قابل اجمیری غزل: غمِ دنیا و جورِ آسمان کچھ اور ہوتا ہے

غمِ دنیا و جورِ آسماں کچھ اور ہوتا ہے
دلِ ناکام پر لیکن گماں کچھ اور ہوتا ہے

سرِ منزل خرامِ کارواں کچھ اور ہوتا ہے
ابھی تاروں کی گردش سے عیاں کچھ اور ہوتا ہے

بہار آتی ہے تو اکثر نشیمن جل ہی جاتے ہیں
مگر گلشن کے جلنے کا سماں کچھ اور ہوتا ہے

بہت ہیں میکدہ میں لڑکھڑانے جھومنے والے
وقارِ لغزشِ پیرِ مغاں کچھ اور ہوتا ہے

نشانِ پا بھی پہنچا تو دیا کرتے ہیں منزل تک
مگر فیضان میرِ کارواں کچھ اور ہوتا ہے

حوادث سے بھی کھیلے ہیں تلاطم سے بھی گزرے ہیں
مگر جذبات کا سیلِ رواں کچھ اور ہوتا ہے

بہت دلچسپ ہیں ناصح کی باتیں بھی مگر قابلؔ
محبت ہو تو اندازِ بیاں کچھ اور ہوتا ہے

٭٭٭
قابلؔ اجمیری
 
Top