اُس ایک شکل میں، کیا کیا نہ صُورتیں دیکِھیں
نِگار تھا، نظر آیا نِگارخانہ وہ
۔۔۔۔
فراز، خواب سی غفلت دِکھائی دیتی ہے
جو لوگ جانِ جہاں تھے ہوئے فسانہ وہ
احمد فراز
جو ہو سکے تو اِس ایثار پر نگاہ کرو
ہماری آس جہاں کو، تمھاری آس ہمیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈبو چکا ہے اُمنگوں کو جس کا سنّاٹا
بلا رہا ہے اُسی بزم سے قیاس ہمیں
احمد ندیم قاسمی
اپنی رُسوائی، تِرے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذراشعرکہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آجائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھُل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
پروین شاکر
اور کوئی دَم کی ہے مہماں گزر جائے گی رات
ڈھلتے ڈھلتے آپ اپنی موت مرجائے گی رات
زندگی میں اور بھی کچھ زہر بھرجائے گی رات
اب اگر ٹھہری، رگ و پے میں اُترجائے گی رات
سُرُور بارہ بنکوی
یہ عشق نہیں آساں، اِتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
یہ حُسن وجمال اُن کا، یہ عشق وشباب اپنا
جینے کی تمنّا ہے، مرنے کا زمانہ ہے
جگرمُرادآبادی
عجب نہیں جو محبت مری سرشت میں ہے
یہی شرار نہاں روحِ سنگ وخشت میں ہے
نہ بجلیوں کوخبر ہے نہ خوشہ چیں کو پتہ
کہ اِک نہال تمنّا ہماری کشت میں ہے
سیّدعابدعلی عابد
وہ قریب آنا بھی چاہے اور گُریزاں بھی رہے
اُسکا یہ پِندارِ محبُوبی مُجھے بھایا بہت
کِتنی یادیں، کِتنے منظر آبدِیدہ ہوگئے
جب بھی تنہا آئینہ دیکھا، وہ یاد آیا بہت
سُرُور بارہ بنکوی
وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا
اِک جاگنے والا مِری تقدیر میں ہوتا
اِک عالمِ خُوبی ہے میّسر، مگر اے کاش
اُس گُل کا علاقہ، مِری جاگیر میں ہوتا
افتخارعارف
کسی کی یاد میں اِتنا نہ رو، ہُوا سو ہُوا
کہ دل گنْوا کے اب آنکھیں نہ کھو، ہُوا سو ہُوا
کوئی اُسے نہ سُنائے ہمارا حالِ خراب
مبادہ اُس کو بھی افسوس ہو، ہُوا سو ہُوا
احمد فراز