آؤ دوستو کہانی لکھیں۔۔ (شرارتی)

ماوراء

محفلین
نہیں نا۔۔۔اگر کسی اور نے کر بھی دی ہوئی تو آپ کر دینا۔۔آپ کی بھی ذہانت کا اندازہ لگانا ہے نا۔۔ :wink:
 

فرذوق احمد

محفلین
السلام علیکم
پلیز میں بھی حصہ ڈال رہا ہوں جہاں سے غلطی ہو تو پلیز معاف کر دیجئے گا


سیفی جب نماز سے فارغ ہوئے تو ،اپنے ابا جان سے آنکھ چرا کر نبیل کہ ٹرک کی طرف بدلا لینے کی غرض سے پہنچ گئے ُاس وقت سیفی اتنے غوسے میں تھے کہ لگتا تھا کہ نبیل کو زندہ نہیں چھوڑے گئے ،
سیفی نے گھر سے نکلتے ہوئے ایک بھاری سا ڈندا پکڑ لیا تھا جیسے
دیکھ کر یہ لگتا تھا کہ سیفی نبیل کو سچ مچ جان سے مار دے گئے ۔اب سیفی نبیل کی طرف جا رہے تھے ،ہاتھ میں ڈندا سر پہ ٹوپی اور اپر سے بے حد غوسہ سب کچھ فلم غلامِ مصطفے کی طرح چل رہا تھا ،
جیسے ہی نبیل نے سیفی کو اپنی طرف اسطرح آتے دیکھا تو سوچ میں پڑ گئے اور کہا لے بھئی نبیل آج تو ُتو گیا کام سے پھر ایک دم نبیل کے دماغ نے کام کیا اور ابرار کا گانا نچ مجاجن لگا دیا ۔۔سیفی جو اتنے غوسے میں تھے ،،بس یہ گانا سننا تھا کہ اس گانے میں ایسے مست ہوئے کہ نبیل کو مارنا بھول گئے اور سڑک کہ درمیان مین ہی ناچنا شروع کر دیا ،
نگو دور کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی اور ہنس بھی رہی تھی ۔۔

------------------------------------------------------------------------
سیفی بھائی اور نبیل بھائی ایم سو سوری کہ میں نے آپ کو اسطرح مخاطب کیا ۔پلیز مجھے معاف کر دیجئے گا ،،
اور جو بھی غلطی کہانی لکھنے کہ درمیان ہوئی اسے بھے معاف کر دیجئے گا
آپ کا چھوٹا سا بھائی فرزوق
 

دوست

محفلین
سیفی نے سڑک کے درمیان ایسے تھرکنا شروع کردیا جیسے پیروں تلے جلتا توا رکھ دیا ہو کسی نے۔ ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا پکڑے اور اس عجیب و غریب قسم کے ڈانس کے ساتھ ایسا لگ رہا جیسے کوئی افریقی وحشی رات ہونے والے شو کے لیے بر لب سڑک ریہرسل فرما رہا ہو۔
نبیل نے ٹرک کو ایڑھ لگائی اور یہ جا وہ جا۔ جیسے جیسے گانا دور ہوتا گیا سیفی کا رقص بھی تھمتا گیا۔ مگر اتنے سے رقص نے ہی اس کی جان نکال دی تھی۔ اب میلوں لمبی ریس لگانے والوں کیطرح ایک طرف بیٹھا ہانپ رہا تھا اور نگو ایک طرف کھڑی ہنس رہی تھی۔ ہنس کیا رہی تھی بس ہنسنے کا اظہار ہورہا تھا اسے اتنی ہنسی آرہی تھی منہ میں ہی کہیں گڈ مڈ ہو کر ختم ہوجاتی نتیجے میں صرف منہ اور ہاتھ پیروں کی مضحکہ خیز حرکات سے اظہار ہورہا تھا کہ موصوفہ ہنس رہی ہیں۔
------------------------------------------------------
 

