نتائج تلاش

  1. صبیح الدین شعیبی

    خاک اور خوں کا زریں دور

    خاک اور خوں کا زریں دور 2018 میں پوزیٹو رپورٹنگ کے دباؤ سے تنگ آکر کچھ لکھا تھا۔۔۔۔۔بزم سخن کے دوستوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، حالات میں بال برابر فرق بھی نہیں آیا آپ کی رائے کا منتظر ہوں مورخ جب بھي لکھے گا ہمارے دورکاقصہ نہ ہوگا کچھ بجز نوحہ نہ ہوگا کچھ بجز گريہ قلم جب ہاتھ ہوجائيں...
  2. صبیح الدین شعیبی

    دیوتا علامت ہے

    زندگی گزاری ہے دیوتا کی خدمت میں اپنی جان واری ہے دیوتا کی خدمت میں دیوتا اگر خوش ہو رحمتیں برستی ہیں قسمتیں چمکتی ہیں دیوتا جوناخوش ہو آفتیں اتر تی ہیں بجلیاں کڑکتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ دیوتا ہو گرراضی نعمتیں لٹاتاہے زندگی سجاتا ہے راستے بناتا ہے ۔۔۔۔۔۔ دیوتا ہو گرناراض دھرتیاں ہلاتا ہے...
  3. صبیح الدین شعیبی

    اصلاح۔۔رہنمائی اور نہ جانے کیا کیا کچھ چاہیے۔۔۔۔۔۔

    سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔کیا کروں کیا نہ کروں رات سنسان ہے دل پریشان ہے تیرے بن زندگی کیسی ویران ہے وہ جو انجان ہے میری پہچان ہے یہ جو مسکان ہے حشرسامان ہے دل کا جو چور ہے دل کا مہمان ہے کیسا ذیشان ہے تیرا دربان ہے چارہ گر اک نظر اب چلی جان ہے تیری نظرِ کرم مجھ پہ احسان ہے
  4. صبیح الدین شعیبی

    غزل برائے اصلاح ردیف::: اے زندگی

    باقی معاملات تو ایک طرف۔۔ایک ہی جیسے شعر ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ضرب کا وزن بھی معلوم نہیں ۔۔۔۔۔اور کوئی شعر بھی یاد نہیں آرہا جس میں اساتذہ نے استعمال کیا ہو یہ لفظ زندگی میری ہُوا کرتی تھی کب اے زندگی زندگی میں توُ نہیں آئی تھی جب اے زندگی الوداع تجھ کو کہ میں ہوں جاں بلب اے زندگی موت اب آتی ہے،ہوجا...
  5. صبیح الدین شعیبی

    غزل برائے اصلاح

    ایک غزل پریشان کررہی ہے۔۔پہلے بھی پوسٹ کی تھی مگر کوئی توجہ نہیں ملی۔۔۔معمولی تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ پیش کررہاہوں۔۔۔احباب بالخصوص اساتذہ سے رہنمائی کی استدعا ہے۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گرنےوالی ہے بہت جلد یہ سرکار حضور ہاں نظر آتے ہیں ایسے ہی کچھ آثار حضور وہ جو ازخودہی بنے بیٹھے ہیں سردارحضور وقت...
  6. صبیح الدین شعیبی

    غزل : چندا بولا پچھلی رات : از : صبیح الدین شعیبیؔ

    غزل چندا بولا پچھلی رات آجا پیارے چرخہ کات ایک خیال کا دولہا ہے پیچھے لفظوں کی بارات دل کاکھیل،مقابل جان ہنس کر میں نے کھائی مات آج ملا ایسے کوئی جیسے بن بادل برسات اک دوجے کو دیں الزام شاید یوں بدلیں حالات خوشیاں بھی یوں ملتی ہیں جیسے نازل ہوں آفات صبیح الدین شعیبیؔ
  7. صبیح الدین شعیبی

    یاد کیا ہم کریں کوئی وعدہ نہ تھا،،،،،غزل برائے اصلاح

    یاد کیا ہم کریں کوئی وعدہ نہ تھا پر بچھڑنے کاکوئی ارادہ نہ تھا اس کےچہرے میں تھے دفن چہرے کءی جیساسمجھے اسے ویساسادہ نہ تھا یاد رکھنے میں بھی کوئی نقصاں نہ تھا بھولنے میں بھی گرکچھ افادہ نہ تھا اب جوسوچاتوسوچاکہ اس کی طرح دل مرابھی کچھ ایسا کشادہ نہ تھا کل ملا تو بہت ساری باتیں...
  8. صبیح الدین شعیبی

    اس کو غزل میں‌لکھا چاند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔برائے اصلاح

    ایک اور غزل نما چیز لے کر حاضر ہوا ہوں،،،،،،،،،،،،،،،،احباب رہنمائی کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سے اتناپیارکیاکہ اس کوغزل میں لکھا چاند مجھ سے لوگو!روٹھ گیا ہے آج وہ میرا اپناچاند اپنے چاند کی سوچوں میں گم بیٹھا تھا تنہائی میں جانے میرے دل کے سونے آنگن میں کب نکلا چاند چھپ جائےکبھی...
  9. صبیح الدین شعیبی

