غزل: آج تک کیسے گزاری ہے یہ اب پوچھتی ہے ٭ عزمؔ شاکری

آج تک کیسے گزاری ہے یہ اب پوچھتی ہے
رات ٹوٹے ہوئے تاروں کا سبب پوچھتی ہے

تو اگر چھوڑ کے جانے پہ تُلا ہے تو جا
جان بھی جسم سے جاتی ہے تو کب پوچھتی ہے

کل مرے سر پہ مرا تاج تھا تو سب تھے مرے
آج دنیا یہ مرا نام و نسب پوچھتی ہے

میں چراغوں کی لویں تھام کے سو جاتا ہوں
رات جب مجھ سے مرا حسنِ طلب پوچھتی ہے

٭٭٭
عزمؔ شاکری
 
آج تک کیسے گزاری ہے یہ اب پوچھتی ہے
رات ٹوٹے ہوئے تاروں کا سبب پوچھتی ہے

تو اگر چھوڑ کے جانے پر تُلا ہے تو جا
جان بھی جسم سے جاتی ہے تو کب پوچھتی ہے

کل مرے سر پہ مرا تاج تھا تو سب تھے مرے
آج دنیا یہ مرا نام و نسب پوچھتی ہے

میں چراغوں کی لویں تھام کے سو جاتا ہوں
رات جب مجھ سے مرا حسنِ طلب پوچھتی ہے

٭٭٭
عزمؔ شاکری
خوبصورت کلام! شریکِ محفل کرنے پر شکریہ قبول فرمائیے محمد تابش صدیقی بھائی
 
Top