سیفی

محفلین
اس کہانی کی سب سے خاص خوبی اسکا ریوائنڈ ہو جانا ہے۔۔۔چلئے کچھ ریوائنڈ کر کے چلاتے ہیں۔۔۔

نبیل ٹرک پر اونچی آواز میں گانا لگائے سن اور سنا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس نے ٹرک بھی اسٹارٹ کر رکھا تھا اور مسلسل ایکسیلیریٹر دبا رہا تھا جس سے گھوں گھوں کی تیز آواز، اونچے بجتے ہوئے میوزک کے ساتھ ایک عجیب سا تاثر دے رہی تھی۔۔۔۔

نبیل کو شروع سے ہی کھڑے ٹرک کا ایکسیلیریٹر دبا کر گھوں گھوں سننا بہت پسند تھا۔۔۔۔۔۔ کئی دفعہ اس کو استاد سے اس بات پر مار بھی کھانی پڑی تھی کہ ابے او چھوکرے۔۔۔۔سارا تیل ضائع کرتا ہے۔۔۔۔تجھے اب میں نہیں رکھنے کا۔۔۔۔۔تو جا ۔۔۔۔ہوٹل کی ملازمت ہی تمہارے لئے اچھی ہے۔۔۔۔۔ اور ہر دفعہ نبیل منت سماجت کرکے جان چھڑا لیتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

نبیل ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا جھوم رہا تھا کہ اس نے سامنے سے اپنے انڈروئیر فرینڈ (لنگوٹیے یار) شاکر کو آتے دیکھا تھا۔۔۔۔ شاکر ، نبیل کے ساتھ ہی سکول میں پڑھتا تھا۔۔۔۔مگر استادوں کی روز روز کی مار سے تنگ آ کر وہ سکول سے بھاگ کر ایک چائے خانے پر ملازم ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں اس کو روز کے بیس روپے اور ایک دارو کی بوتل مفت ملتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفت اس لئے کہ چائے خانے کے مالک کی اپنی بھٹی تھی ۔ دارو بنانے کی۔ چائے خانے کا تو بس ایک ڈھکوسلا تھا۔۔۔۔۔۔سارے واقفانِ حال جانتے تھے کے اس تھڑے پر کیا چیز کس بھاؤ ملتی ہے۔۔۔۔۔

شاکر کو آتے دیکھ کر نبیل سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔نبیل کی بائیں آنکھ نے بھی پھڑکنا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبیل کو آنکھ پھڑکنے سے بڑا ڈر لگتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے جب کبھی بھی آنکھ پھڑکی تھی تو اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی برا واقعہ ضرور پیش آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ابھی پرسوں ہی کی بات تھی کہ اندرونِ شہر جاتے جاتے ایک مٹیارن کو دیکھ کر اس کی آنکھ پھڑکنا شروع ہو گئی۔۔۔۔ اور شومئی قسمت اس کے ساتھ ایک مسٹنڈے سے جوان نے آنکھ پھڑکتی دیکھ بھی لی۔۔۔۔۔ نبیل نے ہر چند بہت کہا کہ اس کی آنکھ میں بیماری ہے مگر اس ظالم کو ترس نہ آیا۔۔۔۔۔ وہ مسلسل کہے جارہا تھا کہ ابھی تمہاری آنکھ کی بیماری ٹھیک کرتا ہوں میں آئی سپیشلسٹ بھی ہوں۔۔۔۔۔ اس کی زبان کا ساتھ اسکے ہاتھ بھی دے رہے تھے۔۔۔۔۔اور نیچے کیچڑ میں نبیل لوٹ پوٹ ہوئے جارہا تھا۔۔۔۔۔۔

