غزل: کسی چراغ کی آنکھوں میں ڈر نہیں آئے ٭ عزمؔ شاکری

کسی چراغ کی آنکھوں میں ڈر نہیں آئے
وہ رات ہی نہ ہو جس کی سحر نہیں آئے

میں کائنات کا وہ کمتر و حقیر چراغ
کہ جس کی لو بھی کسی کو نظر نہیں آئے

یہی ہے عشق میں جاناں خراشِ دل کا علاج
اسی کی راہ تکو جو نظر نہیں آئے

محبتوں کے امیں تھے صداقتوں کے سفیر
وہ لوگ ایسے گئے لوٹ کر نہیں آئے

دیارِ نوحہ گراں سے گزر ہوا لیکن
کسی بھی آنکھ میں آنسو نظر نہیں آئے

ہزار شمعیں جلیں اور جل کے بجھ بھی گئیں
ہمارے چاہنے والے مگر نہیں آئے

٭٭٭
عزمؔ شاکری
 
Top