بیدل حیدری

  1. شیزان

    رہنے دے رتجگوں میں پریشاں مزید اُسے۔ بیدل حیدری

    رہنے دے رتجگوں میں پریشاں مزید اُسے لگنے دے ایک اور بھی ضربِ شدید اُسے جی ہاں ! وہ اِک چراغ جو سُورج تھا رات کا تاریکیوں نے مِل کے کِیا ہے شہید اُسے فاقے نہ جُھگیوں سے سڑک پر نکل پڑیں آفت میں ڈال دے نہ یہ بحرانِ عید اُسے فرطِ خُوشی سے وہ کہیں آنکھیں نہ پھوڑ لے آرام سے سناؤ سحر کی نوید اُسے...
  2. شیزان

    یہ جو چہروں پہ لئے گردِ الم آتے ہیں۔ بیدل حیدری

    یہ جو چہروں پہ لئے گردِ الم آتے ہیں یہ تمہارے ہی پشیمانِ کرم آتے ہیں اِتنا کُھل کر بھی نہ رو، جسم کی بستی کو بچا! بارشیں کم ہوں تو سیلاب بھی کم آتے ہیں تُو سنا، تیری مسافت کی کہانی کیا ہے؟ میرے رستے میں تو ہر گام پہ خم آتے ہیں خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو گاؤں کے لوگ ہیں ہم، شہر میں...
  3. شیزان

    اَن کہی کو کہی بنانا ہے۔ بیدل حیدری

    اَن کہی کو کہی بنانا ہے اعتبارِ سُخن بڑھانا ہے میرے اندر کا پانچواں موسم! کِس نے دیکھا ہے، کِس نے جانا ہے ڈگڈگی ہی نہیں بجانی مجھے عشق کو ناچ بھی سِکھانا ہے تم جو اتنا اُٹھا رہے ہو مجھے کِس کنوئیں میں مجھے گِرانا ہے رات کو روز ڈُوب جاتا ہے چاند کو تیرنا سِکھانا ہے ہجر میں نِیند کیوں...
  4. عمران شناور

    ہم کبھی شہرِ محبت جو بسانے لگ جائیں‌(بیدل حیدری)

    ہم کبھی شہرِ محبت جو بسانے لگ جائیں کبھی طوفان کبھی زلزلے آنے لگ جائیں کبھی اک لمحہء فرصت جو میسر آ جائے میری سوچیں مجھے سولی پہ چڑھانے لگ جائیں رات کا رنگ کبھی اور بھی گہرا ہو جائے کبھی آثار سحر کے نظر آنے لگ جائیں انتظار اس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا کیا خبر برف پگھلنے میں...
  5. پ

    دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا -بیدل حیدری

    دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا...
  6. مغزل

    علامہ بیدل حیدری کے متفرق اشعار ’’ پشت پر گھر ‘‘ سے

    پشت پہ گھر بیدل حیدری کے مجموعے سے انتخاب (۱۲ویں صدی کی کلاسیکی شاعری) دریا نے جب سے چپ کا لبادہ پہن لیا پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا گرمی لگی تو خود سے الگ ہوکے سوگئے سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا...
  7. محمد وارث

    غزل - بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچّے - بیدل حیدری

    بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچّے بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچّے ان ہواؤں سے تو بارود کی بُو آتی ہے ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچّے کیا بھروسہ ہے سمندر کا، خدا خیر کرے سیپیاں چننے گئے ہیں مرے سارے بچّے ہو گیا چرخِ ستم گر کا کلیجہ ٹھنڈا مر گئے پیاس سے دریا کے کنارے بچّے یہ...
Top