ڈانواں ڈول ہو جائیں اگر آپ کے الفاظ تو نظیر اکبر آبادی کی نظم ٰپری کا سراپا ٰ ایک بار پڑھ لیں ۔ ضرور کسی پری خانے کی دہلیز پر آویزاں ہو گی۔ ہوش نہ اڑ جائیں تو کہیے گا۔
آه که تار و پود آن ، رفت به باد عاشقی
جامهءتقوہ ای که من در ہمه عمر بافتم
ہاتف اصفہانی
جس تقوے کی خلعت کو میں عمر بھر بنتا رہا
عشق کی آندھی نے اسے (لمحہ بھر میں ) تار تار کر دیا