کسی نقاد کا مقولہ ہے کہ میر تقی میر کے زمانے میں اتنے شاعر پوری دلی میں نہیں تھے جتنے اب تھانہ انار کلی کی حدود میں ہیں۔اور یہ بات فیس بُک پر بھی صادق آتی ہے۔ بلا مبالغہ ہزاروں یا شاید لاکھوں شاعر ہونگے فیس بُک پر، ایسی صورت میں ظاہر ہے معیار کی پروا کون کرتا ہے۔اور ایسے ایسے "اُستاد" شاعر بھی...
غالبا نہیں یقینا استفہام ہے۔ لیکن کیسا؟ مثال کے طور پر آپ کہیں آپ کو شاعری پسند ہے تو میں کہوں کہ ٹھیک ہے میں آپ کو ایک غزل سناتا ہوں لیکن میاں کیا مکفوف محذوف سمجھتے ہو؟ جو نہیں سمجھتے وہ تو رعب میں آ جائیں گے کہ واہ کیسا اُستاد ہے اور کیا کیا جانتا ہے لیکن جو جانتے ہیں وہ سمجھ جائیں گے کہ...
وہ تو ٹھیک ہے لیکن یاد رہے کہ "فرض کرنے" اور "فرض ہونے" میں فرق ملحوظ رہے۔ دیکھ لیں ابھی ایک صاحب نے اوپر "فرض کر لیا" کہ یہاں غیر اسلامی باتیں ہو رہی ہیں سو ناپسندیدہ کا بٹن دبانا "فرض ہو گیا" اُن پر۔:)
اس میں اصل کوکا کولا اور پیپسی کی بجائے لوکل مالکان کی"دل لگی" زیادہ ہے۔ :) لیکن کھلے مقابلوں میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ پراڈکٹ میں خرابی ہو جانا تشویشناک ہے، لیکن اگر یہ خرابی کسی سازش کی بنا پر ہوئی ہے تو سام سنگ کے لیے زیادہ تشویش کی بات ہے کہ دشمن اس حد تک ان کے اندر گھس چکے ہیں۔
نقصان ان کی وجہ سے ضرور ہوا ہے لیکن خالی بیٹری والے ہی ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ سلسلہ اتنا سیدھا نہیں ہوتا، بیٹری وصول ہونے کے بعد اسے دس بار چیک کیا جاتا ہوگا وغیرہ وغیرہ،پراجیکٹ مینیجر، پراڈکٹ مینیجر ، کوالٹی والے، کون کون نہیں شامل ہوگا اس ذمہ داری میں۔
ایسے ہی ایک اور معروف شاعر ہیں، انہوں نے ایک بار ایک شعر میں یہ خیال باندھا کہ اُن کے محبوب کے خراٹے "کومل سا" سُر میں ہوتے ہیں، خاکسار نے جب عرض کیا کہ "سا" سُر کومل یا تیور نہیں ہوتا اس لیے کومل سا کہنا ٹھیک نہیں تو اُس کے بعد انہوں نے وہ تیور سُر لگائے کہ رہے نام اللہ کا :)
آپ کی باتیں بجا ہیں، ایک بات دوسرے شعر کے متعلق
تمہیں ہم عشق کی سرگم سناتے ہیں، یہ بتلاؤ
فنا کے راگ سے واقف ہو، سم وادی سمجھتے ہو
اس شعر میں سم وادی الفاظ کے استعمال کا محل نہیں ہے۔ کسی بھی راگ کا ایک بنیادی سُر ہوتا ہے جسے اس راگ میں بار بار لگاتے ہیں، اُس سُر کو "وادی" سُر کہتے ہیں۔ "سم...
مزاح اپنی جگہ، لیکن کسے علم کہ کمپنی کے اندر اس وقت کیا زلزلے آئے ہوئے ہیں، اوپر سے لے کر نیچے تک کون کون ذمہ دار ہے اس خرابی کے لیے اور اس نقصان کے لیے، کون کون بھگتے گا اور کیسے کیسے؟
اس پر خود لکھنے کا تو شاید میں وقت نہ نکال پاؤں، افسوس کہ اردو میں زیادہ مواد نہیں ہے۔ ویسے گوگل کرنے سے کافی مواد مل جاتا ہے۔ کچھ سال قبل ایک انڈین مصنف کی ایسٹ انڈیا کمپنی پر ایک کتاب میرے زیر مطالعہ تھی، اس میں اس کے مالی معاملات بھی زیر بحث تھے۔
آپ شاید سوشل میڈیا پر فعال نہیں ہیں ورنہ وہاں تو لوگ خیالی دعوتیں بھی کرتے ہیں اور ایسی ایسی اور اتنی اتنی لمبی چوڑی کہ بس رہے نام اللہ کا۔ خیالی دعوت کے مہمان اصلی شکریہ ادا کر کر کے دہرے ہوئے چلے جاتے ہیں، اللہ اکبر :)
یہ وظیفہ ہمارے چچا میرا مطلب چچا غالب کو بھی ملتا تھا۔ پھر بند ہو گیا تو اس کو چالو کروانے کے لیے کلکتہ کا سفر کیا تھا 1828 میں، اس سفر کی کافی ادبی حیثیت ہے، غالب کے کلکتے میں ادبی معرکے ہوئے تھے جن کا ذکر غالب نے اپنے کلام میں اور خطوط میں کیا ہے۔