You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
حضرتِ ڈارون حقیقت سے نہایت دور تھے
ہم نہ مانیں گے کہ آباء آپ کے لنگور تھے
-
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا مُنہ
اے شبِ ہجر تیرا کالا مُنہ
-
جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے
-
ثباتِ زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں
کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تُورانی
(اقبال)
-
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
(اقبال)
-
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
-
پھول کی پتیّ سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
-
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
-
ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں
-
یارانِ جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نا ملے گی
-
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سے ظعیفوں سے محبت کرنا
-
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
-
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یسیں، وہی طہ
-
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
-
لکھنا مرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا
-
گہرے سُروں میں عرضِ نوائے حیات کر
سینے پہ ایک درد کی سِل رکھ کے بات کر
-
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
-
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
-
فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئ کیا کیا کیا کرے
-
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے