غزل برائے اصلاح

سوچتا ہوں میں کہ کچھ اس طرح رونا چاہیے
اپنے اشکوں سے ترادامن بھگونا چاہیے

زندگانی کا سفر تنہا لگے مشکل بہت
اس سفرمیں ہمسفرکوئی تو ہونا چاہیے

دل بہت چھوٹا ہے میرا اور جہاں میں غم بہت
میں پریشاں ہوں کسے کیسے سمونا چاہیے

جب کبھی جیناپڑے اوروں کی مرضی پر ہمیں
اپنے ہاتھوں اپنے بیڑےکو ڈبونا چاہیے

طفل روتا ہے مگرروتا ہے وہ تقدیرپر
ماں سمجھتی ہے کہ منے کو کھلونا چاہیے

آئے ہیں لینے جو خوشیاں اپنے پیاروں کی انہیں
اپنی خاطر روٹی کپڑااور بچھونا چاہیے

اجنبی بستریہ بولا رات کے پچھلے پہر
اے صبیحِ بے وطن اب تجھ کو سونا چاہیے
 

الف عین

لائبریرین
غزل اچھی ہی ہے صبیح اور خوشی ہے کہ عروض کی پابند ہے۔ اس کیے اس سلسلے میں کچھ مدد کی ضرورت نہیں۔ عام طور پر میں اصلاح کرنے میں عروض کا خیال ہی زیادہ رکھتا ہوں۔ خواہ مخواہ مضمون یا فکر میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ فلاں شعر کمزور ہے یا اس میں مطلب واضح نہیں ہو رہا۔
زندگانی کا سفر تنہا لگے مشکل بہت
اس سفرمیں ہمسفرکوئی تو ہونا چاہیے
شعر میں غلطی کوئی نہیں مگر دو باتیں کچھ کھٹکتی ہیں۔ ’سفر‘ کا تین بار استعمال، اور لگے مشکل بہت کا نامانوس لہجہ۔۔ پہلے مصرعے کی کچھ بہتر شکلیں:
سخت مشکل زندگی کی راہ پہ تنہا روی
کیا کٹھن ہے زندگی کی راہ پر تنہا روی
زندگی کی راہ پرکیسے اکیلے ہم چلیں
زندگی کی راہ پر ممکن نہیں تنہا چلیں
دوسرا مصرعہ وہی۔۔۔
دل بہت چھوٹا ہے میرا اور جہاں میں غم بہت
میں پریشاں ہوں کسے کیسے سمونا چاہیے
ٹھیک ہے۔
جب کبھی جیناپڑے اوروں کی مرضی پر ہمیں
اپنے ہاتھوں اپنے بیڑےکو ڈبونا چاہیے
اس شعر کا مطلب واضح نہیں ہوا۔ وروں کی مرضی پر ہی ہرکام ہو تو اپنا بیڑا خود ڈبونے کی اجازت کون دے گا؟
طفل روتا ہے مگرروتا ہے وہ تقدیرپر
ماں سمجھتی ہے کہ منے کو کھلونا چاہیے
دوسرا مصرعہ بہت اچھا ہے۔ شعر درست ہے صرف دوسرے مصرعے کی سادہ زبان کے مقابلے میں طفل کا استعمال کچھ کھٹکتا ہے۔ کیا یہاں بچّہ ہی کر دی جائے؟
آئے ہیں لینے جو خوشیاں اپنے پیاروں کی انہیں
اپنی خاطر روٹی کپڑااور بچھونا چاہیے
اس شعر کا بھی مطلب واضح نہیں ہو کم از کم مجھ کم عقل پر۔ اس لیے معذور ہوں اصلاح سے۔
اجنبی بستریہ بولا رات کے پچھلے پہر
اے صبیحِ بے وطن اب تجھ کو سونا چاہیے
اچھا شعر ہے، اصلاح کی ضرورت نہیں۔
نیک مشورہ یہ ہے کہ ان دو اشعار کو حذف کر دیں جن کی نشان دہی اوپر کی ہے۔
 
قیصرانی صاحب،،،بہت شکریہ کہ آپ نے غزل کو دیکھا،،جیسی بھی تھی پسندیدگی کا اظہارکیا اور میرا حوصلہ بڑھایا
اعجاز صاحب!
اصلاح سے نوازنے کے لیے بہت شکرگذارہوں،غزل کواسی صورت میں کردیا جو آپ نے تجویز کی تھی،،

سوچتا ہوں میں کہ کچھ اس طرح رونا چاہیے
اپنے اشکوں سے ترادامن بھگونا چاہیے

زندگی کی راہ پرکیسے اکیلے ہم چلیں
اس سفرمیں ہمسفرکوئی تو ہونا چاہیے

دل بہت چھوٹا ہے میرا اور جہاں میں غم بہت
میں پریشاں ہوں کسے کیسے سمونا چاہیے

بچہ روتا ہے مگرروتا ہے وہ تقدیرپر
ماں سمجھتی ہے کہ منے کو کھلونا چاہیے


اجنبی بستریہ بولا رات کے پچھلے پہر
اے صبیحِ بے وطن اب تجھ کو سونا چاہیے
اب ٹھیک ہے؟
 
Top