خیر شاکر کو آتے دیکھ کر اس نے پہلو بدلا۔۔۔۔اور بے اختیار اسکے منہ سے دو دفعہ ہائے نکل گئی ۔۔۔۔ایک دفعہ تو مٹیارن کو یاد کرکے اور دوسری دفعہ اس کے بھائی کی مار کی وجہ سے۔۔۔۔ظالم نے سارا جوڑ جوڑ ہلا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاکر نے آتے ہی دوسری طرف کا دروازہ کھولا اور دھم سے سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار اس میوزک کو تو ذرا تبدیل کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی انگریزی کیسٹ لگاؤ۔۔۔۔۔شاکر نے فرمائش جھاڑی۔۔۔۔

نبیل کیسٹ تبدیل کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ کیا نئی تازہ ہے یار شاکر۔۔۔۔
“کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ابھی ابھی ایک بوتل دارو کی پار کی ہے۔۔۔۔سوچا ہے اپنے یار کو بھی حصہ دار بنا لوں“ شاکر نے جواب دیا۔۔۔۔

قسم سے یار شاکر۔۔۔۔۔۔۔ تو یاروں کا یار ہے۔۔۔۔اپن کے پاس بھی تیرے لئے اعلیٰ کوالٹی کی چرس کے دو سگریٹ بھرے پڑے ہیں۔۔۔۔۔ پہلے دارو پیتے ہیں پھر کہیں بیٹھ کر سوٹا لگائیں گے۔۔۔۔“

شاکر کی آنکھیں چمکنے لگیں۔۔۔۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
نبیل نے ایک تھڑے کے سامنے ٹرک روکا اور دونوں ٹرک سے اتر آئے۔ ابھی دونوں تھڑے کی جانب بڑھ ہی رہے تھے کہ سیفی کو سامنے دیکھ کر ان کی روح فنا ہو گئی۔ ایسا نہیں تھا کہ سیفی بہت غصے میں تھا۔ اس کے برعکس سیفی کے چہرے پر ایک چمکیلی سی مسکراہٹ تھی۔ سیفی نے جب سے ڈیل کارنیگی کی کتاب زندگی میں کامیابی کے اصول میں مسکرانے کی اہمیت کے بارے میں پڑھا تھا، اس وقت سے اس کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ یہ عادت ایسی پکی ہو گئی تھی کہ نیند کی حالت میں بھی سیفی کی باچھیں کھلی رہتی تھیں۔

سیفی ایک بسیار گو شاعر تھا اور ہزاروی تخلص کرتا تھا۔ دراصل پہلے اس کا تخلص کروڑوی تھا لیکن مشاعروں میں ہوٹنگ کا شکار ہونے کا بعد اس نے اپنا تخلص ہزاروی کر لیا تھا اور افواہ یہ تھی کہ وہ شاید اپنا تخلص صدوی کرلے۔ سیفی نے ایک شیروانی پہنی ہوئی تھی جو اس کے ٹخنوں کے نیچے تک آئی ہوئی تھی اور یقین سے نہیں کہا جا سکتا تھا تھا کہ اس نے پاجامہ پہنا ہوگا یا نہیں۔ وہ اپنا تازہ کلام لیے گھات لگائے کھڑا تھا کہ نبیل اور شاکر اس کی رینج میں آ گئے اور ان کے ہاتھوں میں کوکا کولا کی بوتلیں بھی تھیں۔

ارے اکیلے اکیلے کولے پیے جا رہے ہیں۔۔ سدا کے مفتا کھانے والے سیفی نے چہکتے ہوئے کہا۔

نبیل یار یہ بوتل سیفی کو پلا دو۔۔ مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ یہ کہہ کر شاکر مڑا ہی تھا کہ وہ ہوا میں بلند ہو گیا۔ دراصل سیفی نے جھپٹا مار کر اسے کالر سے پکڑ کر اٹھا لیا تھا۔

