ہم کبھی شہرِ محبت جو بسانے لگ جائیں‌(بیدل حیدری)

ہم کبھی شہرِ محبت جو بسانے لگ جائیں
کبھی طوفان کبھی زلزلے آنے لگ جائیں

کبھی اک لمحہء فرصت جو میسر آ جائے
میری سوچیں مجھے سولی پہ چڑھانے لگ جائیں

رات کا رنگ کبھی اور بھی گہرا ہو جائے
کبھی آثار سحر کے نظر آنے لگ جائیں

انتظار اس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا
کیا خبر برف پگھلنے میں زمانے لگ جائیں

آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں تجھے دن میں ہم لوگ
شب کو کاغذ پہ ترا چہرہ بنانے لگ جائیں

ہم لکھاری بھی عجب ہیں کہ بیاضِ دل پر
خود ہی اک نام لکھیں‌خود ہی مٹانے لگ جائیں

گھر میں بیٹھوں تو اندھیرے مجھے نوچیں بیدل
باہر آؤں تو اجالے مجھے کھانے لگ جائیں

(بیدل حیدری)
 

صائمہ شاہ

محفلین
کبھی لہریں ترا چہرہ جو بنانے لگ جائیں
میری آنکھیں مُجھے دریا میں بہانے لگ جائیں

کبھی اِک لمحۂ فُرصت جو میسّر آ جائے
میری سوچیں مُجھے سُولی پہ چڑھانے لگ جائیں

انتظار اس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا
کیا خبر، برف پِگھلنے میں زمانے لگ جائیں

آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں تُجھے دن میں ہم لوگ
شب کو کاغذ پہ تیرا چہرہ بنانے لگ جائیں

وہ ہمیں بُھولنا چاہیں تو بُھلا دیں پَل میں
ہم اُنہیں بُھولنا چاہیں تو زمانے لگ جائیں

گھر میں بیٹھوں تو اندھیرے مُجھے نوچیں بیدلؔ
باہر آؤں تو اُجالے مُجھے کھانے لگ جائیں
 

طارق شاہ

محفلین
ہم کبھی شہرِمحبت جو بسانے لگ جائیں
کبھی طوفان کبھی زلزلے آنے لگ جائیں
کبھی اک لمحہ فرصت کا جو میّسر آجائے
میری سوچیں مجھے سُولی پہ چڑھانے لگ جائیں
رات کا رنگ کبھی اور بھی گہرا ہو جائے
کبھی آثار سحر کے نظر آنے لگ جائیں
انتظار اُس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا
کیا خبر برف پگھلنے میں زمانے لگ جائیں
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں تجھے دن میں ہم لوگ
شب کو کاغذ پہ تیرا چہرا بنانے لگ جائیں
ہم بھی کیا اہلِ قلم ہیں کہ بیاضِ دل پر
خود ہی اک نام لکھیں خود ہی مٹانے لگ جایئں
عجب انسان ہیں ہم بھی کہ خطوں کو اُن کے
خود ہی محفوظ کریں خود ہی جلانے لگ جایئں
وہ ہمیں بھولنا چاہیں تو بُھلا دیں پل میں
ہم انہیں بھولنا چاہیں تو زمانے لگ جایئں
اُن مکانوں پہ خدا اپنا کرم فرمائے
جن میں خود اُن کے مکیں نقب لگانے لگ جایئں
نہیں جلتا تو اُترتا نہیں قرضِ ظلمت
جلنا چاہوں تو مجھے لوگ بجھانے لگ جائیں
گھر میں بیٹھوں تو اندھیرے مجھے نوچیں بیدل
باہر آؤں تو اُجالے مجھے کھانے لگ جائیں
بیدل حیدری
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ طارق، اچھی غزل ہے۔ یہ زمین اگرچہ بہت زستعمال ہوئی ہے، لیکن مجھے گرامر کی رو سے پسند نہیں۔ زمانے لگ جائیں، ٹھکانے لگ جائیں تو قوافی ہو سکتے ہیں، لیکن آنے لگ جائیں، جانے لگ جائیں ؟؟؟
ویسے پوری غزل میں ٹائپو بھی ہے، ج ا ئ ی ں کی بجائے ج ا ی ء ں ٹائپ ہوا ہے۔
یہ مصرع بھی غلط ہے
کبھی اک لمحہ فرصت کا جو میّسر آجائے
یوں ہونا چاہئے
کبھی اک لمحہ جو فرصت کا میّسر آجائے
 

طارق شاہ

محفلین
الف عین صاحب!
یہ غزل زمین کی متنازعہ خیال پر مواد کی نسبت سے لگائی تھی
انٹرنیٹ سے لی اور پوسٹ کرنے کے فوراََ بعد پہلے سے چسپاں غزل دِکھائی دی ، سو ڈیلیٹ کرنے کا آپشن نہیں۔
اور ترمیم یا تدوین کرنے کے مختصر لمحے بیت چکے تھے
غزل کی موجودگی پر کچھ پرکھنے یا درست کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا !
امید ہے وارث صاحب درست کرکےضم کردیں گے
تشکّر عبید صاحب
 

الف عین

لائبریرین
انٹر نیٹ میں کہاں ملی، ماخذ بھی دے دینا تھا، شاید کشھ اور برقی کتابوں کا مواد مل جائے وہاں سے!!
 

محمداحمد

لائبریرین
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں تجھے دن میں ہم لوگ​
شب کو کاغذ پہ تیرا چہرا بنانے لگ جائیں​
واہ ! بہت اچھی غزل ہے۔​
 
Top