بہت شکریہ فاروق صاحب اور بہت شکریہ وارث صاحب شاعر کا نام بتانے کے لیے اگر نظیر باقری کا کچھ تعارف و مزید کلام بھی بہم پہنچا سکیں تو مزید نوازش ہوگی -
یہ غزل جگجیت سنگھ کی کمپوزیشن میں لتا منگیشکر نے بہت عمدہ گائی ہے -
ہے کیا جو کس کے باندھیے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں
(غالب) اس شعر میں وہ صنعت تو نہیں لیکن مندرجہ بالا شعر سے مطابقت رکھتا ہے لہذا محسن اسے بھی دیکھ لیں -
مثنوی
ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی
لے کے دل سر رشتۂ آزادگی
خود بخود کچھ ہم سے کَنیانے لگا
اس قدر بگڑا کہ سر کھانے لگا
میں کہا، اے دل، ہوائے دلبراں!
بس کہ تیرے حق میں رکھتی ہے زیاں
بیچ میں ان کے نہ آنا زینہار
یہ نہیں ہیں گے کسی کے یارِ غار
گورے پنڈے پر نہ کر ان کے نظر
کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے...
طائرِ دل
اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوشِ وحشت میں
پھرا آسیمہ سر، گھبراگیا تھا جی بیاباں سے
نظر آیا مجھے اک طائرِ مجروح پَر بستہ
ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے
کہا میں نے کہ "او گمنام! آخر ماجرا کیا ہےَ
پڑا ہے کام تجھ کو کس ستم گر آفتِ جاں سے"
ہنسا کچھ کھلکھلا کر پہلے، پھر...
واہ محسن صاحب - بہت خوشی ہوئی کہ اذنِ سخن تو ملا لیکن ابھی تک سخن غائب ہے- قبلہ جلدی سے شروع کریں قبل اس سے کہ امی جان کا ارادہ پھر بدل جائے :) اور آپ کو ایک غزل سنانے کی بھی مہلت نہ ملے -
ابھی شہرِ سخن میں ہم نے سنا
سخن حجازی کو اذنِ سفر ہے ملا
لگیں کہنے ان کی والدہ ماجدہ
کہ فراز کی مانند...
فراز اب کوئی سودا نہیں جنوں بھی نہیں
مگر قرار سے دن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں
لب و دہن بھی ملا گفتگو کا فن بھی ملا
مگر جو دل پہ گزرتی ہے کہہ سکوں بھی نہیں
نہ جانے کیوں میری آنکھیں برسنے لگتی ہیں
جو سچ کہوں تو کچھ ایسا اداس ہوں بھی نہیں