اجی اتنی جلدی کاہے کو ہے۔۔ ذرا فدوی کا کلام تو سنتے جائیے۔

شاکر نے بیچارگی سے نبیل کی جانب دیکھا تو نبیل ندارد۔ دوسری جانب نظر ڈالی تو ایک موڑ پر غائب ہوتا ہوا ٹرک فرار ہوتے ہوئے نبیل کا نشان دے رہا تھا۔

چائے خانے کے اندر سیفی نے کوک کی بوتل کھولی اور اس کا ایک گھونٹ‌ بھرا۔ اس گھونٹ کے ساتھ ہی سیفی کے چاروں طبق روشن ہو گئے۔ اس نے فوراً اپنی بیاض کھولی اور اپنا تازہ کلام سنانا شروع کیا۔

آج مرے دل میں آئی ہے یہ دھن کیسی​

یہ مصرعہ سن کر شاکر کو اشتیاق ہوا کہ اب سیفی کیا کہنے لگا ہے۔ شاکر کا تجسس دیکھ کر سیفی نے دوسرا مصرعہ پڑھا۔

اوئے ہٹ جا مرے سامنے سے تری ایسی کی تیسی​

شاکر سناٹے میں آ گیا اور اس نے انتہائی بے چارگی سے سیفی کو دیکھا۔ سیفی نے اسے اپنی داد پر محمول کیا اور اگلا مصرعہ پڑھا۔

وہ گھڑی ہجر کی مجھ پر گزری تھی ایسی​

اس مصرعے پر شاکر ایک مرتبہ پھر چونک اٹھا۔ پھر سیفی نے شعر مکمل کیا

بس اپنی شکل بھی ہو گئی بتاؤں جیسی​

سیفی کا یہ کہنا تھا کہ شاکر کے پیٹ میں ایک گولا اٹھا اور اس نے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے اشارہ کیا جیسے وہ سکول کے ماسٹر سے ٹوائلٹ جانےکی اجازت مانگا کرتا تھا۔ سیفی کو پہلے تو شک گزرا لیکن اس نے پھر بھی شاکر کو جانے دیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وہاں کے ٹوائلٹ میں باہر فرار کا کوئی رستہ نہیں تھا۔
 

دوست

محفلین
سبحان اللہ۔
یہاں تو بڑے بڑے رستم بیٹھے ہوئے ہیں۔حضور لاجواب۔۔بھئی لاجواب کام کیا ہے آپ نے۔جاری رکھیے ابھی اپنی بیٹری کام نہیں‌کررہی ورنہ کچھ ایسا لکھتے کہ آپ بھی پھڑک اٹھتے۔
 

فریب

محفلین
ارے بھائی لوگو یہ کہانی رک گئی ہے اس کو تھوڑا سا چلاؤ کہ رواں ہو
 

فریب

محفلین
وہ گھڑی ہجر کی مجھ پر گزری تھی ایسی
بس اپنی شکل بھی ہو گئی بتاؤں جیسی


سیفی کا یہ کہنا تھا کہ شاکر کے پیٹ میں ایک گولا اٹھا اور اس نے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے اشارہ کیا جیسے وہ سکول کے ماسٹر سے ٹوائلٹ جانےکی اجازت مانگا کرتا تھا۔ سیفی کو پہلے تو شک گزرا لیکن اس نے پھر بھی شاکر کو جانے دیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وہاں کے ٹوائلٹ میں باہر فرار کا کوئی رستہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شاکر بھی آخر کو اتنے تنگ آ چکے تھے کہ بجنگ آمد کی طرح انہوں نے آج سیفی کے سامنے ہی فرار ہونے ٹھان لی تھی اس لیے پہلے تو وہ اٹھےاور ٹوائلٹ کی جانب رواں ہوئے مگے جب دیکھا کہ سیفی کی پہنچ سے دور ہو گئے ہیں تو سیدھی بیرونی دروازے کی سمت دوڑ لگا دی۔ سیفی پیچھے سے آوازیں لگاتے ہی رہ گئے۔۔۔۔

شاکر جونہی بیرنی دروازے سے باہر نکلے تو ان کی ٹکر قیصرانی بابا سے ہوتے ہوتے بچی۔ اب تو شاکر کی جان اور بھی مشکل میں ‌پھنس گئی کہ قیصرانی بابا نے ان سے ملتے ہی اپنے ادھار کو تقاضا کرنا تھا جو کہ شاکر قرضِ حسنہ سمجھ کر کب سے کھا چکے تھے اور قیصرانی بابا کو ہمیشہ ہی ایسی گولیاں دیا کرتے تھے کہ وہ اپنے پہلے قرضے کو بھول کر کے دوبارہ سے کچھ نا کچھ انکے دکھوں کے مداوے کے لیے قرض عنایت کر دیا کرتے تھے ۔۔۔۔
مگر یہ کیا آج تو قیصرانی بابا اکیلے نہ تھے بلکہ ان کے ساتھ وہاب بھی تھے جو کہ ایک مانے ہوئے وکیل ہیں اب ان سے جیتنا تو شاکر کے بس کی بات نہ تھی اس لیے انہوں نے یہاں سے بھی راہِ فرار اختیار کی۔۔۔۔
ادھر نبیل شاکر کو سیفی کے حوالے کر کے جو بھاگے تو سیدھے استاد کے ڈیرے پر پہنچے تاکہ ٹرک وہاں کھڑا کر کے چابی استاد کے حالے کر سکیں۔۔۔
زکریا جو کہ نبیل کا استاد تھا اس وقت کسی اور ہی موڈ میں بیٹھا ہوا تھا کاؤ بوائے ہیٹ اور ہاتھ میں پستول رکھنے والا زکریا آج بڑے نرم انداز میں دوستوں‌کی محفل میں بیٹھا وہ شریر بچہ لگ رہا تھا جو اپنے ساتھیوں کے بستوں سے ان کا لنچ چرا کر کھا جاتا ہے اس کے اس موڈ کی نبیل کو کوئی خبر نہ تھی۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اچانک رنگ میں بھنگ پڑ گئی۔ ایک اودھم مچا کہ بےبی ہاتھی چوری ہوگیا ہے۔ اور اس کا شک غلام پر کیا جا رہا ہے۔ غلام بیچارہ پہلے ہی نبیل سے “مُکا“ چکا تھا کہ ہاتھی ڈھونے کے لیے نبیل کا ٹرک اس کی مدد کرے گا۔ اس لیے نبیل الگ پریشان کہ ابھی تو ٹرک میں‌ بےبی ہاتھی کی موجودگی کے بھاری بھاری نشان موجود ہیں جو اس کے پیمپر ٹوٹنے سے وجود میں آئے تھے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے کہ ایک دن پہلے بھینسیں لوڈ ہوئی تھیں، اور ان کے کیے کرائے پر ابھی پانی نہیں پھیرا گیا تھا، اس لیے کسی کو پتہ نہ چل سکا۔ نبیل پریشان کہ اگر غلام پکڑا گیا تو یو سمجھیں کہ نبیل پکڑا گیا۔ اصل میں‌غلام کو سچ بولنے کی بہت بُری عادت تھی۔ یہ اور بات کہ یہ عادت ہمیشہ اپنے دوستوں کے خلاف ہی استعمال ہوتی تھی۔
نبیل نے سیفی کو اپنا محرمٍ راز بنایا کہ جب پولیس آئے تو تم اپنی غزلات اور نظموں پر ہی ٹرخا دینا۔ سیفی نے اس بات کے سنتے ہی وہ چھلانگ لگائی کہ ہاتھی بھی کیا چھلانگ لگائے۔ اصل میں گزشتہ روز ہی وہ رات کو ایک حکومت مخالف جلسے کی صدارت کر کے چھپتے چھپاتے لوٹ رہا تھا کہ راستے میں ہی دھر لیا گیا (آوارہ گردی کے الزام میں)۔ اس نے تو اپنی طرف سے بڑی معصومیت سے کہا تھا کہ میں تو فلاں جگہ سے جلسے کی صدارت کر کے آرہا ہوں۔ ایس ایچ او منصور کو احساس ہوا کہ یہ تو “وہی“ ہے جس کی گرفتاری پر ایس پی نے اپنی جیب سے مبلغ 5000 روپے نقد کا اعلان کیا تھا۔

اب کس نے کیا لکھنا ہے؟
غلام
 

قیصرانی

لائبریرین
وہ شب بقول سیفی، شبٍ فراق سے بھی کہیں زیادہ لمبی نکلی۔ نتیجہ یہ کہ اگلے دن ضمانت پر رہا ہوتے ہی سیفی صاحب نے ہسپتال کا رخ کیا۔ اس کے بعد ابھی گزشتہ رات کے زخم تازہ ہی تھے کہ نبیل نے ایک اور نئی “شبٍ فراق“ کا خواب دکھلا دیا۔ بے چارہ سیفی
اسی دوران غلام کو ایک اور غلطی کا بھی احساس ہوا۔ کہ اس نے تاوان کا نوٹس اردو ویب پر لگایا کہ ایک دن کے اندر اندرایک لاکھ روپے نہ دیے گئے تو وہ بے بی ہاتھی کو مار دے گا، کیونکہ ہاتھی مر کا سوا لاکھ کا ہو جاتا ہے۔ بیچارے کو جوابی نوٹس دیکھنے کو ملا کہ ایک لاکھ تو کیا جعلی کرنسی (پھوٹی کوڑی کا ماڈرن مترادف) بھی نہیں‌ ملے گی۔
چناچہ استاد زکریا کے کہنے پر نیا نوٹس ایجاد کیا گیا۔ جو ظفری کی مدد سے اردو ویبپر چپکا دیا گیا۔ ظفری کو اس کا معاوضہ یہ ملا کہ وہ دو گھنٹے بےبی ہاتھی سے دور رہ کر عام اور سُکھ دونوں کے سانس لے سکتا ہے۔
اس کے بعد کیا ہوا، یہ پروفیسر ظفری کی زبانی سنیئے
غلام
 

ظفری

لائبریرین
عجب تماشہ برپا تھا ۔۔۔ جہاں بے بی ہاتھی کی گمشدگی کا جشن منایا جارہا تھا ۔ وہاں غلام نے آکر رنگ میں بھنگ ملا دی اور فوری طور پر بے بی ہاتھی کی سرپرستی سے ہاتھ اُٹھا لیااور یہ بھی اعلان کر دیا کہ مجھے فوری مقررہ رقم میہا کی جائے یا پھر میں بے بی ہاتھی کو رہا کر رہا ہوں ۔
اس خبر سے اُردو محفل کے پُرسکون ماحول میں ایک کہرام سا مچ گیا ۔ محب نے پاکستانی اداکارہ شبنم کی طرح دونوں کانوں پر ہاتھوں رکھ ” نہیں” کی وہ زوردار تان اُٹھائی کہ پڑوس میں رضوان جو کہ قیلولے کے بعد اخبار پڑھنے بیٹھے تھے اُن کے ہاتھ سے لوٹا چُھوٹ گیا ۔ نبیل جو کہ ایک عرصے بعد اپنی میز کی نیچے سے نکلے تھے انہوں نے بھی اپنی گردن دوبارہ میز کے نیچے دے دی ۔ زکریا نے بھی اپنی بارہ سال پُرانی تصویر کے ساتھ اپنی تحریروں میں تبدیلی کی کہ شاید اُن کو پہچانا نہ جائے اور وہ بے بی ہاتھی سے لاعملی کا اظہار کردیں ۔ مگر وہ اپنی پُرانی تصویر میں کھیتوں کے اندر کے بجائے باہر کھڑے نظر آئے تو پہچان لیئے گئے کہ یہ تو وہی ہیں جن کو ٹوپی پہنا کر کھیتوں میں کھڑا کیا جاتا ہے کہ پرندے فصل پر منہ نہ ماریں ۔ اُن کی غلطی صرف یہ تھی کہ تصویر میں وہ ایسے نظر آرہے تھے جیسے اُ ن کو ایک بار نہیں تین بار کلف لگایا گیا ہے ۔ بس یہیں سے پہچانے گئے کہ ارے یہ تو اپنا زکریا ہے ۔

