غزل
سچ تو یہ ہے کہ جُھوٹ کہتا تھا
مَیں کِسی اور دُھن میں رہتا تھا
تُو نے دیکھا کب اُس لہو کا رنگ
جو مِری چشمِ تر سے بہتا تھا
مُسکراتا ہُوں اب ، کہ ہنس ہنس کے
اُن کے ظلم و سِتم کو سہتا تھا
کِس طرف جائیں گے قدم میرے
کون اُس پار ہے یا رہتا تھا
کہنے والوں نے کب کہیں ہوں گی
ایسی غزلیں عظیم کہتا...