نے ابھی تک اپنا ہر میچ ایک چمپیئن کے طور پر کھیلا ہے۔ ان کی ٹکر کی ٹیم فی الوقت صرف انگلینڈ کی ٹیم ہے اور شومئی قسمت سے یہ دونوں اگر سیمی فائنل میں نہ ٹکرا گئے تو بہت ممکن ہے کہ فائنل انہی دونوں کے درمیان ہو۔
 
Top