پرانی غزل،،

السلام علیکم،،ایک غزل لے کر حاضرہوا ہوں مکالماتی رنگ میں،،امید کرتا ہوں نوک پلک سنوارنے میں اپنا کرداراداکریں‌گے۔۔

‌‌میں جو‌کہتا ہوں“ تُو کج روی چھوڑدے“
وہ یہ کہتی ہے “تُو دوستی چھوڑدے“

میں یہ کہتا ہوں “مجھ کو دوانہ بنا“
وہ یہ کہتی ہے “دیوانگی چھوڑدے“

جب میں تعریف کرتا ہوں اس کی کبھی
تو وہ کہتی ہے“بس شاعری چھوڑدے“

جب میں کہتا ہوں جینا ہے مشکل بہت
تووہ کہتی ہے“ جا زندگی چھوڑدے“

جب میں کہتا ہوں “ہے جان حاضر مری“
تو وہ کہتی ہے“اب جاں مری چھوڑدے“

جب کبھی دل کی باتیں بتاتاہوں میں
تو وہ کہتی ہے “اب دل لگی چھوڑدے

آپ کا،
صبیح الدین شعیبی
 

الف عین

لائبریرین
دل چسپ غزل ہے۔ عروض کے لحاظ سے ہی میں کچھ مشورے دیتا ہوں۔ یہ غزل تو مکمل درست بحر میں ہے، بس ’تو وہ کہتی ہے‘ میں ’تو‘ کی طوالت کھٹکتی ہے۔ فصیح یہ ہے کہ تو کی واؤ گرائی جائے۔ آخر کے چاروں شعروں میں کچھ میں ’تب وہ‘ کر دیں۔ ایک آدھ بار ’وہ یہ‘ بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ ایک اور امکان ’یوں وہ کہتی ہے‘ بھی ہو سکتا ہے۔
 
Top