You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
میں تیری زندگی میں اخبار گزرے دن کا
یونہی پڑا یہاں تھا، یونہی پڑا وہاں تھا
-
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
-
گر لاکھ بار آئے زمانہ بہار پر
ہر بار صدقے کیجیے رُخسارِ یار پر
-
کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
-
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
-
فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے
-
غمِ عاشقی سے کہہ دو رہِ عام تک نہ پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت مرے نام تک نہ پہنچے
-
عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
-
ظلمت غم میں امیدوں کا اُجالا نہ ہوا
کتنی برگشتہ رہی صبح میری شام کے ساتھ
-
طعنہ دیتے ہیں مجھ کو جینے کا
زندگی میری خطا ہو جیسے
-
ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
-
صندل ملا کے لائیو ، یا بوئے زلف یار
پیدا خمار میں نہ کرے ، درد سر شراب
-
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
-
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِ عشق احتیار کیا
-
زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
-
روندے ہے نقشِ پا کی طرح خلق ياں مجھے
اے عمررفتہ چھوڑ گئی تو کہاں مجھے
-
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غم دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے
-
ڈرتا ہوں دیکھ کر دلِ بے آرزو کو میں
سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو، مہمان تو گیا
-
دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئی کئی دور ہو گئے
-
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر