عزم شاکری

  1. محمد تابش صدیقی

    غزل: آج تک کیسے گزاری ہے یہ اب پوچھتی ہے ٭ عزمؔ شاکری

    آج تک کیسے گزاری ہے یہ اب پوچھتی ہے رات ٹوٹے ہوئے تاروں کا سبب پوچھتی ہے تو اگر چھوڑ کے جانے پہ تُلا ہے تو جا جان بھی جسم سے جاتی ہے تو کب پوچھتی ہے کل مرے سر پہ مرا تاج تھا تو سب تھے مرے آج دنیا یہ مرا نام و نسب پوچھتی ہے میں چراغوں کی لویں تھام کے سو جاتا ہوں رات جب مجھ سے مرا حسنِ طلب...
  2. محمد تابش صدیقی

    غزل: کچھ ایسے نظر صاحبِ کردار بھی آئے ٭ عزمؔ شاکری

    کچھ ایسے نظر صاحبِ کردار بھی آئے تعظیم کو جن کی در و دیوار بھی آئے تاریکیِ شب نے مرا دامن نہیں چھوڑا حالانکہ نظر صبح کے آثار بھی آئے اے وعدہ فروشو! ہمیں حیرت سے نہ دیکھو ہم اہلِ وفا تھے تو سرِ دار بھی آئے ٹھہرے نہ کبھی تیشہ بدستوں کے مقابل کہنے کو بہت راہ میں کہسار بھی آئے ہر روز مرے جسم کو...
  3. محمد تابش صدیقی

    غزل: ہمارے دل میں جو آتش فشاں ہے ٭ عزمؔ شاکری

    ہمارے دل میں جو آتش فشاں ہے جہنم میں بھی وہ گرمی کہاں ہے میں اپنی حد میں داخل ہو رہا ہوں مرے قدموں کے نیچے آسماں ہے بہت دن سے پڑی ہیں خشک آنکھیں مگر سینے میں اک دریا رواں ہے تھا جس کا ذکر کل تک چہرہ چہره نہ اب وہ ہے نہ اس کی داستاں ہے پناہیں لے رہے ہیں جس میں سورج ہمارے سر پہ ایسا سائباں ہے...
  4. محمد تابش صدیقی

    غزل: کسی چراغ کی آنکھوں میں ڈر نہیں آئے ٭ عزمؔ شاکری

    کسی چراغ کی آنکھوں میں ڈر نہیں آئے وہ رات ہی نہ ہو جس کی سحر نہیں آئے میں کائنات کا وہ کمتر و حقیر چراغ کہ جس کی لو بھی کسی کو نظر نہیں آئے یہی ہے عشق میں جاناں خراشِ دل کا علاج اسی کی راہ تکو جو نظر نہیں آئے محبتوں کے امیں تھے صداقتوں کے سفیر وہ لوگ ایسے گئے لوٹ کر نہیں آئے دیارِ نوحہ گراں...
  5. محمد تابش صدیقی

    غزل: عزمؔ خود کو نڈھال مت کرنا ٭ عزمؔ شاکری

    عزمؔ خود کو نڈھال مت کرنا ٹوٹ کر بھی ملال مت کرنا ایک جھوٹی نظیر بن جاؤ کوئی ایسا کمال مت کرنا خار بن کر جو دل میں چبھتے ہوں ایسے رشتے بحال مت کرنا عشق کرنا ہے تو کرو لیکن اپنا جینا محال مت کرنا جس کے بنتے ہو اس کے بن جاؤ تم ہمارا خیال مت کرنا ٭٭٭ عزمؔ شاکری
  6. محمد تابش صدیقی

    غزل: گھر رہ کر یہ جانا ہے ٭ عزمؔ شاکری

    گھر رہ کر یہ جانا ہے گھر بھی مسافر خانہ ہے توبہ ٹوٹ بھی سکتی ہے رستے میں میخانہ ہے غم سے پیار کرو لوگو غم انمول خزانہ ہے کل کا وعدہ مت کیجے کل تک تو مر جانا ہے بھیس بدل کر پی لو یار دنیا پاگل خانہ ہے ٭٭٭ عزمؔ شاکری
  7. محمد تابش صدیقی

    غزل: شاد تھے صیاد نے ناشاد ہم کو کر دیا ٭ عزمؔ شاکری

    شاد تھے صیاد نے ناشاد ہم کو کر دیا قید راس آئی تو پھر آزاد ہم کو کر دیا روز نا کردہ گناہوں کی سزا سہتے ہیں ہم وقت نے کیسا ستم ایجاد ہم کو کر دیا ہم تھے آئینہ ہماری بدنصیبی تھی کہ جو پتھروں کے شہر میں آباد ہم کو کر دیا اور کیا اس سے زیادہ آئے گا فن پر زوال وقت نے کتنا بڑا استاد ہم کو کر دیا...
  8. محمد تابش صدیقی

    غزل: جو پھولوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں ٭ عزمؔ شاکری

    جو پھولوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں وہ خوشبو کا اک حصہ ہو جاتے ہیں رونے والو! ان کو دامن میں رکھ لو ورنہ آنسو آوارہ ہو جاتے ہیں دولت کا نشّہ بھی کیسا نشّہ ہے گونگے بہرے لوگ خدا ہو جاتے ہیں عشق میں اپنی جان لٹانے والے لوگ مر جاتے ہیں، پھر زندہ ہو جاتے ہیں ایسے بھی ہوتے ہیں صحرا جیسے لوگ جب روتے...
  9. محمد تابش صدیقی

    غزل: یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں ٭ عزمؔ شاکری

    یہ مت کہو کہ بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں میں ٹکرا کے آبگینے سے پتھر ہوا ہوں میں آنکھوں کے جنگلوں میں مجھے مت کرو تلاش دامن پہ آنسوؤں کی طرح آ گیا ہوں میں یوں بے رخی کے ساتھ نہ منہ پھیر کے گزر اے صاحبِ جمال ترا آئنہ ہوں میں یوں بار بار مجھ کو صدائیں نہ دیجیے اب وہ نہیں رہا ہوں کوئی دوسرا ہوں میں...
  10. محمد تابش صدیقی

    غزل: اہلِ دل درد کی املاک سے وابستہ ہیں ٭ عزم شاکری

    اہلِ دل درد کی املاک سے وابستہ ہیں تیرے دیوانے تری خاک سے وابستہ ہیں جو عطا کی تھی بزرگوں نے قبا کی صورت آج تک ہم اسی پوشاک سے وابستہ ہیں آشیاں جلنے پہ بے گھر نہیں سمجھا جائے یہ پرندے خس و خاشاک سے وابستہ ہیں خشک جنگل کی طرح ہو گئے چہرے لیکن آج تک دیدۂ نمناک سے وابستہ ہیں جتنے دیوانے تری بزم...
Top