آصف شفیع

  1. آصف شفیع

    آن رہ جائے گی تمہاری بھی۔ ۔ آصف شفیع

    غزل: آن رہ جائے گی تمہاری بھی بات سن لو اگر ہماری بھی ہم محبت کا خون کر آئے جنگ جیتی بھی اور ہاری بھی تم کو دعوٰی بھی ہے محبت کا اور کرتے ہو آہ و زاری بھی عشق میں امتحاں بھی آتے ہیں کاٹ سکتی ہے سر کو آری بھی اپنے دشمن سے میں نہیں ہارا ضرب اس نے لگائی کاری بھی سب سے دل کی...
  2. آصف شفیع

    شکل دیکھی نہ شادمانی کی۔۔ آصف شفیع

    غزل: شکل دیکھی نہ شادمانی کی پوچھتے کیا ہو زندگانی کی ہر طرف وحشتوں کا ڈیرا ہے حد نہیں کوئی لامکانی کی تیرے خوابوں کی رات بھر دل نے کس قرینے سے میزبانی کی لفظ جو بھی رقم کیے میں نے عمر بھر ان کی پاسبانی کی دشمنوں نے مجھے نہیں مارا دوستوں ہی نے مہربانی کی تو نے عہدِ وفا کو...
  3. آصف شفیع

    نیند میں جا چکی ہے رانی بھی ۔ ۔ آصف شفیع

    غزل: نیند میں جا چکی ہے رانی بھی قصہ گو! ختم کر کہانی بھی شہرِ دل کو اجاڑنے والو! یہ محبت کی ہے نشانی بھی قافلہ کھو گیا ہے صحرا میں ختم ہونے لگا ہے پانی بھی لوگ خیموں کو بھی جلاتے ہیں اور کرتے ہیں نوحہ خوانی بھی تو نے چاہت کے خواب دیکھے تھے دیکھ اشکوں کی اب روانی بھی اس...
  4. آصف شفیع

    موجہء خواب پہ اک نقش ۔ ۔ ۔ آصف شفیع

    ایک غزل احباب کی نذر: موجہءخواب پہ اک نقش ابھارا جاءے پھر سے گمنام سفینوں کو پکارا جاءے ٓآخری جنگ ذرا سوچ سمجھ کر لڑنا یہ نہ ہو فوج کا سالار بھی مارا جاءے کتنے چہرے ہیں کہ پردے میں چھپے جاتے ہیں شہرِ خاموش سے کس کس کو پکارا جاءے اس محبت نے کہیں کا بھی نہ رکھا مجھ کو اب کوءی زہر...
  5. آصف شفیع

    یہ معجزہ بھی کسی روز۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ آصف شفیع

    ایک اور غزل اہلِ محفل کی خدمت میں۔ آج کل محفل میں اداسی ہے۔ نہ جانے کیوں؟ غزل: یہ معجزہ بھی کسی روز کر ہی جانا ہے ترے خیال سے اک دن گذر ہی جانا ہے نہ جانےکس لیے لمحوں کا بوجھ ڈھوتے ہیں یہ جانتے ہیں کہ اک دن تو مر ہی جانا ہے بہت حسین ہے تو بھی اے پھول سی خواہش! ہوا کے ساتھ تجھے بھی...
  6. آصف شفیع

    یوں بیاباں کی طرف۔ ۔ ۔ ۔ محمد مختار علی

    جدہ میں مقیم ہمارے دوست اور خوبصورت لہجے کے شاعر محمد مختار علی کی ایک غزل احباب کی نذر: یوں بیاباں کی طرف مجھ کو سفر کھینچتا ہے جیسے آوارہء دریا کو بھنور کھینچتا ہے میں کہ ہوں دھوپ میں بہتا ہوا اک چشمہء صاف اپنی چھاؤں کی طرف مجھ کو شجر کھینچتا ہے خلق سے جس کو گلہ ہے نظر اندازی کا...
  7. آصف شفیع

    فلک کو کس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آصف شفیع

    غزل: فلک کو کس نے اک پرکار پر رکھا ہوا ہے زمیں کو بھی اسی رفتار پر رکھا ہوا ہے ابھی اک خواب میں نے جاگتے میں ایسے دیکھا مرا آنسو ترے رخسار پر رکھا ہوا ہے کسے کے سامنے دستِ طلب کیسے اٹھاتے کہ ہم نےخود کو اک معیار پر رکھا ہوا ہے ہوا سے جنگ لڑنے کی یہ ہے پہلی علامت نشیمن میں جو اک...
  8. آصف شفیع

    ہمیں جو دل نے دیے مشورے غلط نکلے ۔ مرغوب حسین طاہر

    ًمرغوب حسین طاہر صاحب کی ایک غزل احباب کیلیے: ہمیں جو دل نے دیے مشورے غلط نکلے ہماری زیست کے سب فیصلے غلط نکلے کتابِ زیست میں اتنی بھی مشکلات نہ تھیں ترے سجائے ہوئے حاشیے غلط نکلے ہمیں نجوم و رمل کے علوم آتے تھے مگر یہ عشق ہے، سب زائچے غلط نکلے مثال دینے سے قاصر رہا جہانِ سخن ترے جمال کے...
  9. آصف شفیع

