درد حد سے گُزر گیا صاحب
پُوچھتے کیا ہو، مر گیا صاحب
کیا ہُوا خاک ہو چُکا گرچہ
عشق میں نام کر گیا صاحب
لا تعلق رہا زمانے سے
اور خُود میں بکھر گیا صاحب
جانے کس کی نظر لگی اِس کو
یہ جو اتنا سنور گیا صاحب
ایک مجنوں تھا اک جنونی تھا
کیا بتائیں کدھر گیا صاحب
دیکھ لے اے نگاہِ فتنہ ساز
آج کتنا سنور...