گُل چہ می دانَد کہ سیرِ نکہتِ اُو تا کجاست
عاشقاں را از سرانجامِ دلِ شیدا مپرس
صائب تبریزی
پُھول کیا جانے کہ اُس کی خوشبو کہاں کہاں تک پہنچتی ہے، لہذا عاشقوں سے اُن کے دلِ شیدا کے سرانجام کے بارے میں کچھ مت پوچھ۔
درست ہے خان صاحب۔
لیکن، یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ ہمارے مشاہیر کی پذیرائی کم تو ہو سکتی ہے لیکن اُن کا نام بالکل ہی فراموش نہیں ہو سکتا نہ ہی اُن کا کام اور نام مٹ سکتا ہے :)
رُسوا منم وگرنہ تو صد بار در دلم
رفتی و آمدی و کسے را خبر نشد
نظیری نیشاپوری
میں ہی رسوا ہوں وگرنہ تُو تو سو بار میرے دل میں آیا اور گیا اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔
ہر دلِ بے عشق اگر پادشاست
جز کفنِ اطلس و جز گور نیست
مولانا رُومی
ہر وہ دل کہ جو عشق کے بغیر ہے اگر بادشاہ بھی ہے تو ریشمی کفن کے سوا کچھ نہیں ہے اور قبر کے سوا کچھ نہیں ہے۔
از عالمِ پُرشور مجو گوہرِ راحت
کایں بحر بجز موجِ خطر ہیچ ندارد
صائب تبریزی
فتنہ و فساد و شورش و آشوب سے بھرے عالم میں راحت کے موتی مت تلاش کر کہ اِس دریا میں موجِ خطر کے سوا کچھ بھی نہیں۔
بر فلک ہر شب رسانَم برقِ آہِ خویش را
تا بسوزم کوکبِ بختِ سیاہِ خویش را
اہلی شیرازی
ہر رات میں اپنی آہوں کی بجلی آسمان پر پہنچاتا ہوں تا کہ اپنے سیاہ نصیبوں کے ستارے کو اِس سے جلا ڈالوں۔
می دہد خاکِ رہَش خاصیّتِ آبِ حیات
ورنہ زیں گردِ مذلّت خاکساراں را چہ حظ
بابا فغانی شیرازی
وہ اُس کی راہ کی خاک کو آبِ حیات کی خاصیت دے دیتا ہے، ورنہ اِس گردِ مذلت میں خاکساروں کے لیے کیا بھی حظ ہو سکتا ہے؟