    غزل- آصف شفیع

    غزل: ہم تو آئے ہیں ابھی شہر سے ہجرت کر کے آپ خود ہی چلے آئیں ذرا زحمت کر کے ضرب فرقت کی ابھی اور لگاؤ اس پر شوق مرتا ہی نہیں ایک محبت کر کے وہ تو اک بار ہوا تھا کبھی رخصت، لیکن یاد کرتا ہوں اسے روز میں رخصت کر کے دل بھی برباد کیا ایک محبت کے عوض خود بھی برباد ہوئے حسن کی بیعت کر...
  10. آصف شفیع

    پھلاں وانگوں لگے تازہ-- آصف شفیع

    غزل: پھلاں وانگوں لگے تازہ بھانویں مل دا نیئں او غازہ رات دے پچھلے پہریں آوے گھر دے وچوں اک آوازہ عشق دی منزل ڈاہڈی اوکھی بھلیا تینوں کیہہ اندازہ ہن اوہ کدی ناں آون لگا بھانویں کھول کے رکھ دروازہ چھڈ پرانیاں گلاں آصف غزلاں کہہ ہن تازہ تازہ
  11. آصف شفیع

    اوسے تھاں دی کرئیے سیر

    غزل اوسے تھاں دی کریئے سیر جتھے رکھے اوہنے پیر روز فقیر دعا دیندا سب دا بھلا تے سب دی خیر سارے جانی دشمن نیں کیہڑا اپنا، کیہڑا غیر عشق داپانی ڈونہگا سی کنھے آکھیا اس وچ تیر ٹردیاں ٹردیاں ہو گیے نیں ٹھنڈے میرے ہتھ تے پیر
  12. آصف شفیع

    رکھاں وانگوں سایا کر

    اک پنجابی غزل رکھاں وانگوں سایا کر لوکاں دے کم آیا کر شکلاں دھوکہ دیندیاں نیں شکلاں تے ناں جایا کر ویلا لنگھدا جاندا اے ویلے نوں ناں ضائع کر ساڈے ورگے لوکاں تے ایناں ظلم نا ڈھایا کر دل وچ آصف رب دی یاد ہر ویلے توں لایا کر
  13. آصف شفیع

    آبدیدہ تھا جو میں۔۔۔۔۔۔ آصف شفیع

    "سنخور" کے اصرار پر ایک غزل پیش خدمت ہے۔ میری ایک غزل فورم پر زیرِ بحث رہی جس کا مطلع یوں تھا: دیکھ مت دل کی طرف اتنی فراوانی سے یہ کبھی دام میں آتا نہیں آسانی سے درج بالا اور درج ذیل غزل ایک ہی رو میں لکھی گئی تھیں۔لہذا مجھے یہ غزل بھی پوسٹ کرنے کو کہا گیا ہے۔ جو حاضر ہے غزل آبدیدہ تھا...
  14. آصف شفیع

    عمر ساری تری چاہت میں بتانی پڑ جائے

    ایک اور غزل احباب کی خدمت میں حاضر ہے: عمر ساری تری چاہت میں بِتانی پڑ جائے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آگ بجھانی پڑ جائے میری اس خانہ بدوشی کا سبب پوچھتے ہو اپنی دیوار اگر تم کو گرانی پڑ جائے!! میرے اعدا سے کہو حد سے تجاوز نہ کریں یہ نہ ہو مجھ کو بھی شمشیر اٹھانی پڑ جائے کیا تماشا ہو...
  15. آصف شفیع

    جہانِ حسن و نظر سے کنارہ کرنا ہے

    ایک غزل احباب کی نذر: جہانِ حسن و نظر سے کنارہ کرنا ہے وجودِ شب کو مجھے استعارہ کرنا ہے مرے دریچہءدل میں ٹھر نہ جائے کہیں وہ ایک خواب کہ جس کو ستارہ کرنا ہے تمام شہر اندھیروں میں ڈوب جائے گا ہوا کو ایک ہی اس نے اشارہ کرنا ہے یہ قربتوں کے ہیں لمحے،انہیں غنیمت جان انہی دنوں کو...
  16. جیا راؤ

    دل میں وفا کی ہے طلب، لب پہ سوال بھی نہیں !

    دل میں وفا کی ہے طلب، لب پہ سوال بھی نہیں ہم ہیں حصارِ درد میں اس کو خیال بھی نہیں اتنا ہے اس سے رابطہ، چھاؤں سے جتنا دھوپ کا گر یہ نہیں ہے ہجر تو پھر یہ وصال بھی نہیں وہ جو انا پرست ہے۔ میں بھی وفا پرست ہوں اس کی مثال بھی نہیں، میری مثال بھی نہیں تم کو زبان دے چکے، دل کا جہان دے چکے...
  17. فرخ منظور

    دیکھ مت دل کی طرف اتنی فراوانی سے

    دیکھ مت دل کی طرف اتنی فراوانی سے یہ کبھی دام میں آتا نہیں آسانی سے آج کل اوج پہ ہے حالتِ وحشت اپنی اور کیا پوچھتے ہو درد کے زندانی سے بابِ حیرت کبھی کھلتا نہیں آئینے پر تنگِ دامان و تہی دست ہے عریانی سے میں تری چشمِ فسوں ساز میں الجھا ایسا آج تک لوٹ کر آیا نہیں‌ حیرانی سے اپنے...
Top