    بحر خفیف میں ایک کوشش،،اصلاح فرمائیے

    ایک کوشش کی ہے،،،،،،،،سب دوستوں سے مددکی درخواست ہے راہ بہت مشکل دوربہت منزل چاند نہیں نکلا ڈوب چلا یہ دل جھیل سی گہری آنکھ آنکھ میں بھوراتل آنکھ کے تیروں سے چھلنی ہوگیادل دیکھ لے میراحال آکے مجھ سے مل مرنے کو ہے اب یہ تیرا بسمل تو ہی کرانصاف اے میرےقاتل کشتی جب ڈوبی سامنے تھاساحل
  10. صبیح الدین شعیبی

    پاکستانی حکومت کا صحافیوں کوپیغام

    چپ رہو چپ رہو چپ رہو چپ رہو فائدے میں رہوگے اگرمان لو ورنہ نقصان ہوگا یہ تم جان لو چپ رہو چپ رہو چپ رہو چپ رہو سانس لینے کاحق،یہ بھی احسان ہے تم ہمارایہ احسان اب مان لو چپ رہو چپ رہو چپ رہو چپ رہو دیکھنے کی اجازت بڑی بات ہے دیکھ لو تم مگر لب سے کچھ نہ...
  11. صبیح الدین شعیبی

    نوشتہِ دیوار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔برائے اصلاح

    گرنے والی ہے بہت جلد یہ سرکار صبیح ہاں! نظرآتے ہیں ایسے ہی کچھ آثارصبیح کارواں یونہی بھٹکتا رہے ہربار صبیح نیک نیت نہ ہوں‌گرقافلہ سالار صبیح وہ جو ازخودہی بنے بیٹھے ہیں سردارصبیح وقت اک دن انہیں لائے گا سرِ دار صبیح خودکودیتے ہیں وہ دھوکایونہی بیکارصبیح جوخطاؤں کا نہیں‌کرتے...
  12. صبیح الدین شعیبی

    برائے اصلاح،،،یہ زمین و آسماں کی بات ہے

    مصرع طرح : یہ زمین و آسماں کی بات ہے یاران محفل! آداب، ایک غزل ہے،،کچھ الجھ سا گیا ہوں،،کافی سارے اشعار یکے بعد دیگرے گویا برس پڑے ہیں کہیں سے،،اور کچھ سمجھ نہیں آرہا کسے غزل میں شامل رکھوں کسے نہ کروں،،،اسی بحر اور زمین میں کچھ نعتیہ اشعار بھی ہوئے ہیں،،وہ بعد میں پیش کروں...
  13. صبیح الدین شعیبی

    غزل عمربھرکی ردیف میں

    السلام علیکم،،،،،، ایک اور غزل لے کر حاضرہوں۔۔۔۔۔عمربھرکی ردیف میں،،امیدکرتاہوں جہاں ضرورت ہوئی احباب اصلاح کریں گے۔۔ رہ گیا دنیا میں وہ بن کر تماشا عمربھر جس نے اپنی زندگی کو کھیل سمجھا عمربھر تم امیرِ شہر کے گھرکوجلاکردیکھنا گھرمیں ہوجائے گا مفلس کے اجالا عمربھر ایسا لگتا ہے...
  14. صبیح الدین شعیبی

    پرانی غزل،،

    السلام علیکم،،ایک غزل لے کر حاضرہوا ہوں مکالماتی رنگ میں،،امید کرتا ہوں نوک پلک سنوارنے میں اپنا کرداراداکریں‌گے۔۔ ‌‌میں جو‌کہتا ہوں“ تُو کج روی چھوڑدے“ وہ یہ کہتی ہے “تُو دوستی چھوڑدے“ میں یہ کہتا ہوں “مجھ کو دوانہ بنا“ وہ یہ کہتی ہے “دیوانگی چھوڑدے“ جب میں تعریف کرتا ہوں اس کی کبھی...
  15. صبیح الدین شعیبی

    غزل برائے اصلاح

    ایک اور غزل اصلاح کےلیے لے کر حاضرہوا ہوں،،،، میں نے دیکھا ہے کیسا یہ سپنا نیا رات کے اس پہر مجھ سے بچھڑا ہوا کوئی اپنا ملا رات کے اس پہر نیند کیوں اڑگئی چین کیوں کھوگیا رات کے اس پہر یہ اچانک مرے ساتھ کیا ہوگیا رات کے اس پہر پھر اچانک یہ موسم سہانا ہوا رات کے اس پہر پھر تمہاری گلی سے...
  16. صبیح الدین شعیبی

    غزل برائے اصلاح

    سوچتا ہوں میں کہ کچھ اس طرح رونا چاہیے اپنے اشکوں سے ترادامن بھگونا چاہیے زندگانی کا سفر تنہا لگے مشکل بہت اس سفرمیں ہمسفرکوئی تو ہونا چاہیے دل بہت چھوٹا ہے میرا اور جہاں میں غم بہت میں پریشاں ہوں کسے کیسے سمونا چاہیے جب کبھی جیناپڑے اوروں کی مرضی پر ہمیں اپنے ہاتھوں اپنے بیڑےکو...
Top