قابل

  1. سردار محمد نعیم

    قابل اجمیری تمہیں جو میرے غم دل سے آگہی ہو جائے

    تمہیں جو میرے غم دل سے آگہی ہو جائے جگر میں پھول کھلیں آنکھ شبنمی ہو جائے اجل بھی اس کی بلندی کو چھو نہیں سکتی وہ زندگی جسے احساس زندگی ہو جائے یہی ہے دل کی ہلاکت یہی ہے عشق کی موت نگاہ دوست پہ اظہار بیکسی ہو جائے زمانہ دوست ہے کس کس کو یاد رکھوگے خدا کرے کہ تمہیں مجھ سے دشمنی ہو جائے...
  2. محمد تابش صدیقی

    قابل اجمیری غزل: حسن کی آب و تاب تو دیکھو

    حسن کی آب و تاب تو دیکھو نرگسِ نیم خواب تو دیکھو آرزوئیں نثار ہوتی ہیں بیکسی کا شباب تو دیکھو جراتِ شوق ہو گئی صیقل اہتمامِ نقاب تو دیکھو جیسے ہم جان ہی نہیں رکھتے موت کا اجتناب تو دیکھو شامِ غم ہے مگر اجالوں کے گیت تو گاؤ، خواب تو دیکھو حوصلے بڑھ گئے سوالوں کے بہکے بہکے جواب تو دیکھو...
  3. محمد تابش صدیقی

    قابل اجمیری نظم: امروز و فردا

    امروز و فردا سینے میں ہے توہینِ طلب کا غمِ جاں سوز سو داغ نظر آتے ہیں دامانِ سحر پر مرجھائے ہوئے پھول ہیں ٹوٹے ہوئے دل میں جس طور سے تاراج ہوا گلشنِ امروز ایسا تو خزاں دیدہ کوئی باغ نہ ہو گا امید کی اک شاخ مگر اب بھی ہری ہے اس شاخ سے ابھرے گا نیا عارضِ تاباں اس عارضِ تاباں میں کوئی داغ نہ ہو...
  4. محمد تابش صدیقی

    قابل اجمیری نظم: آواز

    حسنِ آغاز دے رہا ہے مجھے لذتِ ساز دے رہا ہے مجھے شوقِ پرواز دے رہا ہے مجھے کوئی آواز دے رہا ہے مجھے دامنِ انتظار پھیلا کر وقت کے گیسوؤں کو لہرا کر دلِ بیتاب کے قریب آ کر کوئی آواز دے رہا ہے مجھے ظلمت و ماہ سے گزر جاؤں رہبر و راہ سے گزر جاؤں نغمہ و آہ سے گزر جاؤں کوئی آواز دے رہا ہے مجھے محفلِ...
  5. محمد تابش صدیقی

    قابل اجمیری غزل: رہ گئی تھم کے گردشِ دوراں

    رہ گئی تھم کے گردشِ دوراں روز و شب سے گزر گیا انساں کیا غمِ عشق، کیا غمِ دوراں زندگی درد، زندگی درماں بیکسی ڈھونڈتی ہے اک ساحل حوصلے چاہتے ہیں سو طوفاں اہلِ دل اب خطا کریں نہ کریں کھل چکا ہے مگر درِ زنداں لذتِ درد اور بڑھ جاتی آپ کرتے جو کاوشِ درماں حادثے بن گئے شریکِ سفر منزلِ شوق ہو گئی...
  6. محمد تابش صدیقی

    قابل اجمیری غزل: جنوں کا کون سا عالم ہے یہ خدا جانے

    جنوں کا کون سا عالم ہے یہ خدا جانے تجھے بھی بھولتے جاتے ہیں تیرے دیوانے چراغِ طور ہے روشن، نہ آتشِ نمرود اب اپنی آگ میں خود جل رہے ہیں پروانے نہیں یہ ہوش کہ کیونکر ترے حضور آیا بس اتنا یاد ہے ٹھکرا دیا تھا دنیا نے مہ و نجوم ستاروں کی بھیک دیتے رہے زمیں کی گود میں پلتے رہے سیہ خانے اندھیری...
  7. محمد تابش صدیقی

    قابل اجمیری غزل: شمعیں روش روش پہ فروزاں کیے ہوئے

    شمعیں روش روش پہ فروزاں کیے ہوئے دشواریاں ہیں زیست کو آساں کیے ہوئے یہ گردشِ زمانہ ہمیں کیا مٹائے گی ہم ہیں طوافِ کوچۂ جاناں کیے ہوئے ڈالی کمند ہم نے غزالانِ شہر پر حیرانیوں کو آئینہ ساماں کیے ہوئے ہم موت کی حدوں میں بھی نغمہ سرا رہے غم کو دلیلِ عظمتِ انساں کیے ہوئے تیرا خیال، تیری طلب، تیری...
  8. محمد تابش صدیقی

    قابل اجمیری غزل: سوزِ حیات مانگ، غمِ جاودانہ مانگ

    سوزِ حیات مانگ، غمِ جاودانہ مانگ اس جانِ مدعا سے مگر مدعا نہ مانگ آوازِ بازگشت بھی مشکل سے آئے گی غربت کو شرمسار نہ کر ہم نوا نہ مانگ خونِ جگر سے نقشِ تمنا بنائے جا اب زندگی سے فرصتِ ترکِ وفا نہ مانگ میخانہ اک سراب، صنم خانہ اک طلسم کچھ ان سے اعتبارِ نظر کے سوا نہ مانگ جوشِ نمو سے کھلتے ہیں...
  9. محمد تابش صدیقی

    قابل اجمیری غزل: غمِ دنیا و جورِ آسمان کچھ اور ہوتا ہے

    غمِ دنیا و جورِ آسماں کچھ اور ہوتا ہے دلِ ناکام پر لیکن گماں کچھ اور ہوتا ہے سرِ منزل خرامِ کارواں کچھ اور ہوتا ہے ابھی تاروں کی گردش سے عیاں کچھ اور ہوتا ہے بہار آتی ہے تو اکثر نشیمن جل ہی جاتے ہیں مگر گلشن کے جلنے کا سماں کچھ اور ہوتا ہے بہت ہیں میکدہ میں لڑکھڑانے جھومنے والے وقارِ لغزشِ...
  10. محمد تابش صدیقی

    قابل اجمیری قطعہ: زمانہ اور ہم

    زمانہ اور ہم ٭ شبِ تیرہ کے سایے ڈھل رہے ہیں چراغِ نور و نکہت جل رہے ہیں زمانہ کروٹیں سی لے رہا ہے "مگر ہم ہیں کہ آنکھیں مل رہے ہیں" ٭٭٭ قابلؔ اجمیری
  11. محمود احمد غزنوی

    قابل اجمیری حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے۔۔۔۔قابل اجمیری

    حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آگئے نامرادی اپنی قسمت ، گمرہی اپنا نصیب کارواں کی خیر ہو ، ہم کارواں تک آگئے انکی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی قصہء غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آگئے اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم...
Top