حالِ دل کہہ دیں کسی سے، بارہا سوچا مگر
اِس اِرادے کو ہمیشہ مُلتوی کرتے رہے
خود کو دیتے بھی رہے ترکِ تعلّق کا فریب
اور درپردہ ، کسی کو یاد بھی کرتے رہے
اقبال عظیم
ماضی شریکِ حال ہے، کوشِش کے باوجود
دُھندلے سے کچھ نقُوش ابھی تک نظر میں ہیں
لِلہ اِس خلُوص سے پُرسِش نہ کیجئے
طُوفان کب سے بند مِری چشمِ ترمیں ہیں
اقبال عظیم
روئیں نہ ابھی اہلِ نظر حال پہ میرے
ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ
آوارہ ومجنُوں ہی پہ موقوف نہیں کچھ
مِلنے ہیں ابھی مجھ کو خطاب اور زیادہ
اسرارالحق مجاز
اب کے تو شام غم کی سیاہی کچھ اور ہے
منظور ہے تجھے مرے پروردگار کیا
دُنیا سے لے چلا ہے جو تُو حسرَتوں کا بوجھ
کافی نہیں ہے سر پہ گُناہوں کا بار کیا
چکبست
کیسا ہَوائے حِرص میں برباد ہے بشر
سمجھا ہے زندگی کو یہ مُشتِ غُبار کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔
انساں کے بُغض وجہل سے دُنیا تباہ ہے
طُوفاں اُٹھا رہا ہے یہ مُشت غُبار کیا
چکبست
اب ہوچکی ہے جرم سے زائد سزائے دل
جانے دو، بس معاف بھی کردو خطائے دل
ہر ہر ادا بُتوں کی ہے قاتل برائے دل
آخر کوئی، بچائے تو کیونکر بچائے دل
خواجہ عزیزالحسن مجذوب