شمشاد بھائی جو کہ اکثر کارِ خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں وہ بھی حج کا پروگرام بنا بیٹھے ۔سب نے کہا اجی ابھی تو بڑا وقت پڑا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھ پر بھی ” کڑا ” وقت پڑا ہے ۔
ماوراء باجی نے بڑی دانشمندی سے کام لیکر چند چوزوں کو لا کر اُن کی دیکھ بھال شروع کر دی کہ اگر بے بی ہاتھی اگر آ بھی گیا تو ان چوزوں کی ”خوراک” بے بی ہاتھی کو دے دی جائے گی۔

اگرچہ ابھی تک یہ صیح طور پر علم نہیں ہوسکا ہے کہ بے بی ہاتھی کو آخر کس نے اغوا کیا ہے مگر محب ہومز کے جاسوسوں نے غلام نامی شخص پر شک کا اظہار کیا ہے ۔
مگر تیلےشاہ نے اپنے چلًے کے دوران اپنے کشف کے ذریعے دیکھا کہ غلام تو بیچارہ صرف ایک بنیان اور گھٹنوں تک نیکر میں ملبوس ہے اور بنیان میں دو بڑے بڑے سوراخ بھی موجود ہیں جنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ایک چھوٹی اور ایک بڑی آنکھ اپنی گمشدہ بینائی کی پیمائش کررہیں ہیں ۔ اس الہام کے بعد اب جبکہ یہ طے ہوگیا ہے کہ غلام تو خود ہی غلام ہے ۔ وہ کہاں اس بات کا محتمل ہوسکتا ہے کہ کسی ہاتھی کو پالے چاہے وہ بے بی ہی سہی مگر ہے تو ہاتھی ہی نا ۔۔۔

بہرحال اُردو محفل پر اب ایک چندے کی مہم چلائے جانے کا امکان ہے جہاں تمام اراکینِ محفل چندہ جمع کرکے اغوا کنندگان کو دیں کہ وہ بے بی ہاتھی کو اپنے پاس ہی رکھیں ۔
چندے کے نام سے کافی اراکینِ محفل اپنی خفیہ چھٹیوں پر کسی خفیہ مقام پر چلے گئے ہیں ۔ صرف اب تک رضوان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ ناران میں بیٹھ کر اپنی چھٹیوں کے گذرنے کے باوجود چندے کی مہم کے ختم ہونے کا انتظار کررہے ہیں ۔

اس دفعہ بھی اُردو محفل کے پولیس اسٹیشن پر ایچ ایس او کو اُن کی خواہش کے مطابق سیبوں کا ٹوکرا بھیجوا دیا گیا ہے وہ بھی اس شرط پر کہ اُن کو بے بی ہاتھی کی تلاش اُنہی خطوط پر کرنی ہے جیسا کہ پولیس والے عام حالات میں کرتے ہیں ۔

حالات عجیب رُخ پر جا رہے ہیں نہ جانے کب ، کہاں اور کیسے کس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے اب یہ دیکھنا ہے ۔
 

زین

لائبریرین
ہاہاہا!
مجھے پتہ ہے ۔
میں نے کئی پرانے دھاگے پڑھے ہیں ۔ ان میں وہ ہر پیغام کے نیچے بے بی ہاتھی لکھا کرتے تھے۔ :)
 
Top